محبت نامہ
میری پیاری سراما!
میری پیاری ساتھی، وجود کے اس مختصر لمحے میں جب زندگی جوانی کے جوش سے ابلی پڑتی ہو اور جب دل محبت کی خوشبو سے معطر ہو۔۔۔
جہاں تک میرا معاملہ ہے، میری زندگی کا ہرلمحہ سراما کی محبت میں گذرتا ہے۔
اور سراما، تمہارا
میں اپنے اس خط پر اچھی طرح غور کرنے اور ایک خوبصورت اور مہربان جواب سے سرفراز کرنے کی التجا کرتا ہوں۔
سراما کا اپنا
کیساون نائر
کیساون نائر نے خط مکمل کیا، چاروں طرف نظر دوڑائی۔ خوشگوار احساس سے اس پر جیسے ایک سرشاری طاری تھی کہ سراما اس کے پیچھے کھڑی ہے اور بڑے دلفریب انداز میں مسکرا رہی ہے۔۔۔محض ایک واہمہ۔ اس نے خط ایک بار پھر پڑھا۔ اس میں شاعرانہ کیفیت تھی، نغمگی تھی۔ اس میں فلسفہ تھا، اسرار بھی تھا، مگر اس میں کیساون نائر کے دل کے سارے بھید کیوں نہیں تھے؟ بہرحال، خط اس کی توقع سے کہیں زیادہ اچھا لکھا گیا تھا۔ اس نے خط کو تہہ کیا، اپنی جیب میں رکھا اور بینک سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ اچانک اس کے دل میں ایک خدشہ پیدا ہوا۔ خط دینے پر سراما اس کا مذاق اڑائےگی؟ یا وہ جواب بھیجے گی؟ جواب کیا ہوگا؟ سراما میں جس مزاح بہت ہے اور اسے دوسروں کا مذاق اڑانے میں بڑا مزہ آتا ہے۔
اسے ایک واقعے کی یاد آئی۔ وہ اس سے باتیں کرنے میں محو تھا۔ وہ دونوں عورتوں کے بارے میں لطیفے سنا رہے تھے۔ سراما نے بتایا کہ ایک بہت بڑے شاعر نے کہا تھا کہ عورتیں خدا کی بڑی عظیم اور محترم تخلیق ہیں۔ کیساون نائر اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکا اور جواب میں بولا، ’’عورتوں کی کھوپڑیاں خیالی پلاؤ پکاتی ہیں۔‘‘ اس نے ایک معروف آدمی کی کہانی سنائی جس نے سات شادیاں کی تھیں۔ اس کی ساتویں بیوی ایک دن پتھر کے زینے پر سر کے بل گرپڑی۔ بیوی کو اسپتال میں داخل کرانے کے بعد وہ حادثے کی اطلاع دینے کے لیے اپنے ایک غیرشادی شدہ دوست کے پاس گیا۔
’’حادثہ بہت پریشان کن نہیں ہے، سر پھٹ گیا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا بھیجا نظر آنے لگا ہے؟‘‘
’’ارے ایسی کوئی بات نہیں ہے!‘‘ معروف آدمی، جوسات عورتوں کوبڑے قریب سے جان چکا تھا، بولا، ’’اگر کھوپڑی پوری کھل بھی جاتی تب بھی بھیجا کہاں نظر آ سکتا تھا۔۔۔عورت کی کھوپڑی میں؟‘‘
’’اس قصے سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں۔۔۔‘‘ کیساون نائر نے کہا، ’’عورتوں کی کھوپڑیاں صرف خانۂ خالی ہوتی ہیں۔‘‘ یہ سننے کے بعدسراما کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی اور بس۔ بعد کو اس نے اس کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی۔ اس کے باوجود اس وقت اس اشارے پر کیا اسے برا نہ لگا ہوگا؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ خود اس کی کھوپڑی محض خانہ خالی ہے؟ جب اسے خط ملےگا تو کیا عورت کی کھوپڑی ہی تو ہے۔
دماغ میں ان ہی سب باتوں کا ہجوم لیے ہوئے کیساون نائر ریستوران میں جا بیٹھا۔ وہ کافی پینا نہیں چاہتا تھا، مگر پھر بھی اس نے کافی پی۔ پھر ایک سگریٹ جلائی اور بہت دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔۔۔سوچ میں گم۔ جب وہ سراما کو یہ محبت نامہ دےگا تو کیا وہ اس کا مذاق اڑائےگی؟ سراما اس کی محبت کی طرف سے بالکل بےحس رہی تھی۔ کیساون نائر نے سیکڑوں دفعہ کوشش کی ہوگی، مگر جب کبھی اس نے محبت کے عطر کی اس شیشی کو کھولا، سراما نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لیا، ’’یہ بدبو کیسی ہے؟ تم کئی دن سے نہائے نہیں ہو کیا؟‘‘ یہ ان پوچھے سوالات اس کی نگاہوں سے ظاہر ہو جاتے۔ وہ اسے محبت کرنے پرکیسے اکسائے؟
محبت کی اس تڑپ سے بدحواس وہ گھر گیا۔ وہاں پہلی منزل پرجب اپنے کمرے پر اس کی نظر پڑی تو کیساون نائر مبہوت سا ہوکر رہ گیا۔۔۔سراما! وہ چھجے پر کھڑی، کمرے کی کھڑکی سے ایک لمبے بانس کی مدد سے کمرے سے کسی چیز کو نکالنے میں مصروف تھی۔ کیساون نائر نیچے کھڑا ہوا حیرت سے تکتا رہا۔ وہ اوپر نہیں گیا۔ وہ کیا چیز ہے جو سراما چرانا چاہتی ہے؟ اس کا بٹوا؟ مگر وہ تو اس کی جیب میں ہے۔ قمیص؟ یا شاید دھوتی؟ پھر کوئی کتاب؟ مگر۔۔۔ وہاں کون سی ایسی کتاب ہے جو اس نے پڑھی نہ ہو؟ تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں تھی، سراما! کیا میں تمہیں اپنی جان سے زیادہ پیارا نہیں سمجھتا ہوں؟ اگر تم مجھ سے مانگتیں تو کیا میں کوئی بھی چیز، دنیا کی کوئی بھی چیز نہ دے دیتا؟
ٹھیک ہے، چوری کا مال لے کر اسے نیچے آنے دو۔ وہ جیسے ہی نیچے آئےگی وہ بڑے دکھ کے ساتھ یہ سب ا سے کہہ دےگا اور خط اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہےگا، ’’یہ دیکھو۔۔۔ یہ میرا محبت نامہ ہے جو میں نے تمہیں لکھا ہے سراما۔‘‘ وہ خط کو پڑھے گی اور یہ سوچ کر کہ اس نے اتنی سچی محبت کا خون کر دیا، پھوٹ پھوٹ کر روئےگی۔ پھر کیساون نائر اسے دلاسا دےگا، سمجھائےگا۔ ’’ارے روؤ مت! کوئی بات نہیں۔ میں نے تمہیں معاف کیا۔‘‘ اور پھر دل سے دل مل جائیں گے۔
وہ وہاں کھڑا یہی سب سوچ رہا تھا کہ وہ اوپر سے بولی، ’’میں نے تمہیں نیچے داخل ہوتے اور پھر انتظار کرتے دیکھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ آج بینک کے عملے نے اندھیرا ہونے تک کام کیا ہوگا۔‘‘
’’آہ!‘‘ کیساون نائر کی روح تڑپ گئی۔ وہ اوپر گیا۔
سراما پسینے سے شرابور تھی۔ وہ مسکرائی اور بولی، ’’میں پچھلے آدھ گھنٹے سے اس بےکار کام میں لگی ہوئی ہوں۔۔۔میں نے ہرطرح کوشش کرکے دیکھ لیا، وہ بانس میں پھنستا ہی نہیں۔ خیر، اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کل میں ایک فالتو چابی بنوا لوں گی۔‘‘
’’میری غیرموجودگی میں دروازہ کھولنے کے لیے؟‘‘
اس نے لوگوں سے بھری ہوئی سڑک کی طرف دیکھا اور مسکرائی۔
’’وہ کیا چیز ہے جو بانس میں نہیں پھنسی؟‘‘ کیساون نے پوچھا۔
’’میں نے تمہیں بتایا نہیں تھا؟‘‘ سراما نے سوال کیا، ’’جب تم وہاں نیچے کھڑے تھے تو کیا سوچ رہے تھے؟‘‘
’’میں نے سوچاتھا۔۔۔‘‘ کیساون نائر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟ ’’میں نے سوچا کہ سراما میرے کمرے سے کوئی چیز نکالنا چاہتی تھی۔ تم کیا چیز نکالنا چاہتی تھیں؟‘‘
’’وہ رسالہ جو مسٹر کیساون نائر کے نام آیا تھا! میں نے ڈاکیے کو کھڑکی سے رسالہ اندر ڈالتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں بےکار بیٹھے بیٹھے بور ہو گئی تھی۔‘‘
ایسی کیفیت میں کیا تم مجھ سے پیار نہیں کر سکتی ہو؟ اس نے سوچا۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنی چابیاں نکالیں اور محبت نامہ سراما کو دے دیا۔
اس نے خط کو پڑھا، پھر مسل کر اسے نیچے پھینک دیا اور بولی، ’’اور کیا خبریں ہیں؟‘‘
کیساون نائر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھولا، رسالہ اٹھایا اور سراما کو دے دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنا کوٹ اتار کر کھونٹی پر ٹانگ دیا۔ چہرے پر مسرت و انبساط کے تاثر کے ساتھ سراما نے رسالے پر لپٹے ہوئے کاغذ کو پھاڑا اور اس کی ورق گردانی کرنے لگی۔ اپنے چہرے پر پھیلی ہوئی اداسی کو چھپاتے ہوئے اور محبت نامے کے معاملے کی طرف سے بےتوجہی برتتے ہوئے کیساون نائر نے پوچھا، ’’سراما، تمہاری کیا خبریں ہیں؟ اپنی سوتیلی ماں سے آج تمہارا جھگڑا ہوا؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ میرے پتاجی اور میری سوتیلی ماں اب مجھ سے کمرے کا کرایہ مانگنے والے ہیں۔‘‘ سراما نے جواب دیا۔
’’اچھا تو نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے؟‘‘
’’ٹھیک تو ہے۔ میرے پاس جو کمرہ ہے وہ بہرحال کرائے پر اٹھایا جا سکتا ہے اور۔۔۔‘‘
’’اور کیا سراما؟‘‘
’’اور سراما کو رسوئی کے ایک کونے میں پڑا رہنے دیا جا سکتا ہے۔۔۔سوتیلی ماؤں کے سوچنے کا ڈھنگ شاید یہی ہوتا ہے۔‘‘
’’اور تمہارے پتا جی؟‘‘
’’ماں کی رائے سے الگ پتا جی کا خیال اور کیا ہوگا؟‘‘
’’دوسری شادی سے پہلے ان کا رویہ کیسا تھا؟‘‘
’’کس کا رویہ؟ سوتیلی ماں کا؟‘‘
’’نہیں، پتاجی کا؟‘‘
’’جب وہ میرے باپ تھے۔۔۔میر اخیال ہے کہ مردوں کے دماغ کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
کیساون نائر کچھ نہیں بولا۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد اس نے پوچھا، ’’لیکن سراما، اس مکان پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے؟‘‘
’’میرا کیا حق ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’اس مکان کا قرضہ سوتیلی ماں کے جہیز سے ادا ہوا تھا۔ پتاجی کہتے ہیں کہ یہ سارا قرضہ میری ماں کے علاج اور ان کی آخری رسوم کی ادائیگی کا قرضہ تھا۔ میری ماں اگر دو سال اور زندہ رہ جاتی تو میں نے بی اے پاس کر لیا ہوتا اور مجھے آسانی کے ساتھ کوئی ملازمت مل گئی ہوتی۔‘‘
’’عورتوں کی خاصی بڑی تعداد ہے جوبی اے پا س ہونے کے باوجود بےروزگار ہے۔‘‘ کیساون نائر نے کہا، ’’پھر بھی سراما، یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ تمہارے پاس کوئی کام نہیں ہے۔۔۔‘‘
سراما نے رسالے پر سے نظریں اٹھائیں اور بڑے انکسار کے ساتھ پوچھا، ’’تم جس بینک میں کام کرتے ہو وہاں کوئی خالی جگہ نہیں ہے؟‘‘
کیساون نائر نے سراما کی شفاف آنکھوں، گردن کی سنہری جلداور اس کی سخت اور خوبصورت چھاتیوں پر ایک نظر ڈالی اور دل میں سوچنے لگا کہ سوائے کسی مرد سے محبت کرنے کے عورت کا کام ہی کیا ہے، بھگوان نے عورت کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ کسی کو چاہے اور خود چاہی جائے، نہ کہ افسر بن کر ادھر سے ادھر اکڑتی پھرے۔ پھر بھی اس نے کہا، ’’میں کوشش کروں گا۔‘‘
’’کہیں بھی، کوئی جگہ ہو۔۔۔تمہیں معلوم ہے؟‘‘
یقیناً مجھے معلوم ہے! کیساون نائر نے سوچا۔ میرے دل میں ایک بہت بڑی جگہ خالی ہے۔ اس کے لیے کسی رشوت یا سفارش کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے آہستہ سے اپنے دل پر ہاتھ پھیرا اور بولا، ’’یہاں جگہ ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’کام کیا ہے؟‘‘
’’کام؟‘‘ کیساون نائر مسکرا دیا۔ اسے دیکھو ذرا! میرے محبت نامے کو مسل کر پھینک دیتی ہے۔۔۔اور اس کے جواب کے بارے میں منھ سے ایک حرف نہیں۔۔۔اونھ۱ کیا میں کوئی ایسا شخص ہوں جو روزانہ عورتوں کو محبت نامے لکھتا رہتا ہو؟ کام۔۔۔ہاں، میں کام پیدا کروں گا۔ کیساون نائر کو اپنے مرد ہونے پر فخر کا احساس ہوا۔ اس نے اپنا بایاں ہاتھ اٹھایا اور انگلیاں اپنے ہونٹوں پر پھیرنے لگا۔ مجھے چھوٹی ہی سی سہی، مونچھیں رکھنی چاہئیں۔ اس کی آنکھیں لطف اور خوش مزاجی کے ساتھ چمک اٹھیں، ’’میں کل تمہیں ضرور بتاؤں گا۔‘‘
’’مجھے بتاؤ، یہ نوکری مجھے مل جائےگی نا؟‘‘
’’بےشک۔‘‘
محبت نامے کے بارے میں کچھ بھی کہے بغیر اس نے بانس اور رسالہ اٹھایا اور زینے سے اترکر نیچے چلی گئی۔ اپنے کمرے میں پہنچنے کے بعد وہ مڑی اور ادھ کھلے دروازے سے پکار کر کہا، ’’بھول نہ جانا۔۔۔‘‘
وہ بغیر کچھ بولے ساکت کھڑا رہا۔ آنگن میں پھینکے ہوئے محبت نامے کی طرف نگاہ اٹھانے کی اس میں ہمت نہ ہوئی۔ اس نے اپنے غصے پر قابو پایا اور کہا، ’’ن۔۔۔ نہیں۔‘‘
۲
یہ رہی میرے دل کی کنجی! دوسرے دن بینک جانے سے پہلے اپنے کمرے کی کنجی سراما کی گود میں ڈالتے ہوئے کیساون نائر نے اپنے دل میں کہا۔ شام کو جب وہ بینک سے واپس آیا تو سرامانے کنجی اسے واپس کر دی۔ اس نے پچھلے دن کا رسالہ بھی واپس لے لیا اور اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ کرسی دروازے کے قریب کھینچ کر وہ اس پر بیٹھ گیا اور رسالے کی ورق گردانی کرنے لگا۔ جو کچھ ہونے والا تھا اس کے بارے میں سوچ سوچ کر وہ مسرت سے سرشار تھا۔ جب سراما کو پتا چلےگا کہ اس نے اس کے لیے کس قسم کا کام تلاش کیا ہے تو کیا وہ اسے جھنجھوڑ ڈالےگی؟ کیساون نائر نے اس صورت حال کے بارے میں سوچا اور پھر خود ہی ہنسنے لگا۔ وہ وہاں بیٹھا ہوا تھا کہ سراما اوپر آ گئی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ سراما ملازمت کے سلسلے میں تفصیلات جاننے کے لیے بے تاب ہوگی، مگر اس نے ظاہر یوں کیا جیسے اسے ایسے کسی معاملے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے اور اپنا معمول کا سوال کیا، ’’سراما، کیا خبریں ہیں؟‘‘
’’ارے کوئی نئی بات نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے سراما ہمیشہ کی طرح مسکرائی اور پوچھا، ’’کیا تمہارے کمرے سے کوئی چیز چوری ہو گئی ہے؟‘‘
’’میں نے دیکھا نہیں۔۔۔‘‘
’’تو پھر دیکھ لو۔‘‘
اس نے ظاہر یہ کیا جیسے وہ رسالہ پڑھنے میں محو ہے، اگرچہ اس کا دماغ ان لفظوں کو دہرانے میں مصروف تھا جو وہ سراما سے کہنے والا تھا۔ راز کی بات جو سراما پر کھولنے والا تھا، اس کے دل سے نکل کر زبان پر آنے کے لیے ایسی بے تاب تھی جیسے عطر کی شیشی سے خوشبو نکلنے کے لیے بےتاب ہوتی ہے۔
سراما کیساون نائر کے سامنے کھڑکی سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ اس نے کیساون نائر کے گھنگھریالے چمکیلے بالوں پر نظر ڈالی، بیچ میں نکلی ہوئی مانگ کو دیکھا، آہستہ آہستہ حرکت کرتی ہوتی اس کی بھنوؤں کے چاروں طرف محسوس ہونے والے سنہرے ہالے پر اس کی نظر پڑی، سانس سے اوپر نیچے ہوتا ہوا اس کا چوڑا چکلا سینہ نظر آیا۔ اس نے آہستہ سے کہا، ’’تم نے کام کے بارے میں مجھے کچھ نہیں بتایا۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ تمہیں اس کام سے دلچسپی نہ ہوگی، سراما۔‘‘
سراما نے کہا، ’’اگر تنخواہ کم بھی ہو تب بھی کوئی بات نہیں ہے۔ میں کر لوں گی۔ میں اس وقت یہاں سب لوگوں پر بوجھ ہوں۔ میں اس زندگی سے تنگ آ چکی ہوں۔ تم سے سچ کہوں، کیا تمہیں اندازہ ہے کہ میں بعض اوقات کیا سوچتی ہوں اور کیا محسوس کرتی ہوں؟‘‘
’’کیا سوچتی ہو؟ ذراسنوں تو۔‘‘
’’تم تو ہر وقت میرا مذاق اڑاتے ہو! میں بڑی سنجیدگی سے بات کر رہی ہوں۔ کوئی بھی کام ہو میں کروں گی۔‘‘
’’سرا ماتم کھانا پکانا جانتی ہو؟‘‘
سراما نے حیرت سے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’میں نے بس یونہی پوچھ لیا۔‘‘
سراما نے بتایا، ’’تھوڑا بہت پکانا مجھے آتا ہے۔ چاول پکا لیتی ہوں، سالن بنا لیتی ہوں، چائے بنا سکتی ہوں، چائے کے ساتھ کھانے کے لیے بھی کچھ بنا سکتی ہوں، کافی بھی بنا لیتی ہوں، کوکواور اوولٹین بھی بنا سکتی ہوں۔۔۔‘‘
’’مختصر یہ ہے کہ تمہیں اگر تھوڑے سے چاول دیے جائیں تو تم انہیں پکاکر کھانا کھلا سکتی ہو؟‘‘
’’کیوں؟ کیا مجھے کسی جگہ باورچن رکھوانے کا ارادہ ہے؟‘‘
’’ارے نہیں۔۔۔ بالکل نہیں! میں نے تو صرف یونہی پوچھ لیا۔ پڑھی لکھی عورتیں عموماً کھانا پکانا نہیں جانتی ہیں۔ ان کے کپڑے دھویں اور باورچی خانے کی بدبو کے لیے نہیں ہوتے ہیں۔ یہ عورتیں تو زرق برق کپڑے پہننا، گالوں پر پاؤڈر اور ہونٹوں پر سرخی لگانا اور ہزار ڈھنگ سے بال بنانا چاہتی ہیں۔ یہ خوبصورت کپڑے پہنتی ہیں، سجتی بنتی ہیں اور کندھے پر بیگ لٹکاتی ہیں۔‘‘
’’کندھے پر بیگ؟‘‘
’’ہینڈ بیگ۔‘‘
’’اوہ!‘‘
’’بیگ لٹکا کر چلتی ہیں، لیڈی کہلاتی ہیں! میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ کہ آیا سراما بھی لیڈی ہے۔‘‘
’’میرے پاس تو کوئی ہینڈبیگ ہے ہی نہیں۔‘‘
’’پھر بھی، سراما، مجھے بتاؤ کہ یہ لوگ اس میں رکھتی کیا ہیں؟‘‘
’’ایک چھوٹا سا آئینہ، پاؤڈر کی ایک ڈبیہ، ایک چھوٹا سا کنگھا۔ ’‘
’’اس میں محبت نامے بھی ہوتے ہیں؟‘‘
’’محبت نامے؟‘‘
’’ہاں ہاں، وہ محبت نامے جو انہیں یکے بعد دیگرے ملتے رہتے ہیں۔ کیا وہ بھی ان بیگوں میں رکھے جاتے ہیں اور دن بھر کے بعدجب یہ بھر جاتا ہے تو سارے خطوط نکال کر ایک بڑے سے صندوق میں رکھ دیے جاتے ہیں؟‘‘
’’یہ سب میں نہیں جانتی۔ تم تو وہ کام بتاؤ جو تم نے میرے لیے ڈھونڈا ہے۔‘‘
’’تمہیں پسند نہیں آئےگا، سراما۔‘‘
’’مجھے پسند آئےگا۔‘‘
’’تمہیں یقین ہے؟‘‘
’’مجھے یقین ہے۔ ایک ہزار بار ہاں۔‘‘
’’پھر۔۔۔‘‘ کیساون نائر کچھ جھکا۔۔۔وہ کیسے بتائے۔۔۔
’’سراما، تم پسند نہیں کروگی۔‘‘
’’میں نے کہا نا کہ میں پسندکروں گی۔‘‘
’’فرض کرو اپنے فیصلے پر تمہیں بعد کو افسوس ہو۔‘‘
سراما کو پوار اعتماد تھا، ’’نہیں۔ میں ہر تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں، میں ہر قربانی دے سکتی ہوں۔ تمہیں ایک رازکی بات بتاؤں۔ یہ تمہارے یہاں آنے سے پہلے کی بات ہے کیساون نائر۔ پچھلے سال میری شادی کے سلسلے میں تین پیغام آئے، تابڑتوڑ۔ میں ان تینوں موقعوں پر خوش ہوئی۔ اس وجہ سے نہیں کہ میں ایک ایسے شخص کے ساتھ جسے میں نے دیکھا بھی نہیں اور اس کے بارے میں کبھی کچھ سنا بھی نہیں، آرام سے زندگی گذارنے کاخواب دیکھ رہی تھی۔ میں خوش صرف اس لیے تھی کہ مجھے اس دوزخ سے فرار کی راہ مل جائےگی۔ مگر ان تینوں پیغاموں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بغیر جہیز کے مجھ سے کوئی شادی نہیں کرےگا۔ میرے باپ اور میری سوتیلی ماں کہتی ہے کہ یہ سب میرا قصور ہے۔ جب بھی کوئی بات غلط ہوتی ہے، پتا ہے، الزام میرے ہی سر آتا ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو یہ بھی میری وجہ سے۔ میں نے ہر طرف نوکری تلاش کی۔ مگر میرے لیے کہیں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
’’ایک جگہ ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’میں تمہیں بتاؤں گا۔ ہاں، یہ جہیز کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’یہ وہ کرایہ ہے جو عورت کو رکھنے کے لیے مرد کو دیا جاتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔۔۔‘‘
’’فرض کرو کہ کوئی ہے جو مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔فرض کر لیا کہ وہ میں ہوں۔‘‘
’’ارے۔۔۔! اگر تم مجھ سے شادی کر لو اور مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ تو کیا مجھے کھلانے اور پہنانے کے لیے پیسے کی ضرورت نہیں ہوگی؟ میرے نہانے کا انتظام کرنے اور تیل، صابن، خوشبو کا اہتمام کے لیے روپے نہیں چاہئیں؟ میری زچگی کے زمانے میں اخراجات نہیں ہوں گے؟ بچے کی پیدائش پرروپوں کی ضرورت نہیں پڑےگی؟ بیماری میں میری دو اعلاج، پھر مرنے پر آخری رسوم کی مناسب ادائیگی کے لیے مالی وسائل نہیں ہونے چاہئیں؟ ان تمام ضرورتوں کے لیے روپے پہلے ہی سے فراہم کر دیے جانے چاہئیں۔ تبھی مجھے شادی کے لیے قبول کیا جائےگا۔‘‘
’’یہ سب اس لیے ہے کہ سراما سے محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ فرض کرلو کہ کوئی ہے جو تم سے محبت کرتا ہے، تمہیں دل و جان سے چاہتا ہے۔۔۔‘‘
’’پھر بھی جہیز تو ملنا ہی چاہیے۔ یہ ہماری مذہبی رسم بھی ہے اور روایت بھی۔‘‘
جہیز کی اس رسم کے بارے میں سن کر کیساون نائر کو بڑی خوشی ہوئی۔ بہت اچھا انتظام ہے، اس نے سوچا۔ اگر ایسی رسم نہ ہوتی تو۔۔۔ہے بھگوان!
’’مجھے جہیزکی رسم سے نفرت ہے۔‘‘ سراما نے کہا۔
’’مجھے یہ رسم بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘ کیساون نائر نے جواب دیا۔
’’کیوں؟ تمہیں کیوں پسند ہے؟‘‘
’’میں تمہیں بتاؤں۔ جہیز کی یہ رسم نمبودریوں میں بھی چلتی ہے۔‘‘
’’یہ مسلمانوں میں بھی ہے۔‘‘
کیساون نائر نے کہا، ’’جولوگ جہیز دینے کو دشوار سمجھتے ہیں انہیں ایسے دوسرے فرقوں میں شادی کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جو جہیز نہ چاہتے ہوں۔‘‘
’’ہاں، یہ ایک اچھا خیال ہے۔‘‘
’’ہاں، نائر کو کسی کرسچن سے شادی کرنا چاہیے، کرسچن کو نائر یا پھر کسی مسلمان سے بیاہ کرنا چاہیے، اسی طرح مسلمان کو نائر یا نمبودری کے یہاں رشتہ جوڑنا چاہیے۔‘‘
’’تمہاری بات کٹ رہی ہے، میں ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’پوچھو۔‘‘
’’تم نے مجھے اس ملازت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جو تم نے میرے لیے ڈھونڈی ہے؟‘‘
’’اوہ سراما۔۔۔تم اسے ٹھکرا دوگی۔‘‘
’میں نے کہا نہیں تھا کہ میں انکار نہیں کروں گی؟ کبھی نہیں، کبھی نہیں۔‘‘
’’پھر۔۔۔‘‘ کیساون نائرنے عطر کی شیشی اپنے دل میں کھول لی۔ شیشی کی ڈاٹ اچھل کر باہر آئی، ’’سراما، تمہیں مجھ سے اتنی ہی محبت کرنا ہے جتنی کہ میں تم سے کرتا ہوں۔۔۔یہی وہ کام ہے جو میں نے تمہارے لیے تلاش کیا ہے۔۔۔سراما۔‘‘
سراما بوکھلا گئی، مگرصرف ایک لمحے کے لیے۔ پھر اچانک اس کے چہرے پرسرخی دوڑ گئی، اس کی پلکیں جھک گئیں۔ صرف یہی نہیں، وہ وہاں کھڑی رہی، پرسکون اور حسین۔ اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکا سا تبسم تھا جس سے اس کی داخلی مسرت و شادمانی پھوٹی پڑتی تھی۔ کیساون نائر کے جذبات پر بندھا ہوا بند ٹوٹ چکا تھا۔ اس نے کہا، ’’میں نہ جانے کب سے تم سے محبت کر رہا ہوں، اپنے دل سے زیادہ، اپنی جان سے، اپنے ملک سے زیادہ تمہیں چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
وہ ہنس پڑی۔ اس کے گالوں پر ایک نیا رنگ آ گیا۔ اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔
کیساون نائر نے پوچھا، ’’سراما، تواب تم اس کام کے بارے میں کیا کہتی ہو؟‘‘
سراما مسکرائی اور دھیرے سے بولی، ’’کام برا نہیں ہے۔ اس کے لیے تم نے تنخواہ کیا مقرر کی ہے؟‘‘
’’تنخواہ؟ ارے تم لڑنے کے لیے تیار ہو؟ لڑائی؟ میں راضی ہوں۔ میری رگوں میں جیالے سپاہیوں کا خون دوڑتا ہے۔۔۔اگر تم لڑائی ہی چاہتی ہو تو اس کا موقع تمہیں مل جائےگا۔ جیت یا پھر موت! زندہ باد انقلاب!‘‘ انتہائی پر وقار انداز میں کیساون نائرنے پوچھا، ’’تم کتنی تنخواہ چاہتی ہو؟‘‘
’’اس کا فیصلہ تم خود کرو۔‘‘
بہت دیر غور کرنے کے بعد کیساون نائر نے فیصلہ کیا، ’’بیس روپے۔‘‘
سراما نے کہا، ’’یہ تو بہت کم ہے۔‘‘
’’میں اس سے ایک پیسہ زیادہ نہیں دے سکتا۔ مہینے بھر تک، ہفتے میں چھ دن، نو گھنٹے روزانہ کام کرنے کے بعد مجھے صرف چالیس روپے ملتے ہیں۔ اس میں سے میں تمہارے باپ کو کرایہ دیتاہوں، ہوٹل میں کھانے کے پیسے دیتا ہوں۔ کپڑوں کی دھلائی اور بہت سے دوسرے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر میں بہت اضافہ کروں، یعنی بھوکا رہوں تویہ اخراجات بیس روپے تک ہو جائیں گے۔ یہی بچائے ہوئے بیس روپے ہیں جو میں تمہیں دینے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ او پھر سراما، اگر سوچو تو تمہارا کام کچھ بہت مشکل بھی نہیں ہے۔ ذرا سوچو۔‘‘
سراما نے جواب دیا، ’’کام تو بہت سخت ہے۔ کیساون نائر کو چوبیس گھنٹے میں صرف نو گھنٹے کام کرنا ہوگا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تم ہر روز پندرہ گھنٹے آرام کرتے ہو؟ میرے کام میں فرصت کا ایک لمحہ بھی نہ ہوگا۔ مجھے رات دن کیساون نائر کے بارے میں سوچنا ہوگا، کھانا کھانے وقت بھی اور سوتے ہوئے بھی۔۔۔ ہے نا؟ جب کیساون نائر روئے تومجھے بھی رونا ہوگا، جب وہ ہنسے تو مجھے بھی ہنسنا چاہیے۔ مجھے کھانا اس وقت تک نہیں کھانا چاہیے جب تک کیساون نائر نہ کھا لے۔ وہ سو رہا ہو تب بھی مجھے تو جاگنا اور اس سے محبت کرنا ہوگا۔‘‘
سراما نے کیساون نائر کی طرف اس طرح دیکھا جیسے اس نے کڑوی دوا کی کچھ گولیاں نگل لی ہوں۔ پھر اس نے پوچھا، ’’کام مستقل ہے یا کچھ دن کا؟‘‘
اس نے کہا، ’’مستقل۔ ہمیشہ کے لیے!‘‘
’’یہ بہت اچھا ہے۔ پھر تو اگر کیساون نائر کو کچھ ہو بھی گیا تو کام میرے پاس رہےگا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’کیساون نائر اگر مر بھی جائے تو کام تو میرے پاس رہےگا نا؟‘‘
’’بلا شبہ، اگرمیں مرجاؤں تب بھی تمہیں مجھ سے محبت کرتے رہنا چاہیے۔‘‘
’’جب تم مر جاؤگے تو میری تنخواہ کون دےگا؟‘‘ سراما نے یہ پریشان کن سوال کر دیا۔ کیساون نائر چپ رہا۔ وہ کہہ بھی کیا سکتا تھا؟ کیساون نائر کی خاموشی پر سراما ہنس دی۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اگر میری کھوپڑی خالی بھی ہوتب بھی میں یہ بتا سکتی ہوں کہ اس کام میں یہ ایک پہلو کمی کا ہے۔ تمہاری موت کے بعد میری تنخواہ دینے والا کون ہوگا؟‘‘
وہ کیا جواب دے؟ وہ سنجیدگی سے سوچتا رہا۔ بالآخر اسے اس پریشانی سے نکلنے کی ایک راہ سوجھ گئی۔ وہ ہنسا۔
’’فرض کرو کہ ہم دونوں ساتھ مر جائیں؟‘‘
’’آہا، خودغرضی! کھلی اور بےشرم خودغرضی۔ جب کیساون نائر مرے تومجھے بھی مر جانا چاہیے۔۔۔یہی نا؟‘‘
’’سراما، تم میرا مذاق اڑا رہی ہو؟‘‘
’’بالکل نہیں، حقیقت کو بیان کرنا کیا مذاق کرنا ہوتا ہے؟ کیا میں ایک عورت نہیں ہوں؟ اگر کھوپڑی کھول بھی دی جائے تب بھی تمہیں دماغ کہاں ملےگا؟‘‘
’’مجھے معاف کر دو۔ میرے پاس نہ تو سراما جیسی ذہانت ہے، نہ علم اور نہ ہی اس جیسا حسن۔‘‘
’’دیکھو اب تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔‘‘
’’میں تمہارا مذاق کبھی نہیں اڑاؤں گا سراما۔ اڑا بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’اڑاؤ، جتنا جی چاہے میرا مذاق اڑاؤ۔‘‘
کیساون نائر کے دل کی دھڑکن جیسے ایک لمحے کے لیے رک سی گئی۔ ’’کیا میں اپنی جیون ساتھی کا مذاق اڑاؤں گا؟ کیامیں اپنی زندگی کی دیوی کا مذاق اڑاؤں گا؟ کیا میں اپنے دل اور اپنی آتما کا مذاق اڑاؤں گا؟ اپنی زندگی میں الوہیت کے پر تو کامیں مذاق کیسے اڑا سکتا ہوں؟‘‘
سراما نے دخل اندازی کی، ’’برائے مہربانی چپ ہو جاؤ، میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’پوچھو۔ حکم دو۔ تم تو مجھے حکم دے سکتی ہو۔‘‘
’’کیا مجھے تمہاری جیون ساتھی ہونا ہوگا؟‘‘
’’وہ تو تم ہو۔‘‘
’’یہ خیال تمہیں کب سے ہو گیا؟‘‘
’’بہت دنوں سے۔‘‘
’’بہت دنوں سے؟ کتنے دنوں سے؟‘‘
’’بہت، بہت دنوں سے۔‘‘
’’تم نے مجھے اب تک کیوں نہیں بتایا؟‘‘
’’میں نے تم سے کہا نہیں کہ میں ہر روز تمہارے بارے میں سوچتا تھا اور ہر روز تمہیں ایک خط لکھتا تھا سراما؟‘‘
’’اور پھر؟‘‘
’’پھر میں اس خط کو پھاڑ دیتا تھا۔‘‘
’’اچھا، ایسا ہوتا تھا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مختصر یہ ہے کہ مجھے تمہاری جیون ساتھی ہونا ہے۔ تو پھر وہ سب سنو جو میں کہوں۔ سنوگے نا؟‘‘
کیساون نائر کو ایک پھریری سی آئی۔ ’’تم جو کچھ کہوگی میں سنوں گا۔ تم کسی کو قتل کروانا چاہتی ہو؟ وہ قتل ہو جائےگا۔ تم چاہتی ہو کہ میں پیر کو سمندر پار کروں، میں سمندر پار کروں گا۔ میں پہاڑ کو سر کروں گا۔ سراما، میں تو تمہارے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’فی الحال تہیں جان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت تو تم صرف سر کے بل کھڑے ہوکر دکھاؤ۔ ذرا ہم بھی دیکھیں۔‘‘
’’کیا تم واقعی چاہتی ہوکہ میں سرکے بل کھڑا ہو جاؤں؟‘‘
’’ارے! اس میں ’واقعی‘ کالفظ کہاں سے آ گیا؟ کیا ایسا بھی کوئی لفظ ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘ کیساون نائر بڑی خوشی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ’’کیا میرا سر کے بل کھڑا ہونا کافی ہوگا؟‘‘
’’ہاں، فی الحال اتنا کافی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
اس نے قمیص اتار کر کرسی پر ڈالی، دھوتی گھٹنوں تک چڑھائی، اسے دونوں ٹانگوں کے بیچ سے نکال کر کمر پر کس کرباندھا۔۔۔اور سر کے بل کھڑا ہو گیا، ٹانگیں ہوا میں سیدھی۔ وہ وہاں کھڑی ہوئی خوشی سے سب کچھ دیکھتی رہی، اس کے پنجوں سے سر تک۔ پھر بولی، ’’بہت اچھا!‘‘
سر زمین پر اور ٹانگیں ہوا میں، اسی حالت میں رہتے ہوئے کیساون نائر نے پوچھا، ’’سراما مجھے چاہتی ہے نا؟‘‘
سراما خوش رہی۔
کیساون نائرنے پھر پوچھا، ’’سراما، تم نے کام قبول کر لیا ہے نا؟‘‘
دھیرے دھیرے، بڑی احتیاط کے ساتھ، بےآواز قدم رکھتے ہوئے وہ زینے سے اتری اور نیچے پہنچ کر بولی، ’’یہ میں تمہیں کل بتاؤں گی۔‘‘
۳
’’سراما نے کام قبول کر لیا؟‘‘ دوسرے دن کیساون نائر نے پوچھا۔
’’میں تمہیں کل بتاؤں گی۔‘‘ سرامانے جواب دیا۔
’’اگلے دن کیساون نائر نے پھر وہی سوال کیا۔ سراما کا جواب وہی تھا، ’’میں تمہیں کل بتاؤں گی۔‘‘
جب دوسرے دن بھی کیساون نائر نے وہی سوال دہرایا تو سرامانے پھر وہی کہا کہ ’’میں تمہیں کل بتاؤں گی۔‘‘
اس کے بعد اگلے دن کیساون نائر نے سوال نہیں پوچھا، اس کے بجائے اس نے اعلان کیا، ’’میں خودکشی کرنے جا رہا ہوں۔ ایسے زندہ رہنے سے کیا فائدہ؟‘‘
’’بہت اچھا خیال ہے۔ پھر کوئی تمہارا نوحہ بھی لکھ سکےگا۔‘‘
کیساون نائر کچھ نہ بولا۔
سراما نے کہا، ’’توتم نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’یہ شبھ گھڑی کب آئےگی؟‘‘
کیساون نائر نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سراما نے پوچھا، ’’یہ خودکشی کس قسم کی ہوگی؟‘‘
’’میں ابھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچا ہوں۔ میں ابھی سوچ رہا ہوں۔‘‘
سراما نے مشورہ دیا، ’’تم اپنا سر ریل کی پٹری پر رکھ کر مر سکتے ہو، یا پھر گلے میں رسی باندھ کر لٹک سکتے ہو۔۔۔ان دونوں میں سے تم کون سا طریقہ پسند کروگے؟‘‘
کیساون نائر خاموش رہا۔ کتنا سخت ہے اس کادل!
سرامانے ایک اور مشورہ دیا۔ ’’ایک اور طریقہ ہے۔ کسی کو معلوم بھی نہیں ہوگا۔ شام کے جھٹپٹے میں کشتی سے جھیل کے بیچ میں چلے جاؤ۔ کشتی کے ایک کنارے پر بھاری سا پتھر باندھو، دوسرے سرے پر سرکنے والی گانٹھ لگاکر پھنداا پنے گلے میں ڈال لو۔ کشتی پاؤں سے چلاؤ اور اسے آہستہ آہستہ ڈوبنے دو۔‘‘
کتنا ظالم اور بےرحم ہے یہ دل!
کیساون نائر بولا، ’’میں نے ایک اور طریقہ دریافت کیا ہے۔ میں اپنے آپ کو یہیں پھانسی دے لوں گا۔ میری ٹانگوں سے ایک کاغذ بندھا ہوا ہوگا جس پر لکھا ہوگا، اے دنیا! میری موت اور سراما کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ سراما سے محبت کرتا ہوں اور یہ بھی سچ ہے کہ سراما مجھ سے محبت نہیں کرتی۔ یہ بھی سچ ہے کہ میرے محبت نامے کو اس نے موڑ توڑکر پھینک دیا۔ اس کے باوجود میری موت کا سراما سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آخر میں کاغذ پر دستخط ہوں گے۔۔۔کیساون نائر مرحوم۔‘‘
’’اس کے علاوہ بھی اس خط میں کچھ ہوگا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
سرامانے کہا، ’’میں نے وہ محبت نامہ پھینکا نہیں تھا۔ میں نے اسے اٹھاکر اس میں منجن باندھ لیا تھا۔‘‘
’’میرے نامہ محبت میں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
کتنے بےرحم ہوتے ہیں عورتوں کے دل! کیساون نائر بولا کچھ نہیں۔
دن گذرتے رہے، بےمقصد اور بےکیف۔ وہ لٹکتے ہوئے چہرے کے ساتھ وقت گذارتا رہا، گم سم، کسی سے بات نہ کرتا، کسی پر نظر نہ ڈالتا۔ وہ عورتوں کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ احمق اور پتھر دل عورتوں کی اسے بالکل سہار نہ تھی۔ سراما ایک احمق عورت تھی، پتھر کی طرح سخت اور بے حس دل والی۔ کیساون نائر بھی بیوقوف آدمی تھا، مگر اس کا دل پتھر کا نہیں تھا۔ اس دنیا میں ہر مرد اور عورت احمق تھی۔ ان میں ہر ایک۔ کیساون نائر کی رائے اسی طرح بن رہی تھی کہ ایک شام سراما نکل کر آنگن میں آئی اور آکر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ پھر اس نے اس کی طرف اپنا ایک ہاتھ یوں پھیلایا جیسے اسے کچھ ملنے کی توقع ہو۔ کیساون نائر اس کا مطلب نہ سمجھ سکا۔
’’میری تنخواہ؟‘‘ سراما نے کہا۔
’’تنخواہ؟‘‘ کس کام کی تنخواہ؟ کیساون نائر کو حیرت اور پریشانی نے گھیر لیا۔ اس کی پریشانی کو دیکھ کر سراما نے وضاحت کی۔ اس نے بڑے دکھی لہجے میں کچھ یوں کہا گویا اپنا وعدہ پورا نہ کرکے کیساون نائر نے اس کی بےعزتی کی ہو۔ ’’اچھا تویہ انجام ہوا! میں اسی لائق تھی۔ لوگ بلا وجہ تو نہیں کہتے کہ میرا دماغ خالی ہے۔ اس میں بھس بھرا ہوا ہے۔ اس دلچسپ اور ولولہ انگیز کام کولیے ہوئے مجھے پندرہ دن گذر چکے ہیں۔‘‘
’’اوہو!‘‘ کیساون نائر کے چہرے سے بادل چھٹ گئے۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس اچانک شادمانی سے اس کادل گیند کی طرح اچھل اچھل کر اس کی بائیں طرف کی پسلیوں سے ٹکرانے لگا۔ ’’ڈارلنگ، تم نے مجھ سے کہا کیوں نہیں؟‘‘
سرامانے ایک زخمی اور شکایتی آواز میں کہا، ’’وجود کے اس مختصر مرحلے میں جب زندگی جوانی کے جوش سے ابلی پڑتی ہو، جب دل محبت کی خوشبو سے معطر ہو۔۔۔اگر لوگ منھ لٹکائے، خودکشی خودکشی بڑبڑاتے ہوئے، کچھ دیکھے کچھ سنے بنا، اداس اور بیزار سے گھوم رہے ہوں۔۔۔تو میں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘
’’کچھ اور کرنے کوہے بھی تو نہیں۔‘‘
’’نہیں۔ ’’کیساون نائرنے تحکمانہ انداز میں کہا، ’’آؤ۔‘‘
وہ آگے بڑھا اور سراما اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ وہ دونوں زینے پر چڑھے۔ کیساون نائر کمرے کے اندر گیا، وہاں اس نے اپنا بکس کھول کر دس دس روپے کے دو نوٹ نکالے اور دھڑکتے دل کے ساتھ انہیں ایک لفافے میں رکھا، اس پر لکھا، ’’میڈم سراما کے لیے۔‘‘ اور سراما کو دے دیا۔
’’یہ کوئی محبت نامہ ہے؟‘‘ سراما نے پوچھا۔
کیساو ن نائر خاموش رہا۔ محبت نامہ؟ اسے تذبذب میں پڑا رہنے دو۔ مگر سراما نے کسی تجسس یا تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ اس نے لفافے سے دونوں نوٹ نکالے اور کسی تجربہ کار دکاندار کی طرح انہیں روشنی کے سامنے رکھ کر دیکھا۔
’’یہ جعلی نوٹ تونہیں ہیں نا؟‘‘
کیساون نائر نے کچھ نہیں کہا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے کسی حد تک تنبیہ کرتے ہوئے کہا، ’’آج کے بعد اس طرح دیر نہیں ہونی چاہیے۔ میری تنخواہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو تیار رہنا چاہیے۔‘‘
کیساون نائر کاجی چاہا کہ وہ سراما کو اپنے سینے سے لگاکر اس کے ہزاروں پیار لے لے۔ وہ اس کے قریب ہو گیا۔
’’بہتر یہ ہوگا کہ تم مجھ سے چارفٹ دور رہو۔‘‘ سراما نے کہا۔
’’میں تمہیں پیار کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مجھے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مگر معاہدے میں یہ تو نہیں ہے۔ نہیں ہے نا؟‘‘
کیساون نائر کچھ نہیں بولا۔
اسی طرح پانچ مہینے گذر گئے۔ اس عرصے میں سو روپے کا لین دین ہوا۔ روپے دینے کے بعد کیساون نائرنے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ان روپوں کا ہوتا کیا ہے۔ مگر سراما نے تیسرے مہینے اسے بتا دیا کہ اس نے لاٹری میں ایک ہزار روپے جیتے ہیں۔ یہ کیساون نائر کی دی ہوئی تنخواہ میں سے ایک روپے کی برکت تھی۔ کیساون نائر نے اس خبر پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ روپے پیسے کے سے معمولی مسائل پر وہ توجہ دے بھی کیسے سکتا تھا؟ وہ تو محبت کی چاندنی میں مست تھا۔ اس کی محبوبہ نے اسے جو کچھ بتایا تھا اس پر اسے یقین تھا۔ اس کے نزدیک یہ بات بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ بدلے میں خوداسے کچھ نہیں ملا تھا۔ وہ تو سراما کے احکامات کی پیروی کرتا رہےگا، اسی راستے پر چلےگا جو سراما بتائےگی۔ اس کے علاوہ کچھ کرنے کے وہ لائق بھی نہیں تھا۔
سراما کی خواہش کے مطابق اس نے دور دراز جگہوں پر نوکری کے لیے بہت سی درخواستیں بھیجیں۔ کیوں؟ محض اس لیے کہ سرامانے کہا تھا۔ مگر کیساون نائر نے بہت سی باتیں ایسی بھی کیں جو سراما نے نہیں کہی تھیں، جیسے سراما کی طبیعت خراب ہونے پر ڈاکٹر کو بلانا، اس کے لیے دوا خریدنا، سراما اور اس کی سوتیلی ماں کے باہمی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرنا، والدین کی ذمہ داریوں کے موضوع پر سراما کے والد سے گفتگو کرنا وغیرہ۔ مگران ساری باتوں پر سراما نے کبھی شکریہ ادا کرنا تو دور کی بات ہے، اشارے سے بھی ممنونیت کا اظہار نہیں کیا۔
کیساون نائر نے اس سب کو بڑے تحمل کے ساتھ برداشت کیا۔ مگر جو بات اس کے لیے ناقابل برداشت تھی وہ تھا سراما کا اپنی ہر بات کو شروع کرنے سے پہلے یہ کہنا کہ ’’وجود کے اس مختصر مرحلے میں جب زندگی جوانی کے جوش سے ابلی پڑتی ہو، جب دل محبت کی خوشبو سے معطر ہو۔۔۔‘‘ کیساون نائر یہ جملہ جب بھی سنتا اس کا رنگ پیلا پڑ جاتا۔ سراما جب بھی کچھ کہنے والی ہوتی تو کیساون نائر اس جملے کو سننے کے لیے بڑی بےچینی کے ساتھ تیار ہو جاتا۔ اگر وہ یہ جملہ نہ بولتی تو وہ اطمینان کی سانس لیتا۔ ان تمام باتوں کے بعد کیا اس کی محبت میں کمی آ گئی تھی؟ ذرا بھی نہیں۔ اس میں ہر روز اضافہ ہی ہو جاتا تھا۔ وہ ہر وقت سراما کو دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اسے گلے سے لگاکر پیار کرنا چاہتا تھا۔ اس کی خواہشوں کی نہ کوئی حد تھی نہ کوئی حساب اور سراما؟ اس نے کیساون نائر کے لیے محبت کا کبھی کوئی اظہار نہیں کیا۔۔۔نہ اپنی کسی حرکت سے اور نہ ہی اپنی کسی بات سے۔
پھر ایک وقت ایسا آہی گیا جب جدائی ناگزیر ہو گئی۔ کیساون نائر کو ایک دوسرے شہر میں نوکری مل گئی۔ تنخواہ ڈھائی سو روپے تھی۔ سراما کے مشورے پر منظوری کا خط لکھ کر اس نے ملازمت قبول کر لی۔ اس نے کہا، ’’تواب میری تنخواہ سوا سو روپے ہو جائےگی!‘‘
بس صرف اتنا ہی۔ اس کے علاوہ اس نے کچھ نہیں کہا۔ پھر بھی اس نے کیساون نائر کو یہ یاد دلایا کہ ’’تمہیں ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو منی آرڈر بھیج دینا چاہیے۔ پتا تو تم جانتے ہی ہونا؟‘‘ کیساون نائر نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’تم کب جا رہے ہو؟‘‘ سراما نے پوچھا۔
’’تم جانتی ہوکہ مجھے دس دن کے اندر کام شروع کرنا ہے۔ میں پرسوں جانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ اسی لیے میں نے بینک میں اپنا استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔‘‘ کیساون نائرنے کہا۔
’’تم نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے، ہے نا؟‘‘
’’یہ کس قسم کا سوال ہے؟‘‘
’’میں اب بھی تمہاری دیوی ہوں، ہوں نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کیا تم میری خاطر مور کو گلے لگانے کے لیے تیار ہو؟‘‘
’’تیار ہوں۔‘‘
’’تم قسم کھاتے ہو؟‘‘
’’قسم کھاتا ہوں۔‘‘
’’نہیں، نہیں مرنا نہیں ہے۔ ویسے اگر میں تم سے یہ نوکری نہ کرنے کے لیے کہوں تو تم مان جاؤگے؟‘‘
’’اس نوکری کے لیے نہ جاؤں؟‘‘ بڑی پریشانی ہو جائےگی۔ وہ کرایہ دینے کے لائق بھی نہیں رہےگا، اپنے کھانے اور اپنے کپڑوں کا انتظام بھی نہ کرپائےگا۔ وہ سڑکوں پر جوتے چٹخانے لگا، دربدر مارا مارا پھرےگا۔۔۔ آوارہ۔ کیساون نائر ہتھیلی پر ٹھوڑی رکھے، نظریں نیچی کیے ہوئے، کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔
سراما کھڑی ہوئی اور زینے کی طرف چل دی۔ کیساون نائر نے بڑے افسردہ لہجے میں اسے آواز دی۔ ’’سراما، میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
سراما واپس آئی۔
’’اگر تم مجھ سے پیار محبت کا ذکر کرنا چاہتے ہو تو میں یہ راگ سن سن کر تھک چکی ہوں۔‘‘
کیساون نائر خاموش رہا۔
سراما نے کہا، ’’بولو! میں تنخواہ دار ملازم ہوں۔ میں تمہاری بات سننے سے انکار کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘
’’سراما، تمہیں ہر بات مذاق لگتی ہے۔‘‘
’’تم یہ کہنا چاہتے تھے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’سراما کو بھی میرے ساتھ چلنا چاہیے۔ میں وہاں اکیلا نہیں رہ پاؤں گا۔‘‘
اپنے قہقہے کو جیسے روکتے ہوئے اس نے کیساون نائر پر نظر جمائی اور بولی، ’’کیوں، تمہیں ڈر لگےگا؟‘‘
’’نہیں سراما، میں محبت۔۔۔‘‘
’’میں سراما سے محبت کرتا ہوں! کیا یہ وہی جملہ نہیں ہے جسے میں ہزاروں لاکھوں بار سن چکی ہوں؟ یہ محبت آخر ہے کیا؟‘‘
یہ بتانا کوئی مشکل بات نہیں تھی۔ کیساون نائر اچھی طرح جانتا تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے، مگر یہ بات زور سے کہتے ہوئے اسے کچھ شرم آ رہی تھی۔
’’انس اور محبت۔۔۔ایک قسم کا واہمہ ہے۔ مگر ایک معطر واہمہ۔‘‘
’’حماقت، واہمہ۔۔۔‘‘ سراما کو حیرت ہوئی۔ ’’یہ تو وہ چیز ہے جوتم نے کہا تھا کہ عورتوں کی کھوپڑی میں ہوتی ہے؟‘‘
کیساون نائر نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر کچھ توقف کے بعد بولا، ’’سراما، تم میرے ساتھ چلوگی؟‘‘
’’چلنے کے بعد میں کیا کروں گی؟‘‘
’’تم میری بیوی کی طرح رہنا۔‘‘
’’کیا ہم لوگوں کاتعلق الگ الگ دھرموں سے نہیں ہے؟‘‘
’’اس سے کیا ہوتا ہے؟ ہم کورٹ میں شادی کر سکتے ہیں۔‘‘
’’تمہیں جہیز نہیں چاہیے؟‘‘
’’سراما ہی میرا جہیز ہے۔ سراما میری۔۔۔‘‘
’’رکو۔ میری پریشانیاں اور میرے شبہات اور بھی ہیں۔‘‘
’’وہ کیا ہیں؟‘‘
’’ہم دونوں کے میاں بیوی کی طرح رہنے میں مجھے بہت سی مشکلات دکھائی دیتی ہیں۔ جب ہم میں سے ایک مندر جاتا ہو اور دوسرا گرجا، تو کیا ہم کوئی کام مل کر ساتھ ساتھ کر سکتے ہیں؟ مندر اور گرجا ہمیشہ ہمارے بیچ میں رہیں گے۔ ہے نا؟‘‘
کیساون نائر سراپا شادمانی تھا۔ ’’بےکار بات ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’کیا ہم مندر اور گرجا کو چھوڑ نہیں سکتے؟ اگر مندر اور گرجا سراما اور کیساون نائر کو نہیں چاہتے تو کیساون نائر اور سراما کو بھی مندر اور گرجا کی ضرورت نہیں ہے۔ سراما، ذرا سوچو۔ ان دشواریوں کے بارے میں سوچو جن میں رہ کر تم نے زندگی گذاری ہے۔ کیا تمہارے پتا جی اور تمہاری سوتیلی ماں نے تمہارے ساتھ زیادتیاں نہیں کیں؟ اس وقت گر جانے کیا کیا؟ بھگوان نے کیا کیا؟ مجھے بھی مندر نے کوئی سکھ نہیں پہنچایا۔ مختصریہ کہ اگر بھگوان، گرجا اور مندر ہمیں چاہتے ہیں تو آئیں اور ہمارے پیروں پر گر پڑیں۔‘‘
’’بالکل صحیح!‘‘ سرامانے کہا، ’’یہ کیساون نائر جو ہے، وہ تمہارے ہر سوال، ہر شبہے کا جواب رکھتا ہے!‘‘ وہ شرماسی گئی، پھر بولی، ’’ایک بات اور بھی ہے۔‘‘
’’پوچھو، پوچھو۔‘‘
اس نے پوچھا، ’’ہمارے بچے ہوں گے۔ ان کا مذہب کیا ہوگا؟ میں نہیں چاہوں گی کہ ا ن کی پرورش ہندو بچوں کی طرح ہو۔ عیسائیوں کی طرح ان کو پالنا پوسنا اور بڑا کرنا شاید میرے۔۔۔ میرے شوہر کو پسندنہ آئے۔ پھرا ن بچوں کا مذہب کیا ہوگا؟‘‘
کیساون نائر کو پسینہ آ گیا۔ اس نے ان چیزوں کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ یہ ایک اچھا سوال تھا۔ بچوں کا مذہب کیا ہوگا؟ کیساون نائر نے اس کے بارے میں غور کیا۔ اس نے اس بارے میں بڑی گہرائی اور بڑی شدت سے سوچا۔ اس کی پیشانی کے دونوں طرف رگیں ابھر آئیں۔ اس کی بھنوؤں پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں۔ کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ کہیں کوئی روشنی نہیں تھی۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوند گیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے سامنے روشنی کا ایک دریچہ کھل گیا ہے اور اس کی نظروں کے سامنے ایک خوبصورت، سرسبز و شاداب باغ کھلا ہوا ہے۔ اس نے بےتاب ہوکر اعلان کیا، ’’مجھے مل گیا۔ راستہ مل گیا!‘‘
’’کیا؟‘‘
’’میں بتاتا ہوں۔‘‘ کیساون نائر نے کہا، ’’ہم اپنے بچوں کی پرورش کسی بھی مذہب کے مطابق نہیں کریں گے۔ انہیں کسی مذہب کے بغیر بڑا ہونے دو!‘‘
’’اور پھر؟‘‘
’’وہ بڑے ہوتے رہیں گے اور ہم انہیں بغیر کسی تفریق کے ہرمذہب کی تعلیم دیں گے اور جب وہ بیس برس کے ہو جائیں گے اور کسی مذہب کی ضرورت محسوس کریں گے تو اپنی پسند کے کسی بھی مذہب کو اپنا لیں گے۔‘‘
سرامانے کیساون نائر کی طرف دیکھے بغیر بڑی مسرت کے ساتھ کہا، ’’بالکل صحیح! بات سمجھ میں آتی ہے۔۔۔اور نام؟ یہ فرض کرتے ہوئے میرا پہلا بچہ لڑکا ہوگا، منے کا کیا نام ہوگا؟‘‘
کیساون نائر پھر پریشان ہو گیا، ’’ہاں یہ تو ہے! واقعی، ہمارے پیارے بیٹے کا نام کیا ہوگا؟ ہم اسے کوئی ہندو نام نہیں دے سکتے اور نہ ہی کوئی عیسائی نام دے سکتے ہیں۔‘‘ کیساون نائر نے تھوڑی دیر تک سوچا اور پھر کسی قدر جوش میں آتے ہوئے بولا، ’’دیکھو، ہم کسی تیسرے فرقے کا اچھا سا نام رکھ کربچے کواس نام سے پکار سکتے ہیں۔‘‘
’’پھر وہ کیا فرقہ یہ نہیں سوچےگا کہ ہمارا بچہ اسی میں سے ایک ہے؟‘‘
’’صحیح ہے۔‘‘ کیساون نائر نے رضامندی ظاہر کی، ’’اگریہ مسلمان نام ہوا تو لوگ سوچیں گے کہ یہ مسلمان ہے۔ اسی طرح پارسی، چینی یا روسی کوئی اور نام بھی مسئلہ پیدا کرےگا۔‘‘
وہ کیا نام دیں گے بچے کو؟ یہ کوئی ایسا نام ہونا چاہیے جو پہلے کسی نے نہ رکھا ہو۔ اس نام کو کسی عقیدے یا کسی مخصوص مذہب کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا نام ملےگا کہاں؟
پھر سراما نے پوچھا، ’’کوئی چینی نام سننے میں کیسا لگےگا؟‘‘
کیساون نائر نے تجربے کی خاطر ایک نام دہرایا، ’’سنگ لی فو۔‘‘
’’سنگ لی فو؟‘‘ سراما نے اپنے پہلے متوقع پیارے سے بچے کا نام دہرایا، ’’اے میرے سنگ لی فو، تو کہاں ہے میرے بچے سنگ لی فو؟‘‘
’’اس میں ایک امتیازی شان نظر آتی ہے نا؟‘‘
سراما کو نام پسند نہیں آیا، ’’میں اپنے بچے کے لیے یہ نام نہیں چاہتی۔‘‘
’’تو پھر روسی نام ہیں۔ تمہیں ہر نام کے ساتھ بس ’اس کی‘لگانا پڑےگا۔‘‘
’’اس کی کیا؟‘‘ سراما نے پوچھا، ’’کسی بھی نام کے ساتھ بھی اس کی لگا دو۔۔۔اس کی۔۔۔اس کی۔۔۔نہیں!‘‘
’’میرے ذہن میں بہت سے نام ہیں، خوبصورت اورشان وشوکت والے!‘‘ کیساون نائر کے تخیل نے اڑان بھری۔ اس نے یکے بعد دیگرے نام لینے شروع کیے۔ ’انڈیا‘، ’لوٹیر‘، ’شارٹ اسٹوری‘، ’ہری کین‘، ’سہارا‘، ’اسکائی‘، ’مون لائٹ‘، ’پرل اسپاٹ‘، ’سمبالزم‘، ’آریکاپام‘، ’ٹافی‘، ’ڈراما‘، ’اوشن‘، ’شرمپ آئیز‘، ’پروزپوئم‘، ’سفائر‘، ’فائرفلیم‘، ’مسٹیریس‘، ’اسٹار‘۔۔۔
’’رک جاؤ! بس رک جاؤ! نام رکھ کر ذرا مجھے سوچنے دو۔۔۔میرا بیٹا، شرمپ آئیز۔۔۔ماں کا پیارا شرمپ آئیز۔۔۔نہیں۔‘‘ اس نے دوسرے نام زور سے لینے شروع کیے، ’’ارے بیٹے پروز پوئم! میرے ننھے شارٹ اسٹوری! نٹ کھٹ مون لائٹ!‘‘
اس نے کہا، ’’ہم کاغذ کی پرچیوں پر نام لکھ کر قرعہ نکالیں۔۔۔دو نام جھگڑا نہیں کرنا ہے۔ دو ناموں کا تو آج کل چلن بھی ہے!‘‘
سراما نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔
انہوں نے بہت سے نام کاغذ کی چھوٹی چھوٹی پرچیوں پر لکھے، ان کو تہہ کیا اور سب کو ملا دیا۔ پھر ایک پرچی سرامانے اور ایک پرچی کیساون نائر نے اٹھائی۔ کیساون نائر نے اپنی پرچی کھولی اور اعلان کیا، ’’ٹافی!‘‘
سراما نے بھی اپنی پرچی کو پڑھا، ’’اسکائی!‘‘
دونوں نے ایک دوسرے کا منھ دیکھا۔
سراما نے بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے بیٹے کا نام پکارا، ’’ٹافی اسکائی! ارے نٹ کھٹ ٹافی اسکائی۔۔۔ میرے منے ٹافی اسکائی۔۔۔‘‘
’’غلط!‘‘ کیساون نائر نے نام کو ایک نئی ترتیب دی اور بڑی پر وقار آواز میں اپنے بیٹے کا نام لیا، ’’اسکائی ٹافی!‘‘
سراما کو یہ نام اچھا لگا۔ اس نے بڑے چاؤ سے پکارا، ’’اسکائی ٹافی! بیٹے اسکائی ٹافی! تم کہاں ہو ننھے اسکائی ٹافی!‘‘
’’شاندار!‘‘ کیساون نائرنے اپنا فیصلہ صادر کیا، ’’مسٹر اسکائی ٹافی، جناب ا سکائی ٹافی صاحب، کامریڈ اسکائی ٹافی!‘‘
سراما کو ایک بھیانک خدشے نے پریشان کر دیا، ’’میرا پیارا بیٹا کیا کمیونسٹ ہوگا؟‘‘
کیساون نائر ہنس پڑا، ’’کیا سوال کیا ہے! ارے اگر وہ سرخا ہونا چاہتا ہے تو اسے ہونے دو۔ یہ اس کی مرضی ہے۔ ہے نا؟‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔ میرا بیٹا جس پارٹی میں شامل ہونا چاہے ہو جائے۔‘‘
میرا بیٹا؟ سراما کا بیٹا؟ کیساون نائر جھنجھلا گیا۔ کیسی خودغرضی!
اس نے سراما کو یاد دلایا، ’’سراما، اتنی دیر سے تم ’میرا بیٹا‘، ’میرا بیٹا‘ کیے جا رہی ہو۔ تمہیں کچھ احساس بھی ہے؟ ایسی خودغرضی اچھی نہیں ہوتی۔ اگر لوگ تمہاری بات سن لیں تو سوچیں گے کہ اسکائی ٹافی پر میرا کوئی حق ہی نہیں ہے! آج کے بعد سے تم’ہمارا بیٹا‘ کہوگی۔ سمجھ گئیں تم؟‘‘
سراما کو بھی غصہ آ گیا، ’’تم نے مجھے یہ اچھی بات یاد دلا دی۔‘‘ اس کے چہرے پر ایسا تاثر آیا جیسے اس نے کوئی کڑوی چیز کھالی ہو۔ ’’اگر میں نے ان چیزوں کے بارے میں سوالات کر لیے تو اس کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ یہ مت سمجھنا کہ میں تمہاری بیوی ہو گئی ہوں۔ سمجھ گئے مسٹر کیساون نائر؟‘‘
کیساو ن نائر کا منھ لٹک گیا۔ اس نے کسی قدر رنجیدہ آواز میں پوچھا، ’’لیکن سراما، تم نے پہلے کیا کہا تھا؟‘‘
’’میں نے کیا کہا تھا؟‘‘
’’کہ تم میری بیوی ہوگی۔‘‘
’’اچھا پھر؟‘‘
’’سراما، تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔‘‘
’’مذاق؟ کیا تم جانتے ہو کہ مذاق زندگی کے لیے کیا ہے؟‘‘
’’میں جاننا بھی نہیں چاہتا۔‘‘
’’یہ بھی ٹھیک ہے۔ تم میری سنتے نہیں ہو۔ میں تمہارے لیے محض ’عورت‘ہوں۔ میں تمہاری ’جیون ساتھی‘ ہوں! میں تمہاری ’دیوی‘ ہوں!‘‘
’’سراما، مجھے بتاؤ، یہ آخر کیا ہے؟‘‘
’’کیا کیا ہے؟‘‘
’’مذاق زندگی کے لیے؟‘‘
’’ہنسی۔۔۔‘‘ وہ کھڑی ہو گئی اور زینے سے اترتے ہوئے اس نے اضافہ کیا، ’’جیون کی سگندھ۔ زندگی کی خوشبو۔‘‘
۴
’’سراما، مجھے کل صبح سویرے جانا ہے۔‘‘ یہ بات کیساون نائر نے شام کے وقت کہی، ’’تمہارے پاس مجھ سے آخری لمحے میں کہنے کے لیے کچھ ہے؟‘‘
سراما نے کہا، ’’وجود کے اس مختصر لمحے میں جب زندگی جوانی کے جوش سے ابلی پڑتی ہو، جب دل محبت کی خوشبو سے معطر ہو۔۔۔کچھ سوالات!‘‘
کیساون نائر پر اچانک افسردگی اور مایوسی طاری ہو گئی۔ سراما نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’پہلا سوال، تم نے پتاجی کا بقیہ حساب صاف کر دیا ہے؟‘‘
’’کر دیا ہے۔‘‘
’’بہت اچھا۔ دوسرا سوال، تم نے ہوٹل والے کے پیسے دے دیے ہیں؟‘‘
’’دے دیے ہیں۔‘‘
’’تیسرا سوال، تمہارے پاس سفر کے اخراجات کے لیے پیسے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پھر ایک اور سوال، یہ روپیہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟‘‘
’’میں نے اپنی گھڑی اور سونے کی اپنی انگوٹھی بیچ دی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اب چونکہ عزت مآب کیساون نائر کوان کے یہاں سے جانے کے بعد کوئی یاد نہیں کرےگا اس لیے میں اپنی نیک خواہشات انہیں پیش کرتی ہوں!‘‘ یہ کہتے ہوئے سراما ہنستی ہوئی زینے سے نیچے اتر گئی۔
اس چوٹ کے درد سے بےچین ہوکر کیساون نائر نے آواز دی، ’’سراما۱۱۱! مگر اسے سننے والا وہاں کون تھا؟ عورت شاید مثالی پتھر دل ہوتی ہے۔ عورت صرف ڈکو ڈکو ہوتی ہے۔۔۔سر سے پیر تک ڈکو ڈکو۔
۵
کیساون نائر کسی زندہ لاش کی طرح وہیں بیٹھا رہا۔ رات آ گئی، آسمان پر چاند نکل آیا۔ کیساون نائر اسی طرح بیٹھا رہا۔ پھر اٹھا۔ اٹھ کراس نے لالٹین جلائی۔ گھڑی گیارہ بجا رہی تھی۔ اس نے چار بجے کا الارم لگایا، جاکر دروازہ بند کیا اور پھر اپنے بستر پر جاکر گر گیا۔۔۔تھکا ہارا اور مغموم۔ یہ اس کی آخری رات تھی۔ اسے نہ بھوک تھی نہ پیاس۔ وہ آنکھیں کھولے ہوئے لیٹا تھا۔ وہ سوچ کچھ نہیں رہا تھا مگر اس کی آنکھیں نم تھیں۔ عورتیں وحشی جانور ہوتی ہیں۔ مرد کتنے اچھے ہوتے ہیں! بھگوان نے عورتیں پیدا کیوں کیں؟ کوئی سبب؟ کوئی وجہ؟ قریب تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔
اچانک باہر سے ایک آواز آئی، نرم اور گنگناتی ہوئی۔
’’کیا تم سو گئے؟‘‘
اوہ! وہ ذلیل اور قابل نفرت ظالم، مجسم پتھر!
کیساون نائر خاموش رہا۔
پھر وہی آواز، ’’دروازہ کھولو، میں ہوں!‘‘
کیساون نائرنے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ سراما کمرے میں داخل ہوئی۔ کیساون نائر دروازے پر کھڑا رہا۔ سراما نے نرمی سے کہا، ’’پلیز ذرا قریب آؤ، مجھے کچھ کہنا ہے۔‘‘
کیساون نائر آکر اپنے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ سراما دروازے کے قریب کھڑی کچھ دیرباہر دیکھتی رہی۔ میدان صاف تھا۔ اس نے دروازہ بند کیا، کرسی کو پلنگ کے قریب کھینچا اور اس پربیٹھ گئی۔ اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور کہنیاں پلنگ پر لٹکی ہوئی تھیں۔ اس کی ٹھوڑی اس کی دونوں ہتھیلیوں پر تھی اور چھاتیاں بستر کو چھو رہی تھیں۔ کیساون نائر اس کی چھاتیوں کو چومنا چاہتا تھا، مگراس نے اپنے دل پر پتھر رکھا اور تکیے سے ٹیک لگالی۔ اس کی آنکھیں ابھی تک نم تھیں۔
سراما نے پوچھا، ’’تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘ وہ کچھ نہیں بولا۔ وہ اٹھی اور آکر پلنگ پر بیٹھ گئی، اس نے اپنا سر کیساون نائر کی طرف جھکایا اور ایک گرم اور شیریں بوسہ اس کے ہونٹوں پر ثبت کر دیا۔
’’تمہیں مجھ سے نفرت ہو گئی ہے؟‘‘ اس نے دھیرے سے پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ اس نے سراما کو اپنی گود میں کھینچ لیا۔ اس کی افسردگی ختم ہو چکی تھی۔ وہ ہنسا، مگر اس کی آنکھوں سے آنسواب بھی بہہ رہے تھے۔
’’ایسا لگتا ہے کہ جیسے برسات کی جھڑی میں سورج چمک رہا ہو۔۔۔تمہاری سوچ کتنی رنگین ہے!‘‘ سراما نے کہا۔
’’صبح ساڑھے چار بجے تمہیں ٹرین پر میرے ساتھ ہونا چاہیے۔‘‘
’’کہاں جانے کے لیے؟‘‘
’’جہاں میں جاؤں۔‘‘
’’اور اگرمیں سچ مچ چلوں تمہارے ساتھ؟‘‘
’’سراما ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہے۔‘‘
’’کیا تم جانتے ہوکہ مذاق زندگی کے لیے کیا ہے؟‘‘
’’میں جانتا ہوں۔ یہ وہی ہے جو میری پیاری دوست لڑکی کے ہونٹوں پر رہتا ہے۔‘‘
’’اچھا تو تم میرا مذاق اڑار ہے ہو؟‘‘ اس نے اپنے بلاؤز کے اندر سے ایک موٹا لفافہ نکال کر بڑے خلوص اور عقیدت کے ساتھ کیساون نائرکے ہاتھ پر رکھ دیا، ’’اسے تم ٹرین چلنے کے بعدہی کھول کر دیکھوگے۔‘‘
’’یہ تو اچھا خاصا بھاری ہے!‘‘ کیساون نائر نے پوچھا، ’’کیا کوئی محبت نامہ ہے؟‘‘
’’ہاں، محبت نامہ، پریم پتر!‘‘ سراما ہنسی، ’’مگر ٹرین سے پہلے اسے کھولا نہیں جائےگا، وعدہ کرو!‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’اتنا کافی نہیں ہے۔ قسم کھاؤ، قسم بھی کسی ایسی چیزکی جس پر تمہیں بھروسہ ہو اور جس کا تم احترام بھی کرتے ہو۔‘‘
کیساون نائر نے سراما کی طرف دیکھا اور قسم کھائی، ’’میں اپنی پیاری سراما کی قسم کھاتا ہوں جس پر مجھے بھروسہ ہے، جس سے میں محبت کرتا ہوں، جس کی میں عزت کرتا ہوں، میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس لفافے کو ٹرین چلنے کے بعد ہی کھولوں گا۔‘‘ سراما نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا، ’’سویرے جانے سے پہلے مجھے اٹھا دینا۔ اب جاکر آرام سے سو جاؤ۔‘‘
وہ چلی گئی۔ کیساون نائر تنہا رہ گیا۔۔۔اس کے جسم کی خوشبو۔۔۔
۶
کیساون نائر چونک کر اٹھا۔ صبح کے ٹھیک چار بجے تھے۔ اٹھ کر اس نے غسل کیا اور سفر کے لیے تیار ہو گیا۔ اس نے کپڑے پہنے اور بستر باندھ لیا۔ اس کی دوسری چیزیں صندوقوں میں بند تھیں۔ وہ گھر سے باہر نکلا۔ اسے ایک تانگے والا مل گیا۔ اسی تانگے پر بیٹھ کر وہ گھر آیا، اپنا سامان تانگے پر لدوایا۔ یہ سب کرنے کے بعد اس نے اندر آکر سراما کے کمرے کی کھڑکی میں ٹارچ کی روشنی ڈالی اور آہستہ سے اسے آواز دی، ’’سراما! ۔۔۔ سراما!‘‘ کمرے سے نہ کوئی جواب آیا اور نہ ہی کوئی حرکت ہوئی۔ اس نے کمرے کے دروازے کو دھکا دیا۔ دروازہ کھل گیا۔
اس نے ٹارچ کی روشنی کمرے میں چاروں طرف ڈالی۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا! نہ سراما، نہ ہی اس کا صندوق! ہوا کیا؟ وہ کہاں جا سکتی ہے؟ ٹارچ کی روشنی میز پر رکھے ہوئے ایک لفافے پر پڑی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ کیساون نائر نے لفافہ کھولا اور خط پڑھا۔
سراما یہ خط اپنے پیارے باپ اور اپنی سوتیلی ماں کو لکھ رہی ہے۔
وجود کے اس انتہائی مختصر لمحے میں جب زندگی جوانی کے جوش سے ابلی پڑتی ہو اور جب دل محبت کی خوشبو سے معطر ہو۔۔۔اس وقت جب میرے پاس اچھی تنخواہ کی ملازمت ہے، میں اپنے کام کی جگہ جا رہی ہوں۔ میں نے ایک ایسا آدمی بھی پا لیا ہے جو بغیر کسی جہیز کے، محض میرے تن کے کپڑوں میں مجھے قبول کرنے پر تیار ہے! چونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں اور وہ بھی مجھے چاہتا ہے، میں اس صورت حال پر آپ سے غور کرنے کی درخواست کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ آپ لوگ ہم دونوں کو اپنی نیک خواہشات اور دعاؤں سے نوازیں۔
پتاجی اور سوتیلی ماں کی اپنی، سراما۔
کیساون نائر نے خط میز پر واپس رکھ دیا، کمرے کا دروازہ بند کیا اور گھر سے باہر آکر تانگے پر بیٹھ گیا۔ جلدی ہی وہ اسٹیشن پہنچ گیا۔ سراما وہاں کھڑی ہوئی ہنس رہی تھی۔
اس نے پوچھا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہواکہ میں یہاں آ گئی ہوں؟‘‘
’’علم غیب! اور بلاشبہ مرد کی ذہانت!‘‘
’’مرد کی ذہانت۔۔۔خوش فہمی! یاپتاجی اور سوتیلی ماں کے نام میرے خط کو چوری سے پڑھ کر؟‘‘
’’میں تمہیں بتا دوں گا۔ میں تمہیں ہر بات بتا دوں اے عورت!‘‘
اس نے دو ٹکٹ خریدے۔ وہ دونوں اپنا سامان لے کرٹرین میں سوار ہو گئے۔
انجن کی خوش کن سیٹی کی آوازآئی۔ ٹرین نے پلیٹ فارم چھوڑ دیا۔ دونوں خاموش کندھے سے کندھا ملاکر بیٹھ گئے۔ گاڑی تین اسٹیشنوں پر رکی۔ تیسرے اسٹیشن پر ڈبا خالی ہو گیا اور صرف وہی دونوں ڈبے میں رہ گئے۔
ٹرین اگلے اسٹیشن پر پھر رکی۔ کیساون نائر نے چائے کا آرڈر دیا۔ سراما نے کہا، ’’ہم دونوں کافی پئیں گے۔‘‘ کیساون نائر نے کہا، ’’ہم دونوں چائے پئیں گے۔‘‘ دونوں جھنجھلا گئے۔ آخر میں کیساون نائرنے کافی پی اور سراما نے چائے۔ سورج نکل آیا۔ ٹرین ایک پل پرسے آہستہ آہستہ گذرنے لگی۔ پل کے نیچے سبز پانی والا ایک دریا بہہ رہا تھا۔ دونوں کافی اور چائے کے اپنے جھگڑے کو بھول چکے تھے۔ کیساون نائر نے شفاف اور خالص محبت کے ساتھ بڑے نرم لہجے میں سراما سے کہا، ’’میری خوشبو، میرا سونا، میری دولت!‘‘
سراما کھسک کر اس کے اور قریب ہو گئی۔ ’’یہ سب کیا ہے، میرے پیارے اسکائی ٹافی کے پتا؟‘‘
’’میر ی پیاری مورکھ!‘‘
سراما نے اسے چٹکی کاٹی۔ کیساون نائر نے کہا، ’’میں مار مار کر تمہارا بھرتا بنا دوں گا!‘‘
سراما کی آنکھیں بھر آئیں۔ عورت ہونے کی وجہ سے آنسوؤں کی کمی تو تھی نہیں۔ وہ بغیر کسی سبب، بغیر کسی وجہ کے رونے لگی۔ اسے روتا دیکھ کر کیساون نائر کے اندر کے مرد کوافسوس ہوا۔ اس نے سراما کی آنکھوں کو چوم لیا۔
’’نہیں، مجھے مت چھوؤ!‘‘
’’کیوں؟ کیوں نہیں؟ میری تمام قربانیو ں کے باوجود تم اب بھی مجھ سے اس طرح کا سلوک کر رہی ہو؟‘‘
’’کس طرح کا سلوک کر رہی ہوں؟ اور یہ تمہاری قربانیاں کون سی ہیں؟ کیا میں اپنے پتاجی اور اپنی سوتیلی ماں کو چھوڑکر تمہارے ساتھ نہیں جا رہی ہوں؟‘‘
’’تم میرے ساتھ جا رہی ہو تو کیا ہوا؟‘‘
’’کم از کم کافی پی لو، میری خاطر، اتنی چھوٹی سی قربانی کر دو میرے لیے۔۔۔اور اب تم مار مار کر میرا بھرتا بناؤگے؟‘‘
’’ارے قربانی کی دیوی، اے عورت، اسکائی ٹافی کی ماں!‘‘
’’ہاں میرے سوامی؟‘‘
’’آج ہم سول رجسٹرار کے پاس جائیں گے اور اپنی شادی کا اندراج کرائیں گے۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم میاں بیوی ہیں۔ تم اتفاق کرتی ہونا؟‘‘
سراما کچھ نہیں بولی۔
کیساون نائر نے اس کی ران پر چٹکی لیتے ہوئے پوچھا، ’’تم راضی ہونا؟‘‘
’’میں نے ہاں کی نہیں ہے؟ خاموشی کا مطلب رضامندی ہوتا ہے!‘‘
’’تین معاملات میں تم کومکمل آزادی ہوگی۔‘‘
’’صرف تین انتہائی غیراہم معاملات میں؟‘‘
’’ہاں۔ کھانا، لباس اور عقیدہ۔‘‘
’’تو کیا ہمارے گھر میں دو باورچی خانے ہوں گے؟‘‘
’’ایک چھوٹی سی رسوئی!‘‘
’’کیا مجھے دو طرح کے کھانے پکانے ہوں گے؟‘‘
’’صرف ایک طرح کا۔‘‘
’’کس کی پسندکا؟‘‘
’’رسوئی کی مالک کی پسند کا۔‘‘
وہ ہنسی، ’’صبح کومیں صرف کافی بناؤں گی۔‘‘
’’اوہ۔۔۔اس کے بعدمیں باہر جاکر چائے پی لوں گا۔‘‘
’’میں اس کی اجازت نہیں دوں گی۔ تمہاری ساری تنخواہ پوری کی پوری، اچھی طرح سمجھ لو، میرے پاس رہےگی۔ صرف میرے پاس۔‘‘
’’میری پیاری، پھرمیں چائے کیسے پیوں گا؟‘‘
’’چھوڑ دو چائے! ذرا اس عورت کی طرف دیکھو جس نے تمہارے لیے اتنی قربانیاں دی ہیں۔‘‘
’’کیا میں سر کے بل کھڑا نہیں ہوا تھا، صر ف تمہاری خاطر؟‘‘
’’یہ کوئی بہت بڑا کام ہے کیا؟ کیا ایسے لوگ نہیں ہیں جنہوں نے محبت کی خاطر سلطنتوں پر لات مار دی ہے؟ محبت کے لیے اجگروں اور گھڑیالوں سے لڑے ہیں؟
’’میری موتی! میری مورکھ! اگرمیں چاہوں میں اپنی آرام کرسی میں لیٹے لیٹے دس بڑی بڑی سلطنتیں قربان کر سکتا ہوں! دس اجگروں سے لڑ سکتا ہوں! دوسری طرف، اپنے پیار کے لیے ذرا تم کوشش کرکے سربل کھڑی ہو تو جاؤ! کسی عورت نے کبھی ایسا کیا ہے؟ کیساون نائر ہی سراما کے سامنے سر کے بل کھڑا ہوا ہے۔ تاریخ میں ایسی کوئی اور مثال اب تک تو ملی نہیں ہے۔ اس سے بڑی کوئی اور قربانی نہیں ہو سکتی؟‘‘
’’اے اسکائی ٹافی کے باپ!‘‘
’’کیا ہے عورت؟‘‘
’’میں تمہیں دکھاؤں گی!‘‘
وہ جھکی اور جھک کر اس کے پاؤں چھوئے۔ کیساون نائر نے فوراً اس کے کندھے پکڑکر اسے اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔ ٹرین گھڑگھڑاتی ہوئی ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔ انہیں دیکھنے والا وہاں کون تھا؟
اس نے اپنا ہاتھ کیساون نائر کی جیب میں ڈال دیا۔
’’تم کیا تلاش کر رہی ہومیری معطر احمق عورت؟‘‘
’’لفافہ، وہ جو میں نے تمہیں دیا تھا!‘‘
’’محبت نامہ؟ ارے میں اسے پڑھنا تو بھول ہی گیا!‘‘
کیساون نائر نے لفافہ نکال کر کھولا۔ اس نے لفافے کے اندر رکھی ہوئی چیزوں کو نکالا اور حیرت میں پڑ گیا۔ یہ تو نوٹ تھے، کرنسی نوٹ، نوٹوں کا ایک پورا بنڈل۔
اس نے ان کوگنا۔ ایک ہزار ننانوے روپے!
’’سنو، ان روپوں سے تمہیں ایک دستی گھڑی اور سونے کی ایک انگوٹھی خریدنا ہوگی۔ سمجھ گئے؟‘‘
اگرچہ روپوں کو دیکھ کر اسے خوشی ہوئی تھی، وہ محبت نامہ دیکھنے کے لیے بےتاب تھا۔
’’دوسری چیز کہاں ہے؟‘‘
’’دوسری کون سی چیز؟‘‘
’’محبت نامہ، پریم پتر؟‘‘
’’کیا تم اسے پڑھنے کے لیے بہت بےچین ہو؟‘‘
’’میں صرف دیکھنا چاہتا ہوں اے عورت، میری انمول موتی!‘‘
’’تولو پھر دیکھو۔‘‘ وہ کچھ شرمائی ہوئی سی اس کے سامنے سیدھی ہوکر بیٹھ گئی، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولی، ’’تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟ میں ہوں وہ محبت نامہ، وہ پریم پتر۔ نوجوان مرد اور نوجوان عورت۔۔۔یہی ہے پریم پتر!‘‘
کیساون نائر کو یہ سب بہت اچھا لگا۔ ’’تم اور میں، بہت اچھا ہے۔ مگر وہ پریم پتر کہاں ہے؟ وہ مجھے دکھاؤ!‘‘
اس نے اپنے بلاؤز کے اندر ہاتھ ڈال کر ایک مڑا تڑا پسینے سے نم کاغذ نکالا اور اسے دے دیا۔ اس نے اسے کھولا، انگلیوں سے اس کی شکنیں دور کیں اور روشنی کے سامنے رکھ کر اسے دیکھنے لگا۔ یہ ایک خط تھا جسے وہ پہلے دیکھ چکا تھا۔۔۔لامتناہی ماضی سے آیا ہوا ایک خط۔ جوں ہی اس نے خط کو پڑھنا شروع کیا، سراما نے پڑھ کر اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈال دیں اور اسے پیار کر لیا۔ وہ بولی، ’’وجود کے اس مختصر لمحے میں جب زندگی جوانی کے جوش سے ابلی پڑتی ہو اورجب دل محبت کی خوشبو سے معطر ہو۔۔۔میں نے تم سے کہا نہیں تھا؟ ہم ہیں محبت نامہ، ہم ہیں پریم پتر!‘‘
’’عورت، میں سمجھتا ہوں، میں قائل ہو گیا ہوں۔ مگر مجھے پڑھ کر سناؤ!‘‘
’’تم اسے نہیں سنوگے!‘‘ سرامانے اسے زور سے بھینچ لیا اور اس کی گردن اور چہرے پر بوسوں کی بارش کر دی۔ ٹرین نے جیسے خوشی کی سیٹی دی اور چلتی رہی۔ جو کاغذ سراما نے اپنی چھاتیوں کے درمیان سے نکالا تھا اسے پڑھنے میں کیساون نائر کو بہت دشواری ہوئی۔ اس نے اسے بہت آہستہ آہستہ پڑھنا شروع کیا۔
میری پیاری سراما!
میری پیاری ساتھی، وجود کے اس مختصر لمحے میں جب زندگی جوانی کے جوش سے ابلی پڑتی ہو اور جب دل محبت کی خوشبو سے معطر ہو۔۔۔
جہاں تک میرا معاملہ ہے، میری زندگی کا ہر لمحہ سراما کی محبت میں گذرتا ہے۔
اور سراما، تمہارا؟
میں اپنے اس خط پر اچھی طرح غور کرنے اور ایک خوبصورت اور مہربان جواب سے سرفراز کرنے کی التجا کرتا ہوں۔
سراما کا اپنا
کیساون نائر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.