مراجعت کا عذاب
زریاب خان چلتے چلتے تھک گیا تھا۔ ان گنت ستارے اس کے ذہن کے آکاش پر چمکے اور ٹوٹے تھے ‘ہمت بڑھی اور دم توڑ گئی تھی‘ قدم اٹھے اور لڑکھڑائے تھے۔ اس کے مقابل امیدوں کے لاشے صف در صف کفن پہنے لیٹے تھے۔
دفعتاً امید کی ایک نئی مشعل جل اٹھی۔ اس نے جانا‘ روشنی دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے۔ اس کے قدموں میں مسافت کی نئی گرمی بھر گئی اور وہ ایک نئی ڈگر پر پاؤں دھرنے لگا۔ ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا ہو گا کہ وسوسے کا سانپ اس کی راہ روک کر پھنکارا۔
کہیں اس ڈگر کے اس سرے پر ناکامی منھ پھاڑے نہ کھڑی ہو؟
وہ رکا۔ اس کے قدموں کی چاپ بھی رک گئی۔ کہیں سے تھکن کا بھاری پتھر لڑھکا اور اس پر آن گرا۔ اس نے دیوار کا سہارا لیا ‘ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ سب اپنی دھن میں مگن گزر رہے تھے۔ تب اس نے اوپر تلے کئی گہری سانسیں لے کر سینے کو جھنجھوڑا تو ایک موہوم امیدنے سر اٹھایا۔ سانپ گھات لگائے پڑا رہا اور اس نے قدموں کو آگے بڑھنے پر آمادہ کر لیا۔
دریاے سندھ کے بہتے پانیوں کی دوسری جانب منکور تھا اور اس طرف خوشحال گڑھ کاخوب صورت ڈاک بنگلہ۔ خوشحال گڑھ کے حسن کے دامن میں فقط دریا کی شور مچاتی لہریں‘ قدیم پل اورسرخ اینٹوں سے بنا ہوا ڈاک بنگلہ کو لیا جاسکتا ہے۔ آگے بڑھیں تو سارا سحر ٹوٹ جاتا ہے کہ آگے بل کھاتی سڑک کی دونوں اطراف میں محض بانجھ بھوری پہاڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔
جہاں ان بےلباس بھوری پہاڑیوں کے بدن پر کہیں کہیں سبزے کی دھجی نظر آنا شروع ہوتی ہے ‘وہاں ایک چیک پوسٹ ہے۔ یہاں سے لگ بھگ پچھتّر کلو میٹر چلنے کے بعد دائیں جانب مزید چار گھنٹوں کی مسافت پر نظر اوپر اٹھائی جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ننگی پہاڑیوں نے خوب صورت سبز فراک پہن لیا ہے۔ یہیں دائیں طرف بہت نیچے ایک ندی میٹھے سروں میں بہتی ہے۔
اس طرف آنے والوں کو پہلے پہل ندی نظر نہیں آتی مگر جونہی عموداً اٹھے اس پہاڑ کا پہلو آتا ہے جس کے قدموں میں زرد اور سرخ جنگلی پھولوں کے گچھے لہکتی بیلوں پر ٹنگے ‘سبز انگر کھا پہنے‘ پہلو بہ پہلو لیٹی چٹانوں کے گال چومتے اوپر بڑھتے ہیں‘ ندی اپنی چھب سے سامنے آ جاتی ہے۔ نیچے گہرائی میں بہتی ندی کے بہت اوپر بالکل وہاں ‘جہاں سے اس کا
مشاہدہ ہو رہا ہے‘ وہیں بادل اڑ اڑ کر نگاہوں کے آگے مہین سا پردہ تان دیتے ہیں۔ یوں ادھ کھلے حسن کا یہ منظر لہو کی گردش کو تیز کر دیتا ہے۔
سڑک سیدھی ڈھلوان میں اترتی ہوئی ندی تک پہنچتی ہے اور ندی کے سنگ سنگ چلتی ہوئی اس خوب صورت ہٹ تک پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے جس تک پہنچنے کے لیے یہ سڑک بنائی گئی تھی۔ اس سے آگے محض راستے کا گمان ہوتا ہے۔ ڈھلوانوں پر رینگتا گرتا اچھلتا یہ راستہ ‘ان منھ زور گھوڑوں کی ٹھوکروں سے بنا ہے‘ جن پر زور آور ‘خان گل باز خان اور اس کے کارندے سوار ہوتے ہیں۔ یہ راستہ ان بے بس لولوگوں کا مرہون منت بھی ہے ‘جن کے قدم ازل سے اس کی پیشانی چمکانے کی ناکام سعی کر رہے ہیں‘ اس لیے کہ شاید اس راہ سے اچھے دنوں کی نوید قدم بڑھاتے ان تک آ پہنچے۔
زریاب جب وہاں پہنچتا ‘جہاں پختہ سڑک دم توڑتی ہے‘ ٹھہر جاتا۔ اس کے ذہن میں اس مقام ‘بچپن اور لڑکپن کی کئی حسین ساعتیں محفوظ تھیں۔ وہ وہاں پہنچتے ہی ان یادوں میں محو ہو جاتا اور اس کا چہرہ کھل اٹھتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے شبنم کی پھوار میں غنچہ پھول بنے اور مسکرا دے۔ شبنم کے پہلے قطرے اور پھول کے مسکرانے تک کا عمل جا چکی ساعتوں کے ایک ایک جزو کا حاصل تھا۔
زریاب جب بھی یہاں آتا سستاتا‘ اپنے وجود کو منظم کرتا ‘روح میں گرمی بھرتا‘ خواب بنتا‘ خوابوں کے اجلے کینوس پر تعبیر کے خوب صورت پھول بناتا اس ندی کے سحر میں خود کو گم کر دیتا جو اپنے نیلگوں پانی سے میٹھے سر بکھیرتی۔ وہ ان سروں کو اپنے لہو میں رچاتا اور دھیرے دھیرے اس روش قدم بڑھاتا ‘جو بیضوی محرابوں والے برآمدوں کے درمیان گھرے ہٹ سے نکل کر اسی عموداً اٹھی پہاڑی کے عقب کی طرف جاتی ہے‘ جس کے قدموں میں زرد اور سرخ جنگلی پھولوں والی لہکتی بیلیں اوپر اٹھتی ہیں۔ اس کے دائیں ہاتھ ندی کا شفاف پانی پتھروں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوے ٹھنڈے میٹھے چھینٹے اڑاتا ہے تو بائیں جانب پہاڑی کا پہلو سیدھا آسمان کی سمت یوں اٹھا ہوتا ہے جیسے کسی نے صدیوں کی محنت ‘ریاضت اور عقیدت سے اسے تراشا ہو۔ اب جو نظر اٹھتی تو منظر کچھ اور حسین ہو جاتا۔ ندی کے دوسرے سرے پر‘ جہان دو پہاڑیاں باہم مل رہی ہیں ‘انہی کے سنگم سے پانی چادر کی صورت نیچے گر رہا ہوتا۔ اسی آبشار کے مقابل ندی کے اس طرف ذرا ڈھلوان میں اتر کر ترچھی چھتوں والا ایک ننھّا منا گھر تھا۔ کوئی اجنبی اس جانب آ نکلتا تو اسے یہ گھر اس حسین منظر میں ذرا نہ جچتا تھا مگر زریاب کے لیے تو جیسے یہ منظر اس گھر کے بغیر ادھورا تھا۔
زرجان دروازے پرہی اس کا استقبال کرتی۔ وہی زرجان جو چنار کی صورت دراز اور جنگلی پھولوں کی طرح سرخ تھی۔ اس لہجے میں ندی کی مدھر تان اور نگاہ میں بادلوں کی سی ٹھنڈک ہوتی۔ زریاب اسے دیکھتا تو روح کی گہرائیوں تک سرشار ہو جاتا۔
لیکن جب وہ آخری مرتبہ یہاں آیا تھا تو ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس نے خود کو دکھ کی گہرائیوں میں اترتے پایا تھا۔ آنکھوں کے پیالے آنسوؤں سے بھر گئے تھے۔ قویٰ مضمحل ہوے تھے اور سینے میں بھی کچھ ٹوٹا تھا۔
کچھ بھی تو نہ بدلا تھا۔ گرتی آبشار ‘بہتی ندی‘ جنگلی گھاس‘ لہراتی بیلوں پر جھولتے پھول ‘برآمدوں میں گھیراہٹ‘ ترچھے چھتوں والا ننھا سا مکان اور اس کے دروازے پرکھڑی زرجان۔ مگر جب وہ آخری مرتبہ آیا تھا تو اسے پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا تھا کہ اس سارے منظر میں ایک چیز اضافی تھی اور وہ اضافی وجود خود اس کی اپنی ذات تھی۔
وہ پھول جو شبنم کی پھوار سے مسکراتا ہے ‘وہ اس مسکراہٹ کے بعد ان لمحوں کے بھی قریب ہو جاتا ہے‘ جب تیز ہواؤں کی زد میں آکر اس کی پتی پتی کو بکھر جانا ہوتا ہے۔ اس نے سوچا‘ پھول پر یہ جاں گداز لمحہ کتنا گراں ہوتا ہوگا۔ اس نے تمنا کی کاش اس کی حیات کے عناصر اس ہولناک لمحے کے انکشاف سے قبل ہی منتشر ہو چکے ہوتے۔
آخری مرتبہ وہ یہاں اس روز سے محض ایک رات قبل آیا تھا‘ جس روز وہ یہاں سے میلوں دور ایک نئی ڈگر پر چلا تھا اور وسوسے کا سانپ گھات لگائے بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے سینے کو جھنجھوڑا تھا اور اپنی چھاتی سے ایک نئی امید نچوڑ لی تھی۔ اسی امید کے سہارے اپنے جھجکتے قدموں کو مہمیز کیا تھا۔
زریاب سرکلر روڈ پر بڑھ رہا تھا۔ اس کی نئی منزل گلبرگ تھی ۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس کے اعصاب جواب دے چکے تھے۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ اتنا تھک کیو ں گیا تھا۔ پہاڑی راستوں پر پہروں دوڑتے ہوے بھی اس کی سانسیں نہ پھولتی تھیں مگر آج اس کشادہ ہموار سڑک کے پہلو میں آہستہ آہستہ چلتے ہوے اسے لگ رہ تھا ‘سانسوں کا یہ زیروبم اس کا سینہ پھاڑ دےگا۔ زریاب نے اپنی مضبوط چھاتی کو زور سے دبایا۔ یوں ‘جیسے وہ اپنی سانسوں کو وہیں جما رہا ہو جہاں سے اکھڑی تھیں۔ ۱۴۲۔ اے: نیچے نام تھا؛ پیرزادہ اکبر فیروز۔ اس عبارت کی تختی اس کوٹھی کے بڑے گیٹ پر لگی تھی‘ جہاں زریاب کو پہنچنا تھا اور اس کی منزل کے درمیان فقط کچہری بازار ‘وکیلوں والی گلی اور گلبرگ کی چند کوٹھیاں تھیں۔
پیرزادہ اکبر فیروز کے بیٹے معیز اکبر کو زریاب خان نے پہلی مرتبہ یونیورسٹی کے زمانے میں دیکھا تھا۔ گوری چٹی شفاف جلد‘ نفاست سے ترشے بال ‘درمیانہ قد اور بھرا بھرا جسم۔ پہلی نظر میں وہ اسے ساری کلا س سے منفرد لگا تھا۔ وہ رفتہ رفتہ اس کے قریب ہوتا چلا گیا۔ زریاب پہاڑی روشوں پر چل کر یہاں تک آیا تھا‘ لہجہ ناملائم‘ اکہر ا بدن ‘اٹھتا قد اور ڈھیلا ڈھالا لباس۔ مگر رفتہ رفتہ اس نے معیز کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ لباس میں نفاست آگئی‘ لہجے میں ملائمت اور سلجھاؤ آیا‘ رکھ رکھاؤ ‘ آداب‘ قرینہ وقت کے ساتھ ساتھ سب میں نکھار آتا چلا گیا۔
یہی وہ دورانیہ بنتا ہے کہ جب معیز کے قدم لڑکھڑا گئے تھے۔ وہ اس کے رابطے اس گروہ کے ساتھ ہو گئے تھے جو عارضی سکون کی پڑیا دیتے اور مستقل سکون کے ساتھ ساتھ سب کچھ لوٹ لے جاتے۔ زریاب نے معیز کو اس حال میں دیکھا تو تو بہت سمجھایا۔ جب وہ باز نہ آیا تو دکھ کا پیرہن پہن لیا تھا۔
وہ اپریل کی ایک سہانی شام تھی‘ جب زریاب نے فیصلہ کیا کہ وہ معیز کو بچا لینے کی ایک اور کوشش کرےگا۔ شام ڈھلے وہ اس تک پہنچا۔ یونہی گھومنے کے بہانے اسے لارنس گارڈن لے آیا۔ یہیں ایک گوشے میں دونوں گھاس پر مقابل بیٹھ گئے۔ پورے دنوں کا چاند قدرے اوپر نکل آیا تھا۔ اس کی نورانی ٹھنڈی کرنیں نیچے اتر رہی تھیں۔ معیز کے عقب میں پھولوں کی قطار دور تک چلی گئی تھی۔ گھاس پر اوس کے قطرے چمک رہے تھے۔ اترتی چاندنی اور بہتی ہوا کے سنگ پھولوں کی مہک بھی محو خرام تھی۔
وہ دونوں چپ تھے۔
زریاب نے پہلے چاند کو دیکھا ‘پھر خوش رنگ پھولوں کا لمس نگاہوں پر محسوس کیا۔ خوشبو کے ذائقے کو چکھا اور تب معیز کو دیکھا جس کی ہتھیلی گیلی گھاس پر پھیلی ہوئی تھی۔ پھیلی ہتھیلی کے گرد شبنم کے قطروں نے بہم مل کر روشنی کا ہالہ بنایا ہوا تھا۔ زریاب نے سکوت توڑا اور لفظوں کی وہ تمام صراحیاں انڈیلیں جو اس کے خیال میں تاثیر کی شراب سے لبالب بھری ہوئی تھیں۔ پھر وہ ٹھہرا اور معیز کو دیکھا تو اسے لگا معیز کا جام خالی تھا۔ اپنے لفظوں کے بانجھ پن پر وہ رودیا۔ اس لمحے ان دیکھے چچا اطلس خان کی یاد اس کے دل میں ترازو ہو گئی۔
اطلس خان ‘زبر خان اور ریشم خان تینوں بھائی تھے‘ زبر خان زرجان کا باپ تھا اور ریشم خان زریاب کا ‘جب کہ اطلس خان ان دونوں سے چھوٹا تھا مگر تھا بلا کا حسین اور شہہ زور۔ جب زریاب پیدا ہوا تھاتو اطلس خان کو مرے پورا ایک سال گزر چکا تھا۔ مگر جس طرح وہ مرا تھا دونوں بھائیوں نے نہ صرف اسے عمر بھر یاد رکھا ‘بل کہ اس کی کہانی اپنی اولادوں کو بھی سنائی۔ زریاب نے جب اطلس خان کی دلگداز داستان سنی تو سب کچھ دل پر محسوس کیا‘ لہو میں اتارا اور روح میں سمولیا تھا۔
جہاں پختہ سڑک دم توڑتی ہے اور موہوم راستہ ڈھلوانوں پر اچھلتا کودتا آگے بڑھتا ہے ‘وہیں سے خان گلباز خان کی ملکیت شروع ہوتی ہے۔ جب یہ اچھلتا کودتا راستہ تھک جاتا ہے اور دم سادھ کے سیدھا چلنے لگتا ہے تو اس کے دونوں طرف حد نظر تک کھیت پھیل جاتے ہیں۔ جن میں فصل لہلہا رہی ہو تو عجب سی باس چہار سو پھیلی ہوتی ہے۔
کھیت اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسان ‘ڈھورڈنگر اور وہ گاؤں جو کھیتوں کے بعد آتا ہے‘ اس کے مکان اور مکین ‘چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں اور بچے‘ سب کچھ خان گلباز خان کی ملکیت ہے اور سب کی زندگیوں کا مطمع نظر فقط بڑے خان کی خوشنودی ہے۔
جب حکومت کی طرف ہیروئن کی فصل تلف کرنے کا حکم نامہ جاری ہوا تھا تو ہر جانب اس پر عملدرآمد ہوا ‘مگر جہاں سے سڑک دم توڑتی ہے اور موہوم راستہ سر اٹھاتا ہے‘ وہیں حکم نامہ ٹھٹھر کر کھڑا ہو گیا تھا۔ بڑے خان کے کھیت یونہی لہلہاتے رہے۔ وقت پر فصل کاشت ہوئی اور وقت پر اس کا معاوضہ بڑے خان کے ہاتھوں میں پہنچا۔
ریشم خان ‘زبر خان اور اطلس خان تینوں اسی خان گلباز خان کی ملکیت تھے‘ جسے وہ بھی دوسروں کی طرح بڑا خان کہتے تھے۔ اور تینوں دل و جان سے اس کے لیے سونا اگا رہے تھے۔ ہر فصل کی برداشت پر انہیں اتنا معاوضہ دیا جاتا کہ بہ مشکل اگلی فصل تک ساتھ دیتا۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا کہ انہیں بڑے خان سے قرض لینا پڑتا تھا۔
وقت کی گاڑی یوں ہی آڑی ترچھی چل رہی تھی۔
سب اس پر متفق تھے کہ حالات کی زلفوں کو سنوارا نہیں جا سکتا تھا۔ حد تو یہ کہ سب ہی ایک دوسرے سے خوفزدہ تھے۔ وہ چاہتے ہوے بھی بڑے خان کی خلاف کوئی لفظ زبان پر نہ لاتے تھے۔
اچانک ایک حادثہ ہوا اور وقت کی جھیل میں ارتعاش پیدا ہوا۔
زبر خان اور ریشم خان نے یہ دیکھ کر سٹ پٹا گئے کہ ان کا چھوٹا بھائی اطلس خان اس زہر کا رسیا ہو چکا تھا‘ جسے وہ بڑے خان کے لیے نسل در نسل اگا تو رہے تھے مگر خود اس دشمن جان سے دور رہے تھے۔ دونوں بھائیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اطلس خان کو روکنا چاہا مگراس نے رکنا تھا نہ رکا۔ یہ نشہ نہ تھا ایسی دلدل تھی کہ اطلس خان نے ایک دفعہ اس میں قدم رکھا تو نیچے ہی نیچے اترتا چلا گیا۔ بہت نیچے موت کی وادی تھی جو اسے گود لینے کی منتظر تھی۔ سو اس کا انتظار ختم ہوا۔
جب اطلس خان پیوند خاک ہو چکا تو زبر خان نے اس کی قبر کی مٹی ہاتھوں میں تھامی اور عہد کیا:
’’ہم یہ موت کی فصل پھر نہ اگائیں گے‘‘
یہ پہلا باغیانہ جملہ تھا جو اس فضا میں بولا گیا تھا۔
سب چپ تھے اور حیرت سے زبر خان کو دیکھ رہے تھے۔ تب ریشم خان آگے بڑھا اور اس نے اپنا ہاتھ زبر خان کے منھ پر رکھا کر کہا تھا:
’’جانتے ہو تم کیا کہ رہے ہو؟‘‘
زبر خان نے ریشم خان کا ہاتھ اپنی مضبوط ہتھیلی میں تھاما اور جواب دیا:
’’ہاں جانتا ہوں۔ مجھ میں اتناحوصلہ نہیں کہ دکھ اور جبر کی کٹار پر ننگے پاؤں چلتا چلا جاؤں۔ میں نامعلوم راستوں پر زندگی کے تعاقب میں قدم بڑھاؤں گا۔ چاہے اندیشوں کی کھائیاں مجھے نگل ہی لیں۔‘‘
پھر جوں ہی کچھ اندھیرا پھیلا‘ زبر خان نے اپنی بیوی پلوشے کا بازو تھاما اور رات کی تاریکی میں اس راستے پر چل پڑا جس کے دوسرے سرے پر پختہ سڑک دم توڑ دیتی تھی۔ اگلی صبح بڑے خان کا آدمی ریشم خان کے دروازے پرتھا۔ جب ریشم خان بڑے خان کے سامنے پیش ہوا تو اس کا بدن بادبان‘ طوفانی لفظوں کی زد میں آکر لرز رہا تھا۔ بڑے خان کے چہرے پر غصہ سانپ بن کر پھنکارنے لگا اور لفظ تیر بن کر برسنے لگے تھے۔ دفعتاً وہ چپ ہوگیا۔ کچھ دم لینے کے بعد‘ لہجے کا پینترا بدلا اور کہا:
’’کاش تم اشراف خان کی طرح ہوتے ‘میں اس کی وفاداری پر آج بھی فخر کرتا ہوں‘ میرے ایک اشارے پر اپنی جان بھی قربان کر سکتا تھا اور جوان ایسا کہ جوانی پہ رشک آتا۔ فصل اٹھانے کا وقت ہوتا تو اس کے بازو فصل کو یوں لیتے جیسے آگ سوکھی لکڑی کو لیتی ہے۔ اور سیانا اتنا کہ زمین ٹٹول کر کہ دیتا: مٹی سونا اگلے گی یا بیج بھی لے ڈوبےگی۔ تب میں نے خوش ہو کر اس کے ذمہ بارہ ایکڑ لگائے تھے اور کہا تھا: تمہیں اسی حساب سے محنتانہ ملےگا۔ میرے کارندوں نے مجھے تعجب سے دیکھا تھا لیکن وقت نے میرے فیصلے کو درست ثابت کیا تھا۔
مگر تم بھائیوں پر تو جیسے تمہارے باپ کا سایہ بھی نہیں پڑا۔‘‘
بڑے خان کا لہجہ ایک مرتبہ پھر بدل چکا تھا:
’’زبر خان کو جراْت کیسے ہوئی کہ اس نے گاؤں سے باہر قدم نکالا۔ اطلس خان کو میں نے نہیں مارا۔ اسے مرنا تھا‘ سو مر گیا۔ کان کھول کر سنو‘میں اپنی زمینوں کو بنجر نہیں ہونے دوں گا۔ اب تم صرف دو ایکڑ زمین کاشت کروگے اور اسی کا معاوضہ تمہیں ملےگا۔۔۔ اور یاد رکھو اب کوئی شکایت مجھ تک پہنچی تو وہ سزادوں گا کہ تمہاری نسلیں بھی نہ بھول پائیں گی۔ میں چاہتا تھا کہ تم سے ساری زمین چھین لوں اور تمہیں بھوکا مرنے دوں‘ مگر مجھے اشراف خان کی وفاداری کا پاس ہے۔۔۔‘‘
جس دن وہ بڑے خان سے مل کر آیا تھا اس دن کے بعد ریشم خان کو کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
اس واقعہ کے ٹھیک ایک سال بعد ریشم خان کے گھر زریاب پیدا ہوا ۔ وہ بہت خوش ہوا اوراس کے اعصاب کا تناؤ ٹوٹ گیا۔ اس کے من میں اس خواہش نے سر اٹھایا کہ یہ خبر کسی بہت ہی پیارے کو سنائے۔ تب وہ بھاگا بھاگا اطلس خان کی قبر پر گیا تھا۔ وہ جونہی وہ وہاں پہنچا تھا‘ اس کے بدن سے خوشی منہا ہو گئی تھی اور اس کا چہرہ تپتی لو کی زد میں آئے پھول کی طرح لٹک گیا۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور اپنی دھڑکنوں کو بے ہنگم ہوتے محسوس کیا۔ وہ قبر کے سرہانے بیٹھ گیا حتی کہ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔
وہ آہستہ آہستہ اس موہوم راستے پر ہو لیا جس کے دوسرے سرے پر پختہ سڑک دم توڑتی تھی۔ جہاں آبشار ندی میں گرتی اور پہاڑ عموداً اوپر کو اٹھتا تھا۔ جہاں پھولوں سے لدی ہوئی جنگلی بیلیں جھوم کر سبز گھاس کا انگھرکھا پہنے محو استراحت چٹانوں پر لوٹتی تھیں۔ کہ وہیں ایک خوبصورت ہٹ تھا۔ بیضوی محرابوں والے برآمدوں والے اس ہٹ میں آنے والے زیادہ تر غیرملکی ہوتے۔ زبر خان کو ہٹ کی صفائی دیکھ بھال اور سیاحوں کی خدمت کا معقول معاوضہ مل جاتا تھا۔ یہیں عموداً اٹھی پہاڑی کے عقب میں ‘ایک چھوٹے سے گھر میں‘ وہ یوں رہنے لگا تھاکہ یہیں کا ہو کررہ گیا تھا۔
یہاں آنے والوں میں کئی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آتے۔ یہاں کے حسن کو محسوس کرتے۔ تازہ دم ہوتے اور خوش گوار یادوں کے ساتھ لوٹ جاتے تھے۔ تاہم کچھ ایسے بھی ہوتے جو خالی یادوں کی پوٹلی اٹھا کر ساتھ نہ لے جانا چاہتے تھے۔ چناں چہ وہ اسی موہوم راستے پر قدم بڑھاتے ‘پھر دائیں کو پلٹ جاتے کچھ اور آگے بڑھتے ہوے شمشیر خان کے ڈیرے پر پہنچتے جو بڑے خان کا خاص کا رندہ تھا۔ جو کچھ لینا دینا ہوتا‘ اس سے لیتے دیتے اور واپس پلٹ جاتے۔ زبر خان نے اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہ رکھا ہوا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ بڑے خان کو اپنی سرحد پر زبر خان کی موجودگی نہ کھٹکی تھی۔
ریشم خان جب زبر خان اور پلوشے کے ہاں پہنچا تو دونوں کے پاؤں خوشی سے زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ جب اس نے زریاب کے پیدا ہونے کی خبر سنائی تو زبر خان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور پلوشے دھم سے اس کے قریب جاکر بیٹھ گئی اور تجسس سے زریاب کی شکل و صورت اور قد بت کے بارے میں بہت سے سوال کر ڈالے۔ تب ریشم خان نے بتایا:
’’بس یوں سمجھ لو وہ اطلس خان کی طرح لگتا ہے‘‘
یہ سن کر زبر خان کے چہرے پر پہلے تو خوشی کی پھوار پڑی۔ دوسرے ہی لمحے تشویش کی کالی گھٹا اس کے چہرے پر چھا گئی۔ وہ منھ ہی منھ میں بڑبڑایا:
’’اطلس خان‘‘
رنج کی سولی پر چڑھے اطلس خان کے نام کو ریشم خان نے سنا تو تشویش کا تیر کمان سے نکلا اور اس نے جانا جیسے اس تیر کا رخ اس کی سمت تھا۔ تب تینوں نے کئی لمحوں کے لیے چپ کا روزہ رکھا تھا۔ اور جب تینوں نے خامشی کا جالا توڑنا چاہا تو یوں لگتا تھا‘ لفظوں کی فصل اجڑ چکی تھی۔ پھر ریشم خان وہاں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا۔
وہ رات کی تاریکی میں آیا تھا اور رات کی تاریکی میں پلٹ گیا۔
جب ریشم خان کے گھر گل مکئی پیدا ہوئی تو بھی ریشم خان یہ خبر زبر خان کو سنانا چاہتا تھا مگر اپنے گھر کی دہلیز ہی سے کچھ سوچ کر واپس پلٹ گیا۔ اس دن کہ جب زریاب اپنے ننھے منے قدموں سے چل کر اس کے پاس آیا اور اپنے ننگے پاؤں ریشم خان کے بھاری بھرکم جوتوں میں ڈال کر خوشی سے تالیاں بجائیں‘ تب وہ اچھل کر یوں کھڑا ہو گیا جیسے اس نے غلطی سے بجلی کے ننگے تاروں کو چھو لیا ہو۔ اس رات اس نے اطلس خان کو پھر یاد کیا۔خوب رویا اور اگلے روز گھر سے بالکل نہ نکلا۔ پھر جب رات اتری تو زریاب کو ساتھ لے کر اپنی دہلیز کی جانب یوں بڑھا کہ چند ہی لمحوں بعد اس کے قدم موہوم راستے کو روند رہے تھے۔
ریشم خان کی بیوی زمرد جان نے اپنے شوہر کی باتوں کو غور سے سنا تھا اور ایک ایک لفظ سے اتفاق کیا تھا۔ اپنے کلیجے کو ہاتھوں سے تھاما تھا اور بیٹے پر آنسوؤں کی بارش کی تھی۔ محبت کے لفظ اگلے تھے اور دعاؤں سے رخصت کیا تھا۔
اور جب ریشم خان اپنے بیٹے کو لے کر زبر خان کے ہاں پہنچا تو وہ بہت خوش ہوا اور ریشم خان کے فیصلے کو سراہا۔ پلوشے نے زریاب کو سینے سے لگا یا اور اپنی دو ماہ کی بچی زرجان‘ ریشم خان کے سامنے کر دی۔ تب ریشم خان کا دل بہت زور سے دھڑکا اور آنکھوں کے جام خوشی کے آنسوؤں سے جل تھل ہو گئے۔ زبر خان اور پلوشے کی شادی کو چھ برس بیت چکے تھے اور یہ ان کے گھر کی پہلی خوشی تھی۔ ریشم خان بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ایک مرتبہ پھر لفظوں کی تتلیاں اس کی گرفت سے نکل گئیں۔ وہ لکنت زدہ لہجے میں‘ بڑے بےڈھنگے پن سے مبارک باد کا لفظ لڑھکا رہا۔ اس کیفیت کو دیکھ کر زبر خان اور پلوشے سے بہت محظوظ ہوے اور خوشی سے قہقہے لگا ئے۔ تینوں کے دلوں سے کچھ وقت کے لیے بوجھ کا پتھر لڑھک گیا تھا۔ ریشم خان کو یاد آیا؛ اسے بھی گل مکئی کی خبر سناناتھی۔ اس شب وہ ان کے ہاں رک گیا اور وہ رات بھر باتیں کرتے رہے۔
ابھی پو نہ پھٹی تھی کہ وہ واپس ہو پڑا۔ گاؤں پہنچتے پہنچتے دھوپ شدّت سے چمکنے لگی۔ ریشم خان کے گھر پہنچنے سے بہت پہلے زریاب کو زبر خان کے حوالے کرنے کی خبر ‘اس کی دہلیز سے نکل کر‘ بڑے خان کی حویلی میں پہنچ چکی تھی۔
بڑا خان اس کا منتظر تھا۔
ابھی گھر داخل ہوا ہی تھا کہ اسے بڑے خان کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ تب اسے لگا جیسے یہ زمین اس کے لیے تنگ ہو گئی تھی۔ وہ سہما سہما بڑے خان کے سامنے پیش ہوا تو اسے بڑے خان نے اپنا اٹل فیصلہ سنا دیا۔
’’آج کا سورج غروب ہونے سے پہلے ‘ریشم خان‘ تمہیں یہ گاؤں چھوڑنا پڑےگا۔ ہم نمک حراموں کو ہر گز برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
اس نے بہت منتیں کیں۔ اپنے باپ کی وفاداریوں کا واسطہ دیا مگر بڑے خان کا فیصلہ بدلنا تھا‘ نہ بدلا۔
جب ریشم خان‘ زمرد جان اور گل مکئی کے ساتھ گاؤں سے نکل رہا تھا تو اس کا دل بھی ڈوبتے سورج کی طرح ڈوب رہا تھا۔ دور مغرب میں آسمان اور پہاڑوں کے بیچ سرخی ابل رہی تھی اور ادھر زمرد جان کی سوجی ہوئی سرخ آنکھوں سے آنسو امنڈ رہے تھے۔ ننھی گل مکئی بےخبر تھی اور نہ جان پارہی تھی کہ کیا ہو رہا تھا۔
جب وہ تینوں زبر خان کے ہاں پہنچے اور جا چکے لمحوں کی راکھ کو حزن کی انگلیوں سے کریدا گیا تو سب نے دکھ کی بکل اوڑھ لی۔ ریشم خان نے اپنی گزر چکی بانجھ عمر کے خشک پیڑ کی ایک ایک شاخ کو ٹٹولا‘ جن پر ایک بھی سبز کونپل نہ تھی۔ ا س نے اپنا زبر خان سے موازنہ بھی کیا اور پہلی دفعہ محسوس کیا کہ اس کے بھائی کے قدموں پر جتنے آبلے تھے ‘وقت نے انہیں مندمل کر دیا تھا۔ ایک چھوٹا سا گھر‘ جس کے آنگن میں خوشیوں کے پھول کھلتے تھے۔ اس کے درودیوار سے سکون کا ٹھنڈا سایہ اترتا اور جس کی مٹی میں اطمینان کی باس تھی۔ تب اس نے اسی پس منظر میں زبر خان اور پلوشے کے چہروں کو دیکھا تو اسے یہ جان کر بڑی طمانیت ہوئی کہ ان کے چہرے پہلے سے بہت نکھر گئے تھے۔
چہرہ تو زندگی کے باب کا عنوان ہوتا ہے‘ ایسا عنون‘ جس میں سارا نفس مضمون نچوڑ کر بھر دیا گیا ہو۔ دکھ چہرے پر جالا بن دیتا ہے اورسکھ اس کو نکھارتا چلا جاتا ہے۔ اندیشے لہو پی کر اس کے ایک ایک خلیے کو زرد کر دیتے ہیں اور اطمینان سے اس میں لہو ہلکورے کھاتا ہے۔ گویا چہرہ جا چکی ساعتوں کی ستم ظریفیوں ‘لمحہ موجود کی تلخ حقیقتوں اور مستقبل کے اندیشوں کی باہم گندھی مٹی سے بنے جسم کا لباس ہوتا ہے۔ ایسے ہی جیسے لفظ مفہوم کا لباس ہوتے ہیں۔ لفظ سماعت تک پہنچے تو مفہوم تمام رعنائیوں کے ساتھ اپنی جزیات کو عیاں کر دے اور چہرے پر نگہہ ڈالو تو بصارت کے لمس سے ایک ایک خلیے پر بنی مفہوم کی تصویر ٹٹولتے جاؤ۔
ریشم خان نے زبر خان اور پلوشے کے چہروں کے دونوں روپ دیکھے تھے اور اس نئے روپ نے اسے مسحور کر دیا تھا۔ اس سحر کے زیر اثر ا س نے اپنے قدموں میں مسافت بھری زمرد جان‘ زریاب خان اور گل مکئی کو وہیں چھوڑا اور خود شہر کی طرف نکل گیا۔
قسمت نے یاوری کی اور اسے ایک مل میں ملازمت مل گئی۔ کچھ عرصہ بعد ایک کوارٹر حاصل کرنے میں کام یاب ہوا تو بچوں کے ساتھ زمرد جان کو بھی وہیں بلا لیا۔ زندگی کی اس ادا سے وہ بہت محظوظ ہوئے۔ زریاب سکول جانے لگا تو دونوں نے خوابوں کے ایسے جال بن کر مستقبل کے سمندر میں پھینکے جن کا شکار تعبیر کی سنہری مچھلیاں تھیں۔ یوں زریاب ماں باپ اور بہن سے بہت دور یونیورسٹی جا پہنچا۔ وہ حالات کی اونچ نیچ سمجھتا تھا لہٰذا خوب دل لگا کر محنت کی اور کام یابیوں کی سیڑھیوں پر قدم رکھنے لگا۔ جب ساتویں سمسٹر میں کام یابی پر اس کے بدن سمندر میں مسرّتوں کے خوشرنگ بلبلے تیر رہے تھے تب درد کی ایک ظالم لہر اٹھی تھی اور خوشی کے سارے رنگ نابود ہو گئے تھے۔ اب کی بار زریاب حزن کے جال میں بے بس مچھلی کی طرح تڑپا۔ وہ خبر سنتے ہی میلوں کو پاٹ کر باپ کے سرہانے جا کھڑا ہوا۔ اس کا فالج زدہ باپ ہسپتال میں سفید چادر بچھے لوہے کے پلنگ پر لیٹا تھا اور اپنے سرہانے کھڑے زریاب کو یوں ٹک ٹک دیکھ رہا تھا کہ آنکھوں کے کٹورے آنسوؤں سے لبا لب بھرے ہوے تھے۔ ماں جو ریشم خان کے پاؤں دبا رہی تھی‘ اس نے بیٹے کو دیکھا تو جلدی سے اپنے پاؤں پلنگ سے نیچے سرکائے اور لپک کر بیٹے کے کندھے کو تھاما۔ بیٹا چپ تھا اور نگاہ باپ کے چہرے پر تھی۔ باپ کے ایک جانب ڈھلکتے چہرے پر ہونٹ کپکپا رہے تھے اور لفظ آواز پیدا کیے بنا مر رہے تھے۔ ماں نے بیٹے کوزور سے جھنجھوڑا۔ اتنی زور سے کہ جیسے اسے دکھ نے اندر سے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ وہ چاہتی تھی اپنے اندر سرایت کر جانے والے کرب کی ایک ایک ساعت کی روداد بیٹے کو سنا ڈالے۔ مگر جب بیٹے کا چہرہ اس کے مقابل آیا تو فقط سسکیوں کے‘ اظہار کا اور کوئی وسیلہ ہاتھ نہ آیا۔ جب تینوں کے سینوں میں اٹھنے والے طوفان کا زور کچھ تھما تو زریاب نے سب کو اپنا ایک خواب سنایا۔ ریشم خان چپ تھا۔ زمرد جان چپ تھی اور زریاب کہ رہا تھا:
’’گزشتہ رات خواب میں‘میں اس پہاڑ پر چڑھنا چاہتا تھا جس کی چوٹی پر ایک خوب صورت دھنک رنگ پھول تھا اور جس کے بارے میں میرے دل میں یقین اترا تھا کہ اس کو سونگھنے سے عناصر حیات میں مسرّتوں کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ میں نے رسی اس کی چوٹی کی جانب پھینکی ۔اس وقت آپ دونوں کے علاوہ بہن گل مکئی بھی وہاں موجود تھی۔‘‘
اتنا کہ کر زریاب رک گیا۔ دروازے کے جانب قدموں کی چاپ بڑھ رہی تھی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو گل مکئی باپ کے لیے کھانا لے کر آرہی تیق۔ ایک مرتبہ پھر چاروں دکھ کی زد میں آکر لرزنے لگے تو ایکا ایکی چاروں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا؛ ان کے یوں رونے سے دوسروں کا حوصلہ ٹوٹ جائےگا۔ تب چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا اور طوفان ٹھہر سا گیا۔ جب طوفان تھما تو زریاب نے اپنا خواب پھر سنانا شروع کر دیا:
’’جس وقت میں نے پہاڑ کی چوٹی پر رسی پھینکی اس وقت نہ صرف آپ لوگ میری مدد کو وہاں موجود تھے چچا زبر خان ‘چچی پلوشے اور زرجان بھی ہاتھوں کو دعا کی صورت اٹھائے مجھے دیکھ رہے تھے۔ تب میں نے سوچا‘ نہ صرف مجھے چوٹی پر پہنچنا اور دھنک رنگ پھول کی مہک سے مشام جان معطر کرنا ہے ‘مجھے آپ سب کو بھی وہاں لے جانا ہے۔ جب رسی کا سرا اوپر چوٹی میں اٹک گیا تو سب کے چہروں پر خوشیاں کھیل رہی تھیں اور ہونٹوں سے دعا کے لفظ پھسل رہے تھے۔ میں نے خوب جھٹکے دے کر یہ یقین کر لیا کہ رسی اب اوپر سے نہ کھسکے گی۔ اپنے پاؤں جوتوں سے بےنیاز کیے اور دائیں پاؤں کے انگوٹھے اور انگلیوں کے درمیان رسی کو پھنسا کر دوسرا قدم اوپر بڑھایا۔ جب میں کافی اوپر پہنچا تو پلٹ کر دیکھا۔ تم سب بہت نیچے تھے اور دلدل تمہارے جسموں پر چڑھ دوڑی تھی۔ تمہارے سینوں سے کوئی صدا نہ اٹھ رہی تھی۔ اگر اٹھ رہی تھی تو مجھ تک نہ پہنچ پارہی تھی۔ میں حیرت سے سہم گیا۔ اپنے ذہن پر خوب زور ڈالا اور اس لمحے کو تمام جزیات کے ساتھ یاد کیا جب میں نے اپنے پاؤں سے جوتوں کو اتارا تھا۔ مجھے یقین تھا اس وقت زمین پتھر کی طرح سخت تھی۔ یہ دلدل کہاں سے آئی تھی؟ مجھ پر طاری حیرت نے بوکھلاہٹ کر رکھ دیا۔ میں نے حسرت سے اس پھول کو دیکھا جو دھنک رنگ تھا اور تمہارے چہروں کو دیکھا‘ جو کرب کے ایک ہی رنگ میں رنگے ہوے تھے۔ میں نے چیخ کر کہا: اس رسی کو تھام لو۔ تم سب نے اپنے ہاتھ رسی کی طرف اور نظریں میری جانب بڑھائیں۔ میں نے تیز قدموں سے اس مسافت کو پاٹنا چاہا جو میرے اور دھنک رنگ پھول کے درمیان تھی اور اس وقت کہ جب بات چند ساعتوں کی رہ گئی تھی‘ رسی چوٹی سے سرک گئی۔‘‘
ریشم خان ‘زمرد اور گل مکئی سب سانسیں روکے اسے دیکھ رہے تھے۔ جب زریاب خواب سنا چکا تو سب نے یوں محسوس کیا جیسے ان کے سینوں میں کوئی چیز ڈوب رہی تھی۔
اس لمحے‘ کہ جب دکھ پر پردہ ڈالنے کو ‘سب نظریں ایک دوسرے سے بچا رہے تھے‘ زریاب نے ایک فیصلہ سنایا:
’’میں مزید نہیں پڑھوں گا۔ میں باپ کا سہارا بنوں گا‘‘
زریاب کی زبان سے یہ سنتے ہی ریشم خان کا جسم زور سے لرز اور فالج زدہ ہونٹ بے صدا لفظوں سے کانپ اٹھے۔ تب زمرد جان نے ریشم خان کے چہرے کو دیکھا اور مفہوم کا ایک ایک لفظ نچوڑا پھر ریشم خان کے لہجے میں زریاب کو فیصلہ سنا دیا۔
’’تم اپنی تعلیم مکمل کرو گے۔‘‘
یہ کہتے ہوے اعتماد ا س کے چہرے پر برس پڑا تھا۔ سب کی نگاہیں اس پر عزم چہرے کا طواف کرنے لگیں۔ ریشم خان کا چہرہ قدرے پر سکون ہو گیا۔ تاہم ایک سوال نگاہوں میں تیر رہا تھا اور یہی سوال زریاب کے حیرت زدہ ہونٹوں سے پھسلا:
’’کیسے؟‘‘
زمرد جان نے بیٹے کو اطمینان سے دیکھا اور کہا:
’’میں اپنی ہمسائن گلنار جان کی طرح مل افسروں کے گھروں میں کام کروں گی۔ ان کے برتن مانجھوں گی۔ ان کے بچوں کو لوریاں سناؤں گی‘ اور تم پڑھو گے!‘‘
زریاب یہ سن کر بے قابو ہو گیا۔ اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ ہونٹ دانتوں تلے جا پہنچے۔ ریشم خان جو فخر سے اپنی شریک حیات کو دیکھ رہاتھا اس کی آنکھوں کے آگے اندیشوں کی دھند آتی چلی گئی ۔ اسے یوں لگا جیسے وہ بہت گہری اور تاریک کھائی میں گر گیا تھا۔ کچھ دیر بعد جب کہ اس پر یہی خوابیدہ کیفیت طاری تھی اسے اپنا بدن روشنی کی جانب اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ سامنے زبر خان‘ پلوشے اور زرجان کے ساتھ موجود تھا۔ زبر خان کہ رہا تھا:
’’زریاب ضرور پڑھےگا۔‘‘
زریاب پڑھتا رہا۔
ریشم خان اسپتال سے اپنے کوارٹر اور پھر ایک بنگلے کے سرونٹ کوارٹر میں منتقل ہو گیا۔ زبر خان کے اصرار کے باوجود وہ شہر میں ہی ٹک گئے کہ ریشم خان کو علاج کی ضرورت تھی۔ دوا وقت پر چاہیے تھی۔
زمرد جان کے ہاتھوں پر کوٹھی والوں کے برتن مانجھتے کپڑے دھوتے اور جھاڑو دیتے رعشہ طاری ہو گیاکہ دوا کے لیے پیسوں کی بھی ضرورت تھی۔ زریاب پڑھتا رہا۔
اور گل مکئی نے چپ چاپ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔
ریشم خان کی مٹھی میں امید کی تتلیاں تھیں۔
زمرد جان کے رعشہ زدہ ہاتھوں کی اوک دعا کے پانی سے بھری ہوئی تھی۔
اور گل مکئی کے زرد چہرے پر انتظار کی آنکھیں تھیں۔
چچا زبر خان استقامت سے اس کی مدد کر رہا تھا۔ زرجان کی آنکھوں میں سنہرے سپنے تھے مگر پلوشے کے من میں اندیشے تھر تھرا رہے تھے۔ تب پلوشے نے اندیشوں کے ڈھیر سے ایک مٹھی بھر کر زبر خان کی جھولی میں ڈالی تو زبر خان مسکرا دی اور کہا:
’’فکر کیوں کرتی ہو پلوشے؟ جب زریاب افسر بنے گا تو میری بیٹی زرجان بھی تو راج کرےگی۔‘‘
زرجان کی سماعت میں اس شیریں امید کا رس نچڑا تو بدن پر مسرّت کی دھنک اتر آئی اور وہ دوڑ کر ندی کے اس کنارے پہنچی جہاں عموداً اٹھے پہاڑ کے قدموں سے ندی کی جانب نیچے پھسلتی سڑک صاف نظر آتی تھی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب زریاب آخری مرتبہ یہاں آیا۔
آٹھویں سمسٹر تک پہنچتے پہنچتے زریاب کی سانس پھول چکی تھی۔ اگرچہ چچا زبر خان اس کی ضرورتوں کا بہت خیال رکھتا تھا مگر اس کی آمدنی تھی بھی کتنی کہ اس کے بھاری بھرکم تعلیمی اخراجات کی متحمل ہو سکتی۔ چناں چہ زریاب فارغ اوقات میں کبھی ٹیوشن پڑھاتا اور کبھی کوئی اور دھندہ کرتا۔ یوں وقت کا ایک ایک لمحہ اس کے لہو کے جام لنڈھا کر گزرنے لگا۔ اس کا ایک ہی عزیز دوست تھا معیز‘ مگر دونوں میں فاصلے بڑھتے چلے گئے۔
جس رات پورا چاند نکلا تھا اور گیلی گھاس پر دونوں مقابل بیٹھے تھے‘ گھاس پر بچھے معیز کے ہاتھ کے گرد اوس کے قطروں نے مل کر چمکدار ہالا بنایا تھا‘ اس رات کے بعد بھی وہ ایک دوسرے سے ملتے رہے تھے ‘مگرایک کھچاؤدونوں کے بیچ ٹھہر گیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ رابطے کی ڈوری بالکل ٹوٹ گئی۔ معیز نے مطالبہ کیا تھا‘ زریاب اس کے لیے کام کرے اور اسے وہ لا کر دے جو اس کے باپ دادا نسل در نسل اگا رہے تھے۔ اس نے معیز کو بتایا تھا کہ اس کے باپ نے موت کی یہ فصل اس روز اگانا بند کر دی تھی جس روز اس نے اپنے ننھے قدم باپ کی بھاری بھرکم جوتوں میں دھرے تھے مگر معیز اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ اسی ضد نے ان کے درمیان خلیج وسیع تر کر دی۔
جس روز آخری مرتبہ زریاب وہاں سے پلٹا تھا جہاں کچا دم توڑتا راستہ عموداً اٹھے پہاڑ کے پہلو سے ندی کی جانب کودتی سڑک کے دہانے میں گم ہوتا ہے‘ اس روز اس نے اپنے چاروں طرف دیکھا اور سوچا تھا: کاش ابا سے‘ امی سے یا پھر چچا سے ہی اپنی ضرورت کہ سکتا مگر وہ کہتا تو کیوں کر؟
فالج زدہ باپ نے امید سے دیکھا تھا اور شاید سوچا ہوگا‘ لمحہ موجودکے سوکھے شجر پر جب سبز کونپلیں پھوٹیں گی تو اس کے بے حس ہوتے وجود میں آتے وقتوں کی سرشاری زندگی کی لہر دوڑادےگی۔ ماں کے ہونٹوں پر سوال تھا؟ رعشہ زدہ ہاتھوں کو مشقت کا پتھر اور کتنے عرصے تک دھکیلنا ہوگا؟ ا س نے اپنی بہن گل مکئی کے زرد چہرے کو دیکھا اور چپ چاپ وہاں سے نکل آیا۔ وہ چچا زبر خان کے ہاں پہنچامگر وہاں بھی ایک لفظ نہ کہ سکا۔ پھر وہ وہاں تک گیا‘ جہاں پختہ سڑک دم توڑتی ہے مگر ابھی کچے راستے پر قدم نہ دھرا تھا کہ واپس پلٹ آیا۔
جب وہ پلٹ آیا تو اس کی جیب میں فقط ایک سو نوے روپے تھے اور سینے میں ٹوٹی ہوئی سانسیں۔ وہ اپنی سانسیں بحال کر کے تیز تیز چلنے لگا تو وہ دونوں جو اس کے آگے چل رہے تھے سراسیمہ ہو کر اور زیادہ تیز چلنے لگے۔ چلتے چلتے لمبی مونچھوں والے نے‘ کہ جس کے ہاتھ میں سیاہ رنگ کا بریف کیس تھا‘ خشخشی ڈاڑھی والے کے کان میں کچھ کہا۔ خشخشی داڑھی والے کا چہرہ متغیر ہو گیا۔
وہ کچہری بازار سے وکیلوں والی گلی میں مڑ گئے۔
زریاب بھی مڑ گیا۔
آگے جانے والوں نے پھر سرگوشی کی ۔ چہروں کے تاثرات بدلتے رہے۔ زریاب کو ان کی جانب اس لیے متوجہ ہونا پڑا کہ وہ پلٹ پلٹ کر اسے دیکھتے اور کھسر پھسر شروع کر دیتے تھے۔ وہ حیران تھا کہ وہ اسے یوں کیوں دیکھ رہے تھے؟ رفتہ رفتہ زریاب ان سے بے نیاز اپنی دنیا میں کھوتا چلا گیا۔ اسے معیز کے گھر پہنچنا تھا۔ قدموں میں تیز آگئی۔ وہ بھی تیزی سے گلبرگ کی وسیع سڑک پر پہنچ گئے۔ زریاب بھی چند لمحوں میں اسی سڑک پر تھا۔
اس مرتبہ خشخشی داڑھی والے نے مونچھوں والے کے کان میں سرگوشی کی اور دونوں کی رفتار سست پڑ گئی۔
معیز کی کوٹھی تھوڑے ہی فاصلے پر تھی۔
زریاب کے قدموں میں مزید تیزی آ گئی۔
فاصلہ گھٹنے لگا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ خشخشی داڑھی والا فیصلہ کن انداز میں اپنے قدموں پر گھوما‘ دوسرے ہی لمحے میں زریاب اس کی بانہوں میں جکڑا ہوا تھا۔ زریاب بھونچکا رہ گیا۔ جب اس کے حواس بحال ہوے تو وہ بری طرح پھنس چکا تھا۔
لمبی مونچھوں والا ’’مدد‘ مدد‘‘ پکار رہا تھا۔ بریف کیس سڑک پر کھلا ہوا پڑا تھا اور سرخ نوٹ اس سے جھانک رہے تھے۔ لوگوں کا جم غفیر پل بھر میں جمع ہو گیا۔ لمبی مونچھوں والا نوٹ سمیٹے جاتا اور لوگوں کو بتاتا جاتا ’کہ کیسے اس نے ان کا پیچھا شروع کیا‘ ا ور کیسے وہ انہیں لوٹنا چاہتا تھا۔
زریاب نے فرد جرم پر حیرت کا اظہار کیا اور اپنی صفائی میں بہت کچھ کہنا چاہا مگر کسی نے کچھ نہ سنا۔ ہر طرف سے گالیاں گھونسے اورلاتیں حرکت میں آ چکی تھیں۔ جب لوگ تسلی کر چکے تو اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
مقدّمہ درج ہوا اور وہ حوالات میں بند کر دیا گیا۔
اس نے پہلے اپنے زخموں کو سہلایا ‘پھر خود کو مجتمع کیا‘ دکھ سے فلک کی اس دھجی کو دیکھا جو کوٹھری سے نظر آ رہی تھی پھر سلاخوں کو تھاما اور اپنے پیاروں کو یاد کیا۔ اسے لگا امید کے سارے دئیے بجھ گئے تھے ۔ وہ نڈھال ہو کر فرش پر بیٹھ گیا۔
ایسے میں ایک مانوس آواز نے اسے چونکا دیا۔ اوپر دیکھا۔ خوشگوار حیرت کی گرمی بدن میں بھر گئی۔ ایک دم اٹھا۔ سلاخوں کی اس جانب معیز کھڑا تھا۔ امید اپنی پوری رعنائی سے جاگی۔ اس نے سارا ماجرا معیز کو کہ سنایا۔ جب وہ سب کچھ کہ چکا تو امید سے معیز کو دیکھا مگر معیز کہ رہا تھا:
’’زریاب میں تمہاری مدد کروں گا مگر تم بھی میرے لیے وہ کروگے جو میں نے کہا تھا۔‘‘
زریاب نے یہ سنا تو اس کا خون کھولنے لگا ‘اعصاب تن گئے‘ دانتوں نے ہونٹ کچل ڈالے اور ہتھیلیاں بھنچ گئیں۔ آنکھیں سرخ انگارہ بن گئیں اور زبان شعلے اگلنا چاہتی تھی مگر اس نے ضبط کو تھامے رکھا اور اپنے من کے گوشے میں ‘معیز کے لیے جو محض چند نرم لفظ بچے تھے‘ ان کو ملا کر ایک جملہ بہ مشکل کہا:
’’تم جو چاہتے ہو‘ وہ میں نہیں کر سکتا۔ دور ہو جاؤ کمینے ورنہ۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا‘ کمینہ الٹے قدموں پلٹ پڑا۔
جب وہ واپس ہونے لگا تو زریاب نے دیکھا‘ اس کے بہت پیچھے خشخشی داڑھی اور لمبی مونچھوں والادونوں موجود تھے۔ تب زریاب کے سینے سے ایک صدا اٹھی اور حلق کی بہ جائے آنکھوں میں جا دھنسی اور آنکھیں چوپٹ دروازے کی طرح کھل گئیں۔ اسے یوں لگنے لگاتھا‘ نیچے بہت نیچے دلدل میں اس کے اپنوں کے جسم دھنسے جا رہے تھے۔ اور بے بس چہروں پر دھری آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں اور رسی دھنک رنگ پھول کے قدموں سے سرک چکی تھی۔ اور وہ دم بہ دم اپنوں سے ملنے کے لیے تیزی سے دلدل کی سمت بڑھ رہاتھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.