Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجسمہ

MORE BYمحمد امین الدین

    مددگاروں کو رخصت کرنے کے بعد ایقان دیر تک سنگِ مر مر کو چاروں طرف سے دیکھتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس چٹان کو اپنے حسین تصورات کا روپ دینے میں ضرور کامیاب ہوگا۔ اسی دوران اس کے کانوں سے آواز ٹکرائی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ برآمدے میں موم کھڑی ہوئی تھی۔ ایقان نے پتھر پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور اندر چلا آیا۔

    نیند کی حالت میں بھی سنگِ مر مر اس کے حواس پر سوار رہا۔ قوس و قزح ، سرمئی دھنک اور سپیدی سے ابھرتی ہوئی باریک باریک سیاہ لکیریں اور ان کے بیچ گڈ مڈ ہوتے ہوئے نامانوس اور غیر واضح اجسام۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اجسام نے سنگ مر مر کے حسین تودے کو دھنک رنگوں کی چادر کی طرح اپنے اوپر اوڑھ رکھا ہو۔

    رات کے کسی پہر اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے سرہانے رکھے بلب کو جلایا اور گردن گھما کر موم کی طرف دیکھا ،وہ سورہی تھی۔ اس نے محبت بھری نظروں سے دیکھا۔ اسے موم پر بہت پیار آیا۔ وہ جانتا تھا کہ ہفتہ بھر پہلے موم کی رپورٹ پازیٹیو آئی تھی۔ قدرت کی طرف سے شادی کے چار سال بعد ان کے گھر کا سُونا پن دور ہونے کی امید بر آئی تھی۔ ایقان نے ہاتھ بڑھا کر موم کے بالوں کو چُھوا۔ وہ کسمسائی اور آہستگی سے کروٹ بدل لی۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا، رات کے دو بج رہے تھے۔ ایقان نے کروٹ لے کر دوبارہ سونے کی کوشش کی مگر نیند غائب ہوچکی تھی۔ تھوڑی دیر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ بے چینی سے اٹھ بیٹھا۔ اسے لگا جیسے کوئی اس کے دماغ میں ہتھوڑے برسا رہا ہو۔ اس کا سر درد سے چٹخنے لگا۔ کمرے میں خنکی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، پھر بھی اس کے چہرے اور بدن پر باریک باریک قطرے نمودار ہونے لگے۔ تب وہ تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے ٹیرس پر چلا آیا۔ اسے قدرے سکون محسوس ہوا۔ وہ ریلنگ کا سہارا لے کر کھڑا ہوگیا۔ یکایک اس کی نگاہ نیچے باغ کے درمیان میں رکھی سنگِ مر مر کی چٹان پر پڑی۔ وہ حیران رہ گیا۔

    سنگِ مر مر کی بھاری چٹان عجیب و غریب صورت اختیار کرچکی تھی۔ جیسے کسی ماہر سنگ تراش نے اسے تراشا ہو۔ چاروں طرف ہزاروں چھوٹے چھوٹے سنگ ریزے بکھرے ہوئے تھے۔ ایقان تیزی سے پلٹا اور کمرے سے نکلتا چلا گیا۔

    کئی کئی سیڑھیاں پھلانگتا ہوا وہ نیچے اترا اور برآمدے سے گزرتا ہوا باغ میں پہنچا تو اس کے قدموں میں حیرت کی شدت نے زنجیر ڈال دی۔

    پتھر پہلے جیسا تھا۔ آس پاس کی گھاس بھی صاف تھی۔ وہ باغ میں ڈھیر ہوگیا۔ اس کا سر چکرانے لگا۔ بے چین حالت میں وہ آنکھیں پھاڑے مسلسل پتھر کو دیکھے جارہا تھا، جو اندھیری رات کے سناٹے میں خوابیدگی اوڑھے ہوئے سورہا تھا۔

    اس نے سوچا کہ رات کے پچھلے پہر ٹیرس سے جو کچھ دیکھا تھا وہ محض واہمہ نہیں ہوسکتا۔ وہ ایک جیتی جاگتی حقیقت تھی۔ اس نے اپنے ذہن پر مزید زور دیتے ہوئے مجسمے کے خدوخال اور اس کی بناوٹ کے بارے میں سوچا، تب اس کے دھیان میں کئی صورتیں ابھرنے اور ڈوبنے لگیں۔ لیکن ہر صورت دُھند میں لپٹی ہوئی تھی۔ ہر نقش مہین سا غلاف اوڑھے ہوئے تھا۔ وہ جیسے جیسے ان صورتوں کو اپنے دماغ میں بسی ہوئی تصویروں سے جوڑنے اور ملانے کی کوشش کرتا ویسے ہی تصویریں آپس میں گڈ مڈ ہونے لگتیں، اور نقوش بگڑ کر بدصورت ہوجاتے۔

    ایقان کی بے چینی اور بے قراری بڑھنے لگی تو وہ غیر ارادی طور پر سنگِ مر مر کی اس چٹان کے پاس چلا آیا۔ وہ کبھی پتھر کو چھوتا اور اس کے موجود ہونے کا یقین کرتا، کبھی اس پر ہاتھ پھیرتا اور مٹھی میں دبا کر کپڑے کی طرح نوچنے کی کوشش کرتا۔ ایک سمت سے ناکام ہوتا تو دوسری سمت چلا جاتا اور پھر تیسری سمت۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے چہرے پر کرب انگیز لہر دوڑ جاتی۔ یکایک وہ اس بھاری چٹان کو زمین سے اٹھا کر کسی ڈبے کی مانند الٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر ہر بار ناکامی سے اس کا اضطراب اور بڑھ جاتا، تب ایقان نے غیر ارادی طور پر اوزار اٹھائے اور پتھر کو تراشنا شروع کردیا۔ اس دوران موم بھی نیچے آچکی تھی اور یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ ایقان کی حرکتوں سے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو یا اپنے حواس میں نہ ہو۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے اندر کی طرف دوڑی اور فون پر آنٹی سحر سے رابطہ کرنے لگی جو ایک ماہر نفسیاتی ڈاکٹر ہونے کے علاوہ رشتے میں اس کی ممانی اور ایقان کی چچی بھی تھیں۔

    تھوڑی دیر میں انکل کمال اور آنٹی سحر دونوں وہاں موجود تھے۔ کارنر کا مکان ہونے کی وجہ سے دونوں بغلی سڑک پر کھلنے والے چھوٹے گیٹ سے اندر داخل ہوئے اور اب ٹیرس سے ایقان کا مشاہدہ کررہے تھے۔ جو ہیجانی انداز میں سنگِ مر مر کو تراشنے میں مصروف تھا۔ بے چینی، اضطراب اور پتھر پر پڑنے والی مسلسل چوٹوں سے یوں لگتا تھا جیسے وہ ابھی کے ابھی سنگِ مر مر کے اندر چُھپے اجسام کو باہر نکال لینا چاہتا ہے یا پتھر کے اس خول کو چہروں اور بدن کے اوپر سے نوچ ڈالنا چاہتا ہے۔

    کبھی وہ ایک سمت میں چھینی اور ہتھوڑی چلاتا اور کبھی وہ دوسری سمت میں سخت پتھر کو کُھرچنے لگتا۔ کبھی وہ سیڑھی کے اوپر چڑھ کر پتھر کا چاروں طرف سے جائزہ لیتا تو کبھی اِسٹول کے اوپر بیٹھ کر سنگِ مر مر کی بھاری چٹان پر باریک نوک دار چھینی سے نشان ڈالتا، خط کھینچتا ، مٹاتا اور دوبارہ بناتا۔

    مگر اس ہیجان انگیز بے چینی اور اضطراب نے اسے بہت جلد تھکا ڈالا اور وہ وہیں گھاس پر ڈھیر ہوکر گہری گہری سانسیں لینے لگا۔ تب اسے لگا کہُ اس کے آس پاس کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو موم ، آنٹی سحر اور انکل کمال کھڑے ہوے تھے۔ وہ گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ سب کرسیاں کھینچ کر بیٹھ گئے۔ ایقان نے شرمندگی سے سریو ں جھکایا ہوا تھا جیسے چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو۔ وہ بولا۔

    ’’آنٹی! آئی ایم سوری‘‘۔

    ’’نو نو اِٹس آل رائٹ۔ سچ سچ بتاؤ تمہارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟‘‘

    ایقان نے خود پر گزرنے والی کیفیت بیان کردی۔ سب بہت غور سے سُن رہے تھے۔ موم اس دوران چائے بنالائی اور چائے دے کر ایقان کی کرسی کے ہتھے پر بیٹھ کر پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔

    ’’دیکھو تمہاری وجہ سے موم کتنی ڈسٹرب ہے، جبکہ ان دنوں اسے ڈسٹرب نہیں ہونا چاہیے۔ اتنے عرصے کے بعد تمہیں خوشی ملنے والی ہے‘‘۔

    ’’میں جانتا ہوں، لیکن مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ مجھے کیا ہورہا ہے۔ بس یوں لگتا ہے جیسے اس پتھر کے اندر کوئی قید ہے اور مجھے اس کو باہر نکالنا ہے‘‘۔

    ’’کون ہے وہ؟‘‘

    ’’کوئی ایک نہیں، دُھندلے دُھندلے کئی چہرے ہیں‘‘۔

    انکل کمال بہت غور سے ایقان کی باتیں سن رہے تھے۔ ان دونوں کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ایقان ان کے بڑے بھائی احسان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے آنٹی سحر اور کمال دونوں ایقان سے بہت محبت کرتے تھے۔ موم سے بھی ان کا رشتہ اتنا ہی گہرا تھا۔ موم کمال صاحب کی بہن کی بیٹی تھی۔ سارا خاندان ایک ہی بڑے گھر میں پلا بڑھا تھا۔ ایقان کے دادا اپنے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ اسی گھر میں سب بچوں کی شادیاں ہوئیں اور یہیں انہوں نے اپنی زندگی شروع کی۔دور دور تک پھیلی ہوئی راہداریوں میں بنے کمروں، دالانوں اور وسیع و عریض باغ کے درختوں کی چھاؤں میں پورا گھرانہ بے فکری اور آسودگی کا سائبان اوڑھے برسوں پھولتا پھلتا رہا۔

    لیکن ایقان اور موم نے اپنے ذہنی رجحان اور تخلیقی اپچ کی وجہ سے شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے ذرا دور پُرسکون علاقے میں گھر بنوایا۔ ایقان مقامی کالج میں آرٹ پڑھاتا اور مجسمہ سازی کیا کرتاتھا۔

    ایقان جب خود پر گزرنے والی کیفیت بتا رہا تھا تو انکل کمال اسے بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ آنٹی سحر نے ساری بات سننے کے بعد جیسے ہی کچھ کہنا چاہا تو انکل کمال نے فوراً کہا۔

    ’’میرے ذہن میں ایک بات آرہی ہے۔ ایقان کو کسی دوا کی ضرورت نہیں ہے۔ ہی نیڈز مور اینڈ مور کنسنٹریشن فار دس بیوٹی فل فینٹسی۔ یہ کالج سے کچھ دن کی چھٹی لے اور اپنی پوری توجہ اس پتھر کو تراشنے پر لگادے۔ جیسے جیسے اس پر کام کرے گا یہ نارمل ہوتا جائے گا۔ اور پھر بھی، اگر تم اسے کوئی سکون بخش دوا دینا چاہو تو دے دو۔ ورنہ اس کا سکون اس پتھر میں چھپا ہوا ہے۔

    آنٹی سحر نے تائید میں گردن ہلائی اور کہا۔

    ’’یس !ہی از ایبسولیوٹلی آل رائٹ۔ایقان! کمال صحیح کہہ رہے ہیں۔ تمہاری بے چینی اور بے قراری کا علاج اسی پتھر میں چُھپاہے۔ مجھے مائیکل انجلو کی ایک بات یاد آرہی ہے۔ کہ شبیہ تو پتھر میں موجود ہوتی ہے، میں تو صرف تراش کر اجاگر کرتا ہوں۔ لہذا تم بھی اسے تراش کر اجاگر کردو۔ پھر دیکھتے ہیں کہ تمہیں کس چیز نے بے چین کررکھا ہے۔آئی تھنک دیٹ وڈ بی ونڈرفل اینڈ ایکسائٹنگ فار یور ریلیکسیشن‘‘۔

    سکون بخش گولیوں نے ایقان کو سونے پر مجبور کردیا۔نیند کی حالت میں بھی سنگِ مر مر اور بنتے بگڑتے چہرے ہی سوار رہے۔ لیکن اب حیرت انگیز طور پر خوابوں میں ابھرنے والے خاکے نسبتاً واضح شکل اختیار کرتے جارہے تھے۔ وہ آپس میں گڈ مڈ بھی نہیں ہوئے۔ ان چہروں کے نقوش بھی پہلے کی نسبت بہتر تھے۔

    پھر ایقان کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے لیمپ جلایا اور موم کی طرف دیکھا۔ اس کے ذہن کے پردے پر پچھلی رات کا منظر دوڑنے بھاگنے لگا۔ وہ حقیقت اور خواب کے درمیان چھپی ہوئی سچائی کا سراغ لگانے ٹیرس پر چلا آیا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے قدم آگے بڑھایا۔ بیرونی دیوار سے جُڑا ہوا گھاس کا قطعہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھیلتے ہوئے چوڑا ہونے لگا ۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھنے لگی اور پھر رفتہ رفتہ سنگ مر مر کا تراشیدہ مجسمہ اس کی نظروں میں ابھرنے لگا۔

    بیس پچیس فٹ کے فاصلے پررکھا ہوا مجسمہ مکمل تھا۔

    یہ ایک مرد ،عورت اور ایک بچے کا مجسمہ تھا۔ مرد الٹے گھٹنے کے بل جھکا ہوا تھا۔ عورت اس کے سیدھے پیر سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی، اور اس نے ایک نوزائیدہ بچے کو اپنی باہنوں میں بھر رکھا تھا۔ مرد نے اپنے دونوں ہاتھ عورت کے کندھوں پر رکھے ہوے تھے۔ دونوں کے چہروں پر مسرت انگیز چمک تھی۔ احساسِ تفاخر سے بھری ہوئی تکمیلِ محبت کی چمک۔

    ایقان ٹیرس پر کھڑا مجسمے کو دیر تک دیکھتا رہا اور سنگِ مر مر کے ایک ایک فراز اور چھوٹے سے چھوٹے نشیب کو اپنی آنکھوں میں بھرنے لگا۔ اس کی آنکھیں کیمرے کی طرح کام کررہی تھیں، جن میں مجسمے کا ایک اک نقش اور خط محفوظ ہوتا جارہا تھا۔ مگر جیسے ہی اس نے مرد و عورت کے چہرے کے نقوش پر دھیان دیا تو منظر خواب کی طرح دُھندلانے لگا۔ اس نے ہتھیلیوں سے آنکھوں کو مسلا مگر بے سود۔ وہ چہرے کے خطوط کو ذہن میں نقش کرنے میں ناکام رہا ۔ نیم تاریکی میں جب اس نے بہت زیادہ غور سے دیکھنے کی کوشش کی تو اسے محسوس ہوا جیسے مجسمے کے اوپر اضافی پتھر دُھندلاہٹ میں چھپا ہوا اب بھی موجود ہے۔ ایقان پریشان ہوگیا، وہ پلٹا اور کمرے میں آکر دھم سے بستر پر گر گیا۔ اس کی سانسیں لمبی مسافت سے لوٹنے والے مسافر کی طرح بے ترتیب تھیں۔

    وہ یوں ہی خلا میں تکتے ہوئے دیر تک جاگتا رہا۔ خیالات کی آندھی کے مرغولے اس کے دل و دماغ کو جکڑے ہوئے تھے۔ مجسمے کی پوری ساخت اس کے دماغ پر نقش ہوچکی تھی۔ لیکن مرد و عورت کے چہرے کے نقوش بنتے بنتے یکایک بگڑ جاتے اور وہ بے قرار ہوجاتا۔ دل کی دھڑکن تیز اور سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتی۔ اچانک اضطراری انداز میں اس کے ہاتھ خلا میں تصویریں بنانے لگتے۔ کبھی وہ انگلیوں کی مدد سے بے ترتیب حروف خلا میں بناتا اور مٹاتا، اور کبھی کبھی ہاتھوں میں خیالی ہتھوڑی چھینی سے مجسمے کوتراشنے لگتا۔

    وہ پریشان ہو کر اٹھ بیٹھا اور دوبارہ ٹیرس پر آنکلا۔ دور سے ابھرتی ہوئی سپیدیِ سحر رات کی تاریک چادر کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔ باغ کے بیچ غیر تراشیدہ پتھر ایستادہ تھا۔ ایقان تھوڑی دیر تک یوں ہی دیکھتا رہا اور پھر فیصلہ کن انداز میں پلٹا اور سوتی ہوئی موم پر سرسری نظر ڈالتا ہوا نیچے اتر آیا۔ وہ پتھر کو ذہن میں ابھرنے والے خاکے کی مدد سے تراشنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔

    رفتہ رفتہ بھدا سا پتھر اپنی شکل تبدیل کرنے لگا۔ چاروں طرف سنگ ریزے بڑھنے لگے اور پتھر روز بروز اپنی ہئیت میں نکھرتا چلا گیا۔ خام مجسمے کے خدوخال اوپر سے بننا شروع ہوگئے۔ ایقان اپنی یادداشت کے سہارے نقوش ابھارتا رہا۔ وہ ایک دن اور ایک رات کی محنت کے بعد مرد کا ایک ایسا سر تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگیا جس کے نقوش ابھی واضح نہیں تھے۔

    اس دوران موم برآمدے سے مسلسل اسے سخت حیرت سے دیکھتی رہی ۔اس نے ایقان کو کبھی اس طرح کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔

    اسے معلوم تھا کہ کسی بھی مجسمے کو تخلیقی عمل سے گزارنے سے پہلے اس کی مکمل ڈرائنگ ، سائز، ہئیت اور اس کے سہ رُخی گراف کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے، جب کہ ایقان کے پاس اس وقت ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ تو بس خوابوں ، خیالوں میں ابھرنے والی دُھندلی تصویروں کو مجسم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ موم حیران تھی کہ ایقان کس مہارت سے اس مجسمے کو تخلیق کررہا ہے۔

    کچھ ہی دنوں میں تخلیقی جوہر کچھ اور نیچے تک ابھر آیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے گہرے پانی میں ڈوبا ہوا کوئی انسان آہستہ آہستہ سطح پر ابھررہا ہو۔ اور پھر پانی میں سے ابھرنا دن بدن بڑھنے لگا۔ پہلے مرد کا دھڑ باہر آیا اور پھر ایک عورت نے بھی دھیرے دھیرے ابھرنا شروع کردیا۔ اور پھر ایک روزچاندنی رات کی سحر انگیز فضا میں ایک نوزائیدہ بچے کے نقوش ابھرتے چلے گئے۔

    وقت کے ساتھ ساتھ ایقان کی وحشت میں کمی آنے لگی۔ اب وہ راتوں میں گہری نیند سوپاتا تھا۔نہ خلا میں ہیجانی انداز سے انگلیاں چلاتے ہوئے کچھ لکھتا اورنہ اضطراری حالت میں تصویروں کو بنتا بگڑتا ہوا دیکھتا۔ البتہ ان تبدیلیوں کے باوجود مرد وعورت کے نقوش واضح نہیں ہورہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے بھی اپنی تخلیق کو آخری ٹچ نہیں دیا تھا۔

    آج کئی دن بعد اس کا دل خلا میں انگلیاں چلاتے ہوئے کچھ حرف بنانے یا نقش ابھارنے کو چاہ رہا تھا۔ مگر جب اس نے لیٹے لیٹے اپنا ہاتھ اٹھایا تو اسے لگا جیسے اس کا ہاتھ منوں وزنی ہوگیا ہو۔ اس نے ہاتھ بستر پر ڈال دیا اورپھر اس کی آنکھوں کے پردے پر دھیرے دھیرے نیند اترنے لگی۔ دیر تک سونے کے بعد یکایک اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑرہی تھیں۔ کمرے کی خنکی کے باوجود ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ سر پھوڑے کی طرح دُکھنے لگا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو تھام لیا۔ کچھ دیر وہ اسی حالت میں بیٹھا رہا۔ حلق خشک ہورہا تھا۔ اس نے قریب رکھی ہوئی بوتل منہ سے لگالی ،لیکن تب بھی بے چینی کم نہ ہوئی۔ وہ ٹیرس پر جانے کے لیے اٹھا مگر دوسرے ہی لمحے گھبرا کر بیٹھ گیا۔ اس نے ٹیرس کی سمت کھلنے والے دروازے کی طرف خوفزدہ ہو کر دیکھا جیسے وہاں کوئی عفریت گھات لگائے بیٹھا ہو۔ جب اسے کسی طرح قرار نہ آیا تو وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔

    دھیرے دھیرے ایقان نے بکھری ہوئی سوچوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی اور پھر رفتہ رفتہ اس کے ذہن میں خوابیدگی کی حالت میں مجسمے کے واضح اور مکمل نقوش ابھرنے لگے۔ اس نے غیر یقینی سے سر کو جھٹکا دیا اور چیخا۔

    ’’نہیں!‘‘

    آواز کمرے کے سناٹے کو چکنا چور کرتی ہوئی پھیل گئی۔ وہ اتنی زور سے چیخا تھا کہ موم کی آنکھ کھل گئی۔ موم نے جب ایقان کی یہ حالت دیکھی تو وہ تڑپ کر اٹھی اور ایقان کو اپنی نرم بانہوں میں بھرتے ہوئے بولی۔

    ’’ایقان تم ٹھیک تو ہو؟‘‘

    موم بے قرار ہو کر دوبارہ بولی۔

    ’’ایقان مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے تمہیں؟ کیا نیند میں ڈر گئے؟ کیا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے؟‘‘

    ’’خواب؟‘‘

    ایقان نے گھبراتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں خواب۔۔۔ نہیں خواب۔۔۔ نہیں‘‘۔

    وہ مضطرب ہوگیا۔ کیا کہے کیا نہ کہے۔ جو کچھ اس نے دیکھا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔ وہ خواب ایسا نہیں تھا کہ موم کو بتائے۔ وہ پریشان ہوگیا، پھر اس نے گھبراہٹ میں کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

    ’’موم! اس نامکمل مجسمے کو توڑ دو‘‘۔

    ’’کیوں؟‘‘

    موم نے حیرت سے پوچھا۔ وہ چیخا۔

    ’’پلیز کوئی بھاری چیز لے کر اسے توڑ ڈالو۔ میں اسے مکمل نہیں کرنا چاہتا‘‘۔

    ’’ایقان کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟ تم ایک شاہکار تخلیق کررہے ہو۔ یہ تمہارے اب تک کے کاموں میں سب سے بڑا اور منفرد کام ہے، جو کہ تم نے بہت محدود وقت میں یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ اب جب کہ اسے آخری ٹچ دینا باقی ہے۔ تم اسے مٹا دینا چاہتے ہو؟ تم ایک فن کار ہو۔۔۔ تخلیقی آدمی ہو۔۔۔ اس بات سے اچھی طرح واقف بھی ہو کہ تخلیق اپنے فن کار کا خون نچوڑ لیتی ہے، تب کہیں وہ سامنے آتی ہے اور تم نادانی میں اسے فنا کردینا چاہتے ہو‘‘۔

    ایقان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ گڑگڑاتے ہوئے بولا۔

    ’’پلیز موم! اگر اس تخلیق کو نہ مٹایا تو میں مٹ جاؤں گا۔ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو‘‘۔

    موم کو اب کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا کہ ایقان کی بے چینی اور اضطراب میں کچھ ایسا ضرورہے جو ایقان کہنے کے باوجود نہیں کہہ پارہا ہے۔ اس نے اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے بڑی نرمی سے کہا۔

    ’’اچھا ٹھیک ہے، پہلے تم بیٹھ جاؤ اور پھر مجھے آرام سے بتاؤ کہ معاملہ کیا ہے۔ اگر بات ایسی ہے کہ اس مجسمے کو توڑ دینا ہی مناسب ہے تو ہم ایک لمحے کی دیر نہیں لگائیں گے۔ لیکن حقیقت جانے بغیر ہم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ گذشتہ کئی ہفتوں کی رات دن کی جاں توڑ محنت اور تمہارے اندر کی بے چینی نے تمہارے ہاتھوں سے یہ کام کروایا ہے۔ اور تم چاہتے ہو کہ میں بغیر وجہ جانے اسے توڑ دوں۔ یہ تم اپنے ساتھ بھی ناانصافی کرو گے ، اس تخلیق کے ساتھ بھی اور میرے ساتھ بھی۔ کیونکہ اس سنگِ مر مر پر پڑنے والی ایک اک ضرب میں نے اپنے وجود پر محسوس کی ہے۔ ٹھیک ان دنوں صرف یہ مجسمہ ہی تخلیق کے مرحلے سے نہیں گزرا بلکہ میں بھی تخلیق کے مرحلے سے گزررہی ہوں۔ کیا یہ میرے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی؟‘‘

    ایقان پر موم کے ان الفاظ کا بے پناہ اثر ہوا۔ وہ خاموشی اور حیرت سے دیکھے جارہا تھا۔ پھر وہ گویا ہوا۔

    ’’موم کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو زبان پر آ نہیں پاتیں‘‘۔

    ’’لیکن اظہار کا کوئی تو طریقہ ہوگا؟‘‘

    ایقان فرش پر نظریں گاڑھے دیر تک خاموش رہا ۔اس کی آنکھوں سے برستے آنسو فرش کو بھگورہے تھے۔ پھر وہ سرجھکائے ہوئے بولا۔

    ’’مجھ سے ایک وعدہ کرو‘‘۔

    ’’کیا؟‘‘

    ’’میری زندگی کو بکھرنے سے بچاؤگی‘‘۔

    موم نے اپنے نرم ہاتھوں سے ایقان کے گالوں کو چھوا۔ ایقان نے اسے دیکھا اور اٹھتے ہوئے بولا۔

    ’’تم ابھی سو جاؤ۔ صبح اس پتھر کے ٹکڑے کو دیکھ لینا‘‘۔

    ’’میں بھی چلتی ہوں‘‘۔

    ’’نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘۔

    ایقان نے فیصلہ کن اندا ز میں کہا اور کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ موم اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگی۔ ان دیکھے ڈر نے اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی تھیں۔ اس نے سوچا کہ وہ ٹیرس پر جا کر کھڑی ہوجائے مگر وہ ایسا بھی نہ کرسکی۔ وہ جتنا ایقان کے لفظوں پر غور کرتی اتنا ہی الجھتی جارہی تھی۔ سنگِ مر مر کے مجسمے پر پڑی ہوئی پتھریلی چادر میں ایسا کیا چُھپا ہوا تھا جس کے عیاں ہونے سے بھونچال آسکتا تھا۔ مرد،عورت اور ایک بچے کی تخلیق میں ایسا کیا ہوسکتا ہے جو ایقان کی زندگی کو تہہ و بالا کردے گا۔ میں بھی تو ایک بچے کی ماں بننے والی ہوں‘‘۔

    یہ سوچتے ہی موم کی سوچ کی لہر میں ایک چنگاری سی لپکی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

    ’’کہیں وہ میں اور میرا بچہ؟‘‘

    ابھی اس نے صرف اتنا ہی سوچا تھا کہ وہ تڑپ گئی اور دروازے کی طرف لپکی اور سیڑھیاں اترتے ہوئے ایقان کو چلّاتے ہوئے پکارنے لگی۔

    ’’ایقان۔۔۔ایقان۔۔۔

    ایقان مرد اور عورت کے چہرے کے خطوط کو واضح کرتے ہوئے آخری ٹچ دے رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو برس رہے تھے۔ ہلکی ہلکی چوٹوں سے سنگِ مر مر کو تراشنے میں انتہائی مہارت درکار ہوتی ہے۔ ایک غلط نشانہ سب کچھ بگاڑ سکتا ہے، لیکن ایقان نے اپنی پوری زندگی میں جو کچھ تخلیق کیا تھا یہ تخلیق ان سب سے بہت مختلف تھی۔ اس کو بنانے میں صرف اس کی مہارت ہی کارفرما نہیں تھی، بلکہ وہ اپنے لاشعور کے زیرِ اثر کسی سوچ کے تابع مصروفِ عمل رہاتھا۔

    مجسمے میں موجود عورت کے نقوش واضح ہوچکے تھے۔ ایقان اب مرد کو آخری ٹچ دینے میں مصروف تھا۔ موم اس دوران قریب آچکی تھی۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی، ایقان کو اپنی محبت اور پاکیزگی کا یقین دلانا چاہتی تھی ،مگر جیسے ہی اس کی نگاہ عورت کے خدوخال پر پڑی وہ حیران رہ گئی۔ وہ ان خدوخال کو بھول نہیں سکتی تھی۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے جو واہمہ اور خوف اس کے اندر پیدا ہوا تھا اور جس کی وضاحت کے لیے وہ یہاں دوڑی چلی آئی تھی، وہ کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا تھا۔ لیکن ایک اور حیرت میں لپٹا ہوا خوف اس کے اندر در آیا تھا۔ اس کی زبان گنگ ہوکر رہ گئی، اورپیر کانپنے لگے۔ وہ وہیں شبنم آلود گھاس پر ڈھیر ہوگئی۔دن کا اجالا دھیرے دھیرے پھیل رہا تھا۔ اور اس اجالے میں ایک کڑوا سچ ابھر کر سامنے آرہا تھا۔

    آخر کار ایقان کاہاتھ رُک گیا۔ اوزار اس کے ہاتھوں سے گر پڑے۔ اس کے کندھوں پر عجیب سا بھاری بوجھ آکر ٹہر گیا تھا۔ اس کی آنکھیں اب بھی برس رہی تھیں۔ اسٹول پر اس کے پیر کانپنے لگے۔ وہ اترتے ہوئے لڑکھڑایا تو موم نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔ دونوں زمین پر بیٹھ گئے، اور دیر تک ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر روتے رہے۔ کچھ کہے بغیر ایقان نے بہت کچھ کہہ دیا تھا۔ زندگی کا ایک انتہائی کڑوا سچ سنگ مرمر کے مجسمے کی صورت میں ان کے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہوا تھا۔ اور ایقان اور موم اسے دیکھنے سے کترارہے تھے۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں آنکھوں میں ایک فیصلہ کیا۔ دونوں اٹھے ۔قریب ہی چاروں طرف بکھرے ہوئے چھوٹے بڑے سنگ ریزوں کے بیچ پڑی ہوئی ہتھوڑیاں اٹھائیں اور مجسمے کے اوپر برسانا شروع کردیں۔ دونوں کے ہاتھوں میں دبی ہتھوڑیوں کی پہلی ضرب نوزائدہ بچے پر پڑی تھی، جس کی خوبصورت اور معصوم صورت ایقان سے ملتی جلتی تھی۔ دوسری ضرب عورت کے چہرے پر پڑی، جس کے نقوش ہر لحاظ سے ایقان کی امی سے ملتے جلتے تھے۔ دونوں نے روتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ہاتھ بلند کرکے مردکا چہرہ بگاڑ ڈالا، کہ ان ہی نقوش نے ایقان کی زندگی میں اچانک ہلچل پیدا کی تھی ۔اس کو ایسے سچ سے آگاہ کیا تھا کہ اگر وہ نہ جانتا تو اچھا ہوتا، کیونکہ مرد کا چہرہ ہو بہو انکل کمال کا تھا۔

    سنگِ مر مر کے اس مجسمے کو اپنے ہاتھوں سے توڑنے کے باوجود موم اسے واہمہ ہی سمجھتی ہے، لیکن ایقان نہیں مانتا۔

    (۲۰۰۶ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے