ہوٹل کے نزدیک چہل قدمی کرتے ہوئے میری نگاہیں اچانک آشرم پر پڑیں۔ جس سڑک پر یہ آشرم تھا بالکل اس کے دوسری جانب ایک فٹ پاتھ پر جوتے اتارنے کی جگہ تھی۔ میں نے دیکھا لوگ اپنے جوتے اتار کر ملازم کو تھماتے سڑک کراس کرتے اور آشرم کے اندر داخل ہو جاتے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اروبندو آشرم کے خاص دروازے سے اندر داخل ہوئی تو پہرے دار نے میرے اوپر اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور مجھے دائیں جانب مڑنے کا اشارہ کیا۔ بائیں جانب شاید لائبریری تھی۔
دائیں طرف راہ داری میں مڑتے ہی مجھے پودوں نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ایسا عجب امتزاج میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ روش سے تقریباً ایک فٹ اونچی منڈیر کے پیچھے یہ حسن نمایاں تھا۔ بہت خوبصورت طریقے سے تراشے گئے قدآور پرانے کیکٹس کے ساتھ بےانتہا نازک ویری کیٹڈ چاندنی، میں نے دیکھا کیکٹس اور ویری کیٹڈ پودوں کے یہاں کئی خاندان آباد ہیں۔ اس سرسبز و شاداب، عجیب و غریب پُرکشش سبزہ زار کو میں بہت دیر تک دیکھتی رہی۔ آگے بڑھی تو دیکھا رنگ برنگے خوشنما پھولوں کے سینکڑو ں گملے انتہائی قرینے سے سجے ہوئے ہیں۔ کئی جگہ ان پھولدار پودوں کو سجاتے وقت زینے کی شیپ دی گئی تھی۔ جس سے ہر پھول کا حسن پوری طرح نمایاں ہو رہا تھا۔ چاروں طرف پھیلی اس شاداب ہریالی اور خوشنما پھولوں نے نہ صرف آنکھوں کو بلکہ میرے تن من کو سیراب کردیا۔ کھلے احاطے میں پھیلا یہ قدرتی حسن اور گھنے سایہ دار درخت وہاں کے پرسکون ماحول کی سحرانگیزی بڑھانے میں بہت معاون ثابت ہو رہے تھے۔ اتنا سناٹا کہ اپنے سانس کی آواز اور دل کی دھڑکن صاف طور پر محسوس ہورہی تھی۔ جگہ جگہ منتظمین بھی اس خوبصورتی اور خامشی کو برقرار رکھنے میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس آنگن یا احاطے کے درمیان ایک شیڈ کے نیچے اروبندو کی سمادھی تھی جسے ایک اونچے چبوترے کی شکل دی گئی تھی۔ فرش اور سمادھی پر سادہ اور خوبصورت ٹائل لگے ہوئے تھے۔ پوری سمادھی کو خوشنما رنگ برنگے پھولوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ دھوپ اگربتی اور پھولوں کی خوشبوئیں ہوا میں تحلیل ہو رہی تھیں۔ کچھ حضرات عقیدت سے سمادھی پر سجدہ ریز تھے اور سر جھکا کر سر کو اٹھانا ہی بھول گئے تھے۔ کچھ خواتین و مرد حضرات سمادھی پر دونوں بازو پھیلا کر درمیان میں ماتھا ٹکائے ہوئے تھے اور گھٹنوں کے بل بیٹھے تھے۔ شاید اروبندو کی روح میں اپنی روح تحلیل کرنا چاہتے ہوں یا پھر ان کے تئیں اپنی عقیدت کو واضح کرکے یک گونہ سکون کے متلاشی ہوں یا اروبندو کے تجربات کو زندگی کا حاصل سمجھ کر اس کی پیروی کرنے کا خود سے وعدہ کررہے ہوں۔ اس سمادھی کا دیدار کرنے والوں کی ایک قطار بن گئی تھی اور وہ بڑھتی جارہی تھی۔ ایک طرف سے لوگ داخل ہوکر دوسری جانب سے باہر نکلتے جا رہے تھے۔ کچھ حضرات سمادھی کو اسپرش کرتے کچھ بوسہ دیتے اور کچھ سر جھکاتے اور ماتھا ٹکاتے لیکن ان میں سے کئی سمادھی پر سر رکھ کر وہیں بیٹھ جاتے۔ شیڈ کے باہر کھلے آنگن میں اس سمادھی سے کئی شاہراہیں نکل رہی تھیں۔ بہت سے حضرات ادھر ادھر کچے پکے فرش پر میڈی ٹیشن کی صورت میں بیٹھے تھے۔ دنیا سے بالکل بے نیاز۔ ان میں جوان بوڑھے نوعمر سبھی شامل تھے۔ خواتین اور جوان لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ ہندوستانیوں کے علاوہ غیرملکی چہرے بھی تھے۔ یہ سب آنکھیں بند کیے دھیان مگن تھے۔ ایک جوان خاتون آٹھ دس برس کی بچی کے ساتھ شاید بیٹی ہو یا پھر بہن آنکھیں بند کیے ان حضرات میں شامل تھی۔ بچی کی بھی آنکھیں مندی تھیں۔ میں حیران تھی جوان لڑکے لڑکیاں جن کے دن نت نئی راہیں تلاش کرنے کے تھے کیسے اور کیونکر خاموش پرسکون یہاں بیٹھے ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ پرسکون خامشی اور میڈی ٹیشن کا پراسرار سناٹا میری روح میں اترنے لگا۔ میڈی ٹیشن میں بیٹھے حضرات کی بند آنکھوں نے مجھے بھی سکون کے پل تلاش کرنے کی دعوت دی۔ شاید اس لیے کہ مجھے بھی سکون کی تلاش تھی کیونکہ پچھلے کئی ماہ سے میں خود ایسے دور سے گزر رہی تھی جہاں زندگی اور اس کے متعلق تمام جھمیلے بیکار اور غیرضروری لگنے لگتے تھے۔ انسان بھی کہاں کہاں سکون تلاش کرتا ہے۔ زندگی سے فرار کی شاید یہ سب سے آسان اور پرسکون راہ تھی۔ بغیر سوچے سمجھے میں بھی ان حضرات میں شامل ہو گئی۔ اور ایک طرف بیٹھ کر آنکھیں موند لیں اور پھر اپنے جسم کی بے چین روح سے سکون کی خواہش کی۔ سچ پوچھئے تو دس پندرہ منٹ کے اندر ہی اندر میری روح نے جگہ جگہ بھٹکنا شروع کردیا تھا۔ میرا جسم بے جان ہونے لگا۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ جسم کی ساری قوت دماغ میں یکجا ہو گئی ہے اور دماغ کسی کمپیوٹر کی طرح کام کرنے لگا ہے۔ وہ تمام پڑاؤ میری بند آنکھوں سے گزرنے لگے جو زندگی کے سفر میں آئے تھے۔ بچپن میں میسر آئی محبتیں شفقتیں کامرانیاں اور نامرادیاں، جوانی کی بہکتی سرگوشیاں حسن و عشق کی تمام رعنائیاں جوش اور ولولے میری آنکھوں میں سمٹ آئے تھے اور پھر مکمل ہونے کا احساس... لیکن زندگی کے اس طویل سفر میں کیا چاہا کیا ملا۔ کسے پایا اور کسے کھویا؟؟ چند صرف چند وہ لمحے جن میں تکمیل کا احساس شامل تھا کتنی جلدی گزر گئے تھے اور پھر ایک طویل سفر بےاعتباری محرومی اور تنہائی کا۔ اور مسلسل ایک تھکا دینے والی بے جاسی جدوجہد۔ یاد ہی نہیں کتنی بار کتنے طور مرنا پڑا اس اک حیات جینے میں۔ میری بند آنکھوں میں کچھ پھڑپھڑاہٹ ہوئی اور خوبصورت شیپ میں تراشا گیا پرانا کیکٹس اور اس کے پہلو میں نازک سی ویری کیٹڈ چاندنی نمایاں طور پر ابھرنے لگی۔ کتنی بے میل تھی زندگی کی یہ حقیقت ۔دل کی بے ثباتی اور بڑھ گئی۔ مجھے اپنے اردگرد کیکٹس ہی کیکٹس نظر آنے لگے۔ یہ بے چینی شاید میڈی ٹیشن کا ابتدائی مرحلہ تھی۔ نجات اور سکون کی منزلیں ابھی غائب تھیں۔ گھبرا کے میں نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر دوسرے چہروں پر نظر ڈالی۔ کچھ چہرے پرسکون لگ رہے تھے اور کچھ بےچین لیکن میرے بالکل سامنے والا نوجوان شاید میری طرح بےچین تھا کیونکہ وہ بھی چپکے سے ایک آنکھ کھولے دوسرے چہروں کو پڑھ رہا تھا۔ کچھ بے چینیاں اور سرگوشیاں نمایاں تھیں۔ تھوڑی دیر میں آہستہ سے پھر آنکھیں کھولیں لیکن یہ دیکھ کر جلدی ہی بند کرلیں کہ میرے بائیں جانب ایک شخص جس کے لبوں پر نہ بولنے کی سلیپ چسپاں ہے، آنکھیں کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ اب میرے لیے وہاں اور بیٹھنا مشکل ہورہا تھا۔ دل میں مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر نکل گئی۔
پانڈے چیری کی سرسبز وادیوں اور سمندری ہواؤں کے درمیان آج میرا ساتواں اور آخری روز تھا۔ دوسرے روز میری واپسی تھی۔ شام کا وقت تھا۔ میرے سامنے خلیج بنگال کا سمندر ساحلی کناروں سے ٹکر لے رہا تھا۔ سینکڑوں عورت مرد اور بچے اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ایک کشادہ چبوترے پر آٹھ ستونوں کے درمیان کافی اونچائی پر ایک چھتری کے نیچے مہاتما گاندھی کا قد آور کالا اسٹیچو نسب تھا، بچے اس پر چڑھتے اور پھسل جاتے پھر چڑھتے اور پھر پھسل جاتے۔ شاید وہاں کوئی میلہ لگا تھا۔ کافی بھیڑ تھی اور بارونق ماحول تھا۔ میں وہاں سے ہٹ کر بیچ کے کنارے پتھروں پر بیٹھ کر سمندر کے مدوجزر کو دیکھنے لگی۔ شائیں شائیں کرتی ہوائیں اور چنگھاڑتا سمندر اور اس کا صدیوں سے جاری یہ کھیل، کس شدت سے بڑی لہریں چھوٹی لہروں پر حاوی ہو جاتی ہیں اور انہیں اپنے ساتھ بہہ جانے پر مجبور کردیتی ہیں۔ وہ بھی اس طرح کہ چھوٹی لہروں کا اپنا کوئی وجود ہی باقی نہیں رہتا۔ میں سوچنے لگی یہ چھوٹی لہریں بڑی کیوں نہیں بن جاتیں؟؟ یکایک سمندر کے کنارے پتھروں کے درمیان کچھ ہی فاصلے پر ایک دوسرے میں پیوست نوجوان جوڑے پر میری نظریں ٹھہر جاتی ہیں۔ اروبندو آشرم کے وسیع آنگن میں میڈی ٹیشن کرتا گھنگرالے بالوں والا وہ سانولا نوجوان میری نگاہوں میں گھوم گیا جو ایک آنکھ کھولے کچھ تلاش رہا تھا اور اس کے پہلو میں لیٹی اس روسی حسینہ کو بھی میں پہچان گئی جو ٹھیک اس کے سامنے یعنی میری برابر میں پیڑ کے تنے سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے دھیان مگن تھی۔ سمندری لہریں ساحل سے ٹکرائیں تو بے شمار پانی کی چھوٹی بڑی بوندیں اچھل کر میرے اوپر آ گئیں۔ جسم میں جھرجھری پیدا ہوئی۔ میں نے پلٹ کر سمندر کو دیکھا، کھیل جاری تھا۔ چھوٹی بڑی لہریں ہم آغوش ہوکر پھر ساحل کی طرف بڑھ رہی تھیں ٹکر لینے کے لیے—
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.