Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک قتل کی کوشش

اقبال مجید

ایک قتل کی کوشش

اقبال مجید

MORE BYاقبال مجید

    ایک میں ہوں۔۔۔ متحیر اور مبہوت۔

    ایک وہ ہے۔ پیتھالوجسٹ۔

    بہت دنوں سے یہ پیتھالوجسٹ مجھ سے کہہ رہا ہے، ’’دیکھو! جو کچھ خارج ہوکر باہر آتا ہے بس وہی میرا مقدر ہے۔‘‘

    ایک چھوٹے سے اسپتال کا کمرہ۔۔۔۔ میری خورد بین ٹسٹ ٹیوب، بہت سے فلاسک، شیشیاں، ہری لال نیلی، پاخانہ، پیشاب، بلغم، تھوک۔

    آج پھر ایک آدمی مر گیا۔۔۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اسے زندہ کردوں اور کہوں کہ وہ اپنا بیان دے کر میری روح کا بوجھ ہلکا کر دے۔

    مجھے نہیں معلوم کہ جھوٹ اور سچ کیا ہے۔ اپنے پیشے میں رہتے ہوئے میں یہ بھی لکھ سکتا ہوں کہ پیشاب میں شکر آنے پر ڈاکٹر کون سی دوائیں لکھ دیا کرتے ہیں۔ پیچش کے کیڑے کن دواؤں سے مارے جاتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں انسان کے سارے Organism سے واقف نہیں ہوں۔ میں صرف کیڑے پہچانتا ہوں۔ لیکن آج ایک آدمی مر گیا۔ میں برسوں سے اس کا پیشاب، پاخانہ ٹسٹ کرتا آیا ہوں۔ ساری ساری رات، سارے سارے دن کتنے ہی مرکبات ڈال کر، کتنی ہی بار آگ پر پکاکر، کتنی ہی سلائڈوں پر رکھ کر اس کے پاخانے کی جانچ کی ہے میں نے۔ ڈاکٹر اکثر مجھ پھر برہم ہوتے رہتے ہیں۔ میں اتنا ایمان دار کیوں ہوں؟ کیوں نہیں میں آنکھ بند کر کے لکھ دیا کرتا ہوں۔

    شوگر۔۔۔ Nil

    البومین۔۔۔ Nil

    پس سل۔۔۔ Nil

    یہ۔۔۔ Nil

    وہ۔۔۔ Nil

    میں نے کسی کی زندگی کا ٹھیکہ تو لیا نہیں ہے۔ کیا میری دی ہوئی رپورٹوں نے سب کوبچا لیا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے اور اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ’’گو‘‘ میرا مقدر ہے میں اپنے آپ کو اس قدر Important کیوں سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹر لوگ میری سنتے بھی کب ہیں؟ اور وہ سنیں بھی کیوں؟

    ’’تم گدھے ہو۔‘‘ ڈاکٹر کہنے لگے ہیں۔

    ’’نہیں میں پیتھالوجسٹ ہوں۔‘‘

    ’’لیکن تم پر سکرائب نہیں کر سکتے۔‘‘

    ’’میں نے کب کہا؟‘‘

    ’’میں رپورٹ لکھواؤں وہ تمھیں لکھنا ہوگی۔‘‘

    میں سب سے کیسے بتاؤں کہ میری کائنات ایک بہت بڑا بمپلس ہے، میں اس بمپُلس میں خوردبین لیے بیٹھا ہوں، طرح طرح کے کیڑے، جراثیم رینگتے اور کلبلاتے ہوئے ایک نقطہ کے کروڑ ویں حصے کے برابر میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔

    ’’دیکھو میں اس اسپتال کا مالک ہوں۔۔۔ میں تمہیں بے دخل کر دوں گا۔۔۔‘‘ اسپتال کا ڈاکٹر مجھے دھمکی دیتا ہے۔

    لیکن تم ایسا نہیں کروگے۔ میں اس بمپلس میں جیا ہوں۔ میں نے اس کو برسوں سونگھا ہے، اس کے تعفن کو اپنی رگ رگ میں بسایا ہے میں نے۔ اس میں پڑے ہوئے سفید سفید بجبجاتے ہوئے کیڑوں کو بڑے پیار سے اپنے کانوں اور آنکھوں پر رینگتے ہوئے محسوس کیا ہے میں نے۔ یہ سارے ٹسٹ ٹیوب، بیکر فلاسک، اسپرٹ لیمپ، سلائڈ ان سب پر میری مہر ثبت ہے۔ تم مجھے بے دخل کر دوگے تو کیا ہوا۔ میری خوردبین کو مجھ سے نہیں چھین سکتے۔ وہ برابر کام کرتی رہےگی۔ رپورٹیں لکھتی رہےگی۔ پیپ، خون، تھوک اور پاخانے کی یہاں کمی نہیں۔

    ’’ہمیں تمہاری رپورٹوں کی ضرورت نہیں۔ ہم اس کے بغیر بھی کام چلا لیں گے۔‘‘

    ’’ایسا تم کیوں سوچتے ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’اس لیے کہ وہ آدمی مر گیا، تمہاری رپورٹوں کے باوجود مر گیا۔‘‘

    ’’کیا تمہاری دواؤں سے آدمی نہیں مرتا؟ کیا تم ہر ایک کو موت سے بچا لینے پر قادر ہو؟‘‘

    ’’ہمیں نہیں معلوم۔ کیوں کہ ہم ڈاکٹر ہیں اور ہم خدائی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔‘‘

    ’’تو پھر آدمی کے نجات دہندہ تو تم بھی نہیں ہو۔ میں بھی نہیں ہوں۔ لیکن ڈاکٹر تم اس باریک فرق کو کیوں نہیں سمجھتے کہ تم مجھے ایک Lavatory سے اس موت گھر سے بے دخل نہیں کر سکتے۔‘‘

    ’’اچھا سنو!‘‘

    ’’کہو ڈاکٹر!‘‘

    ’’ہم دونوں ایک سمجھوتہ کر لیں۔‘‘

    ’’میں تیار ہوں۔‘‘

    ’تم Nil والا فارمولا اختیار کر لو۔‘‘

    ’’تو اس سے کیا فرق پڑےگا۔۔۔؟‘‘

    ’’تم بکواس بہت کرتے ہو سنتے کیوں نہیں۔‘‘

    ’’کہو ڈاکٹر۔۔؟‘‘

    ’’تم مجھے میری سی کرنے دونا۔‘‘

    ’’میں نے تمہیں کبھی نہیں روکا۔ میں تو اپنی لیب سے باہر بھی نہیں نکلا۔ تم دق کا علاج سلفاڈائزین سے کرتے رہے۔ تم نے کینسر کے لیے جوشاندہ تجویز کیا۔ تم نے فالج کے مریضوں کو اسپرین پر سکرائب کی، میں اپنے بمپلس میں مقید رہا۔‘‘

    ’’ہاں میں نے ایسا کیا۔۔۔ کیوں کہ یہ میری مجبوری تھی۔ لیکن تم سے پہلے جو پیتھالوجسٹ یہاں تھے، انہوں نے کبھی اتنا سر نہیں کھپایا۔ وہ آنکھ بند کر کے Nil لکھتے رہے لیکن تم بہت گھپلا کرتے ہو۔ میں پوچھتا ہوں تمھیں کس بات پر گھمنڈ ہے۔ یہ سلائڈس، یہ اسپتال، یہ ٹسٹ ٹیوب، یہ فارمولے، یہ اسپرٹ لیمپ بیکر اور فلاسک سب کچھ ہم نے تمھیں دیا ہے۔ ہم نے تمہیں اس کے استعمال کے طریقے اور پیمانے بتائے ہیں، ہم نے تمہیں پیتھا لوجسٹ بنا دیا۔ تم پھولتے کس بات پر ہو؟‘‘

    ’’لیکن وہ خوردبین۔۔۔‘‘

    ’’ہم اس کے لینسر نکال لیں گے۔‘‘

    ’’Oh No.‘‘

    ’’ہم سب کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ ہم اس اسپتال کے انچارج ہیں۔‘‘

    میں نے جب گو سے سمجھوتا کیا تھا تو کہا تھا کہ میری لیب میں آنے والا گو میرے ضمیر کا سہارا ہے۔ میں اس گوی ابدیت اور اس کی عظمت کا قائل رہا۔ میں یہ جانتا تھا کہ اس اسپتال میں ڈاکٹر آتے اور جاتے رہیں گے لیکن یہ گو، یہ قاروروں کی شیشیاں، یہ بلغموں کے چکتے، یہ جو میری کائنات ہیں، میری شخصیت کا حصہ ہیں، مجھ سے اسی طرح جڑے رہیں گے کیونکہ میں ایک پیتھالوجسٹ ہوں، میں رات رات بھر انہیں اپنی گود میں لیے بیٹھا رہوں گا۔ جسم اپنے مختلف راستوں سے جو اخراج کرتا ہے، مجھے اس اخراج سے محبت کرنا پڑتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی۔ کبھی کسی کے کہنے پر کبھی خود سے۔۔۔

    لیکن۔۔۔ لیکن وہ آدمی مر گیا۔

    اس لیے کہ ڈاکٹروں کو کسی دوسرے آدمی سے زیادہ دلچسپی ہو گئی تھی۔ آدمی کیا ہے؟ یہاں کے ڈاکٹروں کے لیے۔

    آدمی کیا ہے۔۔۔؟

    زندہ ہنستا کھیلتا ہوا آدمی۔۔۔

    بیمار اور مریل آدمی۔

    ٹٹنس کے تشنج سے اکڑا ہوا آدمی۔

    خون تھوکتا ہوا آدمی۔

    بجلی کے کرنٹ سے جلا ہوا

    سانپ کے زہر کا ڈسا ہوا

    پلیگ کے بخار میں پھنکتا ہوا

    یہاں کتنے ہی طرح کے آدمی ہیں۔یہ بے چہرہ لوگ اپنے ناموں سے نہیں اپنے مرض سے پہچانے جاتے ہیں۔ میں نے اس سے بتایا، ’’ڈاکٹر تم کوئی نئی بات نہیں کروگے کیونکہ اس سے پہلے بھی مجھے کئی بار اس اسپتال سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ مجھ سے میرے لنسز لے لیے گیے ہیں لیکن اسپتال کا کام چلتا رہا ہے کہ آدمی کو ہم دونوں مل کر بھی نہیں بچا سکتے۔

    ’’تو پھر تم رپورٹیں کیوں لکھتے ہو؟‘‘

    ’’اس امید پر کہ شاید وہ زندہ رہ سکیں۔‘‘

    ’’بکواس۔۔۔ اور زیادہ اخراج کرنے کے لیے۔۔۔؟‘‘

    ’’بالکل۔۔۔ کیونکہ تمہارے Prescription سے میرے حصے کی لعنتیں تو کم نہیں ہو پاتیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر حالت میں تمہاری بالادستی میرے اوپر رہتی ہے اور مجھے گوسے نہیں بالادستی سے نفرت ہے اس لیے ڈاکٹر تم میرے وجود کی ضد ہو۔ آؤ ہم اپنے اپنے پیشے کی لعنتوں کو کچھ دنوں کے لیے بدل لیں۔ ڈاکٹر میرے اندر بھی Prescribe کرنے کا ایک خواب ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں اس گو خانے میں بٹھا دوں اور میں پرسکرائب کروں۔ ساری دنیا کا تعفن تمہارے اوپر ڈال دوں اور میں پرسکرائب کروں، تمہارے عمل کے پیچھے جو تجسس کام کرتا ہے اس کا نشہ بڑا لذت بخش ہوتا ہے۔‘‘

    ’’یہ تمہارا وہم ہے۔ میرے کام میں کوئی تجسس نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیا تم کسی آدمی پر یہ سوچ کرمحنت نہیں کرتے کہ شاید تم اسے بچالے جاؤ۔‘‘

    ’’صرف اسی حد تک کہ جس حد تک ہم زمین پر رینگنے والی چیونٹیوں کو اپنے پیروں تلے روندے جانے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، اس حالت میں جب چاروں طرف چیونٹیاں ہی چیونٹیاں ہوں نہ ہمیں مر جانے والی چیونٹیوں کا اندازہ رہتا ہے اور نہ بچ جانے والیوں کا۔‘‘

    ’’تو کیا پرسکرپشن ایک میکانکی عمل ہے؟‘‘

    ’’ٹھیک اسی طرح جس طرح بیکٹیریا کی تلاش۔‘‘

    ’’تو کیا ہم دونوں ایک میکانکی اور بے ارادہ عمل میں گرفتار ہیں، جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔‘‘

    ’’مجھے لگتا ہے کہ یقینا ایسا ہی ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے تو کل ہی میں اس Lab میں آگ لگا دوں گا۔ مجھے ان غلاظتوں سے نفرت ہے۔‘‘

    ’’میرا کہنا مانو Nil لکھ دیا کرو اور جمعدار سے کہا کرو پیشاب کی شیشیاں اور پاخانوں کے کلہڑ اور ڈبے کہیں دور ڈال آیا کرے۔‘‘

    ’’لیکن تم آخر کیا کرتے ہو۔۔۔؟ میرا مطلب ہے تمہاری راہِ فرار کیا ہے؟‘‘

    ’’کوئی ضروری نہیں کہ میں ہمیشہ نبض پر ہاتھ رکھوں۔‘‘

    ’’لیکن جب تمہارا نبض پر ہاتھ رکھنے کو جی چاہتا ہے تب تم کیا کرتے ہو ڈاکٹر۔۔۔؟‘‘

    ’’مجھے پتہ نہیں۔۔۔‘‘

    ’’کیا تمہارے اپنی زندگی کا کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں، جب تم نے بے قراری سے یہ چاہا ہو کہ تم کسی کو بچالے جاؤ۔ اس کے لیے تم نے اپنی تمام تر صلاحیتیں، اپنے تمام تر علم اور عرفان کی بازی لگا دی ہو، جہاں تمہیں نہ وقت کا احساس رہ گیا ہو اور نہ تھکن کا ۔جب تمہارا وجود، تمہارا جینے کا مقصد بس ایک ہی نقطہ پر سمٹ آیا ہو۔‘‘

    ’’یہاں بہت بار ایسا بھی ہوا ہے۔‘‘

    ’’اور تم کامیاب نہیں ہوئے۔‘‘

    ’’ہوا بھی اور نہیں بھی۔۔۔‘‘

    ’’تمہیں ایسی کامیابیوں پر خوشی نہیں ہوئی۔ ایک ایسا اطمینان اور آسودگی جس کا کوئی نام نہیں۔‘‘

    ’’ممکن ہے ہوئی ہو۔‘‘

    ’’تو تمہیں میری خدمات کا کوئی اعتراف نہیں۔‘‘

    ’’کیا تم کوئی خدمت واقعی کرتے ہو؟‘‘

    میں اگر پیتھالوجسٹ ہوں جو کہ میں ہوں تو پھر میں کچھ کرتا ضرور ہوں۔ وہ اسٹول جو میرے پاس بھیجا جاتا ہے یا جو کسی نہ کسی طرح مجھ تک پہنچتا ہے۔ آخر اس سے میرا ایک رشتہ ہے۔ ڈاکٹر کی مجھ پر بالادستی کیوں ہے۔ کیا پیتھالوجسٹ ہونا میری مجبوری ہے۔ جب میں انالسس کرتا ہوں جب میں پیشاب میں شکر کا فیصد نکالتا ہوں تو کیا میں ایک گھسے پٹے طریقے پر کام کرتا ہوں، کیا میرا کام پیشاب میں چھپی ہوئی سچائیوں کا کوئی بڑا حصہ باہر نکال کر نہیں لاتا، کیا میرے ٹسٹ ہمیشہ ٹھیک ہوتے ہیں؟ کیا وہ سیال جو میں قاروروں میں چند مخصوص ردعمل کی تلاش میں ڈالتا ہوں سو فیصد ٹھیک ہوتے ہیں۔ کیا کبھی کبھی میں A نام کے آدمی کا خون بی نام کے آدمی کی سلائڈ پر چڑھاکر رپورٹ مرتب نہیں کر سکتا۔ کیا قطعی ناممکن ہے؟

    کچھ لازوال نہیں ہے۔ بڑائی، طاقت، ملکیت یہ سب فصلیں ہیں ان کو اگایا جاتا ہے۔ اگر بیج اچھا ہے، زمین زرخیز ہے، قدرت مہربان ہے، کسان محنتی اور ہنرمند ہے تو یہ ساری فصلیں اچھی ہوں گی۔ لیکن ان جانورو ں کو ہم کس خانے میں رکھیں گے جو کچھ نہیں کرتے۔ صرف تیار فصلوں کو چر جاتے ہیں۔ نہیں ہم کوئی کلیہ نہیں بنا سکتے۔ لیکن میں ڈاکٹر کی بالادستی قبول نہیں کر سکتا۔ وہ مجھے اسٹول بھیجتے وقت، قارور ے دیتے وقت کسی خاص بیکٹیریا کی تلاش کے لیے ہدایت کیوں کرتا ہے وہ سارے قیاس پہلے سے کیوں کر لیتا ہے؟ میں اس اسپتال سے چھٹکارا چاہتا ہوں، میں سارے کے سارے ڈاکٹروں کی بالادستی کا منحرف ہوں۔ میں آزادی چاہتا ہوں۔۔۔

    اس لیے مجھے کیا کرنا چاہئے۔

    مجھے پیتھالوجسٹ کو قتل کر دینا چاہئے۔

    آج کی رات میں پیتھالوجسٹ کو قتل کر دوں گا۔

    میں رات کا انتظار نہیں کر سکتا۔ میں چند لمحوں میں اسے قتل کر دوں گا۔۔۔

    چند لمحے بہت ہوتے ہیں، میں ابھی اس کا قتل کر دوں گا۔

    مجھے دیکھنا یہ ہے کہ میں پیتھالوجسٹ کو اپنے سے الگ کر کے جی سکتا ہوں یا نہیں۔ ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں اسے قتل کر دوں گا۔

    سوچتا ہوں رات تک ضرور قتل کر دوں گا۔

    وقت ملا تو کل تک وہ ضرور قتل ہو جائے گا۔

    ٹھیک ہے دو چار روز بعد سہی لیکن میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔

    اس لیے کہ میں اپنے وجود سے اپنے اندر کے پیتھالوجسٹ کا پیچھا چھڑا کر یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ میری مہملیت میں کوئی فرق پڑا یا نہیں۔

    رات میں پیتھالوجسٹ کو قتل کر چکا ہوں۔ اب سویرا ہوا چاہتا ہے۔ میرے دروازے پر ابھی اخبار والا اخبار ڈال گیا ہے۔ میں اخبار اٹھاتا ہوں، پہلا صفحہ کھولتا ہوں کہ میرے کانوں میں ایسی آوازیں آتی ہیں، جیسے ٹیسٹ ٹیوب بج رہے ہوں، جیسے سلائڈس آپس میں ٹکرا رہے ہوں، میں ایک جانی پہچانی سی آواز سنتا ہوں۔

    ’’کون۔۔۔؟ کون ہے۔‘‘ میں سوال کرتا ہوں۔

    ’’ڈسٹرب مت کرو۔ کام کرنے دو۔‘‘ جواب ملتا ہے۔ میں اس آواز کو پہچان لیتا ہوں اور میری آنکھوں میں اپنی زندگی کی ایک اور ناکامی پر آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ مرا نہیں تھا۔ شاید میں زندگی بھر اس مہملیت کے کرب سے آزاد نہ ہو سکوں گا۔۔۔ لیکن کل ایک کوشش اور کروں گا۔۔۔۔ آخری کوشش۔۔۔

    مأخذ:

    ایک حلفیہ بیان اور دوسرے افسانے (Pg. 130)

    • مصنف: اقبال مجید
      • ناشر: اقبال مجید

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے