Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مس رضیہ

ثمینہ نذیر

مس رضیہ

ثمینہ نذیر

MORE BYثمینہ نذیر

    مس رضیہ صلاح الدین، ہماری اسکول پرنسپل کا غصہ اُس دن عروج پر تھا۔ بولیں، ’’ہاتھ آگے لاؤ، ...come on چَٹ! چَٹ! آج میں نے سرپرائز ٹیسٹ لیا تو سب کی سب فیل۔ کسی کو tomorrow کی spellings نہیں آتی؟ چٹ! اس میں ڈبل M نہیں ڈبل R لگتا ہے۔ چٹ!

    ہاتھ آگے کرو! you، عالیہ احمد!‘‘ میں نے بہت آہستگی سے ہاتھ اسکول سوئٹر کی آستین سے باہر نکالا۔ اسٹیل کا فٹا انھوں نے مارنے کے لیے اٹھایا، کہ چپراسی ظہیر آکر اُن کو کچھ ضروری پیغام دینے لگا۔ یا اللہ! مس رضیہ اسی وقت مرجائیں، دل کا جان لیوا دورہ پڑ جائے۔ یا ظہیر یہ کہنے آیا ہو کہ آپ کی شادی طے ہوگئی ہے، ابھی چل کر نکاح کرلیں۔ میری نظریں اسٹیل کے چمک دار فٹے پر تھیں، جو انھوں نے سعیدہ ناز کے ڈیسک سے اٹھایا تھااور میرے ہونٹ مسلسل چاروں قل اور آیت الکرسی کے ورد میں مشغول تھے۔ بقول امی کے، آیۃ الکرسی پڑھنے سے بڑی سے بڑی آفت ٹل جاتی ہے، مگر مس رضیہ وہ آفت تھیں کہ ایک مرتبہ آئی قیامت ٹل جائے مگر یہ عورت نہ مرکے دے۔ مہرالنساء سمیت، جن لڑکیوں کی پٹائی ہوچکی تھی وہ اب گھٹنوں کے بل چھٹی ہونے تک نیل ڈاؤن تھیں۔ اسمبلی ہال سے مسلسل IXA کی لڑکیوں کے لڈّی ڈالنے اور ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ کل ہونے والے فیئرویل کی تیاری عروج پر تھی، جو ہم IXA or IXB مل کر کلاسXکو دینے والی تھیں، کہ یکایک مس رضیہ نے جنگی توپوں کی طرح ہم پر حملہ کردیا۔ خوف کی لہریں میرے سر سے پیر تک دوڑ رہی تھیں۔ آنکھیں میں نے میچ رکھی تھیں کہ یا اللہ یہ منحوس فٹاجلدی سے میری برف ہوتی ہتھیلی پر پڑے اور میں بھی نیل ڈاؤن ہوجاؤں۔ جان چھوٹے اس بلا سے۔

    ’’سمّی میری وار میں واری میں‘‘، گیت کی آوازیں کورس کے انداز میں آنے لگیں۔ اس پر تو مجھے بھی گھاگھرہ پہن کر رقص کرنا تھا۔ ہمارے گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول جیکب لائنز کی کسی بھی تقریب میں صرف علاقائی رقص کرنے ہی کی اجازت تھی۔ مشاعرے، بیت بازی، معلومات عامہ اور تقریری مقابلوں کے بجائے ہم سب کو عید ملن اور فیئرویل کا انتظار ہوتا تھا، تاکہ اُس دن ہم بغیر یونیفارم بھی آسکیں اور رقص و موسیقی بھی کانوں میں پڑے۔ ویسے بھی میں، عالیہ احمد، میوزک کلاس میں سب سے آگے ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب تو لاسٹ پیریڈ چل رہا ہے، اگر اس ہٹلر نے ہمیں چھوڑ بھی دیا تو چھٹی کا گھنٹہ تو بج جائے گا۔ میری پریکٹس تو رہ ہی جائے۔۔ چَٹ چٹ چٹ۔ پھر مس رضیہ دھڑا دھڑ مجھے مارتی چلی گئیں۔ فٹا چھوڑ اپنے کرخت ہاتھوں سے چانٹے مارنے پر اتر آئیں۔ جاتے جاتے اس زور کا دھکا دیا کہ میں جو پہلے ہی ڈیڑھ پسلی کی تھی، کہنی کے بل ورانڈے کے اس پکے فرش پر گری، جس پر ہم لڑکیاں نئے جوتوں میں جان بوجھ کر دور تک پھسلا کرتی تھیں۔ میرا بازو فریکچر ہوگیا۔ غالباً ظہیر اُن کے کسی دور محلے میں ٹرانسفر کی خبر لایا تھا، جو بعد میں انھوں نے رکوا بھی لیا۔ میرے درویش صفت ابا نے اس سانحے پر اُف تک نہ کی۔ مس رضیہ کی شکایت کرتے بھی توکس سے، حاکم بالا تو وہ خود تھیں۔ تو نہ اللہ سے شکوہ کیا نہ اسکول سے شکایت کی۔ چپ چاپ میرا پلاستر کروادیا گیا۔ وقت کے ساتھ وہ زخم تو بھر گیامگر اگلے دن فیئرویل اٹینڈ نہ کرنے کا زخم اب تک میرے دل میں تازہ ہے۔

    اسٹاف روم میں آج مسز احمد کے پانچویں بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں مٹھائی کھائی جارہی تھی۔ مس رحمٰن، مس عذرا، مسز خلیل سب کو سموسے، patties اور بسکٹ وغیرہ بھی پیش کررہی تھیں۔ مسز احمد کیوں کہ آج ہی maternity leaveسے واپس آئی تھیں اس لیے مسز خلیل بہت خوش تھیں کہ اب اُن کی جان IXB کو Maths پڑھانے سے چھوٹ جائے گی۔ اس کلاس کو کنٹرول کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔

    مس افسر کے ہاتھ مسلسل اون کی سلائیوں پر چل رہے تھے۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اُن کی زبان تیز چلتی ہے، کہ اون کی سلائیاں، کہ اُن کی نظرجو کھڑکی کے پار، دور سے آتی مس رضیہ صلاح الدین کو دیکھ چکی تھی۔ بہت رسان سے بولیں، ’’ہلہ گلہ ختم کرو۔ ہٹلر ادھر ہی آرہی ہے۔‘‘ پھر مس قیصر رس گلہ کا شیرہ چوستے ہوئے بولیں، ’’ہم ان کی شادی کی مٹھائی کھائیں تو بات ہے۔ چالیس کے پیٹے میں ہیں۔ تیر کی طرح سیدھی چلتی ہیں، مہنگا خضاب لگاتی ہیں۔ نظر کا چشمہ چھپ کر استعمال کرتی ہیں تو کیا ہوا، عمر تو صاف جھلکتی ہے۔‘‘ مسز خلیل نے پانچواں patties اطمینان سے نگلتے ہوئے کہا، ’’جو بھی ہو، ہیں وہ اسمارٹ۔ اور ان کی شادی کی بھی آپ نے خوب کہی۔ جو عورت مردوں کے نام سے خار کھاتی ہو وہ شادی کس سے کرے؟ کھمبے سے؟‘‘ سب کا زور دار قہقہہ پڑا آیا۔ زاھدہ نے چائے کی پیالیاں، سموسوں کے لفافے وغیرہ سمیٹے۔ اتنے میں اسٹاف روم کا دروازہ دھڑ سے کھلا اور سب ٹیچرز انہماک سے کاپیاں جانچنے، نمبر جوڑنے، رپورٹ کارڈز بھرنے اور سائنس کے چارٹس بنانے میں مصروف پائی گئیں۔

    مس رضیہ نے فخر سے سینہ پُھلالیا، کہ واہ! کیا دھاک ہے میری۔ مس افسر سوئٹر کو تھیلے میں ٹھونس چکی تھیں۔ سرخ اُون کا گولا پڑا رہ گیا تھا، اُسے کمال صفائی سے ایک ہی ہلکی ٹھوکر میں بید کی کرسی کے نیچے لڑھکا دیا۔ مس رضیہ بولیں، ’’ضروری اطلاع! اگلے ماہ سپورٹس ڈے ہے۔ آج اسکول کے بعد میٹنگ ہوگی۔‘‘ سب کے منہ اترنے لگے۔ مسز احمد اپنے نوزائیدہ کو اپنی پڑوسن کے حوالے کرکے آئی تھیں۔ مسز خلیل کو دوپہر میں قیلولہ کی عادت تھی۔ مس افسر کو سلائی کڑھائی کی کلاس لینا ہوتی تھی، ٹھیک چار بجے، قریب کے شمع سلائی سینٹر میں۔ صرف مس رحمٰن، جو حال ہی میں حج کرکے آئی تھیں اور اسلامیات کی سادہ سی ٹیچر تھیں، اٹن شن ہو کر بولیں، ’’جی مس رضیہ۔ ہم بچیوں کے جاتے ہی لائبریری میں جمع ہوجائیں گے۔‘‘ سب عورتوں نے اُنھیں ایسے گھورا جیسے وہ بھرے چوک پر زِنا کی مرتکب پائی گئی ہوں۔ مس رضیہ جاتے جاتے بولیں، ’’good اور ہاں مسز احمد، آپ کی کلاس IXB سخت نکمی، کام چور اور کوڑھ مغز ہے۔ کوئی لڑکی بھی میرے دیے گئے کسی test میں پاس نہیں ہوئی۔ ایک لڑکی تو سرسید کو علامہ اقبال کا والد اور محمد علی جناح کو اُن کا سگا بھائی بتاتی ہے۔ سوائے ہنسی ٹھٹھے اور کدکڑوں کے ان طالبات کو کچھ نہیں آتا۔‘‘ مسز احمد نے لب کشائی کی جسارت کی ہی تھی کہ ہاتھ اٹھا کر مس رضیہ جاری رہیں، ’’آپ عورتوں کو شادی، حمل، زچگیوں اور مزید زچگیوں سے فرصت ملے، تو آپ درس و تدریس میں دل چسپی لیں۔‘‘ مسز احمد پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ کل رات ہی تو احمد صاحب نے رات بھر اُن سے بھرپور پیار جتایا تھا۔ وہ تو اگلے نونہال کا نام بھی سوچ رہی تھیں۔ مس رضیہ کی آواز پھر گونجی، ’’گھڑیاں ملالیں۔ ٹھیک تین بجے۔ سوا دو بجے میں کھانا کھاتی ہوں۔ آپ سب جانتی ہی ہیں۔‘‘

    اُن کے جاتے ہی اسٹاف روم میں اٹھا پٹک شروع ہوگئی۔ مکھیوں کی سی بھن بھن جلد ہی بڑبڑاہٹ میں تبدیل ہوگئی۔ ’’خود کا تو کوئی گھر بار نہیں ہے، ہمیں بھی لاوارث سمجھتی ہیں، ہونہہ! ہٹلر کہیں کی۔‘‘ اون کا گولا لپٹتی ہوئی یہ مس افسر تھیں۔

    بورڈ کا امتحان سر پر تھا۔ کمینے عتیق نے مجھے تنگ کر رکھا تھا کہ تم تو آج تک محلے اور جیکب لائنز گرلز اسکول سے باہر ہی نہیں گئیں، کہیں ٹاور پر سینٹر پڑ گیا تو کیا کرو گی؟ اور یہ کہ میرا پڑھائی میں تو دل لگتا نہیں۔ صرف گاتی بجاتی اچھا ہوں اور گانے بجانے والے سڑکوں پر اچھی طرح بھیک ہی مانگ سکتے ہیں۔ میں نے ابا کے سامنے اُسے کئی مرتبہ لتاڑا اور بتانے کی کوشش کی کہ میں اقبال بانو، فریدہ خانم یا مصر کی مغنیہ اُم کلثوم بننا چاہتی ہوں،

    حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں

    ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں

    مگر اُس نے میری بات ہنسی میں اُڑا دی اور ’’عالیہ چھالیہ، دو پیسے کی چھالیہ!‘‘ چڑاتا ہوا، پتنگ لوٹنے چلا گیا۔ ہاں تو بورڈ کا امتحان سر پر تھا، اور ہمارے اسکول میں بجائے ایکسٹرا کلاس کے دن رات PT ہورہی تھی۔ مس روز میری کی سیٹی سن کرمیں اور مہرالنساء گراؤنڈ میں آ تو گئے، مگر جاڑے کی اس سڑی ہوئی دھوپ میں، اچھل کود کرنے کا ہمارا مطلق موڈ نہ تھا۔ میں نے مہرالنساء کو آنکھ ماری اور مس روز میری کے کان میں جاکر کچھ کہا۔ انھوں نے سادگی سے پوچھا کہ آج ہی؟ میں نے کہا جی بالکل، دوسرا دن ہے۔ چھٹی مل گئی مجھے۔ اور میں کینٹین سے ببل خرید کر، نیم اور بادام کے درختوں کے نیچے ٹانگیں پھیلا ئے بیٹھ کر، BB ببل گم کی جگالی کرتے ہوئے، ’’پائیل میں گیت ہیں چھم چھم کے‘‘ گانے لگی۔ گراؤنڈ میں سو کے قریب لڑکیاں ڈرل کررہی تھیں۔

    مس رضیہ صلاح الدین کا بس نہیں چلتا تھا کہ سپورٹس ڈے کو ایک ماہ بعد کے بجائے آج ہی منعقد کروالیں۔ نکمے مالی کے پیچھے لگ کر انھوں نے درختوں کی کاٹ چھانٹ کروائی۔ بس ڈرائیورز اور ظہیر کو بھی مدد کے لیے لگوا کر، مالی سے تمام گملے سرخ پینٹ کروائے جانے لگے۔ ہمیں تحریک دینے کے لیے ساڑھی پر باٹا کے PT شوز پہن کر آنے لگیں مگر میں ٹس سے مس نہ ہوئی۔ انھیں قریب سے دیکھ کر، ہمیشہ میرا ہاتھ اپنی ٹوٹی ہڈی کو سہلانے لگتا تھا۔ اُس فیئرویل پارٹی میں فوٹو گرافر بھی آیا تھا، سب کے گروپ فوٹوزبنے تھے، مہرالنسا بھی موجود تھی اُس میں، مگر میں عالیہ احمد absent تھی۔ کسی نے میری اس غیر حاضری کو محسوس تک نہیں کیا تھا۔ اِدھر مس رضیہ نے پچھلے آٹھ سالوں میں، کبھی ایک چھٹی نہیں کی تھی۔ ایک بھی نہیں! سنا ہے کہ اپنی اماں کے مرنے پر بھی، اُن کی تدفین فجر میں کروا کر، اسکول پہنچ گئی تھیں۔ مکمل سو فی صد حاضری کے علاوہ ہر روز وقت پر آنا، ہر وقت صحیح spellings بولنا، پہاڑوں کے جواب فٹ سے دینا اور معلومات عامہ کے تمام جوابات صحیح دینے کے ریکارڈ بھی مس رضیہ کے سر جاتے ہیں۔

    دراصل اس سپورٹس ڈے کے لیے، صوبے کے وزیرتعلیم یا نائب وزیرتعلیم نے مہمان خصوصی کے طور پر آنے کے لیے ہامی بھرلی تھی۔ اس سرگرمی کے بعد یقینا وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھیجی جانے والی تھیں، جس کے خواب وہ کئی سالوں سے دیکھ رہی تھیں۔ MA,M-Ed کے بعد ...D.Lit کسی گورے کے ہاتھوں اس ڈگری کو وصول کرتے ہوئے، وہ اپنے آپ کو خوابوں میں دیکھ رہی تھیں۔ کچھ خواب کھلی آنکھوں سے بھی تو دیکھے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی طشتری میں گھر کے بنے میٹھے لوز، توڑ کر نفاست سے کھا رہی تھیں۔ برسوں سے اُن کا معمول تھا، کہ آتے ہوئے ٹوکری میں سیاہ چائے کا تھرماس، سٹیل کے چھوٹے سے ٹفن کیئریر میں گھر کی بنی دال اور ایک پھلکا، کسی چٹنی کے ساتھ لے آتیں۔ ٹھیک دو بجے ظہیر اُن کا یہ کھانا، ملاقاتیوں کے صوفے والی میز پر چن دیتا۔ دروازے پر پڑی چلمن کے باہر بیٹھ جاتا کہ کوئی ملاقاتی انھیں دِق نہ کرے۔ کھانا کھا کر وہ چند لمحوں کا آرام کرتیں اور دوبارہ کتابوں کا مطالعہ، اسکول کی سالانہ رپورٹ، نئی تقریریں، پرانے استعفے، درخواستیں، موجودہ، گذشتہ اور آنے والا سلیبس، اُن ہی میں سر کھپاتیں یا پھر لڑکیوں کے ماہانہ ٹیسٹ کی کاپیوں کی جانچ پڑتال کرنا شروع کردیتیں۔

    ’’And the D-lit degree is awarded to Ms۔ Salahuddin‘‘

    کیسا دل نشین خواب تھا۔ اس میں پوری طرح غرق تھیں کہ مس روزمیری دروازے پر کھڑے بولیں، ’’May I come in?‘‘ اور وہ اندر آگئیں۔ آج مِس روز میری کی چال میں واضع اتراہٹ تھی، جو مس رضیہ کو کافی حیران کر گئی۔ لیکن پریشان وہ اُس وقت ہوئیں جب روزمیری نے کہا، کہ وہ عنقریب ایسٹر کے موقع پر جوزف کی دلہن بننے جارہی ہیں۔ اس کے بعد وہ ماہ دو ماہ، ہنی مون فرمائیں گی۔ بہت ضبط کرکے مس رضیہ بولیں، ’’تیئس مارچ کو اسپورٹس ڈے ہے۔ یوم پاکستان کے موقع پر۔‘‘ لیکن مس روز میری نے اُن کی بات کاٹی اور بولیں، ’’Easter تو اُس کے فوراً بعد آتا ہے ناں، مس رضیہtry to understand جوزف فرنینڈز نے مجھے تین ماہ کی long leave لینے کا کہا ہے۔ خدا خدا کرکے تو میری شادی ہورہی ہے۔ اسے میں ٹال کیسے سکتی ہوں۔‘‘ مس رضیہ کی بات کاٹنا گویا گناہ کبیرہ تھا۔ اگر وہ اُن کا جملہ نہ کاٹتیں تو ممکن تھا کہ اُن کی درخواست پر غور کیا جاتا۔ لیکن اب تیر کمان سے نکل کر، مس رضیہ کے دماغ کو چھید کرتا ہوا، کہیں پچھلی دیوار میں پیوست ہوچکا تھا۔ مس رضیہ بولیں، ’’اوکے، you may go۔‘‘

    اگلے ہی ہفتے ہم آٹھ سو لڑکیوں کو اسمبلی میں بتایا گیا کہ مس روز میری نہ صرف چور تھیں، بلکہ انھوں نے سپورٹس فنڈ میں ہزاروں کا غبن کیا تھا اور وہ انڈیا کی ایجنٹ بھی تھیں۔ اس لیے انھیں فی الفور فارغ کرکے، پولیس کو رپورٹ کردی گئی ہے۔ اب کوئی محمد وحید امتیاز ہے جو کل سے PT ٹیچر کا نہ صرف عہدہ سنبھالے گا، بلکہ اُن سب کا نیا سپورٹس ٹیچر بھی ہوگا۔

    فروری کا مہینہ تھا۔ میں دو دن کی چھٹیوں کے بعد لپک جھپک اسکول کی طرف جارہی تھی۔ صبح صبح آپا سے جھوٹی sick leave لکھوالی تھی، کہ اس کے بغیر مسز احمد کلاس میں گھسنے نہیں دیں گی۔ دراصل سنجیدہ باجی کی شادی میں ہم لوگ حیدرآباد گئے ہوئے تھے، بہت مزہ آیا تھا۔ ڈھولک گیت گا گا کر میری آواز بیٹھی ہوئی تھی۔ پڑھائی سے ویسے بھی مجھے کوئی خاص رغبت نہ تھی۔ دونوں ہاتھوں میں بھر کے مہندی لگوائی تھی، جو اب جیب میں ڈال کر چھپا رہی تھی۔ اگر مس رضیہ کی نظر پڑ گئی تو میرے ہاتھ sulphuric acid میں ڈبو دیں گی۔

    ہمارے اسکول میں ناک یا کان کی بالی، گلے کی زنجیر، چوڑیاں، پازیب، کاجل وغیرہ ہر طرح کا سنگھار منع، بلکہ حرام تھا۔ یہ یقینا ہماری پرنسپل مس رضیہ کا فرمان تھا۔ ٹیچرز بھی زیادہ تر سادگی سے سفید شلوار پر سوتی کرتا اور جارجٹ کا سفید ہی دوپٹہ اوڑھے رکھتیں۔ البتہ مس رضیہ صلاح الدین خود فلمسٹار شبنم بنی ہوتی تھیں۔ گہرے گلے کا چست چھوٹا سا بلاؤز، بالوں کی لمبی چوٹی، کبھی کبھار بنگالی جوڑا، روزانہ کان کے اوپر چھوٹی بال پِن سے تازہ گلاب یا موگرے کا پھول ٹکا ہوا۔ کبھی سوتی، کبھی پھول دار جارجٹ یا شیفون کی ساڑھی، اونچی ہیل، ہاتھ میں سونے کے موٹے کڑے، گلے میں ایک لمبی موٹی سی سونے کی زنجیر اور کانوں میں ٹاپس، جو اکثر ساڑھی کے ہم رنگ ہوا کرتے تھے۔ غضب کا لچک دار اور سڈول جسم تھا، جو تن سے چپکی ساڑھی کی بدولت اور بھی نمایاں ہوجاتا تھا، لیکن ان سب پر نظر کس کی جاتی۔ اُن کی شعلہ برساتی آنکھیں اور آگ برساتی زبان کے آگے، اُن کی جامہ زیبی پر توجہ کرنے کی، کوئی مجال نہ کرسکتا تھا۔

    ایک تو میں دو دن بعد اسکول آرہی تھی، ہاتھ میں sick leave کا لفافہ لیے، دوسرے میں پورے پانچ منٹ لیٹ تھی۔ لالہ تو گیٹ بند کرکے نسوار چوس رہا ہوگا۔ فوراً آیت الکرسی کا ورد شروع کردیا، جو کبھی کبھار ہی میرے کام آتی تھی۔ اسکول پہنچی تو گیٹ بند۔ اللہ! میں نے جلدی کے مارے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا، پھر بھی دیر ہوگئی؟ گھر واپس جاؤں گی تو امی اور خبر لیں گی۔ میرے آنسو گرنے کو تھے، کہ اچانک گیٹ کھلا اور وحید مراد سے ملتا جلتا ایک مرد باہر آیا، اُس نے مجھے دیکھا تک نہیں۔ لیکن جب وہ لالہ سے بات کرکے اندر جانے لگا تو میں چپ چاپ اُس کی اوٹ میں، گیٹ عبور کر گئی۔ میرے لیے اُس نے ہیرو ہی کا کام کیا۔ تو یہ تھے سر وحید امتیاز جن کو دیکھ کر، میں پہلی نظر میں اپنا کنوارہ دل ہار چکی تھی۔ سر وحید امتیاز نے پورے اسکول میں جیسے کہ ایک برقی لہر دوڑا دی۔ ہر کام پھرتی سے، خوش اسلوبی سے اور ہنستے ہنستے ہونے لگا۔ میں، جو سپورٹس ڈے کی تمام مشقوں سے کتراتی تھی، اب صف اوّل میں نظر آنے لگی۔ اب وہ بیڈمنٹن ہو، یا ٹیبل ٹینس، ریس ہو یا تھرو بال، عالیہ احمد جیت کر سب کو حیران کرنے لگی۔ مس رضیہ بہت خوش نظر آنے لگی تھیں، ایک ہی ہفتے میں وحید امتیاز نے اُنھیں اُن کے خوابوں کی تعبیر، یعنی لندن سے قریب تر جو کردیا تھا۔۔ کہ کچھ عجب سا ہوا۔

    مس رضیہ آج پھر IXB کی ٹیسٹ کاپیاں کھولے، انھیں خوش دلی سے جانچ رہی تھیں۔ بلکہ ساتھ ساتھ گنگنایا بھی جارہا تھا۔ ’’ارے دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے۔‘‘ انھیں بیگم اختر اور رسولن بائی بہت پسند تھیں۔ خلاف معمول اکثریت کو وہ پاس کرچکی تھیں۔ عالیہ احمد کی کاپی سامنے رکھی تھی اور لال روشنائی والا پارکر پین اُن کے ہاتھ میں تھا، کہ وحید امتیاز وہی اپنے مخصوص لاپرواہ اندازمیں، سیٹی بجاتا داخل ہوا۔

    کسرتی بلکہ فولادی بدن والا، طویل قامت وحید امتیاز، دراصل نیوی میں پیراکی انسٹرکٹر تھا۔ پیراکی میں گولڈ میڈلسٹ تھا اورغضب کا غوطہ خور مانا جاتا تھا۔ نائب وزیرتعلیم نے، ذاتی اثر ورسوخ سے کام لے کر، اُسے مس رضیہ کے اسکول بھجوایا تھا۔ مس رضیہ آنکھیں اٹھا کر بولیں، ’’ابھی ابھی میں نے یہ سنا ہے مسٹر وحید امتیاز کہ آپ یہ سروس جاری نہیں رکھ سکتے، کیوں کہ آپ کو رہائش کا مسئلہ درپیش ہے؟‘‘ وحید نے جواب دیا، ’’جی مس رضیہ صلاح الدین۔ دراصل میرا گھر ملتان میں ہے۔ کراچی میں ایک تایا جی ہیں۔ اُن کے ہاں ایک ہفتہ مہمان رہ لیا اب کہاں جاؤں؟ جو تنخواہ مجھے دی جائے گی، اُس میں رہائش کا تو کوئی الاؤنس ہی نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ میں واپس پنڈی۔۔۔‘‘ مس رضیہ بولیں، ’’آپ کی رہائش کا بندوبست ہوچکا ہے۔‘‘ چٹ پر ایک پتہ لکھ کر، جلدی سے انھوں نے وحید امتیاز کو دیا، مبادا وہ اپنا ارادہ تبدیل نہ کردے۔ پھر بولیں، ’’you may go now‘‘ اُس کے جاتے ہی انھوں نے عالیہ احمد کو پچیس میں سے پانچ نمبر دے کر شاندار طریقے سے فیل کردیا۔ اُن کے کمرے میں جو لندن برج کی بڑی سی تصویر فریم شدہ لگی ہوئی تھی، نظریں وہاں جم کر رہ گئیں۔

    رکشہ مارٹن کوارٹرز کے علاقے میں داخل ہوا، جو کہ پرانے اور موٹے تنوں والے نیم، بادام، پیپل اور جامن کے گھنے درختوں سے ہرابھرا، ایک متوسط محلہ تھا۔ حسب معمول مس رضیہ نے رکشہ اپنے گھر کے سامنے رکوایا، جس پر صلاح الدین MA کی سیاہ و سفید تختی آویزاں تھی۔ رکشہ والے کو ڈیڑھ روپیہ کرایہ ادا کیا اور اپنی ٹوکری اٹھا، چھوٹا پھاٹک کھول، باڑھ سے گزرتی ہوئی گھر میں داخل ہوئیں۔ روزانہ گرومندر آتے ہی وہ پرس سے، گھر کی چابی نکال کر ہاتھ میں لے لیا کرتی تھیں۔

    ۱۹۶۵ء میں صحافی صلاح الدین ڈھاکہ سے کراچی آگئے تھے۔ خود بے باک صحافی تھے اور مرے پہ سو درّے بہاری۔ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں، بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں کے مابین ایک عجیب سی بارودی اور خونی فضا قائم ہورہی تھی۔ ناچار بیوی اور ایک تیس سالہ بیٹی، جو کہ ڈھاکہ کے انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھاتی تھی، کو لے کر کراچی میں پناہ گزین اور پھر قیام پذیر ہوگئے۔ کسی طرح یہ کوارٹر الاٹ کروالیا، ایک مقامی اخبار سے منسلک بھی ہوگئے، مگر شاید کراچی کے غیر کلچرل ماحول سے دل برداشتہ ہو کر، میاں بیوی جلد ہی دونوں اگلے جہانوں کو سدھار گئے۔ نتیجتاً چار کمروں، صحن، ورانڈے اور گندی گلی پر مشتمل اس کوارٹر میں رضیہ صلاح الدین تنہا رہ گئیں۔ رشتہ دار سارے ڈھاکہ، نارائن گنج اور چٹاگانگ میں چھوڑ آئی تھیں۔ فر فر بنگالی، انگریزی، فرانسیسی اور اردو بولتی تھیں، لیکن بنگالی ہرگز نہ تھیں۔ آتے ہی گورنمنٹ اسکول میں معقول ملازمت تو مل گئی تھی، مگر معقول بَر اُن کے لیے نہ جڑ سکا۔ فوراً ہی ۶۵ء کی جنگ اور پھر سونے پہ سہاگہ ۷۱ء کی جنگ ہوگئی۔ پاس پڑوس والے جو پہلے ہی اس گھر سے ہارمونیم طبلے کی آواز سن کر ہکا بکا رہتے تھے، کہ کیسے باپ بیٹی ہیں۔ باپ طبلہ بجاتا ہے اور بیٹی ہارمونیم بجا کر نذرالسلام کے گیت گاتی ہے، وہ بھی بنگلہ میں۔ ۷۱ء کی جنگ کے بعد تو انھوں نے رضیہ صلاح الدین پر کفر کا فتویٰ ہی لگادیا۔

    کراچی جو کہ ثقافتی طور پر بیابان تھا، جہاں طبلہ اور ہارمونیم کی آواز صرف نیپئرز روڈ پر سنی جاسکتی تھی وہاں بھلا مارٹن کوارٹرز جیسے سفید پوش محلے میں موسیقی کا کیا کام؟ اب برسوں سے محلے والوں نے رضیہ کا حقہ پانی بند کررکھاتھا مگر رضیہ صلاح الدین کان لپیٹے، گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر آتی جاتی رہیں۔ رات کو گانا اب بھی گاتیں مگر دھیمی آواز میں۔ تنہا عورت کی زندگی ہی کیا۔ کھانے پکانے کے جھمیلے سے آزاد روزآنہ ہی دال اور کبھی کبھار سبزی پکا لیا کرتیں۔ ناشتے میں دودھ اور پھل بسکٹ کھالیے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

    باہر بیٹھک میں ابا جان کے زمانے میں بہت رونق ہوا کرتی تھی۔ کبھی شاعر جمع ہیں، تو کبھی دانشور۔ کوئی گلوکار، اداکار یا شاعر ہندوستان سے بھولے بھٹکے آگیا تو صلاح الدین اور رضیہ کی تو بن آتی۔ شمع بیگم چائے کی درجنوں پیالیاں بھجوا کر تھک جاتیں۔ رات سے صبح ہوجاتی، مگر محفل برخاست نہ ہوتی۔ شمع بیگم کے گزر جانے کے بعد چائے کی پیالیوں کی جگہ مئے کے پیالوں نے لے لی تھی۔ پھر وہ سلسلہ بھی منقطع ہوا۔ اب بیٹھک کے نام پر ایک پرانا غالیچہ، بانس کی رنگیں چلمنیں، بید کی کرسیاں، تخت اور چھت تک کتابیں رہ گئی تھیں۔ ہفتے میں ایک بار رضیہ اُس کی خود صفائی کرتیں۔ پرانے البم دیکھتیں۔ کوئی کتاب کھول لیتیں، جن سے ابا جان کی مہک اب بھی آتی۔ چٹاگانگ اور سلہٹ سے خریدے ہوئے دستکاری کے نمونے، ذین العابدین کی تصاویر، اور پٹ سن کے ڈیکوریشن پیس جھاڑتیں اور پھر ایک ہفتے کے لیے اپنے اس چھوٹے سے ڈھاکہ کا دروازہ بند کردیتیں۔ اس بیٹھک کا ایک دروازہ باہر کھلتا تھا، جس پر اس وقت وحید امتیاز دستک دے رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں اپنے سامان کا بیگ اور دوسرے ہاتھ میں گھر کے پتے کی وہ پرچی دبی تھی، جو مس رضیہ نے آج اسکول کے دفتر میں اُسے تھمائی تھی۔ وحید امتیاز اب مس رضیہ کا نان پے انگ گیسٹ تھا۔

    کہتے ہیں مصیبت بول کر نہیں آتی، مگر اس وقت ایک چھ فٹی مصیبت، بلکہ بدقسمتی اُن کے دروازے پر باآواز بلند دستک دے رہی تھی۔ اماّں حوّا سے لے کر رضیہ صلاح الدین تک انسان خطائیں کرتا چلا آیا ہے، انجانے میں۔ ایسی خطائیں بظاہر انسان کو آکاش میں اڑاتی ہیں لیکن پھر پاتال میں دھکیل کر اگلے شکار کی تلاش میں نکل جاتی ہیں۔ یہی رضیہ کے ساتھ ہوا۔ وحید امتیاز کو وہ گھر لائی تھیں، تاکہ اُس کے ذریعے اپنے ہدف (یعنی انگلستان میں سکالر شپ) کے قریب ہوسکیں مگر زندگی انسان کی تابع کب ہے؟ وہ تو اپنے ڈھب سے چلتی ہے۔ وحید نے پوچھا، ’’سامان کہاں رکھوں؟ ارے، یہ تو آپ کا گھر ہے؟ زبردست۔‘‘ وحید ادھر اُدھر دل چسپی سے دیکھنے لگا پھر بولا، ’’کافی بڑا ہے۔ اور کون کون رہتا ہے یہاں؟‘‘ مس رضیہ نے سختی سے اُسے گھورا اور بیٹھک کی جانب اشارہ کردیا، جہاں ابا جان کے تاریخی تخت پر وہ اُس کے لیے گدا، رضائی بچھا چکی تھیں۔ بولیں، ’’یہ کمرہ تم استعمال کرسکتے ہو۔ بس رات کو سونا ہی تو ہے۔‘‘ یہ کہہ کر پلٹنے لگیں تو وحید بول پڑا ’’لیکن۔۔۔ حمام اور پا خانہ؟ اُس کے لیے کہاں جانا ہوگا؟‘‘ تب رضیہ کو یاد آیا کہ صحن میں ایک غسل خانہ اور ایک پاخانہ ہے، جس میں ساجھے داری ہوگی۔ تیوریوں پر بل آنے لگے۔ لیکن پھر سپورٹس ڈے، مہمان خصوصی، سکالرشپ اور خنک لندن کو ذہن میں لاکر، مسکرا دیں۔ حمام کی جانب اشارہ کیا اور اپنے کمرے کی جانب چلی گئیں۔ آج رات پہلی مرتبہ انھوں نے اپنے کمرے کے دروازے کو بند کیا اور اندر سے کنڈی لگالی۔

    اگلی صبح وہ دفتر میں مس افسر پر برس رہی تھیں۔ اُن کی شکایت ملی تھی کہ نہ صرف اسٹاف روم بلکہ کلاس کے دوران بھی وہ سوئیٹر بنتی رہتی ہیں۔ مس افسر کی نظر جھاڑن میں غرق آیا زاھدہ کی جانب چلی گئی، کہ ضرور اس کمینی نے چغلی کھائی ہوگی۔ مسز احمد اور مس قیصر بھی حسب توفیق اپنی اپنی بے عزتی کے انتظار میں بیٹھی تھیں کہ وحید امتیاز چلا آیا۔ سیٹی پر ’’کوکو کورینہ‘‘ بجا رہا تھا۔ آتے ہی دھڑ سے بولا، ’’مس رضیہ! مچھر بہت ہیں آپ کے۔۔۔‘‘ گھر کہنا چاہ رہا تھا، کہ مس رضیہ نے اُس کی بات اچک لی اور بولیں، ’’جی ہاں، مسٹر وحید امتیاز۔ درست، اسکول گراؤنڈ میں مچھر بہت ہوگئے ہیں۔ آج ہی DDT سپرے کروادیا جائے گا۔‘‘ اور آنکھوں سے اُسے گھورا کہ اس راز کو راز ہی رہنے دیں۔ تینوں استانیاں چیل کی طرح اُن پر نظریں گاڑھے بیٹھی تھیں مگر کچھ جان نہ پائیں۔ وہ چلا گیا۔ مس رضیہ نے قہرآلود نظروں سے مس افسر کو دیکھا اور بے عزتی کرنے کا سلسلہ وہیں سے جوڑ دیا، جہاں سے منقطع ہوا تھا۔ مس افسر صاف مکر گئیں کہ انھیں تو سوئٹر بننا کیا، سلائیاں تک پکڑنا نہیں آتا۔

    Attention Staff:

    ’’سپورٹس ڈے میں صرف دو ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ جو طالبات اور اساتذہ اس سرگرمی میں حصہ نہیں لے رہے، وہ ناظرین میں بیٹھیں گے۔ جس کے بعد ایک مینا بازار بھی منعقد کیا جائے گا۔ جس میں کھانے پینے کی چیزیں، دہی بڑے، چنا چاٹ، فروٹ چاٹ، چھولے، گول گپے اور شربت وغیرہ بیچے جائیں گے۔ یہ سامان تمام ٹیچرز اپنے گھروں سے بنا کر لائیں گی۔‘‘

    اس انکشاف کا نوٹس رجسٹر میں لکھا گیا تھا، جو آیا زاھدہ نے، ہر استانی کو پڑھوا کر، اُن سے دستخط لیے۔ مسز احمد نے پھر سر پیٹ لیا، کہ پڑوسن کے ہاں ننھا تو سارا دن ماں کو نہ پاکر روتاہی رہے گا۔ ابھی تک انھوں نے اوپر کا دودھ جو شروع نہیں کیا تھا۔

    اگلی صبح رضیہ صلاح الدین صبح کی ہوا خوری اور غسل کے بعد، انگریزی اخبار ڈان کی سرخیاں دیکھنے میں غرق تھیں۔۔۔ بھٹو کا دور چل رہا تھا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس اور پاکستان میں پہلی مرتبہ آئین کے نفاذ جیسے تاریخی واقعات پر تبصرے اب بھی جاری تھے۔ ایڈیٹوریل وہ اسکول جاکر انٹرول کے دوران پڑھتی تھیں۔ سامنے پاپے اور سیب کی چند قاشیں پڑی تھیں، چائے کی نفیس پیالی ہاتھ میں تھی، کہ وحید امتیاز نہا کر تولیے سے سینہ رگڑتے ہوئے، صرف پتلون پہنے چلا آیا اور بولا، ’’مس رضیہ، میں چار انڈوں کا آملیٹ، توس اور آدھ سیر دودھ، ناشتے میں لیتا ہوں۔ ذرا جلدی کردیں۔ دیر ہورہی ہے۔ آپ کے ہاں پانی بہت کم آتا ہے۔‘‘ مس رضیہ ہکا بکا رہ گئیں۔ وحید امتیاز نے اپنے قیام کو قیام و طعام کیوں کر سمجھ لیا تھا؟ وہ سوچتی رہ گئیں۔ اب یہ ہوٹل جاکر ناشتہ کرے گا تو یقیناً اسکول کے لیے لیٹ ہوجائے گا۔ آجکل تو آدھی چھٹی سے پہلے کے تمام پیریڈز، صرف سپورٹس ڈے کی تیاریوں، اسکول بینڈ پر ’’پاک سرزمین شادباد‘‘ اور ’’اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ گانے کی پریکٹس کے لیے وقف کردیے گئے تھے۔ وحید کا وقت پر پہنچنا بہت ضروری تھا۔ ناچار قدم باورچی خانے کی جانب اٹھ گئے۔ اندر بیٹھک میں وہ مادام نورجہاں کا فلمی گیت ’’سانوں نہر والے پل تے بلا کے‘‘ زور زور سے گاتے ہوئے تیار ہورہا تھا۔ اس گھر میں ہمیشہ نذرالاسلام کے میٹھے گیت اور عبدالعلیم کی مدھر آواز میں گائی گئی بھٹیالی دھنیں سنی اور گائی گئی تھیں۔ اب ٹرانزسٹر پر وہ دن رات پنجابی فلمی نغمے ہی سنا کرتا تھا۔ جانے کون سا اسٹیشن لگا بیٹھتا تھا، شاید ریڈیو پنڈی کہ لاہور۔ مس رضیہ کو یہ سمع خراشی طوہاً و کرہاً برداشت کرنا پڑتی تھی۔ کم بخت کھاتا بھی بہت تھا۔ ایک وقت میں چار روٹیاں، دو پلیٹ سالن اور سیروں کے حساب سے کھیرے، مولی، گاجر کا سلاد۔ اوپر سے ہر وقت آلو گوشت، ساگ گوشت یا قیمے کی فرمائش الگ ہوتی تھی۔

    اوّل تو رضیہ کو گوشت کے نام سے چڑ تھی۔ کبھی دل چاہا تو پاؤ بھر قیمہ پکا لیا، وہ ہفتوں ختم نہ ہوتا۔ وہ بے چاری تو دال ماش، مسور، ارھر، اور چنے کی عادی تھیں۔ کبھی پتلی دال کے ساتھ مچھلی سینک لی، کبھی کبھار ڈھا کہ پلاؤ مرغی سے بنالیا۔ لیکن اب آئے دن، بلکہ روزانہ ہی گوشت سبزی کی ٹوکری اٹھائے، محلے کے مونچھڑ قصائی کے آگے کھڑی رہتیں۔ ایک دن قصائی سادگی سے بولا، ’’اکیلی جان، اتنا گوشت کیا کرو گی آپا؟ کیا دعوت وعوت کررہی ہو؟‘‘ دوسرے ہاتھ میں بید کی ٹوکری سے ڈھیروں سرسوں کا ساگ، پالک، مولی وغیرہ جھانک رہے تھے، نازک سا بازو ٹوٹا پڑ رہا تھا۔ قصائی بولا، ’’اچھا اچھا شادی طے ہوگئی ہوگی تمھاری۔ مبارک ہو۔‘‘

    اُس دن رضیہ صلاح الدین پر آشکارا ہوا کہ چاہے انھوں نے محلے والوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہو، محلے والوں نے اُن سے علیحدگی اختیار نہیں کی۔ اب تو وہ اور بھی گھبرا گئیں۔ وحید امتیاز کا بلاوجہ اور بلا وقت باہر نکلنا اور اندر آنا جانا بند کردیا گیا۔ گندی گلی میں اکثر عورتیں کچرا پھینکنے اور پڑوسنوں سے مسکوٹیں کرنے کے لیے اندر باہر ہوتی رہتی تھیں۔ رضیہ خود وہاں سے آنے جانے لگیں، اور وحید کو مغرب کے ذرا بعد اندھیرے میں آنے کی تاکید کردی۔ اتوار آیا، رضیہ صلاح الدین آج اپنے چھوٹے سے ڈھاکہ کی صفائی کے ارادے سے بیٹھک میں گئیں۔ تو وہ پھر قمیض اتارے، صرف نیکر پہنے بے خبر سو رہا تھا۔ رضائی آدھی نیچے گرچکی تھی اور گندے کپڑوں کا ایک ڈھیر ابا جان کی کتابوں اور اُن کے یادگار المبوں پر پڑا تھا۔ کمرے میں ایک عجیب مردانہ سی بُو رچ سی گئی تھی۔ انھیں بے اختیار ڈھاکہ کا Robin یاد آگیا۔ رابن بنگالی یونیورسٹی میں اُن کا کلاس فیلو تھا، جس سے رضیہ نے زوروں کا عشق کیا تھا۔ ابا جان نے بھرپور مخالفت کی، کہ وہ نہ صرف بنگالی ہے بلکہ قد میں رضیہ سے بہت کم ہے۔ بعد میں رابن جس کا اسلامی نام ابوالکلام تھا، آگے پڑھنے کے لیے جرمنی چلا گیا اور رضیہ نے ہر آنے والے رشتے سے انکار کرکے، اپنی عمر ڈھلکالی۔ نتیجتاً صلاح الدین صاحب انھیں لے کر پاکستان چلے آئے۔

    آج پورے پندرہ سال بعد انھوں نے کسی مرد کو اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ وہ بلاوجہ شرما گئیں۔ وحید کی چوڑی چھاتی پر اور بغلوں میں سیاہ بال کتنے جان لیوا لگ رہے ہیں۔ وحید نے کروٹ لی تو دھڑکتے دل سے باہر آگئیں۔ آج کتنے سالوں بعد دل پھر اُسی شدت سے دھڑکا تھا۔ اپنے آپ کو ڈانٹا، سرزنش کی کہ وہ تم سے چھوٹا ہے، ماتحت ہے، تمھارا ادب و احترام کرتا ہے۔ مگر یہ سب دماغ کی خرافات تھیں۔ دل تو بس دوڑ کر اُس سے چمٹ جانے کو چاہتا تھا۔ بارہ بجے نیند پوری کرکے، جب وحید باہر آیا تو رضیہ اُس کے بدبودار کپڑے، جانگیے، تولیے اور موزے ڈنڈے سے کوٹ کوٹ کر دھوچکی تھیں۔ اب الگنی پر انھیں پھیلایا جارہا تھا۔ اگر یہ کپڑے محلے کی لانڈری میں دیتیں، تو دھوبی کی سوالیہ نظروں کا کیسے سامنا کرتیں۔ کسی کام والی کو بھی گھر نہیں بلاسکتی تھیں۔ بے بس ہو کر، بیٹھک یعنی کہ وحید کے کمرے کی بھی تفصیلی صفائی کر ہی ڈالی۔ کمر پر دوپٹہ کسے، شکن آلود سوتی کرتے پاجامے میں ملبوس اس عورت کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا، کہ وہ گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول، جیکب لائنز کی MA-BEd پرنسپل رضیہ صلاح الدین ہیں، جو عنقریب، اسکالر شپ پر لندن جانے کے حسین خواب دیکھ رہی ہیں۔

    اسپورٹس ڈے میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا تھا۔ مہرالنساء کلاس میں فرسٹ آتی تھی، پھر بھی وہ امتحانات کی تیاری کررہی تھی جب کہ مجھے اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صرف سر وحید نظر آرہے تھے۔ کتاب ہاتھ میں لیے، میں اُس پر باربار W اور A لکھا کرتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے پہلی مرتبہ کسی مرد سے واسطہ پڑا تھا۔ خاندان کے بہت سے کزنز، خاص کر عتیق مجھ پر اکثر زور آزمائی کرتا، لیکن میں اپنے ہم عمر لڑکوں میں ذرا دل چسپی نہ رکھتی تھی۔ عتیق سے تو میں زیادہ لمبی تھی، بابو بھائی کے منہ سے بہت بدبو آتی تھی، اظہر کے ہاتھ بہت کھردرے تھے۔ انّو کے چہرے پر بہت کیل مہاسے تھے، گھن آتی تھی مجھے اُس سے۔ اور یہ سب ابھی تک ٹی وی پر کارٹون دیکھتے تھے، پتنگیں لوٹتے تھے یا زبردستی شیو کرکے، بالغ نظر آنے کی ناکام کوشش کرتے تھے۔ جب کہ سر وحید تو ہمارے مشہور فلمی ستارے وحید مراد سے بھی زیادہ سجیلے تھے۔

    سردیاں تھیں، اس لیے وہ سپورٹس ٹراؤزراور ہلکی جیکٹ کے اندر چست ٹی شرٹ پہن کر آرہے تھے جس میں کسی انگریزی فلم کے ہیرو لگتے تھے۔ جمناسٹک کے لیے ایک مرتبہ انھوں نے مجھے دونوں بازوؤں سے اٹھا کر، اونچے والے ڈنڈے تک پہنچادیا تھا۔ پھر تو میرے پاؤں زمین پر نہ رہے تھے۔ باسکٹ بال بھی وہ بجلی کی طرح کھیلا کرتے تھے۔ رسہ کشی میں جب lXA اور lXB کا مقابلہ ہوا، تو سر وحید ہماری لائن میں سب سے آگے لگ گئے۔ کیوں کہ ادھر کی لڑکیاں کافی کمزور تھیں۔ ہم سب نے بازوؤں سے سامنے والی کی کمر کو کس کر تھامنا تھا۔ میرے آگے سر وحید تھے، میں اس کھینچا تانی اور رسہ کشی میں بار بارپڑنے والے دھکوں کی بدولت، سر وحید سے جا چمٹتی۔ اللہ! میرے جسم میں کرنٹ دوڑ رہا تھا لیکن وہ بے نیاز تھے۔ مہرالنساء میرے پیچھے تھی۔ انٹرول میں ہم دونوں نے کینٹین سے patties خریدی اور نیم کے نیچے، پتھر کی مخصوص بینچ پر بیٹھ گئیں۔ مہرالنساء میرے حال دل سے واقف تھی۔ میں بولی، ’’سر وحید نے میرا نوٹس تک نہیں لیا۔‘‘ اپنے آپ کو دیکھ کر میں مایوسی سے بولی، ’’اس لیے کہ۔۔۔ میرے یہ۔۔۔ بہت چھوٹے ہیں۔‘‘ مہرالنسا شرم سے لال ہو کربولی، ’’چپ ہوجاؤ۔ کوئی سن لے گا۔‘‘ میں نے کہا، ’’سنا ہے لڑکے صرف اُن لڑکیوں سے پیار کرتے ہیں، جن کے۔۔۔ بڑے بڑے ہوں۔ دیکھو مس رقیہ، مس افسر،‘‘ مہرالنساجلدی سے بات کاٹ کربولی، ’’اور مس رضیہ؟ اُن کا تو بلاؤز پھٹ پڑتا ہے، اتنے بڑے ہیں۔ انھیں تو کوئی پیار نہیں کرتا؟ غلط سنا ہے تم نے۔ یار patties اتنا چھوٹا سا تھامجھے اور بھوک لگ رہی ہے۔ ایک ایک اور کھائیں؟‘‘ میں بے دھیانی میں، ہاتھ میں پکڑے چاک سے بینچ پر گول گول دائرے بنا رہی تھی۔ انٹرول ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی۔ جاتے جاتے میں نے دیکھا کہ سر وحید، اکیلے ہی اچھل اچھل کر باسکٹ بال کو ring میں ڈال رہے تھے۔ اور مس رضیہ اپنے آفس کے باہر کھڑی انھیں مسکراتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ کیا میری طرح اُنھیں بھی سر وحید سے پیار ہوگیا ہے؟ نہیں، یہ نہیں ہوسکتا۔ میں خوفزدہ ہوگئی۔

    اب مس رضیہ، مسز احمد سے بھی پہلے اسکول سے بھاگنے کی تیاریاں کرلیتی تھیں۔ انٹرول میں روزنامہ جنگ یا ڈان کے اداریے پڑھنے کے بجائے، گھر کا بجٹ، تیل، آٹا، دال، چاول، سبزی وغیرہ کی فہرست مرتب کیا کرتی تھیں۔ دودھ والا صبح پانچ بجے آتا تھا، اُس کی سائیکل کی گھنٹی سنتے ہی وہ بستر سے اچھل کھڑی ہوتیں۔ دو سیر دودھ ابلنے کے لیے چڑھا کر، سیر بھر آٹا گوندتیں، پھر ناشتہ اور دوپہر کا سالن بناتیں۔ ایک دن اسکول سے نکل کر جامع کلاتھ مارکیٹ چلی گئیں۔ مردانہ کھلے کپڑے کی دکان سے اصلی کھڑ کھڑاتاسفید لٹھا اور ایک ہلکے آسمانی رنگ کا پاپلین لیا۔ دکان دار سے جھجکتے ہوئے پوچھا، ’’ایک لمبے چوڑے مرد کے شلوار قمیض کے لیے کتنے گز کپڑا درکار ہوگا؟‘‘ دکاندار بولا، ’’سات میٹر باجی۔ اب گز کہاں، میٹر میں کپڑا ناپا جاتا ہے۔ سیر گیا اور کلو گرام آگیا ہے۔ ہاہاہا‘‘ اور پھر وہ ہنستا ہی رہا۔ مس رضیہ کو اُس کی ہنسی بہت معنی خیز لگی، جیسے کہ اُن کی چوری پکڑی گئی ہو کہ وہ یہ کپڑا اپنے paying guest کے روپ میں محبوب کے لیے خرید رہی ہیں۔ عجلت میں پیسے ادا کیے اور کاغذ کا تھیلا اٹھا کر، ایمپریس مارکیٹ گوشت وغیرہ خریدنے پہنچ گئیں۔ بار بار ان بازاروں کا چکر لگانے کے جھنجٹ سے بچنے کے لیے، انھیں ایک چھوٹا فرج بالآخر خریدنا ہی پڑا، تاکہ ہفتے بھر کا گوشت، مچھلی، دودھ، انڈے اور کباب اُس میں ٹھونسے جاسکیں۔ اُن کے ہاتھ چوم چوم کر وہ پراٹھے، کباب، آملیٹ اور ہاتھ کا کٹا بھنا قیمہ کھایا کرتا تھا۔ دال سے اُس کا پیٹ خراب ہوجاتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وحید امتیاز کوئی ندیدہ شخص تھا، یا مس رضیہ کو جان بوجھ کر مشکل میں ڈال رہا تھا، بلکہ پندرہ سال کی عمر میں، پنجاب کے عام گھرانوں کی طرح اُسے بھی فوج میں رنگروٹ بھرتی کروا دیا گیا۔ تگڑے ڈیل ڈول کے باعث اُس نے بہت جلد کھیلوں اور کھیل کے مقابلوں میں اپنا لوہا منوالیا۔

    فوج میں سب سے کام جم کر لیا جاتا تھا اور اس کے بدلے میں کیڈٹس کو ڈٹ کر کھانے کی اجازت ہوتی تھی۔ اُس کی خوراک پچھلے بیس سال سے ایسی ہی تھی۔ دوسرے اُس نے اپنی ماں سے لے کر، پھوپھی، دادی، پڑوسن سب ہی کو کھیتوں میں اور پھر گھر کے کام کاج خصوصاً چولہا چکی کرتے دیکھا تھا۔ اُس کے دماغ میں یہ بات کیسے بیٹھتی کہ اس گھر میں وہ بھی ہاتھ بٹائے۔ غرض جامع کلاتھ اور پھر ایمپریس مارکیٹ سے بدبودار مچھلی اور جھینگے لیے رضیہ صلاح الدین گھر پہنچیں، تو رازداری کے باعث وحید کو رکشے تک بھی نہ بلاسکیں، مبادا ایک غیرمرد کے گھر میں رہنے کا راز کھل جائے۔ اور پھر چند ماہ ہی کی تو بات تھی۔ پھر تو وہ لندن چلی جائیں گی۔

    رات کو حساب لگایا تو غلے اور سودا سلف پر آدھی سے زیادہ تنخواہ خرچ ہوچکی تھی۔ وحید کے لیے دو جوڑے، پشاوری سینڈل، پلنگ کے لیے ایک کھیس، لحاف کا نیا کپڑا، دو بڑے تولیے، موزوں کی چار جوڑی۔ چلو تنخواہ ملے گی تو وحید کھانے کے پیسے دے ہی دے گا۔ ہر ماہ وہ بچت کرکے لندن جانے کے لیے روپوں کو پاؤنڈز میں تبدیل کرکے رکھ رہی تھیں۔ کئی مرتبہ ٹاور برج پر، اوور کوٹ پہنے اور چھتری تانے خود کو دریائے ٹیمز کے کنارے ٹہلتے دیکھ چکی تھیں۔ شیکسپیئر کے تھیٹر بھی دیکھ چکی تھیں۔ وحید کے دونوں جوڑے جب سل کرآئے تو رضیہ کی خوشی کا ٹھکانہ نا رہا۔ کم بخت نے ابا جان کی شال بھی اوڑھ لی۔ رضیہ کا تو کلیجہ ہی لوٹ لے گیا۔ اُس شام دونوں آگے پیچھے گھر سے نکلے، رکشے میں بیٹھ پہلے کلفٹن، ساحل سمندر کی سیر کی، پھر صدر کے ایک ایرانی ہوٹل میں کھانا کھایا اور سنیما میں ندیم شبنم کی فلم ’’چاہت‘‘ دیکھی۔ رضیہ سے پیسے لے کر، وحید نے باکس کے ٹکٹ خریدے، تاکہ ذرا بے تکلفی سے فلم کا مزہ لیا جاسکے۔ رضیہ بھی نظروں ہی نظروں میں اُس پر نثار ہوتی رہیں۔ راستے بھر اور گھر پہنچ کر بھی وحید، پیار بھرے دو شرمیلے نین گاتا رہا۔ اشارہ واضع رضیہ کی جانب تھا۔ اُس رات رضیہ ایک سرور کے عالم میں ڈوبی رہیں۔ دونوں دیر تک صحن میں بچھی چاندنی میں نہائے، محبت کے طلسم میں محو ہوتے رہے۔ وحید نے گستاخیاں کیں، رضیہ نے ادائے دلبرانہ سے مزاحمت کی۔ آدھی رات کو جب وہ غسل خانے سے نکل کر اپنے کمرے کی جانب جانے لگا، تو دیکھا کہ رضیہ صلاح الدین کا دروازہ خلاف معمول، ہلکا سا بھڑا ہوا ہے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ اُس رات رضیہ اور وحید ایک ہوگئے۔

    بالآخر سپورٹس ڈے آگیا۔ آج میں کسی صورت لیٹ نہیں ہوں گی۔ کسی گزرتے سے ٹائم پوچھا تو ابھی پونے سات ہوئے تھے۔ آج میری چال میں الگ ہی ترنگ تھی۔ صبح چپکے سے باجی کی موٹی سی بریزئر اڑا کر اس وقت میں نے پہن لی تھی۔ اس کا بکرم اس قدر چبھ رہا تھا اور سانس الگ گھٹی پڑ رہی تھی، مگر میں پر اعتماد تھی کہ اب تو سر وحید مجھ پر نظر کرم ڈال کر ہی رہیں گے۔ گلی مڑی تو اسکول کی عظیم عمارت دور سے نظر آنے لگی۔ اچانک پاس سے ایک رکشہ گزر کراسکول سے بہت دور رک گیا۔ مس رضیہ اُس میں نمایاں تھیں، جنھوں نے آج کے دن کی مناسبت سے بہت شوخ ساڑھی پہن رکھی تھی۔ اُن کے ساتھ سر وحید بھی رکشے میں تھے۔ آہستگی سے سر وحید اترے اور رکشہ مس رضیہ کو لے کر اسکول کی جانب چل پڑا۔ میرے اٹھتے قدم وہیں رک گئے۔ اچھا، سر وحید نے ان سے لفٹ لی ہوگی؟ دماغ نے کہا اگر لفٹ لی تھی، تو دور اترنے کا کیا مطلب تھا؟ میں نے ہمت نہ ہاری اور جلدی سے سر وحید کے قریب آگئی اور بولی، ’’گڈ مارننگ سر!‘‘ وحید بولا، ’’گڈ مارننگ بے بی۔‘‘ میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بولا، ’’میرا نام عالیہ احمد ہے سر۔‘‘ میں نے دوپٹے کی ’V‘ کو اوپر کھسکا لیا تھا۔ تاکہ وہ میرے ’’عظیم کارنامے‘‘ کا اطمینان سے جائزہ لے سکیں۔ اور پھر بولی، ’’lXB کی عالیہ احمد۔‘‘ میں نے انھیں احساس دلانا چاہا کہ وہ کس قدر بے نیاز اور کٹھور ہیں اور بولی، ’’اور میں بے بی ہرگز نہیں ہوں۔‘‘ وحید بولے،

    ’’I know... show me your best today, Aliya‘‘

    انھوں نے مجھے PT انسٹرکٹر کے طور پر cheer up کرتے ہوئے تھپتھپایا اور گیٹ کے اندر داخل ہوگئے۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ اندر سپورٹس ڈے کی تیاری، کسی بڑے آدمی کی بارات کی طرح عروج پر تھی۔ مہمان خصوصی کو X کلاس کی ہیڈ گرل اور میں نے گلدستہ پیش کیا۔ سعیدہ نازنے تلاوت کی۔ اُس کے بعد میں نے ’’اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ پیش کیا۔ دل ٹوٹنے کے باعث آواز میں اس قدر درد اور رقت تھی کہ میرا ملی نغمہ مہدی حسن کی اُداس غزل ’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے،‘‘ کی طرح سب کی آنکھوں میں آنسو لے آیا۔ میری آنکھیں بند تھیں۔ میں سر وحید کو دیکھ ہی نہیں سکتی تھی۔

    تالیوں کی گونج پر میں نے آنکھیں کھولیں، مہمان خصوصی اور بغل میں بیٹھی مس رضیہ، اب کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہے تھے، میرے لیے۔ اُن کی سرخ جامدانی ساڑھی اور انگارہ ہونٹ دیکھ کر میں نے زیرلب کہا، ’’چڑیل۔‘‘ میرے بعد مہرالنساء نے ’’پاکستان کا مستقبل سنہرا ہے‘‘ پر تقریر کی، جو مسز احمد نے نہ صرف لکھی تھی، بلکہ اُسے رٹائی بھی۔

    مس زہراء بولیں، ’’دراصل ہم اپنے اسکولوں میں طالب علموں کے بجائے، رٹو طوطے تیار کررہے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں دماغ کے بند پنجرے لیے یہ رٹو طوطے، ہر تعلیمی ادارے سے نکالے جارہے ہیں۔‘‘ زہراء کاظمی حال ہی میں امریکا رہ کر آئی تھیں۔ گراؤنڈ کے پچھلے حصے میں مینا بازار منعقد ہورہا تھا۔ مسز احمد اور مس واسطی اُن میزوں کی نگرانی کررہی تھیں۔ مس زہراء کاظمی سے کسی کی نہیں بنتی تھی، کیوں کہ وہ نہ تو کلاس میں سوئٹر بنتی تھیں، نہ سوتی تھیں، صرف پڑھاتی تھیں، ڈرائنگ ٹیچر تھیں۔ تیکھا بولتی تھیں اور اونچے کُرتے پر بیل بوٹم پہن کر آتی تھیں۔ کالر والی قمیض اور دوپٹے کے نام پر برائے نام ایک دھجی پڑی ہوتی تھی۔ بال بھی شیگی کٹ کیے ہوئے تھے۔ میری اور دوسری ہم جماعتوں کی تو وہ گویا آئیڈیل تھیں۔ لڑکیاں اُن سے comics مانگ کر پڑھا کرتی تھیں۔ مسز احمد نے پوچھا، ’’تو آپ کے خیال میں مہرالنساء نے تقریر رٹ کر کی تھی؟‘‘ مس زہراء بولیں، ’’جی ہاں! صاف نظر آرہا تھا کہ وہ دقیق الفاظ اور خیالات آپ نے اُس کے منہ میں ٹھونسے تھے۔ ورنہ وہ کم از کم یہ تو جانتی کہ پاکستان کا سنہرا مستقبل دراصل وہ خود ہے۔‘‘ مسز احمد ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے بولیں، ’’مس واسطی وہ پاپڑی دیں۔ چاٹ کا مزہ کرِکرِہ ہوگیا۔‘‘ مس زہراء بولیں، ’’اور تقریر کیا، ان کو تو پہاڑے، نظمیں، essays، حساب کے سوال جواب، فزکس، کیمسٹری، بیالوجی تک رٹائی جاتی ہے۔ Practicals بھی وہ یاد کرتے ہیں، بجائے experiment کرنے کے۔‘‘ مسز احمد بولیں، ’’اس سے بچوں کی فرسٹ ڈویژن آتی ہے مس زہراء۔ آپ دیکھیے گا اس سال ہمارے اسکول کا میٹرک رزلٹ 100% ہوگا۔‘‘ پھر مس زہراء نے کہا، ’’رٹ کر نمبر حاصل کرلینا علم نہیں ہے مسز احمد۔ غوروخوض کرنا، ’کب‘ کے بجائے ’کیوں پوچھنا اور جواب رٹنے کے بجائے سوال کرناہی دراصل علم حاصل کرنا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم اور آپ جیسے اساتذہ ان کے دماغوں کو کھولنے کے بجائے، ان پر تالے لگارہے ہیں۔‘‘ مسز احمد نے طنزکیا، ’’لگتا ہے چھ ماہ میں آپ کو امریکا کی زیادہ ہی ہوا لگ گئی۔ آپ، ہپی کیوں نہیں بن جاتیں؟ freesoul؟ ہاہاہاہم یہاں برٹش سسٹم فالو کرتے ہیں۔‘‘ مس زہراء بولیں، ’’برٹش سسٹم نہیں غلامانہ سسٹم کہیے۔ ابھی بھٹو صاحب جو nationalisation کے نام پر تعلیم کا بیڑہ غرق کررہے ہیں، یہ ہمارے سسکتے تعلیمی نظام کی موت ہوگا۔ چند سال میں دیکھ لیجیے گا، بچہ بچہ مفت تعلیم حاصل کرنے کے بجائے، وہ بچے بھی کم علم اور جاہل رہ جائیں گے، جو کم از کم پرائیویٹ اسکولز میں بہتر تعلیم تو حاصل کررہے ہیں۔‘‘

    مجھے اس علمی بحث سے کوئی غرض نہ تھی۔ میں تو سر وحید کی بے وفائی سے دل برداشتہ، ٹوٹے دل کے ساتھ وہیں بینچ پر بیٹھی پاؤں جھلا رہی تھی۔ آج نہ تو میں نے بیڈمنٹن کا match کھیلا تھا، نہ ہی رسہ کشی میں آگے گئی تھی۔ سر وحید نے اشارے اور whistle سے مجھے بلایا بھی تھا۔ آج سب لڑکیاں سفید یونیفارم میں تھیں۔ لگتا تھا ہم سب نے کفن اوڑھ لیے ہوں۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ رسی لڑکیوں کے ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ سب ایک دوسرے پر گریں۔ سب کی ہڈیاں چکنا چور ہوجائیں۔ مہمان خصوصی، جو اب چڑیل مس رضیہ کے ساتھ سارے اسکول کا معائنہ کررہے تھے، چکنے فرش پر پھسل جائیں۔ اُن کی ٹانگ اور مس رضیہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے۔ وہ وھیل چیئر پر آجائیں، جسے زاھدہ دھکا بھی نہ دے اور وہ !come here! come here چلاتی بے بسی سے بیٹھی رہ جائیں۔

    بلکہ، بلکہ انڈیا کا طیارہ آکر، ہمارے اسکول پر بم گرائے اور سوائے میرے، مہرالنساء کے اور سر وحید کے سب مرجائیں۔ میں نے کسی جیٹ طیارے کی تلاش میں آسمان کو دیکھا۔ وہ ویران تھا۔ اچانک ایک خیال سوجھا، میں نے پریکٹیکل جرنل سے ایک بڑا کاغذ نکال کر، اس پر اپنا پہلا محبت نامہ لکھا۔ سروحید کے نام۔ حالِ دل لکھ کر میں ہلکی پھلکی سی ہوگئی۔ اُن کا چھوٹا سا Kit bag قریب ہی پڑا تھا۔ خط کوپوری احتیاط سے اُس میں رکھا۔ عالیہ احمد lXB بھی لکھا۔ کیوں کہX کلاس میں بھی ایک عالیہ احمد چشتی تھی۔ کہیں وہ غلطی سے اُسے تنہائی میں بلا کر۔۔۔ آگے مجھ سے سوچا بھی نہ گیا۔

    سپورٹس ڈے بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ انعامات وغیرہ تقسیم کرکے، مہمان خصوصی نے مس رضیہ کو اگلے ہفتے میٹنگ پر آنے کے لیے کہا۔ یہ اور بات کہ میٹنگ ہوٹل میٹروپول کے ایک ٹھنڈے یخ بستہ اور خواب ناک کمرے میں طے پائی۔ مس رضیہ نے اُس دن اپنی تیاری پرخوب توجہ دی۔ ڈھاکہ کی دستکار عورتوں کے ہاتھ کی نازک کشیدہ کاری والی، ہلکی گلابی ساڑھی اور گہرے فالسئی رنگ کا بلاؤز، غضب ڈھا رہا تھا۔ بازو میں اپنی ضخیم فائل لیے وہ ہوٹل کے سامنے رکشے سے اتریں۔

    مارچ کا مہینہ تھا، جاتی سردیوں کی بہار تھی۔ گلابی سے مخملی اندھیرے میں کراچی شہر کی بتیاں جھلمل ہونے لگی تھیں۔ لابی میں انتظار کرتے ہوئے، انھیں موسمبی کا تازہ رس پیش کیا گیا۔ وائن گلاس کے بلوری کنارے پر خوشبودار موسمبی کی ایک قاش اٹکائی گئی تھی۔ پیا نو پر کوئی کریسچن موسیقارCome September کی خوبصورت رومانوی دھن بجا رہا تھا۔ کچھ غیر ملکی نیچے لابی میں میٹنگز کررہے تھے۔ غرض ہر طرف خوشی، مسرت اور سرور و اطمینان کا ماحول تھا۔ ہوٹل میٹروپول کی لابی جنت کا ایک گوشہ معلوم ہوتی تھی۔ وقت گزارنے کے لیے مس رضیہ نے میٹرک سے لے کر M۔Ed تک کی تمام تعلیمی اسناد کا ازسرنو جائزہ لیا۔ یہ ڈگریاں محض دستخط کردہ کاغذات نہ تھے۔ ایک پورا وقت تھا، زمانہ تھا، عرصہ تھا، زندگی کے بیش قیمت اٹھارہ سال تھے، جو مس رضیہ نے تن من دھن سے اپنی تعلیم کو دیے تھے۔

    اب بہت جلد وہ لندن، کیمبرج یا آکسفورڈ میں D-Lit کی ڈگری حاصل کرلیں گی۔ وحید پنڈی سے سہرا باندھ کر آئے گا اوربس زندگی میں صرف بہار ہی بہار ہے۔ سفید یونیفارم میں ملبوس، ایک باادب سے بیرے نے انھیں چونکا دیا۔ ورنہ تو وہ وحید کے ساتھ، خیالوں میں شب عروسی منا کر، دوسری صبح ساس سسر کے ساتھ چہلیں کررہی ہوتیں۔ تیسری منزل کے خنک کاریڈور میں وہ بہت اعتماد سے چل رہی تھیں۔ نیچے دبیز افغانی قالین بچھا تھا۔ کمرہ نمبر تین سو بارہ کا دروازہ ہلکے سے بجا کر بیرا رخصت ہونے لگا تومس رضیہ نے اُسے پانچ روپے ٹپ دی۔ وہ خوشی خوشی چلا گیا۔ اندر سے وزیرتعلیم کے نائب، جناب سید غیاث الدین جیلانی کی مدہوش سی آواز آئی، ’’come in‘‘ اور مس رضیہ اندر داخل ہوگئیں۔ جیلانی صاحب نے آگے بڑھ کر مس رضیہ کا پرجوش استقبال کیا۔ اُن کے نیم عریاں بازو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے، انھیں خراج تحسین پیش کیا اور گداز صوفے پر بالکل اپنے ساتھ گھسیٹ کر بٹھا لیا۔ مس رضیہ نے گھبرا کر انھیں فائل پیش کی، جیلانی صاحب نے فائل کے بدلے انھیں سرخ مئے کا پیالہ تھمایا۔ مس رضیہ نے جھجک کر، مسکراتے ہوئے کہا، ’’میں، میں نہیں پیتی۔‘‘ جیلانی صاحب کی موٹی آنکھوں میں شراب سے بھی زیادہ سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔ گھنی مونچھوں پر تاؤ دے کر مذاقاً بولے، ’’یہ صرف وائن ہے مس صلاح الدین، red wine، جو آپ جیسی حسین اور طرحدار عورتوں کے لیے تخلیق کی گئی ہے ہاہاہا۔ ساڑھی پہننا تو کوئی آپ سے سیکھے، cheers۔‘‘ بلاؤز میں نظریں گاڑ کر بولے، ’’آپ کی ترقی کے نام۔‘‘ یہ سن کر مس رضیہ نے گلاس ہوا میں اٹھایا اور ایک بہت معمولی سی چسکی، دکھاوے کے طورپر لی۔ جیلانی صاحب بولے، ’’اگر پئیں گی نہیں تو انگلستان کی سردی کیسے برداشت کرپائیں گی آپ؟‘‘ رضیہ نے پوچھا، ’’تو کیا میرا selection ہوگیا ہے جیلانی صاحب؟‘‘ جوش کو چھپاتے ہوئے وہ گویا ہوئیں۔ جیلانی بولے، ’’ابھی ہوجائے گا۔ بس آپ کے تعاون کا انتظار ہے۔ دیکھتے ہیں آپ کیا کارکردگی دکھاتی ہیں۔ ہاہاہا!‘‘ مس رضیہ الجھ کر رہ گئیں۔ آٹھ سو لڑکیوں کا سپورٹس ڈے منعقد کرکے انھوں نے بھرپور تعاون اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اب یہ اور کون سا تعاون چاہتے ہیں؟ بہترین IQ اور جنرل نالج رکھنے والی مس رضیہ اس سادے سے سوال کا جواب نہ سمجھ سکیں۔ جیلانی صاحب زیادہ ذہین تھے، فوراً جواب دے دیا اور بولے، ’’رضیہ ڈارلنگ آپ اور دیگر تین خواتین کے نام فائنل ہوچکے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر جیلانی صاحب نے سیدھے اپنا بھاری ہاتھ رضیہ کے آنچل پر ڈالا، تاکہ شکاری اور شکار کے درمیان کوئی پردہ باقی نہ رہے۔ بولے، ’’جو عورت زیادہ تعاون کرے گی وہ اگلے ہفتے ہی ٹریول کرے گی۔ لندن میرا آنا جانا لگا رہتا ہے سرکاری سلسلے میں، تو باقی تعاون وہاں ہوجائے گا، ہاہا۔ بسم اللہ کریں۔ اس خوبصورت رات کو گفتگو میں ضائع مت کریں سائیں، Cheers۔‘‘ وہ خاصے قریب ہوگئے۔ مس رضیہ کو مطلق سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کریں۔ شراب کے بھپکے جیلانی صاحب کے سانسوں کی بدبو اور سگار کے تمباکو کے ساتھ مل کر اُن کے منہ پر ناچ رہے تھے۔ صوفی اور پیر گھرانے کے چشم و چراغ، اُس وقت اپنا جسم اور روح دونوں کو برہنہ کیے دے رہے تھے۔ بہت مہنگا کولون بھی اُن کی اس بدبو کی پردہ پوشی کرنے سے معذور تھا۔ مس رضیہ نے ہمیشہ اُنھیں عزت سے زیادہ عقیدت دی تھی، لیکن اس وقت وہ شخص خباثت کی تصویر نظر آتا تھا۔ اب لندن برج انھیں پل صراط لگنے لگا۔ بال سے بھی زیادہ باریک۔

    اگر وہ اسے برہنہ پار کرجاتی ہیں تو پل کے اُس پار اعلیٰ تعلیم، عزت، ترقی سب کچھ ہے۔ ورنہ، ورنہ؟ اُن کے سوچنے سے بھی پہلے، رضیہ صلاح الدین کا داہنہ کرخت ہاتھ اٹھا اور جیلانی صاحب کے بائیں گال پر انگلیاں چھاپ کر نیچے گر گیا۔ بغیر کچھ کہے اپنی فائل، پرس اور بکھرا وجود لیے، مس رضیہ اُس ٹھنڈے مگر تاریک کمرے سے باہر نکل آئیں۔ ابا جان کی موت پر بھی نہ رونے والی رضیہ، آج اپنی ہتک پر رو رہی تھی۔ عورت چاہے ڈگریوں کا انبار لگالے، مگرترقی وہ صرف مرد کی گود ہی میں بیٹھ کر کرسکتی ہے۔ یہ انکشاف اُن کے لیے بہت جان لیوا تھا۔ لابی میں آتے آتے انھوں نے دھوپ کا سیاہ چشمہ لگالیا، تاکہ باادب بیرا اُن کے بہتے آنسو نہ دیکھ سکے۔ رکشہ مارٹن کواٹرز کی جانب دوڑتا چلا جارہا تھا۔

    اسکول موسم گرما کی تعطیلات کے لیے بند ہوچکا تھا۔ میں سر وحید کے دیدار سے مکمل محروم تھی۔ بورڈ کے امتحان شروع ہوچکے تھے۔ میرا خط پڑھ کر سر وحید مجھ سے ملنے ضرور چلے آئیں گے، اس کا مجھے اتنا ہی اعتبار تھا، جتنا روزانہ سورج کے نکلنے کا۔ ہر اجنبی کھٹکے اور دستک پر میں دوڑ کر دروازے پر جاتی، کہ مسکراتے ہوئے سر وحید وہاں کھڑے ہوں گے۔ عتیق فرسٹ ایئر کے پرچے دے رہا تھا، اچانک اُس نے قد نکال لیا تھا، آواز بھی بڑی مردانہ ہوگئی تھی اور اخلاق ماموں کی vespa بھی چلانے لگا تھا۔

    گارڈن پر میرا سینٹر پڑا تھا، عتیق مجھے اردو کے پرچے والے دن vespa پر بٹھا کر لے بھی گیا تھا مگر وحید مراد وہ پھر بھی نہیں لگتا تھا۔ مجھے بس سر وحید کے محبت نامے اور اُن کی دستک کا انتظار تھا۔ آخر وہ اجنبی دستک، ہمارے لکڑی کے بوسیدہ دروازے پر دی گئی۔ میں بغیر دوپٹہ اوڑھے لپکی کہ سر وحید گرمی میں باہر انتظار نہ کریں اور جلدی سے میرے محبت نامے کا جواب مجھے تھمادیں۔ لیکن باہر سر وحید کے بجائے مس رضیہ کھڑی تھیں۔ رکشے سے لپک جھپک اتر کر آئی تھیں، دھوپ کا چشمہ لگا رکھا تھا۔ دروازے ہی پر میرا محبت نامہ نکال کر اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ چلتے چلتے دو چار تھپڑ میرے منہ پر جڑے اور رکشے میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ اخبار تھامے ابا صحن میں چلے آئے، کہنے لگے کون تھا؟ میں نے جواب دیا، ’’مس رضیہ۔‘‘ ابا حسبِ عادت بوکھلا گئے اور بولے، ’’ارے مس رضیہ آئی تھیں تو اندر کیوں نہیں بلایا؟ ہوا کیا تھا؟‘‘ میں نے بمشکل کہا کہ ایک امتحان میں بری طرح فیل ہوگئی تھی۔ اُسی کا نتیجہ سنانے کے لیے آئی تھیں۔۔۔ اور دروازہ بند کردیا۔

    مہینے کی پہلی تاریخ پھر آئی۔ مس رضیہ حساب کی ڈائری نکال کر بیٹھ گئیں۔ وحید کے کھانے پینے، کپڑے لتے، ٹرانسپورٹ، نئے ریڈیو اور فرج کا خرچہ ملا کر اُن کی تنخواہ سے بہت آگے نکل چکا تھا۔ آئے دن سنیما اور چائنیز ہوٹل کے چکر جو لگتے تھے۔ ایرانی سرکس اور تھیٹر بھی دیکھنے کا اُسے شوق تھا۔ عرصے بعد ڈھاکہ سے گلوکار آئے، تو اُس محفل موسیقی میں جانا تو رضیہ پر فرض تھا۔ یہ تمام سرگرمیاں خرچہ مانگتی ہیں۔ دل کڑا کرکے انھوں نے اپنے محبوب سے ساجھے داری کی بات کی۔ وہ صاف انجان ہوگیا کہ پنڈی میں بوڑھے ماں باپ کا وہ واحد سہارا ہے۔ چار بہن بھائیوں کی تعلیم الگ اُس کے ذمہ ہے۔ تنخواہ کا منی آرڈر وہ بینک سے نکلتے ہی کردیتا ہے۔ فوج کی تنخواہ صرف basic اُسے مل رہی ہے، جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

    اب اس کے آگے رضیہ کیا کہتیں۔ لندن جانے کا خوا ب گو دھندلا ضرور ہوگیا تھا، مگر پوری طرح ٹوٹا نہ تھا۔ اسکول اسٹاف میں بغاوت سر اٹھانے لگی تھی۔ مسز احمد کی ملازمت کو خیر سے بیس سال ہوچکے تھے۔ اب وہ ہیڈ مسٹریس سے پرنسپل کے عہدے پر تقرری چاہتی تھیں۔ مس رضیہ نے اڑتی اڑتی سنی تھی کہ مسز احمد کی جیلانی صاحب سے ملاقاتیں جاری ہیں۔ ایسے نازک ماحول میں بم پھٹا کہ نہ صرف سر وحید مس رضیہ کے گھر رہتے ہیں، بلکہ دونوں کے ناجائز تعلقات بھی ہیں۔ یہ خبر اسکول کی کسی طالبہ نے آکر اسٹاف کو دی تھی۔ نام صیغہ راز میں رکھا گیا تھا۔ اب مس رضیہ کھوئی کھوئی سی رہنے لگی تھیں۔ اب بھی لڑکیوں کے ماہانہ ٹیسٹ لیتیں مگر work hard کہہ کر اُن کے رزلٹ بانٹ دیا کرتی تھیں۔ نہ وہ رعب رہا نہ طنطنہ۔ تھپڑ مارنا تو دور کی بات ہے اسٹاف سے تو ایک طرف، وہ طالبات سے نظریں ملانے سے گھبراتیں۔ کسی نے پلٹ کر کہہ دیا کہ پہلے اپنے کرتوت تو دیکھ لیں، ہمیں کس بِنا پر ڈانٹ رہی ہیں، تو وہ کیا کہیں گی؟

    اوّل تو اب وہ اپنے دفتر سے نکلتی نہ تھیں۔ اسمبلی بھی اُن کے بغیر ہوجایا کرتی تھی۔ کبھی بھولے بھٹکے اسٹاف روم کی طرف جا نکلتیں، تو مس افسر ڈھٹائی سے پورے پورے سوئٹر اور شال بُنا کرتیں۔ مس قیصر کے ہاتھ میں حور، زیب النساء اور شمع جیسے سستے فلمی رسالے ہوتے، جنہیں چھپانے کی وہ کوشش بھی نہ کرتیں۔ مس واسطی منہ پر دوپٹہ ڈال کر ببانگ دہل خراٹے لیتیں اور مس صالحہ دسویں جماعت کی کسی ہوشیار طالبہ سے حساب کی کاپیاں چیک کرواتیں۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی والی بغاوت، اب گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول، جیکب لائنز میں پورے زور و شور سے پھیلی ہوئی تھی اور مس رضیہ بے بس تھیں۔

    کہتے ہیں مصیبت اکیلے نہیں آتی۔ اپنے ڈوبتے خوابوں کی کرچیاں سمیٹ کر وہ ازحد چڑچڑی اور کھڑوس ہو ہی چکی تھیں کہ ایک نئی افتاد آن پڑی۔ اُن کے مہینے بے قاعدہ ہوگئے۔ وحید سے شرماتے ہوئے تذکرہ کیا تو وہ مکمل انجان ہوگیا۔ اب تو مس رضیہ نے نکاح پڑھوانے کے لیے اُس کا پیچھا ہی اٹھالیا۔ زندگی بھر ایک عزت ہی تو کمائی تھی، کیسے چند مہینوں میں اُس سے ہاتھ دھو بیٹھتیں؟ ٹاور برج کے خواب چھوڑ، بچوں کے پوتڑوں کے بارے میں سوچنے لگیں۔ کبھی لڑکے کا نام فائنل کرتیں کبھی لڑکی کا، کبھی بیٹے کو وکیل بناتیں کبھی فوجی۔ ایسے میں اکرم آگیا، وحید کا پرانا دوست، جو پنڈی میں رہتا تھا۔

    وحید کی فرمائش پر آج رضیہ نے ڈھاکہ کا مشہور سفید قورمہ اور سادہ پلاؤ بنایا تھا۔ اکرم اُس کے ساتھ نیوی میں ملازم تھا۔ دوپہر سے رات ہوگئی، مگر دونوں کمرے سے باہر آکر نہ دیے۔ جانے کون سی باتیں تھیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ آج رضیہ کو بازار کے چھ چکر لگانے پڑے تھے، کبھی دہی بھول جاتیں، تو کبھی پیاز۔ ایک دفعہ دیسی مرغی خرید کر، دکان پر ہی تھیلا چھوڑ آئیں۔ دل و دماغ صرف اس اُدھیڑ بن میں تھا کہ وحید کب اپنے ماں باپ سے انھیں ملوائے گا؟ نکاح سادگی سے ہو یا اسٹاف کو بھی بلوایا جائے؟ اسکول والے اب برملا اُن کی بے عزتی کرنے لگے تھے۔ سوچنے لگیں کہ کل خود ہی سیر دو سیر مٹھائی اسٹاف روم میں بھجوادیں کہ اُن کی وحید سے بات طے ہوگئی ہے۔ شاید اسی طرح زمانے کے کلیجوں میں ٹھنڈ پڑے۔ آج دماغ یوں بھی کھول رہا تھا کہ چھ مرتبہ گھنٹی بجانے پر بھی، ظہیر اسٹول سے اٹھ کر، اندر آفس میں نہ آیا۔ جب وہ غصے میں بپھری باہر آئیں تو ٹانگ پہ ٹانگ ڈالے سوتا بن گیا۔ زندگی میں یہ بھی دیکھنا باقی رہ گیا تھا۔ دستر خوان پر بہاری کھانے کی بے طرح تعریفیں کی گئیں۔ دونوں مردوں نے مل کر دو سیر مرغی کے قورمے کو دو منٹ میں چٹ کرڈالا۔ رضیہ ذرا سا شوربہ رکابی میں ڈالے، ادھر سے اُدھر کرتی رہ گئیں۔ اس کے بعد کھیر کے کٹورے معدے میں انڈیلے گئے۔

    اکرم دو ہی دن کے لیے کراچی آیا تھا۔ دیر بہت ہوگئی تھی، مارٹن کوارٹرز سے لانڈھی جانا مذاق نہ تھا۔ نا چار وہیں رک گیا۔ رضیہ نے اضافی تکیہ اور چادر اندر بھجوادی اور خود اپنی مسہری پر جاگریں۔ آج بہت دنوں بعد اپنے آپ سے ملاقات ہوئی تو یاد آیا کہ آج تو ابا جان کی برسی تھی۔ یا خدا! کیسی خودغرض ہوگئی ہوں میں۔ وحید کے پیار میں ایسی ڈوبی کہ ماں باپ، ماضی، مستقبل سب سے بیگانی ہوگئی؟ اٹھ کر تہجد پڑھنے کھڑی ہوگئیں اور ابا جان کے ایصال ثواب کے لیے رو رو کر دعائیں کیں۔ دل بھر آیا تھا، بہت بے چینی تھی۔ کوئی بھی نہ تھا جس سے بات کرسکتی تھیں۔ تنہائی کے عذاب سے بڑھ کر بھی کوئی عذاب ہے؟

    اچانک خیال آیا کہ بیٹھک سے جاکر، اباجان کے پرانے البم اٹھا لائیں اور ایک ایک تصویر کو دیکھ کر ماضی کی یادوں کو تازہ کریں۔ دونوں مرد سو رہے ہوں گے، وہ چپکے سے البم اٹھالائیں گی۔ ویسے بھی وحید کی گہری نیند سے وہ بخوبی واقف تھیں۔ دروازے کے قریب پہنچیں تو اندر سے خراٹوں کے بجائے کچھ غیر انسانی بلکہ حیوانی آوازیں دھیرے دھیرے سنائی دینے لگیں۔ گھبرا کر انھوں نے دروازہ دھکیلا، اندر چٹخنی تو تھی نہیں جو لگائی جاتی۔ دروازہ ایک ہلکے دھکے سے کھل گیا۔ اپنی آنکھیں میچنے سے پہلے انھوں نے دیکھ لیا تھا، کہ دونوں مرد برہنہ تھے اور آپس میں پہلوانوں کی طرح گتھم گتھا تھے۔ رضیہ کو اچانک نازل ہوتے دیکھ کر اکرم نے چادر کھینچ کر، تخت کے نیچے پناہ لے لی تھی۔ وحید کی پیٹھ رضیہ کی طرف تھی۔ اُسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ رضیہ کے ہاتھوں میں اٹھایا ہوا ایک البم دھڑ سے گرا، اور اُن کا ماضی فرش پر بلیک اینڈ وہائٹ تصاویر کی صورت بکھر گیا۔ ماحول بھی سفید سے سیاہ ہوگیاتھا۔ رضیہ الٹے قدموں کمرے سے نکل گئیں۔

    اگلے دن علی الصبح اہل محلہ نے دیکھا کہ ایک کالی پیلی ٹیکسی میں بہت سارے سامان کے ساتھ دو مرد بیٹھ کر جارہے تھے۔ ایک تو وحید تھا جو اکثر رضیہ صلاح الدین کے ہاں آتا جاتا رہتا تھا، دوسرا اُس کا کوئی دوست ہوگا۔ خیر ہمیں کیا۔ بنگالیوں کا کیا ہے۔۔۔ گانا بجانا، ناچنا اور مردوں کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا کرنا۔ یہی ان کا کلچر ہے، اب اس بدکردار عورت کو محلے سے نکلوانا ہی ہوگا۔ توبہ توبہ! اگلے دن اسکول کی تمام استانیاں، ظہیر، رکشے والا اور طالبات حیران و پریشان رہ گئیں، جب سب کو معلوم ہوا کہ آج مس رضیہ غیر حاضر ہیں۔ اُن کی طبیعت ناساز ہے۔ آٹھ سال میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ دراصل مس رضیہ جب لیڈی ڈاکٹر کے ہاں معائنے اور اسقاط حمل کے ارادے سے پہنچیں، تو ان پر بجلی گری کہ وہ حاملہ ہرگز نہیں تھیں بلکہ اب انھیں menopause کا سامنا ہوگا، وہ بھی قبل از وقت۔ انھیں اب سمجھ میں آیا کہ اچانک انھیں بہت گرمی کیوں لگنے لگی ہے؟ راتوں کو بستر پسینے سے کیوں تر ہوجاتا ہے۔ menopause گویا اُن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ مس رضیہ صلاح الدین، کسی لق و دق صحرا میں ٹنڈمنڈ درخت کی طرح کھڑی رہ گئیں۔ جس پر کبھی بہار نہ آنے کا کامل یقین خود درخت کو بھی ہو۔ زندگی انھیں وہیں تنہا چھوڑ کر آگے بڑھ گئی۔ کسی خون آشام سفاک ڈائن کی طرح۔

    پانچ سال بعد۔۔۔

    آج لیاقت آباد میں، میں امی کے ساتھ اپنے جہیز کی خریداری کررہی تھی کہ مہرالنساء، میری خاص الخاص ہم جماعت مل گئی۔ پہلی نظر میں تو پہچانی نہیں گئی۔ لڑکی سے جوان عورت بن چکی تھی، مگر بہت پراعتماد اور مضبوط لگتی تھی۔ عتیق نے بی کام کرکے اچھی ملازمت کرلی تھی۔ ربیع الاول میں ہماری شادی ہونے والی تھی۔ اُسی کی گاڑی میں ہم لالوکھیت آئے تھے۔ دسویں کلاس میں میرا ٹرانسفر گارڈن کے اسکول میں ہوگیا تھا۔ سر وحید سے پیار کرنے کی پاداش میں، مس رضیہ نے مجھے اسکول سے نکال دیا تھا۔ میں مہرالنساء سے پورے پانچ سال بعد مل رہی تھی۔ اُسے دیکھ کر مجھے مس رضیہ کے چانٹے اور پھر سروحید بے اختیار یاد آگئے۔ جو ہوتا ہے اچھا ہی ہوتا ہے۔ اب عتیق نہ صرف اچھا کما رہاہے، بلکہ مجھے دل سے پیار کرتا ہے، کالا چشمہ پہن کر وہ اب بالکل چاکلیٹی ہیرو، وحید مراد ہی لگتا ہے، بلکہ راجرمور۔ امی رضائی کے لیے شنیل خرید رہی تھیں، میں اور مہرالنساء ٹھیلے پر چنا پاپڑی چاٹ کھانے کے لیے آگئے۔ وہ بھی اب بی اے کے آخری سال میں تھی۔ بھٹو کو پھانسی ہوچکی تھی اس لیے کالج وغیرہ بند تھے، اور وہ بھی فارغ تھی۔

    اسکول کا ذکر نکلے اور مس رضیہ نہ یاد آئیں؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں نے پوچھا، ’’مس رضیہ کی شادی ہوگئی ہوگی سر وحید کے ساتھ؟ ہے ناں؟‘‘ مہرالنسا بولی، ’’نہیں تو۔‘‘ گول گپے کی کھٹائی مجھ سے لڑھک گئی، چمچہ ہاتھ سے گر گیا۔ میں نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘ پھر مہرالنسا بولی، ’’مس رضیہ نے الزام لگا دیا تھا کہ سر وحید نے اُن کے گھر ڈکیتی کی ہے اپنے کسی دوست کے ساتھ مل کر۔ وہ تو سر وحید نیوی میں تھے، اس لیے پولیس تھانے سے بچت ہوگئی اور وہ منہ چھپا کر چلے گئے۔ مس رضیہ جیسی نستعلیق عورت، بھلا وہ اک چور سے شادی کیوں کرتیں۔ گول گپے میں بھی کھاؤں گی۔ بالکل ہمارے اسکول کی کینٹین جیسے ہیں۔‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا، ’’ہاں، اچھا پھر؟ پھر کیا ہوا؟‘‘ مہرالنسا بولی، ’’پھر کیا۔ یہ تو بڑی پرانی بات ہوگئی۔ ہم جب دسویں میں تھے۔ پورے پانچ سال ہوگئے ہیں ناں عالیہ؟ تم کتنی پیاری ہوگئی ہو۔ گھر بیٹھ کر رنگ بھی صاف ہوگیا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’اور مس رضیہ؟‘‘ مہرالنسا بولی، ’’مس رضیہ لندن میں ہیں اب دوسال سے۔‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا، ’’اچھا؟ بالآخر وہ لندن چلی گئیں؟‘‘ مہرالنسا بولی، ’’ہاں۔ بعد میں گورنمنٹ بدل گئی، نئے وزیرتعلیم آئے اور انھوں نے فٹ سے مس رضیہ کو D-Lit کے لیے باہر بھجوادیا۔ اب وہ وہیں رہتی ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’اپنے گھر واپس نہیں آتیں کبھی کبھار؟ میں انھیں اپنی شادی میں بلواؤں گی اگر۔۔۔‘‘ مہرالنسا بولی، ’’جاتی ہیں ناں اپنے گھر۔۔۔ ڈھاکہ۔ ڈھاکہ جاتی ہیں چھٹیوں میں۔ وہی اُن کا گھر ہے۔ بہت خوش ہیں، مسز احمد بتا رہی تھیں۔ قابل عورت تھی یار۔ میری آئیڈیل۔ ہم پر سختیاں ضرور کیں اُنھوں نے مگر اُن کے اسکول کی بھٹی میں ہم سونے سے کندن بن گئے۔ میں بھی بی اے کرکے B.Ed کروں گی اور مس رضیہ کی طرح teaching کروں گی۔۔۔ بس سوچ لیا ہے میں نے۔ شادی وادی کا کوئی موڈ نہیں میرا۔ عورت تنہا ہی سو مردوں کے برابر ہے۔ ہاہاہا۔ اچھا چلتی ہوں۔ اے رکشہ رکو۔‘‘ وہ بالکل مس رضیہ کے انداز میں رکشے میں بیٹھنے لگی اور بولی، ’’ہاں تمھاری شادی میں ضرور آؤں گی۔‘‘

    رکشے میں بیٹھنے سے پہلے وہ مجھ سے گلے ملی تو لگا مس رضیہ کی خوشبو ناک میں بس گئی۔ بالوں میں اٹکا گلاب صاف نظر آگیا۔ پھول دار جارجٹ کی ساڑھی، لمبی چٹیا، کانوں میں ٹاپس، چشمہ، کاندھے پر لٹکا پرس۔ مس رضیہ جاکر بھی ہم سب میں سما گئی تھیں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے