کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو حقیقی محبت کی بجائے لفظی محبت میں یقین کرتا ہے۔ وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے اور موقع بہ موقع جس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی بھی اس سے بے پناہ محبت کرتی ہے مگر وہ اظہار کرنے سے جھجکتی ہے۔ وہ اسے بیوی کی بے اعتنا ئی سمجھتا ہے اور ادھر ادھر دل بہلانے لگتا ہے۔ بیوی کو جب اس کی ان حرکتوں کا پتہ چلتا ہے تو اسے اتنا دکھ ہوتا ہے کہ اس کی موت ہو جاتی ہے۔
مسٹر شام لال دہلی کے مشہور بیرسٹر تھے۔ نہایت خوش وضع اور پورے اپ ٹو ڈیٹ، ان کی شادی امرتسر کے رئیس پنڈت شب چندر کی صاحبزادی روپ وتی سے ہوئی تھی۔ روپ وتی اسم بامسمیٰ تھی۔ چھوٹا ساقد، گورا رنگ، نقش و نگار۔ اس سے جو ملتا وہی اس کا مداح بن جاتا لیکن اس میں ایک عیب بھی تھا۔ اوچھی نہ تھی۔ آئینہ دل میں شوہر کی پوجا کرتی تھی لیکن زبان سے کلمۂ محبت نہ کہہ سکتی تھی۔ جدائی کی گھڑیاں کتنی تلخ اور رنجیدہ ہوتی ہیں؟ اس امر کو محسوس کرتی تھی۔ لیکن شوہر کے روبرو ظاہر نہ کر سکتی تھی۔ وہ اسے بیوی کی شان سے گرا ہوا تصور کرتی تھی۔
مگر شام لال کی طبیعت اس کے برعکس واقع ہوئی تھی۔ وہ دنیاوی آدمی کی مانند محبت کرنے کے اقرار، الفت کے وعدے اور پیار کی باتیں کرنے لگتے۔ اس کے نازک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے۔ منہ کی طرف تاکتے اور باب محبت کھول دیتے تھے۔
میں سوچتا ہوں تو تمہارے متعلق سوچتا ہوں۔ کچہری میں تمہاری یاد میرا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ ورنہ کئی مقدمے خراب ہو جائیں۔ میں تمہیں اپنے دل کی پوری قوت سے محبت کرتا ہوں مگر تم ہو کہ پتھر کی مورت کی طرح زبان تک نہیں ہلاتی۔ کہو تو سہی تم کو مجھ سے کتنی محبت ہے۔؟
روپ وتی کچھ کہنا چاہتی مگر حیا زبان پکڑ لیتی۔ پھر کوشش کرتی لیکن ناکام رہتی۔ آخر اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا۔ گویا اس سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہو۔ تب وہ اپنی محبت نگاہیں خاوند کے چہرے پر گڑوہ دیتی اور زبان کا کام آنکھوں سے لینے کی کوشش کرتی۔ شام لال کچھ نہ سمجھتے۔ مگر روپ وتی ہنس کر گردن جھکا لیتی اور آہستہ سے جواب دیتی، ’’آپ کا کام ختم ہو گیا؟‘‘ اس پر شام لال سٹ پٹا کر باہر نکل جاتے اور کاغذات کو زمین پر پٹک دیتے۔
اسی طرح کئی سال گزر گئے۔ شام لال کی طبیعت بے قرار رہنے لگی۔ اس میں شک نہیں کہ روپ وتی ان سے اپنے دل کی پوری قوت سے محبت کرتی تھی لیکن شام لال کی اس سے تشفی نہ ہو سکتی تھی۔ وہ اتنے حقیقی محبت کے خواہشمند نہ تھے جتنے اظہار محبت کے، اکثر سوچتے، ایسی حسین عورت پا کر بھی خوشی نہ ملی۔ چاندنے پاکھ میں اس قدر افسردگی ہوگی۔ اس کا گمان بھی نہ تھا۔ صورت دیکھ کر ریچھ گئے تھے لیکن اب غلطی کا احساس ہوا۔ وہ بیوی مانگتے تھے۔ مگر ان کو دیوی ملی جس میں ملاحت تھی، وفا تھی، مگر شوخی اور شرارت نہ تھی حالانکہ اسی شے پر جی جان سے فدا تھے۔
روپ وتی کی زبان جس قدر شرمیلی تھی۔ اس کی آنکھیں اس سے دس گنا زیادہ تیز تھیں۔ معاملے کو فوراً بھانپ لیتی تھی، جب شام لال کی طبیعت ڈانواں ڈول ہوئی اور آنکھیں محبت کے سودے میں مصروف ہوئیں۔ تو روپ وتی سب کچھ سمجھ گئی۔ اس کی نیند کھلی لیکن تب، جب کہ وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ تاہم اس کی وضعداری میں فرق نہ آیا۔
ساون کا مہینہ تھا۔ شام لال نے روپ وتی سے کہا، ’’کہو تو جھولنا ڈلوائیں چلوگی؟‘‘
روپ وتی نے جواب دیا، ’’یہیں ہارمونیم لے آؤ۔ اتنی دور کون جائےگا۔‘‘
’’تم کچھ گا کر سناؤگی؟‘‘
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں گانا نہیں جانتی؟‘‘
’’میں محبت کا پجاری ہوں۔ ساون کے مہینے باغ میں حسن کھلتا ہے۔ وہاں جائے بغیر دل نہیں مانتا۔‘‘
’’تم محبت کرتے ہو کسے؟‘‘
’’ساری دنیا میں صرف تمہیں۔‘‘
’’آپ ہو آئیں۔ میں منع نہیں کرتی۔‘‘
شام لال مایوس ہو کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد روپ وتی کے دل میں خیال آیا۔ میں نے اچھا نہیں کیا۔ پتہ نہیں۔ ان کے دل میں کون کون سی امنگیں اٹھ رہی تھیں۔ ان پر پانی پھر گیا۔ کس گرمجوشی سے آئے تھے لیکن میری سرد مہری نے ملول کر دیا۔ میرا بھلا کس جگ میں ہوگا۔
یہ سوچ کر نوکر کو بلوایا اور کہا، ’’موٹر تیار کرو۔ میں موہن باغ کو جاؤں گی۔‘‘
نوکر نے جواب دیا، ’’موٹر بابو جی لے گئے ہیں۔‘‘
’’بند بگھی ہے؟‘‘
’’وہ سٹیشن پر گئی ہے۔‘‘
’’ٹانگا؟‘‘
’’وہ بیکار پڑا ہے۔‘‘
روپ وتی نے سوچا، میں نے انہیں منانا ہے، تو بگھی کی کیا ضرورت ہے۔ پیدل چلوں گی اور اپنے قصور کو معافی مانگوں گی۔ میرا غرور انہوں نے اب تک نبھایا ہے لیکن میں نے ان کی قدر نہیں کی۔ آج یاس ان کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔ یہ انتہا ہے۔
اتنا سوچ کر اس نے ایک معمولی سی ساڑھی پہنی اور نوکر کو ساتھ لے کر موہن باغ کو روانہ ہوئی لیکن وہاں جا کر دیکھا تو اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ شام لال نشۂ عشق میں سرشار حسن کی پوجا میں محو تھے۔ روپ وتی کے سینے میں گویا کسی نے برچھی اتار دی۔ الٹے قدموں واپس آئی اور چارپائی پر لیٹ گئی۔
روپ وتی ہنستی بھی تھی اور روتی بھی تھی۔ ہنستی اس لئے تھی کہ شام لال ظاہری محبت پر فدا تھے۔ مگر حقیقی الفت سے قطعی نا آشنا جس طرح نادان بچہ لسی کو دودھ پر ترجیح دے کر سمجھتا ہے کہ میں نے دانائی کا کام کیا۔ اسی طرح شام لال نے روپ وتی کی حقیقی محبت کی تہہ کو نہ پا کر زبانی محبت کی باتوں کو دل دیا۔ روتی اس لئے تھی کہ میں نے اپنا اثاثہ لٹا دیا۔ لیکن! ہوش تب آیا جب گھر خالی ہو گیا۔ شوہر کی بے وفائی سے اس کا دل ٹوٹ گیا اور وہ ایسی بیمار ہوئی کہ بچنے کی آس نہ رہی تاہم اسے فکر نہ تھی۔ کیونکہ اب وہ مرنے ہی میں امن ڈھونڈھتی تھی اور زندگی کا ایک ایک دن اسے دوبھر معلوم ہوتا تھا۔
ایک دن رات کے وقت شام لال سوئے ہوئے تھے کہ جھٹکے کی آواز سے بجلی کا پنکھا بند ہو گیا۔ روپ وتی جاگ رہی تھی۔ اس میں اٹھنے کی ہمت نہ تھی لیکن اس خیال سے کہ خاوند کی نیند خراب نہ ہو۔ بمشکل تمام اٹھی اور تاڑ کا پنکھا لے کر اس شام لال کو ہوا کرنے لگی۔ اس سے شام لال کی نیند کھل گئی لیکن وہ خاموش پڑے رہے۔ بہت دیر تک جھلتی رہی۔
دفعتاً شام لال کی گال پر پانی کے چند قطرے گرے۔ انہوں نے چونک کر آنکھیں کھول دیں اور روپ وتی کا ہاتھ پکڑ کر بے تابانہ انداز سے بولے۔
’’روپ وتی روتی کیوں ہو؟‘‘
روپ وتی کے قلب کو محبت کی اس بے پردگی پر صدمہ پہنچا، ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا۔ کہ زندگی کے زیادہ دن باقی نہیں۔ سرجھکا کر بولی، ’’اپنی قسمت کو۔‘‘
’’بیوقوف ہوئی ہو۔ تم بچ جاؤگی۔‘‘
’’یہ ناممکن ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’زندہ رہنے کی خواہش ہی نہیں ہے۔‘‘
شام لال کے بدن سے پسینہ چھوٹنے لگا۔ اپنے کرتوت آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ تاہم ہمت کر کے بولے، ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘
روپ وتی بیٹھی تھی۔ تن کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی، ’’میں ہندوستانی عورت ہوں۔ ہندوستانی عورت خاوند کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ سکتی ہے۔ لیکن خاوند کو کسی قیمت پر بھی دیائ قبول نہیں کر سکتی۔ جب تک تم میرے تھے۔ میری زندگی شیر و شکر کی دھار تھی لیکن اب تم نے اس میں زہر ملا دیا ہے۔ اسے میں نے آج تک چھپائے رکھا ہے مگر اب چھپانے کی ضرورت نہیں۔ میرا غرور تم ہو۔ جب تم ہی چھن گئے تو غرور کیسا؟ اور جب غرور نہ رہا۔ سراونچا کرنے کی جرأت نہ رہی تو زندگی کس کام کی پرماتما اب تو اٹھالے۔‘‘
کیا پر حسرت الفاظ تھے۔ شام لال کے دل میں کسی نے گھونسا مار دیا۔ گھٹنے ٹیک کر بولے۔
’’میں تمہاری طرف سے لاپروائی کا گنہگار ہوں۔معاف کر دو۔‘‘
اس وقت شام لال کے چہرے پر معصومیت کا رنگ جھلک رہا تھا۔ اس لئے روپ وتی کو بہت پیارے معلوم ہوئے۔ چاہا کہ ضبط کروں لیکن نہ ہو سکا۔ لرزتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر بولی، ’’پیارے۔‘‘
اس ایک لفظ میں محبت کی مکمل داستان پوشیدہ تھی۔ شام لال پر جادو ہو گیا۔ یہی شے تھی جو انہیں دستیاب نہ ہوتی تھی۔ محبت سے بیتاب ہو کر انہوں نےروپ وتی کو گلے سے لگا لیا۔ اس سے پہلے ایسے مواقع پر روپ وتی شرم سے گردن جھکا لیتی تھی لیکن آج اس نے محبت کے شکستہ فقروں سے ان کی دیرینہ آرزوؤں کو پورا کر دیا۔ شام لال سورگ میں پہنچ گئے۔
روپ وتی نے سمجھا۔ اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ بچ رہوں تو اچھا ہے۔ شام لال نے سوچا۔ ایسی عورت دنیا میں نہ ملے گی۔ مر گئی تو کیا ہوگا۔ اس خیال سے وہ علاج پر زیادہ توجہ دینے لگے۔ روپ وتی کو افاقہ ہونے لگا لیکن انسان کچھ سوچتا ہے خدا کو کچھ اور منظور ہوتا ہے۔ روپ وتی روز پروز صحت حاصل کر رہی تھی کہ قسمت نے پانسہ پلٹ دیا۔
شام کا وقت تھا، وہ چارپائی پر بیٹھی سبزی کتر رہی تھی کہ نوکر نے ڈاک لا کر میز پر رکھ دی۔ اس میں سے ایک خط کا دستخط زنانہ تھا۔ روپ وتی کو کچھ شبہ گزرا۔ اس نے سبزی چھوڑ کر خط کھولا۔ شبہ یقین کی صورت اختیار کر گیا۔ شام لال کی محبت متزلزل ہو چکی تھی۔ یہ اس کازبردست ثبوت تھا۔
شام کو شام لال گھر واپس آئے تو روپ وتی کےچہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ انہوں نے بہت چاہا کہ وجہ دریافت کریں لیکن روپ وتی نے کوئی جواب نہ دیا۔ آدھی رات تک منانے کی کوشش کرتے رہے مگر روپ وتی نے سنا ان سنا ایک کر دیا۔ آخر وہ تھک کر سو گئے۔ مگر ایک بجے کے قریب نوکر نے جگا کر کہا۔’’بی بی جی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ اٹھ کر دیکھ لیجئے۔‘‘
شام لال گھبرا کر اٹھے اور آنکھیں ملتے ملتے بولے۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’حالات اچھے نہیں۔‘‘
شام لال نے بیوی پر جھک کر دیکھا تو سناٹے میں آ گئے اور رو کر بولے، ’’روپ وتی کیا ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر بلاؤں؟‘‘
روپ وتی کی حالت نہایت غیر ہو رہی تھی۔ رک رک کر بولی، ’’اب وقت نہیں ہے۔‘‘
’’اب وقت نہیں، کیا مطلب؟‘‘
روپ وتی نے اشارہ سے نوکر کو کہا کہ باہر چلے جاؤ جب وہ چلا گیا تو بولی، ’’میں نے زہر کھا لی ہے۔‘‘
شام لال کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ حیرت کے انداز سے بولے، ’’یہ کیوں؟‘‘
’’میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔‘‘
شام لال کچھ اور نہ پوچھ سکے۔ پاپی کے پاپ کانپتے ہیں۔ روپ وتی نے کہا، ’’ایک عرض ہے۔‘‘
شام لال نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا، ’’کہو۔‘‘
’’آخری دفعہ مجھے پیار کر لو۔ تمہیں پیار کرتی ہوئی مروں۔ یہ میری آرزو ہے۔‘‘
شام لال ڈھاریں مار مار کر رونے لگے۔ روپ وتی نے کہا، ’’روتے کیوں ہو۔ میری بات مانو۔ وقت تھوڑا ہے۔‘‘
شام لال نے اس کھانڈ کے کھلونے کو پیار کیا۔ روپ وتی نے بھینچ بھینچ کر شام لال کو گلے لگایا۔ آخر جب تھک گئی تو بولی، ’’اب بدن میں آگ لگ گئی ہے۔‘‘
شام لال رونے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد روپ وتی ان کی گود میں سر رکھے ہوئے چل بسی۔
کہتے ہیں کسی چیز کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ پاس نہ رہے۔ روپ وتی جب تک زندہ تھی۔ شام لال کی نگاہوں میں اس کی قدر نہ تھی لیکن جب وہ مر گئی تب اس کی خوبیاں یاد آنے لگیں۔ شام لال نے روپ وتی کو کھو کر اس کی قدر جانی۔ اتنا ہی نہیں۔ ان کو اس سے بھی، جس کے باعث روپ وتی نے اپنی قیمتی جان اپنے شوہر پر قربان کر دی تھی۔ نفرت ہو گئی۔ یہاں تک کہ اس کا منہ دیکھنے کے بھی روادار نہ رہے۔ جس طرح انسان مرغوب طبع مٹھائی زیادہ مقدار میں کھانے کے باعث بیمار ہو جاتا ہے تو اس مٹھائی سے اس کی طبیعت چڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح شام لال شیاما کی صورت سے بیزار ہو گئے حالانکہ اس کا اس میں سر مو قصور نہ تھا لیکن دنیا کے ڈھنگ نرالے ہیں۔ یہاں گنہگار بےقصوروں سے نفرت کرتے ہیں اور دھرماتما لوگ شیطان سیرت آدمیوں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے بیٹھنے میں فخر سمجھتے ہیں۔
مگر یہ تقویٰ و زہد زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ روپ وتی کی یاد پرانی ہوتی گئی۔ شام لال شیاما کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ اس کے والدین نے موقع غنیمت جانا اور سال کے خاتمہ سے پہلے ہی ان کے ساتھ شیاما کی شادی کر دی۔
اوپر کے واقعہ کو دو سال گزر گئے۔ ساون کا مہینہ تھا۔ قدرت سبز مخمل کا لباس زیب تن کئے ہوئے تھی۔ آسمان پر بادل منڈلاتے تھے۔ زمین پرندیاں دوڑتی تھیں۔ یہ وہی موسم ہے جب حسن نکھرتا ہے اور عشق کا دیوتا پھولوں کے تیر چلاتا ہے۔ جب برہمن کے سینے میں ہوک اٹھتی ہے اور وہ پردیسی پیا کی یاد میں بیماری کا بہانہ کرتی ہے۔ جب نازنین صندل کے پٹڑے پر جھولنا جھولتی ہے اور عاشق مزاج شوہر ملہار کا ترانہ چھیڑتا ہے۔ جب شاعر کے دل کا سوتا کھلتا ہے اور مصور کا قلم کسی رنگین نظارے کے لئے بیتاب ہوتا ہے۔
ایسا دلربا موسم خالی کیسے چھوڑا جا سکتا ہے۔ شام لال اپنی نئی دلہن شیاما کے پاس جا کر بولے۔
’’شیاما! جھولنا ڈالواؤں، باغ چلوگی؟‘‘
شیاما نے مسکرا کر جواب دیا، ’’وہاں کیا ہے؟‘‘
ساون کے مہینے باغ میں حسن کھلتا ہے۔ میں محبت کا پجاری ہوں۔ وہاں جائے بغیر دل نہیں مانتا۔
شیاما نے شام لال کی طرف کنکھیوں سے تاک کر کہا، ’’تم محبت کس سے کرتے ہو؟‘‘
’’ساری دنیا میں صرف تمہیں۔‘‘
شیاما نے زور سے قہقہہ لگایا اور ہنس کر بولی، ’’جھوٹ تو نہیں کہتے؟‘‘
عین اسی وقت دیوار سے ایک تصویر گری اور اس کا چوکھٹا اور شیشہ دونوں ٹوٹ گئے۔ اس کے باہر مینکا اور وشوامتر کی تصویر تھی لیکن پیچھے روپ وتی کی تصویر تھی جسے شام لال نے احتیاطاً اس طور سے پوشیدہ کر رکھا تھا کہ شیاما کی اس پر نظر نہ پڑے۔ شام لال کو اسے دیکھتے ہی وہ دن یاد آ گیا، جب یہ الفاظ اس نے روپ وتی سے کہے تھے، خیال آیا۔ میری محبت کیسی اوچھی ہے۔ وہ اپنے دل کی گہرائی سے مجھے چاہتی تھی لیکن میں نے اس کی قدر نہ کی۔ میں زبان کے الفاظ میں محبت ڈھونڈھتا تھا لیکن وہ اس سے بالا تھی۔ دو چار دس منٹ گزر گئے۔ شام لال تصویر کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتے رہے اور تب آہستہ سے بولے، ’’میں محبت کا گنہگار ہوں۔‘‘
شیاما نے یہ دیکھا توڈر گئی اور آگےبڑھ کر کہنے لگی، ’’کیوں؟ کیاہوا، طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
لیکن شام لال اس دنیا میں نہ تھے۔ پاگلوں کی طرح بولے، ’’میں محبت کا گنہگار ہوں۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
’’میں محبت کا گنہگار ہوں۔‘‘
شیاما نے ڈاکٹر بلوائے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ شام لال کی حالت روز بروز زیادہ خراب ہونے لگی۔ آخر ایک دن جب شیاما ان کے بستر کے پاس سو رہی تھی۔ تو شام لال نے ہنس کر کہا، ’’روپ وتی! تو آ گئی لیکن میرا اتنا کیوں خیال کرتی ہو میں محبت کا گنہگار ہوں۔‘‘
شیاما چونک اٹھی اور اس نے گھبرا کر شام لال کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ وہ بہت مدھم تھی۔ پاؤں ٹٹولے بالکل سرد۔ اس نے سرپیٹ لیا۔ مگر شام لال کی بیماری پیام مرگ تھا۔ اسی رات کو ان کا مرغِ روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا لیکن اس کمرے سے کہتے ہیں۔ اب تک برابر آوازیں آتی ہیں۔
’’میں محبت کا گنہگار ہوں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.