منرل واٹر
کہانی کی کہانی
منرل واٹر اجنبی لوگوں کے درمیان تعلق کی ایسی نوعیت کو پیش کرتا ہے۔ جس میں جذبات و احساسات کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے زمانے کی تبدیلی نے اپنے تہذیبی رویوں کی اہمیت کو پاش پاش کردیا ہے۔ کہانی میں ایک ڈسپیچ کلرک کو پہلی مرتبہ اے سی ڈبے میں سفر کرنے کا تجربہ ہوتا ہے، جس میں اس کے سامنے والی برتھ پر بورژوا طبقے کی ایک خاتون بھی سفر کررہی ہوتی ہے۔ وہ رات کے کسی پہر اپنے جنسی جذبے کے سبب کلرک سے تعلق قائم کر لیتی ہے۔ اور صبح، زندگی پھر اپنے معمول پر آ جاتی ہے۔
اے سی کیبن میں اس کا پہلا سفر تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ ایسا موقع ہاتھ آگیا تھا ورنہ اس کی حیثیت کا آدمی اے سی کا خواب نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ ایک دواساز کمپنی میں ڈسپیچ کلرک تھا اور اس وقت راجدھانی اکسپریس میں منیجر کی جگہ خود سفر کر رہا تھا۔
اصل میں کمپنی کا ایک معاملہ سپریم کورٹ میں اٹکا ہوا تھا۔ وکیل نے کچھ کاغذات طلب کیے تھے۔ منیجر خود جانا چاہتا تھا لیکن ایک دن پہلے وہ اچانک بیمار پڑ گیا تھا۔ کاغذات اہم تھے جن کا وکیل تک پہنچنا ضروری تھا۔ منیجر نے یہ ذمہ داری اس کو سونپ دی تھی اور اپنے نام کا ٹکٹ بھی اس کے حوالے کیا تھا۔ وہ منیجر کا ہم عمر تھا۔ منیجر کے نام پر سفر کرنے میں زیادہ دشواری نہیں تھی۔ راستے کے خرچ کے لیے کمپنی کی طرف سے دو ہزار کی رقم بھی پیشگی ملی تھی۔
اس کو سفر کا زیادہ تجربہ نہیں تھا۔ اس نے دلّی دیکھی تک نہیں تھی۔ اس کی زندگی یوں بھی بہت بندھی ٹکی تھی جیسی عموماً کلرکوں کی ہوتی ہے۔ یہ سوچ کر اس کو گھبراہٹ ہوئی کہ اے۔ سی میں بوژوا طبقے کے لوگ ہوں گے اور اس کے پاس ڈھنگ کے کپڑے بھی نہیں ہیں۔ پھر بھی یہ سوچ کر خوش تھا کہ منیجر نے اس کو معتبر سمجھا اور وہ کمپنی کے کام سے دلّی جا رہا ہے۔
سب سے پہلے اس کو سوٹ کیس کی مرمت کا خیال آیا۔ اس کے پاس ایک پرانا سوٹ کیس تھا جس کی حالت اب خستہ ہوچکی تھی۔ اس نے سوچا نیا سوٹ کیس خریدے لیکن سوٹ کیس مہنگا تھا۔ اس کو ارادہ ترک کرنا پڑا۔ پرانے سوٹ کیس کو ہی جھاڑ پونچھ کر صاف کیا، مرمت کروائی اور نیا تالا لگوایا ۔ کپڑے ہمیشہ اس کی بیوی پریس کرتی تھی۔ اس بار کپڑے لانڈری میں دھلوائے۔
ڈبے میں گھستے ہی اس کو فرحت بخش ٹھنڈک کا احساس ہوا لیکن گھبراہٹ ایک ذرا بڑھ گئی۔ اس کو چھتیس نمبر کی برتھ ملی۔ پردے کے پیچھے سے اس نے کیبن میں جھانکنے کی کوشش کی۔ یہ چار برتھ والا کیبن تھا۔ اوپر کی دونوں برتھیں خالی تھیں اور سامنے ایک خاتون تشریف فرما تھیں۔ وہ جھجکتے ہوئے اندر داخل ہوا اور چاروں طرف طائرانہ سی نظر ڈالی۔ کھڑکی کا پردہ سمٹا ہوا تھا اور خاتون کے بال کھلے ہوئے تھے۔ وہ انڈیا ٹوڈے پڑھنے میں محو تھیں۔ ان کا سامان مختصر تھا۔ ایک چھوٹا سا سوٹ کیس فرش پر رکھا ہوا تھا۔ ایئر بیگ اور وینیٹی بیگ برتھ پر پڑے تھے اور ایک چھوٹا سا تھرمس جو کھڑکی سے لگے ڈیش بورڈ پر رکھا ہوا تھا۔ رسالہ ان کی انگلیوں میں اس طرح دبا تھا کہ انگوٹھی کا نگینہ نمایاں ہورہا تھا۔ ہاتھوں میں طلائی چوڑیاں تھیں، کانوں میں بندے ٹمٹما رہے تھے اور گلے میں سونے کی چین چمک رہی تھی جس کا لاکٹ آنچل میں چھپا ہوا تھا۔ شاید ایمیٹیشن ہو۔۔۔ اس نے سوچا آج کل عورتیں سفر میں زیادہ زیور نہیں پہنتیں۔۔۔ دفعتاً اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ آخرکار وہ خاتون کے بارے میں ہی کیوں سوچنے لگا۔۔۔؟
اچانک رسالہ ان کے ہاتھ سے پھسل کر گر پڑا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھایا تو زلفیں شانوں پر بکھر گئیں اور گلے کا لاکٹ جھول گیا۔ لاکٹ پان کی شکل کا تھا جس پر مینا کاری کی ہوئی تھی۔ خاتون کی انگلیاں لانبی اور مخروطی تھیں اور ان پر عنابی رنگ کا پالش چمک رہا تھا۔ اس نے غورکیا کہ ساری کا رنگ بھی عنابی ہے۔۔۔ یہاں تک کہ چپل کا فیتہ بھی۔۔۔ دفعتاً خاتون نے سر کی جنبش سے بالوں کی لٹ کو پیچھے کیا تو اس کو پینٹین شمپو والی ماڈل یاد آ گئی۔۔۔ اس نے ٹی وی میں دیکھا تھا۔ اس کے بال اسی طرح لمبے اور چمکیلے تھے اور وہ اسی طرح ادائے خاص سے انہیں پیچھے لہراتی تھی۔۔۔ اس کی نظر اپنے سوٹ کیس پر پڑی۔ اس کو لگا سوٹ کیس کا میلا رنگ نئے تالے سے میچ نہیں کر رہا ہے۔ اس کو یاد آیا جب اس نے مرمت کروائی تھی تو سب ٹھیک ٹھاک لگا تھا۔ خاتون کا سوٹ کیس نیا نہیں تھا لیکن اس میں چمک باقی تھی۔ اے سی کیبن کے فرش پر آس پاس رکھے ہوئے دونوں سوٹ کیس طبقے کے فرق کو نمایاں کر رہے تھے۔ پرانے سوٹ کیس کا نیا تا لا اس کی حیثیت کی چغلی کھا رہا تھا۔ اس نے دزدیدہ نگاہوں سے خاتون کی طرف دیکھا اور اپنا سوٹ کیس برتھ کے نیچے کھسکا دیا۔
بیرا منرل واٹر کی دو بوتلیں ڈیش بورڈ پر رکھ گیا تھا۔ خاتون نے اپنے حصے کی بوتل ہینگر پر اوندھا کر رکھ دی، پھر اسنیک اور چائے بھی آئی۔ وہ ایک بسکٹ منہہ میں رکھ کر چبانے لگا۔ خاتوں نے چائے کی پیکٹ کو پیالی میں آہستہ آہستہ ایک دو بار ڈب کیا پھر بسکٹ کا چھوٹا سا ٹکڑا توڑکر منہ میں ڈالا تو اس کو احساس ہوا کہ کھانے کے بھی آداب ہوتے ہیں۔ اس کو لگا وہ دلدّر کی طرح بسکٹ چبا رہا ہے جب کہ خاتون کس سلیقے سے۔۔۔
خاتون اسی بے نیازی سے رسالے کی ورق گردانی میں مصروف تھیں۔ اس دوران انہوں نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ اس کو سگریٹ کی طلب ہوئی۔ کیبن سے نکل کر وہ باتھ روم کے پاس آیا۔ ایک سگریٹ سلگائی اور ہلکے ہلکے کش لینے لگا۔ اچانک خاتون کے لمبے بال اس کی نگاہوں میں لہرا گئے اوراس کو بیوی کی یاد آئی۔۔۔ اس کو کھلے بالوں میں اس نے کم دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ جوڑا باندھ کر رکھتی تھی، صرف غسل کے وقت اس کے بال کھلے رہتے۔ اس کو یاد آیا کہ ان دنوں اس کی بیوی نے صابن کا برانڈ بدلا ہے اور لرل استعمال کر رہی ہے۔۔۔ لرل کا ٹی وی اشتہار اس کی نگاہوں میں گھوم گیا۔۔۔ بکنی پہن کر جھرنے میں نہاتی ہوئی لڑکی۔۔۔ پیڑ کی لتاؤں سے جھولتی ہوئی۔۔۔ ہو ہڑپ کرتی ہوئی۔۔۔وہ آہستہ سے مسکرایا۔۔۔ اس کی بیوی آزادی سے جھرنے میں نہیں نہا سکتی۔۔۔ پیڑ کی لتاؤں سے نہیں جھول سکتی۔۔۔ ہو ہڑپ نہیں کر سکتی۔۔۔ لیکن لرل استعمال کر سکتی ہے۔۔۔ لرل اس کو لڑکی سے جوڑتا ہے۔۔۔ اس طبقے سے جوڑتا ہے جو بورژوا ہے۔۔۔ لرل دونوں میں مشترک ہے۔۔۔ اس طرح وہ اپنے ماحول سے فرار حاصل کرتی ہے جہاں تنگی ہے۔۔۔ روز روزکی کھچ کھچ ہے۔۔۔ لرل اس کے فر ار کا ذریعہ بن جاتا ہے۔۔۔ اپنے تجزیے پر دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے اس نے سگریٹ کا آخری کش لیا اور کیبن میں لوٹ آیا۔
گاڑی رینگنے لگی تھی۔ خاتون نے ایک بار شیشے سے سٹ کرباہر کی طرف دیکھا اور کہنی کے بل نیم دراز ہو گئیں۔ پھر ٹخنے کے قریب ساری کی سلوٹوں کو درست کیا تو پاؤں کے ناخن جھلک گئے۔ ناخن پر عنابی رنگ کا پالش تھا اور بیچ کی انگلی میں بچھیا چمک رہی تھی۔ خاتون کے پاؤں اس کو خوش نما معلوم ہوئے۔ اس کو پھر بیوی کی یاد آ گئی۔ وہ بھی بچھیا پہنتی تھی اور پاؤں میں التا بھی لگاتی تھی، پھر بھی وہ کھردرے معلوم ہوتے تھے۔ اس نے سوچا کہ بورژوا عورتیں جامہ زیب ہوتی ہیں۔ کچھ بھی پہن لیں بھاتا ہے۔۔۔ ساری کتنی خوبصورت ہے اور سلوٹوں کو کس طرح درست کیا۔۔۔ اس کو یاد آیا کہ اس کی بیوی کے پاس ایک مصنوعی سلک کی ساری ہے جسے وہ جوگا جوگا کر رکھتی ہے اور محلے ٹولے میں کہیں جاتی ہے تو وہی ساری پہنتی ہے اور چلتی ہے بطخ کی طرح بھد۔۔۔ بھد۔۔۔ بھد۔۔ اور پیٹی کوٹ کا میلا کنارہ ساری کے پائنچے سے جھانکتا ہے۔ اس کو حیرت ہوئی کہ وہ اس طرح اپنی بیوی کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہے؟ کہاں سے لائےگی وہ کپڑے؟ کپڑا تو گہنا ہے اور گہنا تو سپنا ہے!
گاڑی کسی اسٹیشن پر رکی تھی ۔ پلیٹ فارم کا شور سنائی نہیں دے رہا تھا۔ لوگ خاموش پتلے کی طرح چل پھر رہے تھے۔ اس کے جی میں آیا اپنا پاؤں پھیلائے لیکن اس نے محسوس کیا کہ ایک جھجک مانع ہے اور اس کو حیرت ہوئی کہ وہ ابھی تک سہج کیوں نہیں ہو سکا ہے؟
بیرا کھانے کا پیکٹ دے گیا۔ پیکٹ کھولتے ہی اس کو خیال آیا کہ آہستہ آہستہ کھانا چاہیے۔ اس کو کوفت ہوئی کہ نوالہ چباتے ہوئے اس کے منہہ سے چپڑ چپڑ کی آواز کیوں نکلتی ہے؟ وہ زیرلب مسکرایا۔۔۔ شاید مفلوک الحال آدمی اسی طرح کھانا کھاتا ہے۔۔۔!
کھانے کے بعد اس کو پھر سگریٹ کی طلب ہوئی۔ وہ جھنجھلایا کہ کیبن سے باہر جانا ہوگا۔ وہ اترکر پلیٹ فارم پر آیا ۔ پلیٹ فارم طرح طرح کے شور سے گونج رہا تھا۔ خوانچے والے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ سگریٹ سلگاتے ہوئے اس نے سوچا کہ پلیٹ فارم کا شور ریل کے سفر کا حصہ ہے جس سے اے سی کیبن محروم ہے۔ اے سی میں آزادی جیسے سلب ہو جاتی ہے۔ سگریٹ نہیں پی سکتے۔۔۔ کھڑکی کالطف نہیں لے سکتے۔۔۔ گاڑی نے سیٹی دی تو اس نے آخری دو تین کش لگائے اور اچانک ڈبے میں گھس گیا۔
بیرا بیڈ رول دے گیا ۔خاتون نے بیڈ لگایا اور تکیے کے سہارے نیم دراز ہو گئیں۔ گاڑی رینگنے لگی تھی ۔اس کی جھجک کچھ کم ہوگئی تھی۔ اس نے بھی اپنا بستر لگایا اور کھڑکی سے ٹیک لگاکر بیٹھ گیا۔
اچانک خاتون نے کروٹ بدلی تو کولھے کے کٹاؤ نمایاں ہو گئے۔۔۔ اور وہ ادھر دیکھے بغیر نہیں رہ سکا۔
زلفیں ایک طرف بکھر گئی تھیں اور پشت کا بالائی حصہ جھلک رہا تھا جہاں بلوز کی نیچی تراش قوسین سابنا رہی تھی اور گردن کے قریب چین کا خفیف سا حصہ کیبن کی دودھیا روشنی میں چمک رہا تھا۔ خاتون کا جسم متناسب تھا۔ کمر کے گرد گوشت کی ہلکی سی تہہ کولھے کے ابھار کو نمایاں کر رہی تھی۔ گاڑی رفتار پکڑ رہی تھی اور وہ کچھ کچھ ہچکولے سا محسوس کر رہا تھا۔ اس کو جھپکی آنے لگی تو اس نے پاؤں پر کمبل ڈالا لیکن لیٹتے ہی جھپکی جیسے غائب ہو گئی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ پھر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
خاتون بھی اٹھ کر بیٹھ گئیں، پھر تھرمس سے پانی نکال کر پیا اور گلاس کو ڈیش بورڈ کے دوسرے کنارے پر رکھ دیا جہاں اس کی منرل واٹر کی بوتل رکھی ہوئی تھی۔ اس کو عجیب لگا۔۔۔ خاتون نے اپنا گلاس وہاں کیوں رکھا، اس کے سامان کے قریب۔۔!
خاتون کا بلوری گلاس منرل واٹر کو قریب قریب چھو رہا تھا اور وہ چہرہ ہتھیلی پر ٹکائے ادھ لیٹی فرش کو تک رہی تھیں۔ گاڑی پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی۔ اچانک پٹری بدلنے کی آواز کیبن میں ابھری۔ شاید گاڑی جنگل سے گذر رہی تھی۔ خاتون نے روشنی گل کر دی۔ کیبن میں ملگجا اندھیرا پھیل گیا اس کو دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔
وہ پھر کیبن سے باہر آیا۔ راہ داری میں سناٹا تھا۔ سبھی کیبن کے پردے کھنچے ہوئے تھے اور روشنی بجھی ہوئی تھی صرف نیلے رنگ کا بلب روشن تھا، ہر طرف خاموشی تھی۔ اس کو پھر سگریٹ کی طلب ہوئی۔ اس نے سگریٹ سلگائی۔ جلدی جلدی دوچار کش لیے اور کیبن میں واپس آیا۔ خاتون نے اپنی برتھ سے لگا پردہ برابر نہیں کیا تھا۔ وہ چاروں خانے چت لیٹی تھیں اور پاؤں پر کمبل ڈال رکھا تھا۔۔۔ان کی آنکھیں بند تھی اور ہاتھ سینے پر بندھے تھے۔
گاڑی کی رفتار اچانک دھیمی ہو گئی۔ کسی اسٹیشن کا آؤٹر تھا ۔گاڑی سیٹی دیتی ہو ئی رک گئی۔ اس نے باہر کی طرف دیکھا۔ دور اکّا دکّا مکان نظر آ رہے تھے جن میں روشنی بہت مدھم تھی۔ پاس ہی برگد کی شاخوں کے درمیان چاند بلور کی چوڑی کی طرح اٹکا ہوا تھا۔ پتّے ہوا میں زور زور سے جھوم رہے تھے۔ اس میں یقیناًسرسراہٹ بھی تھی جو کیبن میں سنائی نہیں دے رہی تھی۔
دفعتاً اس کو محسوس ہوا۔ وہ کسی آسیب کی طرح کیبن میں بیٹھا ہے اور خاتون اس کے وجود سے قطعی غافل ہیں۔ اس کو حیرت ہوئی کہ واقعی خاتون نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔ اس کو لگا خود اس نے اپنے وجود کو کہیں گم کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ اس نے سوٹ کیس برتھ کے نیچے کیوں چھپا دیا۔۔۔؟ اور اگر خا تون کیبن میں نہیں ہوتیں تو کیا یہ بات اس کے ذہن میں آتی کہ بیوی نے صابن کا برانڈ کیوں بدلا ہے۔۔۔ اور مصنوعی سلک میں چلتی ہے بطخ کی طرح۔۔۔ ایک طرح اس نے بیوی کے وجود کی بھی نفی کی۔۔۔ اس کو لگا وہ ایک موہوم سی آگ میں جل رہا ہے۔۔۔ اس نے خاتون کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کے جی میں آیا، ان کو اپنے ہونے کا احساس دلائے لیکن اس کی نظر بلوری گلاس پرپڑی اور وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔۔۔ کیا معنی رکھتا ہے آخر بھری بوتل کے پاس رکھا ہوا بلور کا خالی گلاس۔۔۔!
اچانک خاتون نے آنکھیں کھولیں اور اس کی طرف دیکھا۔۔۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔۔۔ تنہا کیبن کے ملگجے اندھیرے میں پہلی بار خاتون کی نگاہ غلط پڑی تھی۔۔۔ وہ سہرن سی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکا۔۔۔ خاتون اٹھ کر ڈیش بورڈ کے قریب آئیں تو اس کو اور بھی حیرت ہوئی۔ وہ اس کے بہت قریب کھڑی تھیں۔۔۔ یہاں تک کہ وہ ان کے بدن کا لمس صاف محسوس کر رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے تھوڑا کھسک گیا، بوتل سے پانی ڈھال کر پیا اور پھر ایک نظر اس پر ڈالی۔
گاڑی اچانک ہچکولے کے ساتھ چل پڑی۔۔۔ بلوری گلاس بوتل سے چھو گیا۔
خاتون اس پر جھکیں اور وہ جیسے سکتے میں آ گیا۔
خاتون اس کے سینے سے لگی تھی اور اس پر عجیب سا خمار چھارہا تھا۔ لذت کی گراں باری سے اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔۔۔ اس نے ایک بار ادھ کھلی آنکھوں سے خاتون کی طرف دیکھا اور پشت کے اس حصّے کو ایک بار چھوکر محسوس کرنے کی کوشش کی جو بلوز کی نیچی تراش کے درمیان نمایاں تھا۔ خاتون نے بھی ادھ کھلی آنکھوں سے اس کو دیکھا اور ہاتھ پیچھے لے جاکر بلوز کے ہک کھول دیے۔۔۔ لذتوں کے نئے باب اس پر کھل گئے۔۔۔ نشہ اور بڑھ گیا۔ بازوؤں کے شکنجے اور کس گئے۔
اس عالم میں اس نے بار بار آنکھیں کھول کر خاتون کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کو جیسے یقین نہیں تھا کہ ایک بورژوا حسینہ کا تن سیمیں اس کی بانہوں میں مچل رہا ہے۔
اور ایسا ہی تھا۔۔۔ بورژوا خاتون کا مرمریں جسم اس کی بانہوں میں تھا، لب و رخسار کے لمس جادو جگا رہے تھے۔ ہر لمحہ اس کا استعجاب بڑھ رہا تھا۔ یہ لمحہ خود قدرت نے انہیں عطا کیا تھا۔ یہ خالص فطری ملن تھا جس میں ارادے کا کوئی دخل نہیں تھا، دونوں انجان تھے۔ نہ آپس میں گفتگو ہوئی نہ اشارے ہوئے، نہ پاس بیٹھے، نہ ایک دوسرے کو لبھانے کی کوشش کی۔۔۔ بس ایسا ہو گیا۔۔۔ چاند برگد کی شاخوں سے سرک کر اوپر آ گیا اور چاندنی ملگجے اندھیرے میں گھلنے لگی۔۔۔ کیبن کے فرش پر سوٹ کیس کا فرق بےمعنی ہو گیا تھا۔۔۔جبلّت کے فرش پر دو مخالف جنس فرط و انبساط کی بے کراں لہروں میں ڈوب رہے تھے۔ ابھر رہے تھے۔۔۔!
صبح اس کی آنکھ کھلی تو گاڑی دلی پہنچ گئی تھی۔ اس نے مخمور سی انگڑائی لی اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں رات کا خمار باقی تھا اور چہرے پر تازگی تھی۔ خاتون کیبن میں موجود نہیں تھیں۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ ان کاسامان بھی نہیں تھا۔ ڈیش بورڈ پر منرل واٹر کی خالی بوتل رکھی ہوئی تھی۔ اس نے برتھ کے نیچے جھانک کر دیکھا۔ چائے کے خالی کپ لڑھکے پڑے تھے۔
پلیٹ فارم پر اترتے ہی گرم ہوا کے جھونکوں نے اس کا استقبال کیا اور اس کو اچانک سب کچھ خواب سا معلوم ہونے لگا۔ رات کی باتوں کو اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔۔۔ خاتون کے خدو خال مٹتے نقوش سے ابھرے۔۔۔ اس کو اپنا سفر بھی خواب معلوم ہوا۔۔۔ اس کو لگا جیسے وہ دھند میں چلتا ہوا یہاں تک آیا ہے۔۔۔ پھر بھی وہ ایک سرور سا محسوس کر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر پُراسرار سی تمازت تھی۔ اس نے ایک سگریٹ سُلگائی اور سامنے پھیلی بھیڑ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔
’’بچاروں کو کیا پتا کہ وہ رات ایک بورژوا حسینہ سے ہم بستر تھا۔۔۔‘‘
اس کی نظر کتابوں کے اسٹال پر پڑی۔ اس نے انڈیا ٹوڈے کا شمارہ خریدا اور یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ اسی طرح اس کی بیوی لرل صابن خریدتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.