مصلوب دھڑکنیں
شتر بےمہار کی گھنٹی کی ڈراونی آواز نے پھر اس کے کان کے پردوں کو پھاڑتے ہوئے، اس کی خوف زدہ نیند پر شنجون مارکر، اس کے سکون بھرے گھروندے کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ شب دیجور کے بھیانک سائے میں ’’ماں! ان ظالموں نے اسے گولی مار دی۔۔۔ وہ زخمی حالت میں سڑک پر ان سے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔۔۔ ماں وہ تڑپ تڑپ کر رو رہا ہے۔۔۔ ماں وہ بےبسی کی حالت میں جان دے رہا ہے۔۔۔‘‘ کہتے ہوئے گلستان اپنے بسترے سے گھبرایا ہوا اٹھا اور ماں کی چھاتی پر سر مار مار کر سسکیاں لینے لگا۔ ماں کی نیند اچانک ٹوٹ گئی۔ ’’گھبراؤ مت میرے لال، گھبراؤ مت! سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا‘‘ کہتے ہوئے وہ خود بھی روپڑی اور ’’ہمارا خدا ان قاتلوں سے تمہارے معصوم دوست کے قتل کا بدلہ ضرور لےگا‘‘ کا دلاسہ دیتی ہوئی آنسو بہاتے بہاتے اس کے سر کو اپنے شفقت بھرے ہاتھ سے ستارۂ سحری تک سہلاتی رہی۔
پندرہ برس کا طالب علم گلستان خان جب بھی اس شب سرخاب کی طوفانی طغیانی میں اپنی غمگین سوچ کو نیند کے تلخ سمندر میں ڈبو نا چاہتا تھا تو ان ہی کرب زدہ لمحوں میں ان ستیزۂ چشم بھگت باز درندوں کی آگ برساتی گولیوں کا وہ دہشت ناک خونین منظر خوفناک زلزلہ بن کر اس کے نازک ذہن کی نازک سوچوں اور اس کے شیشۂ دل کے حسین سپنوں کو چکنا چور کر کے رکھ دیتا تھا، جس میں اس کے سامنے، دن کے اجالے میں، اس کے سولہا برس کے معصوم دوست بوستان شاہ کے نرم و نازک گلابی بدن کو سیاہ پوش درندوں کی زہر یلی گولیوں نے پرزہ پرزہ کر کے رکھ دیا تھا، اور اس کا معصوم دوست موت کی گولیاں کھاتے کھاتے خون آلودہ ہاتھوں سے اپنے اسکولی بیگ سے کتابیں دکھا دکھا کر ان سنگ دل جلا دوں کو اپنی بے گنا ہی کا نا کام وشواش دلا رہا تھا۔
پچھلی دو دہائیوں سے جنت کشمیر کے نہ جانے کتنے ہی خوشبو دار پھول، معصوم بوستان شاہ کی طرح آبدیدہ نگاہوں میں سجائے ہوئے رنگ برنگے خوابوں کی تعبیر دیکھے بغیر ہی اپنی تلخ بھری یادیں وطن کی شبنمی پلکوں پرچپتے کا نٹوں کی طرح چھوڑ کر چلے گئے اور نہ جانے اور کتنے ہی زاہد اور عنایت جیسے گلابی پھولوں کو، وہ سیاہ بخت جابر گلچیں، کھلنے سے پہلے ہی مسل کر رکھ دینگے اور اس وادی گلپوش کے چہکتے بلبلوں کی مترنم آواز وں کو کاٹ کاٹ کر، ان کی مصلوب دھڑکنوں میں ہی دفن کرتے رہیں گے۔
گلستان اور بوستان ایک ہی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ ہم جماعت اور ہم مزاج ہونے کی بدولت دونوں میں مثالی دوستی قائم تھی۔ گلستان کا خواب ڈاکٹر بننے کا تھا اور بوستان انجینئر بننے کا سپنہ دیکھتا رہتا تھا۔ ایک روز یوم امن منانے کے دن پر امن گروپ کی طرف سے، اسکول کے احاطے میں ’’گڈول‘‘ پروگرام کے تحت اسکول کے طالب علموں کے لئے ایک سمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع تھا، ’’میری زندگی کا مقصد‘‘۔ دوسرے طالب علموں کے ساتھ ساتھ گلستان خان اور بوستان شاہ نے بھی تقریب میں حصہ لیا۔ امن گروپ کے علاوہ سمینار میں دوسرے لوگ بھی طلبہ کی تقریریں دلچسپی سے سن رہے تھے۔ گلستان خان نے موضوع کی مناسبت سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میری زندگی کا مقصد ڈاکٹر بننے کا ہے تاکہ میں اپنی قوم کے ان ہزار وں زخمی افراد کا علاج کر سکوں جو روان تشدد کی وجہ سے اپاہج بن گئے ہیں۔‘‘ اس طرح سے بوستان شاہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ایک انجینئر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے تاکہ وہ ان اپاہج افراد کے تباہ شدہ مکانون کو دوبارہ تعمیر کر اس کے جنہیں تشدد کی آگ نے راکھ کا ڈھیر بنا ڈالا ہے۔‘‘ دونوں دوستوں کی مثبت تقریروں پر اگرچہ لوگ خوش ہو کر تالیاں بجاتے رہے تاہم امن گروپ کی بدامن آنکھوں میں سرخی چھا گئی، سمینار کے اختتام پر گلستان اور بوستان کو بہترین کا رکردگی دکھانے پر ’’امن گروپ‘‘ کی طرف سے ’’تلاش امن‘‘ نامی کتاب سے نوازا گیا۔
تقریب ختم ہونے کے بعد دونوں دوست پُرمسرت موڈ میں گھر کی جانب نکل پڑے۔ سڑک پار کرتے ہی گلستان نے بوستان سے کہا کہ تم یہاں پر ہی انتظار کرو میں دوکان سے چاکلیٹ لاتا ہوں۔ وہ ابھی چاکلیٹ ہی خرید رہا تھا کہ اچانک بغیر نمبر کی ایک سبز رنگ گاڑی بوستان کے نزدیک آکر ٹھر گئی اور چند نقاب پوش گاڑی سے اتر کر بوستان پر گولیاں چلانے لگے، بوستان گولیاں لگنے سے سڑک پر گر پڑا۔ یہ خونین منظر دیکھ کر جب لوگوں نے نقاب پوشوں سے گولیاں چلانے کا سبب پوچھا تو انھوں نے اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے پتھر دکھاتے ہوئے کہا ’’یہ ہم پر سنگ باری کر رہا تھا۔۔۔ سنگ باز سالہ‘‘ ان کا جھوٹ سنتے ہی بوستان نے جان دیتے ہوئے اپنے اسکولی بیگ سے کتابیں نکال نکال کر کہا کہ ’’میرے بیگ میں صرف کتابیں ہیں، پتھر نہیں۔۔۔ میں بےقصور ہوں۔۔۔ !‘‘
لوگ جب بوستان کی لاش اٹھا کر حاکم الوقت کے مصنوعی دربار میں انصاف کی گھنٹی بجانے لگے تو ڈیوڑھی پر تعینات حاکم کے وفادار کارندوں نے انھیں یہ کہہ کر وہاں سے بھگایا کہ ہماری عدالت کے انصاف کے ترازو میں کتابوں کے پلڑے کے اوپر پتھروں بھرا پلڑا بھاری پڑ گیا۔ لوگ مایوس ہو کر بوستان شاہ کی لاش لے کر خاموشی کے ساتھ قبرستان کی جانب چل پڑے۔ وہ قبرستان جس پر کسی ظالم کا زور نہیں چلتا تھا اور جو دو دہائیوں سے خاموشی کے ساتھ سینکڑوں مظلوموں کی لاشوں کو اپنی کشادہ گود میں سلاتے آیا تھا۔
سالانہ امتحان شروع ہونے والا تھا۔ گلستان خان بھی بددلی کے ساتھ امتحان ہال میں بیٹھ گیا۔ اس کے سامنے جب دسویں جماعت کا امتحانی پرچہ ڈالا گیا تو کمرے میں ہر طرف اس کے دوست کی پرانی آوازوں سے اس کے کان بجنے لگے۔ وہ آوازیں اسے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ دوست ہمیں سخت امتحان کا سامنا کرنا پڑےگا۔ ہم ضرور کا میاب ہو جائینگے۔ تمہیں ڈاکٹر بننا ہے اور مجھے انجینئر۔ گلستان کے اندر عجیب قسم کی بےقراری پیدا ہوئی۔ اس کے ذہن نے سوچنا بند کر دیا۔
اسے ہر طرف خون آلودہ پتھر نظر آنے لگے۔ وہ خاموشی کے ساتھ امتحان ہا ل سے باہر چلا آیا اور ’’ تلاش امن‘‘ نامی کتاب میں پتھر چھپا کر سڑک کے اور دوڑ پڑا۔ شتر کمینہ کی گھنٹی بجتے ہی اس کے کان بجنے لگے۔ نوکیلے پتھر کی چوٹ سے امن گروپ کے سردار کے سیاہ ماتھے سے سرخیلے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ نفرت کی تیز لہر نے بندوق کا گھوڑا دبایا اور آن کی آن میں گلستان کا گلابی بدن برستے شعلوں سے جلنے لگا۔ وہ اپنے جلتے وجود کی پروا کئے بغیر غیرت کے گھوڑے پر سوار ہوا اور امن گروپ کے سردار کے جلا دی چہرے پر ’’تلاش امن‘‘ نامی کتاب زور سے مارتے ہوے بول پڑا۔
’’مکار۔۔۔ دھو کے باز۔۔۔ کیا یہی ہے تمہارا فلسفۂ امن۔۔۔؟ کہ نہتے لوگوں کی فریادی سانسوں کو تشدد کی ننگی تلوار سے کاٹا جائے۔۔۔ اور۔۔۔ ان کے مضروب دل کی مجبور دھڑکنوں کو پھانسی کے پھندے سے جکڑ دیا جائے۔۔۔ !‘‘
خون بہتے بہتے اس کے جذبات سرد پڑ گئے اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے سڑک کے بیچوں بیچ زخمی حالت میں گر پڑا۔ بچوں نے جب گولیوں کی مانوس آواز سنی تو انھیں اپنی کتابوں میں لفظوں کے بدلے پتھر ہی پتھر نظر آنے لگے۔ وہ اسکول سے نکل کر بھاری بھاری بیگ ہاتھوں میں اٹھا کر دوڑتے ہوے سڑک پر آگے۔ گلستان کے خوشبو دار خون کی مہک فضا میں پھیلنے لگی۔ لوگوں نے گلستان کو زخمی حالت میں اسپتال پہنچا دیا۔ ڈاکٹر رات بھر اس کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ اس کی ماں رو روکر اس کے سر کو سہلاتی رہی۔ کالی رات کے آخری حصے میں گھنٹی کی خوفناک آواز سے اس کا دل بیٹھنے لگا اور اس نے آخری مرتبہ ماں کی گود میں سر رکھ کر گھبرائی ہوئی آواز میں کہا:
’’ماں۔۔۔ مجھے میرا زخمی دوست علاج کے لئے بلا رہا ہے۔۔۔ اس کے جسم سے خون بہہ رہا ہے۔۔۔ ماں۔۔۔ مایوس مت ہونا۔۔۔ اندھیرا بھاگ رہا ہے۔۔۔ اور۔۔۔ اور اجالا آ رہا ہے۔۔۔‘‘
ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ پرندے پیٹروں پر خاموش ہو گئے اور اس کی ماں کی قوت گویائی۔۔۔!
یہ کس نے قتل کیا شہر خوش کلام میرا
میں جس سے بات کروں وہ بے زباں نکلتا ہے
(وزیر آغا)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.