Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصری کی ڈلی

شموئل احمد

مصری کی ڈلی

شموئل احمد

MORE BYشموئل احمد

    راشدہ پر ستارہ زہرہ کا اثر تھا۔۔۔ وہ عثمان کے بوسے لیتی تھی!

    راشدہ کے رخسارملکوتی تھے۔ ہونٹ یاقوتی۔ دانت جڑے جڑے ہم سطح اور ستار ہ زہرہ بُرج حوت میں تھا اور وہ سنبلہ میں پیدا ہوئی تھی۔

    سنبلہ میں قمر آب و تاب کے ساتھ موجود تھا اور راشدہ کے گالوں میں شفق پھولتی تھی۔ آنکھوں میں دھنک کے رنگ لہراتے تھے اور ہونٹوں پر دل آویز مسکراہٹ رقص کرتی تھی اور عثمان کو راشدہ مصری کی ڈلی معلوم ہوتی!

    مصری کی ڈلی عموماً محبوبہ ہوتی ہے لیکن راشدہ ،عثمان کی محبوبہ نہیں تھی۔ وہ عثمان کی بیوی تھی اور اس پر ستار و زہرہ کا۔

    دن بھر فائلوں میں سر کھپانے کے بعد عثمان دفتر سے گھر آتا تو وہ ایک ادا سے مسکراتی۔ گلے میں بانہیں ڈال دیتی اور لب چوم کر کہتی، ’’بہت تھک گئے ہیں؟‘‘ اور عثمان کڑی دھوپ سے چل کر گھنے سائے میں آ جاتا۔ عثمان کی شادی کو اگرچہ بہت دن نہیں ہوئے تھے لیکن راشدہ کی زلفوں کا اسیرتھا۔ راشدہ کی موہنی صورت ہر وقت اس کی نگاہوں میں گھو متی رہتی تھی۔ دفتر کے کاموں میں اپنا ذہن اچھی طرح مرکوز نہیں کر پاتا تھا۔ اس کا دل چاہتا کہ بھاگ کر راشدہ کے پہلو میں سماجائے۔۔۔

    جب کبھی اس کا افسر دورے پر ہوتا تو عثمان کسی نہ کسی بہانے دفتر سے بھاگ کر گھر آجاتا۔ راشدہ مسکراتی اور سرگوشیاں سی کرتی۔

    ’’کیوں جی دل نہیں لگا نہ۔۔۔؟‘‘ اور پھر ہنستی۔ کھِل کھِل کھِل کھِل اور راشدہ اس طرح ہنستی تھی کہ بُلبل بھی نہیں ہنستی ہوگی۔۔۔ اور عثمان جھینپ جاتا۔

    عثمان ان مردوں میں تھا جو نامحرم عورتوں کی طرف دیکھنا بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوا کہ گھر آتے ہی اس نے راشدہ کو بانہوں میں بھر لیا ہو اور ہونٹوں پر ہونٹ ثبت کر دیے ہوں۔ یا باتوں ہی باتوں میں کبھی گالوں میں چٹکی لی کہ میری جان غضب ڈھا رہی ہو!

    جو مرد کبھی نامحرم عورتوں کی طرف نہیں دیکھتے وہ اس طرح اپنی زوجہ سے پیش بھی نہیں آتے لیکن آدمی کے ناخن بھی ہوتے ہیں۔ اس میں جانور کی بھی خصلت ہوتی ہے۔ عثمان کے اندر بھی کوئی جانور ہوگا جو شیر تو یقیناً نہیں تھا۔ بھیڑیا بھی نہیں۔ بندر بھی نہیں۔ خرگوش ہو سکتا ہے۔ بھیڑیا میمنا۔ جس کا تعلق برج حمل سے ہے۔ عثمان کے ہاتھ کھردرے ہوں گے لیکن اس کی گرفت بہت نرم تھی۔ وہ بھنبھوڑتا نہیں تھا۔ وہ راشدہ کو اس طرح چھوتا جیسے کوئی اندھیرے میں بستر ٹٹولتا ہے!

    جنسی فعل کے دوران کوئی شیشہ دیکھےگا تو کیا دیکھے گا؟ جبلّت، اپنی خباثت کے ساتھ موجود ہوگی لیکن عثمان کے ساتھ ایسا نہیں تھا کہ آنکھیں چڑھ گئی ہیں۔ سانسیں تیز تیز چل رہی ہیں۔ یا بازوؤں کے شکنجے کو سخت کیا ہو، دانت بھینچے ہوں اور وہ جو ہوتا ہے کہ انگلیاں گستاخ ہوجاتی ہیں اور زینہ زینہ پشت پر نیچے اترتی ہیں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ وہ اس کے لب و رخسار کو اس طرح سہلاتا جیسے عورتیں رومال سے چہرے کا پاؤڈر پونچھتی ہیں!

    اور راشدہ اپنی کافرانہ دل آویزیوں سے عثمان پر لذتوں کی بارش کرتی۔ کبھی آنکھیں چومتی کبھی لب کبھی رخسار کبھی کان کے لوؤں کو ہونٹو ں میں دباتی اور ہنستی کھِل کھِل کھِل۔ اور اس کی چوڑیاں کھنکتیں۔ پازیب بجتے۔ اور پازیب کی چھن چھن چوڑیوں کی کھن کھن ہنسی کی کھل کھل میں گھل جاتی اور عثمان بے سدھ ہوجاتا۔ ایک دم ساکت۔ تلذذ کی بے کراں لہروں میں ڈوبتا اور ابھرتا۔ اس کی آنکھیں بند رہتیں اور عثمان کو محسوس ہوتا جیسے راشدہ لذتوں سے لبریز جامِ جم ہے ،جو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوا ہے۔

    اور قدرت کے جام جم کو زُحل اپنی کاسنی آنکھوں سے سامنے کی کھڑکی سے تکتا تھا۔ زہرہ پر زُحل کی نظر تھی۔ زحل کائیاں ہوتا ہے۔۔۔ سیاہ فام۔ ہاتھ کھردرے۔ دانت بے ہنگم۔ نظر ترچھی۔ برج جدی کا مالک۔ برج و لو کا مالک۔

    سامنے جو فلیٹ تھا اس کی کھڑکی عثمان کے کمرے کی طرف کھلتی تھی اور وہ نوجوان اکثر وہاں نظر آتا۔ اس کے بال کھڑے کھڑے تھے۔ گھنے سیاہ۔ ہاتھوں کی پشت بالوں سے بھری بھری۔۔۔ سینہ وسیع اور آنکھوں میں زُحل کا کاسنی رنگ۔‘‘

    عثمان نے محسوس کیا کہ نوجوان خواہ مخواہ بھی وہاں کھڑا رہتا ہے۔ کبھی کھڑکی سے لگ کر کوئی کتاب پڑھ رہا ہوتا۔۔۔ کبھی سگریٹ پھونک رہا ہوتا۔ کبھی سلاخوں سے چہرہ ٹکا کر یوں ہی باہر تک رہا ہوتا۔۔۔ اس کا یہ انداز عثمان کو بھدّا لگتا۔

    ایک دن راشدہ بال سنوارتی ہوئی کھڑکی کے قریب کھڑی ہو گئی۔ اچانک اس کے ہونٹوں پر پُراسرار سی مسکراہٹ ابھری۔ عثمان نے لاشعوری طور پر باہر جھانکا۔ نوجوان سلاخیں پکڑے کھڑا تھا۔ عثمان پر نظر پڑتے ہی اوٹ میں ہوگیا۔ راشدہ بھی ہٹ گئی۔ عثمان نے کھڑکی بند کردی۔ اس دن دفتر میں فائلیں الٹتے ہوئے اچانک نوجوان کا چہرہ اس کی نگاہوں میں گھوم گیا۔ عثمان دفتر سے گھر آیا تو اس کی نظر پہلے کھڑکی پر گئی۔ کھڑکی بند تھی لیکن عثمان کو لگا کھڑکی کھلی تھی اور ابھی ابھی بند ہوئی ہے اور بند پٹ بھی جیسے چغلی کھانے لگے۔ عثمان نے دیکھا چٹخنی گری ہوئی تھی۔ اس کو یاد آ گیا وہ چٹخنی چڑھا کر گیا تھا۔ اس نے کھڑکی کھولی اور باہر جھانکا۔ نوجوان سلاخوں سے لگا سگریٹ پھونک رہا تھا۔ عثمان کو دیکھ کر اوٹ میں ہو گیا۔ عثمان کو غصّہ آگیا۔ اس نے زور سے پٹ بند کیے۔ راشدہ مسکرائی۔

    ’’اجی سنتے ہو؟‘‘ اس نے اٹھلاکر اپنی بانہیں عثمان کے گلے میں ڈال دیں۔ عثمان نے اپنے سینے پر اس کی چھاتیوں کا نرم لمس محسوس کیا۔ اس کا غصّہ کم ہونے لگا۔

    ’’آپ کے لیے فرنی بنائی ہے۔‘‘ راشدہ مسکراتی ہوئی بولی اور عثمان کو ایک پل کے لیے عجیب لگا ، راشدہ اکثر فرنی بناتی تھی لیکن اس طرح کبھی ذکر نہیں کرتی تھی۔ عثمان یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ آج ایسی کیا بات ہو گئی کہ۔

    ’’ابھی لائی۔۔۔!‘‘ اور وہ چوکڑی بھرتی ہوئی کچن کی طرف بھاگی تو چوڑیاں کھنکیں اور پازیب بج اٹھے۔ عثمان کو فضا میں ایک نشیلی خوشبو کا احساس ہوا۔

    راشدہ پیالے میں فرنی لے کر آئی۔ عثمان کا غصّہ کافور ہو چکا تھا۔ چمچہ بھر فرنی منہ میں ڈالتے ہوئے مسکرا کر بولا، ’’یہ تو تم روز ہی بناتی ہو۔ پھر آج ایسی خاص بات کیا ہو گئی۔‘‘

    ’’ہے۔۔۔!‘‘ راشدہ پھر اٹھلائی۔

    ’’میں بھی تو سنوں؟‘‘

    ’’فرنی کیسی بنی؟‘‘

    ’’بہت لذیذ۔‘‘

    ’’بتائیے کس چیز کی؟‘‘

    ’’کس چیز کی؟‘‘

    ’’آپ بتائیے۔‘‘

    راشدہ نے اپنے رخسار عثمان کے کاندھے پر ٹکا دیے۔

    ’’دودھ کی۔‘‘

    راشدہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔ اس کے جڑے جڑے ہم سطح دانت نمایاں ہو گئے۔

    ’’دودھ کی تو بنتی ہی ہے اور کیا ڈالا اس میں؟‘‘

    ’’چاول پیس کر۔۔۔‘‘

    ’’اوں ہوں!‘‘ راشدہ نے بہت ادا سے سر ہلایا۔ اس کے کان کے آویزے ہلنے لگے۔

    ’’پھر؟‘‘

    ’’پیاز کی!‘‘

    ’’پیاز کی؟‘‘

    عثمان چونک پڑا۔

    ’’جی جناب۔‘‘

    ’’پتا نہیں چلتا۔‘‘ عثمان کے لہجے میں حیرت تھی۔

    راشدہ نے عثمان کی گردن میں بازو حمائل کیے اور ایک بار آہستہ سے رخسار پر ہونٹوں سے برش کیا۔ عثمان نے سہرن سی محسوس کی لیکن ایسا نہیں ہوا کہ اس نے فرنی کا پیالہ ایک طرف رکھا اور راشدہ کو۔۔۔

    جو مرد نامحرم عورتوں کی طرف نہیں دیکھتے وہ اس طرح اپنی زوجہ سے پیش بھی نہیں آتے۔ یہ کوئی وقت نہیں تھا۔ ابھی رات نہیں ہوئی تھی اور عثمان دفتر سے تھکا ماندہ آیا تھا اور فرنی کھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کمال ہے۔۔۔ فرنی میں پیاز کی بو تک محسوس نہیں ہوتی۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ زہرہ میں زُحل کا رنگ گھلنے لگتا ہے اور پتا نہیں چلتا۔ زُحل، جس کو شنی بھی کہتے ہیں۔ شنی جو شنئے شنئے یعنی دھیرے دھیرے چلتا ہے!

    جب میگھ ناتھ کا جنم ہورہا تھا تو راون نے چاہا کہ لگن سے گیارویں نوگرہ کا سنجوگ ہو لیکن نافرمانی شنی کی سرشت میں ہے۔ سب گرہ اکٹھے ہو گئے لیکن جب بچے کا سر باہر آنے لگا تو شنی نے ایک پاؤں بارویں راشی کی طرف بڑھا دیا۔ راون کی نظر پڑ گئی۔ اس نے مگدر سے پاؤں پر وار کیا۔ تب سے شنی لنگ مار کر چلتا ہے اور ڈھائی سال میں ایک راشی پار کرتا ہے۔

    شنی نے ایک قدم بُرج ثور کی طرف بڑھایا اور دروازے کے مدخل پر پہنچ گیا۔ عثمان کو اس کی ڈھٹائی پر حیرت ہوئی۔

    ’’السلام علیکم۔‘‘

    ’’وعلیکم السلام۔‘‘

    ’’میں سامنے فلیٹ میں رہتا ہوں۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘ عثمان نے سرد مہری دکھائی۔

    ’’آپ کے یہاں دھوبی آتا ہے؟‘‘

    ’’دھوبی؟‘‘عثمان کو غصّہ آنے لگا۔

    ’’جی ہاں۔ ہم لوگ نئے نئے آئے ہیں۔ کچھ نہیں معلوم کہاں کیا ملتا ہے؟‘‘

    ’’یہاں دھوبی نہیں آتا۔‘‘

    ’’دودھ والا تو آتا ہوگا؟‘‘

    ’’عثمان کا غصّہ بڑھنے لگا۔ یہ ایک بہانے سے آیا ہے۔ چاہتا ہے گھر میں کسی طرح آنا جانا ہو۔ عثمان نے دروازہ بند کرنا چاہا۔ راشدہ پردے کی اوٹ سے جھانک کر بولی۔

    ’’کون ہے جی؟‘‘

    پھر نوجوان کو دیکھ کر ہٹ گئی۔ عثمان نے محسوس کیا کہ راشدہ کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ ہے۔ اس نے لڑکے کی طرف دیکھا۔ وہ بھی زیر لب مسکراتا نظر آیا۔

    ’’اگر آئے تو پلیز ہمارے یہاں بھیج دیجیےگا۔‘‘ لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر جھک کر عثمان کو آداب کیا اور چلا گیا۔ عثمان نے زور سے دروازہ بند کیا اور چٹخنی لگا دی۔

    کھڑکی عثمان کو ستانے لگی۔ کبھی بند ملتی،کبھی کھلی۔ عثمان کبھی باہر جھانکتا ،کبھی زورسے پٹ بند کرتا۔ ایک دن عثمان دفتر سے جلد ہی گھر آ گیا۔ دروازہ کھلا تھا کال بیل بجانے کی نوبت نہیں آئی۔ عثمان اندر آیا۔ کھڑکی کھلی تھی۔ راشدہ کھڑکی کے قریب کرسی پر بیٹھی تھی۔ میز پر ایک پلیٹ میں مٹھائی رکھی تھی۔ عثمان کی نظر پڑی تو وہ چونکا۔ راشدہ مسکرائی لیکن عثمان جواباً نہیں مسکرایا۔ اس نے پوچھا۔

    ’’یہ مٹھائی کیسی ہے؟‘‘

    ’’سامنے والے دے گئے ہیں۔‘‘

    ’’سامنے والے۔۔۔؟‘‘ عثمان نے سوالیہ نگاہوں سے راشدہ کی طرف دیکھا اور پھر کھڑکی سے باہر جھانکا۔ نوجوان سلاخیں پکڑے کھڑا تھا۔ عثمان سے نظر ملتے ہی اس نے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا۔ عثمان کو غصہ آ گیا۔ اس نے زور سے کھڑکی کے پٹ بند کیے اور راشدہ پر برس پڑا۔

    ’’تم ہر وقت کھڑکی کے پاس کیوں بیٹھی رہتی ہو؟‘‘

    راشدہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ اٹھی اور بستر پر اوندھی ہو گئی اور جب اس کی دبی دبی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگیں تو عثمان گھبرا گیا۔ یہ پہلا اتفاق تھا جب اس نے راشدہ کے لیے ایسا لہجہ استعمال کیا تھا۔ راشدہ سسک سسک کر رو رہی تھی اور عثمان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے؟ ایک بار اس نے راشدہ کو چھونے کی کوشش کی تو اس نے پنجے نکالے۔ عثمان نے ہا تھ کھینچ لیا۔

    ’’میں خراب ہوں۔ میں آنکھیں لڑاتی ہوں۔ میں کھڑکی سے لگی رہتی ہوں۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہائے۔ راشدہ زور زور سے رونے لگی۔

    عثمان کو احساس جرم ہونے لگا۔ خواہ مخواہ کہہ دیا یہ سب۔ اب چپ کیسے کرے؟ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ عثمان نے دروازہ کھولا۔ وہی نوجوان تھا۔

    ’’السلام علیکم۔‘‘

    ’’وعلیکم السلام۔‘‘

    ’’ہمارے یہاں میلاد شریف تھا۔ اس کی شیرنی بھیجی تھی۔‘‘

    ’’شکریہ!‘‘

    عثمان نے خشک لہجے میں جواب دیا۔

    ’’پلیٹ لینے آیا تھا۔۔۔‘‘

    ’’کیسی پلیٹ؟‘‘

    ’’اسی میں شیرنی بھیجی تھی۔‘‘

    عثمان کے جی میں آیا پوچھے، ’’آپ کے یہاں نوکر نہیں ہے؟‘‘ لیکن وہ صرف سوچ کر رہ گیا۔ اندر آکر اس نے دوسری پلیٹ میں مٹھائی رکھی۔ نوجوان کی پلیٹ کو پانی سے دھوکر صاف کیا۔ راشدہ اس درمیان اسی طرح اوندھی پڑی رہی۔

    پلیٹ واپس لیتے ہوئے نوجوان خوش دلی سے مسکرایا۔

    ’’مجھے الطاف کہتے ہیں۔ کبھی میرے گھر بھی آئیے۔‘‘

    عثمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ نوجوان کسی طرح دفع ہو۔ جاتے جاتے اس نے پھر سلام کیا جس کا بیزاری سے جواب دیتے ہوئے عثمان سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ کم بخت آسانی سے پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے۔

    ایسا ہی ہوتا ہے شنی۔ چمرچٹ۔۔۔ پیچھا نہیں چھوڑتا! اور شنی کے دوش کو کاٹتا ہے منگل۔ شنی کا رنگ کالا ہے۔ منگل کا لال ہے۔ شنی برف ہے۔ منگل آگ ہے۔ شنی دکھ کا استعارہ ہے۔ منگل خطرے کی علامت ہے۔ کہتے ہیں شنی اور منگل کا جوگ اچھا نہیں ہوتا۔ چوتھے خانے میں ہوتو گھر برباد کرے گا اور دسویں خانے میں ہو تو دھندہ چوپٹ کرےگا۔ شنی چھپ چھپ کر کام کرتا ہے۔ منگل دو ٹوک بات کرتا ہے۔ عثمان کی جنم کنڈلی میں منگل کمزور رہا ہوگا۔ یعنی پیدائش کے وقت اس کے قلب میں منگل کی کرنوں کا گزر نہیں ہوا تھا ورنہ الطاف کو ایک بار گھور کر ضرور دیکھتا۔

    ’’کیوں میاں؟ ارادے کیا ہیں؟ کبھی دھوبی کا پتا پوچھتے ہو، کبھی مٹھائیوں کے بہانے آتے ہو، کبھی پلیٹ کے بہانے؟ اگر ہوش میں نہیں ہو تو ہوش میں لادوں؟ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے!‘‘

    لیکن عثمان اس کا ایک طبق بھی رو شن نہیں کر سکا۔ الٹے راشدہ پر برس گیا۔ تم ہر وقت کھڑکی کے پاس کیوں بیٹھی رہتی ہو؟

    عثمان نے راشدہ کی طرف دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس کی سسکیاں گرچہ بند ہوگئی تھیں لیکن نتھنے سرخ ہو رہے تھے اور ہونٹ سکڑ کر چیری کی طرح گول ہو گئے تھے۔ آخر عثمان نے پہل کی۔

    غلطی ہو گئی! معاف کرو!

    راشدہ نے آنچل سے ناک پونچھی۔ ایک دو بار سوں سوں کیا۔

    ’’چائے ملےگی؟‘‘عثمان کا لہجہ لجاجت آمیز تھا۔

    راشدہ اٹھ کر کچن میں گئی۔ عثمان نے راحت کی سانس لی۔

    لیکن رات تک راشدہ کے چہرے پر شادابی نہیں لوٹی۔ وہ اس دوران زیادہ تر خاموش رہی۔ عثمان کی باتوں کا ہوں ہاں میں جواب دیا جس سے اس کی بےچینی بڑھ گئی۔ وہ راشدہ کے اس لمس کو ترس رہا تھا جس کا اس قدر عادی ہو گیا تھا۔ جام جم بستر پر اوندھا پڑا تھا۔ عثمان کی ہمّت نہیں ہو رہی تھی کہ ہاتھ لگاتا۔ آدھی رات کے قریب راشدہ نے کروٹ بدلی تو اس کا ہاتھ عثمان کی کمر سے چھو گیا۔ عثمان قریب کھسک آیا اور نیند ہی نیند میں راشدہ بھی اس کے سینے سے لگ گئی۔

    زُہرہ والی عورتوں کے ہاتھوں میں مہندی خوب کھلتی ہے۔ راشدہ بھی پور پور میں مہندی رچاتی اور طرح طرح کے نقش و نگار بناتی۔ ہتھیلیوں پر تیل چپڑاتی اور مَل مَل کر مہندی کا رنگ چمکاتی۔ پھر عثمان کے چہرے کا دونوں ہاتھوں سے کٹورہ سا بناتی اور آنکھوں میں جھانکتی ہوئی کھل کھلاکر ہنستی۔

    ’’کیوں جی رنگ چوکھا ہے نہ؟‘‘

    عثمان سہرن سی محسوس کرتا۔ ہتھیلیوں کا گداز لمس اور مہندی کی تازہ مہک۔ عثمان کے ارد گرد پرندے تنگ دائرے میں جیسے چکر کاٹنے لگتے۔

    ایک دن راشدہ نے پاؤں میں بھی مہندی رچائی۔

    عثمان گھر آیا تو وہ چاروں خانے چت پڑی تھی۔ اس کے بال کھلے تھے۔ عثمان پاس ہی بستر پر بیٹھ گیا اور جوتے کے تسمے کھولنے لگا۔ وہ اترا کر بولی۔

    ’’اللہ قسم دیکھیے۔ کوئی شرارت نہیں کیجیےگا!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میرے ہاتھ پاؤں بندھے ہیں۔ میں کچھ نہیں کر پاؤں گی۔‘‘

    عثمان مسکرایا۔ راشدہ تھوڑا قریب کھسک آئی۔ اس کا پیٹ عثمان کی کمر کو چھونے لگا۔ عثمان اس کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔

    ’’پلیز۔ شرارت نہیں!‘‘

    وہ پھر اترائی۔

    بھلا عثمان کیا کرتا؟ اگر کچھ کرتا تو راشدہ خوش ہوتی۔ عورتیں اسی طرح اشارے کرتی ہیں لیکن جو مرد نامحرم عورتوں کی طرف نہیں دیکھتے وہ ایسے اشارے بھی نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے زوجہ عورت نہیں پاک و صاف بی بی ہوتی ہے۔

    عثمان اسی طرح بیٹھا رہا تو راشدہ ٹھنکی۔

    ’’ہائے اللہ اٹھوں کیسے؟‘‘

    عثمان نے گردن کے نیچے ہاتھ دے کر راشدہ کو اٹھایا تو اس کی چھاتیاں عثمان کے کندھے سے چھو گئیں اور تکیے کا کونا ہل گیا اور ایک کتاب دبی ہوئی نظرآئی۔ عثمان نے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ناول تھا ’’ناکام محبت‘‘ ناول کے پہلے صفحے پر سرخ روشنائی سے دل کا اسکیچ بنا ہوا تھا جس میں ایک تیر پیوست تھا اور قطرہ قطرہ خون ٹپک رہا تھا۔ اسکیچ کے نیچے لکھا تھا،

    ’’تیرے تیر نیم کش کو کوئی میرے دل سے پوچھے‘‘۔ الطاف حسین تمنّا۔

    عثمان کو حیرت ہوئی۔ یہ کتاب گھر میں نہیں تھی۔ راشدہ کے پاس کہاں سے آئی؟ گویا الطاف اس کی غیرموجودگی میں آتا ہے اور راشدہ سے باتیں کرتا ہے۔ عثمان سے رہا نہیں گیا۔ اس نے راشدہ سے پوچھا۔

    ’’یہ کتاب کس کی ہے؟‘‘

    ’’الطاف صاحب بھول کر چلے گئے۔‘‘

    ’’بھول کر چلے گئے؟‘‘ عثمان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

    ’’آپ سے ملنے آئے تھے۔ باہر کرسی پر بیٹھے اور کتاب بھول کر چلے گئے۔‘‘

    ’’مجھ سے ان کو کیا کام۔۔۔؟‘‘

    ’’پڑوسی ہیں تو اس ناطے آ گئے۔‘‘ راشدہ خوش دلی سے بولی۔

    ’’لیکن تم ایسی کتاب کیوں پڑھتی ہو؟‘‘ عثمان نے ناگوار لہجے میں کہا۔

    راشدہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ عثمان کا ماتھا ٹھنکا۔ بستر پر پھر اوندھی تو نہیں ہوگی؟ لیکن اسی طرح خوش دلی سے بولی۔

    ’’کیا کروں جی! ہر وقت گھر میں بند رہتی ہوں۔ کتاب مل گئی تو دل بہلانے کے لیے پڑھ لی۔‘‘ پھر بڑی ادا سے مسکرائی۔

    ’’آپ نہیں چاہتے تو نہیں پڑھوں گی لیکن میں بستر سے اتروں کیسے؟پاؤں کی مہندی تو چھڑائیے۔۔۔؟‘‘ عثمان نے ادھر ادھر دیکھا۔ میز پر پرانا اخبار پڑا تھا۔ راشدہ کے پاؤں کے قریب فرش پر اس نے اخبار بچھایا اور مہندی چھڑانے لگا۔ راشدہ نے کلکاریاں بھری۔ ’’گدگدی لگتی ہے۔۔۔‘‘

    عثمان مسکرایا لیکن اس کی مسکراہٹ دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔ اچانک الطاف کا چہرہ اس کی نگاہوں میں گھوم گیا تھا۔

    راشدہ پنجوں کے بل چلتی ہوئی آنگن میں نل تک گئی۔ ہاتھ پاؤں دھوئے ، تولیے سے تلوے کو رگڑ رگڑ کر پونچھا اور اسی طرح چلتی ہوئی کمرے میں آئی اور عثمان کے گلے میں بانہیں حمائل کرتی ہوئے بولی،

    ’’اجی۔ آپ مل لیتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’کس سے مل لوں؟‘‘

    ’’الطاف صاحب سے۔ آپ کی غیرحاضری میں آ جاتے ہیں اچھا نہیں لگتا۔‘‘

    عثمان کو محسوس ہوا کہ الطاف کسی آسیب کی طرح گھر میں موجود ہے۔

    عثمان ملنے نہیں گیا لیکن الطاف شام کو آدھمکا۔

    ’’السلام علیکم!‘‘

    ’’وعلیکم السلام!‘‘

    ’’آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ عثمان نے بد دلی سے مصافحہ کیا۔ پھر کرسی بھی پیش کرنی پڑی۔ راشدہ نے ایک بار پردے کی اوٹ سے جھانک کر دیکھا اور کچن میں چلی گئی۔ ’’آپ یہاں کب آئے؟‘‘ عثمان نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں پوچھا۔

    ’’یہ فلیٹ اسی ماہ خریدا ہے۔‘‘

    ’’دولت خانہ؟‘‘

    ’’غریب خانہ بھاگلپور ہے۔‘‘

    ’’کیا کرتے ہیں؟‘‘

    ’’فرنیچر کا بزنس ہے۔‘‘

    ’’کھٹ۔ کھٹ۔ کھٹ۔‘‘ راشدہ نے پردے کے پیچھے سے کنڈلی کھٹ کھٹائی۔ عثمان نے ہاتھ بڑھا کر چائے کی ٹرے لی اور تپائی پر رکھا۔ چائے پی کر الطاف فوراً اٹھ گیا۔

    ’’بھائی صاحب۔۔۔ اب اجازت!‘‘

    ’’اچھی بات ہے۔ عثمان بھی کرسی سے اٹھ گیا۔

    ’’کبھی ہمارے ہاں بھی آئیے۔‘‘

    ’’ضرور۔۔۔‘‘ عثمان کے لہجے میں بیزاری تھی۔ الطاف نے جاتے ہوئے ادب سے سلام کیا۔ عثمان نے چین کی سانس لی۔

    روہنی نچھتر کے چاروں چرن بُرج ثور میں پڑتے ہیں جو زُہرہ کا گھر ہے۔ روہنی شنی کی محبوبہ ہے۔ اس کی شکل پہیے کی سی ہے۔ اس میں تین ستارے ہوتے ہیں۔ پہلے دن جب الطاف نے عثمان کے دروازے پر قدم رکھا تو شنی برج ثور کے مدخل پر تھا۔ اب شنی روہنی نچھتر کے پہلے چرن میں تھا۔

    الطاف آنے جانے لگا۔ وہ کچھ نہ کچھ لے کر آتا۔ کبھی مٹھائیاں ،کبھی پھل۔ عثمان احتجاج تو کرتا لیکن اس کا منگل کمزور تھا۔ اس نے اس بات پر تسلی کی کہ راشدہ سامنے نہیں آتی ہے۔ وہ مسکراتی اور پیچھے سے کنڈی کھٹ کھٹاتی۔

    ایک دن الطاف ڈھائی کیلو کی مچھلی لایا۔ عثمان نے بہت کہا نہیں نہیں لیکن وہ بہ ضد تھا کہ نجی تالاب کی ہے۔ راشدہ خوش ہوئی۔ اس نے مچھلی کے قتلے تلے۔ عثمان نے مچھلی کھائی تو کانٹا حلق میں اٹک گیا۔ راشدہ نے مٹھی میں سادہ چاول بھر کر نوالہ بنایا اور عثمان کو کھلایا۔ چاول کے ساتھ عثمان کانٹا نکل گیا۔ اس دن شنی نے روہنی کا پہلا چرن پار کیا۔

    راشدہ نے سرگوشیاں کیں۔

    اجی کیوں نہیں ان کو کھانا کھلا دیں۔

    ’’کس کو۔۔۔؟‘‘

    الطاف بھائی کو۔

    ’’الطاف بھائی؟‘‘

    ’’ہمیشہ کچھ نہ کچھ لاتے رہتے ہیں ،مجھے اچھا نہیں لگتا!‘‘

    ’’اچھا تو مجھے بھی نہیں لگتا وہ یہ سب کیوں کررہے ہیں؟‘‘ عثمان کو احتجاج کرنے کا موقعہ ملا۔

    ’’اسی لیے تو کہتی ہوں ان کو کھانا کھلا دیجیے کوئی احسان نہیں رہےگا!‘‘

    عثمان نے الطاف کو کھانے پر بلایا۔ راشدہ نے میز پر کھانا لگایا اور کواڑکی اوٹ میں ہو گئی۔ اس دن پہلی بار الطاف گھر کے اندر آیا۔ راشدہ نے پردے کے پیچھے سے کنڈی کھٹکھٹائی۔

    ’’کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟‘‘ اس سے قبل کہ عثمان کچھ کہتا الطاف بول پڑا۔

    ’’شکریہ بھابھی کھانا بہت لذیذ ہے۔‘‘

    اب عثمان کیا کہتا؟’’کیوں بات کر رہے ہو؟‘‘

    الطاف نے جاتے جاتے بھی شکریہ ادا کیا اور یہ کہہ کر گیا کہ اس بار وہ گاؤں گیا تو کترنی چاول لائےگا۔ راشدہ بہت خوش تھی۔ اس نے بات بات پر عثمان کے بوسے لیے۔ عثمان بارش میں شرابور ہوا لیکن دوسرے ہی دن بارش ایک دم چلچلاتی دھوپ میں بدل گئی۔ راشدہ کے ہونٹ سکڑ کر چیری ہو گئے۔ وہ بستر پر اوندھی ہو گئی۔

    اس دن دفتر میں چھٹی تھی۔ عثمان گھر پر بیٹھا پنکھے کی پتیاں صاف کررہا تھا کہ اچانک راشدہ کو باجی یاد آ گئیں۔

    ’’اجی سنتے ہو!‘‘راشدہ نے مسکراتے ہوئے عثمان کے گلے میں بانہیں ڈالیں۔

    ’’کیا؟‘‘عثمان جواباً مسکرایا۔

    باجی کو کچھ بھیجتی۔

    ’’کیا بھیجو گی؟‘‘

    ’’آنولے کا مربّہ بہت شوق سے کھاتی ہیں۔۔۔‘‘

    ’’یہاں آنے دو۔‘‘

    ’’اب یہاں آئیں گی یا ادھر ہی سے چلی جائیں گی؟‘‘

    ’’آئیں گی کیوں نہیں؟ ان کا خط جو آیا ہے!‘‘

    ’’اگر نہیں آئیں تو!‘‘

    ’’پھر!‘‘

    ’’آپ چلے جاتے۔‘‘ راشدہ نے عثمان کے کان کے لوؤں کو ہونٹوں سے د با یا۔ عثمان نے گدگدی سی محسوس کی۔

    ’’میں چلا جاؤں؟‘‘

    ’’ہاں جی!‘‘ راشدہ نے اپنے رخسار عثمان کے رخسار پر ٹکا دیے۔

    عثمان کو یہ بات عجیب لگی کہ وہ آنولے کا مربہ لے کر پٹنہ سے رانچی جائے۔ باجی پاکستان میں رہتی تھیں اور ان دنوں میکے آئی ہوئی تھیں جو رانچی میں تھا۔ وہاں سے انہوں نے راشدہ کو خط بھی لکھا تھا کہ اگلے اتوار کو اس کے گھر آرہی ہیں۔ عثمان نے راشدہ کو سمجھانا چاہا۔

    ’’وہ خود یہاں آرہی ہیں تو جانا مناسب نہیں ہے ورنہ وہ یہ سمجھیں گی کہ ہم انہیں بلانا نہیں چاہتے۔‘‘

    راشدہ چپ ہو گئی۔ اس کی شوخ ادائیں اچانک کہیں کافور ہوگئیں۔ وہ دن بھر چپ رہی۔ عثمان کی باتوں کا بس ہوں ہاں میں جواب دیا۔ عثمان نے عجیب سی بے چینی محسوس کی۔ وہ راشدہ کی اداؤں کا عادی ہو چکا تھا۔ اس کی بے رخی سہن نہیں ہو رہی تھی۔ رات کو بھی بستر پر اوندھی پڑی رہی ،عثمان سے رہا نہیں گیا۔ اس نے راشدہ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا تو اس نے ہاتھ جھٹک دیے۔

    ’’طبیعت ٹھیک نہیں ہے جی۔‘‘

    عثمان کو ٹھیس سی لگی۔ راشدہ کے چہرے پر شکن تھی اور دور دور تک بارش کے آثار نہیں تھے۔

    ’’کیا ہوا؟ کچھ بتاؤگی؟‘‘عثمان گھگھیا کر بولا۔

    ’’میں تو دائی ہوں۔‘‘ جواب میں راشدہ کی سسکیاں ابھرنے لگیں۔

    کھانا بناؤ۔۔۔ جھاڑو برتن کرو۔ میری اتنی حیثیت نہیں ہے کہ اپنی بہن کو معمولی سا تحفہ بھی بھیج سکوں۔۔۔

    عثمان تڑپ کر رہ گیا۔ اس نے صبح سویرے رانچی کے لیے بس پکڑی۔

    ’’کہاں بھیج دیا؟‘‘

    کھل کھل کھل کھل اور راشدہ اس طرح ہنستی تھی کہ بلبل بھی نہیں ہنستی ہوگی۔

    عثمان دوسرے دن علی الصباح لوٹا۔ گھنٹی بجاتے ہی راشدہ نے دروازہ کھولا۔ عثمان کمرے میں داخل ہوا تو اس کو عجیب سی بو محسوس ہوئی۔ اس کو لگا کہیں کچھ ہے۔ اس نے ایک دوبار نتھنے پھلائے اور۔۔۔ زور سے سانس کھینچی۔ جیسے وہ دیو زاد ہو اور پری خانے میں بوئے آدم کا پتا لگا رہا ہو۔۔۔ لیکن راشدہ نے فوراً اپنی بانہیں عثمان کے گلے میں حمائل کر دیں۔ عثمان تھکا ماندہ تھا اور چاہتا تھا ’’بارش‘‘میں بھیگے۔ اور بارش ہوئی۔ اور عثمان شرابور ہوا اور گہری نیند سو گیا۔

    عثمان دس بجے اٹھا۔ باتھ روم گیا تو کونے میں سگریٹ کا ایک ادھ جلا ٹکڑا نظر آیا۔ اس نے ٹکڑے کو پہلے غور سے دیکھا پھر اٹھا کر روشن دان سے باہر پھینک دیا۔ عثمان نے سوچا ہوا میں اڑ کر آ گیا ہوگا۔ نہا دھوکر دفتر جانے کی تیاری میں تھا کہ الطاف نے گھنٹی بجائی اور سیدھا کمرے میں چلا آیا۔ وہ پھر ڈھائی کیلو کی مچھلی لایا تھا اور ساتھ میں چاول کی دو بوریاں بھی۔

    ’’بھائی صاحب یہ اپنے کھیت کا کترنی چاول ہے۔‘‘

    ’’اس کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ عثمان کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی۔ الطاف کا سیدھا کمرے میں آجانا اس کو ناگوار لگا تھا۔

    ’’آپ مجھے ابھی تک غیر سمجھتے ہیں؟‘‘ الطاف عثمان کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا مسکرایا۔ راشدہ جھٹ سے بولی۔

    ’’اس کا پلاؤ مزیدار ہوتا ہے۔‘‘

    ’’اسی لیے تو لایا ہوں بھابھی کہ آپ کے ہاتھوں کی بریانی کھاؤں گا۔‘‘

    عثمان چپ رہا۔ الطاف راشدہ سے مخاطب ہوا۔

    ’’لیکن تیل او ر مصالحہ کی بھی تو ضرورت ہوگی؟‘‘

    ’’وہ ہے گھر میں۔‘‘ راشدہ مسکرائی۔

    ’’پھر بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو منگوا لیجیے۔‘‘ الطاف نے پرس سے سو سو کے دو نوٹ نکالے اور راشدہ کی طرف بڑھا دیے۔

    ’’جی نہیں! آپ کے پیسے کی ہمیں چنداں ضرورت نہیں ہے!‘‘ راشدہ بولی۔ عثمان پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ راشدہ کے اس جواب سے کچھ راحت پہنچی۔

    ’’سوری!‘‘ الطاف نے پیسے پرس میں رکھ لیے۔

    ایک لمحے کے لیے ماحول میں تناؤ سا پیدا ہوا۔ الطاف نے جانے کی اجازت مانگی تو راشدہ بولی۔

    ’’دوپہر کھانے پر آئیےگا۔‘‘

    الطاف مسکرایا اور الوداع کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔

    الطاف کے جانے کے بعد عثمان کا ذہنی تناؤبڑھ گیا۔۔۔ اس طرح کب تک چلےگا؟‘‘ اس نے غصّہ سے سوچا۔ لیکن راشدہ اچانک اس سے سٹ کر کھڑی ہو گئی اور اٹھلاتی ہوئی بولی، ’’اجی آج چھٹّی لے لیجیے۔ آپ گھر پر رہتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔‘‘

    پھر اس نے عثمان کا طویل بوسہ لیا۔ عثمان کا تناؤ کچھ کم ہوا۔

    عثمان کا دفتر میں جی نہیں لگا۔ اس نے کسی طرح دو چار فائلیں نپٹائیں اور لنچ کے وقفے میں چھٹی لے کر گھر آ گیا۔ گھر میں گھستے ہی اس کو وہی بو محسوس ہوئی۔ بوئے آدم زاد۔

    الطاف کمرے میں بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا اور راشدہ کچن میں مچھلی کے قتلے تل رہی تھی۔ عثمان کو دیکھتے ہی بولی،

    اجی کیا کہیں؟ الطاف بھائی توتیل اور مصالحہ بھی لے آئے اور ڈھیر ساری سبزیاں بھی۔‘‘

    عثمان نے لوازمات پر طائرانہ سی نظر ڈالی۔ راشدہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ عثمان چپ چاپ کمرے میں آکر بیٹھ گیا۔

    راشدہ نے بریانی بنائی اور مچھلی کے قتلے تلے۔ کھانے کے دوران الطاف نے بتایا کہ اس کے فلیٹ میں سفیدی ہو رہی ہے۔ سارا سامان بکھرا ہوا ہے۔ راشدہ آہستہ سے عثمان کے کانوں میں پھسپھسائی۔

    ’’اجی جب تک الطاف بھائی دوسرے کمرے میں آرام کر لیں تو کوئی حرج ہے؟‘‘

    عثمان اس وقت مچھلی کھا رہا تھا۔ اس کو لگا کانٹا حلق میں پھنس رہا ہے۔

    عثمان نے سادہ چاول کا نوالہ بنایا اور چاول کے ساتھ کانٹا بھی نگل گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے