Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مینٹل ہاسپٹل

ریاض توحیدی

مینٹل ہاسپٹل

ریاض توحیدی

MORE BYریاض توحیدی

    آوارہ کتوں کی ہڑبونگ نے بستی میں دہشت پھیلا رکھی تھی۔ یہ کتے کسی بھی گلی، کسی بھی راستے پر بلاخوف انسانوں پر حملہ کر دیتے۔ دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی آدمی ان کی کاٹ سے ضرور زخمی ہو جاتا تھا۔ بچوں کی نفسیات آوارہ کتوں کے خوف سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہو رہی تھی۔ یہ خوف یو نہی نہیں تھا، چونکہ پچھلے کئی برسوں سے درجنوں بچے ان کتوں کے کاٹنے سے مر گئے تھے۔ لوگ میونسپلٹی والوں کو کئی بار اس مصیبت سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ بھی میونسپلٹی کی گاڑی لےکر آ جاتے اور ہاتھ لگے آٹھ دس کتوں کو لے جاکر کسی ویرانے میں ڈال جاتے۔ پھر چند روز کے بعد پکڑ ے گئے کتے دوبارہ بستی میں نمودار ہوتے اور اس انداز سے بستی کا دورہ کر جاتے جیسے کہ کہنہ مشق چور کو پولیس والوں نے چوری کے الزام سے باعزت رہا کیا ہو۔ برف پڑنے کے ساتھ ہی پتہ نہیں اس بےزبان مخلوق کی فطرت پر سردی کا کون سا زہریلا اثر پڑ جاتا اور اکثر کتے پاگل ہو جاتے۔ پاگل ہوتے ہی وہ بلا تفریق بچے بوڑھوں کو کاٹنا شروع کر دیتے۔ بستی کے لوگ ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھاکر ان پر حملہ کر دیتے اور وہ بے زبان چیوں چوں کرتے کرتے جان دے دیتے۔ کئی مرتبہ بستی کے لوگوں نے میونسپلٹی اہلکاروں سے گزار ش کی کہ ان آوارہ کتوں کو مارنے کی کوئی سبیل نکالیں لیکن میونسپلٹی اہلکار انکار کرتے ہوئے کہتے رہتے کہ قانونِ حیوانات کے مطابق کوئی بھی انسان کتے کو مار نہیں سکتا ہے اور اگر کوئی یہ غلطی کر ڈالےگا تو اسے جیل کی ہوا کھانا پڑےگی۔ بستی کے لوگ جدید قانون کے اس انوکھے فیصلے کو سن کر ششدر رہ جاتے کہ انسان آوارہ کتے کو مارےگا تو جیل اور نہ مارےگا تو خود اس کی کاٹ سے مارا جائیگا۔

    لوگ پریشان تھے کہ کریں توکیا کریں۔۔۔! بستی میں ایک دانا بزرگ رہتا تھا جو قدیم اور جدید علوم سے بھی آگاہ تھا۔ اس کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی کا ہر شخص قائل تھا۔ وہ بستی کے مشکل سے مشکل مسئلوں کو اپنی ذہانت کے بل پر آسانی کے ساتھ حل کر دیتا تھا۔ لوگ مجبوراً اس تشویشناک مسئلے کو لے کر اس کے پاس چلے گئے۔ اس نے تمام رودار سن کر لوگوں کے سامنے ایک ایسی تجویز رکھی جس کو سن کر لوگ فوراً مان گئے۔ لوگوں نے بستی سے باہر گھنے جنگل میں ایک بہت بڑی سراے بنا ڈالی۔ یہ سرائے بنانے میں لوگوں کو کوئی خاص دشواری نہیں ہوئی، چونکہ جنگل میں لکڑی وافر مقدار میں موجود تھی اس لئے چند ہی دنوں میں لکڑی کی ایک لمبی چوڑی سراے تیار ہوئی۔ سرائے کا ایک حصہ پاگل ہونے والے کتوں کے لئے رکھا گیا۔ تما م کتوں کو ہانک ہانکا کر نئی جگہ کی طرف دھکیلا گیا۔ سرائے کے نزدیک ایک ندی بہتی تھی۔ بستی کے لوگوں نے ندی کے ساتھ ساتھ سرائے کے ارد گرد ایک بڑی دیوار بھی کھڑی کر دی تاکہ کتے پھر سے بستی کی طرف نہ آ سکیں۔ میونسپلٹی کے اہلکار بھی یہ سن کر خوش ہو گئے کیونکہ ان کی پریشانی دور کرنے کا مناسب حل نکل آیا تھا۔ انہوں نے فراخ دلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے دیپارٹمنٹ سے کتوں کے کھانے پینے کا انتظام کروایا۔ یہ اطلاع جب تحفظ حیوانات کے یورپین این۔ جی۔ اوز کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے حیوان دوستی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے سرائے کے پاس ہی ایک اسپتال بنوایا اور اپنے سوشل ورکر قابل رحم ڈاکٹر س کو وہاں پر تعینات کیا تاکہ وہ ان بے زبانوں کی دیکھ ریکھ کرتے ہوئے ان کے علاج معالجے کا بھی خیال رکھ سکیں۔ بستی کے لوگوں نے بھی راحت کی سانس لی۔ اب نہ کسی آدمی کو کتوں کی کاٹ سے کٹنے کا ڈر تھا اور نہ رات کے وقت نیند میں خلل اندازی کا کوئی اندیشہ تھا کیونکہ نہ کہیں کتا نظر آتا تھا اور نہ کہیں رات کے سایوں میں کسی کتے کے بھونکنے کی بے سر آواز سنائی دیتی تھی۔

    زندگی کا کارواں سبک رفتاری سے چلتا رہا۔ این۔ جی۔ اوز کی کوئی نہ کوئی ٹیم کسی نہ کسی دن گاڑی میں سوار ہوکر بستی سے گزرتی ہوئی سرائے کی طرف چلی جاتی۔ اسپتال کا تعیناتی عملہ چھوٹے چھوٹے پِلّوں کو دن بھر نہلا تا دھلاتا اور انہیں قسم قسم کے بسکٹس کھلاتا رہتا۔ بستی کے جو لوگ جنگل میں بھیڑ بکریوں کے ساتھ ہوتے تھے، وہ ان انگریزوں کی حیوان دوستی پر پہلے پہلے حیران پڑ جاتے لیکن آہستہ آہستہ اس حیرانی نے متاثر ہونے کا اثر شروع کر دیا۔ وہ جب شام کے وقت کسی جگہ اکٹھا ہو جاتے تو غیر شعوری طور پر دوسرے لوگوں کو بھی انگریز وں کے طور طریقوں سے آگاہ کرتے رہتے۔ اب اگر بستی کا کوئی فرد بیمار ہو جاتا تو این۔ جی۔ اوز کے اہلکار اس کا مفت علاج کراتے رہتے۔ لوگوں کو ان کے یہ کام پسند آنے لگے۔ لوگوں کی پسند کو دیکھ کر این۔ جی۔ اوز نے پہلے بستی کے اندر ایک چھوٹا موٹا اسپتال کھولا جہاں پر مفت علاج کی سہولت دستیاب رکھی گئی۔ اس کے بعد لوگوں کی رضامندی سے ایک انگریز ی اسکول بھی کھولا گیا۔ دھیرے دھیرے بستی کے اندر انگریزی اسکول کا چرچا ہونے لگا۔ بستی کے تعلیم یافتہ افراد نے جب اس نئے اسکول میں اپنے بچوں کو فخر کے ساتھ ایڈمیشن کروایا تو بستی کے ان پڑھ افراد بھی اپنے بچوں کو جدید تعلیم دلوانے کے لئے اسکول کی طرف رجوع کرنے لگے۔ این۔ جی۔ اوز نے بستی کے اقتصادی طور پسماندہ بچوں کے لئے مفت تعلیم دینے کا اعلان کروایا۔ اب بستی کے بیشتر بچے انگریزی اسکول میں تعلیم پانے لگے۔ بستی کے دانا بزرگ نے کئی مرتبہ بستی کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنے بچوں کو ضرور جدید تعلیم دینے کی کوشش کرو لیکن ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم سے بھی روشناس کراؤ اور اس انگریزی اسکول کے بدلے اپناایک اچھا اسکول کھولو جہاں پر جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم کا بھی انتظام ہونا چاہئے تاکہ ہماری نئی نسل پڑھ لکھ کر انسانی خصائل سے بھی آراستہ ہو۔

    وقت کی تیز رفتاری انسانی سوچ کو تیز رفتار بنا دیتی ہے۔ تیز رفتار تیز رفتار گھوڑے کو جب اچانک ٹھوکر لگتی ہے تو وہ ایسے زمین پر دھڑام سے گر جاتا ہے کہ پھر وہ منزل کی طرف آہستہ آہستہ چلنے کے قابل بھی نہیں رہتا ہے۔ بستی کے دانا بزرگ کی حکمت آمیز باتوں کی طرف لوگوں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ کوئی انہیں فرسودہ خیالات کہہ کے رد کر تا رہا اور کوئی انہیں جدید زمانے کی تیز رفتار ترقی میں رُکاوٹ کا مشورہ سمجھ بیٹھتا۔ دانا بزرگ نہ قدیم خیالات کی وکالت کر رہا تھا نہ جدید تعلیم سے بیزار تھا، وہ صرف انسانی قدروں کی پاسداری چاہتا تھا تاکہ انسان، انسان کی طرح زندگی گزار سکے۔ وہ خود انگریزی دنیا کا مشاہدہ کر چکا تھا۔ وہ ان کے ڈسپلن، فکر و تدبر، تعلیم وتربیت اور ترقی کے طور طریقوں کو پسند یدہ نظروں سے دیکھتا تھا اور اپنے لوگوں میں یہ خصائل دیکھنے کا خواہشمند تھا لیکن اسے اگر نفرت تھی تو انگریزوں کی مصنوعی سوچ سے، مادیت پرستی اور ان کی مکارانہ فکر سے۔ اس کے ذہن میں حکیم الاّمت علامہ اقبالؔ کا انگریزوں کی فطرت پر فرمایا ہوا یہ پرحکمت مصرع ہمیشہ رہتا تھا۔

    ’’پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات ‘‘

    بستی کے لوگ انگریزی اسکول کی صاف ستھرائی، ڈسپلن، تعلیم اور بول چال سے متاثر ہوتے رہے۔ یہ چیزیں یقیناًقابل ستائش تھیں کیونکہ انسان کو صاف ستھرائی، ڈسپلن اور تعلیم کے نور سے ضرور آراستہ ہونا چاہئے۔ بستی کے اکثر بچے انگریزی اسکول میں تعلیم پاتے رہے۔ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھاتے رہے۔ سمیناروں میں حصّہ لے کر بڑے بولڈ بنتے گئے۔ ہائر ایجوکیشن کے لئے انہیں مغربی ممالک بھیجا گیا۔ وہ بڑی بڑی ڈگریاں لے کر واپس آتے گئے۔ بستی کے قدیم ماحول میں جدید ہوائیں چلنے لگیں۔ بستی کے بیشتر گھرانوں میں جدید سہولیات کی تمام چیزیں پہنچ گئیں۔ گھر گھر میں ڈش ٹی وی، انٹر نیٹ اور موبائیل کی دُھنیں بجنے لگیں۔ صبح کے وقت اخلاقیات کی کتابوں کے بجائے انٹر نیٹ اور ڈش ٹی وی کے فحاش مناظر کی طرف ذہن راغب ہوتے گئے۔ اب اسپتالوں میں خراب گردے کے ساتھ ساتھ اچھے گردے بھی غائب ہونے لگے۔ دفتروں میں انسانوں کے نوکیلے دانتوں سے لوگ زخمی ہونے لگے۔ رات کے وقت گلی کوچوں میں نشہ آور حیوان شکار کی تاک میں آنکھیں پھارڈ پھارڈ کر گھومنے لگے۔ باحیاء عورتوں کا گھر سے نکلنا دو بھر ہو گیا۔ نئی نسل کے ذہنوں پر صرف مادیت کا بھوت سوار تھا۔ دنیوی زندگی کو حتمی زندگی سمجھنے کا تصور پھیل چکا تھا اور آخر ت کی زندگی کو دیوانے کا خواب کہہ کر رد کیا جا رہا تھا۔ انسانی رشتوں کا تصور ختم ہونے لگا۔ نیکی اور بدی کے درمیان کوئی فرق نہ رہا۔ عبادت گاہوں کی طرف چند بزرگ کمر جھکا ئے ہوئے جاتے نظر آ رہے تھے۔ ہر طرف آپا دھاپی کا عالم تھا۔

    نئی نسل کی طوفانی زندگی کے زہریلے تھپیڑوں سے بزرگوں کے دل دہلنے لگے۔ نئی نسل کی دین بیزاری، بےراہ روی، خودغرضی اور سانپوں والی فطرت سے خوف زدہ ہوکر بستی کے بزرگوں نے جب احتجاج کرنا چاہا تو انہیں یہ سن کر اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا کہ انہوں نے آنکھیں بند کرکے جن بچوں کو مغربیتکی سونامی میں پھینکا تھا وہ آج طوفان بن کر انہیں اپنے ہی گھروں سے بے گھر کرکے برسوں پرانی بنائی ہوئی کتوں کی سرائے کو اولڈ ایج ہوم (Old Age Home) بنانے کا اعزاز دے کر بےیار و مددگار بھیجنا چاہتے ہیں۔

    بستی کے لوگ بظاہر خوشحال دکھائی دے رہے تھے لیکن ان کے دل اندر ہی اندر ٹوٹ چکے تھے۔ سماج میں مادی چیزوں کی فراوانی کے باوجود روحانی سکون کا جنازہ نکل چکا تھا۔ بزرگ اس طوفان سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔ بہت ساری ترکیبیں جب ناکام ثابت ہوئیں تو وہ بالآخر لاچار ہوکر بڑی شرمندگی کے ساتھ بستی کے دانا بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔بزرگ نماز پڑھنے کے بعد ان کی طرف متوجہ ہوا۔ ان لوگوں کی دردناک داستان سُنتے ہی وہ آنکھیں بند کرکے برسوں پہلے کے اس دہشت ناک حادثہ میں کھو گیا جب بستی کے اندر آوارہ کتوں نے ہڑبونگ مچا رکھی تھی اور کسی بھی راہ چلتے انسان کو اپنے نوکیلے دانتوں سے کاٹ کھاتے تھے۔

    تمام لوگ دانا بزرگ کے حکمت بھرے خیالات سننے کے لئے بے تاب ہو رہے تھے۔ لوگوں کے چہرے پر خوف کی ہوائیں اڑ رہی تھیں۔ بزرگ نے آنکھیں کھولتے ہوئے ان لوگوں کے سامنے ایک حکمت بھری تجویز رکھی اور انہیں اس تجویز پر جلد عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے رخصت کر دیا۔

    لوگوں کے ذہنوں میں انتشار کے بجائے سکون نے جگہ پائی او ران کے دلوں میں وسواس کے بجائے یقین کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔ صبح ہوتے ہی لوگ کالے لباس میں سفید جھنڈے اٹھاتے ہوئے انگریزی اسکول کی طرف طوفان بن کر دوڑ پڑے۔ این۔ جی۔ اوز کے تمام اہلکار راتوں رات بھاگ گئے تھے۔ اسکول کے اوپر سبز جھنڈا چڑھا یا گیا۔ انگریزی تہذیب کی پرور وہ نسل خوف زدہ ہو کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگی۔ انہیں مشرقی تہذیب کی دلدادہ نسل نے رسیوں سے باندھ کر سرائے کی طرف گھسیٹا، پھاٹک کھولتے ہی بند سرائے کے کتے بستی کی جانب دوڑ پڑے۔ سرائے کے اوپر ایک بہت بڑا بورڈ لٹکا یا گیا جس پر جَلی حروف سے لکھا ہوا تھا۔۔۔ مینٹل ہاسپٹل۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے