ملامتی
مہر آج اپنے گھر نہ پہنچ سکی تھی۔
دو میل پیدل چل کر وہ جیسے ہی خالہ اماں کے گھر میں داخل ہوتی اپنے کام میں لگ جاتی۔ نہ اسے تھکن کا احساس ہوتا اور نہ ہی کوئی آرام کی خواہش۔ بس اسے تو یہ یاد ہوتا کہ جلد سے جلد یہاں سے کام ختم کرکے اسے اگلے بلاک میں جانا ہے۔
اس کے ذمے تین کام تھے۔ ایک سارے گھر کا جھاڑو پوچا ، ڈسٹنگ، دوسرے کپڑے دھونا، اور تیسرے ایک روز پہلے دھوئے ہوئے کپڑوں کو استری کرنا۔ وہ یہ سارے کام دو سے تین گھنٹوں میں نمٹالیا کرتی۔
وہ کبھی کبھی خالہ اماں کے سر میں تیل لگایا کرتی یا پھر خالہ اماں اس سے اچار کا سامان بنوایا کرتیں۔ اسے اچار کا سامان تیار کرنے میں بڑی مہارت تھی۔ وہ جس سلیقے سے کیریاں، گاجر، مولی، پیاز نہایت باریک اور یکساں کاٹتی اسے دیکھ کر سب حیران ہوتے۔ چھوٹی بہو تو عجیب فقرہ کستی۔
’’کاش مہر تم خالہ جان کو پہلے مل گئی ہوتیں‘‘۔
خالہ اماں جانتی تھیں کہ چھوٹی بہو کیا کہہ جاتی ہے۔ مگر خالہ تھیں بہت وضع دار، بس مسکرا جاتیں۔
مہر کی عمر کا صحیح اندازہ تو نہیں البتہ وہ تیس برس کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ بھرا ہوا بدن غربت کی تنگ قمیض میں سے باہر نکلنے کے لیے بے تاب نظر آتا۔ پوچا لگاتے،بالخصوص ذینے پر الٹے قدموں سے پوچا لگاتے ہوئے اس کا جالی دار دوپٹہ باربار سرک جاتا اور اوپر کی منزل کے ایک کمرے کی کھڑکی کے پیچھے انتظار کرتی ہوئی دو آنکھیں لٹکے ہوئے گریبان کے اندر تیزی سے اتر آتیں۔ مگر اس نے اپنے گریبان کو اپنے دوپٹے کے قابو میں کبھی نہیں کیا۔
مہر کو خالہ اماں نے رکھا تھا۔ یوں تو وہ گھر کی مالکن تھیں۔ ہر کام ان ہی کی مرضی سے ہوتا تھا مگر مہر کو رکھنے میں انہوں نے اپنا ہی بنایا ہوا ایک اصول توڑا تھا۔ دراصل خالہ اماں جوان لڑکیوں کو کام پر رکھنے سے ہمیشہ گریز کرتی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ بڑی عمر کی عورتوں کو گھر کے کام کاج کے لیے رکھا تھا۔ مگر پچھلی کام کرنے والی کے اچانک چلے جانے کے بعد بہت دنوں تک جب کوئی ڈھنگ کی کام کرنے والی میسر نہ آئی تو خالہ اماں نے مہر کو رکھ لیا جو بہت دنوں سے چکر لگارہی تھی۔
صرف ایک ہفتے بعد ہی مہر کی ذمہ داریاں اور گھر کے دیگر حصوں تک رسائی بڑھنے لگی۔ پہلے اسے صرف خالہ کا کمرا، ڈرائنگ روم، بیٹھک، اور دالان تک کی صفائی کی ذمہ داری دی گئی مگر رفتہ رفتہ اس کی دسترس میں دیگر کمرے بھی آگئے۔ تینوں بہوؤں کے کمروں کی صفائی بھی اب مہر ہی کیا کرتی تھی۔
نہ جانے مہر میں ایسی کیا بات تھی کہ جب کوئی اسے دیکھتا تو نظر بھر کر ضرور دیکھا کرتا یہی تو منجھلے میاں نے کیا تھا کہ انہوں نے ایک دن دفتر جانے سے پہلے مہر کو نظر بھر کر دیکھ لیا۔ اس کے بعد ان کے دفتر کے اوقات بدلنے لگے کبھی سر درد کا بہانا اور کبھی نیند انہیں بستر سے اٹھنے نہ دیتی۔ منجھلی بہو خالہ اماں کے حکم سے صبح سویرے اٹھ کر ناشتہ تیار کرنے نیچے چلی جاتی۔ وہ بے چاری دودھ کی دُھلی میاں کی حرکتوں کو سمجھ ہی نہ سکی۔
مہر بچی کہاں تھی۔ اس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا سترہ اٹھارہ برس کی عمر سے وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ کیسے کیسے سڑیل مردوں کو اس نے بھگتایا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ جب کمر کے بل جھک کر فرش کی جھاڑو لگاتی ہے یا گھٹنوں کے بل بیٹھ کر فرش پر پوچا لگایا کرتی ہے تو اس کے اردگرد شکاری نظریں تیرنے لگتی ہیں۔ بستر پر اینڈھتے ہوئے منجھلے میاں کی ادھ کھلی آنکھوں میں کیسی شرارتیں ناچتی ہیں، اسے معلوم تھا۔
مگر وہ اس کی پروا کب کرتی تھی۔ اس کی بھی تو کوئی پروا نہیں کرتا تھا۔ حتیٰ کہ اس کا بھائی بھی۔
حضور بخش مہر سے پانچ سال چھوٹا تھا۔ مگر وہ مہر پر ایسے حکم چلاتا جیسے اس سے بڑا ہو بلکہ گھر میں سب سے بڑا ہو۔ سب اس سے ڈرتے ۔ دراصل شروع میں یہی کچھ ہوا تھا چار بہنوں کے بعد جب حضور بخش پیدا ہوا تو گھر میں خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہ تھا بیٹیاں پہلے ہی کب نظروں میں تھیں جو نظرانداز کردی گئیں ہاں یہ ضرور ہوا کہ ننھے حضور بخش کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ تب ہی سے حضور بخش میں خود سری سر اٹھانے لگی۔
مہر سے بڑی تین بہنوں میں دو بڑی بہنیں صغری اور رانی دونوں جھگیوں سے آگے نکڑ والی حویلی میں کام کرنے جاتی تھیں۔ پھر زیادہ پیسوں کے لالچ میں مہر کے باپ نے انہیں مستقل وہیں چھوڑ دیا۔ بارہ اور چودہ برس کی صغری اور رانی نے جھگیوں کی دہلیز(جو کہ بظاہر نہیں ہوتی) جب پار کی تو بس پار ہی کرتی چلی گئیں۔ سولہویں اور اٹھارویں برس میں حویلی والوں کی جسم میں آر پار اتر جانے والی نظریں یکے بعد دیگرے دونوں بہنوں کو کھا گئیں۔
صغری کی ادھڑی ہوئی لاش تو وہیں جھاڑیوں میں ملی تھی اور کچھ ہی دن بعد رانی کے بارے میں سنا گیا کہ وہ ڈرائیور مشتاق کے ساتھ دبئی بھاگ گئی ہے۔ ایک ہی برس میں واقع ہونے والے ان دونوں حادثوں کی رپورٹ مہر کے باپ نے تھانے میں کروانے کی کوشش کی ، مگر وہ حویلی میں رہنے والے کمزور سے کمزور آدمی کے مقابلے میں بھی بہت کمزور تھا۔ آنے والے برسوں میں رانی کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ البتہ سارا دن چار پائی پر لیٹے چرس کے سٹھے لگانے والے مہر کے باپ نے اپنی تیسری بیٹی کو بھی اسی سلگتے ہوئے ایندھن میں جھونک دیا جہاں سے پہلے بھی اڑنے والی چنگاریوں نے اس کے جسم کو جھلسادیا تھا مگر اسے اپنے جھیلنے سے زیادہ بیٹیوں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کے رک جانے کا احساس تھا۔
حویلی والوں نے پہلے کریماں اور چند برس بعد مہر کو بھی اپنے ہاں رکھ لیا۔ مگر جو مہر کے باپ کو دکھائی نہیں دیا وہ مہر نے دیکھ لیا۔
حویلی والے بڑے صاحب اور بڑی بیگم صاحبہ برسوں سے شہر میں آباد ہونے کے باوجود جاگیردارانہ اور حاکمانہ خو کے ساتھ یہاں بسے ہوئے تھے۔ صاحب تو صاحب بڑی بیگم صاحبہ بھی اس خیال کی حامی تھیں کہ باہر کا ٹنٹا پالنے سے بہتر ہے کہ نوجوان لڑکے گھر ہی میں چوبیس گھنٹے خدمت پر مامور جوان ہوتی ہوئی ملازماؤں سے منہ مارلیا کریں۔ جاگیردار گھرانوں کی بڑی بڑی کوٹھیوں اور حویلیوں کے بکھرے ہوئے کمروں میں لڑکوں کی تربیت کے یہ کھیل جائز ہی نہیں جاگیرداروں کا حق بھی ہیں۔
مہر نے کوٹھی کے ایک دور افتادہ کمرے میں لڑکوں کی تربیت کا یہ کھیل نہ صرف دیکھا بلکہ کچھ عرصے بعد وہ بھی ایسے ہی ایک کھیل میں شٹل کاک کا کردار نبھانے پر مجبور کی گئی۔ اس بار کرداروں میں یہ فرق تھا کہ نہ تو کوئی لاش جھاڑیوں میں پائی گئی اور نہ ہی کوئی دبئی فرار ہوا۔
جس دن مہر شٹل کاک بنی بڑی بیگم صاحبہ کی جہاندیدہ نگاہوں نے اسے بڑے عجیب انداز سے گھورا تھا۔ ان کی آنکھوں میں طنزیہ مسکراہٹ میں فاتحانہ غرور چھپا ہوا تھا، جیسے کوئی شیرنی اپنے پلّوں کو شکار کرتا ہوا دیکھ کر خوش ہوا کرتی ہے۔ مہر جسے یہ پتہ نہیں تھا کہ شٹل کاک کے اس کھیل میں درد سارا شٹل کاک ہی کو سہنا پڑتا ہے۔ روح پر لگی ہوئی تمام تر کالک اور بدن پر پڑی ہوئی سلوٹوں کے ساتھ جب وہ گھر گئی تو اس کا باپ روز کی طرح نشے میں سوئی ہوئی بینائی کے ساتھ چارپائی کے جھولے میں اڑنگا ڈالے بے خبر پڑا ہوا تھا۔ تب مہر نے درد میں ڈوبی ہوئی مٹھاس کو اپنے لیے عنیمت جانا اور آنے والے کل سے بے خبر ہوگئی۔
آنے والے کل میں دو بار ایسا بھی ہوا کہ جب مہر کو بڑی بیگم صاحبہ نے اپنی خاندانی گائنی ڈاکٹر کے پاس بھیجا تاکہ یہ بے وقوف کوئی ٹنٹا نہ پال بیٹھے۔
بڑی بیگم صاحبہ ایسے موقعوں سے نبٹنا بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ زخم زخم ہوتے ہوئے جسم پر مرہم رکھنا انہیں خوب آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب دونوں بار مہر ڈاکٹر کے پاس سے کمزوری اور گری ہوئی طبیعت لے کر لوٹی تو بڑی بیگم صاحبہ نے محبت بھری ڈانٹ کے ساتھ کہا تھا۔
’’لڑکی کیا تو کچھ کھاتی پیتی نہیں ہے۔ لگتا ہے تیرا باپ تجھے کچھ نہیں دیتا۔ ساری تنخواہ چرس میں اڑادیتا ہے۔ جا! میں اماں(پرانی بوڑھی خادمہ) سے کہتی ہوں وہ تجھے فریش جوس بنا کر دے گی اور ہاں رات کو سونے سے پہلے تو دودھ ضرور پینا۔ کچھ کھایا پیا کر۔ دوسرے نوکر اتنا اڑادیتے ہیں۔ تجھے کیا کوئی منع ہے‘‘۔
ایسے میٹھے بول تیر بہ ہدف کا کام کرتے اور وہ اپنے سارے دکھ بھول جاتی۔
مہر کو بڑی بیگم صاحبہ کے ہاں کام کرتے ہوئے قریباً آٹھ برس ہوچلے تھے۔ دیگر ملازموں کی طرح اب وہ بھی پرانے ملازموں میں شمار ہوا کرتی تھی۔ مگر ایک دن اچانک بیگم صاحبہ نے اسے کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیا، کیونکہ انہوں نے اسے ڈرائیور کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔ بھلا وہ کیسے برداشت کرسکتی تھیں کہ جن پر ان کے بچوں کا تصرف ہو، وہ معمولی سے ڈرائیور کی سطح پر اتر آئے۔
اگلے تین سالوں میں مہر کو کتنے ہی گھروں میں جھاڑو پوچا اور نہ جانے کتنے گھروں کی سڑاند کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرنا پڑا۔ کتنے ہی گھروں کے ازدواجی رشتوں میں پڑی ہوئی دراڑوں کو پاٹنا پڑا اور کتنے ہی ڈھلی ہوئی عمر کے شیطانوں پر لاحول پڑھنا پڑا۔ یہ سب تو ہوا مگر جیسے جیسے وہ زندگی کی کڑوی ساعتوں کا نہ ڈھویا جانے والا بوجھ اٹھاتی چلی گئی اس کے پلو میں ہدایتوں نصیحتوں اور تجربات کی گرہیں یکے بعد دیگرے بندھتی چلی گئیں۔
ان برسوں کی دھوپ چھاؤں میں اس کی ماں کا انتقال ہوا تو چند ماہ بعد ہی اس کا باپ گاؤں جا کر ایک ہٹی کٹی خوبصورت جوان عورت سے نکاح کرکے لے آیا، جس کے آنے سے اس کے باپ کی آمدنی میں اور اضافہ ہوگیا۔ ایک واقعہ یہ بھی ہوا کہ مہر کے چھوٹے بھائی حضور بخش نے بھی جھگیوں میں پلنے والی ایک لڑکی سے شادی رچالی۔ تب مہر کو احساس ہوا کہ وہ اس لڑکی سے کئی سال بڑی ہے مگر اس کے باپ بھائی کو ذرا دکھائی نہیں دیتا۔
دھوپ چھاؤں کی اس آنکھ مچولی نے مہر کے چہرے پر کتنے ہی فسانے اور نہ جانے کتنی انمٹ لکیروں کو بڑھاوادیا تھا۔ جو مہر پر بیتی وہ کسی اور پر بیتی ہوتی تو وہ اپنی عمر سے دس برس کی زیادہ دکھائی دیتی مگر واہ ری قسمت کہ اس غربت اور ناآسودگی میں بھی اپنے جسم پر ایسی ڈھیٹ چمڑی لائی تھی کہ کسی بھی طرح ڈھیلی نہیں پڑتی تھی۔ مگر مہر کیا کرتی اسے اس نفع نقصان سے واقفیت کے باوجود اپنے سراپے سے محبت تھی۔
مہر جب خالہ اماں کے ہاں کام پر لگی تو اپنے پلو میں ہدایتوں نصیحتوں اور تجربات کی گرہیں بھی ساتھ لائی تھی۔ مگر وہ بے نیازی کا اظہار کرتی۔ سیڑھیوں پر پوچا لگاتے ہوئے یا منجھلے میاں کے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے جب وہ محسوس کرتی کہ آنکھیں اس کا پیچھا کرتی ہیں تو اس کے جسم کے رونگٹے سرسرانے لگتے۔ بیڈ پر پڑی ہوئی چادر کی سلوٹوں کو درست کرتے ہوئے اسے منجھلے میاں اور چھوٹی بہو کے جسم سرکتے، کروٹ بدلتے ہوئے دکھائی دیتے۔ پھر یکایک بیڈ خالی نظر آنے لگتا اور اسے لگتا کہ چند آنکھیں اس کے ڈھلکے ہوئے گریبان کے اندر گھسنے کی کوشش کررہی ہیں۔
اچانک خالہ اماں کی آواز پر وہ چونک جاتی اور جلدی جلدی کمرہ درست کرکے وہ نیچے دالان میں خالہ اماں کی خدمت میں حاضر ہوجاتی۔ ایسا اکثر ہوا کرتا۔ خالہ اماں کی آواز ہمیشہ تعاقب کرتے ہوئے اس کو دبوچ لیتی اور وہ جھنجھلا جاتی۔
رفتہ رفتہ اس کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہورہا تھا۔ وہ کام میں غلطیاں کرنے لگتی یا چیزوں میں بے ترتیبی پیدا کرتی۔ خالہ اماں نے اسے کئی بار ڈانٹا۔ خالہ اماں کی ڈانٹ ڈپٹ کا وہ برا نہ مناتی مگر وہ خود حیران تھی کہ آخر اس میں یہ چڑچڑاپن کیوں در آیا ہے۔ ایک دفعہ مہر نے بس یوں ہی بغیر سوچے سمجھے خالہ اماں سے کہا۔
’’خالہ جی میں منجھلے میاں کا کمرا صاف نہیں کروں گی۔ آپ اس کے بدلے مجھ سے کوئی اور کام کروالیا کریں‘‘۔
خالہ نے وضاحت چاہی مگر مہر نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ کیا بتاتی کہ اسے ڈرپوک اور پردے کے پیچھے سہمے ہوئے لوگ اچھے نہیں لگتے۔ خالہ اماں کی زیرک نظروں نے مہر کو اوپر سے نیچے دیکھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب خالہ اماں کو محسوس ہوا کہ انہوں نے مہر کو رکھنے میں غلطی کی ہے۔ منجھلے میاں کے مزاج کو ان سے زیادہ کون جانتا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی ایک ایک عادت سے واقف تھیں۔ انہیں پتا تھا کہ اگر کوئی بھی کام منجھلے میاں کی مرضی کے خلاف ہو تو ان کا ردعمل کسی بڑے نقصان کی صورت میں ہوا کرتا ہے۔ صرف ایک ہفتے بعد ہی ان کا اندیشہ درست ثابت ہوا جب ایک صبح ان کے دروازے پر دو پولیس اہلکار معلومات کے لیے آئے۔
گذشتہ رات گھر جاتے ہوئے اندھیرے میں کسی نے مہر کے چہرے اور سینے پر تیزاب پھینک کر اسے بری طرح جھلسادیا تھا اور وہ اب ہسپتال میں تھی۔ جہاں ڈاکٹر اس کی زندگی سے ناامید تھے۔ ماں کی طرف سے وراثت میں ملی ہوئی اجلی اور سلوٹوں سے بے نیاز جلد تیزاب کی شدت سے بالکل ہی غائب ہوگئی تھی اب جھلسے ہوئے سیاہ گوشت پر نظریں ٹھہرانا بھی محال تھا۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ اپنا درد بتانے کی صلاحیت یعنی قوت گویائی سے بھی محروم ہوگئی تھی۔ اتنا ضرور تھا کہ اس کی آنکھیں بے رحم دنیا کے بدنما چہرے اور اس میں بسنے والے ظالموں کو دیکھنے کے لیے اب بھی زندہ تھیں۔
مگر کب تک، تیزاب تو اس کے نرم و گداز گوشت کو چھیدتا ہوا اس کی رگوں میں اتر گیا تھا۔ تیزاب کی جلن، جسم میں چبھنے والی سوئیاں، ڈوبتی ہوئی سانسیں اور اس کے دل کی بے ترتیب دھڑکنیں اسے لمحہ بہ لمحہ قریب آتی ہوئی موت کا احساس دلارہی تھیں۔ مگر وہ تو اپنا درد بتانے سے ہی محروم ہوگئی تھی۔ اسے کچھ کچھ یاد تھا کہ رات کو ایک پولیس کی وردی والے شخص نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ اپنے دشمن کا نام بتائے۔ مگر وہ کیا بتاتی وہ تو اپنے دشمن کو دیکھ ہی نہیں سکی تھی۔ سب کچھ اچانک ہوا تھا۔ مگر اس سے پہلے جو کچھ ہوا تھا وہ سب اسے یاد تھا۔
پولیس اپنی تفتیش کے طریقہ کار کے مطابق مہر کے باپ بھائی سے لی ہوئی معلومات کے مطابق خالہ اماں کے گھر تک چلی آئی تھی۔ جہاں خالہ اماں کا پہلا شک اپنے بیٹے منجھلے میاں پر گیا تھا۔ انہیں یہ یقین تھا کہ ان کا بیٹا اپنی ناکامیوں کی صورت میں ایسا انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے۔ مگر خالہ اماں نے پولیس کو ایسا کچھ نہیں بتایا۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ وہ کام ختم کرکے جاچکی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کے بارے میں انہیں کچھ نہیں معلوم۔
پولیس نے اپنا روایتی کردار نبھاتے ہوئے مہر کے باپ اور بھائی کو تیزاب پھینکنے کے الزام میں دھر لیا اور بعد ازاں چند ہزار روپوں کے عوض رہا اور نامعلوم افراد کے نام پرچہ کاٹ کر فائل کو داخل دفتر کردیا۔
وہ دن مہر کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ مرنے سے پہلے ڈیوٹی ڈاکٹر نے اس سے بڑی ہمدردی سے پوچھا تھا کہ کیا تم جانتی ہو کہ تم پر تیزاب کس نے پھینکا تھا۔ مگر وہ کچھ نہ بول سکی۔ یہ بھی نہیں کہ اس شام خالہ اماں کے گھر سے نکل کر وہ دوسری جگہ کام پر جانے کے بجائے بڑی بیگم صاحبہ کی حویلی کی طرف نکل گئی تھی۔ جہاں ناآسودگی کو آسودگی میں بدلنے والے رہتے ہیں۔ جہاں منجھلے میاں کی طرح بے ہمت لوگ نہیں رہتے، جسے صحیح موقع پر صحیح شاٹ کھیلنا بھی نہیں آتا۔ بلکہ ایسے لوگ رہتے ہیں جو اگر کھیل کے داؤ پیچ سے ناواقف ہوں تو انہیں پورا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اس کے سارے رموز سیکھ لیں۔ مگر وہ اس بات سے واقف نہیں تھی کہ بڑے کھلاڑی پرانی شٹل کاک سے نہیں کھیلا کرتے۔ بلکہ وہ تو بڑی بیگم صاحبہ کے اس اصول سے بھی ناواقف تھی کہ پرانے کپڑے خواہ کتنے بھی خوبصورت ہوں ، ایک بار دل سے اتر گئے تو بس اتر گئے۔
(۲۰۰۵ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.