موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ
وہ مر گیا۔
جب نخوت کا مارا ‘امریکا اپنے پالتو اتحادیوں کے ساتھ ساری انسانیت پر چڑھ دوڑا اوراعلا ترین ٹیکنالوجی کے بوتے پر سب کوبدترین اجتماعی موت کی باڑھ پر رکھے ہوے تھا‘ وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں چپکے سے اکیلا ہی مر گیا۔
مجھ تک اس کے مرنے کی خبر پہنچی تو میں سٹ پٹا گیا:
’’ہائیں وہ مر گیا۔ نہیں ‘نہیں۔ مگر کیسے؟‘‘
یہ سب بےمعنی الفاظ تھے جو میری زبان سے بے ارادہ نکلے تھے۔ اسے سرطان تھا‘ یہ میں جانتا تھا۔ ایک پھوڑا ‘اس کی رانوں کے عین وسط میں نکل آیا تھا‘ جسے کاٹ پھینکنے کے لیے دو آپریشن بھی ہوچکے تھے مگر اس کی جڑیں پوری طرح کھرچی نہ جا سکیں۔
’’میں کسی بھی وقت مرسکتا ہوں‘‘
یہ اس نے خود مجھے بتا یا تھا مگر یوں کہ مجھے اس کی بات کا یقین نہیں آیا تھا۔
ہم دونو ں کے بیچ عجب رشتہ رہا ہے۔ میں جو بھی بات کہتا رہا ‘چا ہے محض اس کا دل رکھنے ہی کو کہی‘ اس نے فورا یقین کر لیا۔ مگر وہ سچ بات بھی کچھ اس ڈھب سے کرتا رہا کہ مسلسل دہرائے ہوے جملے محض اس کی فرسٹریشن کا شاخسانہ لگنے لگتے۔ وہ اپنی بیماری کی باتیں بھی یوں کرتا تھا جیسے بس یوں ہی کوئی بات کہنے کو ایک بات کر رہا ہو۔ مرنے والی بات بھی اس نے کچھ ایسے بے روح لفظوں میں کہی تھی کہ اس کی طرف بڑھتی موت کی چاپ مجھے سنائی نہ دی تھی۔ اس سارے عرصے میں ‘کہ جب موت اسے پچھاڑ رہی تھی‘ وہ میری گرم جوش اور جذباتی توجہ حاصل نہ کر پا یاتھا۔ میں اس کی بیماری کو ایسا عارضہ سمجھنے لگا تھا ‘جو اگر اسے لاحق تھا تو اس کی شخصیت کا حصہ ہو گیا تھا اور یہ عارضہ‘ میرے خیال میں ‘اتنا ہی بے ضرر تھا جتنا کہ مجھے لا حق رہنے والا آلکسی کا روگ اور اس روگ کی لذّت دینے والی کساوٹ۔
طالب علمی کے زمانے تک الگ الگ تعلیمی اداروں میں ہونے کے باوصف ہم میں رابطہ رہا تو اس کی دو وجوہ تھیں۔ ایک ‘لکھنے کی للک اور دوسرا‘ لیڈری کا خبط۔ ہم دونوں کی پہلی کتاب طالب علمی کے اسی دورانیے میں آئی تھی۔ یہ پہلی کتاب ہی اس کی آخری کتاب بن گئی۔ ہم دونوں نے ایک برس الیکشن لڑا۔ وہ اپنے کالج میں یونین کا صدر بن گیا اور میں یونیورسٹی میں ہار کر طلبہ سیاست سے الگ ہو گیا۔ تاہم ایک طویل وقفے کے بعد جب اس شہر میں ہم دوبارہ ملے ‘جو اس کا شہرتھا نہ میرا‘ تو طالب علمی کے اس عرصے کو بہت یاد کرتے تھے۔ اس نے بتایا تھا کہ اس درمیانی مدّت میں بھی اس نے مجھے یاد رکھا تھا۔ اس نے یہ بات بالکل اسی غیر جذباتی انداز میں بتائی تھی جیسا کہ بعد ازاں اپنے مر جانے کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ لہذا مجھے قطعاً یقین نہ آیا۔ لیکن جونہی میں نے اسے سچ سچ بتا دیا کہ میں تو اسے بالکل بھول چکا تھا ‘تو اس نے ہونٹ چٹخا کرمجھے یوں گالی دی کہ میری سماعت اس کی لذّت سے بھر گئی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا‘ یقین کر لیا کہ وہ ہمیشہ کی طرح میری بات کا یقین کر چکا تھا۔
دوبارہ ملنے تک میں پانچ بچوں کا باپ ہو گیا تھا۔ اوروہ مرنے تک کنوارہ ہی رہا۔ حالاں کہ وہ مجھ سے کم از کم پانچ برس بڑا تھا۔ اب ملا تو وہ عورتوں کی طرح اپنی عمر چھپانے لگا تھا۔ مجھ سے نہیں ‘دوسروں سے۔ مجھ سے کیسے چھپا پاتا؟ کہ میں تو اسے اس وقت سے جانتا تھا جب وہ دھوبی گھاٹ والے کالج میں ایم اے کا طالب علم تھا۔ میں اس کے شہر کی یونیورسٹی میں ان دنوں گریجویشن کر رہا تھا۔ وقت پر شادی نہ ہو تو جیسے کچھ ڈھلتی عمر کی لڑکیوں پر ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں‘ ایسے مرد بھی ہوتے ہیں جو ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پہلے پہل ‘میرا خیال ہے‘ اس پر پڑنے والے ڈپریشن کے دوروں کا یہی سبب تھا۔ اس میں بعد ازاں کوئی بہت عمدہ اور منفرد کام نہ کر سکنے کی جھینپ بھی شامل ہو گئی تھی۔
اس کے مرنے کی خبر سنتے ہی میں نے اپنے آپ کو بہت کو سا۔ خود پر خوب برسا اور تادیر الجھتا رہا۔ اس خجلت زدگی اور الجھاوے کا سبب وہ پچھتاوا تھا جو آخری دنوں میں ڈھنگ سے اس کی تیمارداری نہ کر سکنے کے باعث میرے وجود میں اتر گیا تھا۔ مجھ تک جب خبر پہنچی اس کی نعش ہسپتال سے اس کے شہر کوروانہ ہوے پندرہ گھنٹے گزر چکے تھے۔ میں فوراً نکل کھڑا ہوتا تو بھی جنازے میں نہ پہنچ پاتا۔ لہذا اس کے شہر نہ جانے کے لیے دل کو سمجھا لیا۔ تا ہم ایک کسک مسلسل کسمساہٹ میں رکھنے لگی تھی کہ آخر کیوں اس کے آخری بار ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کی خبر نہ پا سکا۔ حیف میری اتنی بے خبری پر کہ وہ اس دورانیے میں کئی روز اذیّت میں مبتلا رہنے کے بعد چپکے سے مر گیا۔
قدرے کم معروف اور ایک ضرر لکھنے والے کے حصے میں جتنی تعزیتی قراردادیں آ سکتی تھی ‘اس کے حصے میں بھی آئیں۔ اس کام کا تذکرہ بھی ہوا‘ جو اگر چھپ جاتا تو اس کا نام زیادہ اہم ہو سکتا تھا۔ مگر فورا بعداس بارود کی بارش کا تذکرہ ہونے لگا جو افغانیوں کے بعد اب مسلسل عراقیوں پر برس رہی تھی کہ یہ بارش جہاں برستی تھی وہاں سے موت کھمبیوں کی طرح اگ آتی تھی۔ اتنے بے پناہ مرنے والوں کے درمیان اس کی موت اکیلی ہو گئی۔ الگ۔۔۔ بالکل اکیلی۔
موت کے اس اپادھی موسم میں سفاک امریکا سارے اصول اور سارے ضابطے چھوڑ کر انتہائی بے حیائی سے یہ کہ رہا تھا :
’’جو ہماری بات نہیں مانےگا ‘اسے الگ تھلگ کرکے رکھ دیں گے-‘‘
الگ تھلگ ہو جانے والے مارے جا رہے تھے۔ وہ انتہائی ڈھٹا ئی سے لفظ چبا چبا کر کہتا تھا:
’’اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں‘ تو آپ ہمارے خلاف ہیں‘‘
ایک سہم ہر کہیں سنسنا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا‘ پوری دنیا زنخوں کی ٹانگوں میں پڑی ہوئی تھی اور ان زنخوں کے اوپر ایک ہی تلنگا مرد تھا جو ان کے چوتڑوں پر اپنی شہوت بھری مردانگی کے درے برسا رہا تھا۔ وہ انتہائی گھمنڈ بھرے لہجے بار بار دہرائے جاتا تھا:
’’ہم اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ دنیا کا بدترین اسلحہ دنیا کے بدترین حکمرانوں کے پاس رہے۔‘‘
دنیا بھر کے عام لوگ اسے آئینہ دکھانے اور اس کے مکروہ چہرے پر تھوکنے کے لیے گلیوں میں نکل آئے تھے۔ مگرحکومتوں کے سربراہوں نے اپنی اپنی مصلحتوں کے اسیر ہوکر ساری دنیا کو اپنے جیسا زنخا بنا لیا تھا۔ کچھ نہ کر سکنے اور فقط ہاتھ نچانے یا فحش اشارے کرنے والا زنخا۔
پھر یوں ہوا کہ اس کے شہر جا نے کا موقع نکل آیا۔ میرے ساتھ منشا ‘فریدہ اور خلیق بھی تھے۔ آپ جانتے ہی ہیں ان میں پہلے دو افسانہ نگار ہیں اور تیسرا شاعر۔ جس تقریب کے لیے ہم آئے تھے اس سے فارغ ہو کر اس کے گھر کو نکل کھڑے ہوئے۔ ہم چاروں میں سے کوئی بھی اس کے گھر والوں سے پہلے نہ ملا تھالہذا اپنے تئیں اندازہ لگائے بیٹھے تھے کہ اجنبیوں کی طرح دعا کو ہاتھ اٹھائیں گے اور پلٹ آئیں گے۔ میں اس کی قبر پر بھی جا نا چاہتا تھا کہ مجھے بہت ساری معذرتیں کرنا تھیں اور اس کی قبر کا پتا اس کے گھر والوں ہی سے مل سکتا تھا۔
جیسے ہی ہم اس کے گھر پہنچے‘ جو سوچ کر گئے تھے ‘وہ سب بھول گیا۔ عجب کہرام مچا تھا کہ ہم بھی اپنے آپ پرقابو نہ رکھ پا ئے۔
پہلے اس کے بھائی ہماری چھاتیوں سے لگے اور یوں دھاڑیں مار مار کر روئے۔ ایسا لگتا تھا‘ جیسے محض ہم وہاں نہیں آئے تھے ‘اس کی نعش بھی ساتھ لائے تھے۔ پھر اس کی بہنیں روتی کرلاتی بھاگ کر آئیں اور بھائیوں کی پیٹھوں سے لگ کر ضبط کرتے ہوے گسکنے لگیں۔ ضبط نہ رہا تو پچھاڑیں کھانے لگیں۔ یوں کہ جلد ہی اپنے وجودوں سے بے نیاز ہو گئیں۔ آخر میں بھاری جثے اور بڑی عمر والی نڈھال سی عورت بوکھلائے ہوے داخل ہوئی ۔ یہ اس کی ماں تھی اور لگتا تھا رو رو کر اس کی آنکھیں بہہ چکی تھیں۔ وہ دیوار کا سہارا لیتے ہوے’، ’کون؟کون؟ کیا آ گیامیرا بیٹا؟‘ کی تکرار کرتے آئی۔ آتے ہی ہم سب کے چہروں کو غور سے دیکھا۔ میں جو اس کے پاس کھڑا تھا میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا:
’’کہاں ہے میرا بیٹا؟ لاؤ نا ‘بہنیں اسے سہرا باندھیں‘‘
پھر اس نے دوہتڑ سے اپنی چھاتی کو پیٹا اور حلقوم کو چیر کر نکلتی چیخ کو اوپر اچھالتے ہوے کہا :
’’ہائے او میرا ڈاہڈا ربّا‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ یوں چکرا کر گری کہ سب کے کلیجے دہل گئے۔ بیٹے بیٹیاں اسے سنبھالنے میں لگ گئے تھے۔
واپس پلٹتے ہوے ہم سب چپ تھے‘ فریدہ نے کہا:
’’ماں کا دکھ تو سنبھالے نہیں سنبھلتا۔‘‘
منشا نے تائید کی :
’’ہاں ماں کا دکھ ‘تو یوں لگتا ہے‘ ہماری ہڈیوں کے گودے میں اتر گیا ہے۔‘‘
میں چپ تھا۔ چپ ہی رہاکہ مجھ میں اپنے دکھ کے بیان کا سلیقہ نہیں ہے۔ تاہم خلیق بولا:
’’ہمیں اس درد کو اپنی تخلیق کا حصہ بنانا چاہیئے۔‘‘
فریدہ ‘جو اب تک بہت سنبھل چکی تھی‘ کہنے لگی :
’’میں تو اس پر کہانی لکھوں گی۔ آپ دونوں بھی لکھیں نا ‘‘
پھر وہ خلیق کی طرف مڑی اور کہا:
’’تم اس پر نظم لکھنا۔‘‘
واپس آئے ہمیں کئی روز بیت گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے منشا اورفریدہ نے کہانیاں ‘جب کہ خلیق نے نظم بھی لکھ لی ہوگی۔ مگر میرا معاملہ یہ ہے کہ میں پھر ان اجتماعی اموات میں الجھ گیا ہوں جو کوفہ‘ کربلا اور بغداد والوں کا مقدّر ہو گئی تھیں۔ دنیا کے بدترین حکمران نے اپنے مہلک ترین اسلحے کے بھرپور استعمال سے سقوط بغداد کا مقصد حاصل کر لیا۔ جن مردوں ‘عورتوں‘ بوڑھوں اور بچوں کو اس ہلے میں مرنا تھا ‘مرچکے۔ خود کو انصاف پسند کہلوانے والی مکار دنیا اپنے اپنے مفادات کے تحفظ سے مشروط ہوکر اس ساری درندگی کا جواز بھی فراہم کر نے میں جت گئی ہے۔ اقتدار والے اپنا اقتدار بچانے کے لیے کہتے ہیں :
’’ہماری باری نہیں آئےگی۔‘‘
اور پھر اس رذلیل کے خٹے سیلانے میں لگ جا تے ہیں جوسب کی باریاں باندھ رہا ہے۔ ہمیں ’سب سے پہلے اپنا آپ‘ کا نعرہ دے کر وہ جو سمجھانا چا ہتے ہیں اگر وہ میں سمجھ بھی جاؤں تو بھی تھوک میں مرتے انسانوں کے خون کی باڑھ مجھے اپنی جانب آتی صاف نظر آتی ہے۔ اور اس آگ کی باڑھ بھی جو بغداد کی ایک قدیم لائبریری میں اٹھی اور اب سارے سچے لفظوں کو جلانے کے لیے چاروں اور بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں اجتماعی اموات پر لکھی گئی کوئی ایسی کہانی جسے ابھی میں نے لکھنا ہے ‘بےحسی یا درندگی کی آگ سے مرنے والوں کو بچا پائےگی؟اور کیاوہ خود بھی جل جانے سے محفوظ رہ پا ئےگی؟
یہ ایسا سوال ہے جس نے مجھے کہانی اور امید‘ دونوں سے دور کردیا ہے۔ تا ہم گھٹی میں پڑی ہوئی امید اور عادت بن چکی کہانی نے ورغلا کر مجھے پھر لفظوں کی اشتہا کا اسیر کر دیا ہے۔
میں نے پکا ارادہ باندھ لیا ہے کہ میں کہانی ضرور لکھوں گا۔
پہلے اجتماعی اموات پر اور پھر اکیلے میں مر جانے والے کی کہانی۔
مگر ہو یہ رہا ہے کہ ہر بار کا غذ کورے کا کورا رہ جاتا ہے اور جب کئی کئی گھنٹے کہا نی کا ابتدائیہ سوچنے میں گزار کر ناکام اٹھتا ہوں تونہ لکھے جا نے والی کہانی‘ کسی نامرد پر ایک فاحشہ کی طرح ہنسنے والی کی طرح ‘مجھ پر ہنستی ہے اور میں قلم کو کاغذ پر یوں نچاتا ہوں جیسے زنخا ہوا میں ہاتھ نچاتا ہے۔ میں کھسیانا ہوکر اپنے اندر دیکھتا ہوں۔ کچھ کھسیان پت ماند پڑتا ہے کہ میرے اندر ابھی تک‘ ہر کہیں رواج پا گئی بہیمت اور ناانصافی کے خلاف نفرت اور احتجاج کے شعلے اٹھ رہے ہیں۔ گمان گزرتا ہے کہ شاید میں جلد ہی اجتماعی اموات پر کہانی کہنے کی قوت پا لوں گا۔ اسی موہوم امیدکے سہارے اکیلی موت پر لکھنے کو معرض التوا میں ڈال دیتا ہوں۔
اگلے کئی روزکئی اموات پر ایک کہانی لکھنے کی تڑپ میں لد گئے مگر ہو یہ رہا تھا کہ ہر بار کاغذ کورے کا کورا رہ جاتا۔ جب میں کئی کئی گھنٹے کہا نی کا ابتدائیہ سوچنے میں گزار کر ناکام اٹھتا تونہ لکھے جا نے والی کہانی ‘کسی نامرد پر ایک فاحشہ کی طرح ہنسنے والی کی طرح‘ مجھ پر ہنستی اور ہنسے چلی جاتی ۔
جن ادیبوں اور شاعروں نے اس کے لیے تعزیتی قراردادیں ‘سوانحی مضامین اور نظمیں لکھنا تھیں لکھ لیں تو میں نے بھی اجتماعی اموات کی کہانی لکھنے کا ارادہ موقوف کر دیا اور دوسروں کی طرح اس کے درد میں ڈوبی ہوئی ایک بے ضرر کہانی لکھنے بیٹھ گیا۔ مگر یوں لگتا ہے کہ میرے قلم سے لکھنے کی قوت یوں بہہ گئی ہے جیسے دنیا بھر کے مقتدر لوگوں کی رانوں کے بیچ سے وہ مردانگی جو حوصلہ دیتی تھی بہہ چکی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.