Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

موجود غیر موجود

محمد امین الدین

موجود غیر موجود

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    پہلی سطر پڑھتے ہی وہ چونکا۔

    مولا داد چوک پر فوارے کی تنصیب۔

    اس نے فائل کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ایڈمنسٹریٹو اپرووَل۔۔۔ مکمل، ٹینڈر ڈاکومینٹس۔۔۔ درست، سیکورٹی ڈپازٹ۔۔۔ موجود ، کمپلیشن۔۔۔ اسٹی میٹ کے مطابق۔ اس نے فائل کو میز پر رکھا اور سوچ میں پڑ گیا۔

    ٹرانسفر کے بعد ترقیاتی کام کی پہلی فائل اس کا منہ چڑا رہی تھی۔ وہ جس چوراہے پر فوارے کی تنصیب سے متعلق تھی ، وہاں کبھی فوارا بنا ہی نہیں تھا۔ اس کے منہ سے گالیوں کا فوارا چھوٹ پڑا۔

    ’’سالا چور حرامی بھڑوا کہیں کا‘‘۔

    سابق ایکس ای این خدا بخش جو دو دن پہلے اس ڈویژن کا چارج دینے سے گریزاں تھا، کو اس نے بکھان ڈالا۔ وہ اب سمجھا کہ خدا بخش اس ڈویژن میں رہنے پر کیوں بضد تھا۔ ظاہر ہے جہاں بغیر کام کے فائل بنے اور پے منٹ ہو، وہاں بہت سا مال آسانی سے بنایا جاسکتا ہے۔

    ٹھیکے د ار اور انجینئر دونوں خوش رہتے ہیں۔

    دو دن پہلے وہ جب اس شہر میں داخل ہوا تو بس والے نے اسی چوراہے پر اتاراتھا۔

    ’’مولاداد چوک‘‘۔

    یہاں سے ابا کے دوست کا گھر قریب تھا۔ جن کے ہاں اسے قیام کرنا تھا۔ ساون کے دَروُن چُھپا انجینئر سائے کی طرح اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ اسے عمارتیں، سڑکیں، چوراہے اور دوسری تعمیرات اپنی طرف پر کشش انداز سے کھینچا کرتی تھیں۔ کراچی میں وہ سنتا چلا آیا تھا کہ اندرون سندھ میں سرخ اینٹوں سے بنی عمارتیں بنا پلاستر بھی اپنے اندر بے پناہ حُسن رکھتی ہیں۔ اس لیے جب وہ چوراہے پر اترا تو پوشیدہ انجینئر بیدار ہوگیا۔ اس نے آس پاس کی عمارتوں کو غور سے دیکھا۔ سرخ بڑے پتھروں اور اینٹوں سے بنی ان عمارتوں میں جن کی گیلریاں باہر کو نکلی ہوئی اور موٹے سریوں سے سجی میناکاری کے باوجود اسے چوراہا ویران سا محسوس ہوا۔

    برسوں کے تجربے نے فوراً احساس دلایا کہ چوراہے کے وسط میں خوبصورت فوارا یا کوئی دوسرا مونومنٹ ہوتو بیچ کی ادھڑی اور دھول مٹی سے اَٹی ہوئی جگہ صحیح استعمال میں آکر فضا کو نہ صرف کثافت سے بچائے گی بلکہ گاڑیوں کو ترتیب اور نظم سے گزرنے کا راستہ بھی ملے گا۔ تب ہی اس نے فیصلہ کیا کہ وہ کونسل کو اس چوک پر فوارا بنوانے کا پرپوزل دے گا، اور اب دو دن بعد ہی میز پر دھراریفنڈ کا کیس جعلی ہونے کی چغلی کھارہا تھا۔فائل کے مطابق چوک پر چھ ماہ پہلے فوارا بنا تھا اور اب قانون کے مطابق ٹھیکے د ار کو جمع شدہ سیکورٹی واپس درکار تھی۔

    ساون نے لکڑی کے پارٹیشن کے دوسری جانب بیٹھے سب انجینئر مبارک شاہ کو آوازدی۔ وہ چند ساعتوں بعد ہی اس کے سامنے مودب کھڑا تھا۔

    مبارک شاہ جیسے لوگ ہر سرکاری محکمے میں چیونٹیوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ کچھ نہ جانتے ہوئے بھی اپنا کام کرنا خوب جانتے ہیں۔ اپنے افسر کی اچھی سے زیادہ بُری عادتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ نہ تو پلّا مچھلی کی طرح دریا کے برعکس بہتے ہیں اورنہ ہی ہوا کے رُخ پر دیئے جلاتے ہیں بلکہ یہ وہ کشتیاں دریا میں اتارتے ہیں جو بنا چپو ہوا کے رخ پر بہتی چلی جائیں۔

    ’’جی سائیں آپ نے یاد کیا ہے؟‘‘

    ’’یہ کیا ہے؟‘‘

    ’’سائیں ریفنڈ کا کیس ہے‘‘۔

    ’’مجھے بھی پتا ہے۔ لیکن کس چیز کا ریفنڈ؟‘‘

    ’’سائیں! مولاداد چوک پر کام ہوا تھا ۔ اس کا ریفنڈ‘‘۔

    ’’بابا کیا کام ہوا تھا‘‘۔

    ’’سائیں بیوٹی فکیشن کا کام تھا‘‘۔

    ’’شاہ صاحب وہاں تو کوئی بیوٹی فکیشن نہیں ہے؟‘‘

    ’’سائیں چھوٹے شہروں میں بیوٹی فکیشن ہوتی ہے اور دھول مٹی میں اجڑ بھی جاتی ہے۔ گھاس پودوں کا سائیں کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔ گدھے گھوڑے ، گائے بکریاں اجاڑ دیتے ہیں‘‘۔

    ’’شاہ صاحب! کیا فوارا بھی گدھے گھوڑے کھا جاتے ہیں؟‘‘

    تب مبارک شاہ چونکا۔ وہ جیسے ہی بات کی تہہ تک پہنچا اس کی زبان پرتالا پڑ گیا۔

    ایکسٹرا کمیشن کا بھاری تالا۔۔۔

    سابق ایکس ای این کی دلجوئی کا تالا۔۔۔

    وڈیرے سائیں کی طاقت کا تالا۔۔۔

    ساون نے مبارک شاہ کو یوں خاموش دیکھ کر انگلیوں سے کیرم اسٹرائیکر کی طرح میز پر دھری فائل دوسری سمت کھڑے مبارک شاہ کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔

    ’’شاہ صاحب! ریفنڈ پر مجھ سے دستخط کروانے ہیں تو بابا پہلے مولاداد چوک پر فوارا پیدا کرو، تاکہ فائل حلال ہوجائے‘‘۔

    یہ سن کر مبارک شاہ کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنی زبان پر پڑے بھاری تالے کا قفل کھولتے ہوئے کہا۔

    ’’سائیں! یہ بچہ خدا بخش صاحب کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اس کے حرام و حلال ہونے کا جواب بھی وہی دے سکتے ہیں۔ ہم تو چاکر لوگ ہیں۔ پہلے ان کی چاکری کرتے تھے، اب آپ کی کریں گے‘‘۔

    ’’ساون کو مبارک شاہ بہت گہرا لگا۔ اس نے اشارے سے بیٹھنے کے لیے کہا۔ مبارک شاہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور فائل کو دھیرے سے ساون کی طرف سرکاتے ہوئے بولا۔

    ’’سائیں! خدا بخش صاحب جب نئے نئے آئے تھے تو وہ بھی آپ کی طرح سوچتے تھے۔ پھر ان کا بھیس ہمارے دیس جیسا ہوتا چلا گیا۔ اب آپ جو حکم کرو گے ہم ویسا ہی کریں گے۔ آپ کہو گے سالِٹ تو بس سالِٹ، پھر کوئی دوسری بات ہی نہیں۔ مولا سائیں کی مہربانی سے اب نوکری کے صرف چار سال اور رہ گئے ہیں ۔ میں آپ سے عمر میں پندرہ سولہ سال تو ضرور بڑا ہوؤں گا۔ بہت ساری دھوپ چھاؤں دیکھی ہیں۔ سائیں! ہر ٹھیکے دار کسی نہ کسی ایم این اے ، ایم پی اے کا رشتہ دار یا پھر اس کا دوست ضرور ہے۔ ہماری حیثیت تو وڈے سائیں کے کتے جیسی بھی نہیں‘‘۔

    ’’وڈے سائیں کون؟‘‘

    ’’سائیں! اپنے وڈے سائیں‘‘۔

    مبارک شاہ نے دیوار کے دوسری طرف پھیلی راہداری میں جہاں تعلقہ ناظم جو کہ علاقے کا سب سے بڑا زمین دار بھی تھا، کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    کچھ دیر بعد مبارک شاہ کے گھر سے کھانا آگیا۔ اس کی بیوی نے پلّا مچھلی تل کر بھجوائی تھی۔ اس نے نتھنوں سے تلی ہوئی مچھلی کی مہک اندر اتارتے ہوئے کہا۔

    ’’سائیں! مولا سائیں کی قسم ہم پلّا کھاتے ضرور ہیں ،لیکن ہم دریا کے الٹے رُخ پر کبھی نہیں بہتے۔ بابا دریا جس طرف چلتا ہے ہم بھی اسی طرف چلتے ہیں‘‘۔

    سامنے رکھی روٹی کی طرح مبارک شاہ کی باتیں بھی چکنی چپڑی تھیں۔ گھنٹے بھر بعد ساون اس کی طرف سے پیش کردہ ایک تجویز اور وعدے کی بنیاد پر ریفنڈ کی فائل دستخط کرچکا تھا۔

    پھر یوں ہوا کہ اسی روزشام ہونے سے پہلے ایک نئے ٹینڈر کے لیے نوٹ شیٹ ساون کی میز پر دھری تھی، جس میں درج تھا کہ مولاداد چوک پر تعمیر کردہ فوارے کی وجہ سے چوراہے پر ٹریفک حادثات بہت زیادہ ہونے لگے ہیں، اور پیدل چلنے والوں، بالخصوص عورتوں، بچوں کو سڑک پار کرنے میں بہت دشواری ہوتی ہے، لہذا فوری طور پر فوارے کو توڑ کر سڑک کو سابقہ حالت میں دوبارہ بحال کیا جائے۔مبارک شاہ نے فوارا توڑنے کا اِسٹی میٹ پچھلے اِسٹی میٹ سے زیادہ کا بنایا کیونکہ اب کے بار ساون کے دام خدا بخش سے زیادہ تھے۔

    (۲۰۰۷ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے