Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماسٹر پیس

محمد حمید شاہد

ماسٹر پیس

محمد حمید شاہد

MORE BYمحمد حمید شاہد

    میں جانتا ہوں ‘میرے افسانوں نے ادبی دنیا میں تہلکہ مجائے رکھا ہے۔ افسانوں نے مجھے جو مقام بخشا‘ تنقید اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اب بھی اگر کسی ادبی مجلے ‘اخبار یا رسالے میں مجھ پر کوئی مضمون لکھا جاتا ہے یا میرے متعلق کوئی خبر شائع ہوتی ہے تو میرے نام کے ساتھ ’’ممتاز اور منفرد افسانہ نگار‘‘ ضرور لکھا ہوتا ہے‘ حالاں کہ میں نے دو سال سے افسانے لکھنے چھوڑ دیے ہیں اور اس وقت سے مسلسل تنقید لکھ رہا ہوں۔

    تنقید لکھنا میرے لیے مہنگا ثابت ہوا ہے۔ ہر ماہ نئی کتابوں میں اچھا خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ میرے افسانہ نگار دوست مجھے اپنے ہی میدان کا فرد جان کر اپنی کتابیں بھیج دیتے ہیں۔ لیکن کئی دوسرے احباب مجھے افسانہ نگار سمجھ کر کتابیں کسی اور ناقد کے پاس تبصرے اور تنقید کے لیے بھیجنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ چناں چہ مجھے اپنی تنخواہ کا بیشتر حصہ کتابوں کی نذر کرنا پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جونہی میں کوئی کتاب تھامے گھر پہنچتا ہوں ‘بیگم کا سوئچ آن ہو جاتا ہے۔

    ’’جان نہیں چھوڑیں گی یہ کم بخت کتابیں۔ میں نصیبوں جلی کا ہے کو بیاہی گئی تھی تمہارے ساتھ۔ روتی ہوں اس روز کو‘ جس روز میں تمہارے دامن سے بندھی تھی۔ نہ میرے سر پر سالم آنچل ‘نہ گڈو کے ڈھنگ کے جوتے‘ نہ منّے کی وردی سلامت ‘اور صاحب ہیں کہ ہر ماہ بغل میں نگوڑی کتابوں کو دابے چلے آتے ہیں۔‘‘

    میں اپنے لہجے میں دنیا بھر کی ملائمت اور پیار گھول کر کہتا:

    ’’جانی! یہ کتابیں میں خرید کر تھوڑی لایا ہوں‘ وہ ہیں نافاروق صاحب!ان سے عاریتاً پڑھنے کے لیے لایا تھا۔‘‘

    ’’ہاں ہاں میں جانتی ہوں تمہارے یار فاروق کو ‘اور تمہیں بھی۔ گھر میں کھانے کے لیے ہے نہیں اور کتابیں خرید خرید کر تمہیں پڑھنے کو دے دیتا ہے۔ سارا دن گھر بیٹھتا ہے نکما کہیں کا۔ بس کاغذ کالے کرنے کے سوا کیا کام ہے اس کا؟ تبھی تو کہتی ہوں چھوڑ ان نکمے دوستوں کو۔ کتابوں کے یار کم بخت۔‘‘

    میں سمجھتا۔ بس اب لیکچر ختم۔ لیکن جوں ہی محترمہ کی نظر پھر کتابوں پر پڑتی آتش فشاں پہاڑ کا دہانہ کھل جاتا:

    ’’اے ہے‘ مجھے بتاؤ تو ‘یہ تمہارے سسرے دوست‘ حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر تمہیں کتابیں دیتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لیے بھول جاتے ہیں کیا؟ اب تک جو کتابیں آئی ہیں‘ واپس تو نہیں گئی ایک بھی!۔ جدھر دیکھو کتابیں ہی کتابیں ہیں۔‘‘

    ادھر بیگم کا دھواں دھار وعظ جاری ہوتا ادھر منا اور گڈو ’’پم پم‘‘ کرتے سکول سے چھٹی کر کے گھر آ پہنچتے اور مجھے بھولے وعدے یاد کرانے لگتے۔

    ’’ابو آپ نے کہا تھا نا کہ تمہیں اگلے ماہ اونچی ایڑھی والے سینڈل لادوں گا۔

    لا دیں نا ابو!‘‘

    ’’ابو جی ‘اس مرتبہ تو میں ضرور لوں گا نکر کے لیے کپڑا اور کینوس کے سفید جوتے‘ روز پی ٹی ماسٹر صاحب طعنے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں ‘اتنے بڑے باپ کے بیٹے ہو اور پی ٹی کی وردی کی حالت دیکھو۔‘‘

    اس سے قبل‘ میں کچھ کہتا ‘ہم تینوں بیگم کی گولہ باری کی زد میں آ جاتے۔

    ’’ہاں ہاں لادیں گے تمہیں سینڈل اور وردی‘ نگوڑی کتابوں سے تو جان چھوٹے۔‘‘

    پھر نہ جانے کہاں سے ہم دردی کا جذبہ عود کر آتا کہ ایکا ایکی گڈو اور منے کو جھڑک کر چپ کرا دیتی:

    ’’کیا لگا رکھی ہیں فرمائشیں ‘ابھی تو آئے ہیں گھر۔ ذرا سکون سے سانس تو لے لینے دو۔‘‘

    کئی مرتبہ میں نے سوچا‘ بیوی اور کتابیں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ ایک کو ’’سلام‘‘ کہ دینا چاہیے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے ‘دونوں زندگی کا لازمہ ہیں۔ پھر بیوی کی برہمی بھی کتنی دیر؟ چند لمحوں کی گھن گرج اور مطلع صاف اور ہر ماہ کی سات تاریخ کو چند لمحوں کے لیے بادل کی یہ گھن گرج اور بجلی کی چمک برداشت کرنے کا میں نے اپنے اندر حوصلہ پیدا کر لیا۔ یوں ہر تنخواہ ملنے کے بعد کتابوں کی خریداری‘ گھر پہنچ کر چند لمحوں کی خواری میرا معمول بن گئے۔ بیگم ہربار یہ سمجھتی کہ اب میرا رویہ بدل جائےگا۔ جب کہ میں ہر ماہ گاؤں جانے سے قبل کتابیں خریدنا نہ بھولتا۔ اور جب چھٹی پوری ہو چکتی تو مجھے رخصت کرتے وقت بیگم کی آنکھیں بھیگی ہوتیں اور مجھے اس بات کا اندازہ نہ ہو سکتا کہ محترمہ میری جدائی پر رو رہی ہیں یا میری ثابت قدمی پر۔

    ہاں تو میں نے بتایا تھا کہ میں نے افسانے لکھنا چھوڑ دئیے ہیں ‘تنقید لکھتا ہوں۔ لیکن وہ جو اپنا یار عباسی ہے نا‘ اس کی فرمائش بڑھتی جا رہی ہے کہ افسانہ لکھ دو۔ اچھا آدمی ہے۔ برے بھلے وقت کام آ جاتا ہے۔ بجا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مجھ سے افسانے لکھوانے لگے لیکن کیا کیا جائے کہ اس نے ایک ادبی پرچہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریڈیو ‘ٹیلی وژن اور اخباروں کے ذریعے اسے خوب مشتہر کیا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اس نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ بھی مشتہر کر دیا ہے کہ میں بھی اس میں افسانہ لکھوں گا۔ اس کا خیال ہے‘ یوں پرچے کی اہمیت بڑھ جائےگی۔

    میں نے اسے لاکھ سمجھایا کہ میں نے افسانے لکھنا چھوڑ دیے ہیں ‘لیکن یہ بات اس کی کھوپڑی میں بیٹھتی ہی نہیں۔ کہتا ہے:

    ’’افسانے تمہارے منکوحہ تھوڑی تھے کہ طلاق کے بعد منھ نہیں لگا سکتے۔ تم ہی نے لکھنا چھوڑے تھے‘ تم ہی لکھنا شروع کر دو‘‘

    شاید اسے خبر نہیں کہ افسانے لکھنے کے لیے خون جگر جلانا پڑتا ہے۔ دو سال قبل جب میں افسانے لکھا کرتا تھا تو میرا ہر افسانہ شاہ کار ہوا کرتا تھا۔ لوگ میرے افسانوں کے انتظار میں رہتے۔ ادبی جریدوں کے مدیر کئی کئی مرتبہ مجھ سے رابطہ قائم کرتے منتیں کرتے۔ یاددہانی کراتے ‘اور جونہی میرا کوئی افسانہ شائع ہوتا تو تعریفی خطوط مجھے ملنا شروع ہو جاتے۔ میری معمولی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ معاوضہ ہوتا جو مجھے ان افسانوں کے عوض ملتا۔

    لیکن میں نے افسانے لکھنا چھوڑ دیے۔

    مجھے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ میں وہ معیار برقرار نہ رکھ سکوں گا‘ جو اب ہے۔ یہ میرا خدشہ تھا۔ ہو سکتا ہے یہ خدشہ ٹھیک نہ ہو۔ لیکن یہ خوف بری طرح مجھے اپنی گرفت میں لے چکا تھا کہ آخر خون جگر کب تک جلاتا رہوں گا؟ چراغ میں تیل ہو گا تو روشنی ہو گی۔ اس سے قبل کہ تیل ختم ہو جائے مجھے چراغ بجھا دینا چاہیے ۔

    اور میں نے خون جگر جلانا بند کر دیا۔ چراغ بجھا دیا۔

    اس کے لیے مجھے بڑی اذیّت اٹھانا پڑی۔ کئی مرتبہ تو یوں ہوتا کہ کسی افسانے کا مواد میرے ذہن میں گردش کرنے لگتا۔ قلم اٹھا کر رقم کرنا چاہتا تو اپنا فیصلہ یاد آجاتا اور یوں وہ مواد میرے ذہن کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر جان دے دیتا۔

    میں نے چاہا ‘تنقید نگاری کے ذریعے افسانے کے شوق کو قتل کر ڈالوں۔ میں نے تنقید کی کٹاری ہاتھ میں لے لی اورپوری یکسوئی سے ادھر ادھر وار کرنا شروع کر دیے۔ افسانوں کے ذریعہ جو آمدنی ہوتی تھی‘ وہ ختم ہو گئی۔ تنقید کا معاوضہ بھلا کون دیتا ہے؟ تنقیدی مضمون وصول کر کے مدیر صاحبان مجھے یوں خط لکھتے‘ جیسے وہ اسے شائع کر کے مجھ پر احسان کرنے والے تھے۔ مجھے اپنے فیصلے پر کوئی پشیمانی نہیں تھی۔

    عباسی ہم پیالہ و ہم نوالہ بھی ہے اور لنگوٹیا بھی۔ اس نے اپنا پرچہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور مجھ سے افسانہ مانگا ہے تو مجھے یہ قسم توڑ دینی چاہیے۔ اور پھر گڈو کے لیے اونچی ایڑھی کے سینڈل اور منے کے لیے وردی۔ بیگم کے لیے خوبصورت ساڑھی۔ بس خوش ہی تو ہو جائےگی ایک دم۔

    ’’میں افسانہ لکھوں گا اور ضرور لکھوں گا‘‘

    میں نے جوں ہی عباسی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا وہ ’’زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگا کر میرے ساتھ چمٹ گیا۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ جی بھرا گیا اور میرے سینے میں ہنڈیا سی ابلنے لگی۔ عباسی بھی گھبرا گیا۔

    ’’کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ تم تو رو رہے ہو؟ خیریت تو ہے نا؟‘‘

    میں زور زور سے رونے لگا۔ یوں‘جیسے اس نے مجھے کہ دیا ہو‘ رونا ہے تو خوب کھل کر رویوں اوں اوں کرنے سے کیا فائدہ؟‘‘

    اسی آن مجھے اپنی حرکت پر تعجب ہوا۔ کیوں رویا ہوں میں؟ مجھے رونا نہیں چاہیے۔ شاید مجھے اپنا عہد توڑنے پر رونا آیا تھا۔ شاید۔ لیکن مجھے رونا نہیں چاہیے۔ خواہ مخواہ عباسی کو پریشان کیا۔ کیا سوچتا ہو گا یہ بھی؟

    ہاں ہاں مجھے مسکرا دینا چاہئے۔ اور میں مسکرا دیا۔ عباسی ایک مرتبہ پھر حیران ہوا۔ کہنے لگا:

    ’’عجب آدمی ہو ‘کبھی روتے ہو‘ کبھی ہنستے ہو۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟‘‘

    اور میں اپنی اس حرکت پر جھینپ گیا۔ نہ مجھے رونا چاہیے ‘نہ ہی ہنسنا۔ مجھے تو باتیں کرنا ہیں۔ اور میں نے اس سے ادبی پرچے کے بارے میں باتیں شروع کر دیں۔

    ’’کب نکال رہے ہو پرچہ؟۔۔۔ کتنا سرمایہ لگا رہے ہو؟۔۔۔ کتنامواد جمع ہو گیا ہے؟۔۔۔‘‘

    مجھے خوشی ہے کہ میں نے افسانے کا خوبصورت پلاٹ اپنے ذہن میں تیار کر لیا ہے۔ ایسا افسانہ تو میں نے پہلے کبھی نہیں لکھا تھا۔ اب مجھے افسوس ہو رہا ہے‘ میں نے افسانے لکھنا کیوں چھوڑ دیے تھے۔ میں تو اب بھی شاہ کار افسانے تخلیق کر سکتا ہوں۔ میں حیراں ہوں کہ ایسا پلاٹ اس سے قبل میرے ذہن میں کیوں نہ آیا تھا؟

    میری عادت ہے کہ میں پہلے افسانے کا پلاٹ ذہن میں تیار کرتا ہوں۔ پھر اس کی جزیات پر غور کرتا ہوں۔ تب جاکر ایک ہی نشست میں کاغذ پر منتقل کر دیتا ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی دودھ کا پورا گلاس ایک ہی سانس میں حلق میں انڈیل دے۔

    اور میں نے گلاس حلق میں انڈیل دیا۔

    افسانے کا آخری پیراگراف ہی اس افسانے کی جان تھا۔ میں نے سوچا میں اس افسانے کو اپنا نمائندہ افسانہ کہوں گا۔ ایسا اختتام میرے کسی افسانے کا نہ تھا۔ یوں محسوس ہوتا‘ کہانی آخری پیراگراف سے قبل ہی ختم ہو چکی ہے ‘لیکن دوسرے ہی لمحہ جب آگے چند فقرے قاری پڑھےگا‘ تو تڑپ اٹھے گا۔ افسانے کا اختتام ایسے ہی تھا کہ جیسے دور سے بند نظر آنے والی گلی اپنے پہلو میں ایک ایسا دریچہ رکھتی ہو ‘جو گلشن پربہار میں جا کھلے۔ یاپھر جیسے بدلیوں کی گود میں آرام کرنے والا چاند مچل کر برہنہ ہو جائے تو تارے شرم سے آنکھیں جھپکنے لگیں۔

    مجھے اس پورے افسانے میں اس کا انجام بہت اچھا لگا۔ میں اس افسانے کو بلا جھجک ’’ماسٹر پیس‘‘ کہ سکتا ہوں۔ میں تصور ہی تصور میں سینکڑوں خطوط پڑھ رہا ہوں‘ جو مجھے اس قدر خوبصورت افسانہ لکھنے پر مبارکباد دینے کے لیے لکھے گئے ہیں۔ خصوصاً لوگوں نے اس کے آخری پیراگراف پر خوب داد دی ہے۔ اب میرے ذہن میں بیوی کا مسکراتا ہوا چہرہ آ گیا ہے۔ میں اس کے ہاتھ میں خوبصورت ساڑھی تھما رہا ہوں۔ میں گڈو اور منے کے چہکتے چہرے بھی دیکھ رہا ہوں۔ گڈو سینڈل پہنے بڑی ادا سے ایک ایک قدم یوں رکھ رہی ہے ‘جیسے شیشے کے فرش پر چل رہی ہواور تیز چلے گی تو شیشہ چکنا چور ہو جائےگا۔ منا وردی وردی پہنے فوجیوں کی طرح پریڈ کرتا کبھی ادھر جاتا ہے‘ کبھی ادھر۔ میں خوش ہو کر اپنے افسانے کو دیکھتا ہوں۔ یہ سب خوشیاں اس افسانے ہی کی بدولت مجھے مل رہی ہیں۔ یہ مکمل افسانہ میرے بیوی بچوں کی خوشی ہے اور اس کے اختتامی فقرات میرا سرماےۂ مسرّت۔

    میں بھاگم بھاگ عباسی کے ہاں پہنچا۔

    وہ منھ پھلائے بیٹھا تھا۔مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا:

    ’’دیکھو یار میں نے تمہاری کتنی منتیں کی ہیں کہ افسانہ لکھ دو۔ تم نے نہیں لکھا اور پرچہ مکمل ہو چکا ہے ۔ میں اسے مقررہ تاریخ سے لیٹ نہیں کرنا چاہتا مگر تم ہو کہ ابھی تک افسانہ نہیں لکھ رہے۔ بہت ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں یہ افسانہ نگار بھی۔‘‘

    میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ میں نے افسانہ لکھ دیا ہے۔ لیکن ایک ہی سانس میں کہنا ‘میرے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ بہ ہر حال میں نے اس کے سامنے افسانہ رکھ دیا۔ تو وہ ایک دم مجھ سے لپٹ گیا۔ میرے سینے میں ہنڈیا کھولنے لگی۔ میں رونا چاہتا تھا لیکن ضبط کر گیا۔ بھلا یہ کوئی رونے کا موقع تھا۔

    ’’بس یار اب پرچہ تیار سمجھو۔ ایک ہفتے کے اندر تمہاری کاپی تمہیں بھیج دوں گا۔‘‘

    پھر اس نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا۔ نوٹوں کی گڈی باہر نکالی اور پانچ سرخ سرخ نوٹ اس میں سے کھینچ کر میری جانب بڑھا دیے۔ میری آنکھوں کے سامنے بیوی بچوں کے مسکراتے چہرے گھوم گئے۔ میں نے وہ نوٹ اپنی مٹھی میں دبا لیے اور اپنے فلیٹ پر پہنچ گیا۔

    ابھی اس ماہ کی ستائیس تاریخ تھی۔ مجھے اگلے ماہ کی سات تاریخ کو گھر جانا تھا۔ یوں گھر جانے میں دس روز پڑے تھے۔ چناں چہ میں نے روپے سنبھال کر ٹیبل کی دراز میں رکھ دیے۔

    پرچے کی اشاعت تک مجھ پر عجیب کیفیت طاری رہی۔ دو سال قبل جب میں افسانے لکھا کرتا تھا تو کبھی ایسی ہیجانی کیفیت سے دوچار نہ ہوا کرتا تھا‘ جیسی کیفیت سے اب کی بار ہوا ہوں۔ بار بار آنکھوں کے سامنے لوگوں کے خطوط آ جاتے‘ کسی میں لکھا ہوتاہے:

    ’’آپ نے اس افسانے کو ایسا لافانی انجام دیا ہے کہ مدّتوں یاد رہےگا‘‘

    کسی میں شکایت ہوتی:

    ’’آپ نے افسانے لکھنا چھوڑ کر اچھا نہیں کیا۔ اس افسانے نے تو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔‘‘

    کوئی مطالبہ کرتا:

    ’’اس افسانے نے مجھے اس نتیجے پر پہنچا دیا ہے کہ آپ نے افسانہ نویسی ترک کر کے اردو ادب پر ظلم کیا ہے۔ فوراً اپنا فیصلہ واپس لیجئے اور دوبارہ افسانے لکھئے۔‘‘

    میں جھوم جھوم گیا۔ پورا ہفتہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہا اور جب پرچہ شائع ہو گیا تو عباسی میری کاپی دینے خود میرے پاس آیا ۔ اس نے آتے ہی کہا :

    ’’یار تمہارے نام نے تو کمال کر دیا۔ سارے پرچے ہاتھوں ہاتھ نکل گئے۔ میں تمہارا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں‘‘

    میں خوشی سے پھول گیا۔ اس نے شمارہ مجھے تھما دیا اور کہنے لگا:

    ’’میں تم سے ایک معذرت بھی کرنا چاہتا ہوں۔ تمہارے افسانے کے بعد ایک بھاری معاوضے کا اشتہار آ گیا تھا۔ چناں چہ یہ سوچتے ہوے کہ افسانہ تو آخری پیراگراف کے بغیر بھی مکمل ہی لگتا ہے ‘میں نے آخری پیرا گراف شامل اشاعت نہیں کیا۔ تم تو اپنے دوست ہو نا یار‘ سوچا تم سے معذرت کرلوں گا ‘کسی اور کی تحریر چھیڑتا تو اجازت لینا پڑتی۔‘‘

    میرے اندر سے کوئی چیز اٹھی اور حلقوم میں آپھنسی۔ جلدی جلدی ورق الٹے۔ آخری پیراگراف غائب تھا اور اس کی جگہ ٹیکسٹائل ملز کا اشتہار میرا منھ چڑا رہا تھا۔ میرے اعصاب تن گئے۔ ہنڈیا کھولنے لگی۔ میں نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوے ٹیبل کی دراز کھولی‘ پانچوں سرخ نوٹ نکالے ‘پھر عباسی سے کہا:

    ’’ذرا اٹھو‘‘

    وہ کھڑا ہو گیا۔ میں دروازے کے قریب جا کھڑا ہوا۔ کہا:

    ’’یہاں آؤ‘‘

    وہ میرے پاس پہنچ گیا۔ میں نے باہر اشارہ کرتے ہوے کہا:

    ’’ذرا باہر دیکھو‘‘

    اس نے حیرت سے میری جانب دیکھا اور پھر باہر دیکھنے لگا۔ اتنی دیر میں‘ میں اس کے عقب میں پہنچ گیا۔ دونوں ہاتھ اس کی پشت پر جما کر زور سے دھکا دے دیا۔

    وہ لڑھک کر باہر برآمدے میں جا پڑا۔

    میں نے سرخ نوٹ اور پرچہ اس کے منھ پر دے مارا اور چیخ پڑا:

    ’’دفع ہو جاؤ میرے دوست میری آنکھوں کے سامنے سے‘‘

    وہ میرا دوست تھا اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر جھٹ سے دروازہ بند کر کے چٹخنی لگا دی۔ چارپائی تک پہنچا اور بستر پر گر کر تکیہ سینے سے لگا لیا۔ ہنڈیا پھر کھولنے لگی تھی۔

    میرے ارد گرد تعریفی خطوط کی اڑتی بکھرتی راکھ میرے نتھنوں کو بند کیے دے رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے