Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں ہوں فرزانہ

تسنیم منٹو

میں ہوں فرزانہ

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    ابتدائی سیشن کے بعد گروپس میں بھی ڈسکشن اختتام پذیر ہو چکی تھی، اور اب چاے کا وقفہ تھا۔ ڈیلی گیٹس دو دو، چار چار کی ٹولیوں میں بیٹھے کسی نہ کسی موضوع پر اظہارِ خیال کر رہے تھے۔ نعیمہ ہیومن رائٹس والوں کی طرف سے کراچی سے پہنچی تھیں، ڈاکٹر راشدہ کانفرنس کی روحِ رواں تھیں، ڈاکٹر اسد، امریکا سے آئے تھے۔

    2001ء کی یہ Psychiatric کانفرس اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہPeace House کے بانی ڈاکٹر حمید اعوان کی برسی کا دن بھی انھی دو دنوں میں آتا ہے۔ لہٰذا اُن کی اس ادارے سے زندگی بھر جو وابستگی رہی، اس کو بھی خراجِ تحسین پیش کرناتھا۔ ڈاکٹر اسد نے، جنھیں بوسنیا کے دورے کا نجی تجربہ تھا، اپنے تاثرات کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ وہاں کے مردوں، عورتوں، کم عمر لڑکیوں اور بچوں کے ساتھ جو جو کچھ ہوا اُس کی تفصیل نے سب کو بے حد اداس کر دیا۔

    ’’پیس ہاؤس‘‘ ڈاکٹر حمید اعوان اور ان کے مدد گار ڈاکٹروں کی وجہ سے ملک بھر میں معتبر تھا، اور لوگ اپنے ذہنی مریض اس اعتماد سے یہاں داخل کرواتے تھے کہ یہاں پاگل خانوں والا روایتی تشدد، بلکہ کسی بھی قسم کا تشدد نہیں کیا جاتا تھا۔ یہاں مریض کو مریض یا پاگل نہیں بلکہ ممبر کہا جاتا تھا۔

    چاے کا وقفہ تھا۔ ڈاکٹر راشدہ، ڈاکٹر اسد اور نعیمہ میز پر چاے کی پیالیاں سامنے رکھے بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر راشدہ کچھ اداس تھیں ، پھر بھی جذبے سے بات کر رہی تھیں۔ وہ نعیمہ سے مخاطب تھیں، اور نعیمہ ان کی گفتگو کے دوران نوٹس لیتی جا رہی تھی۔

    ڈاکٹر راشدہ کا عام سماجی زندگی سے بھی گہرا تعلق تھا۔ فلم اور ڈراما دیکھنے اور کتاب پڑھنے کا اچھا ذوق رکھتی تھیں۔ گفتگو کرتے ہوئے ان کا انداز مکینیکل اور ٹیکنیکل نہیں ہوتا تھا، بلکہ اپنے معاشرے کی مختلف قباحتوں کے حوالے سے وہ اپنے مریض کی حرکات و سکنات اور اس کی ذہنی کیفیتوں کا مشاہدہ کر کے علاج کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتی تھیں۔ مریض کے ساتھ آپ ہی آپ وہ ذاتی وابستگی بھی پیدا کر لیتی تھیں۔

    کانفرنس کے دوران معمول کی سرگرمیوں کے علاوہ خاص خاص مریضوں کے شخصی اور لفظی تعارف کااہتمام بھی تھا۔ ان خاص ذہنی مریضوں میں ایک مریضہ ایسی تھی، جس کے مرض کی وجوہ بہت المناک تھیں۔ اس کے کیس پربھرپور توجہ دی جا رہی تھی۔ اس گمبھیر لیکن سرتا سر غلط معاشرتی رویے پر بھرُ ور بحث مباحثہ ہو رہا تھا۔ سب وفود کی جانب سے سخت ناگوار ردعمل کا اظہار ہو رہا تھا۔ اسی مریضہ کے بارے میں جس کا نام فرزانہ تھا، ڈاکٹر راشدہ، نعیمہ کے اصرار پر گفتگو کر رہی تھیں۔

    ’’کتابی فلسفہ اپنی جگہ، لیکن انسانی زندگیوں کے عملی فلسفے کی پیچیدگیوں کے سلسلے بہت دُور تک جاتے ہیں کہ بعض اوقات مسیحائی کی تمام کوششیں بے ثمر رہتی ہیں۔ نعیمہ بی بی! آپ بھی فیلڈ میں کام کرتی ہیں۔شاید یہ تجربہ ہو کہ ہمارے ہاں خصوصی طور پر یہ رویہ موجود ہے کہ ہم چیزوں کو ان کے واضح اور وسیع تناظر میں دیکھنے کے بجاے رواجی، روایتی یا سماجی ضرورت کے تحت، کچھ بھی، کسی بھی قسم کا ناپسندیدہ عمل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے، دیکھو بی بی! جس طرح موسم کا اُتار چڑھاو، پھلوں اور پھولوں کی بڑھوتری پر اثر انداز ہوتا ہے، بعینہٖ اس ’’پیس ہاؤس‘‘ میں موجود یہ سب مخلوق جو اپنے گھروں سے، اپنے ذہنوں اور خود اپنے وجود سے بچھڑ چکی ہے، یہ سب گویا برے موسموں کے پھل ہیں اور تند موسم کا پھل کسی نہ کسی طور پر ابنارمل ہوتا ہی ہے۔‘‘

    نعیمہ اور ڈاکٹر اسد ہمہ تن گوش تھے۔ ڈاکٹر راشدہ نے ایک اچٹتی نظر ارد گرد ڈالی۔ چمچ سے پیالی کو اضطراری انداز میں ہلکا سا بجایا اور بولیں ’’نعیمہ! تمھیں معلوم ہے نا کہ بعض دفعہ گھر میں رکھی کچھ چیزوں سے دل اوب جاتا ہے۔ یا ہم اپنی ذاتی پسند یا ناپسند، یا پھر ضرورت کے تحت اس چیز سے پیچھا چھڑانے کے لیے اسے اونے پونے داموں بیچ ڈالتے ہیں۔ اسی طرح فرزانہ کی شادی بھی اونے پونے داموں یعنی اونے پونے ٹائپ کے لوگوں میں کر دی گئی، جب کہ وہ خود ایک مختلف ماحول سے تعلق رکھتی تھی۔ اس عمل میں بھی بددیانتی کا شائبہ تھا،اِس لیئے ماحول کی یہ تبدیلی بھی فرزانہ کے وجود میں کسی مثبت رویّے کو پیدا نہ کرسکی، بلکہ نئے ماحول اور نئے گھر کے در ودیوار اخلاقی طور پر بہت کمزور ثابت ہوئے، چناں چہ دو قطعاً اجنبی شخصیتوں کے تعلقات میں چلتی، روز روز کی آندھیوں کی تاب نہ رکھتے تھے۔ زور زور سے گرد اُڑتی، بلکہ اس قدر اُڑتی کہ دم گھٹنے لگتا۔ اس بچی نے اس اُڑتی گرد کو سمیٹنے اور دروازوں کو ٹھاں ٹھاں بجنے سے بچانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں، لیکن آخر کار اس سے یہ گھر بھی چھوٹ گیا۔۔۔‘‘

    کرسیوں پر بیٹھے تینوں افراد اپنا ڈسکشن سیشن مس کر چکے تھے۔ سو ڈاکٹر راشدہ نے پاس سے گزرتے ایک ملازم کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا اور تازہ چاے لانے کو کہا۔

    اس تمام اثنا میں ڈاکٹر اسد مبہوت اور دم پخت بیٹھاتھا۔ کوئی تبصرہ، کوئی سوال، کوئی چونکاہٹ اس میں پیدا نہ ہو سکی۔ ملازم لڑکا چاے لے آیا تھا۔ ڈاکٹر راشدہ نے پہلو بدلا۔ چہرے سے پسینا پونچھا اور دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا۔ نعیمہ کا بال پوائنٹ اس کی انگلیوں میں گھومنے لگا۔

    اس واردات میں براہ راست ملوث کردار جن پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے:

    (1) تین معتبرگھرانے، جن میں سے ایک گھرانا بالواسطہ ملوث۔

    (2) لڑکا کسی دُوردراز ملک میں اپنی جنم بھومی سے دُور لڑکپن کی تلخ یادوں کا عذاب سہتا ہوا۔

    (3)لڑکی جس کا کوئی قصور نہیں، لیکن واقعات کی اندھی کھائی میں چک پھیریاں اس کا مقدر بنیں۔

    عدالت: زمانہ

    انصاف: معدوم

    سزا: معدوم

    معاشرہ: کرپٹ۔

    ڈاکٹر راشدہ کی یہ گفتگو حقیقت ہونے کے باوجود سامعین کو Symbolic محسوس ہو رہی تھی۔

    ڈاکٹر راشدہ بولیں: ’’نعیمہ بی بی! اور ڈاکٹر اسد! واقعات ایسے ہیں، جن کی ایف آئی آر کسی تھانے میں درج نہیں کروائی جا سکتی۔ آپ لوگ سنیں گے واقعات؟ سیشن تو ہم مس کر ہی چکے ہیں۔ ’’پہلا گھرانا۔۔۔ ان میاں بیوی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی موجود ہیں، انھیں کے جڑواں بچے بھی ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوجاتے ہیں، جب کہ ذہنی طور پر وہ ان بچوں کی پرورش کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سو بیٹی خالہ کو دے دی گئی،جو بے اولاد ہے اور بیٹا پھپھو کو دے دیا گیاکہ اتفاق سے یہ بھی صاحب اولاد نہیں ہے گو بعد میں خالہ اور پھپھو دونوں کے ہاں اپنے بچے بھی پیدا ہوئے یہ تینوں گھرانے پنجاب کے ایک ہی شہر میں، سیالکوٹ کہہ لیتے ہیں، رہایش رکھتے ہیں۔ کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ بڑے بڑے کھلے دالانوں، وسیع کمروں اور باغوں والے گھروں میں رہتے تھے۔ ان دو بچوں کے اصلی والدین دبئی ہجرت کر جاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ خالہ بچی کی ماں ہے اور پھپھو لڑکے کی والدہ۔ وقت گزرتا رہا بالکل فلمی سٹائل میں‘‘ ڈاکٹر راشدہ تلخی سے ہنسیں۔ ’’بچے آپس میں کزنز کی حیثیت سے کھیلتے رہے، ملتے رہے اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے جگہ بنتی چلی گئی۔ نہ معلوم کب، کیسے فیملی میں سے کسی کو احساس ہوا کہ کہیں پر کچھ گڑبڑ ہے۔ دونوں بچوں کے مابین استقبال اور اشتیاق کا رنگ بہت گہرا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔ فوراً یہ حل نکالا گیا کہ پڑھائی کے لیے لڑکے کو باہر بھیج دیا۔ اگرچہ پڑھائی ابھی ابتدائی مراحل میں تھی۔ بہرحال ۔۔۔ اب جن کے پاس لڑکی تھی، انھوں نے چٹ منگنی پٹ بیاہ میں اس مسئلے کا حل ڈھونڈا۔ اپنے سے کمتر حیثیت کے لوگوں کو بچی دی، تاکہ اسے پیار ملے اور وہ جس ذہنی الجھن کا شکار ہے، اس سے نجات پا سکے۔ اگرچہ ان دونوں بچوں نے اپنی زبان سے کسی احساس کا اظہار یا اقرار نہیں کیا تھا۔ کہانی کا اگلا حصّہ بھی اتنا ہی فلمی اورسادہ ہے، جس قدر میں پہلے سنا چکی ہوں۔ لڑکا باہر گیا تو اسے بتایا گیا کہ اصل بات کیا تھی۔ وہ واپس آنے سے ہچکچایا اور ادھر ہی کا ہو رہا۔ فرزانہ کی شادی وغیرہ کے بارے میں آپ سن چکے ہیں۔ احساس کمتری کے مارے ہوئے شوہر نے شروع سے ہی ذرا ذرا سی بات پر بے دریغ جسمانی تشدد شروع کر دیا۔ وہ نڈھال ہو کر جو گری تو ’’پیس ہاؤس‘‘ کی ڈیوڑھی میں بیٹھی پائی گئی۔ نہ معلوم کون، کب اور کس طرح سے اسے یہاں چھوڑ گیا۔ بہرحال معلومات حاصل کرنے کے لیے ہمارے اپنے ذرائع ہیں۔ فرزانہ تو خیر لاوارثوں کی طرح آئی۔ جن کے وارث چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ شروع شروع میں دو چار چکر لگاتے ہیں، پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ اپنے ایک ایک ممبر کے کوائف، خاندان، بیماری کا ماحول، سب جاننے کے لیے ہمارے پاس ذرائع موجود ہیں۔ ورنہ بغیر بیک گراؤنڈ جانے ہم علاج نہیں کر سکتے۔۔۔ ہاں تو یہ لڑکی یعنی فرزانہ، مَیں اسے لڑکی ہی کہوں گی، کیوں کہ اس کا ذہن، اس کی سوچ، اس کی گذشتہ اورموجودہ زندگی ایک محدود وقت کے حصار میں بند ہے۔ سولہ سترہ سال کی عمر میں ذہن زندگی کے ساتھ جتنا فاصلہ طے کرتا ہے، فرزانہ نے فقط اسی قدر فاصلہ طے کیا ہے، کیوں کہ اس کی زندگی کا باقی زمانہ سوچ اور حالات کی بند گلی میں مقید تھا۔‘‘

    ڈاکٹر راشدہ نے اپنی عینک اتاری۔ اسے دوپٹے سے صاف کیا اورآنکھوں پر رکھ کر بولیں۔ ’’یہ، یعنی فرزانہ اپنی گفتگو میں سیالکوٹ شہر کے ایک بڑے عہدے دار کے ایک بڑے گھر کا ذکر کرتی ہے۔ اس بچی کے ذہن سے آم اور جامن کے گھنے درخت محو نہیں ہوسکے، اور ان درختوں پرلگا پھل جسے یہ اُچک اُچک کر توڑتی تھی، اسے یہ سب رتی رتی یاد ہے۔۔۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ معلوم نہیں کیا ہوا۔ لیکن فرزانہ کا وجود ایک گہرے اندھیرے میں ڈوب گیا ۔۔۔ اس اندھیرے کے آگے اسے کچھ یاد نہیں آتا۔۔۔ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے ذہن کے کسی ونے میں کوئی جگنو نہیں چمکتا۔ اس وقت اس کی سانس رکتی اور دم گھٹتا ہے۔ یہ چیختی ہے اور بلک بلک کر روتی ہے اور تشدد پر اتر آتی ہے۔ ان حالات میں ہمارے پاس بجز اس علاج کے، کہ بہت سی گولیاں دے کر اسے سلادیں کچھ نہیں ہے۔۔۔ تو یہ تھی فرزانہ بنت۔۔۔ بنت۔۔۔ مجھے نہیں معلوم، زوجہ۔۔۔ زوجہ۔۔۔ کسی کو نہیں معلوم۔۔۔ ڈاکٹر اسد! کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘ ایک مایوس سی ہنسی کے ساتھ وہ اپنی کرسی سے اٹھیں اور پیس ہاؤس کی مین بلڈنگ کی جانب مڑ گئیں۔

    ڈاکٹر اسد نے ڈاکٹر راشدہ کے نظروں سے اوجھل ہو جانے پر قدرے توقف کیا، لیکن فوراً ہی بہت تیزی سے ڈاکٹر راشدہ کے پیچھے گیا، اور قریب پہنچ کر رک گیا۔ ڈاکٹر راشدہ نے شگفتگی سے ڈاکٹر کودیکھا، اورسوالیہ نظروں سے مسکرائیں ۔ ڈاکٹر اسد نے بڑی دھیرج اور اپنائیت سے ڈاکٹر راشدہ کو کندھوں سے تھاما۔ دھیمے مگر جذبات سے مغلوب لہجے میں بولا، ’’آپ میری ایک بات سننا پسند کریں گی؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر راشدہ دوستانہ لہجے میں بولیں۔

    ’’ڈاکٹر۔۔۔ڈاکٹر۔۔۔فرزانہ کے کیس کا میری ذات سے براہ راست تعلق ہے۔۔۔ میں۔میں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر اسد ہکلایا۔۔۔ ’’مَیں فرزانہ کاسگا بھائی ہوں!‘‘ وہ جلدی میں جیسے کسی سکرپٹ میں لکھا جملہ بول گی۔

    ڈاکٹر راشدہ پر کچھ لمحوں کے لیے سکتہ طاری ہوا۔ ڈاکٹر اسد نے مزید ہمت دکھائی۔ سراسیمگی میں کندھے جھٹکے، کھنکارا اور بولا ’’آپ اجازت دیں تو مَیں فرزانہ کو اپنے ساتھ لے جاؤں؟ میں تمام بندوبست، ہرقسم کا بندوبست کر سکتا ہوں۔‘‘

    ڈاکٹر راشدہ ٹرانس سے واپس آ چکی تھیں۔ انھوں نے ایک بھر پور گہری تلخ نگاہی سے ڈاکٹر اسد کو سر سے پانو تک دیکھا اور دفعتہً بے حد سپاٹ لہجے میں کھری آواز سے بولیں۔ ’’نہیں، ہرگز نہِیں۔۔۔ قطعاً نہیں۔۔۔ ذہنی عذاب ، جسمانی دکھوں سے زیادہ خوفناک اور جان لیوا ہوتے ہیں۔ آپ خود سائی کیٹرسٹ ہیں۔ آپ بتائیے۔۔۔بتائیے۔۔۔ ایسا ہوتا ہے؟‘‘ ۔۔۔ پھر اچانک بڑے پروفیشنل لہجے میں بولیں! ’’لیکن پھر بھی ہم اپنے ممبر کو نارمل کرنے میں پوری کوشش جاری رکھیں گے۔ ہم ایسے لواحقین پر قطعاً بھروسا نہیں کر سکتے، جنھوں نے برسوں اپنی فیملی ممبر کے بارے میں ہم سے رابطہ نہ کیا ہو۔ ویسے بھی اتنا بڑا فیصلہ اور اس قدر اچانک مَیں خود سے کرنے کی مجاز نہیں ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر راشدہ کنفیوزڈ، خالی ذہن اورتھکے قدموں کے ساتھ آگے بڑھ گئیں۔۔۔ لیکن اچانک دوبارہ مڑیں اور ڈاکٹر اسد کے قریب آ کر پوچھا۔ ’’ آ۔۔۔آپ۔۔۔ آپ یہ سارا زمانہ۔۔۔ میرا مطلب یہ بہت سے سال۔۔۔ کہاں تھے؟ ۔۔۔ کہاں تھے؟۔۔۔ کدھر تھے؟‘‘ ڈاکٹر راشدہ اپنے ذہن اور وجود سے غیر متوازن ہو رہی تھیں۔

    ڈاکٹر اسد کو خود اپنی ذات کے لیے اس لمحے کسی مشفق لمس کی ضرورت تھی۔ اس نے آہستہ سے ڈاکٹر راشدہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے، اور بھرائی آواز میں بولا ’’مَیں۔۔۔ مَیں۔۔۔ ادھر ہی تھا ڈاکٹر!! ذہنی ہجرتیں بہت مشکل ہوتی ہیں، اور ہم دونوں بہن بھائی اپنے ہی لوگوں کی سادگی یا جہالت کی وجہ سے ذہنوں کی صعوبتوں سے گزرے ہیں۔ فرزانہ ایک لڑکی تھی، اور پھر ایک محدود معاشرے میں سانس لے رہی تھی۔۔۔ مَیں دُور تھا۔ ماحول کا بہت فرق تھا۔لہٰذا یہ بھی سچ ہے کہ بہل بھی گیا۔ لیکن جو پیچھے چھوڑا تھا، اس نے مجھے نہ چھوڑا۔۔۔ سو ڈاکٹر! مَیں ذہنی طور پر اِدھر ہی تھا۔۔۔ یہیں۔ آس پاس ہی ‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے ڈاکٹر راشدہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں سے جیسے گرا دیے، اور خالی خالی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

    ڈاکٹر اسد ملگجے اندھیرے میں ابھی تک بت بنا کھڑا تھا کہ ڈاکٹر راشدہ فرزانہ کا بازو تھامے آتی دکھائی دیں۔ ڈاکٹر اسد کے پاس پہنچ کر بولیں۔ ’’ہمیں ان فرزانوں کی صحبت بہت موم دل بنا دیتی ہے۔ مَیں فرزانہ کوفقط اس لیے لائی ہوں کہ آپ اسے ایک بار اور دیکھ لیں، اور جب واپس جائیں تو ان دُور دراز علاقوں سے کبھی کوئی عید کارڈ، کوئی نئے سال کی مبارک کاکارڈ یا کوئی ویسے ہی چھوٹا سا شفقت بھرا خط، جس میں یہ جملہ ہو کہ:

    فرزانہ! ’’I miss you a lot..... I miss you‘‘یہ کہتے کہتے ڈاکٹر راشدہ کی آواز بھرا گئی۔

    نعیمہ فلائیٹ کے on time ہونے کا پوچھنے کے لیے اٹھ گئی تھی، اور اب تیز تیز قدموں سے ڈاکٹر اسد اور ڈاکٹر راشدہ کو خدا حافظ کہنے کے لیے آ رہی تھی۔ لہٰذا اُس نے دونوں ڈاکٹرز کو خدا حافظ کہا۔ فرزانہ کے گال کو تھپتھپایا، اور اپنے گھنے کھلے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہوئی بیگ کو ہاتھ میں جھلاتی ہوئی گیٹ پر کھڑی کوسٹر میں ائیرپورٹ کی جانب روانہ ہو گئی، اور سوچنا شروع کیا۔۔۔ ’’آج کی سٹوری، واقعہ دل آزار سہی، لیکن انسانی حقوق یا عورتوں پر تشدد کا نعرہ وغیرہ بن سکتا ہے۔‘‘ اس نے مزید سوچا۔ ’’کسی فلم کاسکرپٹ۔۔۔ نو! سنسر ہو جائے گا۔ لانگ ٹی وی پلے ۔۔۔ نو! ٹی وی کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں جیسے ریڈیو کے ہیں، کہ ریڈیو کے ’’ٹاک‘‘ پروگرام میں ’’ریپ‘‘ تک کالفظ تواستعمال نہیں کیا جا سکتا ہے Incest کا ذکر کون کرنے دے گا؟ سٹیج۔۔۔ تھیئٹر۔۔۔ عملی طور پر ناممکن ہے۔ مولوی ناراض ہو گا۔ سٹریٹ تھیئٹر۔۔۔ متاثر کن یا حقیقی ڈائریکشن نہ ہو پائے گی۔‘‘

    اور پھر اچانک بجلی کے کوندے جیسا ایک خیال نعیمہ کے ذہن میں لہرایا۔ ’’بے حد حساس موضوع ہے۔ مزید ایک این جی او کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ کس کس ملک کی فنڈنگ ایجنسیاں تھرڈ ورلڈ کے اس پرابلم کی ریسرچ پر بے دریغ ڈالر خرچ کر سکتی ہیں۔ ناروے؟ کینیڈا؟ یا۔۔۔؟‘‘

    نعیمہ کے ذہن میں پوش اور جدید دفتری سامان سے آراستہ ایک عمارت ابھرنے لگی۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے