Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرگ انبوہ

انور قمر

مرگ انبوہ

انور قمر

MORE BYانور قمر

    خواجہ عزیزالرحمن کامکان جس گلی میں تھا، امتد اور زمانہ سے اس کی شکل و صورت میں عجیب قسم کی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ کبھی اس گلی میں راہگیروں کی بھیڑ ہوا کرتی تھی۔ گلی کاراستہ بازار کونکلتا تھا اور عوام الناس اسے شارٹ کٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض ناقاقبت اندیش لوگ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور بیل گاڑیوں کو بھی ہانک کر اسی گلی سے لے جاتے تھے۔

    یہاں اور گلیوں کے مقابلے گندے پانی کی نکاسی کا معقول انتظام تھا۔ آس پاس کے گھروں کا پانی جوہڑوں کی شکل میں جمع نہیں ہوپاتا تھا۔ یہاں تک کہ برسات کے دنوں میں بھی اس گلی سے لوگ بہ آسانی گزرجایا کرتے تھے لیکن خلاف توقع آج وہ گلی سنسان تھی۔ میں جب خواجہ کے مکان کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ خواجہ کا مکان کافی خستہ اور بے رونق ہوچکا ہے۔ دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی تو اندر سے ایک نسوانی آواز میں پوچھا گیا، ’’کون ہے؟‘‘

    ’’میرا نام عیسیٰ مقادم ہے۔ خواجہ صاحب سے ایک روحانی مسئلہ کے تعلق سے رجوع ہونا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہریے، میں انہیں خبر کرتی ہوں۔‘‘

    چند منٹوں بعد مجھے اندر سے کنڈی کھولنے کی آواز سنائی دی لیکن دروازے کے پٹ نہیں کھلے۔ اسی نسوانی آواز نے مجھے ہدایت دی، ’’دروازہ کھول دیا ہے۔ آپ دومنٹ بعد اندر تشریف لے آئیں۔ دالان سے گزر کر دائیں جانب مڑیں، جس کمرے میں آپ پہنچیں، اس کمرے کے دائیں سمت میں آپ کو ایک چھوٹا سا کمرہ نظر آئے گا، وہی خواجہ صاحب کا حجرہ ہے۔‘‘

    دروازہ کھول کر، میں ہدایت کے مطابق، خواجہ صاحب کے حجرے تک پہنچ گیا۔ اندر تاریکی تھی۔ اگر اور لوبان کی خوشبو سے کمرہ بسا ہوا تھا۔ ایک جانب چراغ جل رہا تھا، جس کی مدھم روشنی میں مجھے ایک باریش بزرگ قعود کے آسن میں بیٹھے نظر آئے۔ میں نے سلام عرض کیا تو انہوں نے ’’وعلیکم السلام‘‘ کہہ کر فرمایا، ’’وہیں بیٹھ جاؤ۔‘‘

    ان کی آواز بھاری تھی لیکن لہجہ نرم تھا۔

    ’’کیا نام بتایا؟‘‘

    ’’عیسیٰ مقادم۔‘‘

    ’’کیا تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو؟‘‘

    ’’جی ہاں! اگر اس سے آپ کی مراد ایک ناقابل تعریف اصول ہے جس پر ہر شئے کا انحصار ہے اور جس کی بدولت کائنات میں معنی ہیں۔‘‘

    ’’خوب! اب بتاؤ عیسیٰ کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے؟‘‘

    عرض کیا، ’’میں بچپن ہی سے سنجیدہ واقع ہوا ہوں۔ لیکن تین چار سال سے میری حالت غیر ہے۔ میں اپنے آپ کو سمجھ نہیں پارہا ہوں۔ اکیلے میں جب بھی آنکھیں بند کرتاہوں سامنے خون ہی خون نظر آتا ہے اور حضور آگے کہنے میں تامل ہوتا ہے۔‘‘

    خواجہ نے یہ کہہ کر ہمت بندھائی، ’’عیسیٰ ایک بات سمجھ لو کہ بشر کا اختیار نہ تو اپنے جسم پر ہے، نہ اپنی روح پر۔ اس کے خیالوں اور خوابوں کا سلسلہ ایک غیرماورائی قوت سے جاملتا ہے۔ چنانچہ تمہیں بھی اپنے خیالات کے اظہار میں پس و پیش نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

    تب عرض کیا، ’’حضور آنکھیں بند ہونے کی اسی کیفیت میں میرا دل کچا گوشت کھانے کو چاہتا ہے۔ اس نیت سے میں نے دوچار بار بازار سے گوشت خریدا اور پھر اسے گھر لے گیا، لیکن وہ گوشت باوجود کوششوں کے مجھ سے کھایا نہ گیا اور جناب! چند سال قبل، ایک شخص میرے ہاتھوں قتل ہوتے ہوتے بچ گیا تھا اور میں قانون کے عتاب سے۔ میں اپنے آپ کو لاکھ سنبھالنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر خون خرابے کی باتیں ذہن میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ رات رات بھر نیند نہیں آتی۔ کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ کی خدمت میں اسی امید سے حاضر ہوا ہوں کہ آپ میری رہنمائی فرمائیں گے اور میری مشکل آسان کریں گے۔‘‘

    حجرے میں کچھ دیر کے لیے مکمل خاموشی چھاگئی اور میری نظروں میں قتل و غارت گری کامفہوم گھوم گیا۔ خواجہ عزیز الرحمن کی بھاری آواز نے کمرے کا سکوت توڑا۔ میں عالم اسفل سے نکل آیا۔ ارشاد ہوا،

    ’’جمعے کی نماز ادا کرو۔ مسجد سے گھر آنے کے بجائے بازار آؤ۔ وہاں سے ایک آئینہ خریدو۔ خریدنے سے پہلے یا خریدنے کے دوران اس آئینے میں اپنی شکل نہ دیکھو۔ دکاندار کو ہدایت دو کہ وہ اسے خوب اچھی طرح کاغذ میں لپیٹ دے۔ وہاں سے کسی قبرستان کا رخ کرو۔ وہاں پہنچ کر دوچوکور اور سپاٹ پتھر تلاش کرو۔ جب وہ مل جائیں تو اپنے قریب گڑھا کھودو، ان پتھروں میں سے ایک پتھر گڑھے میں رکھو اور اس پتھر پر وہ آئینہ۔ آئینے کو کاغذ سے نکالو۔ پھر گڑھے میں منہ ڈال کر آئینے میں اپنی شکل خوب غور سے دیکھو اور منہ ہٹاکر دوسرے پتھر کی چوٹ سے آئینہ توڑ دو۔ بعد ازاں گڑھے کومٹی سے بھر دو اور لاحول پڑھتے ہوئے وہاں سے گھر چلے آؤ۔ انشاء اللہ صرف ایک مرتبہ عمل کرنے سے فائدہ ہوگا۔ دھیان رہے کہ تمہیں یہ عمل کرتا ہوا کوئی نہ دیکھے۔ ورنہ عمل قاصر ہوگا، مراد حاصل نہ ہوگی۔‘‘

    میں نے خواجہ کی قدم بوسی کی اور ان کی دعاؤں کے جلومیں گھر آگیا۔

    اگلے روز میں اپنی کوٹھری میں بیٹھااخبار دیکھ رہاتھا کہ اونگھ گیا۔ کیا دیکھتاہوں کہ ایک کالا سانپ کھپریل کی چھت سے میری کوٹھری میں اتر رہاہے۔ ابھی میں کوٹھری سے باہر نکل جانے کاقصد ہی کر رہا ہوں کہ وہ زاویہ بدل کر کوٹھری کے منہ پر آجاتا ہے۔ وہیں پر ساٹھ واٹ پاور کابلب جل رہا ہے او روہ اپنی دوشاخہ زبان لپلپارہا ہے۔ فرار کاراستہ مسدود پاکر میرے اوسان خطا ہوجاتے ہیں پھر میں دیکھتا ہوں کہ وہ اپنی دوشاخہ زبان قمقمے کو چھواتا ہے۔ قمقمہ بھک سے اڑجاتا ہے۔ کوٹھری میں تاریکی پھیل جاتی ہے۔ میں اپنے ہاتھ پیر سمیٹ کر اپنے جسم کی پوٹلی بنالیتا ہوں اور کونے میں دبک کر مدد کو پکارنے لگتا ہوں۔ کوئی میری مدد کو نہیں آتا۔

    میں تقریباً چیختا ہواجاگ جاتا ہوں۔ اخبار میرے جسم پر لٹھے کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ میں نے اسے الگ کیا۔ اتنے میں ڈاکیے نے آواز دے کر مجھے بلایا۔ پسینہ پونچھتا ہوا میں کوٹھری سے باہر آیا۔ ڈاکیہ ایک رجسٹرڈ لیٹر لیے کھڑا تھا۔ میں نے رسید دے کر خط لے لیا۔ ایک مدت سے مجھے اسی زیارت نامے کاانتظار تھا سو وہ مجھے مل چکا تھا۔

    اگلے روز بذریعہ بس میں زیارت کے لیے روانہ ہوا۔ مسافروں میں اکثریت زائرین کی تھی لیکن ان میں سے چند ایسے بھی تھے جن کی منزل سو پچاس کوس پر تھی۔ بس صبح سویرے روانہ ہوئی تھی، لہٰذا بستیاں بہت پیچھے چھوٹ گئی تھیں اور اب ہم قدرے سنسان اور ویران مقام سے گزر رہے تھے۔ افق پر پہاڑ کی چوٹیاں اور ان پر اُگے ہوئے گھنے درخت نظر آرہے تھے۔

    اچانک مجھے بس کی رفتار کم ہوتی محسوس ہوئی۔

    ونڈاسکرین پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ایک لمبا تڑنگا قبائلی جس کے شانوں سے بندوق لٹک رہی تھی، دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر بس کو روکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ کوئی سیاہ سی چیز اس کے پاس ہی پڑی تھی۔ بس رکی تو مسافروں نے کنڈیکٹر سے احتجاجاً کہا کہ وہ غیر معینہ مقام پر بس روک کر انہیں خطرے میں نہ ڈالے۔ کنڈیکٹر نے کہا کہ قبائلی اس کا شناسا ہے اور اگلی بستی کا ساکن ہے، وہ گھنٹہ بھر کی مسافت پر اترجائے گا۔

    اس قبائلی کے سوار ہوتے ہی بس چل پڑی۔ وہ ڈرائیور کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ وہ سیاہ چیز اس نے اپنے پاؤں کے قریب ہی رکھ لی۔ چند ثانیو ں میں بس میں ریوڑ کے جسم سے اٹھنے والی بو پھیل گئی۔ مسافروں نے اپنی ناک پر رومال رکھ لیے۔

    ’’کیا لے آیا ہے یہ قبائلی؟ ذرا دیکھنا۔‘‘ میں نے اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے نوجوان سے گزارش کی۔ وہ اٹھ کر آگے گیا اور اس سیاہ چیز کا جائزہ لے کر واپس ہوا۔

    ’’ہرن ہے۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔

    ’’جی ہاں، ہرن ہے۔ کالا ہرن۔‘‘

    میری بغل میں بیٹھی ہوئی ایک معمر خاتون نے غصہ سے کہا، ’’کرم کر میرے مولا! یہ کیسا زمانہ آگیا ہے۔ مباح او رغیر مباح کا امتیاز ہی اٹھ گیا۔ کسی قسم کا ضابطہ اخلاق ہی باقی نہ رہا۔ کیا وہ مردود نہیں جانتا کہ ایک کالے ہرن کو مار کر اس نے کتنی ہرنیوں کو بیوہ کردیا ہے؟ تف ہے اس کی اوقات پر۔‘‘

    وہ قبائلی واقعی اگلے اسٹاپ پر اترگیا۔ بس پھر روانہ ہوئی اور رات بھر چلتی رہی۔ صبح ہم جس منزل میں داخل ہوئے وہ دل کو افسردہ کر رہی تھی۔ راستے کے دونوں جانب کچے پکے مکانوں کے کھنڈرات کا ایک سلسلہ تھا، جن کی چھتوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ کوئی ذی روح اس علاقے میں مجھے نظر نہ آیا البتہ ایک جگہ کچھ کتے غراکر کسی لاش کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ چند کوس پر جاکر بس مڑگئی اور پھر بستی میں داخل ہوئی۔ وہاں پر بھی اکثر مکانات کے ڈھیر دکھائی دے رہے تھے۔ اکا دکاآدمی سودا سلف اٹھائے آجارہے تھے۔ آگے چہل پہل زیادہ نظر آئی، پھر ہم کسی بازار میں آگئے۔ بس ایک چائے خانے کے قریب جاکر رک گئی۔ کنڈیکٹر نے اعلان کیا،

    ’’آج جمعہ کا دن ہے۔ مسافر اس چائے خانہ کے اوپر بنی ہوئی سرائے میں آرام کرسکتے ہیں۔ سرائے میں قیام و طعام کا مکمل انتظام ہے۔ عصر بعد ہماری روانگی ہوگی۔‘‘

    مجھے معلوم تھا کہ آج جمعہ ہے اور مجھ خواجہ عزیز الرحمن کے بتائے ہوئے عمل کو بھی پورا کرنا ہے۔ چونکہ میں حالت سفر میں تھا اس لیے میں سمجھ رہا تھا کہ اس عمل کو ادا نہ کرپاؤں گا لیکن اب جو میں نے کنڈیکٹر کے بتائے ہوئے پروگرام کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لیا تو مجھے اسی مقام پر وہ عمل بجالانے میں کوئی دشواری نظر نہ آئی۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسی مقام پر وہ نیک کام انجام دے دیا جائے۔ لہذا چائے خانے میں مختصر سا ناشتہ کرکے میں سامان سمیت اس سرائے میں منتقل ہوگیا۔ غسل کرکے میں نے صاف ستھرے کپڑے پہنے، عطر کا پھاہا کان میں اڑسا اور نیچے پہنچ کر اسی چائے خانے کے مالک سے مسجد کا اتہ پتہ معلوم کرنے لگا۔

    چائے خانے کے مالک کے بتائے ہوئے راستے پر اور راہ میں ملنے والے لوگوں کے مشورے سے، میں اس علاقے میں پہنچ گیا جہاں مسجد واقع تھی۔ میں نے دیکھا کہ مسجد کا منارہ گر چکا ہے۔ مسجد کے احاطے سے کافی فاصلے پر ایک شامیانے کے نیچے مصلے بچھا دیے گئے ہیں، جن پر بمشکل سو ڈیڑھ سو افراد عبادت میں مصروف ہیں۔ جب جماعت کھڑی ہوئی تو نمازی دو جماعتو ں میں بٹ گئے۔ ایک جماعت ایک سمت او ردوسری، سمت دیگر کی جانب رخ کرکے کھڑی ہوگئی۔ میں نے ایک بزرگ سے استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا، ’’یہاں کے لوگ دین میں ایسے حواس باختہ ہوچکے ہیں کہ انہیں قبلہ ہی نہیں مل رہا ہے۔‘‘

    میں نے بغیر کسی الجھن میں پڑے ایک جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہیں سے پوچھتا پوچھتا بازار میں جاپہنچا۔ ایک دکان پر متفرق سامان نظر آیا۔ وہیں مطلوبہ سائز کا آئینہ بھی دستیاب تھا۔ خواجہ صاحب کی ہدایت کے بموجب میں نے آئینہ پیک کروایا۔ اسی دکان سے گڑھا کھودنے کے لیے ایک نکلیلا اوزار بھی خریدا اور دکان ہی سے قبرستان کا پتہ پوچھ کر ایک سمت کو چل پڑا۔ ویران اور سنسان راستوں پر چلتا ہوا میں بستی سے کافی دور نکل گیا۔

    اب میں جہاں کھڑا تھا، دکاندار کے کہنے کے مطابق وہیں کہیں قبرستان کا محل وقوع تھا اور مجھے کچھ فاصلے پر قبرستان کی چہاردیواری نظر آگئی۔ تلاش کرنے پر مجھے اس کا داخلی دروازہ بھی مل گیا۔ دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔ اندر داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک قدیم آرام گاہ ہے اور کئی ایکڑ میں پھیلی ہوئی ہے۔ جہاں متوفیاں، خستہ اور نیم قبروں کی چادریں اوڑھے قطار در قطار سوئے ہوئے ہیں۔ فرش کے حاشیے پر بڑے چھتنار درخت اُگے ہوئے تھے، جن سے جھڑ کر زرد پتے قبروں پر پڑے تھے۔ کبھی کبھار کوئی پرندہ پرسوز آواز میں بولنے لگتا تھا۔ میں نے وقت گنوائے بغیر مطلوبہ پتھر تلاش کرلیے۔

    ابھی میں قبروں کے درمیان بیٹھ کر گڑھا کھودنا ہی چاہتا تھا کہ مجھے کسی کی سسکی سنائی دی۔ میں نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ کوئی سیاہ پوش خاتون ایک قبر سے چمٹی ہوئی سسکیاں لے رہی تھی۔ وہ منظر دیکھ کر دل بے چین ہو اٹھا۔ کیا کرسکتا تھا؟ نڈھال قدموں سے آگے بڑھ گیا اور کچھ فاصلے پر پہنچ کر پھر دوقبروں کے درمیان بیٹھ کر گڑھا کھودنے لگا۔ ابھی میں نے بالشت بھر مٹی کھودی تھی کہ رونے کی آواز نے مجھے پھر چونکا دیا۔ آواز کے رخ پر نظر دوڑائی تو میں نے دیکھا کہ ایک اور سایہ قبر سے چمٹا ہوا بلک رہا ہے۔ غرض یہ کہ قبرستان کے آخری سرے تک مجھے کوئی ایسی جگہ نہ ملی جس سے متصل آہ وفغاں سنائی نہ دی ہو۔ میں ناکام و نامراد سرائے کو واپس ہوا۔

    میرا سامان بس میں رکھا جاچکا تھا۔ تمام مسافر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ میں بھی اپنی نشست پر جابیٹھا۔ دوسرے ہی لمحے بس حرکت میں آگئی۔ افق میں سرخی پھیلی ہوئی تھی، خنکی کا احساس ہونے لگا تھا۔ دن بھر کی تھکن کا جسم پر غلبہ تھا۔ کچھ ہی دیر میں اونگھنے لگا۔ دھیرے دھیرے قتل و غارت گری کا منظر ذہن کے اسکرین پر طلوع ہونے لگا اور کچے گوشت کے ڈلے نگاہوں میں ناچنے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے