شام نے اپنے چہرے پر کالک مل کراپنی سیاہی کو اور زیادہ سیاہ کر لیا، رات دھیرے دھیرے اپنا پاؤں پھیلانے لگی۔ رات جب آتی ہے تو دن بھر کا تھکا ماندا انسان اپنی تکان مٹانے کے لئے اپنے تھکے بدن کو بستر پر پھیلا کر آرام کی نیند سو جاتا ہے مگر شہر کے کچھ علاقے ایسے ہوتے ہیں جو بارہ بجے کے بعد جاگتے ہیں۔ شیواجی اسٹیڈیم سے لے کر گول مارکیٹ کی سڑک بارہ بجے کے بعد جاگ جاتی ہے۔ جسم بیچنے والی عورتیں زرق برق لباس میں گہرا میک اپ کئے رکشے پر سوار شیواجی اسٹیڈیم سے لے گول مارکیٹ کی سڑک پر گھومتی رہتی ہیں۔ خواہش مند حضرات رکشہ روک کر اس عورت سے بات کرتے ہیں۔ سودا طے ہو جانے پر وہ عورت یا تو موٹر سائیکل پر بیٹھ کر یا کار میں بیٹھ کر اس کے ساتھ روانہ ہو جاتی ہے رات بھر جاگنے کے لئے، ایسی عورتوں کے لئے رات سونے کے لئے نہیں جاگنے کے لئے ہوتی ہے۔ جاگنا اس کا مقدر ہوتا ہے۔ کاتب وقت نے دی ہے اسے جاگنے کی سزا۔ دوہ جاگ رہی ہے اور رات آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں موند رہی ہے۔
آج کی رات بھی سو رہی ہے اور ساتھ ہی شیوا جی اسٹیڈیم کا علاقہ بھی سو رہا ہے۔ اس علاقے میں پولس کی گشت بڑھا دی گئی ہے۔ مارے خوف کے وہ عورتیں آج گھر سے باہر نہیں نکلی ہیں۔ ضرورت مند حضرات آدھی رات کے بعد ایسی عورتوں کی تلاش میں نکلے مگر ناکامی ہاتھ لگی۔
ایک کار میں چار نوجوان ایسی عورتوں کی تلاش میں دلی کی سڑکوں پر کار دوڑاتے پھر رہے ہیں لیکن ہر جگہ ناکامی کا چراغ بجھتا نظر آ رہا ہے۔ رات آہستہ آہستہ اپنے پیر پھیلا رہی ہے۔ ان نوجوانوں کی شدّت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شراب کی کئی بوتلیں خالی کر چکے ہیں لیکن جسم کو حاصل کرنے کا نشہ دماغ میں کیڑے کی طرح کلبلا رہا ہے۔ اچانک ان کی نظر سڑک کے کنارے کپڑے کو ڈال کر جو آشیانہ بنایا گیا تھا اس پر پڑتی ہے۔ ان میں سے ایک نوجوان نے کہا——
’’راہل گاڑی روکو!‘‘—— راہل نے گاڑی روک دی۔
’’اترو!‘‘—— سنجے نے کپل اور مونٹی سے کہا۔
تینوں کار سے اتر گئے۔
’’دیکھو سامنے والی جھونپڑی میں ضرور کوئی لڑکی مل جائےگی‘‘—— سنجے نے جھونپڑی کی طرف اشارہ کیا۔
’’لیکن اس میں توریڈ لائٹ پربھیک مانگنے والی بھکارن رہتی ہے‘‘—— کپل نے حقارت سے کہا۔
’’ذات بھکاری کی ہو لیکن جسم تو سبھی عورتوں کا ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ رات گزارنے سے مطلب۔ جسم چاہے بھکارن کا ہو یا شریف زادی کا سب ایک ہی مزہ دیتا ہے‘‘—— سنجے آگے بڑھا اور کپڑے کا پردہ اُوپر کی طرف الٹ دیا۔ اندر جھونپڑی میں ایک ادھیڑ عمر عورت اور اس کی جواں سال بیٹی سو رہی تھی۔ دونوں جاگ گئیں۔
’’کون ہے؟‘‘——ادھیڑ عمر عورت سکھیا نے چونک کر کہا۔ اس کی آواز سن کر اس کی بیٹی سگنی بھی جاگ گئی۔
’’کون ہے ماں؟‘‘
سنجے نے ٹارچ جلا کر دونوں ماں بیٹی کو دیکھا اور کہا——
’’کپل لڑکی کو اٹھاؤ اور کار میں ڈالو‘‘——
یہ جملہ سن کر دونوں ماں بیٹی سہم گئیں دوسری طرف کا پردہ ہٹا کر سگنی جھونپڑی سے باہر آ گئی اور سنسان سڑک پر بے تحاشہ بھاگنے لگی۔ سنجے ‘کپل اور مونٹی اس کے پیچھے بھاگے۔ کچھ ہی دور جا کر تینوں نے سگنی کو دبوچ لیا۔ راہل نے کار اس کے پاس ہی روکا‘ تینوں نے زبردستی اسے کار میں ڈالا۔ وہ چیخ رہی تھی مگر ان لوگوں نے اس کا منھ بند کر رکھا تھا۔ بعد میں منھ پر کپڑا باندھ دیا لیکن اس کے جسم کو کپڑے سے آزاد کر دیا اور چاروں مل کر اس کے جسم کو چیل کوے کی طرح نوچتے رہے اور جب نوچ نوچ کر سیر ہو گئے تو کار سے نیچے سڑک پر پھینک دیا۔ سگنی کا پورا جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔ جگہ جگہ سے خون رس رہے تھے۔ وہ برہنہ پڑی تھی۔ رات بھر اسی طرح برہنہ پڑی رہی اگر کبھی کبھی کوئی کار یا بائیک والا اس سڑک سے گزرتا تو وہ بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ اس کی ماں سکھیا رات بھر سڑکوں پر اپنی بیٹی کو تلاش کرتی رہی اور جب وہ صبح میں ملی تو رات اپنی سیاہی چھپا کر روپوش ہو گئی تھی لیکن سگنی دنیا سے روپوش ہو گئی تھی۔ سکھیا نے اپنی ساڑی اتار کر اس کے ننگے جسم پر ڈال دیا اور چلانے لگی۔
’’ظالموں نے میری بیٹی کی عزت لوٹ کر مار ڈالا۔۔۔ مارڈالا حرامزادوں نے۔۔۔ عزت کے ساتھ جان بھی لے لی میری بیٹی کی‘‘——
سڑکوں پر آمدورفت شروع ہو گئی تھی لیکن کوئی بھی اس کی آواز سننے کو تیار نہیں تھا۔ کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کی لاش اٹھائے پولس اسٹیشن پہنچ گئی۔
’’حضور، چار رئیس زادوں نے میری بیٹی کو میری جھونپڑی سے اٹھا کر لے گئے۔ اس کی عزت بھی لوٹی اور جان سے مار بھی ڈالا۔‘‘
انسپکٹر ہنسا—— ’’اب تم لوگوں کی بھی عزت رئیس زادے لوٹنے لگے۔ بس میں کوئی اکیلی لڑکی نہیں ملی جو تمہاری بیٹی کو اٹھا لیا۔ دلی میں نہ جانے کتنی لڑکیا بس میں اکیلی سفر کرتی مل جائیں گی۔ اب تم لوگوں کے لئے بھی پولس حرکت میں آ گئی تو ان شریف لڑکیوں کی رپورٹ کون لکھےگا جو ہر روز لٹ رہی ہیں۔ ان کی تفتیش کون کرےگا؟۔۔۔ چل بھاگ یہاں سے۔۔۔ سڑک کے کنارے لاش کو رکھ دینا۔۔۔ لوگ ترس کھا کر ہزار پانچ سو روپیہ دے ہی دیں گے۔ اسی سے جلا دینا۔‘‘
سکھیا اپنی بیٹی کی لاش لے کر ایک میڈیا والے کے پاس گئی۔
’’آپ تو میڈیا والے ہیں۔۔۔ میری بیٹی کی عزت لوٹی گئی اور اسے جان سے بھی مار ڈالا ظالموں نے۔۔۔ آپ اپنے چینل پر اس رپورٹ کو دکھائیے تاکہ میرے ساتھ انصاف ہو سکے۔۔۔ ظالموں کو سزا مل سکے‘‘
میڈیا والا زیر لب مسکرایا——’’ تیری بیٹی کوئی دامنی تھوڑی ہی تھی یا اسکول میں پڑھنے والی وہ کم سن لڑی بھی نہیں تھی جس کی عزت لوٹی گئی ہے۔ تیری عزت کی قیمت ہی کیا ہے جو خبر بناؤں۔۔۔ تمہاری رپورٹ سے میرے چینل کا ٹی۔ آر۔ پی۔ بھی نہیں بڑھےگا۔۔۔ جاؤ، اس لاش کو جلانے کا انتظام کرو۔ میری طرف سے یہ سو روپیہ رکھ لو، لاش کو جلانے میں کام آئےگا۔‘‘
سکھیا نے وہ روپیہ تو نہیں لیا البتہ اپنی بیٹی کی لاش لئے ایک لیڈر کے پاس پہنچ گئی۔
’’حضور میری بیٹی کی عزت۔۔۔ اور جان۔۔۔‘‘
لیڈر کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے سکھیا کی طرف دیکھا——
’’اگر تمہاری جیسی عورتوں کو پولٹیکل اِشو بنایا گیا تو کتنی جنتا میرے ساتھ اترےگی۔ دامنی میڈیکل کی چھاترا تھی اس لئے لوگوں کی ہمدردی اس کے ساتھ تھی۔ پورے ہندوستان میں تحریک نے زور پکڑا اور سرکار کو قانون تک بنانا پڑ گیا۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ تمہارے اِشو پر ہم کوئی تحریک نہیں چلا سکتے۔۔۔ جاؤ اور اس کا انتم سنسکار کرو۔۔۔ لومیری طرف سے یہ پانچ سو روپیہ رکھ لو۔۔۔ بھگوان تمہاری بیٹی کی آتما کو شانتی دے۔۔۔‘‘
لیڈر اندر کمرے میں چلا گیا اور آپ ہی آپ بدبدایا ——’’یہ شریف زادے بھکارن کو بھی نہیں بخشتے۔۔۔ اگر اتنا ہی جوش چڑھا تھا تو کسی ہوٹل میں چلے جاتے۔۔۔ رام رام کیسا جگ آ گیا ہے۔۔۔‘‘
مجبوراً سکھیا روہانسی ہو کر لاش کو اپنی جھونپڑی کے قریب سڑک پر رکھ کر ایک چادر سے ڈھک دیا اور پاس ہی بیٹھ کر رونے لگی۔ اس کی برادری کے چند لوگ بھی اب اس کے پاس آ گئے تھے اور لاش کو جلانے کے بارے میں آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
پیدل چلنے والے مسافر اس لاش کو دیکھتے۔ روتی بلکتی ماں کو دیکھتے اور اپنی جیب سے کچھ سکے اس لاش پر اچھال کر آگے بڑھ جاتے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.