مرد
(الف)
مسز گروور اور تانیہ ایک منظر دیکھتی ہیں،
’’وہ ہنس رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں۔۔۔‘‘
ناگواری سے کہا گیا۔۔۔ ’’ہوتا ہے !‘‘
’’اب انہوں نے چھریاں سنبھال لی ہیں۔‘‘
اِدھر ایک کپکپی طاری کر دینے والی کیفیت۔۔۔ جواب میں کہا گیا۔۔۔ ’’اور دیکھو‘‘۔
ادھر سے پھر ایک حیرت بھری آواز۔۔۔ ’’انہوں نے ڈونگرے سنبھال لئے ہیں۔‘‘
’’اف! وہ کتنے اوجڈ، باتونی اور جلد باز ہیں۔‘‘
’’انہوں نے چھریاں سنبھال لی ہیں اور اب وہ اپنے بے ڈول ہاتھوں سے سبزیاں کاٹ رہے ہیں۔‘‘
’’کاٹنے دو۔‘‘ جواب میں کہا گیا۔ ’’اور ہاں اب نیچے اتر آؤ۔‘‘
سامنے ایک کھڑکی کھلتی تھی۔
بلند و بالا عمارتوں کے بیچ شہر پھرسے اندھیرے میں گم ہو گیا تھا۔۔۔ ایک بڑی عمارت، اس سے بالکل قریب ایک دوسری بڑی عمارت اور اس سے بالکل قریب۔۔۔
ہوا کئی کئی روز تک ان گلی کوچوں کے چکر لگانا بھول جاتی۔ لوگوں کو اس بات کا احساس تک نہیں تھا۔ کوئی بھی نہیں پوچھتا، نہ ہی پوچھنے کا ان کے پاس وقت تھا۔
’’سنو بھئی، تم نے ہوا کو دیکھا ہے؟ کیا آج ہوا نے ادھر کا رخ کیا تھا؟‘‘
ہنسئے مت، سچ تو یہ ہے کہ ادھر صرف بلند و بالا عمارتوں کا جنگل رہ گیا تھا۔ رہنے والے نظر نہیں آتے تھے۔ رنگ برنگی، گھومتی لہراتی، ڈولتی گاڑیاں نظر آتی تھیں جو کبھی ان عمارتوں میں داخل ہوتیں، کبھی باہر نکلتیں بس۔۔۔ اور اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ ’’مارٹن کرا‘‘ میں بنی ان دو عظیم عمارتوں پانچویں منزل کی کھڑکیاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھلتی تھیں۔ ایک میں اکثر مسزگروور، اِس بوڑھی کھوسٹ نک چڑھی لیڈی اور اس کی سولہ سالہ پوتی تانیہ کو دیکھا جاسکتا تھا۔ چاروں طرف سے بنداس پانچویں منزل کے فلیٹ کو بس یہ سامنے کی جانب کھلنے والی کھڑکی ہی زندگی سے جوڑتی تھی۔ یعنی ایک ذرا سی ہوا۔ ایک ذرا سی سانس۔
سامنے والے فلیٹ کی کھڑکی ہمیشہ بند رہتی تھی۔
مسزگروور تانیہ سے اکثر پوچھتیں۔ ’’دیکھ کر بتاؤ کوئی آیا؟‘‘
سوال میں ہر بار ایک گہرا اضطراب آمیز تجسس ہوتا، گویا بجھے بجھے مکالموں کو جینے کے لئے کچھ اور جگہ مل جائے۔
تانیہ کے جواب میں ہر بار ایک مایوسی ہوتی۔
’’کوئی امکان نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’یہ فلیٹ کرائے پر نہیں لگےگا‘‘۔
’’کیوں نہیں لگے گا اُلو کی پٹھّی۔‘‘
عین ممکن تھا مسز گروور تانیہ کے ہلکے پھلکے مذاق سے مشتعل ہو کر گالی گلوچ پر اتر آتیں مگر تانیہ کی شفاف ہنسی ان کے تیکھے مکالموں کی ہوا انکل دیتی۔ بس وہ دھیرے دھیرے بڑبڑاتیں۔۔۔ ’’کتیا، حرام زادی، دیکھ توکیسے پورے وجود کے ساتھ ہنستی ہے۔۔۔ بن ماں باپ کی بچی۔‘‘ دوسرے ہی لمحے ایک سرد سی لہر مسز گروور کو بھگوتی، گدگداتی چلی جاتی۔
لیکن اس دن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بڑھیا مسز گروور نے کوئی گالی نہیں بکی۔ ماحول کے بوجھل پن کے درمیان تانیہ کی ہنسی کہیں کھو گئی تھی۔
’’اماں! کھڑکی کھلی ہے۔۔۔‘‘
’’اچھا۔۔۔!‘‘
مسز گروور بستر سے اٹھ کر بیٹھ گئی تھیں۔ ’’کوئی ہے کیا، بتانا؟‘‘
’’ابھی تک تو کوئی نہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ ٹھہر۔۔۔ کوئی آ رہا ہے۔۔۔ وہ آ گئے ہیں۔ اماں۔۔۔ وہ تین ہیں۔۔۔‘‘
’’تین۔۔۔ لیکن کون ہیں؟‘‘
’’وہ مرد ہیں اماں۔‘‘
’’ان کے ساتھ کوئی عورت نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’شاید نہیں۔۔۔ کیونکہ ایک نے۔۔۔‘‘
’’کیا ایک نے۔۔۔؟‘‘
’’ویکیوم کلینر آن کر لیا ہے۔۔۔ شاید وہ کچن کی صفائی کرنے والے ہیں۔۔۔‘‘
’’تم نے اچھی طرح دیکھا کہ وہ مرد ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اور یہ بھی کہ وہ اب کچن کی صفائی کرنے والے ہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں اماں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اب اتر آؤ۔‘‘
’’اماں ذرا ہاتھ تو تھامو۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے کمبخت۔۔۔ لے پکڑ۔۔۔ لیکن مجھے گرا مت دینا۔‘‘
لکڑی کا ایک چھوٹا سا اسٹول تھا، جس پر پاؤں رکھ کر تانیہ بہ آسانی کھڑکی سے اس پار دیکھ سکتی تھی۔
’’تو مرد آئے ہیں۔‘‘ ۔۔۔ مسزگروور ابھی بھی بڑبڑا رہی تھیں۔
’’ہاں اماں، اس میں نیا کیا ہے؟ آج کل بہت سے مرد۔۔۔‘‘
تانیہ ’’اکیلے رہتے ہیں‘‘ کہتے کہتے رک سی گئی تھی۔۔۔
’’تو نے دیکھا ہے نا۔ ان کے ساتھ کوئی عورت۔۔۔‘‘
’’عورت ہوتی تو ویکیوم کلینر سے۔۔۔ لو تم خود ہی آواز سن لو۔ صفائی ہو رہی ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ مسز گروور کے ہونٹوں پر ایک پُراسرار مسکراہٹ تھی۔ ’’مردوں کو صفائی کا کہاں دھیان رہتا ہے؟‘‘ اب ان کی آواز میں ’’چوری پکڑی جانے والی‘‘ جھلاہٹ سوار تھی۔۔۔ ’’مرد تیری طرح نہیں ہوتے۔ کام چور کہیں کی۔۔۔‘‘
’’پھر کیسے ہوتے ہیں؟‘‘
’’مرد تومرد ہوتے ہیں۔۔۔ بس کہہ دیا نا۔ زیادہ بک بک مت کیا کر۔ ان لڑکیوں کو ذرا سا موقع دے کر دیکھو بس شروع ہو جاتی ہیں، سرچڑھنے لگتی ہیں۔ بیل کی طرح۔ اب جا، کھڑی کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے؟‘‘
’’جاتی ہوں، تم بھی عجیب ہو اماں۔‘‘ تانیہ مسکراتی، اٹھلاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
مسز گروور دھیرے سے بڑبڑائیں۔۔۔ ’’تو صفائی ہو رہی ہے۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ مرد صفائی کیا جانیں۔۔۔ صفائی تو۔۔۔‘‘
وہ آدمی آ چکا تھا جسے اپنا خاوند کہتے ہوئے اسے ہر بار شرمندگی کا احساس ہوا تھا۔ کہنا چاہئے دل نے گوارہ تو کبھی نہیں کیا تھا مگر وہ شوہر تھا۔ رسم وراج کے مطابق۔۔۔ شوہر۔۔۔ اس لئے ان دکھ بھرے دنوں کا گواہ تو اسے بننا ہی تھا۔
تو وہ آدمی آ چکا تھا اور وہ دیر سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ یہ اداس پت جھڑوں کے دن تھے۔ باہر پتے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔ اس نے، اس شخص کو غور سے دیکھا۔ وہ اپنی بنیان اتار رہا تھا۔ پسینے کی گھناؤنی بدبو میں ڈوبی ہوئی بنیان۔ اس نے بنیان ویسے ہی اتار کر بستر پر پھینک دی تھی جہاں وہ سوتی تھی۔ اس کا جی متلا رہا تھا۔۔۔ وہ آدمی اچانک مڑ کر سامنے آ گیا تھا۔ کالا بھیانک چہرہ، بڑی بڑی گول گھومتی آنکھیں، سینے اور کندھوں کے آس پاس اُگے بال۔
اس کی آنکھوں میں ناگواری تھی۔۔۔ ’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو۔ چلو کھانا نکالو بڑی زور سے بھوک لگی ہے۔‘‘
’’نہاؤگے نہیں۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ کیوں۔۔۔‘‘ وہ زور سے بے ہنگم طریقے سے ہنسا۔
’’نہایا تو پسینے مر جائیں گے۔ پسینے مر گئے تو بھوک بھی مر جائے گی۔‘‘ اس نے آہستہ سے اسے دھکاّ دیا۔ ’’جاؤ دماغ مت چاٹو، کھانا نکالو۔‘‘
ایک لمحے کو وہ لڑکھڑائی لیکن دوسرے ہی لمحے وہ سنبھل چکی تھی۔ یہ آدمی۔۔۔ وہ صوفے پر دونوں ٹانگیں پھیلائے لیٹ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ نیچے کے حصے میں اس نے صرف ٹاول باندھ رکھی تھی۔ جبکہ اوپر کا حصہ ننگا تھا۔۔۔ یہ آدمی، اسی آدمی کے ساتھ اسے ساری عمر گزاری ہے۔ جب وہ کھانا لے کر آئی تو وہ خراٹے لے رہا تھا۔ منہ بھدے انداز سے کھلتا اور پھر بند ہو جاتا۔ خراٹوں کی عجیب سی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔ اس نے روکھے لہجے میں تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
’’اٹھو۔۔۔ کھانا آ گیا ہے۔۔۔‘‘
’’رکھ دو۔۔۔‘‘ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اب وہ برا سامنہ بنا کر پلیٹ میں رکھے کھانے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہی روٹی، سا، بھاجی، دال۔۔۔ گفتگو کا دوسرا حصہ نرمی سے بھرا اور چونکانے والا تھا۔
’’سنو۔۔۔، تم نہیں کھاؤ گی؟‘‘
اس نے اپنائیت سے بھری نظروں سے بچنے کی کوشش کی۔۔۔
’’نہیں، مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
(شیڈ 1، ختم)
وہ بھی پت جھڑ کے دنوں کی ایک اداس صبح تھی۔ تانیہ واپس آئی تو بوڑھی مسز گروور کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ ہونٹ ہل ہل کر خراٹوں جیسی آوازیں نکال رہے تھے۔ بدن پسینے سے بھیگ چکا تھا۔
تانیہ ہلکے سے چیخی۔۔۔ ’’اٹھو اماں۔ نہا لو۔۔۔‘‘
جواب میں مسز گروور کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ’’کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
’’پھر تم کھانا کیسے کھاؤ گی؟ جسم تو دیکھو، پیسنے سے شرابور ہو رہا ہے۔‘‘
’’باتونی لڑکی۔۔۔ صرف بک بک کئے جاتی ہے۔ جا، کھانا لے کر آ۔ اور ہاں۔۔۔ تو نہیں کھائےگی کیا؟ اچھا سن۔ اپنی بھی تھالی لے آنا۔ یہیں بیٹھیں گے۔ کھائیں گے اور باتیں کریں گے۔‘‘
تانیہ نے عجیب معنی خیز نظروں سے مسز گروور کو دیکھا۔ پھر وہ تھالیاں لانے چلی گئی، مسز گروورجیسے ابھی بھی سوچ میں ڈوبی تھیں۔ تھالی اٹھا کر بھی ان کی پھیلی ہوئی آنکھیں کسی سوچ میں گم تھیں۔۔۔
’’مرد میں ایک عجیب سی خوشبو ہوتی ہے۔۔۔ نہیں۔۔۔ تُو کھا۔۔۔ تو کیا سمجھےگی۔۔۔ ہاں تو۔۔۔ توبہ۔ بڑے بڑے بال، کالا چہرہ، بالوں سے بھری چھاتی۔۔۔ کندھوں تک اُگے بال۔۔۔ اور پسینے کی بدبو۔۔۔ پاگل۔۔۔ کتیا۔۔۔ تو کھاتی کیوں نہیں۔۔۔ لیکن مرد کے پورے وجود میں ایک عجیب سی خوشبو ہوتی ہے۔۔۔‘‘
تانیہ نے چونک کر اماں کو دیکھا۔۔۔ اماں تھالی میں رکھے کھانے کو بھول چکی تھیں۔ ان کے چہرے پر بڑی عجیب سی مسکان سجی تھی اور اماں کی آنکھیں گہرے رنگوں میں ڈوب گئی تھیں۔
(ب)
پوجا۔۔۔ اور مرد
’’اماں، کھڑکی کھل گئی ہے۔‘‘
مسزگروورپھر چیخیں۔۔۔ ’’کمبخت، اسٹول پر ٹھیک سے کھڑی رہ، گر جائے گی۔۔۔ ہاں، تو با وہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
تانیہ مڑی، ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔ ’’شی! کوئی آ رہا ہے۔۔۔ ارے وہی ہے اماں۔ کل والا آدمی۔‘‘
’’اکیلا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’آج بھی کوئی عورت نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’نوج! یہ مرد ہمیشہ سے اکیلے ہوتے ہیں۔ بیوی بچے، پورا پریوار ہو تب بھی اکیلے ہوتے ہیں۔۔۔ اب ٹکر ٹکر میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے۔۔۔ کیا کر رہا ہے وہ۔۔۔؟‘‘
تانیہ مسکرائی ’’ہاتھ میں اگر بتی ہے۔۔۔ شیو جی والی اگر بتی۔۔۔ پوجا کر رہا ہے۔۔۔‘‘
’’پو۔۔۔ جا۔۔۔‘‘ مسز گروور زور سے ہنسیں۔ ’’اچھا چل۔ ناس پیٹی۔ اسٹول سے اتر آ۔۔۔‘‘ وہ اب بھی ہنس رہی تھی۔
’’یہ مرد پوجا ووجا کیا جانیں۔۔۔ ضرور اپنے پاپ دھو رہا ہوگا۔‘‘
(شیڈ 2)
اس کے لئے پوجا کیا ہے یہ تو وہ اسی رات جان گئی تھی۔۔۔ شا دی والی رات شاید اس کے لئے زندگی کی سب سے بھیانک رات تھی۔۔۔ وہ آدمی۔۔۔ اس آدمی کو شوہر کے طور پر قبول کرنا بس اس کی مجبوری ہے ورنہ اسے تو پل دو پل ڈھنگ سے دیکھنا بھی خود پر ظلم کرنا تھا۔ مجبوری یہ تھی کہ وہ اس گھر سے آئی تھی جہاں ہاتھ تنگ ہوتے ہیں اور لڑکیاں بھاری۔ کسی بدنصیب لمحے میں اگر قسمت نے اسے اس آدمی کو سونپ دیا تھا تو اس میں کسی کی بھی غلطی نہیں تھی۔ ہاں ! بدقسمتی سے یا شاید یہ عمر کا تقاضہ تھا کہ کچھ حسین سے سپنے پلّو میں بندھے رہ گئے تھے۔ ان سپنوں کی موت پر اسے ضرور رونا آیا تھا۔
شا دی والی رات، وہ پو پھٹنے سے پہلے ہی بستر چھوڑ کر اٹھ بیٹھا۔۔۔ وہ جائزہ لیتی رہی۔۔۔ اس نے کوئی نوٹ بک نکالی تھی۔ لیمپ کی روشنی میں وہ کسی قسم کے حساب کتاب میں لگا ہوا تھا۔ ایک انتہائی حسین رات۔۔۔ وہ اس رات بھی اس قدر اکتا دینے والا کام۔۔۔
’’کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ اس کے جواب میں روکھا پن تھا۔ بزنس کا کچھ حساب کتاب رہ گیا تھا۔ تم سو جاؤ۔‘‘
یہ آدمی۔ اسے اس آدمی کی جمالیاتی حس پر غصہ آ رہا تھا۔ کم سے کم اس رات تو اسے اس عورت کو جی بھر کر دیکھا چاہئے تھا، جس کو اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر جیسے، وہ ان سب باتوں سے بے نیاز تھا۔۔۔ سپنے کرچیوں کی صورت اندر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔۔۔ ایسے آدمی کے ساتھ، ایسے آدمی کے ساتھ، جہاں خواہشیں نہیں ہوں، خواب نہیں ہوں۔ بس ایک روٹین لائف والا جانور ہو ہو۔۔۔ ایک چھوٹی سی زندگی کیسے کیسے سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔
شاید عورت بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی خوشیوں کا جواز ڈھونڈ لیتی ہے۔ جیسے اسے بتایا جائے کہ اس نے جو پہن رکھا ہے وہ کیسا ہے۔ یا وہ کیسی لگ رہی ہے۔ یا اس میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لی جائے۔ اسے کریدا جائے۔ مگر یہاں تو۔۔۔ اس کا واسطہ ایک پتھر سے تھا۔۔۔ اور وہ بس کام سوتر کا کوئی مبہم سوتر بن کر رہ گئی تھی جسے کسی کسی رات، نئے طرح سے بوجھنے کی واتسیاین کی خواہش بڑھ جاتی تھی۔ بس۔۔۔ کام، بزنس اور پیسہ۔۔۔ اسے پوجا وغیرہ کے کاموں میں ذرا دلچسپی نہیں تھی۔ ہاں، تب اس دن۔۔۔ جب سبودھ پیدا ہوا تھا۔ وہ ہون کا سامان اور پنڈت کو لے کر آیا تھا اور حد سے زیادہ خوش تھا۔
اسے تعجب ہوا۔۔۔ ’’تم۔۔۔ تم یہ بھی کر سکتے ہو!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’نہیں، مجھے لگتا تھا۔۔۔‘‘
’’ہر کام وقت پر اچھا لگتا ہے۔۔۔‘‘
’’اگر ہوتی تو۔۔۔؟‘‘
’’تو دیکھا جاتا۔۔۔‘‘ وہ ٹھہرا، پھر بولا۔۔۔ ’’تو کیا۔۔۔ تب بھی پوجا کرواتا۔ اب میں اتنا بھی گیا گزرا نہیں ہوں‘‘ ۔۔۔ دوسرے ہی لمحے وہ اپنے رنگ میں واپس آ چکا تھا۔۔۔ ’’اب زیادہ بک بک مت کرو۔ پنڈت جی آئے ہیں، ان کی سیوا میں لگ جاؤ۔‘‘
اس رات وہ کافی دیر سے آیا۔ آدھی رات گئے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا تو سامنے وہ نشے میں دھت کھڑا تھا۔
’’پی کر آئے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کہاں گئے تھے؟‘‘
وہ غصّے میں بے ہودہ انداز میں چیخا۔۔۔ ’’بتانا ضروری ہے کیا؟‘‘
’’ہاں، اس لئے کہ اب تم اکیلے نہیں ہو گھر میں۔۔۔‘‘ کہتے کہتے وہ رک گئی تھی۔
اس نے لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھ اٹھایا تھا مارنے کے لئے۔۔۔ ’’کمینی کہیں کی۔ جرح کرتی ہے۔ جیسے وہ صرف تیرا ہی بیٹا ہے۔ ارے میرا بھی ہے، تبھی تو جشن منا کر آیا ہوں۔۔۔‘‘
’’جشن؟‘‘ وہ سہم کر پیچھے ہٹی تھی۔
’’ہاں جشن۔‘‘ وہ لڑکھڑا نے کے باوجود نارمل لگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’دوست اس خوشی میں کھینچ کر لے گئے تھے۔۔۔ ناچنے والی کے پاس۔۔۔ لیکن دیکھو میں چلا آیا۔۔۔‘‘
وہ بستر پر اوندھا گر گیا۔ جوتے تک نہیں اتارے۔۔۔ اس کے کپڑوں سے تیز بدبو اٹھ رہی تھی اور اس کا سربری طرح جھنجھنا رہا تھا۔ ناچنے والی کے پاس؟ نہیں کم سے کم آج کی رات۔۔۔ وہ اس آدمی کے ساتھ بیڈ شیئر نہیں کرسکتی۔۔۔ وہ اس بستر پر اس کے پاس پاس نہیں لیٹ سکتی۔
تبھی بچے کے چیخ کر رونے کی آواز آئی۔ اس نے بچے کو گود میں اٹھایا اور تیزی سے دوسرے کمرے میں آ گئی۔
(شیڈ 2، ختم)
مسز گروور اچانک زور زور سے ہنسنے لگیں۔ تانیہ نے گھبرا کر ان کی طرف دیکھا۔ ’’کیا بات ہے اماں۔۔۔؟‘‘
’’نہیں، کچھ نہیں۔ یہ مرد۔۔۔‘‘ وہ اب بھی زور زور سے ہنسنے جا رہی تھی۔۔۔ ’’تجھے کیا معلوم، مرد کو کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ مرد۔۔۔ مرد ہوتا ہے۔ اس کی ہر ادا میں سنگیت ہے۔ ہر سُر میں سادھنا۔‘‘
تانیہ کو جھٹکا لگا تھا۔ ’’اب یہ نئی بات کہہ رہی ہو تم اماں۔‘‘
’’پگلی۔‘‘ اماں کو غصہ آیا۔ ’’مرد کوسمجھنے کے لئے تجربہ چاہئے اور تجربے کو عمر۔ تو کیا جانے کمبخت۔‘‘
مسز گروور چپ تھیں، جیسے پرانی کہانیوں کی بارش نے انہیں پوری طرح بھگو دیا ہو۔ ’’سچی بات ہے۔۔۔ مرد کے ہر انداز میں نشہ ہے لیکن یہ بات کتنی دیر بعد سمجھ میں آتی ہے۔۔۔‘‘
’’وہ مارتا بھی تھا؟‘‘
تانیہ کی بات پر مسز گروور غصے میں جھپٹیں۔۔۔ ’’حکومت کرنے والا بادشاہ ہوتا ہے۔ باقی لوگ رعایا۔ جو حکومت کرتے ہیں انہیں مارنے کا بھی حق ہوتا ہے۔ مرد فطرتاً حاکم ہوتے ہیں۔‘‘
’’اور چیخنا چلانا؟‘‘
’’یہ سب بادشاہوں کی طبیعت میں شامل ہے۔۔۔‘‘
’’اور روکھا پن؟‘‘
’’یہ مرد کی فطری ادا ہے۔ ارے یہی خوشبوئیں تو۔۔۔‘‘
مسز گروور کہتے کہتے ٹھہریں، پھر چیخیں۔۔۔ ’’تو یہ سب کیوں پوچھ رہی ہے۔۔۔ باؤلی ہوئی ہے؟ کمبخت کام کی نہ کاج کی۔۔۔ چل بھاگ یہاں سے۔۔۔‘‘
وہ ابھی تک اس بے رحم جلاد کی خوشبوؤں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
(ج)
مرد کی خوشبوؤں کے کچھ اور رنگ
’’اب کیا ہے؟ بتاتی کیوں نہیں؟‘‘
’’ٹھہرو۔۔۔ دیکھنے تو دو۔۔۔ وہ تین ہیں۔‘‘
’’تین ہیں۔۔۔ یہ کیا؟ کبھی گھٹ جاتے ہیں، کبھی بڑھ جاتے ہیں؟‘‘
’’شی۔۔۔‘‘ تانیہ نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔ وہ غصے میں ہیں، اور آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ وہ تیز تیز باتیں کر رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’جھگڑ رہے ہیں۔۔۔؟‘‘
’’ہاں، اور شاید ان میں سے ایک، جو کل پوجا کر رہا تھا اس کی۔۔۔ آنکھوں میں آنسو ہیں۔۔۔‘‘
’’اے لڑکی۔‘‘ مسز گروور گمبھیر لہجے میں مخاطب تھیں۔ ’’دوسروں کے پھٹے میں پاؤں نہیں ڈالتے۔ چلو اتر آؤ۔ اور لڑکی۔۔۔ کیا دیکھا تم نے۔۔۔ وہ مرد۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ رو رہا تھا؟ کمبخت ان مردوں کو تو، کبھی ڈھنگ سے رونا بھی نہیں آیا۔۔۔ چلو اسٹول ٹھیک سے تھامو اور نیچے اتر آؤ۔‘‘
(شیڈ 3)
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی، آخر اس آدمی میں کہیں تو محبت کی کوئی کونپل چھپی ہو گی، کہیں کسی گوشے میں۔ کبھی تو وہ محبت کی اس کونپل کو باہر لانے کی کوشش کرے گا۔ عورت کیلئے ماں بننا ایک عجیب سا تجربہ ہے۔۔۔ اپنے جسم سے اپنے ہی جیسے گوشت کے لوتھڑے کا باہر نکل آنا۔ پھر اس کی اٹکھیلیوں کو دیکھنا۔۔۔ ایک خوشگوار حیرانی۔۔۔ کبھی کبھی وہ چھٹپٹا کر رہ جاتی۔ بہت ہوتا تو اس کے جنگلی پن سے واقف ہونے کے باوجود سوال کر بیٹھتی۔
’’کیسے آدمی ہو تم؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ اس کے لبوں پر غصے کی پیڑیاں جمی ہوتیں۔
’’بچہ بڑا ہو رہا ہے۔‘‘
’’سارے بچے بڑے ہوتے ہیں۔‘‘
’’لیکن یہ سارے بچوں میں سے نہیں ہے۔ یہ تمہارا۔۔۔ تمہارا اپنا خون ہے۔‘‘ وہ غصے میں چیختا۔۔۔ ’’تو کیا یہ کسی اور کا بھی خون ہو سکتا تھا۔۔۔؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ شاید اپنے بچے کو اس طرح بڑے ہوتے دیکھنا۔۔۔ اپنے آپ میں۔۔۔ تم سمجھ رہے ہونا، میں کیا کہنا چاہتی ہوں؟‘‘
’’ہاں ! اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ تمہارے پاس کام نہیں ہے۔ خالی دماغ پڑا ہے، دن بھر اوٹ پٹانگ باتیں سوچنے کے لئے۔۔۔‘‘
’’زندگی کس لئے ہوتی ہے؟‘‘ وہ اپنے آپ سے کہتے ہوئے ٹھہر جاتی۔ مگر زندگی اور زندگی سے جڑی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی اسے پرواہی کہاں تھی۔۔۔ ایک بےحد اوجڈ اور وحشی انسان۔
سپنوں کے پت جھڑ کے دن جیسے اب دور ہو چکے تھے۔ اب ایک بچہ تھا اس کے پاس۔ اور بچہ بڑا ہو رہا تھا۔ بچے کے پاس اڑانیں تھیں۔ بچے کے پاس سپنے تھے۔۔۔ اور اس بچے میں ایسا بہت کچھ تھا، جو صرف اسی کا تھا، جو اس کے شوہر کا نہیں تھا۔
پھر بچہ اسکول جانے لگا۔ بچے کے اسکول جانے کا مطلب اس کے نزدیک بس اتنا تھا۔۔۔ کاپیاں، کتابیں لے آنا۔۔۔ فیس جمع کر دینا۔ کبھی کبھی کتاب یا کاپی کھو جانے پر اسے ڈانٹ دینا یا تھپڑ مار دینا۔
ایک بار سمجھانے کے خیال سے وہ اس کے بہت پاس کھسک آئی۔
’’سنو۔۔۔؟‘‘
’’کیا ہے؟‘‘
’’بچہ کچھ اور بھی چاہتا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ہاں، کچھ اور۔۔۔ مثلاً یہ کہ ہر اچھی بری بات اس سے شیئر کی جائے۔ اس کے بھولے بھالے معصوم سوالوں کا جواب دیا جائے۔۔۔ اسے نظرانداز نہیں کیا جائے۔ اسے وقت دیا جائے۔ کبھی کبھی اسے پکنک پر بھی لے جایا جائے۔۔۔ اور کبھی کبھی۔۔۔‘‘ ’’میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں۔‘‘
وہ دیر تک غور سے اس جنگلی آدمی کا چہرہ پڑھتی رہی۔۔۔ تو باپ کے پاس وقت نہیں تھا اور بیٹا اس سے ڈرتا تھا۔ بیٹے کو بہت زیادہ اس کی موجودگی پسند نہیں آتی تھی۔ بیٹا اپنے ایسے ہی باغی خیالات کو لے کر بڑا ہو رہا تھا اور ایک دن بڑے ہونے پر بیٹے کی حرکتوں سے لگا۔ اس میں چاہت کی کونپلیں پھوٹنے لگی ہیں۔۔۔ بیٹے کی حرکتیں ہی کچھ ایسی تھیں، اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ کبھی کبھی بیٹھے بیٹھے وہ خیالوں میں گم ہو جاتا تھا۔ اسے بھوک نہیں لگتی تھی۔ وہ صبح سویرے ہی گھر سے نکل جاتا تھا اور ایک دن اس کی کتابوں سے ایک لڑکی کی تصویر بھی نکل آئی تھی۔
’’کون ہے یہ؟‘‘ اس کے لہجے میں اپنے پن کی مٹھاس تھی۔
’’تمہیں کہاں سے ملی؟‘‘ بیٹے کو چوری پکڑے جانے کا احساس تھا۔
’’کہیں سے بھی۔ لیکن یہ ہے کون؟‘‘
’’کوئی ہے۔‘‘
’’لیکن کون ہے؟‘‘
بیٹے کی آنکھوں کی چمک بجھ گئی تھی۔۔۔ ’’کوئی ہے، جو اس گھر میں نہیں آ سکتی۔ سناماں ! اس گھر میں نہیں آ سکتی!‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘وہ ایک دم سے چونک گئی تھی۔
’’کیونکہ۔۔۔ تم اچھی طرح جانتی ہو ماں!‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘ اس کے رگ وپے میں ابھی بھی ہلکی ہلکی سرسراہٹ ہو رہی تھی۔
’’یہ گھر۔۔۔ یہ گھر نہیں ہے۔ یہ گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ اس گھر کا ماحول بوجھل ہے۔ یہاں۔۔۔ محبت نہیں ہے۔۔۔‘‘
بیٹا اس جملے کے بعد ٹھہرا نہیں۔
شوہر کے آنے کے بعد وہ خود کو روک نہیں پائی۔
’’سنا وہ کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’وہ۔۔۔ اسے احساس ہے کہ اس گھر میں۔۔۔‘‘
شوہر کی آنکھیں غصے سے پھیلی ہوئی تھیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ چیخا تھا۔۔۔ کیا، یہ عشق کی عمر ہے اس کی۔۔۔ اسے وہی سب کچھ کرنا ہے جو میں۔۔۔‘‘
’’وہ ایسا کچھ نہیں کرےگا جو تم کر رہے ہو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ اسے تمہاری طرح نہیں بننا ہے۔‘‘ وہ پہلی بار اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیخی تھی۔۔۔ ’’وہ آدمی بننا چاہتا ہے اور آدمی آدمی ہوتا ہے، آدمی کے پاس وقت ہوتا ہے۔ آدمی کے پاس احساس اور جذبات ہوتے ہیں۔ آدمی عشق بھی کرتا ہے۔ آدمی عشق کو سمجھتا بھی ہے۔۔۔ اور مجھے کہہ لینے دو، تم یہ سب نہیں جانتے، بالکل نہیں جانتے۔‘‘
وہ جانے کو مڑی تو دروازے کے پاس بیٹے سے ٹکڑا گئی۔ بیٹے کا چہرہ پُرسکون تھا پتھر کی طرح۔
’’آؤ ماں۔‘‘ بیٹے نے اس کے کانپتے ہوئے وجودکوسنبھالا تھا۔ شوہر نے پلٹ کر دیکھا لیکن اس بار۔۔۔ وہ کچھ نہیں بولا۔ بس سوچتا رہا اور سوچتے سوچتے وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔
دوسرے ہی روز رات میں اس نے اپنے شوہر کو دیکھا۔۔۔ وہ فکر مند لگ رہا تھا۔ وہ بار بار ٹہلنے لگتا تھا۔ اسے احساس تھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ مگر وہ اپنی عادت سے مجبور تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ ٹھہرا۔ وہ اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ وہ اس کی جانب سے مڑا۔ اس کے لہجے میں نرمی تھی۔
’’سنو۔ اس سے کہہ دو۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے کرے۔ مگر ابھی نہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’وہ لڑکی۔۔۔ تم نے بتایا تھا نا۔۔۔ کہہ دینا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر ہر کام وقت پر ہونا چاہئے۔‘‘
وہ واپس بسترپر آ گیا تھا۔ اس نے آنکھیں بھی نہیں ملائیں۔ اوندھے لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر بعد اس کے خراٹے گونجنے لگے۔
’’کیسا آدمی ہے یہ؟‘‘وہ غور سے اس کے بد نما بالوں کے گچھوں کو دیکھتی رہی، شاید صرف اتنا کہنے کے لئے ہی اس نے اتنی محنت کی تھی۔ مگر یہ آدمی۔ آخر بیٹے کے لئے اتنا نرم کیسے ہو گیا؟
وہ آج تک نہیں سمجھی۔۔۔
پھر جیسے دھوپ سرکتی ہے۔۔۔ جیسے موسم بدلتے ہیں، جیسے برس پر برس گزرتے ہیں۔۔۔ بیٹا بہو لے آیا۔ پھر تانیہ ہوئی۔ اس میں ابھی بھی کوئی فرق نہیں تھا۔۔۔ وہ ویسا ہی جنگلی تھا۔ وحشی۔۔۔ سرپھر ا، روٹین لائف والا جانور۔۔۔ پھر ایک دن۔۔۔ تانیہ کو چھوڑ کر بہو بیٹا گاڑی سے جا رہے تھے۔۔۔ کہ وہ حادثہ پیش آگیا۔
وہ بیتے دنوں کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جیسے دنیا ہی ایک دم سے پلٹ گئی ہو۔ کسی بھیانک سپنے کی طرح وہ اس منظر کو بھول جانا چاہتی تھی۔۔۔ اسے بس اتنا یاد ہے۔۔۔ اس کے چہرے کی سیاہی اور بڑھ گئی تھی۔ وہ معصوم سی، ننھی سی تانیہ کو قصوروار مان کر چل رہا تھا۔۔۔ لیکن لفظ لفظ باہر نہیں آ رہے تھے۔ گھر میں مزاج پرسی کے لئے آنے والوں کی بھیڑ بڑھنے لگی تھی۔
پھر رات ہوئی، باہر ضرور کتّے رو رہے ہوں گے۔ ہلکی بارش بھی ہوئی ہو گی۔ اسے احساس تھا۔ سڑک سنسان اور دُھلی ہوگی۔ وہ بچوں سے اپنا دھیان ہٹانا چاہتی تھی۔ اس نے دیکھا، اس کا شوہر اٹھا۔۔۔ دھیرے سے۔۔۔ اس رات۔۔۔ وہ اس رات کو کبھی نہیں بھول سکی۔ وہ رات اسے اپنے بچوں کی موت کے لئے نہیں، بلکہ اس منظر کے لئے یاد رہ گئی تھی۔
کمرے میں تاریکی تھی۔ یقیناً اسے احساس تھا کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ ننھی تانیہ کی طرف بڑھا۔ اس نے دیکھا۔۔۔ سوئی ہوئی تانیہ کو اس نے بڑے پیار سے اٹھاکر سینے سے لگا لیا ہے۔ وہ سسکیاں لے رہا ہے مگر چوروں کی طرح سسکیوں کی آواز دھیرے دھیرے تیز ہو رہی ہے۔ حالانکہ وہ ان آوازوں کو اندر ہی روکے رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن کیوں؟
کچھ دیر تک تانیہ کو سینے سے لپٹائے رہنے کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے۔۔۔ تانیہ کو پھر وہیں سلایا اور دوبارہ اپنے بستر پر آ گیا۔
اس کے بعد وہ زیادہ تر اداس رہا۔ لیکن اس کی فطرت نہیں بدلی تھی۔ اس کے بعد وہ زیادہ دن زندہ بھی نہیں رہا۔
(شیڈ 3، ختم)
تانیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی اماں؟‘‘
مسز گروور اپنی نم آنکھوں کو پونچھتی ہوئی ہنس رہی تھی۔ ’’کمبخت! اتنا ساتھ رہنے پر بھی ایک مرد۔۔۔ مرد کو نہیں سمجھ سکی۔۔۔‘‘
ان کے چہرے پر اب بھی مسکان پھیلی ہوئی تھی۔
’’لوگ عورت کو پہلیاں کہتے ہیں۔ لیکن۔۔۔ پہیلیاں تو مرد ہوتا ہے۔۔۔ اس کے وجود کا کھردرا پن اپنے آپ میں ایک پہیلی ہے اور اس کھردرے پن میں جو نرمی ہے، وہ۔۔۔ وہ عورت کہاں سے لائے۔۔۔؟‘‘
تانیہ حیرت زدہ ان کے چہرے کو تکے جا رہی تھی۔
مسز گروور چلائیں۔۔۔ ’’پاگل لڑکی، میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے۔ جا جا کر کچھ کام کر؟‘‘
تانیہ غصّے سے بولی۔ ’’اماں، تم نے ہی تو بلایا تھا۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ مسزگروور کے لفظوں میں ٹھہراؤ تھا۔۔۔ ’’بلایا تھا تو جانے کو بھی تو میں ہی کہہ رہی ہوں۔ زبان دراز لڑکی۔۔۔‘‘
پھر وہ دیر تک گالیوں سے اسے نوازتی رہیں۔
(د)
آخری منظر
’’ہاں، کیا ہے، بولتی کیوں نہیں؟‘‘
’’اماں۔۔۔ وہ سامنے۔۔۔‘‘
’’ہاں، بتانا کیا ہے۔۔۔ یہ گردن اچکا اچکا کر کیا دیکھ رہی ہے، ٹھیک سے کھڑی رہ۔ اسٹول گر جائےگا۔‘‘
’’شی۔۔۔‘‘ تانیہ نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔
’’وہی ہے کل والا آدمی۔۔۔ جو رو رہا تھا۔۔۔‘‘
’’اکیلا ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘
’’تو بول نا۔ وہی پہلے والے دو لوگ نہیں؟‘‘
’’نہیں اماں۔ تم ٹھیک سے دیکھنے بھی نہیں دیتیں۔۔۔‘‘
’’تو دیکھ۔‘‘ مسز گروور کو غصّہ آ گیا تھا۔
’’اس کے ساتھ ایک۔۔۔؟ ایک عورت ہے۔‘‘
’’عورت؟‘‘
’’ہاں اماں، آج اس کے ساتھ ایک عورت بھی ہے۔‘‘
مسز گروور کی آواز کہیں پھنسنے لگی تھی۔۔۔ ’’اور کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’وہ دونوں شاید جھگڑ رہے ہیں۔ مرد عورت کو ڈانٹ رہا ہے۔ غصے میں تیز تیز بول رہا ہے۔‘‘
’’نگوڑی۔ خیر، تو اسٹول سے اتر آ۔ تیرا اور کوئی کام نہیں ہے کیا؟ جب تب تاک جھانک کرتی رہتی ہے۔ جا میرے لئے کھانا لے کر آ جا۔ بڑی زور سے بھوک لگ رہی ہے۔۔۔‘‘
تانیہ نے گھور کر مسز گروور دیکھا اور ایک جھٹکے سے اسٹول سے کود گئی۔
’’ٹھیک سے، سنبھل کر۔۔۔ کمبخت ماری۔۔۔‘‘
تانیہ نے جیسے آگے کچھ سنا ہی نہیں۔ وہ اماں کے لئے کھانے کی تھالی لانے چل دی۔
ہاں، تھالی لے کر واپس آتے ہوئے ایک عجیب سا منظر سامنے تھا۔ اماں کسی طرح اسٹول پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئی تھیں اور گردن اچکا اچکا کر سامنے والے فلیٹ میں کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.