میرے والد صاحب
میں انہیں سب گھر والوں کی طرح چاچا کہتا تھا۔ حالاں کہ ان سے میرا خون کا رشتہ تھا۔ چوں کہ میرے والد اور تایا ایک ساتھ رہا کرتے تھے اور والد صاحب کو تایا ابا کی اولادیں چاچا کہا کرتی تھیں۔ چنانچہ جب سب سے بڑی بہن کی ولادت ہوئی تو انہوں نے بھی والد کو تایا زاد بہن بھائیوں کی طرح چاچا بولنا سیکھا۔ پھر یہ لفظ ایسا زبان پر چڑھا کہ ان کی زندگی کی آخری شب تک ہم سب انہیں چاچا ہی کہتے رہے۔ میرے پاس ان کی یادوں کے بے پناہ ذخائر ہیں۔ وہ کیسے تھے، کیسے رہتے تھے، کس طرح گفتگو کرتے ، کیا پہنتے ، اورلوگوں سے کس طرح پیش آتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام باتیں میرے مشاہدے میں آج بھی موجود ہیں۔ آخر وہ میرے والد تھے۔
ان کی شخصیت کے بارے میں جو بات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، وہ ان کے ظاہری اور باطنی کردار میں مکمل یکسانیت ہے۔ وہ جیسے باہر سے دکھائی دیتے ویسے ہی اندر سے نظر آتے تھے۔ وہ بلاشبہ سادگی کی بہترین مثال تھے۔ میں نے زندگی کے کسی بھی معاملے میں ان کی شخصیت میں دہرا پن نہیں دیکھا۔ ان کی ضروریات نہایت محدود تھیں۔ جب میں پیدا ہوا تب سے اپنی عمر کے بیسویں برس تک میں نے انہیں سفید شلوار قمیص کے علاوہ کسی بھی دوسرے رنگ کے لباس میں نہیں دیکھا تھا۔ ہاں بعد میں بھائی اپنی مرضی سے ان کے لیے ہلکے رنگوں کے کپڑے بنوانے لگے۔ لیکن انہوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ جوڑوں کی تعداد تین چار سے کبھی بڑھنے نہیں دی۔ اس میں بھی کوشش یہ کیا کرتے کہ زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ جب کبھی ہم انہیں کہتے کہ چاچا کپڑے بنوالو! تو بڑے ہی ملائم اور شائستہ لہجے میں ہمیں منع کردیتے۔ اورکہتے کہ بیٹا! میرے پاس کپڑے ہیں تو سہی۔ کیا کروں گا بنوا کے۔ سر پر جالیوں والی دھاگے کی سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ پیروں میں ہمیشہ سادہ چپلیں پہنتے۔ سردی، گرمی، برسات وہ کبھی بھی جوتا استعمال نہیں کرتے تھے۔ موسمی تغیّرات کی وجہ سے ان کے پیر جگہ جگہ سے پھٹ جایا کرتے ، تب بھی جوتا استعمال کرنے کا نہ سوچتے۔
وہ بہت عام سے آدمی تھی۔ شخصیت کے اعتبار سے بھی اور شکل و صورت کے اعتبار سے بھی۔ رنگ سیاہی مائل تھا۔ بال سارے سفید تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اپنے بچپن میں ان کے بالوں کو سیاہ دیکھا ہو۔ گھر کے دیگر افراد بتایا کرتے ہیں کہ وہ بہت جلدی بالوں کی رنگت کے معاملے میں بے نیاز ہوگئے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنے بالوں کو کبھی رنگنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کبھی بالوں میں مہندی لگائی ۔ گو کہ ان کا رنگ سیاہی مائل تھا لیکن سفید بالوں اور چہرے پر سنجیدگی اور گفتگو میں شائستگی کی وجہ سے ان کی شخصیت میں انفرادیت پائی جاتی تھی۔ ڈیل ڈول اور قد کے لحاظ سے وہ درمیانے درجے کے تھے۔
ان کی گفتگو کا انداز بہت خوبصورت تھا۔ باتوں سے قطعی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ آپ جناب کا بہت خیال رکھتے۔ عام محفلوں میں بہت کم گفتگو میں حصہ لیتے۔ زندگی کی عام باتوں کے علاوہ مثلاً سیاست وغیرہ ان کے موضوعات میں شامل نہیں تھی۔ چونکہ خود ستھرا ذہن رکھتے تھے، لہذا دوسروں سے بھی وہ یہی توقع رکھتے کہ اچھی اور کم گفتگو ہو۔ جہاں محسوس کرتے کہ موضوع ان سے ذہنی مطابقت نہیں رکھتا، وہ گفتگو سے گریز کرتے۔ اور اگر محسوس کرتے کہ موضوع ان کی سوچ اور خیال سے مطابقت رکھتا ہے تب بھی کوشش کرتے کہ سامنے والا زیادہ بولے اور خود زیادہ سے زیادہ سنیں۔ چھوٹوں کو سمجھانے کا انداز بہت مختلف تھا۔ میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ انہوں نے اپنے شاگردوں کو کام کے بارے میں کچھ سمجھایا ہو اور لہجہ تیز استعمال کیا ہو۔ بہت نرم اور آہستہ آہستہ سمجھاتے ان کی نرم گفتاری کا اثر غیر لوگوں پر بھی بہت ہوتا تھا۔ کوئی بھی شخص ان سے ایک مرتبہ مل کے ان کی شائستگی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتا تھا۔
وہ اپنی بیٹیوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ جس آدمی کی مسلسل چھ بیٹیاں ہوں اور ایک بھی بیٹا نہ ہو وہ کئی لحاظ سے متنفر ہوجاتا ہے۔ ایک طرف گھر میں غربت ہو، زندگی کی آسائیش میسر نہ ہو۔ اولاد کو تعلیم یافتہ بنانے میں بھی دشواری ہو۔ چھوٹا سا گھر جس میں دو بھائیوں کے گھرانے آباد ہوں۔ جمع پونجی کچھ نہ ہو۔ ایسے شخص سے صبر و شکر کی توقع کم کم ہی کی جاسکتی ہے۔ لیکن والد صاحب میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ والدہ بتاتی ہیں کہ ان کے منہ سے کبھی شکایت نہیں سنی۔ ہاں جب اللہ تعالی کے فضل و کرم سے میرے بڑے بھائی کی ولادت ہوئی تو خوش بھی ہوئے اور اللہ کا شکر بھی ادا کیا۔ دو برس کے بعد میں اور پھر میرے بعد میری چھوٹی بہن پیدا ہوئی۔ ساٹھ کی دہائی میں پانچویں بیٹی کا انتقال ہوگیا ، اس طرح کل چھ بیٹیاں اور دو بیٹے رہ گئے تھے۔ گھر کی غربت اور پریشانیوں کے سبب وہ بیٹیوں کی تعلیم تو جاری نہ رکھ سکے البتہ بیٹوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر بھی پڑھایا۔ ان تمام باتوں کے باوجود اپنی بیٹیوں سے پیار کے معاملے میں وہ بہت جذباتی تھے۔ ہم سب بہن بھائی اپنی والدہ سے تو محبت کرتے ہی ہیں، لیکن والد صاحب پر تو سب جان چھڑکتے تھے۔ کوئی شکایت یافرمائش کرنی ہوتو ان سے ہی کرتے۔ کوئی بات کہنی ہو تو ان سے ہی کہتے تھے۔ ہم ان کی عادت و اطوار کی وجہ سے ان سے بے تکلف ہو کر بات کرلیا کرتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے کبھی بھی ہم پر رعب و دبدبے کا اظہار نہیں کیا تھا۔
جس زمانے میں ہم حیدر آباد کے محلے گاڑی کھاتہ کے علاقے میں رہتے تھے، وہ روز صبح دوڑ لگایا کرتے ۔ یہی ان کی ورزش ہوا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے برسوں بعد تک اس علاقے کے بیشتر مکانوں میں پانی کی لائنیں نہیں تھیں۔ چنانچہ والد صاحب علی الصبح اٹھ کر بڑے بڑے ڈرموں کی مدد سے پانی بھر کے لایا کرتے، تاکہ سارا دن اسے استعمال کیا جاسکے۔ اس کے بعد لکڑی کی ٹال سے لکڑی لاتے۔ پھر تیار ہوکر ناشتہ کرتے اور پیدل دکان جایا کرتے جو کہ تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر تلک چاڑی کے علاقے میں تھی۔ شام کو وہ پیدل ہی دکان سے گھر آیا کرتے ۔ تب گاڑیوں، رکشاؤں، یا بسوں کا حیدرآباد میں رواج نہیں تھا۔ بلکہ تانگے چلا کرتے تھے۔ لیکن وہ تانگوں سے زیادہ پیدل چلنے کو ترجیح دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ تازہ دم اور چاک و چوبند دکھائی دیا کرتے تھے۔ جمعے کا دن آرام کا دن ہوتا ہے لیکن وہ اس دن گھر میں کام کیا کرتے۔ ہمارے پڑوسی قاضی حفیظ اللہ ایڈووکیٹ اور سامنے والے یاسین صاحب کے ہاں کے کپڑے اکثر سلنے آتے رہتے تھے۔ جنہیں والد صاحب جمعہ کے فارغ دن بیٹھ کر بنایا کرتے۔ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا بہت احساس تھا۔ میں اور بھائی اس زمانے میں بہت چھوٹے تھے۔ گھر کی ساری ذمہ داریاں ان کے اکیلے کاندھوں پر تھیں۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ انہیں اکیلے ہی اپنی بیٹیوں کی شادی کا فرض پورا کرنا ہے۔ جب تک میں اور بھائی ملازمت کے قابل ہوئے وہ اپنی پانچ بڑی بیٹیوں کی شادی کرچکے تھے۔ میں جب ماضی کی طرف نگاہ ڈالتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ انہوں نے گھر چلانے اور بیٹیوں کے لیے پس انداز کرنے کے لیے کس قدر محنت اور جدوجہد کی ہوگی۔
والدہ بتاتی ہیں کہ ۱۹۶۰ء میں میری پیدائش سے پہلے والد صاحب سگریٹ نہیں پیا کرتے تھے۔ لیکن بعد میں انہیں گیس کا مرض لاحق ہوگیا ۔ بہت علاج کروایا لیکن گیس کی شکایت انہیں اکثر رہنے لگی تھی۔ چنانچہ بعض لوگوں کے کہنے سے انہوں نے سگریٹ پینی شروع کی۔ وہ کوٹ پینٹ کے بہت اچھے کاریگر تھے۔ ان کے پاس اکثر کوٹ سلنے آتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے پاس کوئلے کی استری ہر وقت دھکتی رہتی تھی۔ جب انہیں سگریٹ کی طلب ہوتی استری کھولتے اور سگریٹ سلگایا کرتے۔ بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی گئی۔ اور کوئلے کی استری کی جگہ بجلی کی استری نے لے لی۔ چنانچہ انہوں نے سگریٹ جلانے کے لیے ماچس کا استعمال شروع کردیا۔ برسوں انہیں ہم نے صرف قینچتی برانڈ سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا۔ وہ یہی سگریٹ ہی کیوں پیتے تھے اس کی وجہ معلوم نہیں شاید وجہ یہ ہو کہ وہ جس کام کے ہنرمند تھے، اس کے اوزاروں میں قینچی بھی خاص درجہ رکھتی ہے۔
۱۹۷۴ء میں جب ہم اور تایا ابا کے گھر حیدرآباد سے لطیف آباد منتقل ہوئے تو وہ زیادہ خوش نہیں تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لطیف آباد میں مکان خریدا جائے۔ لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ اب اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں، اسی لیے انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس زمانے میں بھائی کسی حد تک کام سیکھ چکے تھے۔ جب لطیف آباد میں ذاتی دکان کھولی تو بھائی نے والد صاحب کے ساتھ مل کر اسے ترقی دی۔ والد صاحب کی عمر جیسے جیسے ڈھلتی چلی گئی انہوں نے دوکان کے معاملات کو بھائی کے سپرد کرنا شروع کردیا۔ ان کی آنکھیں کمزور ہوچلی تھیں۔ عینک تو وہ بہت عرصے سے لگایا کرتے تھے، لیکن انتقال سے چا رپانچ برس پہلے تو انہیں بہت کم نظر آتا تھا۔ کئی بار دکان جاتے ہوئے وہ کسی چیز سے ٹھوکر لگ جانے کی وجہ سے یا سڑک پر بارش کا پانی بھر جانے کی وجہ سے گرتے گرتے بھی بچے۔ ایسی حالت میں بھائی نے انہیں دکان آنے سے منع کردیا تھا۔ لیکن وہ شخص جس نے ساری زندگی محنت کی ہو، آخری دم تک کام کرنا چاہتا تھا۔ جب کہ ان دنوں بھائی ان سے کوئی کام نہیں کروایا کرتے تھے۔ البتہ صبح گھر سے دکان آتے، اسے کھولتے اور جب بھائی آجاتے تو گھر کے لیے سودا وغیرہ لیتے ہوے واپس گھر آجاتے۔ دوپہر میں دوبارہ اس وقت دوکان جاتے جب بھائی کوکھانا کھانے کے لیے گھر آنا ہوتا۔
ان کا یہی معمول رہ گیا تھا۔ باقی وقت راحیل اور جنید کے ساتھ مصروف رہتے۔ وہ دونوں بھی ان سے بہت مانوس تھے۔ کوئی کام دادا کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ میرے بچے بھی ان سے بہت پیار کرتے تھے ۔میں حیدرآباد سے دور کراچی میں رہتا تھا، اسی لیے بچے جب بھی حیدرآباد جاتے تو دادا سے لپٹ جاتے ۔ پچھلے دس سالوں میں وہ بھی کئی بار کراچی آئے، لیکن ان کا یہاں دل نہیں لگتا تھا۔ ہمارے ساتھ ایک دو دن گزار کر حیدرآباد جانے کا کہنا شروع کردیتے۔ میں یا عروس انہیں روکتے تو کہتے کہ بیٹا میرے یہاں آنے سے وہاں شہاب الدین پریشان ہورہا ہوگا۔ وہ اکیلا رہ جاتا ہے۔ جب میں ان سے یہ کہتا کہ میں جو یہاں اکیلا رہتا ہوں تو وہ مجھے ،عروس اور بچوں کو ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ بیٹا اس کے بچے میرے بغیر رہ نہیں پاتے۔
وہ آخری وقت تک فارغ نہیں بیٹھنا چاہتے تھے۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہتے تھے۔ جن دنوں میرا مکان زیر تعمیر تھا ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ میرا گھر آکر دیکھیں۔ وہ والدہ سے کہا کرتے تھے کہ میں چند دنوں کے لیے امین الدین کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ اس کا گھر بن رہا ہے، وہ دیکھوں گا۔ لیکن افسوس وہ میرے گھر کو نہ دیکھ سکے۔
نومبر ۸۸ء میں میری بڑی بہن سعیدہ آپا کا انتقال ہوگیا۔ دو دن کے بعد میری پھوپھی جو کہ والد صاحب کی بڑی بہن تھیں بھی انتقال کر گئیں۔ ان اندوہناک اموات نے والد صاحب کو بکھیر کر رکھ دیا۔ ۱۹۷۶ء میں تایا ابا کے انتقال کے بعد والد صاحب کے خونی رشتوں میں صرف وہی ایک بہن بچی تھیں۔ وہ اپہنی بہن کو بہت چاہتے تھے، اور اپنی سب سے بڑی بیٹی کو بھی۔ بلکہ بیٹی کے معاملے میں تو ہم نے یہ دیکھا تھا کہ بہت سے گھریلو اور خاندانی امور یا ایسے معاملات پر جن کا اظہار کسی سے نہیں کرنا چاہتے ہوں، وہ سعیدہ آپا سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ وہ اپنی تکلیف، پریشانی، دکھ، درد سب ان سے کہہ لیا کرتے ۔ گھر سے دکان کے علاوہ اگر وہ کہیں جاتے تو صرف سعیدہ آپا کا گھر ہوتا ۔ یوں بھی سعیدہ آپا جس گھر کی بہو تھیں، وہ کوئی غیر کا گھر نہیں تھا۔ وہ ہمارے تایا ابا کا گھر تھا۔ بتاتے ہیں کہ ہمارے دادا کا انتقال ہمارے والد کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ اس وقت ہمارے تایا ابا جوان تھے۔ لہذا انہوں نے ہی ہمارے والد کو پالا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ والد صاحب تایا ابا کا احترام ایک باپ کی طرح ہی کیا کرتے تھے۔
آخری دنوں میں والد صاحب کو کوئی خاص بیماری نہیں تھی۔ اصل میں بڑھاپا خود ایک بڑی بیماری ہوا کرتا ہے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر لگ بھگ ۷۲ سے ۷۵ برس تک تھی۔ ایسی عمر میں چھوٹی موٹی بیماریاں جان نہیں چھوڑتیں۔ علاج بے اثر ہونے لگتا ہے۔ ہر دوا اپنی تاثیر کھودیتی ہے۔ انتقال سے چند ماہ پہلے تک جب مجھے ان کی بیماری کی اطلاع ملی میں کوشش کرکے انہیں دیکھنے گیا۔ ان دنوں والدہ مجھے بہت کہا کرتیں تھیں کہ بیٹا ہر دس پندرہ دن کے بعد انہیں دیکھنے آجایا کرو، لیکن ایسا صرف چند ایک بار ہی ہوا، اور جس دن وہ اس دنیا سے جارہے تھے۔ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اب ان کا آخری وقت آگیا ہے۔ انہوں نے بھائی سے ہسپتال میں کہا کہ ٹیلی فون کرکے امین الدین کو بلوالو، میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن ان کی تشویشناک حالت دیکھ کر اور ڈاکٹروں کے غیر تسلی بخش جوابات کی وجہ سے بھائی پر جو کیفیت گزررہی تھی، اس میں وہ والد صاحب کی خواہش بھول گئے۔ پھر ۶ مارچ ۱۹۹۱ء کو رات دس بجے وہ ہم سے جدا ہوگئے۔ میں بدنصیب ان سے مل نہ سکا۔ جب مجھے پتہ چلا تو اس وقت ان کے انتقال کو دو گھنٹے گزرچکے تھے۔ اس کے بعد سے آج تک مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتے تھے، کچھ کہنا چاہتے تھے۔ لیکن افسوس کہ میں انہیں نہ دیکھ سکا۔ یہ خلش میرے دل و دماغ میں آج تک بسی ہوئی ہے۔
(۱۹۱۹۱ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.