Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منجھلی

MORE BYمحمد حمید شاہد

    اب سوچتا ہوں کہ میں نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا تھا ‘تو حیرت ہوتی ہے۔

    سچ تو یہ ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ میں نے نہیں کیا تھا‘ خود بخود ہو گیا تھا۔

    دراصل بھائی اور بھابی دونوں اتنی محبت کرنے والے اور خیال رکھنے والے ہیں کہ ان کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔

    بیگم نے بھی مخالفت نہ کی تھی۔

    بس ہکا بکا مجھے دیکھتی رہی تھی۔

    اگرچہ وہ کچھ نہ بولی تھی مگر اس کی آنکھیں نمی سے بھر گئی تھیں۔

    اور اب جب کہ میرے اندر بھیگی آنکھوں کی فصل اگ آئی ہے ‘سوچتا ہوں؛ میں نے اپنا فیصلہ بدل کیوں نہ دیا تھا۔

    پھر یوں ہوا کہ اس نے میرا فیصلہ اپنا فیصلہ بنا لیا۔

    سب کو کہتی پھرتی۔

    ’’دیکھو جی گڑیا ابھی دودھ پیتی ہے اور بڑی بھی تو ناسمجھ ہے‘ بات بے بات ضد کر بیٹھتی ہے تو سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ میں منجھلی کو کیسے سنبھالوں گی؟ اپنی دادی اور پھوپھی سے بہت مانوس ہے ‘بھابی اور بھائی بھی تو ماں باپ جیسے ہیں‘ پیچھے رہ لےگی۔‘‘

    اور وہ پیچھے رہ گئی۔

    پہلی رات میں سو نہیں سکا تھا۔

    ننھی منی معصوم منجھلی آنکھوں کے سامنے گھومتی رہی۔

    میں نے بیگم کو دیکھا‘ وہ بھی پہلو بدل رہی تھی۔ پوچھا:

    ’’نیند نہیں آ رہی؟‘‘

    ’’جی‘ نئی جگہ ہے نا!‘‘

    پھر نئی جگہ پرانی ہو گئی۔ مگر‘ وہ حوصلہ نہ ہاری۔

    اور منجھلی بھائی اور بھابی کی بیٹی بن کر ان کے پاس رہتی رہی۔

    وہ انہیں ابو اور امی کہتی ہے جب کہ ہمیں بابا اور ماما۔

    شروع شروع میں جب ہم جاتے تھے تو وہ ہمارے ساتھ آنے کے لیے ضد کرتی۔ رو رو کر بے حال ہو جاتی مگر رفتہ رفتہ وہ چپ چاپ ہمیں دیکھتی رہتی۔

    اور جب حسرت سے یوں دیکھتی تو میرا دل کرتا‘ کاش وہ کھل کر رو لے۔

    بیگم کا خیال تھا: اس کے آنسواس کے اندر پڑ رہے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ بیگم کو گاؤں سے واپسی پر چپ سی لگ جاتی۔

    بات یہ نہیں ہے کہ اوپر تلے ہماری تین بچیاں ہوئی اور ایک بھائی بھابی کو دے دی۔ نہ ہی یہ درست ہے کہ ہمارا تبادلہ ہو گیا اور دوسرے شہر میں ان تینوں کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا کہ اپنی اولاد کے لیے مشکلات سہنا ہی تو زندگی کو پر لطف بنا تا ہے۔

    اصل واقعہ یوں ہے کہ

    جب گڑیا پیدا ہوئی تھی تو بھابی اسے گود میں اٹھا کر دیر تک دیکھتی رہی تھی۔

    پھر اس نے ہونٹوں سے گڑیا کے گال چوم لیے تھے اور اس کے گالوں سے اپنے گال رگڑتی رہی تھی۔

    ایساکرتے ہوے اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔

    اس نے اپنے آنسوؤں کو بہہ جانے دیا اور انگلی سے ہونٹوں کو سہلایا تھا؛ یوں جیسے محبت کے اس لمس کو پوروں پر محسوس کرنا چاہتی ہو۔

    پھر بے اختیار اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا:

    ’’اوہ میری بچی‘‘۔

    میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ کہا:

    ’’بھابی یہ آپ ہی کی بچی ہے۔‘‘

    اس نے میری جانب دیکھا:

    ’’میری بچی۔ کہیے نا؟ یہ میری ہی بچی ہے نا؟‘‘

    اس کے چہرے پر عجب سی کیفیت تھی۔ حیرانی؛ محض حیرانی ہی نہیں۔ محبت؛ صرف محبت کا جذبہ ہی نہیں۔ حسرت؛ شاید وہ بھی پوری طرح نہیں۔

    بےقراری ‘چاہت‘ بےیقینی ‘طلب مجھے نہیں معلوم‘ اس کے چہرے پر آئی کیفیت کوکس لفظ سے بیان کروں۔

    میں وہ آنکھیں دیکھ رہا تھا‘ جو آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔

    اور وہ ہونٹ دیکھ رہا تھا جو جذبوں کی شدّت سے کپکپا رہے تھے۔

    ’’دیکھو! تم اب اسے دودھ نہیں پلاؤگی۔‘‘

    اس نے میری بیگم کی طرف منھ کر کے کہا اور فیصلہ دے دیا:

    ’’یہ میرے ساتھ رہےگی۔ میری بیٹی بن کر۔‘‘

    پھر وہ اسے اپنے کمرے میں لے گئی۔

    امّی جان یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں۔ کبھی ہنستیں ‘کبھی رو دیتیں۔ جب ذرا سنبھلیں تو گڑیا کی چیزیں سمیٹ کر کمرے سے نکل گئیں۔ چند لمحوں بعد بھابی کے کمرے کے دروازے کی چرچراہٹ سنائی دی۔ گویا امی سیدھی وہاں گئی تھیں۔

    ہمارے کمرے میں سناٹا گونج رہا تھا۔

    میں نے بیگم کو دیکھا وہ ابھی تک بند دروازے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا ہاتھ اس جگہ کو سہلا رہا تھا‘ جہاں تھوڑی دیر پہلے تک گڑیا لیتی ہوئی تھی۔

    میں نے اس جگہ کو چھوا ‘گڑیا کے بدن کی گرم گرم لپٹیں ابھی تک اٹھ رہی تھیں۔

    پتا نہیں کتنا وقت یوں ہی گزر گیا۔

    نہ اس نے کچھ کہا‘ نہ مجھے بولنے کی ہمت ہوئی۔

    میری ساری حسیات دوسرے کمرے کی سمت مرتکز تھیں۔ یوں کہ مجھے وہاں کی ہلکی ہلکی آواز تک سنائی دے جاتی تھی۔

    ایسا عام حالات میں ممکن نہ تھا۔

    مگر حیرت ہے میں اندازہ کر سکتا تھا کہ کون کمرے میں ادھر ادھر چل رہا ہے۔ اور کون اب گڑیا پر جھکا ہے۔ اور کون اس کے پوتڑے درست کر کے رکھ رہا ہے اور کون اس کے لیے فیڈ ر صاف کر رہا ہے۔

    دفعتاً گڑیا کے رونے کی آواز سنائی دی۔ بیگم نے تڑپ کر میری طرف دیکھا۔ وہ بھی غالباً ساری ساری وہیں تھی۔

    ’’سنیں‘‘

    ’’ہوں‘‘

    ’’گڑیا رو رہی ہے‘‘

    ’’ہاں‘ مگروہ چپ ہو جائےگی‘‘

    ’’دیکھیں‘‘

    میں نے اسے دیکھا۔

    ’’وہ یوں چپ نہیں ہوگی‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’اسے بھوک لگی ہوئی ہے۔‘‘

    اس نے آنکھیں بند کر کے یوں سر جھکا لیا جیسے اپنے اندر مچلتی دودھ کی دھاروں کو محسوس کر رہی ہو۔

    ’’امی فیڈر لے گئی ہیں‘ فیڈ بنا دیں گی۔‘‘

    ’’سنیں‘‘

    ’’ہوں‘‘

    ’’وہ ابھی تک رو رہی ہے‘‘

    ’’ہاں ‘مگر نہ جانے کیوں رو رہی ہے؟‘‘

    تشویش میرے اندر اترنے لگی۔

    ’’جاکر پتا کر لیں نا!‘‘

    ’’امی ہیں نا!۔۔۔ سنبھال لیں گی‘‘

    وہ چپ ہو گئی۔ مطمئن نہ ہو پائی تو چپ نہ رہ سکی۔

    ’’آپ خود دیکھ آتے۔‘‘

    تشویش میرے چہرے پر آ گئی مگر میں اپنی جگہ سے اٹھ نہ سکا۔

    ’’اس کے پیٹ میں درد ہے شاید‘‘۔

    ’’ہاں۔ شاید‘‘

    ’’جنم گھٹی پڑی ہے یہاں۔‘‘

    ’’اس سے کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’پیٹ درد کے لیے اچھی ہوتی ہے۔‘‘

    ’’امی ہیں نا! ضرورت ہوگی تو لے جائیں گی؟‘‘

    ’’مگر گڑیا ابھی تک رو۔۔۔‘‘

    اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ قدموں کی مدہم چاپ ہماری سمت تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ امی آرہی ہیں۔ دروازہ کھلا۔ بیگم نے امی کو دیکھا اور بے تابی سے کہا:

    ’’گڑیا رو رہی ہے ‘کیوں رورہی ہے میری بچی؟‘‘

    امی نے وہیں رک کر بہو کو دیکھا‘ پھر میری طرف نگاہ کی۔ کہا:

    ’’شاید پیٹ میں تکلیف ہے۔ گھٹی رکھی تھی‘ ادھر؟‘‘

    ’’یہ رہی‘‘

    میں نے جنم گھٹی اٹھا کر امی کو تھما دی۔

    امی نے ایک نظر ہم دونوں کو دیکھا اور کمرے سے نکل گئیں۔

    ہمارا دھیان پہلے کی طرح دوسرے کمرے میں جا پہنچا۔

    تھوڑی دیر کے لیے گڑیا چپ ہو گئی۔

    بھابی کی مدہم آواز آتی رہی۔ وہ گڑیا سے لاڈ کر رہی تھی۔

    ہم دونوں خاموش تھے۔

    خاموش رہے۔

    خدا جانے کتنے ہی لمحے اسی خاموشی میں گزر گئے۔

    گڑیا پھر رونے لگی۔

    ’’سنیں‘‘

    ’’ہوں‘‘

    ’’گڑیا پھر رو رہی ہے۔‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’وہ ان سے چپ نہیں ہوگی۔‘‘

    ’’ہو جائےگی۔‘‘

    وہ چپ ہو گئی‘ مگر گڑیا روتی رہی۔ حتّٰی کہ میں بے قراری سے کمرے میں ٹہلنا شروع ہو گیا۔

    ’’وہ چپ نہیں ہوگی‘‘

    اس نے دہرایا۔ تشویش میرے لبوں تک آ گئی۔

    ’’ہاں۔۔۔ شاید‘‘

    اس نے میری تشویش سے حوصلہ پکڑا اور واضح بے قراری سے بولی۔

    ’’وہ اسے چپ نہیں کرا سکیں گے۔‘‘

    میں چڑ گیا۔

    ’’ارے بابا امی ہیں نا!‘‘

    وہ میرے لہجے کی پروا کیے بغیر بولتی چلی گئی۔

    ’’امی ہیں تو مگر۔۔۔‘‘

    میں تقریباً چیخ پڑا۔

    ’’مگر کیا؟‘‘

    میرے لہجے کی کاٹ دیکھ کر اب کے وہ چپ ہو گئی۔

    گڑیا کے رونے کی آواز آتی رہی۔

    مجھے بھی یقین ہو گیا وہ ان سے چپ نہیں ہوگی۔ میں نے اسے دیکھا وہ اب کچھ بھی نہیں کہ رہی تھی مگر اس کی آنکھیں جل تھل تھیں۔

    مجھے اپنے لہجے پر افسوس ہونے لگا۔

    ’’سنو‘‘

    ’’ہوں‘‘

    ’’جب بھابی نے گڑیا کو اپنی بچی بنا لیا ہے تو ہماری مداخلت یہ تاثر دےگی کہ شاید ہم اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔‘‘

    اتنا کہتے کہتے میرا گلا رندھنے لگی۔

    وہ چپ رہی۔

    میرے پاس کہنے کو اور کچھ نہ تھا۔

    گڑیا کے رونے بھابھی کے بہلانے اور امی کے دھیرے دھیرے بولنے کی آوازیں آتی رہیں۔

    اس کمرے کی خاموشی دوسرے کمرے کی ساری آوازوں کو جذب کرتی رہی۔

    اسی کیفیت میں جانے کتنی رات گزر گئی تھی ‘مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ باہر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں جان گیا ‘امی اور بھابی دونوں آ رہی تھیں۔

    ساتھ ایک مہک تھی‘ جو دروازے کی درزوں سے گھس کر اندر آرہی تھی۔

    یہ گڑیا کی مہک تھی۔

    دروازے پر ہلکی سے دستک ہوئی۔

    میں نے آگے بڑھ کر دروازہ چوپٹ کھول دیا کہ وہاں تک نہ جانے میں پہلے ہی کیسے پہنچ گیا تھا۔

    بھابی کی گود میں گڑیا تھی اور آنکھوں میں آنسو۔

    پیچھے امی تھیں۔

    میں ایک طرف ہو گیا۔

    وہ اندر آ گئی اور میری بیگم کے پہلو میں گڑیا کو لٹا دیا۔

    بیگم نے اچک کر روتی گڑیا کو سینے سے لگا لیا ور قمیض اٹھا کر اندر گھسیڑ لیا۔

    روتی گڑیا چپ ہو گئی۔

    مگر بھابی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔

    کسی میں ہمت نہ تھی کہ اسے حوصلہ دیتا۔

    آٹھ برس ادھر کی بات ہے مگر مجھے ذرا ذرا سب یاد ہے۔

    بھولتا تو کیسے ‘کہ ایک ایک لمحہ میرے اندر منجمد ہوتا رہا ہے۔

    ہمیں بچوں کے ساتھ دوسرے شہر منتقل ہونا پڑا تھا کہ میرا تبادلہ وہاں ہو گیا تھا۔

    بڑی اور چھوٹی ہم ساتھ لے آئے مگر منجھلی کو وہیں چھوڑ دیا۔

    بھابی اور بھائی نے اسے ڈھیروں محبت دی؛ اتنی کہ شاید ہم بھی اپنی بچیوں کو نہ دے پائے ہوں گے۔

    ہم مطمئن ہو گئے۔

    جب کبھی ہم جاتے تو شروع شروع میں وہ ہمارے ساتھ چلنے کی ضد کرتی۔ بھابی نے بتایا ‘جونہی ہم نظروں سے اوجھل ہوتے تھے‘ وہ بہل جاتی اور کھلونوں سے کھیلنے لگتی تھی۔

    بیگم اکثر کہتی:

    ’’بڑے حوصلے والی ہے ہماری بچی‘‘

    سچ تو یہ ہے کہ بیگم کا بھی بڑا حوصلہ ہے۔ اس نے ان آٹھ برسوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزارا کہ منجھلی کو یاد نہ کیا ہو اور اپنی آنکھیں نہ بھگوئی ہوں مگر مجھ سے شکوہ نہیں کیا کہ اسے کیوں دے دیا ۔جب کہ میں اندر ہی اندر سے کبھی کبھار پچھتا جاتا ہوں۔

    جب جب منجھلی مجھے یاد آتی ہے میرے اندر ہی اندر سے کچھ کٹنے سا لگتا ہے۔

    مگر میں نے کہا نا! بھابھی اور بھائی نے اسے اتنی محبت دی ہے کہ۔۔۔

    بھائی اور بھابھی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ جب سے ابا جی فوت ہوے ہیں ان دو ہی نے نہ صرف سارے بھائی بہنوں کو ‘بل کہ سب عزیز رشتہ داروں کو بھی محبت کی ڈوری میں تسبیح کے موتیوں کی طرح پرو رکھا ہے؛ ورنہ خالی حویلی اب تک بھائیں بھائیں کر رہی ہوتی۔

    ملازمت ‘بچوں کے سکول‘ دوست احباب ‘یہ کام‘ وہ کام۔ میرے پاس مصروفیت کے سو بہانے ہیں۔ میں ان میں الجھ جاتا ہوں اور الجھا ہی رہتا ہوں۔

    خود کو اس دلدل سے نکالنا چاہوں بھی تو نہیں نکال پاتا۔

    ایسے میں وہ دونوں آ جاتے ہیں‘ منجھلی کو لے کر۔ ہمیں ملانے۔

    پچھلے ہفتے بھی وہ آئے تھے اور یوں لگتا ہے ابھی تک گئے نہیں ہیں۔ اندر ہی اندر میرے دل میں بس گئے ہیں۔

    وہ دونوں بھی اور منجھلی بھی۔

    میری بڑی بچی سیانی ہو گئی ہے۔ اتنی سیانی کہ منجھلی کو بتا سکے:

    ’’اصل میں تم ہماری بہن ہو‘‘

    گڑیا بھی اس کی پڑھائی ہوئی پٹی پڑھنے لگی ہے۔

    ’’جب تم ہماری بہن ہو تو ہمارے پاس کیوں نہیں ہو؟‘‘

    منجھلی کہتی ہے۔

    ’’مجھے معلوم ہے کہ ہم بہنیں ہیں۔ میرا دل کرتا ہے‘ میں تم دونوں کے پاس رہوں مگر دیکھو نا ! امی ابو کی کوئی اولاد نہیں ہے نا۔ پھر ان کے پاس کون رہےگا؟ وہ کسے بیٹی بنائیں گے؟ اور کسے اتنا ڈھیر سارا پیار کریں گے؟‘‘

    میری سسکاری نکل جاتی ہے۔

    وہ باتیں کرتی رہتی ہیں۔ میں اپنی سماعتیں بند کر کے دوسری سمت دیکھنے لگتا ہوں۔ ادھر بھابھی اور بیگم نے بھی شاید کچھ سن لیا ہے‘ تبھی تو وہ دونوں اپنے دوپٹوں سے آنکھیں صاف کر رہی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے