Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مسٹر گلیڈ

شوکت حیات

مسٹر گلیڈ

شوکت حیات

MORE BYشوکت حیات

    کہانی کی کہانی

    یہ غربت، معاشی بدحالی اور نوکری کی وجہ سے پریشان ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو بیروزگاری کے سبب اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ گھر میں معاشی دشواری ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور وہ تنہائی کا شکار ہو کر پاگل ہو جاتا ہے۔ اس پاگل پن میں وہ طرح طرح کی حرکتیں کرتا ہے۔ وہ اپنا نام، حلیہ اور ساتھ ہی زبان بھی بدل دیتا ہے۔

    ہم سب قبرستان میں اکٹھا تھے۔

    لوگ انہیں پاگل اور مجذوب کہتے تھے۔

    میں انہیں نیک اور ہوش مند انسان کا درجہ دیتا تھا۔ جن کی زندگی میں دنیا داری کے مکر و فریب نے جب جب اپنا گھر بنانے کی کوشش کی، انہوں نے خود سے اسے تاراج کردیا۔

    ان کی بعض حرکتیں عجیب و غریب ضرور تھیں، لیکن مجموعی اعتبار سے وہ انتہائی بے ضرر، بے غرض اور بے لوث انسان تھے۔

    کبھی کبھار گھر سے نکلتے گوشت لانے کے لئے۔

    بیوی بچوں کی فرمائش ہوتی کہ ایک مدت ہوگئی ، سالن کھائے ہوئے۔ عسرت اور افراتفری کے درمیان ہنگامی اور ترستی ہوئی زندگی گزارتے ہوئے گرم مسالوں کے ساتھ اس کی سوندھی خوشبوؤں کا ذائقہ لیے ہوئے زمانہ گزر گیا۔

    کئی پینٹ اور کرتے کی مختلف جیبوں اور کتابوں کے اوراق کی چھان پھٹک کے بعد وہ کچھ پیسے اکٹھے کرتے۔

    عام طور پر گوشت ان کی بسا ط سے باہر ہوتا، جوڑ جوڑ کر بڑی مشکلوں سے گوشت کے لئے پیسے پورے پڑتے۔

    اتنی تگ و دو کے بعد آپ چلے جارہے ہیں گوشت لانے کے لئے ۔

    قصاب سے پُٹھ اور ران کا گوشت دینے کی حجت کر رہے ہوتے۔

    اسی وقت کوئی شناسا مل جاتا اور دست بستہ اپنی بپتا بیان کرتا۔

    ’’میرا بچہ بیمار ہے اور مجھے کچھ روپیوں کی شدید ضرورت ہے۔‘‘

    وہ گوشت کی خریداری بھول کرنہ صرف یہ کہ سارے پیسے اس کے حوالے کردیتے بلکہ دوا خریدنے میں تعاون کرتے اور اس کے گھر میں جاکر مریض کی تیمارداری میں بڑی تندہی سے مصروف ہوجاتے۔ شام ڈھل رہی ہوتی تو اچانک انہیں یاد آتا کہ کیا تہیہ کر کے گھر سے نکلے تھے۔ بیوی بچوں کے چہرے یاد آتے۔ ان کی خواہشوں اور ان کی بے چارگی یاد آتی۔ ان کی ڈانٹ پھٹکار اوران کی ناراضگی کا خیال آتا۔ کچھ دیر سمجھ میں نہ آتا کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔ ایک عجیب سی ادھیڑ بن میں وہ مبتلا ہوجاتے۔

    جو کچھ انہوں نے کیا وہ صحیح ہے۔۔۔ نہیں، جو کچھ انہیں کرنا تھا وہ ان کے فرائض میں داخل تھا۔۔۔

    وہ پسینے میں شرابور ہوجاتے۔ جس کے لئے اتنا کچھ کرنے کے بعد اس پریشانی میں پڑے وہ ان کی حالت دیکھ کر شرمندہ ہوجاتا، ’’آپ نے خواہ مخواہ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ میرا فرض تھا۔۔۔‘‘

    پھر آپادھاپی میں وہ رخصت کے طلبگار ہوتے۔ دوست فوراً جانے کی اجازت دیتا۔ بلکہ ہدایت کرتا کہ جلدی جائیے۔۔۔اور کہیں اور نہ چلے جائیے گا۔۔۔ دیگر وقتوں میں ان کی رفاقت سے وہ جیسی تقویت محسوس کر رہا ہوتا، اس سے آسانی سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہ ہوتا۔

    اب نہال صاحب تیز قدموں سے تقریباً دوڑتے ہوئے جارہے ہوتے اور چرند پرند او رپیڑ پودے اور سڑک سے گزرتے ہوئے رکشے، موٹر ان سے سوال کر رہے ہوتے، ’’کہاں۔۔۔؟ کہاں؟‘‘

    یکلخت وہ ٹھہر جاتے۔ واقعی اتنی جلدی کس بات کی تھی۔ کیا کوئی مر رہا ہے۔۔۔ اور ان کے فوراً پہنچنے سے اس کی جان بچ سکتی ہے۔۔۔

    بدبخت ۔۔۔ نامراد۔۔۔

    وہ بدبدا کر رہ جاتے۔ رومال سے پسینہ پونچھنے کا عمل جاری رہتا۔ بعد ازاں سب کے سوال ان سنی کرتے ہوئے نہال صاحب ہانپتے کانپتے گھر پہنچتے تو سب کی خشمگیں نگاہوں کا نشانہ بنتے۔ بیوی پیوند لگی ہوئی ساڑی کے پلو سے آنکھیں پونچھتی رہتی۔ میلے کچیلے بچے بجھی ہوئی آنکھوں سے انہیں بس گھورتے رہتے۔ جھپکتی ہوئی آنکھیں اور لرزتے ہوئے ہونٹ کچھ کہے بغیر بہت کچھ کہہ جاتے۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوتا کہ سب نے دال چاول اور آلو کے بھرتے کھاتے ہوئے گوشت کا سوندھا سوندھا ذائقہ محسوس کرلیا ہے۔ ا پنے لیے رکھے ہوئے ٹھنڈے کھانے سے وہ اپنی بھوک مٹاتے۔ الگنی سے آویزاں پنجرے میں طوطا چلاتا ہوا رہ جاتا۔

    ’’کٹورے۔۔۔ کٹورے۔۔۔ کٹورے۔۔۔‘‘

    نہال صاحب طوے کو بہت مانتے تھے۔ خود تو انہیں چنا نصیب نہ ہوتا۔ اٹھارہ روپے کلو کہاں کھاتے وہ۔ لیکن طوطے کے لئے کہیں نہ کہیں سے پیسے کا نظم کر کے چنا مہیا کرتے تھے۔ طوطے میں انہیں اپنی صورت نظر آتی۔ بیوی بچوں سے انہوں نے بہت کہا کہ اس طوطے کو رہا کردیا جائے لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ بعد میں انہوں نے طوطے اور اپنے مقدر کی مماثلتوں کو قدرتِ مصلحت سے تعبیر کرتے ہوئے صبر کرلیا۔ لیکن اکثر و بیشتر ان کے اندر کا طوطا اپنے پروں کو پھڑپھڑاتا اور۔۔۔ جب کبھی زندگی کے تھپیڑے اور ذلتیں حد سے متجاوز ہوتیں، وہ ایک لمبی خاموشی اختیار کرلیتے۔

    بھاری بھاری قدموں سے برآمدے اور آنگن کی سرحد پر لٹکے ہوئے طوطے کے پنجرے کے پاس آتے۔ خاموش آنکھوں سے اسے گھورتے رہتے۔ بیوی کسی کمرے سے ان کی یہ حرکت دیکھ رہی ہوتی۔ ایسے لمحوں میں بیوی ان کے وجود سے پھوٹتے ہوئے انگاروں کو دور سے ہی دیکھ لیتی۔ کچھ بولنے کی ہمت جٹانے میں ناکام رہتی۔ طوطا انہیں ٹکر ٹکردیکھتا ہوا اپنی خالی کٹوری پر چونچ مارتا رہتا ہے ۔ بیوی سے برداشت نہ ہوتا۔ سمجھتی کہ پھر غم کا دوڑہ پڑا ہے۔ دونوں آنکھیں چھاجوں برستی رہتیں۔ باہر فضا میں پھیلے ہوئے کہرے کی دبیز چادر ان کے گھر کوڈھانک لیتی۔ وہ دیکھتی کہ کہرے کا دھواں اس کے شوہر کی گردن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ بے پاؤں چلتی ہوئی شوہر کے نزدیک آتی اور دھیرے سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اس کو دلاسا دیتی۔

    ’’میں ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔ اتنی جلدی۔۔۔؟‘‘

    ’’گھوٹالوں کے اس شہر میں اب شریف ا ٓدمی کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔۔۔ دنیا میں فکرِ معاش سے بڑا کوئی غم نہیں۔۔۔ بیشتر مسائل کی جڑیں اس کی کوکھ میں پیوست ہیں۔۔۔‘‘ بڑی مشکلوں سے نہال صاحب اتنا کچھ کہہ پاتے۔

    وہ ایک انڈر ٹیکنگ میں ملازم تھے۔ ان کے ڈیپارٹمنٹ کا کروڑوں روپیہ نہ معلوم کس طرح چند افراد کی جیبوں میں پہنچ گیا۔ نوجوانوں نے تو ہاتھ پاؤں مارکر ادھر ادھر پناہ حاصل کرلی تھی لیکن سن رسیدہ لوگوں کے سامنے کوئی چارہ نہ تھا۔ اعلیٰ حکام ان کے رزق کی ذمہ داری سے فرار اختیار کر رہے تھے۔ مقدمے کے ذریعے مسئلے کا کوئی حل نکل سکتا تھا، لیکن انصاف اتنا مہنگا ہوچکا تھا کہ پی ایف میں بچے کھچے پیسے سے زندگی کو نیم مردہ لاشوں کی طرح گھسیٹتے ہوئے ملازمین کے لئے چندہ اکٹھا کرنا آسان نہ رہا تھا۔

    بیوی کےذریعے پیٹھ پر ہاتھ رکھنے سے جب ان کی طرف سے کوئی تعرض نہیں ہوا تو بیوی نے ہمت کر کے اپنی دونوں بانہیں ان کی گردن میں حمائل کردیں۔

    تھوڑی دیر تک نہال صاحب کا سکتے کا عالم برقرار رہا۔ پھر ہوا کے ایک دلفریب جھونکے سے ان کے شریانوں میں دوڑتے ہوئے خون نے عجیب قسم کی اچھال لگائی۔۔۔ وہ ایک ذرا آگے کو جھکے اور بیوی ان کی پیٹھ پر آرہی۔ بیوی کی سانسوں کی گرمی انہوں نے گردن کے پچھلے حصے پر محسوس کی۔

    پھر برآمدے میں خوشبوئیں بکھر گئیں۔ گل ہزارہ کی رنگین پنکھڑیاں برآمدے میں اڑتی دکھائی دیں۔

    وہ پاؤں ہلاتے ہوئے پیٹھ سے ہٹ جانے کا سوانگ رچتی رہیں لیکن درحقیقت مزید چپکتی ہوئی ان کی پیٹھ پر لدی پھندی کمرے تک پہنچ گئیں۔ بیوی کو بستر پر گراتے ہوئے نہال صاحب کی آنکھیں مخمور ہوگئی تھیں ۔۔۔ ان کی سانسیں تیز تیز چلنے لگی تھیں۔۔۔ سارے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگی تھیں۔۔۔ مچمچاہٹ اور تناؤ ایسا کہ ۔۔۔ایک ذرا دیر ہوئی اور سارا جسم جلتی ہوئی لکڑی کے مانند تڑخ ا ٹھے گا۔

    کچھ دیر بعد ان کی بیوی کپڑے درست کرتی ہوئی اٹھیں۔ چادر کی شکنوں کو انہوں نے ٹھیک کیا۔ بڑبڑاتی جارہی تھیں، ’’عجیب جنونی اور پاگل۔۔۔‘‘

    بچے کب کے اسکول جاچکے تھے۔ صرف ایک طوطا تھا جو پنجرے میں چکر کاٹتا ہوا محویت کے عالم میں تھا۔ بیوی شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ سرِبازار رکشہ الٹ جانے سے جیسے کپڑے اوپر اٹھ آئے ہوں۔

    طوطے نے پکار لگائی، ’’کٹورے۔۔۔ کٹورے۔۔۔‘‘

    بیوی میں طوطے سے آنکھیں ملانے کی تاب نہ تھی۔ طوطے نے دوبارہ چیخ لگائی۔

    ’’آپ بڑے۔۔۔ کہاں تو معاش کے غم میں گھلے جارہے تھے اور کہاں ایسے بے خود ہوگئے کہ طوطے کا بھی لحاظ نہ کیا۔۔۔‘‘

    ’’دروازہ بند کرنے کا خیال نہ رہا۔۔۔‘‘ نہال صاحب خجالت سے بولے۔ پھر انہوں نے ذہن کو جھٹکا دیا۔ ’’اب چھوڑو بھی۔۔۔ اسے چنے دے دو۔۔۔‘‘

    ’’میری ہمت نہیں اس کے سامنے جانے کی۔۔۔ آپ ہی دے آئیے۔۔۔ باورچی خانے میں تھوڑا سا پھولا ہوا چنا رکھا ہے۔۔۔‘‘ بیوی نے اپنے پاؤں کے انگوٹھوں کو دیکھتے ہوئے نظریں جھکاکر کہا۔

    نہال صاحب اٹھے اور چنے لے کر پنجرے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ لیکن طوطا غصے میں تھا۔ پنجرے کی سلاخوں پر اپنی جونچ سے وار کر رہا تھا۔ انہوں نے چنے اس کے کٹورے میں ڈال دیے۔

    ’’یہ ناراض کیوں ہے۔۔۔ جیسے مجھے نوچ کر کھا جائے گا۔۔۔‘‘ نہال صاحب نے سوچا اور بہت دیر تک اسی موضوع پر سوچتے رہ گئے۔

    غصے میں طوطے نے چنے کھانے کے بجائے کٹورا الٹ دیا۔ چنے برآمدے کے فرش پر گر کر بکھر گئے۔ بہت سارے چنوں میں سے سفید سفید انکور پھوٹ رہے تھے۔

    انہو ں نے ایک نظر انکوروں کی طرف دیکھا۔۔۔ ایک نظر بے چینی میں پنجرے کے اندر چکر کاٹتے ہوئے طوطے کو۔ اس کا اضطراب اوربے چینی۔۔۔ اور چنے میں پھوٹ آئے انکور۔۔۔ کونپلوں کا انتظار ۔۔۔ شاداب درختوں، گھونسلوں، چڑیوں کی چوں چوں اور سر نہوڑے پرندوں کے سربستہ راز۔۔۔

    نہال صاحب پر نیم پاگل پن کے دورے کب سے شروع ہوئے یہ کہنا مشکل تھا۔ کہتے ہیں ان کی معاشی بدحالی اور روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر بیوی، بچوں کے ہمراہ میکے گئیں تو پھر لوٹ کر نہیں آئیں۔ بچوں کو بھی ان سے کوئی لگاؤں نہیں رہ گیا تھا۔

    عجیب سے تذبذب اور انتشار کا سایہ ان کی شخصیت سے چمٹ گیا تھا۔ تنہائی میں وہ طوطے کے پنجرے کے پاس کھڑے ہوجاتے اور گھنٹوں جانے کیا کیا گفتگو کرتے رہتے۔۔۔ طوطا ان کی ہر بات کے جواب میں کٹورے کٹورے کہتا رہتا۔ ان کی پیٹھ کسی کی شفقت آمیز ہتھیلی کا انتظار کرتی ہوئی ترستی رہ جاتی۔ شروع شروع میں کوئی کنڈی کھٹکھٹاتا تو وہ تیزی سے لپکتے۔۔۔ دروازہ کھولنے پر محلے کا کوئی شریر لڑکا تیزی سےبھاگتا ہوا دکھائی دیتا۔ بچے تو بچے ٹھہرے، بڑے بھی چھیڑتے۔

    ’’کیوں نہال بھائی۔۔۔ بھابی کو آج کسی نے اسٹیشن پر دیکھا ہے۔۔۔‘‘

    شروع شروع میں تو وہ اس طرح کی باتوں میں بہت دلچسپی لیتے۔ لپک دکھاتے۔ کان کی لویں سرخ ہوجاتیں۔ کنپٹیوں میں سنسناہٹ دوڑ جاتی۔ بعد ازاں اس طرح کی باتوں کی طرف سے یوں لاتعلقی اختیار کرنے لگے جیسے وہ گونگے بہرے ہوگئے ہوں۔ ہر وقت گم صم بس دھیرے دھیرے قدم آگے بڑھاتے رہتے۔۔۔ کسی سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔ جیسے وہ کسی کو نہ جانتے ہوں۔۔۔ اور اس علاقہ میں ان کے علاوہ کوئی اور نہ بستا ہو۔۔۔ اس علاقے سے ان کا کوئی علاقہ نہ ہو۔

    اب دھیرے دھیرے وہ ا نگریزی کے خصوصی استعمال کے اپنے پرانے طور بھی بھولنے لگے تھے۔ بیشتر اردو ہندی الفاظ کا وہ انگریزی میں ترجمہ کر کے اپنے مخصوص لب و لہجے کے ساتھ تکلم کے لئے وہ پورے علاقے میں مشہور ہوگئے تھے۔ دراصل مکالمے کے ایک نئے انداز کے فروغ کے وہ موجد تھے۔

    ڈاکٹر منظر کے ہاں جاتے تو کمپاؤنڈر کو کہتے کہ ڈاکٹر سیزی کو کہو کہ ان سے ملنے مسٹر گلیڈ آئے ہوئے ہیں۔ گلیڈ یعنی خود مسٹر نہال۔

    اپنے گھر کا پتا خط میں یوں لکھتے، ’کاکو‘ کے لئے ’آف ٹو‘ استعمال کرتے۔ ’جہاں آباد‘ کے لئے اس کا ترجمہ کر کے ’ورلڈ پوپلیٹیڈ‘ کی ترکیب استعمال کرتے۔ جن دنوں ضلع ’گیا‘ ہوا کرتا تھا اس کے لئے وہ ’وینٹ‘ کا استعمال کرتے۔ کوئی ’منان‘ صاحب ملتے تو ’مائی بریڈ‘ کی زوردار ہانک لگاتے۔

    یہ سب باتیں اب قصہ پارینہ بن چکی تھیں۔ کہتے ہیں کہ سقوطِ پاکستان کے بعد تیسری ہجرت کے غم اور قیامت خیز افراتفری نے انہیں وہ چرکے دیے تھے کہ بنگلہ دیش سے بھاگنے کے بعد کہیں اور جانے کے لئے آمادہ نہ ہوئے۔ یہاں تنگ زمین دیکھ کر کنیڈا والی بہن ان سے کنیڈا چلنے کے لئے اصرار کرتی رہی لیکن وہ راضی نہ ہوئے۔

    اس زمانے میں کون کس کو اسپانسر کرتا ہے۔ لیکن ان کی بہن کو ان سے گہری ہمدردی تھی اور وہ اپنے بھائی اور ان کے بچوں کو بربادی سے بچانا چاہتی تھی۔

    اپنے باپ دادا کی جگہ چھوڑنے کے خیال سے ہی وہ پناہ مانگتے تھے۔

    اس زمانے میں انہوں نے نہ معلوم کہاں سے ایک ٹرکش ٹوپی حاصل کرلی تھی۔ ٹوپی کے ساتھ سیاہ رنگ کی ٹائی باندھ لیتے۔ گلے میں ہار کے ساتھ ایک بڑا سا لاکٹ بھی لٹکائے رہتے، جس میں ایک بڑا سا کراس جھول رہا ہوتا۔ چھوٹی سی ٹائی۔۔۔ اور اس کے نیچے جھولتا ہوا چمکیلا کراس۔ ایک لمبی چھڑی ۔۔۔ ٹیک لگاتے ہوئے بولتے،

    ’’آئی ایم مسٹر گلیڈ۔۔۔‘‘

    ’یور آر مسٹر مائی بریڈ۔۔۔‘‘

    ’’ہاؤ آر یو۔۔۔؟‘‘

    ’’نتھنگ از فائن۔۔۔‘‘

    مسٹر منان ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے گردن ہلاتے اور زیر لب کچھ اور بدبداتے ہوئے ان سے مصافحہ کرتے رہتے۔ نہال صاحب رٹ لگائے رہتے، ’’ نتھنگ از فائن۔۔۔‘‘

    بیشتر لوگوں کو ان سے بے پناہ ہمدردی تھی۔

    گاہے گاہے مسجد کے دروازے پر بیٹھنے لگے۔ لوگوں نے مسجد کے اندر جاکر نماز پڑھنے کے لئے بہت کہا لیکن انہیں اس کی کبھی توفیق نہ ہوئی۔ جب کوئی پیچھے پڑجاتا تو آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ بدبدا کر رہ جاتے۔ پھر یوں ہوا کہ کسی عورت نے ان کے سامنے پانی سے بھرا گلاس رکھا اور انہوں نے آسمان کی جانب تاکتے ہوئے گلاس کی طرف منہ کر کے پھونک دیا۔ کہتے ہیں کہ اس پانی کو پی کر اس عورت کا بیمار بچہ بھلا چنگا ہوگیا۔ وہ قدموں پر آکر گر گئی۔ اس کے نرم و گداز ہاتھوں کے لمس نے ان کے جسم میں کوئی اتھل پتھل نہیں مچائی۔ نہال صاحب دراصل ایک عجیب سے بے حسی اور ماورائیت سے دوچار ہوچکے تھے۔

    مسجد سے نزدیک شیومندر سے چند قدم کے فاصلے پر ایک درخت کی شاخوں میں گھن لگ گیا تھا۔ اور لوگ اس طرف سے گزرنے سے متنبہ کرتے تھے کہ کیا پتہ کب وہ درخت کسی پر آرہے۔

    نہال صاحب کو ان ہدایتوں کا ہوش کہاں۔ لوگوں کی تنبیہ کے باوجود اکثر اسی درخت کے سائے میں آکر بیٹھ جاتے۔ خیالوں میں اس قدر منہمک اور مستغرق کہ دور سے اسی پیڑ کا حصہ معلوم ہوتے۔

    بچے کے چنگا ہونے کی شہرت علاقے بھر میں پھیل گئی۔ لوگ باگ انہیں بڑے احترام سے اپنے گھر لے جاتے اور بیمار بچوں کو گود میں رکھ دیتے۔

    گھروں میں داحل ہوتے ہوئے اداس آنکھوں سے گھر کی عورتوں اور بچوں کی طرف وہ تیزی سے لپکتے۔ کیا پتہ ان میں سے کوئی۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لمحے انہیں سکتہ مار جاتا۔ کہتے ہیں، ہر دروازے پر ایک رکابی نہال صاحب کے نام کی رکھی رہتی۔ جب انہیں بھوک زیادہ ستاتی، وہ کسی دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھ کر رکابی کو اپنی انگلیوں سے بجاتے۔ گھر والا ان کی آمد کو اپنی خوش بختی پر محمول کرتا۔

    کھانا کھاتے ہوئے اکثر وہ آبدیدہ ہوجاتے۔ ان کی فاقہ مستی انہیں تسکین پہنچاتی۔ پھر دوسری رکابی آتی جس میں پیسوں کا ڈھیر ہوتا۔ نہال صاحب اس میں سے صرف ایک روپے کا سکہ اٹھاتے اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بوجھل قدموں سے ایک طرف روانہ ہوجاتے۔

    اس دن گھر آئے تو سینے پر بھاری بوجھ محسوس ہوا۔ خریدے ہوئے چنے کو پانی میں بھگویا۔ پہلے سے پھولے ہوئے چنے کو انہوں نے طوطے کے کٹورے میں رکھا۔ پھر جانے ذہنی روکے کن رواں دواں تیز دھاروں میں بہنے لگے۔ لگاتار طوطے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔

    مہیب سناٹے کی برچھی اندرون میں گہرائی تک چبھتی رہی۔

    ’’تو ہی میرا رفیق بچ گیا ہے۔ اب تو بھی رفاقت سے باز آجا۔ ٹھنڈے سینے تجھے رخصت کرتا ہوں۔۔۔‘‘

    وہ دھیرے سے بدبدائے اور سناٹے مکان میں دھاڑیں مار کر رونے لگے۔

    جب جی ذرا ہلکا ہوا تو عجیب نظروں سے طوطے کی جانب دیکھا۔ آج طوطا بے حس و حرکت سپاٹ آنکھوں سے ان کی بے چینیوں کو دیکھ رہا تھا۔

    ’’جا آج تجھے آزاد کرتا ہوں۔۔۔‘‘ انہو ں نے پنجرے کا پٹ کھول دیا۔ طوطا پنجرے سے باہر نکلا۔ اڑ کر چھت تک گیا۔ ٹھوکر کھاکر فرش پر آرہا ۔ اور پھر اڑکر پنجرے پر آکر بیٹھ رہا۔

    فاتحے کے لئے لوگوں نے ہاتھ اٹھائے تو مٹی سے اٹے ہوئے ہاتھ انہیں خون آلودہ دکھائی دیے۔

    کہیں سے ایک طوطا ہانپتا کانپتا ہوا قبر کی مٹی کے ڈھیر پر آکر بیٹھ گیا۔

    ’’کٹورے۔۔۔ کٹورے۔۔۔!‘‘

    غصے میں وہ قبر کی مٹی کو اپنی چونچ سے ہٹا رہاتھا۔

    ہم سب تھکے ہوئے قدموں سے قبرستان کے گیٹ کے باہر نکل رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے