یونیورسٹی ہوسٹل کے میرے اس کمرے میں اکثر محفلیں جمتی تھیں۔ میرے چند دوست میرے کمرے میں آ جاتے تھے اور ارادی یا غیر ارادی طور پر کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہو جاتا تھا۔ یونیورسٹی اپنے ڈبیٹ کلچر کے لئے مشہور تھی۔ یہاں کا ہر ایک طالب علم اپنے آپ کو دانشور تصوّر کرتا تھا۔ کینٹین، ڈپارٹمینٹ، کلاس یا سمینار روم کے علاوہ ہاسٹل کے کمرے بھی اس کے گواہ تھے۔
میرے کمرے میں جب اس طرح کا ما حول ہوتا تو میں زیادہ تر سامع کا کردار ادا کرتا تھا، میں بہت کم گو ہوں۔ بہت ضروری لگتا یا اندر سے بے
چینی ہوتی تو کبھی کبھی اپنے خیالات کا اظہار بھی کر دیتا تھا۔ آج بھی سیاسی گفتگو کا آغاز جس نقطے سے ہوا تھا، وہ آگے جا کر زمانہء قدیم کی تہذیب و ثقافت تک پہنچ چکا تھا۔ اچانک بجلی گل ہو گئی۔ کچھ دیر تو ہم بجلی گل ہو جانے کے مدعے کے سہارے عہدِ حاضر کے زوال امادہ تہذیب کا نو حہ کرتے رہے۔ بعدِازاں جب گرمی نے پریشان کرنا شروع کیا تو ہم سب کمرے سے باہر نکل آئے۔
اس وقت ہم پانچ دوست تھے، ہاسٹل سے باہر جاکر چائے پینے کا ارادہ ہوا۔ مگر راشد کے کہنے پر”چلو یاروں، چھت پر چلتے ہیں۔“
ہم سب چھت پر چلے آئے۔ چھت کا موسم کمرے کے مقابلے قدرِخوشگوار تھا۔ سورج پوری طرح نہیں ڈھلا تھا، مگر دھوپ میں شدّت باقی نہ تھی۔ وہ چھت کی دیواروں کو چھوتی ہوئی نہایت آہستگی سے اپنے طے شدہ مقام کی جانب گامزن تھی۔ ہوا جسم کے پسینے سے ٹکرا کر لطف دے رہی تھی۔ چند اور لڑکے بھی وہاں موجود تھے۔
دو لڑکے ایک طرف کی دیوار سے چپکے ہوئے نیچے جھانک رہے تھے۔ وہ کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔ مجھے بحث بے معنی مگر دلچسپ معلوم ہوئی۔ ان کی بحث تھی کہ سیکنڈ فلور کی بائیں ہاتھ والی کھڑکی اس کے روم کی ہے، مگر اس کے ساتھی کا کہنا تھا کہ یہ کمرہ تیرا نہیں ہے، تجھے دِشا بھرم ہوا ہے، تیرا کمرہ ادھر کی طرف ہے۔
ہم سب ان کی بحث میں شامل ہو گئے۔ اچانک مجھے بھی خواہش ہوئی کہ میں بھی پتہ لگاؤں کہ میرہ کمرہ کدھر ہے، میرے کمرے کی کھڑکی کونسی ہے۔
میں اپنے اندازے کے مطابق ایک طرف کی دیوار کی جانب جھانکنے لگا۔ تب ہی اختر بھائی میرے پاس آئے اور بولے۔۔۔ ”آپ بھی اپنے کمرے کی لوکیشن جاننے کی کوشش کر رہے ہیں؟“
میں نے بے وجہ کی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ ”جی،۔۔۔ میں نے سوچا، دیکھوں کہ میری۔۔۔“
میں نے اپنی بات مکمّل بھی نہ کی تھی کہ انھوں نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔۔۔ ”ارے تو بھائی، ادھر کاہے کو دیکھ رہے ہیں۔“ انھوں نے دوسری طرف اشارہ کیا۔۔۔ ”ادھر کو آؤ نہ بھئی۔۔۔ ادھر ہوگا آپ کا کمرہ“
ہم دونوں ادھر گئے۔ مجھے لگا، ہم بھی دشا بھرم کا شکار ہیں۔ میں نے کہا۔۔۔ ”ادھر کہاں اختر بھائی، ادھر نہیں، ادھر ہی ہوگا۔“
فیروز ہنستے ہوئے بولا۔۔۔ ”ارے بھئی، اگر چھت سے کھڑکی یا دوسرا کوئی لینڈ مارک نظر بھی آ جائے گا تو کیا ہوگا۔۔۔ آ پ بھی بچّوں کی طرح بات کرتے ہیں۔“
میں اپنی جھینپ مٹانے کے لئے کوئی بہانہ تلاش کر ہی رہا تھا کہ سمیع بول پڑا۔۔۔ ”لگتا ہے ذاکر بھائی کا کام مکمّل ہو چکا ہے۔ پی ایچ ڈی جمع کرنے والے ہیں، جب ہی تو۔۔۔“
ان سب نے میری بات کو مذاق کا موضوع بنا لیا تو میں معصوم سا منھ بنا کر بولا۔۔۔ ”یار، بس یوں ہی۔۔۔ ویسے میرے دو چیپٹر ابھی باقی ہیں۔“
پھر ہم سب اپنی اپنی پی ایچ ڈی کے تعلق سے باتیں کرنے لگے۔
اسی درمیاں بجلی آ گئی۔۔۔ ہم سب نیچے آ کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
میں اپنے کمرے میں داخل ہوا اور موبائل میز پر رکھ کر کمرے کی کھڑکی سے باہر گردن نکال کر اوپر کی طرف دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں یہ سمجھنا چاہتا تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے چھت پر میں جس رخ سے اپنے کمرے کو تلاش کر رہا تھا، کیا وہ درست تھا۔ میں نے کھڑکی باہر گردن نکالے ہوئے ہی دائیں، بائیں، اوپر، نیچے دیکھا۔
اب مجھے لگ رہا تھا کہ چھت سے اپنے کمرے کی لوکیشن کو جاننے کے تجسّس نے چھوٹی سی خواہش کا روپ لے لیا تھا۔
میں نے کمرے سے نکل کر پھر تالا لگایا اور چھت پر چلا آیا۔
میں اپنے اندازے کے مطابق چھت کی اس دیوار کی جانب پورے یقین کے ساتھ لپکا کہ میرا کمرا اسی رک پر ہے۔ میں نے نیچے جھانکا اور دوسرے فلور کی کھڑکیوں کا بغور جائزہ لیا۔ ایک کھڑکی پر میری نگاہ ٹھہر گئی۔۔۔ ”یہی ہے میرا کمرا“۔ ہلکی سی خوشی کا احساس ہوا مگر دوسرے ہی لمحے وہ معدوم ہو گیا، کیونکہ نیم کے پیر کی ایک شاخ اس کھڑکی کے پٹ کو چھو رہی تھی، جبکہ کمرے کے آگے جو پیر تھا، وہ نیم کا نہیں تھا۔
میں چھت کی باقی دونوں دیواروں کی جانب بھی غور کیا مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ معمولی مایوسی کے ساتھ نیچے چلا آیا۔ کمرے کا دروازہ کھولا اور کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔ چند لمحوں بعد پانی کی بوتل اٹھائی۔ پانی کو پیتے ہوئے مسکرانے لگااور خیال گزرا، آخر کیوں، مجھے یہ خوہش ہو رہی ہے کہ میں اپنے چھت سے اپنے کمرے کی شناخت کروں، ہے تو میری ہی کمرہ۔ کیوں بچّوں کی طرح مچل رہا ہوں۔ پھر میں بدبداتے ہوئے اپنے آپ سے کہنے لگا۔۔۔ ”ارے یار، اگر چھت سے تیرا کمرہ نظر ا ٓ جائے گا، کھڑکی دکھ جائے گی تو کیا بدلاؤ آ جائے گا تیری زندگی میں؟
کیا جلد ہی تجھے نوکری مل جائے گی؟کیا کسی حسین لڑکی سے تیرا تعلق ہو جائے گا یا پھر گھر کی زمین جائیداد کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟
نہیں۔۔۔ میں نے نفی میں سر خود ہی ہلا دیا۔
پھر۔۔۔ اس سے پہلے میں خود کو جواب دوں۔۔۔ میں غیر ارادی طور پر اٹھا، ایسے جیسا میرا جسم اور میرا دماغ دونوں الگ الگ کام کر رہے ہوں۔ میں نے کمرے کا تالا لگایا اور چھت پر آ گیا۔
میں حساب لگانے لگا کی میرا کمرہ ہوسٹل کی دونوں ونگ میں سے کس سمت میں ہے۔ اب بھی میں دشا بھرم کا شکار تھا۔ مگر میں اس وقت کسی ضدّی بچّے کی طرح ا س بات کے پیچھے پڑ چکا تھا کہ میرا کمرہ کس رخ پر ہے؟
میں پھر ایک دیوار کے قریب نیچے جھانکنے لگا۔ تینو ں طرف گھنے جھاڑی دار درخت تھے۔ چار منزلہ اس ہوسٹل میں مجھے اپنا کمرہ نہیں مل رہا تھا۔ اب مجھے کسی نمعلوم نے چینی نے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
میں پھر نیچے آیا اور کمرہ کھول کر بیٹھ گیا۔ پانی پیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ تب ہی ایک ترکیب سوجھی۔
میں نے ایک پرانی پانی کی بوتل اٹھا کر پیچھے کی طرف کھل رہی اس کھڑکی میں نیچے پھینک دی۔
میں تیزی سے اوپر آیا۔ اور تینوں دشاؤں میں دوڑ دوڑ کر اس بوتل کو تلاش کرنے لگا، اس درمیاں میں کئی بار چھت پر بھکرے ہوئے انٹر نیٹ کے تاروں میں الجھ کر گرتے گرتے بچا کیوں کی اب شام گہری ہونے لگی تھی اور اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔
اسی وقت اچانک میری نگاہ اس بوتل پر گئی، جسے میں نے پہچان کے طور پر پھینکا تھا۔ میں نے حساب لگایا، بوتل گراؤنڈ فلور والی کھڑکی کی نیچے ہے، اس لحاظ سے اس ایکدم اوپر والی فرسٹ فلور والی کھڑکی میرے کمرے کی ہوئی۔ تو یہی ہے یہی ہے میرا کمرہ۔ میں خوش ہو گیا۔ آخر میں نے واسکوڈی گاما کی طرح اپنا کمرہ تلاش کر ہی لیا تھا۔ میں نے قدرِ سکون کا سانس لیا۔۔۔ ”یہ میرہ کمرہ ہے۔“
میں نیچے اپنے کمرے میں چلا آیا۔
میں کمرے میں آکر کھڑکی، اور کھڑکی کے نیچے پھینکی بوتل اور کمرے کو ایسے دیکھنے لگا جیسے میں نے اپنی پی ایچ ڈی ہی مکّمل نہیں کر لی ہو بلکہ، میں نوکری بھی حاصل کر چکا ہوں۔
میں نہایت اطمنان سے بیٹھ گیا۔ سوچا اب کچھ کام کرلوں۔ میں نے اپنا لیپ ٹوپ آن کیا۔ مجھے کام کرتے کچھ ہی دیر ہوئی ہوگی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
میں نے دروازہ کھولا۔ ایک اجنبی شخص کھڑا ہوا تھا۔
میں نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔۔۔ ”جی کہئے۔۔۔“
”سور ی آپ کو ڈسٹرب کیا۔۔۔ کئی سال پہلے میں اس کمرے میں رہتا تھا، ایک کام سے یونیورسٹی آیا تھا تو۔۔۔ یہ میرہ کمرہ تھا۔“
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.