Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میرا کے شیام

ترنم ریاض

میرا کے شیام

ترنم ریاض

MORE BYترنم ریاض

    ’’کس سے بات کرنا ہے؟‘‘ فون پر جاذب سی نسوانی آواز سن کر صبیحہ نے پوچھا۔

    ’’جی۔ آپ ہی سے۔‘‘ آواز میں ہلکی سے کھنک شامل ہو گئی۔

    صبیحہ اس آواز کو بخوبی پہچانتی تھی۔ یہ وہ آواز تھی جس کی وجہ سے اسے عجیب عجیب تجربے ہوئے تھے۔ مختلف حالات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اور خود صاحبۂ آواز کو اس نے مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں ثابت قدم دیکھا تھا۔ ایسی ثابت قدمی کو صبیحہ نادانی بلکہ دیوانگی کہتی تھی۔ یا کچھ ایسی یکسوئی کہ سوائے ایک شے کے انسان ہر دوسری چیز سے اس درجہ بے نیاز ہو کہ خود اپنی پرواہ رہے نہ دوسروں کی۔ دوسروں میں تقریباً سب ہی آتے تھے والدین، اساتذہ، طلباء و طالبات، سکول کا عملہ اور ایک انسان کو چھوڑ کر ہر کوئی۔۔۔ بلکہ اُس انسان سے متعلق لوگ بھی۔

    اور یہ سلسلہ کوئی چار برس سے جاری تھا۔

    ایک دن صبیحہ کو عمران کے سکول کی طرف سے فون پر صبح آٹھ بجے معہ اپنے شوہر کے سکول پہنچنے کی ہدایت ملی تھی۔

    عمران کے گھر پہنچنے پر صبیحہ نے اس سے سکول بلائے جانے کی وجہ دریافت کی تو اُس نے لاعلمی ظاہر کی تھی۔ لیکن صبیحہ نے اس کے محض چودہ سالہ معصوم سے چہرے پر پریشانی کے سائے لہراتے دیکھ لیے تھے۔ جنھیں پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔

    شام کو صبیحہ نے فون کے بارے میں عادل سے کہا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر دونوں میاں بیوی قیاس آرائیاں کرتے رہے۔ پھر عادل نے بیٹے سے دریافت کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ معمول سے پہلے ہی سو چکا تھا۔

    دوسری صبح، صبیحہ اور عادل سکول کے جس ہال میں اندر بلائے جانے کے منتظر تھے، وہاں دوسری طرف دو اور لوگ ان کے آنے کے کچھ دیر بعد آ بیٹھے تھے۔ مرد سانولا، درمیانہ قد اور خوش لباس تھا اور عورت گورے رنگ کی بھلے سے چہرے والی خاتون تھی جو صبیحہ کی ہی طرح پریشان سی تھی۔ اور رہ رہ کر اپنے (غالباً) شوہر سے اسی بارے میں بات کر رہی تھی کہ سکول بلائے جانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ اس کا شوہر سر ہلا کر رہ جاتا اور زبان سے کچھ نہ کہتا۔ کچھ دیر بعد ایک لڑکی جس کی عمر تیرہ چودہ برس کی رہی ہو گی ان کے پاس آئی تو عورت نے پریشان تاثرات کے ساتھ اسے دیکھا۔

    ’’بتا دے اب بھی۔۔۔ کیا بات ہوئی ہے؟‘‘ اس نے لڑکی کے ماتھے سے بال ہٹائے۔ لڑکی کے بال سنہرے تھے۔ جلد سنہری مائل گوری تھی۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں اور قدرے سہمی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ جیسے ابھی ابھی کسی نے اسے ڈانٹ دیا ہو۔ بھرے بھرے رُخسار اور چھوٹی سی ناک جس کا رخ ذرا سا اوپر کو تھا، اُس کے چھوٹے سے دہانے کے گول چہرے پر نہایت جاذب نظر آتی تھی۔ نازک سی گردن پر سنہرے بال گہرے ہرے رنگ کے چھوٹے سے ہیربینڈ میں پھنسے تھے اور گردن کے دونوں اطراف آ کر کالر والی سفید قمیض کو چھو رہے تھے جہاں گہرے سبز رنگ کی ٹائی میں ڈھیلی سی گِرہ پڑی ہوئی تھی۔ ا س نے آستینیں کہنیوں تک سمیٹ رکھی تھیں۔ اپنی گوری سڈول کلائی میں سے سونے کا نازک سا بریس لیٹ اتارتے ہوئے اس نے عورت کو ایک نظر دیکھا اور سر نفی میں ہلا دیا۔

    ’’کہا نا ماماں۔۔۔ مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘‘ اس نے انگلی میں پڑی انگوٹھی بھی اتار دی اور دونوں چیزیں ماں کی گود میں رکھ دیں۔

    ’’پرس میں رکھ لو ماماں۔۔۔ یوں ہی ڈانٹیں گے۔‘‘ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور صبیحہ اور عادل کو دیکھ کر ذرا سا ٹھٹھکی تھی کہ اتنے میں عمران آ کر دروازے کے باہر کھڑا ہو گیا۔ لڑکی نے اسے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ بھی نہ پائی تھی کہ آنکھوں میں خوف کے سائے سے لہرانے لگے۔ عمران نے اُسے دیکھا اور پھر آنکھیں ہلکی سی میچ کر سرکی خفیف سی جنبش سے نفی کا اشارہ کیا تو وہ مسکراتی ہوئی دوسری طرف دیکھنے لگی۔ اپنے ’فکر کی کوئی بات نہیں کے اشارے کے ردعمل میں لڑکی کو مطمئن ہوتا دیکھ کر عمران بھی مسکرا دیا تھا۔

    صبیحہ یہ منظر سیاہ فلم لگے شیشے کے دروازے سے باہر بغور دیکھنے سے ہی دیکھ پائی تھی۔ پھر صبیحہ نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ دیر پہلے سہمی ہوئی ہرنی سی آنکھوں والی لڑکی نے عمران کو دیکھ کر شانے اچکاتے ہوئے ہاتھ ہلکے سے پھیلائے اور سر جھٹک کر ہنس دی جیسے کہہ رہی ہو کہ مجھے بھی کوئی پرواہ نہیں۔

    کچھ منٹ بعد چار بالغ اور دو نابالغ لوگ وائس پرنسپل کے کمرے میں کھڑے تھے۔

    لڑکی کا نام چاندنی شرما تھا۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد اس کی آنکھوں میں خوف کے سائے پھر سے واضح ہو گئے۔ اس نے آستینوں کی سلوٹیں کھول کر کلائیوں پر بٹن بند کر لیے تھے۔ کالر والی سفید قمیض کے اُوپری کھلے بٹن کے قریب جہاں سبز ٹائی کی ڈھیلی گرہ بندھی تھی، پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں۔ وہ ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے سر جھکائے اپنے جوتوں کو دیکھ رہی تھی۔

    عمران اس سے کچھ فاصلے پر گردن اٹھائے آنکھیں نیچی کیے دونوں ہاتھ پیچھے باندھے سیدھا کھڑا تھا۔

    ’’بیٹھئے مسز شرما۔‘‘ وائس پرنسپل نے کہا۔

    ’’آپ لو گ بھی بیٹھئے۔‘‘ انہوں نے عادل کی طرف دیکھا۔

    ’’ہاں تو عمران فاروقی۔۔۔ بتایا پیرنٹس کو۔۔۔‘‘

    عمران ایک قدم ان کی طرف بڑھا اور اٹین شن میں کھڑا ہو گیا۔

    ’’No sir‘‘ اس نے سر اوپر اٹھا کر جھکا لیا۔

    ’’We did not do any thing sir‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔

    ’’Shut up۔۔۔ سب لوگ غلط ہیں۔۔۔ اور ایک تم سچے ہو۔۔۔‘‘ وائس پرنسپل گرجے۔

    ’’مسٹر فاروقی۔ یہ دونوں کل بریک کے بعد بھی پی ٹی گراونڈ میں بیٹھے تھے اور وہ Periodان دونوں نے Bunk بھی کیا تھا۔۔۔ تقریباً آدھے سے بھی زیادہ کلاس ختم ہونے کو تھی کہ یہ لڑکا آیا۔۔۔ اور یہ لڑکی۔۔۔ ا س سے ایک کلاس پیچھے ہے۔۔۔ 8th میں۔۔۔ بھلا کیا لینا دینا۔۔۔‘‘ انھوں نے سر جھکایا۔

    ’’And do you knowہاتھ میں ہاتھ ڈالے۔۔۔‘‘

    ’’No sir .No sir۔۔۔ وہ ریلنگ اُدھر سے۔۔۔ جہاں سے Short Cut ہے سر۔۔۔ اونچی تھی۔۔۔ تو چاندنی نے میرا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔ اترنے کے لیے۔۔۔‘‘ عمران نے جلدی سے کہا۔

    ’’اور اسی وقت چھوڑ دیا سر۔۔۔‘‘ چاندنی جھٹ سے بولی۔

    ’’Sorry Sir‘‘ وہ دونوں ایک ساتھ بولے۔

    ’’This shouldn't happen in future. آپ لوگوں کو ہم نے اسی لیے بلوایا ہے کہ یہ بات repeatنہ ہو۔ سکول کا ماحول خراب نہ ہو۔۔۔ اور بچے یہاں پڑھنے آتے ہیں۔۔۔ یہ کوئی بات ہے۔۔۔؟ Writtenدو تم دونوں۔۔۔ کہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ ہوا تو دونوں کو Suspend کر دیں گے۔۔۔ سمجھے۔۔۔؟‘‘

    ’’Yes Sir.‘‘

    دونوں کاغذ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ کتابوں کے بستے وہ اپنی اپنی کلاس میں چھوڑ آئے تھے۔ وائس پرنسپل نے اپنے پی۔ اے سے انھیں کاغذ کا ایک ایک ورق دینے کا اشارہ کیا۔ صبیحہ نے پرس میں سے قلم نکالا تو چاندنی نے ہاتھ بڑھایا اور صبیحہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ صبیحہ کو معصوم سے چہرے پر اپنایت اور التجا کی عجب آمیزش نظر آئی تو ہونٹوں پر آ رہی مسکراہٹ کو اس نے بڑی کوشش سے قابو میں رکھ کر قلم اُس کے ہاتھ میں دے دیا۔

    باہر آ کر والدین لوگ آپس میں کچھ جھینپے جھینپے سے متعارف ہوئے، جیسے کہ سب اپنی جگہ خود کو مجرم تصور کر رہے ہوں۔ چاروں نے مل کر بچوں کو کچھ سمجھایا۔۔۔ کچھ ڈانٹا بھی۔

    بچوّں کو اپنی اپنی جماعتوں کو لوٹنا تھا۔ بچے چلے گئے تو وہ چاروں پارکنگ تک ساتھ چلتے چلتے ایسے گھل مل گئے جیسے پرانے دوست ہوں۔ مگر ایک دوسرے سے اپنے اپنے بچے کی غلطی پر ندامت ظاہر کر کے معافیاں بھی مانگ رہے تھے۔ اور آگے ایسا نہ ہونے کا یقین بھی دلا رہے تھے۔۔۔ ساتھ ہی اس بہانے اچھے لوگوں سے ملاقات ہو جانے کے لیے ایک دوسرے کے تئیں مسرت کا اظہار کیا گیا بلکہ اس تعارف کے لیے بچوں کی ممنونیت کا ذکر بھی ہوا۔

    اس ’اینکاونٹر‘ کے بعد کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ صبیحہ فون اٹھاتی تو کوئی اُس کی آواز سنتے ہی سلسلہ منقطع کر دیتا۔ اس بات سے اسے عادل پر شک ہونے لگا کہ شاید کوئی عورت۔۔۔

    وہ نہیں جانتی تھی کہ عادل کے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہے۔ اور ایک اتوار کی دوپہر جب عادل اپنے کسی خیالی رقیب کو اونچی آواز میں کھری کھری سنا رہا تھا تو وہ شرمندہ سی کمرے میں دُبکی رہی کہ اس نے عادل پر بلاوجہ شبہ کیا اور اب جانے عادل کیا سمجھ رہا ہوگا۔

    عادل نے فون لائن پر نمبر شناخت کرنے والا آلہ لگوایا تو Blank Calls آنا یکسر ہی بند ہو گئیں۔ یعنی blank caller کو اطلاع ہو گئی کہ نمبر شناخت ہو سکتا ہے۔

    ادھر عمران فون پر گھنٹوں باتیں کرنے لگا تھا۔ اس وجہ سے کئی ضروری کام رہ جاتے۔ ڈانٹ کھا کر بھی فون نہ چھوڑا جاتا۔

    بس ماماں۔۔۔ دو منٹ اور۔۔۔ میرا یک دوست ہے۔۔۔ ہوسٹلر ہے۔۔۔ وہ بہت بیمار ہے۔۔۔ اس کے Room Mateکے ساتھ Discuss کر رہا ہوں کہ اس کے Parents کو Inform کریں۔۔۔ یا۔‘‘

    وہ بھولے پن سے بتاتا اور صبیحہ پریشان ہو جاتی اور سب کام بھول کر بیمار لڑکے کے بارے میں مزید دریافت کرتی۔

    ایسے عجیب عجیب حادثے اب اکثر سننے میں آتے تھے۔

    کبھی کسی دوست کا ایکسیڈنٹ میں پاؤں زخمی ہو جاتا اور عمران اس کی مزاج پرسی کے لیے جانے سے گھر دیر سے پہنچتا اور کبھی پریکٹیکل کرتے کرتے سکول کی بس نکل جاتی اور گاڑی بھجوانا ہوتی۔

    بات جب کھلی جب سکول کے Reception سے مزید فون آنے لگے اور گھر میں شکایت نامے بھی پہنچنے لگے۔

    کل آپ کا بیٹا اور چاندنی۔۔۔ چھٹی کے بعد سکول کے پھاٹک کے پاس زینے پر بیٹھے ایک گھنٹہ باتیں کرتے رہے۔۔۔

    آپ کے بیٹے نے گیٹ کیپر کے ساتھ بدتمیزی کی۔ ا س نے صرف سکول میں رکنے کی وجہ پوچھی تھی۔۔۔

    آپ کے بیٹے نے چاندنی سے جھگڑنے پر ایک لڑکے کو تھپڑ مارا۔۔۔

    آپ کے بیٹے نے ہوسٹل کے لڑکوں سے لڑائی کی۔۔۔

    آپ کے بیٹے نے اس ہفتے حساب کی کوئی کلاس اٹینڈ نہیں کی۔۔۔

    آپ کے بیٹے نے کلا س ٹیچر کے ساتھ بحث کی۔۔۔

    آپ کا بیٹا سٹاف پارکنگ کے پیچھے چاندنی کے ساتھ کوک پی رہا تھا وغیرہ۔

    اس بیچ عادل نے دو ایک دفعہ عمران کو تھپڑ لگائے تھے اور عاق کرنے کی دھمکی دی تھی۔

    اور چاندنی سے ماں نے بات کرنا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔

    صبیحہ سے مسز شرما کی بات ہوا کرتی تھی۔

    بچوّں پر کسی سزا یا دھمکی کا کوئی اثر نہ ہوا اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سال میں دو تین بار چاروں والدین کا سکول میں حاضر ہونا نا گزیر ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ معاملہ پرنسپل تک پہنچ گیا۔

    وہ مجرمین کی طرح شرمسار سے پرنسپل کے سامنے پیش ہوئے۔

    ’’تین سال سے تم لوگوں کو سمجھا رہے ہیں۔۔۔ یہ سکول ہے یہاں نظم و نسق کی پابندی لازمی ہے۔۔۔‘‘

    پرنسپل سر جھکائے اپنے کاغذوں کو دیکھتے ہوئے نرمی سے کہتے۔

    ’’Sir یہ co-ed ہے تو بچے۔۔۔ آپس میں بات تو کریں گے ہی۔۔۔ اور خدانخواستہ کوئی غلط بات تو نہیں ہوئی آج تک۔۔۔ ہاں۔۔۔ یہ ڈسپلن کی بات تو ہے ہی Sir اب یہ بڑے ہو رہے ہیں۔۔۔ ایسی حرکت دوبارہ نہیں کریں گے۔۔۔‘‘ صبیحہ سر جھکائے عمران کے پیروں کی طرف ایک نظر پھینکتی۔

    ’’ہمیں اپنی بیٹی پر پورا Confidence ہے سر۔۔۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔۔۔‘‘ مسز شرما چاندنی کی آنکھوں میں دیکھ کر کہتیں۔

    ’’ہمیں بھی اپنے Students پر پورا بھروسہ ہے۔۔۔ یہ اچھے شہری بنیں گے۔۔۔ سکول کا نام روشن کریں گے۔۔۔ بس اپنی class کبھی Bunk نہ کریں۔۔۔ Discipline کا خیال رکھیں۔۔۔ اور کیا چاہیے ایک ٹیچر کو۔۔۔ go۔۔۔ God Bless you‘‘ پرنسپل سب کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائے اور اپنے کاغذوں پر جھک گئے۔

    معاملات کچھ سلجھتے نظر نہیں آ رہے تھے۔

    ’’صبیحہ جی۔۔۔ آج میرے کو پتہ کیا کہتی ہے۔۔۔‘‘ مسز شرمانے جنھیں اب صبیحہ کافی وقت سے سندھیاجی بلاتی تھی فون پر کہا۔

    ’’جی۔۔۔ کون چاندنی کہتی ہے۔۔۔؟‘‘ صبیحہ بولی۔

    ’’ہاں جی اور کون۔۔۔ آج میرے کو کہتی ہے۔۔۔ مجھے برتھ ڈے Present میں عمران چاہیے۔۔۔ میرے پیروں سے تو جمین کھسک گئی۔‘‘

    ’’God ایسا کہا اس نے۔۔۔‘‘

    ’’اور کیا۔۔۔ اس کے پاپا سنیں گے تو مار ڈالیں گے۔۔۔‘‘

    ’’پیار سے سمجھائیے نا۔۔۔ کہ ایسی باتیں نہیں کہتے۔‘‘

    ’’کہاں مانتی ہے صبیحہ جی۔۔۔ کہتی ہے میں نی ڈرتی کسی سے۔۔۔ بول دو چاہے پاپا کو۔۔۔ اب بتائیے کیا کروں۔۔۔‘‘

    ’’یہ تو بہت بری با ت ہے۔ عمران بھی بدتمیز ہو رہا ہے آج کل۔۔۔ فون کرنے پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔۔۔ کتاب تو میں دیکھتی ہی نہیں اس کے ہاتھ میں کبھی۔۔۔‘‘ کچھ لمحے خاموشی چھائی رہی۔

    ’’اب تو ہائی سکول ہے۔۔۔ فیل نہ ہو جائے کہیں۔۔۔‘‘ صبیحہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔

    ’’اب آخر ہوگا کیا۔۔۔‘‘ سندھیا نے پوچھا۔

    ’’پتہ نہیں۔۔۔ خدا ان کو عقل دے۔۔۔ میں تو خود ہی ہار گئی ان بچوّں سے۔۔۔‘‘

    ’’کیا کریں جی۔۔۔ بچے تو بچے ہیں۔۔۔ مگر یہ کہ اب جمانہ بالکل بدل گیا ہے۔۔۔ پہلے تو اپنے منھ سے کوئی بات نہیں کرتا تھا شادی کی۔۔۔ اور اب دیکھو۔۔۔‘‘ سندھیا پنجابی لہجے میں جب اردو بولتی تو صبیحہ کو بہت اچھا لگتا۔ ایک عجیب سادگی بھری متانت تھی اُس کی باتوں میں جس کی صبیحہ قدر کرتی تھی۔

    ’’آپ فکر نہ کیجئے سندھیا جی۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘

    ’’آپ کو پتہ ہے۔۔۔ آپ کی بھاشا نا۔۔۔ میرے کو بہت اچھی لگتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’اور مجھے آپ کی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں۔۔۔‘‘

    سکول سے اب بلاوے کم اور شکایت نامے زیادہ آنے لگے اور ہر شکایت نامے کے بعد صبیحہ اور سندھیا کی ٹیلیفون پر باتیں ہوتیں۔

    ان دنوں سکول میں Annual Day کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ دونوں بچے بھی کچھ مصروف ہو گئے تھے۔ چاندنی خوش گلو تھی اور عمران اداکاری اچھی کر لیتا تھا۔

    صبیحہ نے سُکھ کا سانس لیا کہ فون پر ان کی گھنٹوں کی باتیں کچھ کم ہوئیں۔۔۔ عمران مختلف ملبوسات پہن کر اسکول جاتا۔۔۔ کبھی میک اپ کا سامان کبھی انگریزی ٹوپی ساتھ لی جاتی۔ لمبے لمبے جوتے اور گلو بند وغیرہ خریدے گئے۔ مصروفیات بھی بڑھتی گئیں۔

    ادھر کئی دن صبیحہ کی سندھیا سے بات نہیں ہوئی تو صبیحہ نے فون ملایا۔

    ’’بڑی لمبی عمر ہے آپ کی۔۔۔ میں تو آپ کو ہی یاد کر رہی تھی۔ سوچتی تھی جرا free ہو لوں تو بات کروں۔‘‘

    ’’دیکھئے نا دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔‘‘ صبیحہ نے نرمی سے کہا۔

    ’’دل کو کیا ہوتی ہے۔۔۔‘‘ سندھیا نے نہایت سادگی سے پوچھا تو صبیحہ نے بڑی محبت سے سارا معاملہ سمجھایا جسے سن کر سندھیا ہنس دی۔

    ’’آپ کو پتہ ہے۔۔۔ اس دن جب ہم نے سکول میں دیر تک رکنے سے منع کیا۔ تو روپڑی تھی کہ Rehearsal چل رہے ہیں۔۔۔ دو پلیٹیں اٹھا کر دے ماریں۔۔۔ جمین پر۔۔۔ اتنی اچھی میری کرا کری۔۔۔‘‘ وہ اطلاع دینے والے مخصوص لہجے میں بولی اور زور سے ہنسی۔

    ’’پتہ ہے مجھے، اس کے پاپا کیا کہتے ہیں۔۔۔ کہتے ہیں۔۔۔‘‘ وہ قہقہوں کے درمیان رک رک کر بولتی گئی۔

    ’’بولتے ہیں کہ میرے باپ نے بڑی گلتی کی پاکستان چھوڑ کر ادھر آ گیا۔۔۔ اگر میری اولاد نے ادھر یہ ہی کرنا تھا تو فِر پاکستان کیا برا تھا۔۔۔‘‘ وہ پل بھر کو رکی۔

    ’’پتہ ہے صبیحہ جی۔۔۔ بھگوان جانتا ہے۔۔۔ یہ دھرم کی بات بیچ میں نہ ہوتی تو۔۔۔ میں نے نا، ابھی سے آپ سے اپنی بٹیا کے لیے۔۔۔‘‘

    ’’آپ بھی یقین کیجئے کہ یہ مذہب کا معاملہ نہ ہوتا تو میں بھی۔۔۔ جھولی پسار کر آپ کی بٹیا کا ہاتھ مانگ لیتی۔۔۔ اور ساری عمر اسے سینے سے لگائے رکھتی۔‘‘ صبیحہ نے دھیرے سے جملہ مکمل کیا۔

    اینول ڈے کی تقریبات کے بعد فون کا سلسلہ کچھ اور کم ہو گیا۔

    صبیحہ کو احساس بھی نہ ہوا کہ فون کو گھنٹوں خاموش دیکھ کر دہ سوچوں میں ڈوب سی جاتی تھی۔

    جب صبیحہ کو یقین ہو گیا کہ بچے آپس میں بات نہیں کر رہے تو اس نے سندھیا سے معلوم کرنے کا فیصلہ کیا، مگر خود سندھیا نے یہی بات دریافت کرنے کے لیے فون کیا۔ معلوم ہوا کہ چاندنی نے کھانا پینا چھوڑ رکھا تھا اور عمران بھی گھر میں کچھ چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرنے لگا تھا۔ بہانے بنا کر روتا تھا۔ نہ کھانے کے برابر ہی کھاتا تھا وغیرہ۔۔۔ اس طرح کی گفتگو کے بعد ماؤں نے ادھر ادھر ٹیلیفون کھڑکھڑائے۔۔۔ کچھ وجہ معلوم نہ ہوئی۔۔۔ مگر پھر تین چار روز کے اندر اندر فون والا سلسلہ بحال ہو گیا اور نہ صرف ماؤں نے بلکہ والد صاحبان نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ جانے کب ان دونوں کے اس تعلق نے والدین کے دلوں میں ایک جگہ بنا لی تھی۔

    ’’اس کے پاپا بھی پوچھ رہے تھے کہ بچوں میں جھگڑا تو نہیں ہوا۔۔۔‘‘ سندھیا نے یہ بات فون پر بچوّں کی موجودہ حالت کی نوعیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے دو بار کہی تھی۔ جسے سن کر صبیحہ اُداسی سے مسکرا دی تھی۔

    ’’ہاں۔۔۔ عادل بھی یہی پوچھ رہے تھے۔۔۔‘‘ وہ بولی تھی۔

    مگر ادھر فون پر باتوں کے درمیانی وقفے کچھ زیادہ ہو گئے اور باتوں کا وقت کچھ کم۔ شاید چشمک ابھی باقی تھی۔ صبیحہ سوچا کرتی۔

    ’’چاندنی کو کسی نے بتایا تھا کہ عادل کسی لڑکی سے باتیں کرتا تھا۔‘‘ سندھیا نے فون پر کہا۔‘‘ بعد میں پتہ چلا کہ گلت فہمی تھی۔۔۔ جو فِر دور ہو گئی تھی۔‘‘

    ’’’چلیے اچھا ہوا۔۔۔ ہنسنا بولنا چھوڑ دیتے ہیں بچے تو۔۔۔‘‘

    ’’میرا تو صبیحہ جی سارا گھر ہی دُکھی لگ رہا تھا۔۔۔‘‘

    ’’بچے شاید سمجھدار ہو گئے ہیں اب۔۔۔ فون پر باتیں کم ہوتی ہیں۔۔۔‘‘

    ’’exams بھی تو آ رہے ہیں ان کے۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ یہ تو ٹھیک ہے۔۔۔ شاید اسی لیے۔۔۔‘‘ صبیحہ کہتی۔

    امتحانات شروع ہو کر ختم ہو گئے۔ مگر فون دھیمی رفتار سے ہی ہوتے رہے ادھر سکول سے بھی کوئی شکایت نہ آئی۔

    شاید عمر کے ساتھ ساتھ بچے احساس ذِمہ داری اور فرائض کی اہمیت سمجھ رہے تھے۔ مگر کبھی کبھی صبیحہ اداس سی ہو جاتی کہ اب سال ڈیڑھ سال سے چاندنی صبیحہ کی آواز سن کر فون کا سلسلہ منقطع نہیں کرتی تھی۔

    ’’آنٹی۔۔۔ میں عمران سے بات کر لوں۔‘‘ پیار سے لبریز میٹھی سی آواز میں وہ گھنگھروؤں کی سی کھنک لیے عجب انداز میں التجا سی کرتی تو صبیحہ کا ممتا بھرا دل اس کے لیے محبت سے چھلک چھلک جاتا۔

    ’’ہاں بیٹا۔۔۔ ایک منٹ‘‘ وہ مختصر سا جواب دیتی۔

    اب کئی روز سے صبیحہ نے اس کی آواز نہیں سنی تھی۔ ٹیلیفون کا ایک کنیکشن عمران کے کمرے میں بھی لگ گیا تھا اس کا کمپیوٹر بھی وہیں تھا۔ اب اسی نمبر پر فون کرتی ہوگی چاندنی۔ پھر اب چاندی کے پا س موبائل فون بھی ہے۔ صبیحہ مسکرا کر سوچتی۔

    نئی جماعت کے فارم بھرنے والے دن سندھیا اور صبیحہ کی سکول میں ملاقات ہوئی تھی۔

    صبیحہ جی۔۔۔ میں تو چاندنی کی فوٹو لائی ہی نہیں۔۔۔ عمران کہاں ہے؟‘‘ سندھیا نے مسکرا کر پوچھا تھا۔‘‘ میں نکلی تو سو رہی تھی۔۔۔ بتایا بھی نہیں کہ فوٹو چاہیے۔‘‘

    ’’ابھی آ رہا ہے۔۔۔‘‘ صبیحہ کا گھر سکول سے زیادہ دور نہ تھا۔ وہ بھی مسکرا کر بولی۔۔۔ سمجھ گئی میں۔۔۔‘‘ صبیحہ کو ہنسی آ گئی تو سندھیا بھی قہقہہ لگا کر ہنس دی۔

    ’’ہے نا Short cut اس کے پاس تو جرور ہو گا۔۔۔ فون کر کے بتا دیں اسے کہ چاندنی کا ایک فوٹو لیتے آنا۔‘‘ اس پر دونوں ہنستی رہی تھیں۔ پھر ساتھ ساتھ کینٹین جا کر کافی بھی پی۔

    پھر کچھ دن بعد صبیحہ نے فون پر ایک نئی آواز سنی۔

    ’’Hello, may I please speak to Imran‘‘ کسی لڑکی نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔

    ’’Who is that?‘‘ صبیحہ نے پوچھا تو اس نے اپنا نام بتائے بغیر اسی مضبوطی سے کہا کہ وہ اس کی دوست ہے۔

    خیر یہ پبلک سکول کا کلچر۔۔۔ دوستی تو ہوتی ہو گی Students میں ہلکی پھلکی۔۔۔ وہ اپنے آپ سے کہتی۔

    کئی دن سے اس کی سندھیا سے بھی کوئی بات نہ ہوئی تھی۔

    پھر ایک دن سکول کے اوقات میں سندھیا کا فون آیا تھا۔

    چاندنی سکول میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ عمران سے اس کا جھگڑا ہو گیا تھا۔ اس کی فرینڈس نے فون کیا تھا۔۔۔ اور اسے ہوش میں لایا۔۔۔ سکول بس میں بٹھایا۔‘‘ جرا پوچھنا تو صبیحہ جی۔۔۔ عمران آ گیا کیا۔۔۔ کیا ہوا تھا۔‘‘ سندھیا نے ایک ہی سانس میں کہا۔

    ’’نہیں۔۔۔ تو۔۔۔ ابھی نہیں آیا۔۔۔ آپ مجھے چاندنی کا سیل نمبر دے دیں میں بات کرتی ہوں اس سے۔۔۔‘‘

    صبیحہ نے چاندنی کو فون کیا تو وہ کانپتی ہوئی آواز میں ہیلو بولی تھی۔۔۔ اور پھر خاموش سسکتی رہی تھی۔

    ’’کیا ہوا میری بٹیا۔۔۔‘‘ صبیحہ کے بیٹی نہیں تھی۔ اس نے بے چینی سے پوچھا۔ پہلے اس نے اس طرح کبھی چاندنی کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ سکول کی ملاقاتوں میں انھیں ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کے والدین فلمی ولین کی طرح نظر آتے ہوں گے۔۔۔ چاندنی نہیں جانتی تھی کہ صبیحہ اُس سے محبت کرتی تھی۔ اور شاید چاندنی کی سِسکیاں سننے سے پہلے خود صبیحہ پر بھی یہ بات واضح نہیں تھی۔

    ’’بہت۔۔۔ دنوں سے۔۔۔ Ignore۔۔۔ ما رہا تھا۔ آج اس نے مجھے Get Lost کہا۔ بہت جور سے ڈانٹا۔۔۔ اور کہا جو مرجی کر۔‘‘ وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔

    ’’کیوں۔۔۔؟‘‘ صبیحہ نے پوچھا۔

    ’’کچھ نہیں آنٹی۔۔۔ میں نے کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے کانچ پر اپنا ہاتھ دے مارا تھا۔۔۔‘‘

    ’’وہ کیوں بیٹا۔۔۔؟ کیوں مارا تھا ہاتھ ٹوٹے ہوئے کانچ پر۔۔۔‘‘ صبیحہ نے جلدی سے پوچھا۔

    ’’وہ سیما سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔ ایک نئی لڑکی آئی ہے۔۔۔ ساری breakمیں اس کے ساتھ تھا۔۔۔ میرے کو بہت بُرا لگ رہا تھا۔۔۔ پھر سن کر آیا تھا بھاگا ہوا۔۔۔ میرے ہاتھ پر رومال باندھا اور مجھے ڈانٹ کر چلا گیا۔‘‘ اس نے ہچکی لی۔

    ’’و ہ بدل گیا ہے آنٹی۔۔۔‘‘ وہ رو پڑی’’وہ مجھ سے پیار نہیں کرتا۔ بے وفائی کر رہا ہے میرے سے وہ۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میری گڑیا۔۔۔ روتے نہیں۔۔۔ غصّہ آ گیا ہوگا اسے۔ تم نے اپنا ہاتھ جو زخمی کر لیا تھا۔‘‘ صبیحہ نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ مگر اسے حیرت بھی ہو رہی تھی کہ چیزیں کتنی دور تک چلی گئی تھیں۔

    ’’سچی آنٹی۔۔۔؟‘‘ اس نے معصومیت بھری بے اعتباری سے پوچھا۔ اتنی سی عمر میں اتنے بڑے مسئلے پال لیتے ہیں بچے۔ صبیحہ نے سوچا۔

    ’’ہاں اور کیا۔۔۔‘‘ صبیحہ نے یقین سے کہا۔

    ’’یہاں بس میں بہت شور ہے۔۔۔ میں گھر پہنچ کر آپ کو فون کروں گی۔‘‘ بس کے شور میں اس کی آواز دب گئی۔

    صبیحہ نے سندھیا کو فون کر کے ساری بات بتائی اور پریشان نہ ہونے کی تلقین کی۔

    پھر سارا دن صبیحہ چاندنی کے فون کا انتظار کرتی رہی مگر اس کا فون نہیں آیا۔ صبیحہ اتنی رنجیدہ ہو گئی تھی کہ خود اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ وہ اتنی زیادہ پریشان کیوں ہو رہی ہے۔

    وہ سونے کے لیے لیٹی تو اسے بار بار یہ ہی خیال آتا کہ چاندنی اس کے بےوفا بیٹے کو یاد کر کے رو رہی ہوگی۔ مگر ضروری نہیں کہ وہ بےوفا ہو۔۔۔ وہ اس سے کیوں بےوفائی کرےگا۔۔۔ وہ خود سے پوچھتی۔۔۔ مرد ہے نا۔۔۔ اس کی محبت کی بہتات سے وقتی طور پر کچھ لا پرواہ ہو گیا ہو۔۔۔ یکسانیت سے گھبرا اُٹھا ہو۔ مگر ایسے کیسے وہ دل دُکھا سکتا ہے اس کا۔ کچھ مہینے ہی اور ہیں اس کے سکول میں۔ پھر جانے کون کہاں جائے۔ مستقبل تو صرف خدا جانتا ہے مگر وہ چاندنی سے ایسا سلوک نہیں کر سکتا۔۔۔ صبیحہ کی آنکھوں میں چاندنی کا چہرہ گھوم جاتا۔

    لیکن چاندنی کو خوش رہنے کے لیے اس کے سہارے کا محتاج نہیں رہنا چاہیے۔ ایسے تو۔۔۔ وہ کہیں اپنے آپ کو کچھ۔۔۔ اس نے فون بھی نہیں کیا۔۔۔ کہیں وہ رو نہ رہی ہو۔۔۔ وہ سو بھی نہیں پا رہی ہوگی۔ گھر میں کوئی نہ جانتا ہو گا کہ ایک ننھی سی روح کتنی بے سکون ہے۔ کروٹیں بدل بدل کر اُس کے ریشمی بال الجھ الجھ گئے ہوں گے۔ اُس کے معصوم اور محروم دل سے آہیں نکل نکل کر اس کی نیند جلا رہی ہوں گی۔ وہ سراپا محبت، نفرت کیسے سہےگی۔۔۔ مر جائے گی غریب۔۔۔

    صبیحہ روپڑی۔۔۔ یہ کیا ہو گیا۔۔۔

    یہ تم کیا کر رہے ہو عمران۔۔۔

    صبیحہ اسے سمجھا بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اپنی سی کرتا تھا۔ اور رو دھوکر شور مچا کر اپنی بات منوا لیتا تھا۔

    اس دن آدھی رات کو چاندنی کا فون آیا۔

    ’’مجھے آپ ہی سے بات کرنی ہے آنٹی۔‘‘ معصومیت اور محبت کی کھنکتی ہوئی آمیزش والی مانوس آواز آئی۔‘‘ آپ سو رہے تھے۔۔۔ Sorry۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میری گڑیا تم ٹھیک ہونا؟‘‘ صبیحہ نے نہایت محبت سے کہا۔

    ’’ہاں جی آنٹی۔۔۔‘‘ اس بار اس کی آواز اداس سی ہو گئی۔

    ’’کیا ہوا بٹیا۔۔۔ کیا ہوا ہے۔‘‘ صبیحہ نے پوچھا۔۔۔ مگر چاندنی کی آواز رندھ گئی۔ وہ کچھ نہ بول سکی۔ اُس کی گھٹی گھٹی سسکیاں سنائی دیں۔

    ’’روؤ نہیں بٹیا۔۔۔ پلیز۔۔۔ تم بتاؤ تو سہی۔۔۔‘‘ صبیحہ کی آواز رنجیدہ ہو گئی۔

    ’’آنٹی۔۔۔ وہ اب مجھ سے ویسے نہیں ملتا۔۔۔ جیسے۔۔۔ پہلے۔۔۔‘‘ وہ سسکتی رہی۔

    ’’اوہ۔۔۔ کب سے۔۔۔‘‘ صبیحہ کا دل بجھ سا گیا۔

    کئی دن ہو گئے۔۔۔ ایک مہینہ۔۔۔ نہیں۔۔۔ بہت سے مہینے۔۔۔‘‘ وہ بلک بلک کر روتی رہی۔۔۔‘‘ وہ۔۔۔ اب بدل گیا ہے۔۔۔‘‘

    ’’وجہ کیا ہوئی۔۔۔‘‘

    ’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔۔۔ میں نے تو اسے اتنا پیار دیا۔۔۔ کہ وہ پیار کی کوئی کمی محسوس نہ کرے۔۔۔ آپ لوگ اُس سے ناراض رہتے تھے نا پہلے۔۔۔ اسی لیے۔ میں نے وہی کیا جو اس نے کہا۔۔۔ کہا جینز مت پہنو۔۔۔ میں نے چھوڑ دی۔۔۔ کہا کسی لڑکے سے سکول میں بات نہ کرو میں نے کبھی نہیں کی۔۔۔ اس کے لیے۔۔۔ اُس کے پیر میں موچ آئی تو میں نے ورت رکھے۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ انشاء اللہ اور آمین کہنا سیکھا۔۔۔‘‘ وہ بے اختیار اپنے دل کی باتیں بتاتی گئی۔ اُس کی معصوم باتوں سے صبیحہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی مگر آنکھیں نم ہو اٹھتیں۔

    ’’سب سو گئے تو میں نے۔۔۔ فون کیا۔۔۔ کہ کوئی میری حالت نہ دیکھے۔ مماں سے کہا کہ سب ٹھیک ہے۔۔۔ بہت دیر کر دی میں نے؟‘‘

    ’’نہیں بیٹا۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔‘‘ صبیحہ نے جلدی سے کہا۔

    کتنی بے بس تھی وہ ننھی سی جان۔۔۔ غم کا پہاڑ اٹھائے۔

    ’’تم جب چاہو۔۔۔ چاہے آدھی رات ہو۔۔۔ فون کر لو۔۔۔ میں تو خود تمہاری وجہ سے بہت پریشان ہو رہی تھی۔۔۔ جاگ رہی تھی میں بھی۔۔۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔؟ اب پتہ ہے میری فرینڈس کیا کہتی ہیں۔۔۔ کہتی ہیں کہ تم نے اسے زیادہ لفٹ دی ہے۔ وہ سر چڑھ گیا ہے۔۔۔ کہتی ہیں بھول جاؤ اسے۔۔۔ مت بات کرو اس سے۔۔۔ میں یہ کیسے کروں۔ اس نے آج تک میرے کو جتنے Flowers دیئے ہیں۔۔۔ میں نے سب اپنی Almirah میں سجا کر رکھے ہیں۔۔۔ اس کی ہر چیز۔۔۔ ہر Gift ہر بات سے اُس کی یاد آتی ہے۔۔۔‘‘ وہ روپڑی۔

    ’’نہیں بٹیا۔۔۔ روؤ نہیں۔۔۔ میں بتاتی ہوں کہ تم۔۔۔‘‘

    ’’کوئی گانا بجتا ہے تو وہ یاد آتا ہے۔۔۔ گھر میں روتی رہتی ہوں۔۔۔ سارا سکول جانتا ہے۔۔۔ سب پوچھتے ہیں۔ اکیلا دیکھتے ہیں تو پوچھتے ہیں عمران کہا ہے۔۔۔ میں کیا کہوں کیا کروں۔۔۔ میں مہینوں سے نہیں سوئی۔۔۔ میں۔۔۔ میں آتم ہتیا کر لوں گی۔۔۔‘‘

    ’’سنو۔۔۔ سنو بٹیا۔ میں تمھیں ایک بڑی ضروری بات بتاتی ہوں۔۔۔‘‘

    ’’آنٹی۔۔۔ میری Friends نئی نئی چیزیں مانگتی ہیں Parents سے۔۔۔ میں صرف عمران مانگتی ہوں۔۔۔ ان سے۔۔۔ Godسے۔۔۔ پھر میرے ساتھ ایسا۔۔۔‘‘

    ’’اگر تم بٹیا میری بات سُنو تو میں کچھ بتاؤں گی تم کو۔۔۔‘‘ معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتے ہی ساری بات صبیحہ کی سمجھ میں آ گئی۔ اسے بےحد دکھ ہوا۔

    ’’سنوں گی۔۔۔ آپ بولو۔۔۔‘‘

    ’’مگر رو کر نہیں۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے آنٹی۔۔۔‘‘ اس کا دل روکر کچھ ہلکا ہو گیا تھا۔ اس کے ناک سکیڑنے کی آواز آئی۔

    ’’تمہاری سہیلیاں ٹھیک کہتی ہیں۔۔۔ تم نے واقعی اسے سر چڑھا دیا ہے۔۔۔ تمہاری ابھی عمر دیکھو کتنی چھوٹی سی ہے۔۔۔ اپنا سارا پیار تم نے اسے دے دیا ہے۔ ہے نا؟‘‘ صبیحہ نے اسی کے انداز میں بات شروع کی۔

    ’’ہاں جی۔۔۔‘‘

    ’’تم نے اسے اس کی نظروں میں Important بنا دیا۔ وہ خود کو تم سے بڑھ کر سمجھنے لگا ہے۔۔۔ جبکہ سب انسان برابر ہیں۔ اور پیار تو ہے ہی برابری کے احترام اور عزت کا نام۔۔۔ ابھی تو بٹیا تمھیں زندگی میں کتنے کام کرنے ہیں۔۔۔ ہیں نا۔۔۔‘‘ صبیحہ نے ’کتنے کو کھینچ کہا۔

    ’’کرنے تو ہیں۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے نا۔۔۔ دیکھو انسان ہمیشہ غلطیاں کرتا آیا ہے۔۔۔ ہے نا۔۔۔ تو Admit کر لو۔۔۔ کہ تم سے بھی ایک غلطی ہو گئی۔ بچپنے میں تم نے ایک غلط انسان سے دوستی کر لی۔ باقی زندگی کو تو جہنم نہ بناؤ۔۔۔ کہہ دو اپنی Friendsسے۔۔۔ اپنے Parents سے کہ تم سے غلطی ہو گئی ایک۔۔۔ والدین تمھیں اتنے قصور معاف کرتے آئے ہیں۔ وہ یہ بات بھی بھول جائیں گے۔ اُنہیں پتہ تو چل گیا ہوگا کہ تم لوگوں میں کچھ گڑبڑ چل رہی ہے۔۔۔ تم اداس رہتی ہو۔۔۔ ان سے تو کچھ چھپا نہیں ہوتا۔۔۔ ہے نا بیٹا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں جی۔۔۔‘‘

    ’’خوش ہو جائیں گے کہ اب تم اور غم زدہ نہیں رہو گی۔۔۔ کم سے کم آگے کی زندگی تو سنور جائے گی نا۔۔۔‘‘

    ’’جی آنٹی۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘

    ’’مگر کیا۔۔۔ تم سوچو نا بیٹا۔۔۔‘‘

    ’’میں جب سوچتی ہوں کہ عمران میرا ساتھ نہیں دےگا تو میری جان سی نکلتی ہے۔ زندگی میں کچھ Meaning ہی نظر نہیں آتا مجھے۔۔۔‘‘ چاندنی کی آواز میں تھکن اور یاسیت تھی۔

    ’’آپ نہیں جانتی آنٹی۔۔۔ میں کتنا پیار کرتی ہوں اُس سے۔ اگر خدانخواستہ مجھے اپنی ایک Kidneyاُسے دینی پڑے تو دوسری بار نہیں سوچوں گی۔۔۔‘‘

    ’’آج تک جب بھی جھگڑا ہوا تو پہلے کون فون کرتا تھا۔‘‘ صبیحہ کو کسی سہیلی کی طرح وہ بےتکلفی سے اپنی باتیں بتاتی گئی تو صبیحہ نے بھی اچھا سامع ہونے کا ثبوت دیا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ چاندنی کو کسی باقاعدہ سمجھانے والے کی، باقاعدہ’Counselling‘ کی ضرورت ہے۔

    ’’میں ہی مناتی ہوں اسے۔۔۔ ہمیشہ۔۔۔ سوچتی ہوں 12th میں ہے۔۔۔ کچھ مہینے بعد چلا جائےگا سکول چھوڑ کر۔۔۔ پھر کہاں ہو گا۔ کب دیکھوں جانے۔‘‘

    اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔

    ’’اگر قصور اس کا ہو۔۔۔ تو بھی تم ہی مناتی ہو۔۔۔‘‘

    ’’ہاں جی۔۔۔ جھٹ سے فون کرتی ہوں۔۔۔ کہ لمبا نہ کھچ جائے۔‘‘

    ’’مماں آ گئی آنٹی۔۔۔‘‘ اس نے جلدی سے سرگوشی میں کہا۔

    ’’اچھا میناکشی۔۔۔ میں بعد میں فون کروں گی۔‘‘ وہ اونچی آواز میں بشاشت سے بولی۔۔۔ اور فون رکھ دیا۔ کتنا کچھ سیکھ لیا تھا اس نے۔ کتنا کچھ سکھا دیا تھا وقت نے اسے۔۔۔ کتنا بالغ کر دیا تھا اس کی سوچ کو محبت نے۔۔۔ اور کتنا تنہا اور غمزدہ بھی۔۔۔ صبیحہ کی آنکھیں پھر نم ہو گئیں۔ اس کی ایک اور وجہ بھی تھی جو اس دن سارا وقت صبیحہ چاندنی کے بارے میں سوچتی رہی۔ اسے بار بار اُس کی مغموم آواز اس کا والہانہ انداز یاد آ کر اداس کرتا رہا۔

    پچھلے سال ایک بار جب صبیحہ کسی کام سے سکول گئی تھی تو لوٹتے وقت اس نے لمبی سی راہداری میں کئی لڑکے لڑکیوں میں چاندنی اور عمران کو بھی دیکھا تھا۔ صبیحہ زینہ اتر رہی تھی تو چاندنی کی اس پر نظر پڑ گئی تھی اور اس نے عمران سے کہا تھا۔ پھر ذرا محتاط سی ہو کر مسکرائی تھی اور عمران کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ صبیحہ نے سیاہ چشمہ پہن رکھا تھا۔ اس نے بالکل ظاہر نہ ہونے دیا کہ اس نے بھی ان لوگوں کو دیکھا تھا۔ مگر چشمے کی اوٹ سے وہ وہاں سے گزرتے وقت ان ہی کو بلکہ صرف چاندنی کو دیکھ رہی تھی۔ صبیحہ خاصی تعلیم یافتہ تھی۔ اور نفسیات اس کا محبوب مضمون رہا تھا۔

    اس دن بھی چاندنی کے تاثرات دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گئی تھی کہ اسے دیکھ کر چاندنی کے چہرے پر جو تاثرات ابھرے تھے وہ فطری تو تھے مگر جس طرح وہ عمران کو دیکھ رہی تھی وہ بالکل ایسا تھا جیسے وہ اپنے ٹھٹھکنے اور مسکرانے کے تئیں عمران کا ردِّ عمل جاننا چاہتی ہو۔ کہ اس کے معصوم سے چہرے پر خوشامدانہ مسکراہٹ تھی۔ آنکھوں میں تعمیل پر آمادہ محکومیت کی جھلک تھی۔ وہ نیم سہمی سی پاؤں آگے پیچھے رکھتی ہوئی کھڑی تھی۔ پورے وجود سے خود اعتمادی کی ہر وہ جھلک غائب تھی جو صبیحہ نے پہلی بار اس میں وائس پرنسپل کا سامنا کرتے ہوئے دیکھی تھی۔ اس کی صحت بھی گری ہوئی سی معلوم ہو رہی تھی۔

    جب سے صبیحہ کو اکثر یہ بات یاد آ جاتی۔

    ’’مماں چلی گئیں۔۔۔‘‘ صبیحہ نے فون اُٹھایا تو چاندنی کی آواز آئی۔

    ’’آپ کو پتہ ہے آنٹی۔۔۔ گھر میں سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔۔۔ میں خوش ہوں۔۔۔ انھیں کیا پتہ اتنی Sincere ہو کر بھی میں کتنی دکھی ہوں۔۔۔‘‘

    ’’اور پھر بھی۔۔۔ اس نے تمہاری قدر نہیں کی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ وہ سیما کیسی لڑکی ہے۔۔۔‘‘

    ’’وہ۔۔۔ وہ Tall ہے۔ اس کا Skin بہت اچھا ہے۔۔۔ ایک بھی Pimple نہیں ہے۔ عمران کہتا تھا تیری آنکھوں میں گڈھے ہیں۔۔۔‘‘

    اس کا جواب سن کر صبیحہ کے ہونٹوں پر اداس سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

    ’’اوہ۔۔۔ میرا مطلب تھا نیچر وغیرہ۔۔۔ مگر یہ بتاؤ کہ تم ڈائٹنگ تو نہیں کر رہیں نا۔۔۔ پچھلے برس دیکھا تھا دور سے تمھیں۔۔۔ کمزور لگ رہی تھیں۔‘‘

    ’’کرتی تو تھی ڈائٹنگ۔۔۔ مگر اب کئی مہینوں سے نہیں کر رہی۔۔۔ عمران نے کہا تھا۔۔۔ موٹی ہو گئی ہو۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر تم نے۔۔۔ رو رو کر آنکھوں میں گڈھے بنا لیے۔۔۔ ہے نا؟‘‘

    ’’ہاں جی۔۔۔ اسی کے لیے روئی اور وہی مذاق اُڑاتا ہے۔‘‘ اس کی آواز میں شکوہ ہی شکوہ تھا۔

    ’’تو پھر بٹیا۔۔۔ تم۔۔۔ اپنا آپ ایک ایسے آدمی کے لیے خراب کرو گی جس کو قدر ہی نہیں۔۔۔ اتنی ننھی سی عمر میں اتنے اتنے دکھوں سے آشنا کرا دیا تم کو ظالم نے۔۔۔‘‘

    صبیحہ کے دل میں اپنے بیٹے کے لیے غصے کی لہر دوڑ گئی۔۔۔ مگر اسے چاندنی کے تڑپتے دل کو کسی طرح سکون دینا تھا۔۔۔ اور کیسے۔ یہ اس نے سوچ لیا تھا۔

    ’’تم جانتی ہو تم کتنی خوبصورت ہو۔۔۔ کتنی پیاری ہو۔۔۔‘‘

    ’’کہاں ہوں آنٹی اب میں سندر۔۔۔ پہلے تھی۔۔۔‘‘

    ’’تو کیا اب تم سندر ہونا بھی نہیں چاہتیں۔۔۔ پہلے کی طرح؟‘‘

    ’’اب دل ہی نہیں کرتا۔ مجھ سے کچھ کرنے کی Will-power جیسے کہ چھن ہی گئی ہے۔۔۔ میرے میں آنٹی۔ Confidence ہی نہیں ہے نا۔۔۔‘‘

    اس نے جیسے کہ تھک کر کہا۔

    ’’کس نے کہہ دیا۔۔۔؟‘‘

    ’’عمران ہی کہتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’تم میں۔۔۔؟ Confidence نہیں ہے؟ Will-power نہیں ہے؟ بدھو لڑکی۔۔۔ یہ میں مان ہی نہیں سکتی۔ میں نے تو تم جیسی Strong لڑکی دیکھی ہی نہیں آج تک۔۔۔ ایک طرف تم تھیں۔ اور ایک طرف سارا Staff۔۔۔ تمہارے Parents اور ہم۔۔۔ سب سے اکیلے مقابلہ نہیں کیا تھا؟۔۔۔ نہیں؟‘‘ صبیحہ نے آواز میں مضبوطی پیدا کی۔

    ’’ہاں جی۔۔۔ آنٹی۔‘‘ وہ دھیرے سے بولی۔

    ’’ایک طرف اتنی بڑی دنیا تھی اور ایک طرف میری یہ ننھی سی ہرنی۔۔۔ ہرنی سی آنکھوں والی۔۔۔‘ اس کا چھوٹا سا قہقہہ سنائی دیا۔

    ’’جانتی ہو ننھی سی ہرنی کو کیا کہتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’کیا کہتے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’اسے غزالہ کہتے ہیں۔۔۔ جس کی بہت پیاری آنکھیں ہوں۔۔۔ تمہارے جیسی۔‘‘

    ’’اور وہ میں ہوں۔۔۔‘‘ اس نے میں پر زور دیا اور کھِلکھِلا کر ہنس دی۔

    صبیحہ کی آنکھوں میں جانے کب سے آنسو بھرے تھے۔۔۔ وہ ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

    ’’میری نادان سی بھولی سی بچی۔‘‘ صبیحہ نے آواز کی یاسیت کو قابو میں کر لیا۔

    ’’کیا تم نہیں چاہتیں کہ وہ پہلے سی مضبوط چاندنی۔۔۔ وہ پہلے سی خوبصورت۔۔۔ سکول کی سب لڑکیوں سے خوبصورت چاندنی۔۔۔ وہ پہلے سی Confident چاندنی۔ پھر لوٹ آئے؟‘‘

    ’’ہاں جی۔۔۔ چاہتی ہوں۔‘‘ اس نے دھیرے سے کہا۔

    ’’تو پھر بٹیا۔ اپنے بارے میں سوچو نا۔ اس سے زیادہ خود اپنے آپ سے محبت کرو۔۔۔ رونا چھوڑ دو گی تو پہلے کی طرح سندر ہو جاؤگی۔۔۔ تمھارا Skinبھی اچھا ہو جائےگا۔ تمہاری ہر بات سے Confidence چھلکےگا۔ اور ٹھیک سے کھا پی کر۔ نیند آنے لگے تو اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر نیند اڑاؤگی نہیں بلکہ اپنے بارے میں بہتر سوچ کر۔۔۔ اپنے آپ کو اور اچھا بنانے کے طریقوں پر غور کرتی ہوئی۔۔۔ Deep Breathing کرتی رہوگی۔۔۔ دیکھنا کیسی میٹھی نیند آئےگی تم کو۔۔۔ گہری گہری سانسیں لیتی اپنے Career کے بارے میں سوچتی ہوئی۔۔۔ کہ زندگی میں کیا بننا ہے۔۔۔ اچھی اچھی Positive باتیں اپنے بارے میں Decide کرتی۔ سو جانا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں جی۔۔۔‘‘

    ’’ابھی تو تمہاری عمر کھیلنے کھانے کی ہے۔۔۔ پھر اپنا Future بنانے کی۔ پھر کہیں Settle ہونے کی باری آتی ہے۔۔۔ ہے نا؟ اس میں بھی کئی سال ہیں۔‘‘

    ’’ہاں جی۔۔۔ اب میں ایسا ہی کروں گی۔۔۔ کل نا سونے سے پہلے الماری سے کپڑے نکالنے لگی تو اس کی دی ہوئی ساری چیزیں۔۔۔ روپڑی تھی میں۔‘‘

    ’’تم نے بیٹا اتنے برسوں اس کی ہر چیز سنبھال کر رکھی ہے نا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں جی۔۔۔ ہر چیز الماری میں سجا کر۔۔۔‘‘

    ’’اب تم ان سب کو ایک بیگ میں ڈال کر اور اچھی طرح سنبھال لو۔۔۔ پھر وہ۔۔۔ وہ بیگ۔۔۔ ہاں اسے Bed کے Box میں ڈال دو۔۔۔ بس یہ سوچ کر کہ فی الحال پیار ڈبّے میں بند کر کے میں اپنے بارے میں سوچوں گی۔۔۔‘‘

    ’’پیار ڈبے میں بند کر دونگی۔۔۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔

    ’’کیوں کروگی۔۔۔‘‘

    ’’تاکہ مجھے اس کی یاد میں رونا نہ آئے۔۔۔ اور میں اپنے لیے۔۔۔ اپنے لیے کچھ سوچ سکوں۔۔۔‘‘

    ’’شاباش۔۔۔ دیکھو، جس ماں باپ نے تمہارے لیے اتنا کیا ہے۔۔۔ کیا یہ انکا حق نہیں کہ ان کی بیٹی کسی لائق ہو جائے۔ ان کے اس خون کو جو تمہاری نسوں میں دوڑ رہا ہے کسی دوسرے کے لیے آنسو بنا کر نہ بہائے، بلکہ کچھ کر کے دکھائے۔ کچھ بن کر دکھائے۔‘‘

    ’’ہاں جی آنٹی۔۔۔ میں خوب پڑھوں گی تو مماں، پاپا بہت خوش ہوں گے۔‘‘

    ’’بالکل میری اچھی بٹیا۔۔۔ اور ادھر ادھر کے خیالات کو، Disturbingخیالات کو بالکل من میں جگہ نہ دوگی۔۔۔‘‘

    ’’ہاں ایسا کچھ نہیں سوچوں گی۔۔۔‘‘ اس نے مضبوطی کا مظاہرہ کیا۔

    ’’اور۔۔۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ. Its better to be loved than to love‘‘

    ’’جی۔۔۔ سنا ہے۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ آج اس پر بھی سوچنا۔۔۔ کہتے ہیں اگر تم کسی کو چاہتے ہو تو اس کا پیچھا مت کرو۔۔۔ اگر وہ تمھارا ہے تو تمہارے پاس لوٹ آئےگا۔۔۔ اگر نہیں آتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کبھی تمھارا تھاہی نہیں۔۔۔ ہے نا۔۔۔ ہیلو۔۔۔‘‘

    ’’ہاں جی آنٹی۔۔۔ میں۔۔۔ آپ کی بات پر Concentrateکر رہی ہوں۔ ایسا کہتے ہیں کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہے نا پتے کی بات۔۔۔ تو بس پھر خود پر دھیان دو۔ خود کو بناؤ کچھ بن کر دکھاؤ۔ اس کی نسبت خود کو اہمیت دوگی تو خوش رہنا آسان ہو جائےگا۔ کوئی بہت اچھی پوزیشن حاصل کر لو۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤ۔‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔‘‘

    ’’تو اب تم ان باتوں پر عمل کرنا۔۔۔ پھر ایک عمران تو کیا ایسے دس عمران تمہارے آگے پیچھے ناک رگڑیں گے۔۔۔ اور نہ بھی رگڑیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘

    وہ چھوٹا سا قہقہہ لگا کر ہنسی۔

    ’’تو بس میری بٹیا۔۔۔ اب تم کیا کرو گی۔‘‘

    ’’میں اچھے سے Exams کی تیاری کرونگی۔۔۔ اپنے کیرئیر پر Concentrate کروں گی۔۔۔ اپنی health اور beauty کا خیال رکھوں گی اور خود کو اچھا بناؤں گی۔۔۔‘‘

    ’’شاباش۔۔۔ Good Girl۔۔۔ اپنے آپ کو بالکل پہلے جیسی پیاری اور پہلے سے بھی قابل لڑکی بنا کر دکھاؤگی۔ کچھ کر دکھاؤگی تو سب لوگ تمھارا نام فخر سے لیں گے۔۔۔ تمھیں کس میں دلچسپی ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’مجھے Fashion Designing میں۔۔۔ Jewellery Designing میں بھی۔ میری آرٹ فائل میں ہمیشہ Good اور Excellent ملا ہے مجھے۔۔۔‘‘

    ’’تو بس بٹیا۔۔۔ تم تو بہت اچھا job بھی کر سکتی ہو۔ اور Self-employment بھی۔۔۔ Good ملا ہے کیا۔۔۔ مطلب اب نہیں ملتا؟‘‘

    ’’اب میں نے دل لگا کر پڑھا ہی نہیں بہت دن سے۔۔۔‘‘

    ’’مگر اب تو پڑھو گی نا تم۔۔۔ تم فنکار ہو۔۔۔ تم بلکہ ہر Situation میں سے Positive Aspect ڈھونڈ سکتی ہو۔۔۔ ذرا سی کوشش کرنا ہے۔ ایک ہی تو زندگی ملتی ہے انسان کو۔۔۔ ایک ہی تو موقع ملتا ہے خود کو Prove کرنے کا، ہے نا۔‘‘

    ’’ہاں جی آنٹی۔۔۔ میں فیشن ڈیزائننگ میں ڈپلومہ کر کے اپنا Boutique کھولوں گی۔۔۔ میں نے یہی سوچا تھا۔ اس کے لیے باہر جاؤں گی۔۔۔‘‘

    ’’یہاں بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔ دور کیوں جاؤ گی اپنے Parents سے۔۔۔ ڈگری کہیں کی بھی ہو، Success تمہاری Creativity پر Depend کرتی ہے۔۔۔ تمہاری اپنی محنت پر۔۔۔ ہے نا۔۔۔‘‘

    ’’یہاں رہوں گی تو مجھے عمران کی یاد آتی رہےگی۔ کچھ نہیں کر پاؤں گی۔ اس ماحول سے دور جاکر کچھ کروں گی، کچھ بنوں گی تو پھر عمران میرے پاس لوٹ آئےگا۔‘‘ اس نے نہایت سادگی سے جواب دیا اور ایک لمبی سانس لی۔ ’’ہے نا آنٹی۔‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔۔۔‘‘

    صبیحہ نے ہاری ہوئی اداس آواز میں کہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے