اس کا دماغ سن سے رہ گیا، زمین پاؤں تلے کھسک گئی، ڈھائی لاکھ کا غبن۔۔۔ وہ سر تھام کر بیٹھ گیا۔ منٹوں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ اکاؤنٹس کلرک محمد شریف نے ڈھائی لاکھ کا غبن کیا ہے۔ کسی کو یقین نہیں آیا کہ یہ کام اسی کا ہے لیکن کمپنی کے لیجر بک میں اس کا نام درج تھا اور کیش رول (Cash Roll) میں وصول کنندہ کی جگہ اس کا دستخط موجود تھا، منیجر کی میز پر کیش رول کھلا پڑا تھا۔ محمد شریف کمرے میں داخل ہوا تو منیجر نے چشمے کے اندر سے گھور کر دیکھا۔
’’دستخط تو آپ کے ہیں۔۔۔ ؟‘‘
دستخط اسی کے تھے منیجر کا لہجہ سخت ہو گیا۔
’’آپ کو ایک ہفتہ کی مہلت دی جاتی ہے۔ رقم جمع کر دیں ورنہ۔۔۔‘‘
محمد شریف پر لرزہ طاری تھا۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں تھا۔ کسی طرح لڑکھڑاتا ہوا منیجر کے کمرے سے باہر نکلا تو عملے نے اس کو گھیر لیا۔
’’یہ سب کیسے ہوا۔۔۔؟
‘‘شریف کی زبان گنگ تھی۔
اکاؤنٹنٹ نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’شریف کچھ بتاؤگے۔۔۔؟‘‘ شریف روہانسا ہو گیا۔ اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا:
’’رقم میں نے نہیں لی۔۔۔‘‘
’’ہمیں یقین ہے ‘‘اکاؤنٹنٹ نے اس کا شانہ تھپتھپایا۔
’’یہ اس کیشیئر کی کارستانی ہے۔۔۔‘‘ کسی نے کہا تو شریف نے چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپالیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ شریف کے آنسو تھمے تو تفصیل بتائی کہ نلنی کنسٹرکشن والوں نے ڈھائی لاکھ کا ڈرافٹ بھیجا تھا جس کی نکاسی بینک سے ہونی تھی۔ اس دن کیشیئر چھٹی پر تھا۔ منیجر نے ڈرافٹ اس کے حوالے کیا تھا، لیکن کسی وجہ سے اس دن بینک نہیں جا سکا اور دوسرے دن کیشیئر چھٹی سے واپس آ گیا تھا۔ کیشئر نے یہ کہہ کر ڈرافٹ لے لیا تھا کہ اکاؤنٹ میں لے لےگا۔
’’اور اس نے غبن کر لیا۔۔۔‘‘ا کاؤنٹنٹ بولا۔ شریف نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’لیکن تم نے کیش رول پر دستخط کیوں کیے۔۔۔‘‘
اس نے کہا کہ اتھارٹی میرے نام ہے اس لیے دستخط بھی مجھے کرنا چاہئے۔‘‘
’’اور تم نے کر دیا۔۔۔؟‘‘
’’میں کیا جانتا تھا کہ نیت میں فتور ہے۔۔۔!‘‘
اس نے بینک والوں سے مل کر کسی طرح ڈرافٹ کیش کرا لیا اور تم پھنس گئے۔‘‘
’’لیکن بینک میں اس کا دستخط تو ہوگا۔۔۔ !‘‘
’’اس سے کیا ہوا۔۔۔؟ اس نے رقم نکالی اور تم کو دے دی۔ اتھارٹی لیتر تمہارے نام ہے ۔ وصول کنندہ کی جگہ تم نے دستخط کیے ہیں۔۔۔‘‘
’’اب کیا ہوگا۔۔۔؟‘‘شریف پھر روہانسا ہو گیا۔
’’رقم تو جمع کرنی ہوگی۔۔۔‘‘
‘‘شریف کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔
عملے کو یقین تھا کہ غبن سابق کیشیئر نے کیا ہے۔ محمد شریف سے سبھی واقف تھے۔ وہ ایماندار اور بےضرر آدمی تھا اور صرف اپنے کام سے مطلب رکھتا تھا لیکن کیشیئر سے باز پرس مشکل تھی۔ وہ کمپنی سے استعفا دے کر کہیں فرار ہو گیا تھا اور الزام محمد شریف کے سر تھا۔ محمد شریف کے ساتھی دلاسا دے رہے تھے کہ کسی طرح کیشیئر کو ڈھونڈ کر رقم وصول کی جائےگی لیکن اس پر لرزہ طاری تھا اور رہ رہ کر ایک ہی خیال سانپ کی طرح ڈس رہا تھا۔۔۔‘‘ اب کیا ہوگا۔۔۔؟وہ پولیس کی حراست میں ہوگا اور بیوی بچے۔۔۔‘‘
دفتر سے نکلنے کے بعد اچانک اس کو احساس ہوا کہ اس کے کندھے پر ایک صلیب ہے جسے ڈھوتے ہوئے وہ دارو رسن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جب تک دفتر میں تھا، ایسا عجیب سا احساس نہیں ہواتھا۔ وہاں دوستوں کو تفصیل بتانے میں الجھا رہا تھا اور جب اس کے ساتھی ایک ایک کرکے چلے گئے تھے تو جانا کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کے قدم گھر کی طرف نہیں بڑھ پا رہے تھے۔ ہارڈنگ پارک کے قریب قدم خود بخود رک گئے۔ پارک میں اکادکا لوگ موجود تھے۔ ایک لڑکا بیلون اچھال رہا تھا اور ایک جوڑا بنچ پر بیٹھا خوش گپیاں کر رہا تھا۔ قریب ہی ایک ادھیڑ عمر کا شخص گھاس پر چپ چاپ لیٹا آسمان تک رہا تھا۔ اس کو لگا یہ شخص بھی کسی دفتر میں ملازم ہے اور اس وقت گھر جانا نہیں چاہتا۔ اچانک اس کی نگاہوں میں کیشیئر کا مکروہ چہرہ گھوم گیا۔۔۔!کس چالاکی سے اس نے کیش رول پر دستخط لیے تھے۔ پہلے کینٹین میں چائے پلائی تھی۔ پھر میٹھی میٹھی باتیں کی تھیں اور وہ اس کے فریب میں آگیا تھا۔ اگر اس دن دفتر نہیں گیا ہوتا منیجر اس کے نام اتھاریٹی لیٹر کیوں لکھتا۔۔۔؟ اب کیا ہوگا۔۔۔؟ کہاں سے لائے گا وہ ڈھائی لاکھ کی رقم؟ اس کے پاس جائداد بھی نہیں ہے۔ بیوی کے پاس اتنے زیور بھی نہیں ہیں کہ بیچ کر رقم چکتا کر سکے۔
اس نے اداس نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا۔ پارک میں کچھ اور لوگ آ گئے تھے۔ جوڑا اسی طرح خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ دفعتاً اس کو محسوس ہوا کہ ہر چیز لا یعنیت کے کہرے میں لپٹی ہوئی ہے۔ یہ جوڑا بھی خوش گپیوں میں مصروف ہے۔ کل حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہوگا۔ آدمی غفلت میں ہوتا ہے، ستم ظریفی گھات میں ہوتی ہے۔ عمر کی کسی نہ کسی منزل پر دبوچ لیتی ہے۔ یہ قسمت کی ستم ظریفی ہی تو ہے کہ اس نے کیش رول پر۔۔۔
گھاس پر لیٹے ہوئے ادھیڑ عمر شخص نے سرد آہ کے ساتھ کروٹ بدلی۔ ایک ہاتھ موڑ کر سر کے نیچے تکیہ سا بنا یااور آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے غور سے دیکھا، چہرے پر تفکر کے آثار تھے۔۔۔ داڑھی بڑھی ہوئی تھی بال خشک ہو رہے تھے اور قمیض کا کالر کنارے کی طرف مڑا ہوا تھا۔ اس کو لگا گھاس پر ادھ مرا لیٹا ہوا شخص کوئی اور نہیں خود وہ ہے۔ دفتری نظام کے شکنجے میں پھنسا ہوا۔۔۔ بےبس اور تنہا۔ جی میں آیا قریب جائے اور اس کے کندھے پر سر رکھ دے۔۔۔ تب اس کو اپنی آنکھیں نمناک محسوس ہوئیں۔ اس نے انگلیوں سے آنسو خشک کیے۔۔۔ سرد آہ کھینچی اور گھاس پر لیٹ گیا۔
شام گہری ہونے لگی۔ تارے ایک ایک کرکے روشن ہوگئے تھے۔ پارک میں بلب کے چاروں طرف گردش کرتے پروانوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا۔ لوگ اب آہستہ آہستہ جانے لگے تھے لیکن وہ اسی گھاس پر پڑا رہا۔ یہاں تک کہ سڑکوں پر ٹریفک کا شور مدھم ہونے لگا۔ سب چلے گئے تو ادھ مرا شخص بھی اٹھا۔ اس کے دامن سے ایک تنکا چپک گیا تھا ۔ اس نے گرد بھی نہیں جھاڑی اور پژمردہ قدموں سے باہر نکل گیا۔۔۔ اور پارک میں سنّاٹا اچانک بڑھ گیا۔ اس کو دہشت ہوئی اور گھر کی یاد آئی۔ وہ اٹھا اور شکستہ قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا۔ بیوی انتظار کررہی تھی۔ دیکھتے ہی برس پڑی۔ پھر اس کو گم صم دیکھ کر گھبرا گئی۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکا کہ دفتر میں دیر ہو گئی لیکن بیوی کو اطمینان نہیں ہوا۔
یہ اس کا معمول نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ دفتر سے سیدھا گھر آتا تھا۔ آج پہلی بار اس نے تاخیر کی تھی اور اتنا غم زدہ تھا کہ اس کے چہرے سے پژمردگی صاف جھلک رہی تھی۔ اپنے حال پر پردہ ڈالنے کے لیے فوراً ہاتھ منہ دھونے بیٹھ گیا۔ دو چار چھینٹے چہرے پر مارے اور تولیہ سے چہرہ خشک کرتا ہوا کھانے کی میز پر آیا تو بیوی نے پھر ٹوکا کہ آخر کیا بات تھی کہ وہ اتنا چپ چپ تھا۔ اس نے اسی طرح مختصر سا جواب دیا کہ آج کام زیادہ تھا جس سے تھکاوٹ پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے بتائے معاملہ کیا ہے۔؟ کسی طرح اس نے دو چار لقمہ زہرمار کیا اور کمرے میں آکر بستر پر دراز ہو گیا۔ منّا ایک طرف سو رہا تھا۔ وہ گہری نیند میں تھا۔ اس کی مٹھیاں ادھ کھلی تھیں اور چہرے پر بھینی بھینی سی مسکراہٹ تھی۔ اس نے منّے کے سر پر آہستہ سے ہاتھ پھیرا۔ اس کی آنکھیں بھیگ آئیں۔ تکیے میں منھ چھپاکر آنسو خشک کئے اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔ اس کو اکاؤنٹنٹ کی بات یاد آئی۔۔۔ رقم جمع کرنی ہوگی۔۔۔یہ تحریری نظام کا جبر۔۔۔ اس نے غبن نہیں کیا لیکن سزا جھیلنے پر مجبور ہے۔ کہاں سے لائے گا رقم؟ کون ہے جو مدد کرےگا؟کیا وہ لوگ کیشیئر کو ڈھونڈ پائیں گے ؟یہ کہنے کی باتیں ہیں کوئی اتنا جوکھم کیوں اٹھائےگا۔۔۔؟ اور کیشیئر اپنا جرم کیوں قبول کرےگا؟ اس نے غبن اس لیے تو نہیں کیا کہ خود کو گناہ گار ثابت کرے؟یہ سزا تو اس کو بھگتنی ہے۔ وہ بچ نہیں سکتا۔ اس کا دستخط موجود ہے۔۔۔ دستخط۔۔۔ فقط چند حروف اور ایک جھوٹ صداقت میں بدل گیا ۔شاید سچ اور جھوٹ ایک ہی سکّے کے دو پہلو ہیں۔ جھوٹ کی بھی اپنی ایک سچائی ہے۔ کیش رول میں اس کا دستخط ایک سچّائی ہے جس نے مجرم محمد شریف کو جنم دیا۔ اس کے دستخط کی سچائی مجرم محمد شریف کو مرنے نہیں دےگی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ کیا ہوا اگر دستخط کرکے مرجائے کہ اس کی موت کی ذمہ دار اس کی بیوی ہے۔
بیچاری وفا شعار عورت۔۔۔ فوراً قاتل قرار دی جائے گی۔ یہ سوچ کر مر جائےگی کہ اس سے ایسی کون سی خطا سرزد ہوئی کہ شوہر بے موت مرگیا۔ بچے بھی اس کو قاتل سمجھیں گے۔ وہ زندگی بھر ثابت نہیں کر سکتی کہ وہ بے قصور ہے۔ بس چند حروف۔۔۔ اور وہ شکنجے میں ہوگی۔۔۔ ناکردہ گناہ کی مرتکب۔ آدمی قدرت کے نظام میں آزاد ہے لیکن اپنے ہی نظام میں اسیر ہے۔ بس ایک معمولی سا دستخط۔۔۔ ’’دستخط تو آپ ہی کے ہیں۔‘‘ اس کے جی میں آیا زور سے چلّائے۔ جی ہاں دستخط میرے ہیں۔ سو فی صد میرے ہیں۔ میں اپنے دستخط کی سچائی کا اسیر ہوں جس کا شکنجہ موت کے شکنجے سے زیادہ اذیت ناک ہے۔۔۔! بیوی پاس آکر کھڑی ہو گئی۔ اس کے دل میں درد کی لہر سی اٹھی۔ کیا وہ بھی اس پر شک کرے گی؟ اس کی رفیقۂ حیات جو دس سالوں سے اس کے ساتھ ہے؟ اس نے تکیہ کو سینے پر رکھ کر دبایا اور کروٹ بد کر لیٹ گیا۔ شک کر سکتی ہے۔ تنگ دست آدمی کا ایمان ہمیشہ مشکوک ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت ہی کیا ہے؟ پرائیوٹ فرم کا ایک معمولی سا اکاؤنٹس کلرک؟ ڈھائی روپے نہیں لےگا۔ ڈھائی ہزار نہیں لےگا۔؟ کیا ڈھائی لاکھ بھی نہیں لےگا؟
اس نے ایک نظر بیوی کی طرف دیکھا۔ اس کے بال کھلے تھے اور چہرے پر تازگی تھی۔ غالباً اس نے شام کو غسل کیا تھا۔ جب بھی شام کو غسل کرتی، بال کھلے رکھتی تھی، جو لمبے تھے اور کمر تک لہراتے تھے۔ اس نے ہاتھوں کو پیچھے لے جاکر ایک بار بال کی تہوں کو سلجھایا۔ اس کے سینے کے ابھار نمایاں ہو گئے اور سپید گردن تن گئی جس پر ابھی جھریاں نہیں پڑی تھیں۔ اس نے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بنایا اور منّے کو اٹھانے کے لیے بستر پر جھکی تو اس کا آنچک ڈھلک گیا اور کان کے آویزے ہل کر رہ گئے۔ منّے کو بازوؤں سے پکڑ کر اس نے آہستہ سے بستر کے کنارے کھینچا۔ پھر تکیے کا اوٹ سا بنایا اور بغل میں لیٹ گئی۔ وہ یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ اس کا اس طرح اپنے لیے جگہ بنانا یقیناً بےمقصد نہیں تھا۔ اس نے اکثر ایسا کیا تھا۔ تب وہ بھی اس کی طرف رجوع ہوتا تھا اور اس کی آنکھوں میں آتشیں لہروں کی تحریر صاف پڑھ لیتا تھا ورنہ عام دنوں میں منّا بیچ میں ہوتا تھا اور وہ دوسرے کنارے پر سوتی تھی۔ بیوی نے ایک ہاتھ کو جنبش دی اور وہ کمر کے گرد اس کی انگلیوں کا ہلکا سا لمس محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس کو یاد آیا بیوی کو چار مہینے کا حمل بھی ہے۔ وہ تھوڑاقریب کھسک آئی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے رخساروں پر اس کی گرم سانسوں کو محسوس کرنے لگا۔ اس کے دل میں ٹیس سی اٹھی ۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’کیا بات ہے۔۔۔؟‘‘ بیوی نے تکیے سے سر اٹھایا۔
وہ خاموش رہا۔
’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔۔؟‘‘
’’پانی پلاؤ۔۔۔‘‘
بیوی نے اٹھ کر کمرے میں روشنی کی۔ اس کے چہرے پر جھنجھلاہٹ کے آثار بہت نمایں تھے۔ اس کا جوڑا کھل گیا تھا اور گیسو بکھر گئے تھے۔ ساری بے ترتیب ہو گئی تھی جس سے پیٹ کا ابھار نمایاں ہو گیا تھا۔ وہ پانی لانے کچن میں گئی تو اس نے دیکھا وہ کولھوں پر زور دے کر چل رہی تھی۔ ساری کی بے ترتیبی سے پیٹی کوٹ کے نیفے میں جوڑ کے قریب گلابی ڈور کا بہت خفیف سا حصہ جھلک رہا تھا ۔ اس نے گہری سانس لی اور چت لیٹ گیا۔
اس کو چاہیے کہ سب کچھ بتا دے۔ دل کا بوجھ تو کچھ کم ہوگا لیکن وہ گھبرا جائےگی اور کچھ کر بھی تو نہیں سکتی۔۔۔ وہ بھی کیا کرسکتا ہے؟ وہ بھی تو کچھ نہیں کرسکتا۔ بیوی کم سے کم دعا مانگ سکتی ہے۔ فوراً نماز میں کھڑی ہو جائےگی۔۔۔ سجدے میں گر پڑےگی۔۔۔ رو رو کر فریاد کرےگی۔ اس کو امید ہوگی کہ کوئی معجزہ ہوگا۔۔۔ خدا سن لےگا۔۔۔ خدا بڑا رحم والا ہے۔ سب راز کا جاننے والا ہے۔ اس کا دل عقیدے کی روشنی سے معمور ہے اس لیے امید کی کرن آخری دم تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ اس کے جیل جانے کے بعد بھی وہ یہی سمجھےگی کہ اس میں خدا کی کوئی مصلحت ہے۔ جینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی عقیدے کا بھرم پا لے۔۔۔ لیکن اس کا ایمان تو ہمیشہ متزلزل رہا۔ عقیدے کی روشنی کبھی پھوٹ نہیں سکی۔ وہ تو خدا سے دعابھی نہیں مانگ سکتا۔ وہ کسی معجزے کی امید نہیں کر سکتا۔۔۔ وہ خود کو تسلی نہیں دے سکتا کہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے انصاف کرےگا۔ وہ سچائی پر ہے اور سچائی کی جیت ہوگی۔۔۔ اس کے پاس امید کی کوئی کرن نہیں ہے۔ اس کو حیرت ہوئی کہ واقعی اس کے پاس کوئی خدا نہیں ہے! وہ کس سے دعا مانگے؟کہاں ہے خدا؟ آسمانی صحیفوں میں؟ یا انسانی قلوب میں جاگزیں شہ رگ سے بھی قریب۔ !خدا جس کی خدائی میں ’’عدم کو ثبات ہے۔ جس کے لوح و قلم میں محفوظ ہے۔ ہر ذی روح کے لیے ایک عدم گناہ کی سزا۔ لیکن اس کو اپنا عدم گناہ قبول نہیں ہے۔ وہ کیوں اس جرم کی سزا قبول کرے جس کا مرتکب نہیں۔ رقم جمع کر دیں ورنہ۔ ورنہ کیا؟ آپ پھانسی پر چڑھا دیں گے یہی نا؟ تو کون بری ہے تحریری نظام کے جبر سے؟ بہت ممکن ہے ایک فرد کا مچھلی کے پیٹ سے صحیح سلامت نکل آنا کہ یہ قدرت کا نظام ہے لیکن خود اپنے ہی نظام کے شکنجے سے چھوٹنا ممکن نہیں ہے کہ ’’تحریری نظام‘‘ میں حروف کی سچائی جس جھوٹ کو جنم دیتی ہے وہ خدا کی طرح زندہ جاوید ہے۔ دستخط تو آپ کے ہی۔بےشک حضور والا۔! دستخط میرے ہی ہیں۔ میں کیش رول میں اسی طرح موجود ہوں جس طرح خدا آسمانی صحیفوں میں موجود ہے۔ کیش رول میں میرے دستخط کی سچائی میرے عدم وجود کو وجود میں بدل چکی ہے۔ میں ہمیشہ ہمیشہ وہاں موجود رہوں گا۔!
بیوی پانی لے کر آئی تو اس نے ایک ہی سانس میں گلاس خالی کر دیا ۔ بیوی نے پوچھا کہ اور چاہئے؟ تو اس نے نفی میں سر ہلا یا اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔ گلاس تپائی پر رکھ کر اس نے روشنی گل کی اور بستر پر لیٹ گئی۔ وہ اپنی کمر کے گرد اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرنے لگا۔ پھر وہ اور قریب کھسک آئی اور اس کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس کو اپنی بانہوں میں بھر چکا ہوتا لیکن اس وقت اس کا جی چاہ رہا تھا کہ مردے کی طرح چپ چاپ پڑا رہے اور کوئی اس درمیان خلل نہیں ڈالے۔ اچانک منّا زور سے رو پڑا۔ وہ مڑی اور منّے کو فوراً بستر سے اٹھا کر فرش پر کھڑا کر دیا لیکن فرش تک آتے آتے دوچار قطرہ پیشاب بستر پر خطا ہو ہی گیا۔ منّے کو فرش پر پیشاب کرانے کے بعد بستر پر لٹایا اور تھپکیاں دینے لگی۔
اچانک اس کو لگا دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہے۔! اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ دل میں آیا شاید دفتر کے ساتھی کیشیئر کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس نے دروازہ کھولا ۔وہاں کوئی نہیں تھا۔! ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ سا طاری رہا اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔’’خدا بے نیاز ہے اور آدمی پر امید۔‘‘ اس کے جی میں آیا پوری قوت سے چلّائے۔’’تمام دروازے بند کرلو، نہیں ہوگا کسی عیسیٰ کا ورود۔ آدمی اسی طرح خود ساختہ نظام کے شکنجے میں پھنسا رہےگا لیکن وہ چلّا نہیں سکا۔ اچانک اس کے سینے میں زور کا درد محسوس ہوا۔ دونوں ہاتھوں سے سینے کو پکڑے ہوئے اس نے کسی طرح دروازہ بند کیا اور لڑکھڑاتا ہوا بستر تک آیا۔ کانپتے ہاتھوں سے بیوی کے بازوؤں کو تھامنے کی کوشش کی۔ اس کو سینے سے لگاکر بھینچا۔ بیوی کی چھاتیوں کے گداز لمس سے اس کو راحت ملی۔ اس نے اپنے رخسار اس کے رخسار پر ٹکا دیے اور اس کی پشت کو زور زور سے سہلانے لگا جیسے اس کے بدن کے لمس سے اپنے لیے تھوڑی سی توانائی کسب کرنا چاہتا ہو۔ پیٹ کے اس حصے کے کڑے پن کو اس نے محسوس کرنے کی کوشش کی جہاں اس کا وجود پل رہا تھا لیکن اچانک سینے میں درد بڑھ گیا۔ اس کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ جانکنی کے اس عالم میں اس کے جی میں آیا زور سے فریاد کرے۔
’’میں اس جرم کی سزا کیوں قبول کروں جس کا مرتکب نہیں ہوں۔؟‘‘
لیکن آواز اس کے سینے میں گھٹ کر رہ گئی۔ پھنسی پھنسی سی آواز میں وہ صرف دوبار بیوی کا نام لے کر پکار سکا۔ سلطانہ۔ سلطانہ۔!
اور اس کا سر سلطانہ کی چھاتیوں کے درمیان لڑھک گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.