Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

محبت کے رنگ

غضنفر

محبت کے رنگ

غضنفر

MORE BYغضنفر

    میرے سینے کے درد کی دھمک ثمینہ کی سماعت تک پہنچ گئی۔ دہکتے ہوئے انگاروں سے بھری انگیٹھی اور درد مٹانے والے تیل کی شیشی لیے شمینہ آناً فاناً میرے پاس آ دھمکی۔

    ’’ماسٹر صاحب! بٹن کھولیے، تیل مالش کردوں۔‘‘

    میں جھجھکا تو خود اسکی انگلیاں میری قمیض کے بٹنوں تک پہنچ گئیں۔

    ’’رہنے دو ثمو! کچھ دیر میں درد یونہی چلا جائیگا۔‘‘

    ’’یونہی کیسے چلا جائیگا۔ درد یونہی چلا جاتا تو پھر یہ دوائیں کیوں ایجاد ہوتیں؟ تکلف نہ کیجیے۔ ہاتھ ہٹائیے اور مجھے اپنا کام کرنے دیجیے۔‘‘

    ’’بےکار میں تم ضد کر رہی ہو۔‘‘

    ’’ضد میں نہیں، آپ کر رہے ہیں، پلیز ہاتھ ہٹائیے، ورنہ درد بڑھتا چلا جائیگا اور اگر خدا نہ خواستہ درد زیادہ بڑھ گیا تو اس وقت کوئی ڈاکٹر بھی نہیں ملےگا۔‘‘

    ثمینہ کی انگلیوں نے میرے ہاتھ کو قمیض سے الگ کر دیا اور خود بٹن کھولنے میں مصروف ہو گئیں۔

    قمیض کے دونوں سرے میرے دونوں پہلوؤں کی جانب کھسک گئے۔ گرم تیل اور خلوص میں ڈوبی ثمینہ کی نرم گرم انگلیاں میرے مضطرب سینے پر تیزی سے پھرنے لگیں۔ آہستہ آہستہ درد سرکنے لگا۔ درد مند انگلیوں کے خلوص نے میری نگاہوں میں ایک پیکر ابھار دیا۔ یہ وہ پیکر تھا جو اکثر ایسے موقعوں پر میرے پاس سمٹ آتا تھا اور جس کے آتے ہی درد سرک کر کہیں دور چلا جاتا تھا۔ اس پیکر کا لمس رگ و ریشے میں سکھ بھر دیتا تھا۔ یہ وہ پیکر تھا جو ایک حادثے میں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا تھا اور مجھے اپنے قرب سے ہمیشہ کے لیے محروم کر گیا تھا۔

    ممتا اور محبت کے اس پیکر کے کھونے اور اپنے خالی ہو جانے کا سارا کرب میری آنکھوں میں سمٹ آیا۔روشن دیدوں میں پانی بھر آیا۔ پیکر اس پانی میں ڈوب گیا۔ دیر تک میں رومال سے نم آلود اور بوجھل پلکوں کو صاف کرتا رہا۔ رومال ہٹا تو میری نگاہوں نے دیکھا کہ ثمینہ کی نظریں میری آنکھوں پر مرکوز تھیں۔ وہ یک ٹک مجھے دیکھے جا رہی تھی جیسے وہ کچھ تلاش کر رہی ہو اور اسکی نرم گرم انگلیاں اور بھی مستعدی سے میرے۔

    سینے پر پھر رہی تھیں۔ اسکی متلاشی آنکھیں اور رقص کناں انگلیاں دونوں مجھے اچھی لگیں۔ میری نگاہیں متلاشی آنکھوں پر مرکوز ہو گئیں۔ اس بار وہ مجھے پراسرار بھی لگیں۔مجھے یہ بھی محسوس ہوا جیسے وہ میرے اندر اترتی جا رہی ہوں اور شاید کچھ کہنا بھی چاہ رہی ہوں۔ میں دیر تک ثمینہ کی آنکھوں کی پراسراریت کو پڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اچانک میرے ذہن میں عجیب و غریب قسم کے خیالات ابھرنے لگے۔ پہلے تو میں ان خیالوں کو ادھر ادھر جھٹکتا رہا۔ بعد میں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم اس کمرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور ہمارے اردگرد کی ایک ایک چیز کا رنگ بدلتا جا رہا ہے۔

    تمھارا ذہن کہاں بھٹکنے لگا اشفاق؟ تم یہ کیا کیا سوچنے لگے؟ میرے اندر کی ایک آواز مجھے روکنے لگی۔

    تم کس کی باتوں میں آرہے ہو؟ آج جب ایک حقیقت تمھارے سامنے آ گئی ہے اور تمھیں محسوس ہونے لگا کہ سامنے والی آنکھیں تمھیں کسی اور رنگ میں دیکھ رہی ہیں تو تمھارا یہ سوچنا کوئی غیرفطری عمل نہیں ہے۔

    دوسری آواز مجھے آگے بڑھنے کا جواز فراہم کرنے لگی۔

    ’’مگر۔۔۔‘‘ پہلی آواز نے بات شروع ہی کی تھی کہ دوسری آواز اسکی تردید میں بول پڑی۔

    ’’مگر کیا؟یہی نہ کہ اس نئی سمت میں اڑنا اٹ پٹانگ لگ رہا ہے۔یہ اٹ پٹا پن بہت دیر تک باقی نہیں ر ہےگا۔ نئے احساس کا فطری پن اس کے بند کو بہت جلد توڑ دےگا۔

    دوسری آواز کی اس دلیل کے بعد میری نگاہوں کے پھیلاؤ کا دائرہ بڑا ہو گیا۔ ثمینہ کی آنکھوں کا رنگ اور گہرا اور گاڑھا نظر آنے لگا۔ دیدوں کے آئینے میں کچھ منظر بھی چمکنے لگے:

    ’’ماسٹر صاحب! لائیے اپنے کپڑے دیجیے، میں دھو دوں۔‘‘

    ’’میرے میلے کپڑے دھوؤگی؟‘‘

    ’’کیا میں اپنے میلے کپڑے نہیں دھوتی؟‘‘

    ’’پھر بھی‘‘

    ’’ تکلف نہ کیجیے۔ جلد ی سے دے دیجیے، نہیں تو آنگن سے دھوپ نکل بھاگےگی۔‘‘

    ’’مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں۔۔۔

    ’’مگر مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں سچ کہہ رہی ہوں، آپ کا کام کرکے مجھے خوشی ملتی ہے۔‘‘

    ’’ماسٹر صاحب! یہ پھول آپکے لیے۔۔۔‘‘

    ’’میرے لیے کیوں؟‘‘

    ’’آپ کو پھول بہت پسند ہیں نا اس لیے۔ بازار گئی تھی تو سب کے لیے کچھ نہ کچھ لائی۔آپ کا خیال آیا تو یہ پھول دکھ گئے۔ اچھے ہیں نا؟‘‘

    ’’اشفاق! تمھیں معلوم ہے ثمینہ نے یہ فرنی کیوں بنائی ہے؟‘‘

    ’’کیوں بنائی ہے امی جان؟‘‘

    ’’تمھاری کامیابی کی خوشی میں،کلاس میں تم اول جو آئے ہو نا۔‘‘

    ’’لیکن یہ کامیابی ایسی بھی نہیں کہ جشن منایا جائے۔‘‘

    ’’کیوں، ایسی کیوں نہیں ہے ماسٹر صاحب! ہمارے لیے یہ بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔ میرا بس چلتا تو میں اس خوشی کو خوب دھوم دھام سے مناتی۔‘‘

    منظروں کے آس پاس ثمینہ کا وہ چہرہ بھی ابھر آیا جس پر ہیڈ لائٹس کی طرح موجود اس کی بڑی بڑی معنی خیز آنکھیں مختلف موقعوں پر میری جانب مرکوز ہوتی رہی ہیں۔شاید کچھ بولنے یا بتانے کی کوشش کرتی رہی ہیں مگر میں اسکی نگاہوں کی زبان کو نہ سمجھ سکا۔ انکی معنی خیزی کا مفہوم نہ پا سکا۔

    میری نظروں کے سامنے ابھرے مناظر اور ثمینہ کے نظروں کے اسرار دونوں مل کر میرے آگے معنی کے در وا کرنے لگے۔ پھر سے چیزوں کا رنگ بدلنے لگا۔ رنگ سے پھوٹنے والی شعاعوں نے میرے ذہن کے آگے منڈرانے والے دھندلکوں کو دور کر دیا۔

    ثمینہ ایک نوجوان، خوبصورت اور پرکشش لڑکی کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ اس کے خط و خال، رنگ روپ، نشیب وفراز، لب ورخسار، قدوقامت سبھی مجھے اچھی طرح دیکھائی دینے لگے۔ اس کے اس نئے روپ کی جلتی ہوئی تیلیوں نے میرے جسم کے چراغوں کو روشن کر دیا۔ آہستہ آہستہ لویں اٹھنے لگیں۔ اٹھتی ہوئی لوؤں کی روشنی میں میں اوپر اڑنے لگا۔میرے ساتھ ثمینہ بھی اڑنے لگی۔اڑتے اڑتے ہم ایک ایسے گھر میں پہونچ گئے جہاں درودیوار سے جاں فزائی نور پھوٹ رہا تھا۔ طلسماتی رنگ ابھر رہا تھا۔ ماحول سحرساز خوشبوئیں بکھیر رہا تھا۔فضا میں ایک کیف آگیں موسیقی گھل رہی تھی۔ میں کم خواب کے بستر پر پڑا تھا اور جوان خوبرو ثمینہ میرے کھلے ہوئے چوڑے چکلے سینے پر اپنی نرم گداز انگلیوں سے گرم گرم تیل مالش کر رہی تھی اور میرا خواب کسی داستانوی شہزادے کی طرح اڑان بھرتا جا رہا تھا۔

    ’’ثمو! گیارہ بج گئے، سوئے گی نہیں؟‘‘

    نچلی منزل سے ثمینہ کی ممی کی آواز آئی اور خواب بکھر گیا۔

    ثمینہ چلی گئی اور میں خیالوں کی دنیا میں کھو گیا۔

    میرے پاس سے جا چکی ثمینہ ایک نئے روپ میں پھر سے میرے قریب آدھمکی۔اسکی جادوئی آنکھوں نے مجھے اپنے حصار میں لے لیااور اس کے یاقوتی لب کچھ بولنے کے لیے مچلنے لگے۔شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہوں:

    میری آنکھوں کی زبان تو ناکام ہو ہی گئی تھی، لگتا ہے انگلیوں کی زبان بھی اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو پائی۔ میں کیا کروں کہ زبان کھولے بنا میرے دل کا حال آپ کے دل تک پہنچ جائے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں ایک عورت ہوں اور عورت اس معاملے میں اپنے لب نہیں کھولتی۔

    اچھا ہوا کہ میرے د ل کی بات آپ تک پہنچ گئی ورنہ پتا نہیں میرا کیا حال ہوتا؟ میرا اضطراب مجھے کس کس کرب سے گزارتا؟ مجھ میں درد کی کتنی فصلیں اگاتا؟ کب تک مجھے کانٹوں کے بستر پر سلاتا؟ مجھے ان لذ توں اور مسرتوں سے محروم رکھتا جن سے میں ان دنوں سرشار ہوں۔

    ’’ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔ اٹھیے جلدی کیجیے۔ آج ہمیں تھاوے کی دیوی کا میلہ دیکھنے جانا ہے۔ آج کا میلہ میں آپ سے دیکھونگی۔ دیکھائیں گے نا؟ اس میلے میں لڑکیوں کے مطلب کی بہت ساری چیزیں آتی ہیں۔ جیب گرم کرکے چلیےگا اور ہاں، سنا ہے اس بار کوئی مشہور نوٹنکی پارٹی آئی ہوئی ہے۔ روز پیار محبت کا کھیل دیکھا رہی ہے۔ آج شیریں فرہاد کا کھیل دکھانے والی ہے۔ کسی طرح باجی وغیرہ کو گولی دے کر ایک دو گھنٹے کے لیے ان سے الگ ہو جائیں گے۔ بڑا مزہ آئےگا۔ میں چلتی ہوں، آپ تیار ہوکر نیچے آ جائیے۔

    خیالوں کے سحر نے ایسا سماں باندھا کہ دل ودماغ نے میرے ہاتھ میں کاغذ قلم تھما دیا:

    خط لکھ کر مجھے ایسی سرشاری ملی جیسے یہ خط ثمینہ نے مجھے لکھا ہو۔ میں نے اسے کئی بار پڑھا اور پھر تہہ کر کے اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیا۔

    کچھ دیر بعد تکیے کے نیچے دبا خط میرے تکیے کو آہستہ آہستہ اوپر اٹھاتا گیا۔ تکیے کے ساتھ ساتھ میں بھی اوپر اٹھتا گیا اور پھر اڑن تشتری کی طرح وہ مجھے خلاؤں میں ادھر ادھر اڑانے لگا۔

    ثمینہ کے تئیں میرے سینے میں جاگے اس نئے احساس نے ایسا مرہم لگایا کہ درد ایک بار بھی اپنا سر نہ اٹھا سکا۔ صبح سے شام تک تو درد کو ڈاکٹر کی دوا نے روکے رکھا مگر رات آتے ہی میرے منھ سے کراہ نکلنا شروع ہو گئی۔

    ثمینہ آگ اور تیل لے کر پھر میرے کمرے میں آ گئی۔

    اسے دیکھتے ہی میری کراہ میں اور تیزی آ گئی۔

    ’’کیا بات ہو گئی ماسٹر صاحب!دن میں تو درد نہیں تھا؟‘‘ وہ میری طرف حیران و پریشان ہو کر دیکھنے لگی۔

    ’’پتہ نہیں، یکایک درد کیوں بڑھ گیا؟‘‘ مختصر سا جواب دیکر میں خاموش ہو گیا۔

    ’’آپ نے ڈاکٹر کو دکھایا تھا؟‘‘ میرے سرہانے بیٹھتے ہوئے اس نے پوچھا۔

    ’’دکھایا تو تھا اور ڈاکٹر کی دوا سے درد تھم بھی گیا تھا مگر اس وقت پھر۔۔۔ میرا لہجہ بھی درد سے بھر گیا۔

    ’’گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ کل ڈاکٹر کو پھر دکھا لیجیےگا۔ اس وقت میں تیل کی مالش کر دے رہی ہوں۔ اس سے درد ضرور کم ہو جائےگا۔‘‘

    ’’تم کیوں تکلیف اٹھا تی ہو شمو! دوا کھالی ہے کچھ دیر بعد تھوڑا بہت درد کم ہو ہی جائےگا، تم جاؤ! سو جاؤ!‘‘سارا دن کام کرتی رہی ہو تھک گئی ہونگی۔‘‘

    کہنے کے لیے میں نے ثمینہ سے جانے کے لیے کہہ دیا تھا مگر دل ڈر رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ثمو واپس چلی جائے۔ ایک بار وہ کسمسائی تو محسوس ہوا جیسے جانے کے لیے اٹھ رہی ہو۔ اس وقت مجھے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا اور جی میں آیا کہ میں اپنے دماغ کے اس حصے کو کسی مضبوط شکنجے میں کس دوں جو خوا ہ مخواہ کی فارملٹیز نبھاتا رہتا ہے۔

    ’’نہیں، میں بالکل نہیں تھکی ہوں اور تھکی بھی ہوتی تو میری تھکن آپ کے دردسے زیادہ اہم تو نہیں ہوتی۔‘‘ یہ کہہ کر ثمینہ میرے سینے پر مالش میں مصروف ہو گئی، ثمینہ کے اس جملے نے میرے رگ وریشے

    میں کیف وانبساط کا نشہ گھول دیا۔

    آج بھی وہ میرے چہرے کی طرف یک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ میں بھی اس کی نظریں بچا کر کبھی کبھی اس کے سراپے کو دیکھ لیا کرتا تھا۔جی چاہ رہا تھا کہ وہ یونہی ساری رات میرے پاس بیٹھی رہے۔ اس کی نرم گرم انگلیاں میرے سینے پر رقص کرتی رہیں۔مجھ میں حرارت دوڑتی رہے۔ اس کی نظریں میرے چہرے پر جمی رہیں اور میری نگاہیں اس کے سراپے کا طواف کرتی رہیں اور اس جاں بخش رات کی کبھی صبح نہ ہو۔

    کافی وقت گذر گیا۔ نہ میں نے اس سے جانے کے لیے کہا، اور نہ ہی اس نے مجھ سے اجازت طلب کی۔ ہم دونوں خاموشی سے اپنے اپنے کام میں مشغول رہے۔

    نیچے سے ثمینہ کی امی کی آواز آئی اور ثمینہ کے لب بول پڑے

    ’’جاؤں؟‘‘

    ’’جاؤ!‘‘ یہ لفظ میرے منھ سے اس طرح نکلا جیسے میں نے یہ کہا ہو کہ ’’مت جاؤ۔‘‘

    ثمینہ جانے لگی تو میرے تکیہ کے نیچے پڑے خط نے مجھے ایک بار پھر ٹہوکا دیا۔ وہ پہلے بھی کئی بار ٹہوکے دے چکا تھا مگر میں ہر بار اسے ٹالتا رہا تھا۔ لیکن اس مرتبہ اس کے ٹہوکے پر خاموش رہ جانا میرے بس میں نہیں تھا۔ یکایک میرے منھ سے نکل گیا۔ ’’سنو!‘‘

    اس کے قدم رک گئے۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ میری طرف حیران ہو کر دیکھنے لگی۔

    ’’یہ لو، اسے پڑھ لینا۔‘‘ جلدی سے میں نے وہ خط تکیے کے نیچے سے نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ چند لمحے تک وہ حیرانی کے عالم میں مجھے دیکھتی رہی۔ پھر اسکی انگلیوں نے میرے خط کو اپنی مٹھی میں دبا لیا۔ میں اسے آخری زینے تک دیکھتا رہا۔

    خط میرے تکیے کے نیچے سے جا چکا تھا مگر میرے سر میں ایک اضطراب پیدا کر گیا تھا۔ دماغ کے خانوں میں طرح طرح کے خیالات جمع ہو کر ہلچل مچا رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ کوئی کرشمہ ہو جائے اور آن کی آن میں یہ رات صبح میں تبدیل ہو جائے یا صبح کے بجائے رات میں ہی میرے خط کا جواب مل جائے۔ دل کے کسی گوشے میں رہ رہ کر یہ امید بھی انگڑائی لے رہی تھی کہ ممکن ہے خط پڑھنے کے بعد ثمینہ کسی بہانے سے اوپر آ جائے۔

    اس اضطراب نے مجھے صبح تک جگائے رکھا۔ ایک لمحہ بھی مجھے چین لینے نہیں دیا۔ خدا خدا کرکے رات کی سیاہی ہٹی اور صبح کی سفیدی نمودار ہوئی تو میں تیار ہوکر وقت سے پہلے ہی ناشتے کی میز پر جا بیٹھا۔ اس وقت کا انتظار رات کے اضطراب سے زیادہ بھاری پڑ رہا تھا۔ ثمینہ جب نظر آئی تو انتظار کا بھاری سل تو ہٹ گیا مگر ایک عجیب طرح کی بےقراری نے مجھے دبوچ لیا۔ ثمینہ قدرے سست رفتار سے میرے پاس پہنچی۔ نظریں نیچی کیے ہوئے اس نے مجھے سلام کیا۔

    وہ ناشتے کی پلیٹوں کے ساتھ میز پر ایک لفافہ بھی رکھ کر چلی گئی۔

    اس کے جاتے ہی میں نے لفافہ کھول لیا۔

    محترم ماسٹرصاحب!

    تسلیم

    آپ نے لکھا ہے کہ میں تمھیں نہیں سمجھ سکا تو واقعی آپ مجھے نہیں سمجھ سکے۔آپ نے اپنے چہرے پر جمی میری آنکھیں دیکھ کر اور ان میں محبت کی جھلک محسوس کرکے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے لیکن آپ کو غلط فہمی ہوئی۔ آپ پر مرکوز ہونے والی میری نگاہیں خلوص اور محبت سے بھری ضرور تھیں مگر وہ ایک بہن کی آنکھیں تھیں جو اپنے بھائی کے چہرے پر پھیلے ہوئی اداسیوں کے ڈورے اور بھیگی ہوئی آنکھوں میں تیرتے ہوئے غموں سے اس کی زندگی کے خلاء اور محرومیوں کا اندازہ کر رہی تھیں۔ افسو س کہ میں آپ کی خواہش کی تکمیل نہیں کر سکتی۔

    آپ کی بہن

    ثمینہ

    ثمینہ کا خط پڑھ کر مجھے لگا جیسے کسی نے میرے ذہن پر ہتھوڑا مار دیا ہو مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوا جیسے اس ہتھوڑے کی ضرب سے چھٹکی چنگاریوں نے میرے رگ و ریشے میں ایک نئی قسم کی محبت کی گرماہٹ بھر دی ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے