Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مشرق تیری بیٹی کو

محمد امین الدین

مشرق تیری بیٹی کو

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    وہ چاروں طرف پھیلے اندھیرے میں لاکھوں زندہ مگر بے حس انسانوں کے بیچ تیز ہواؤں سے نبرد آزما جلتی لالٹین ہاتھ میں لیے آگے ہی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ اچانک ہوا کے تھپیڑے نے روشنی گل کردی۔ اندھیرا موت کی سیاہی میں تبدیل ہوگیا اور رگوں کو چیرتا شور جاگ اٹھا۔ آہ و بکا کرتی آوازیں۔۔۔ وہ تھر تھر کانپ اٹھی۔

    نہ جانے رات کا کون سا پہر تھا، جب اس نے اور خواب نے ایک ساتھ کروٹ بدلی۔ خواب تعبیر کی بوجھل ردا اوڑھ کر سو گیا، اور وہ دیر تک نیند کے ٹھنڈے اور گہرے دریا میں تیرتی رہی۔ سرد رات گزار کر رضائی میں ٹانگیں سکیڑے دبکی پڑی تھی کہ ماں کی آواز سماعتوں کے مہین پردوں پر تیز ہواؤں کی طرح ٹکرائی۔

    ’’اٹھ! ان حرام خوروں کی طرح تو بھی پڑی سوتی رہا کر‘‘۔ ماں نے رضائی کھینچتے ہوے کہا۔ ’’کالج تیرے پاپا کا نہیں ہے‘‘۔ مگر جوں ہی ماں کی نظریں اس کی کمر سے اوپر سرکی ہوئی قمیص اور پنڈلیوں تک چڑھی شلوار پر پڑی، وہ غصے سے بولی۔ ’’بے شرم تو سوتی کس طرح ہے۔ کوئی شرم حیا ہے؟ باپ بھائی گھر میں ہوتے ہیں‘‘۔

    ’’اماں میں رضائی کے اندر تھی‘‘۔ وہ کسمساتے ہوے بولی۔

    ’’تو کیا رضائی کے اندر ننگی ہوجائے گی؟‘ ‘ماں نے ڈانٹا۔

    آوازیں کمرے سے باہر تک جارہی تھیں، تب ہی باہر سے اس کے پاپا بولے۔

    ’’میں کہتا ہوں تم اس کا کالج جانا بند کردو۔ ہمیں نہیں پڑھوانا۔ اس نے جتنا پڑھنا تھا، پڑھ لیا، یہی کافی ہے‘‘۔

    ’’پاپا! میری پڑھائی کے بارے میں مت بولا کرو۔ ورنہ میں جان دے دوں گی‘‘۔

    ’’تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا؟‘‘

    ’’کیوں؟ کیوں نہ بولوں۔ اگر بیٹے پڑھ کر نہیں دے رہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے‘‘۔

    تنک کر جواب دیتے ہوے وہ غسل خانے میں گھس گئی، اور جب باہر نکلی تو کالج یونیفارم پہنے ہوے تھی۔ تھوڑی دیر بعد گھر سے مرکزی سڑک تک آتے آتے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ ہوا یوں کہ گلی کے کونے پر ایک سیاسی پارٹی کے کارکن بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر دوسری سیاسی پارٹی کے بینر کو جنونی انداز میں چھیتڑوں کی طرح اڑارہے تھے۔ بات اتنی سنگین نہ تھی۔ رواداری کا جنازہ نکلتے ہوے وہ ہر روز دیکھا کرتی تھی، مگر اس وقت نہ جانے کیوں اسے لگا کہ یہ بینر نہیں اس کا لباس ہو، جسے کوئی نوچ رہا ہے۔ ویگن میں سوار ہوتے ہوے اس کی ٹانگیں کانپیں مگر جوں ہی اس نے سلاخ کا سہارا لیا، ویگن جھٹکے سے آگے بڑھ گئی اور وہ ٹین کی پتریوں سے سجے دروازے سے جا ٹکرائی اور یکایک چند ادھڑی ہوئی نوکیلی پتریاں اس کے کولہے میں چبھ گئیں۔ جوں ہی وہ پلٹی تو پتریوں میں پھنسی شلوار دو چار انچ چرتی چلی گئی۔ ویگن میں قہقہے گونج گئے۔ اس نے گھبرا کر اردگرد دیکھا۔ عورتیں اس کی طرف ہمدردی سے دیکھ رہی تھیں، مگر مردانے حصے میں کچھ لوگ اس تماشے پر بے حیائی سے دانت نکوس رہے تھے۔ اس نے اپنے دوپٹے کو انگلیوں میں پھنسا کر شلوار کو ڈھانپ لیا اور چیتھڑے ہوتی ہوئی عزت بچانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

    گلی کے نکڑ پر ابھرنے والی خوف کی لہر اب اس کے پورے وجود پر طاری ہونے لگی۔ رات والا خواب اس کے دماغ میں دھوئیں کے مرغولوں کی صورت تیرنے لگا۔ اس نے خوف پر قابو پانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سب جھیلنا پڑتا ہے۔ اگلے دو اسٹاپ گزرنے کے بعد جوں ہی سیٹ خالی ہوئی وہ فوراً بیٹھ گئی۔ برابر بیٹھی ہوئی خاتون نے اسے مسکرا کر دیکھا اور سرتاپا جائزہ لیتے ہوے پوچھا۔

    ’’پڑھتی ہو؟‘‘

    ’’جی‘‘۔

    ’’کہاں؟‘‘

    وہ خاموش رہی۔ اسے یاد آیا کہ ماں نے سمجھایا تھا کہ اجنبی مرد ہو یا عورت، اس سے دس ہزار باتیں کرلو مگر اپنے بارے میں کبھی کچھ مت بتاؤ۔

    ’’کون سے کالج میں پڑھتی ہو؟‘‘

    اس نے ادھیڑ عمر خاتون کو اجنبی نظروں سے دیکھا۔ جس کی ڈھلتی عمر والے خوبصوت چہرے پر پرکشش مسکراہٹ اب تک جمی ہوئی تھی۔

    ’’اچھا بھئی مت بتاؤ، لیکن یہ بتاؤ ،کچھ کمانا چاہتی ہو؟‘‘

    ’’کیا؟‘‘ وہ فوراً بول پڑی، شاید اس کی ضرورتوں نے اکسایا تھا۔

    ’’کچھ پیسے ویسے کمانا چاہتی ہو؟‘‘

    ’’کس طرح؟‘‘ اس کا تجسّس پکار اٹھا۔

    ’’بہت آسانی سے‘‘ ۔خاتون نے کندھے اچکاتے ہوے کہا۔

    ’’پھر بھی کس طرح؟‘‘

    ’’کچھ زیادہ مشقت سے نہیں‘‘۔ پھر خاتون نے اپنے پرس سے کارڈ نکالا، اور اس کی طرف بڑھاتے ہوے کہا۔ ’’میرا نمبر رکھ لو، کبھی کام آسکتا ہے‘‘۔

    اس نے ہچکچاتے ہوے کارڈ لے لیا۔ جوں ہی کارڈ انگلیوں سے ٹکرایا، انگلیوں پر کلون کی خوشبو اتر آئی۔ اس نے حیرت سے خاتون کی طرف دیکھا جو اب بھی مسکرارہی تھی۔ اسی اثنا میں اس کے کالج کا اسٹاپ آگیا۔ وہ اترنے کے لیے کھڑی ہوئی تو خاتون نے کہا۔

    ’’یہ لو۔۔۔ ہم تو ویسے ہی جان گئے کہ تم کس کالج میں پڑھتی ہو‘‘۔

    تب خوف کی دبی ہوئی لہر نے ایک بار پھر سراٹھایا۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ جلدی سے ویگن سے اتری اور تیز تیز قدموں سے فٹ پاتھ عبور کرتے ہوے کالج کے گیٹ کے اندر جاگھسی۔ چند قدم چل کر پلٹ کر دیکھا۔ پیچھے کوئی نہیں تھا، مگر انجانا خوف کہیں آس پاس اب بھی موجود تھا۔ کوریڈور میں اس کی سہلیاں مل گئیں۔ ایک نے بتایا۔

    ’’آج کلاسیں نہیں ہوسکیں گی‘‘۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’فزکس کے پروفیسر کی بیٹی کے ساتھ حادثہ ہوگیا ہے‘ف۔

    ’’کیسا حادثہ؟‘‘

    ’’صحیح طرح کوئی نہیں بتارہا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ اس نے خود کشی کی ہے ،کوئی کہہ رہا ہے کہ کسی طاقتور گروہ نے اسے مارا ہے‘‘۔

    ’’خود کشی یا قتل کی کوئی وجہ تو ہوگی؟‘‘

    ’’کسی سے کہنا نہیں ، رومرس اڑرہی ہے کہ وہ ایک بیوٹی پارلر میں ملازمت کرتی تھی، جہاں ہیڈن کیمروں سے دلہنوں اور دیگر عورتوں کی موویز بنائی جاتی تھیں۔ گاڈنوز بیٹر کہ اس کی بھی مووی بن گئی تھی جو اس نے خودکشی کرلی یا اس نے یہ سب کرنے والوں کو دیکھ لیا، جو اسے قتل کردیا گیا‘‘۔

    ’’اوہ مائی گاڈ‘‘ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے ہوے کہا۔ خوف سے کھڑے رونگٹے جلد میں تیر کی طرح چبھنے لگے، کانوں کی لویں سرخ اور کنپٹی میں سنسناتی سیٹیوں کی آوازیں گونج اٹھیں، یکایک پیروں میں لرزہ طاری ہونے لگا۔ اس حالت میں خوف اس کے چہرے پر شدت سے ابھر آیا تھا۔ اس کی دوستوں نے دیکھا تو بولیں۔

    ’’ہے۔۔۔ تمہیں کیا ہوا ۔۔۔ آر یو اوکے؟‘‘

    وہ کچھ نہ بول سکی۔ بس کوریڈور کے ایک ستون کا سہارا لے کر کھڑی ہوگئی۔

    ’’لگتا ہے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘۔ دوسری بولی۔

    ’’طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو کالج نہیں آنا چاہیے تھا‘‘۔ پہلی والی نے جواب دیا۔

    ’’اس کے پاس سیل فون ہوتا تو میں اسے ایس ایم ایس کردیتی کہ مت آؤ، آج کلاسیں نہیں ہورہی ہیں‘‘۔

    ’’اس کے پاس موبائل تو تھا، کہاں گیا؟‘‘

    ’’یار اس کا نمبر کسی لفنگے کے ہاتھ لگ گیا تھا، وہ اسے خراب میسجز بھیجنے لگا تھا، اس کے پاپا کو پتا چلا تو انہوں نے اس کا فون ہی بیچ دیا‘‘۔

    ’’اوہ! دیٹ از ویری بیڈ یار‘‘۔

    ’’چلو کینٹین میں چلتے ہیں، لگتا ہے اس نے آج ناشتہ بھی نہیں کیا ہے‘ف۔

    ادھر ادھر کی باتوں اور چائے پینے کے بعد وہ قدرے پرسکون نظر آنے لگی تھی۔ پھر وہ گھر لوٹ آئی، اور زندگی کے معمولات میں مصروف ہو کر کسی حد تک خوف سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہوگئی۔ چار بجے اس کی ملازمت کا وقت ہو چلا۔ وہ تیار ہو کر معمول کے مطابق گھر سے ایک سوا فرلانگ دور واقع شادی لان کی طرف پیدل چل دی، جہاں وہ دفتر میں ریسپشنسٹ کا کام کیا کرتی تھی۔

    ملازمت اس کا شوق نہیں ضرورت تھی۔ وہ اپنے پاپا کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا باپ ایک کم تعلیمی استعداد اور قلیل آمدنی والا شخص ہے، اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے دونوں بھائی نکمے اور ہڈ حرام ہیں۔ ادھر ادھر الٹے سیدھے ہاتھ مار کر صرف اپنے اخراجات کے لیے کماتے ہیں۔ اماں پاپا جب کبھی گھر کی ضرورتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو ان کی زبانیں شعلہ اگلتے ہوے کہتی ہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے؟ پاپا بے چارے یہی کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ارے کمبختومیں نے تمہیں انسان بنانے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ مگر پاپا کا کہنا ہمیشہ ایک کمزور سا احتجاج ہوتا ہے۔

    دفتر کے قد آدم شیشوں کے دوسری طرف وسیع لان کی سجاوٹ میں شادی لان کے کارکن مصروف تھے۔ میز کرسیاں ترتیب سے لگائی جارہی تھیں، گلدستے سجائے جارہے تھے، برقی قمقموں کو آویزاں کیا جارہا تھا۔ آج رات یہاں ایک شاندار تقریب تھی۔ وہ کسی کو فون پر یہ بتانے میں مصروف تھی کہ مارچ تک لان دستیاب نہیں ہوگا، کہ اچانک شیشے کا دروازہ کھول کر ایک نوجوان کی معیت میں کچھ لوگ اندر داخل ہوے۔ نوجوان نے چھوٹتے ہی کہا۔

    ’’محترمہ! آپ نے چھت پر ہماری پارٹی کا بینر لگانے سے کیوں منع کیا ہے؟‘‘

    ’’وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا ہورڈنگ ہے۔ آپ اس پر اپنا پینا فلیکس کیسے لگاسکتے ہیں؟‘‘

    ’’آپ اس ملٹی نیشنل کمپنی والوں سے میری بات کروائیے‘‘۔

    ’’یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔ آپ کو ہمارے باس سے بات کرنا ہوگی، اور وہ ان دنوں پاکستان میں نہیں ہیں‘‘۔

    ’’آپ جانتی ہیں کہ میں ایک فون کروں گا تو یہ لان وان سب بند ہوجائے گا۔ آپ ہمارے لوگوں کو منع نہ کریں‘‘۔ پھر وہ اپنے کارندوں س سے مخاطب ہوا۔’ ’جاؤ بھئی اوپر جا کر اپنا کام کرو‘‘۔

    کارندے پینا فلیکس کا رول اٹھائے زینے کی طرف بڑھ گئے۔

    ’’دیکھیں آپ اپنی مرضی سے۔۔۔‘‘

    ’’محترمہ! یہ ہورڈنگ صرف دس بارہ دن کے لیے ہمیں چاہیے۔ بعد میں آپ اس پر مصالحہ بیچیں یا انڈر گارمنٹس۔۔۔‘‘

    ’’کیا بکواس کررہے ہیں آپ؟ آپ کو لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے؟‘‘

    یہ کہتے ہوے انجانا خوف ایک بار پھر عود آیا اور وہ لرز کر رہ گئی۔ اس نے گھبرا کر قد آدم شیشے کی دوسری طرف دیکھا جہاں ویٹرز دائروں میں بچھی ہوئی کرسیوں پر سرخ شنیل کے غلاف چڑھانے میں مصروف تھے۔ اسے دفتر میں موجود اس شخص سے خوف محسوس ہورہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ چاروں طرف لگے شیشے اندر سے باہر کا منظر تو دکھاتے ہیں، لیکن باہر سے کوئی اندر نہیں دیکھ سکتا۔ اسے اندازہ ہوا کہ باہر سے اندر جھانکنا کبھی کبھی کتنا زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ اس نے سوچا کہ فوراً دفتر سے باہر نکل کر لوگوں کی بھیڑ میں گم ہوجائے۔ اس نے فیصلہ کیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ تحفظ کے اس احساس سے کہ دفتر میں موجود شخص اور اس کے علاوہ کوئی تیسرا بھی اب یہاں موجود ہوگا، فون اٹھالیا اور فوراً کہا۔

    ’’ہیلو! کون ہیں، کس سے بات کرنا ہے؟‘‘

    دوسری طرف کی آواز سن کر اس کے قدم زمین پر مضبوطی سے جم گئے۔ آواز نے اس کے چاروں طرف حصار قائم کردیا۔

    مضبوط اور طاقت ور حصار۔۔۔

    آواز اس کی ماں کی تھی۔ وہ گھر سے بول رہی تھی۔ اس کی ماں ایک مضبوط عورت تھی۔ ہر طرح کے دکھوں، محرومیوں کو آسانی سے جھیل جانے والی مضبوط عورت۔ مگر اس وقت اس کی ماں کی آواز میں کپکپاہٹ صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔

    ’’تم جلدی سے گھر آجاؤ، مین روڈ سے مت آنا، کہیں رکنا مت‘‘۔

    ’’کیوں کیاہوا ، خیریت تو ہے؟‘‘

    ’’ ٹی وی پر نیوز چل رہی ہے ، راولپنڈی میں بے نظیر کے جلسے میں بم دھماکہ ہوگیا ہے اور شاید۔۔۔ اللہ رحم کرے۔۔۔ بس تم جلدی سے گھر آجاؤ۔۔۔ خدا جانے اب کیا ہوگا۔۔۔‘‘

    اس کے بعد ماں نے کیا کہا وہ سن ہی نہ سکی، کیوں کہ بے اماں ہونے کا احساس شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا۔ خوف اس کے پورے بدن پر لباس کی طرح چپکا ہوا تھا۔ اس دوران اجنبی شخص دفتر سے جاچکا تھا، مگر پچھلی رات کا ڈراؤنا خواب رگوں کو چیرتے ہوے اس کے جسم، جسم سے باہر کی فضا حتیٰ کہ پورے دفتر میں اتر آیا تھا۔ وہ گھبرا کر باہر نکل آئی۔ سامنے چوراہا اور اس کے دوسری طرف گلی میں اس کا گھر تھا۔ چوراہا عبور کیے بغیر وہ گھر نہیں جاسکتی تھی۔ مگر وہاں تو پہلے ہی سینکڑوں گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں۔

    (۲۰۰۸ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے