Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

متروک

MORE BYمریم تسلیم کیانی

    پھر کیا ہوا باجی؟وہ ماہ پارہ کو دیکھنے لگا جو آج ضرورت سے زیادہ نشے میں تھی۔۔۔ اور اپنی کہانی سناتے سناتے چپ ہوگئی تھی۔۔۔

    پھر میں سپر ماڈل بن گئی۔۔۔ ہر کوئی اپنی پروڈکٹ بیچنے کے لیے مجھے خریدنے لگا، بڑے شہر میں آ گئی، نئی پہچان بنا لی۔۔۔ میں امیر ہو تی گئی اور اپنے تمام رشتوں سے دور چلی گئی جنھوں نے مجھے غریب کر دیا تھا۔۔۔ ماہ پارہ نے گولیاں شراب کے گھونٹ کے ساتھ حلق میں انڈیلیں۔۔۔

    لوگ مجھے آسانی سے نہیں بھولیں گے۔ ہے نا۔۔۔ افسوس میرا انجام دیکھنے کے بعد بہت دنوں تک کوئی لڑکی ماہ پارہ نہیں بنےگی۔ پتا نہیں میرے ان عاشقوں کا کیا بنےگا۔ کچھ دن تو بور ہوں گے میرے بغیر پھر اپنے لیے تفریح کا کوئی اور ذریعہ ڈھونڈ لیں گے۔

    تو اب کیا ہوا باجی۔ تو ایسے کیوں بولے جا رہی ہے۔ جیسے۔۔۔ کہیں جا رہی ہے۔۔۔ کیا تو نے نیند کی گولیاں کھا لی ہیں؟ وہ گھبرا کے اٹھا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ واپس آیا تو ماہ پارہ اپنی باتیں یوں ہی کر رہی تھی جیسے اسے کسی کے سننے کی پروا ہی نہ ہو۔۔۔ اسے دوبارہ دیکھ کے مخاطب کیا۔۔۔

    تجھے یاد ہے ہمارا چھوٹا سا گھر ہوا کرتا تھا، جہاں میری پسند کا ایک تخت آنگن میں بچھا ہوا تھا۔ میں وہاں بیٹھ کر حسین خواب بنتی تھی اور پریوں کی کہانیاں پڑھا کرتی تھی۔ تجھے یاد ہے۔۔۔ وہ معصوم لڑکی۔۔۔؟

    ہاں باجی، مجھے اب بھی تو وہ ہی معصوم لڑکی لگتی ہے۔ تو چاہے کتنی ہی ماڈرن بن جائے اور میک اپ کی تہوں میں کتنا ہی اس معصوم لڑکی کو چھپا لے۔۔۔ مجھے تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسے اس گھر کے کچے آنگن میں بیٹھی دکھائی دیتی تھی۔ تو اکثر لال جوڑا پہنتی تھی۔ اور چپ چاپ بیٹھی اپنی ڈائری میں لکھا کرتی تھی۔ میں اپنے گھر کی دوچھتی میں بنی جھریوں سے جھانک کر تجھے دیکھا کرتا تھا۔ ایک دن تو صرف لال شلوار اور سفید قمیض میں اپنے گھر کی چھت والے کمرے سے روتی ہوئی نکلتی دکھائی دی تھی اور بھاگتے ہوئے سیڑھیوں سے گری تھی، میں تڑپ گیا تھا۔ میں اس وقت شاید دس سال کا تھا۔۔۔

    کسی کے گھر کے اندر جھا نکنے والی جھریاں نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔ماہ پارہ کی آواز بھرا گئی۔

    چھوڑ باجی تو بھی کیا لے بیٹھی۔۔۔ چل پہلے کی طرح چہک۔۔۔ اور کھلکھلا کے ہنس۔۔۔ مجھے تو ہنستے ہوئے اچھی لگتی ہے بس۔۔۔

    پگلے مجھے بہلائےگا اب۔۔۔ تو جانتا ہے کہ وہ سب میری ایکٹنگ ہوتی تھی اور اب تو میری وہ ڈرامہ بازیاں بھی ختم ہو گئیں۔ اب تو سب نے میرا اصل چہرہ دیکھ لیا۔ اب کس سے چھپاوں گی اور کہاں تک چھپا کے اپنی کھوکھلی ہنسی کا بھرم رکھ پاؤں گی۔۔۔ اب کیا بچا۔۔۔ ایک جسم تھا۔۔۔ اس کی بھی بوٹی بوٹی کر کے کتوں میں بانٹ دی اور میرے بھوکے رشتے داروں کو دیکھو۔ پیسے کے لیے میری رہی سہی زندگی بھی بیچ دی۔۔۔ جھوٹ بھی چھین لیا۔۔۔ جو میں نے کتنی مشکل سے گھڑا تھا اپنے لیے۔۔۔ سب چھین لیا۔ اور نیوز چینلز والوں کو دیکھو میری ذاتی زندگی نشر کر دی۔۔۔ جو میں خود بھی بھول جانا چہتی تھی۔ مگر آج میں اپنی مرضی سے اپنی زندگی ہی چھین لوں گی خود سے۔۔۔

    باجی تو الٹی کر دے۔ گولیوں کا اثر چلا جائےگا باجی۔ تو ایسے نہ مر۔۔۔ ابھی مجھے تجھ سے بہت باتیں کرنی ہیں۔

    میں کب مرنا چاہتی تھی۔۔۔ مجھے تو جینا تھا۔۔۔ چل باتیں کرتے ہیں۔۔۔ آوٰ میری زندگی کی کہانی کو ری وائنڈ کر کے دیکھو۔۔۔ یہ میری موت ہے۔۔۔ جس کو غیرت کا نام دیا جائےگا۔ میں مر جاؤں گی۔۔۔ مگر مجھے ما رنے والے پتا ہیں کون ہوں گے وہ ہی لوگ جنھوں نے مجھے زندہ کیا تھا۔۔۔ مجھے گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کرنے والے میرے فینز۔۔۔ مجھے شہرت کی بلندیوں پر لے جانے والے نیوز چینلز۔۔۔ مجھے ننگا کر کے بیچنے والے دلے بھڑوے۔۔۔ مجھے طلاق دے کے میرا بچہ چھیننے والا میرا شرابی شوہر۔۔۔ مجھے گھر میں بےعزت کرنے والا ۔۔۔

    میں اپنی کہانی کو ذرا اور ری وائنڈ کرتی ہوں۔

    دیکھو یہ میری زندگی کی ناکام محبتیں ہیں۔ کوئی خواب آنکھوں سے چھین رہا تھا کوئی خواب آنکھوں میں بھر رہا تھا۔۔۔ مجھے خبر ہی نہ تھی کہ کون سا عذاب پہلے اترنے والا ہے۔ وہ سب اپنے مقصد میں کامیاب تھے جن کو میں نے دل دیا تھا۔ سچے جذبے لٹائے تھے۔۔۔ اور ان سب کو میرا جسم چاہیئے تھا۔۔۔ ننگا اور بھرپور عورت کا جسم۔ کسی کو میری ضرورت ہی نہ تھی۔۔۔ میں بھی جان بوجھ کے کتنا انجان بنتی تھی۔

    یہ میری جوانی ہے۔۔۔

    ہر لڑکی کی جوانی جیسی۔۔۔ غیر محفوظ۔۔۔

    یہ میری پہلی موت ہے۔۔۔ اپنے ہی گھر میں۔۔۔

    یہ میرا بچپن ہے۔۔۔ معصوم اور خوابوں جیسا۔۔۔

    یہ میری جنت ہے۔۔۔ ماں کی آغوش۔۔۔ کاش میں سمجھ دار ہی نہ ہوتی۔۔۔

    یہ میں تھی۔۔۔ جو مرنے سے پہلے جیا کرتی تھی۔ میں اندھیروں کے خوف سے تیز روشنی میں بیٹھی رہی۔ یہ نہیں جانتی تھی کہ روح تک کوئی روشنی نہیں پہنچتی ہے۔ آج تک ایسا کوئی بلب ایجاد نہیں ہو سکا جو کسی کی روح کو روشن کر دے۔ جسموں کے پجاری یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایک دن جسم کو مٹی میں ملنا ہے۔ گوشت کو گلنا ہے اور ہڈیوں کو بھربھرا ہو جانا ہے۔ ہاں یاد آیا۔ مرنے سے پہلے میں جیتی تھی۔

    ماہ پارہ کی آواز میں غنودگی در آئی تھی۔۔۔

    باجی اب میں چلتا ہوں۔۔۔ اپنا خیال رکھنا۔۔۔ مجھے نہیں پتا تو کیوں ایسی بنی اور تیرے ساتھ کیا کیا ہوا۔۔۔ مگر مجھے تو ان جھریوں سے ہی صاف دکھائی دیتی تھی۔ جہاں سے میں تجھے چھپ کے دیکھا کرتا تھا ۔۔

    اس دن میں نے سفید قمیض شلوار پہنا تھا پگلے۔۔۔ چھپ کے دیکھنے سے کبھی صا ف صاف دکھائی نہیں دیتا اور وہ تو کبھی نہیں دکھائی دیتا جو کوئی دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ تو سفید قمیض اور لال شلوار دیکھ پایا اور میری معصومیت کی موت نہیں۔ وہ بھی اپنے گھر میں۔۔۔ چل اب بھاگ۔۔۔ مجھے میرے اپنے ہی دفنانے آتے ہوں گے۔۔۔

    ماہ پارہ کی آنکھ ہسپتال میں کھلی۔۔۔ اس کی سمجھ میں آگیا کہ وہ چھوٹا اس پر زندگی کی طرح موت بھی متروک کر گیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے