Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجھے بوڑھا ہونے سے بچاؤ

صغیر رحمانی وارثی

مجھے بوڑھا ہونے سے بچاؤ

صغیر رحمانی وارثی

MORE BYصغیر رحمانی وارثی

    دسمبر کے کسی دن کی ڈھلتی عمر میں وہ ملا تھا۔

    شام کی پیشانی سیندوریا ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ دیسی نسل کا ایک چھوٹا سا کتا آگے پیچھے ہو رہا تھا۔ ان دونوں کے بیچ زیادہ دوری نہیں رہتی تھی۔ ان کو جوڑ نے والی بیلٹ بہت چھوٹی تھی۔ ایک یاڈیڑھ میٹر کی۔

    ’’آپ کی ذراسی کوشش سے کسی اچھی نسل کا کتا تو آپ کو مل سکتا تھا؟‘‘

    ’’ہوں...۔‘‘ اس نے بیلٹ کھینچ کر کتے کو آگے جانے سے روکا تھا۔

    ’’ویسے یہ بھی پیارا ہے، سلم باڈی کا۔ رنگ سیاہ اچھا ہے اور اس کے کان تو کافی لمبے ہیں۔‘‘

    ’’آپ نے اس کی ایک خاصیت نوٹ نہیں کی...۔‘‘ اس نے ہاتھ لمبا کرکے کتے کو آگے جانے دیا۔

    ’’کیا؟‘‘

    ’’اس کی پیشانی پر بھورے رنگ کا جو داغ ہے، وہ اس کے پورے سیاہ جسم پر بڑا چھا لگتا ہے۔‘‘

    میں نے ذرا سا تیز چل کر کتے کی پیشانی کو دیکھا تھا، پھر مڑ کر اسے بھی۔

    ’’آپ نے اس کا کوئی نام تو رکھا ہوگا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’دراصل یہ میری بہو کو پسند نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’اس نے ایک بار میرے پوتے کو زخمی کر دیا تھا۔‘‘

    ’’آپ رہتے کہاں ہیں؟‘‘

    وہ خاموش چلتا رہا تھا۔ گردن گھما کر اور پیشانی پر سلوٹیں ڈال کر ایک طرف دیکھا تھا۔ ’’ادھرہی،یہ سڑک وہاں سے ادھر ہی جاتی ہے۔‘‘

    پھر ہم لوگ خاموش چلنے لگے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولا تھا۔

    ’’آپ جوان ہیں۔ آپ کو سردی کم لگتی ہوگی؟‘‘ شاید اس کے پاس بات کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔صرف اس لیے کرتا تھا کہ خاموشی کے غیرمہذب لمحات پاؤں نہ پساریں۔

    ’’اسے بھی سردی نہیں لگتی۔‘‘ اس نے اپنے کتے کی طرف اشارہ کیا تھا۔

    ’’سردی توسب کو لگتی ہے۔‘‘

    اس نے ہنستے ہوئے مجھے دیکھا تھا۔

    ’’تعجب ہے، آپ کو سردی لگتی ہے؟ جوان رگوں میں تو گرمی ہوتی ہے، آگ جیسی۔‘‘

    میں نے کچھ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے اس کا ساتھ دیا تھا اور اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا تھا۔ جلی ہوئی گندمی رنگت سے لگ رہا تھا کہ کبھی وہ گور ابھک بھک آگ رہا ہوگا۔ صاف اور شفاف آنکھوں میں موم کی طرح ہر وقت کچھ پگھلتا رہتا تھا۔ بال پیشانی سے دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے سے الجھے ہوئے تھے۔ اس طرح جیسے کانٹوں کے بجائے کاٹھ کی تیلی پر سوئٹر بننا سیکھنے والی گاؤں کی نئی نئی کسی لڑکی نے اون کو آپس میں الجھا دیا ہو۔ پھیلی ہوئی ناک کے سوراخوں میں سمائی ہوئی جھاڑو جیسی بےترتیب مونچھوں کو دیکھ کر چھینک آنے لگتی تھی۔

    ’’آں...ں چھی...۔‘‘

    ’’ارے ارے، آپ کو تو سچ مچ سردی لگ گئی۔‘‘ وہ کتے کو سنبھالتا ہوا پھر ہنسا تھا۔

    ’’آیئے، آپ کو گرم قہوہ پلاتا ہوں۔‘‘

    میں نے اس کی طرف ضد میں دیکھا تھا۔

    ’’ہاں ہاں، بس پاس میں ہی ریستراں ہے۔’’ لگتا تھا وہ مجھے تاڑ گیا ہے۔ پھر بھی مجھے شکست دینا اپنا فرض سمجھ رہا تھا۔

    ’’اب ریستراں میں بوڑھے نہیں آتے۔ ‘‘پھر ایک بار وہ بیرا کو قہوہ لانے کو کہہ رہا تھا۔

    ’’جس طرح گرم دھوپ والا جاڑا نہیں آتا۔ ٹھنڈی ہوا والی شام نہیں آتی۔ اسی طرح اب بوڑھے ریستراں نہیں آتے... اور جس طرح ستاروں بھرے آسمان اب خواب میں نہیں آتے...۔‘‘

    اس کا کتا میرے پاس آکر کچھ سونگھنے لگا۔ میں نے اسے چھونا چاہا تو اس کے چکنے بالوں سے میری انگلیوں میں گد گدی ہونے لگی۔ میں باہر دیکھنے لگا۔ سڑک کی اوٹ میں چمپئی دھوپ اس طرح شرمائی کھڑی تھی جیسے پہلی بار سسرال آئے بہنوئی سے شرمائی ہوئی سالی کواڑ سے لگی باتیں کرتی ہو۔

    سڑک پر چلتے ہوئے اس کا کتا اڑتی ہوئی مکھیوں میں سے کسی کسی کو منہ سے پکڑنے کے لیے لپک پڑتا تھا پھر ناکام واپس ہو کر اس کے پیروں کو گھو م پھر کر سونگھنے لگتا۔

    ’’آپ کو معلوم ہے، پوری دنیا میں بوڑھوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’بہت کم... گھر کے کھانے کی میز پر تو بوڑھے دکھتے ہی نہیں۔ کیا یہ کہیں کسی دوسری ایک جگہ آباد ہونے لگے ہیں؟کل میرا بیٹا اخبار کی ایک خبر میری بہو کو سنا رہا تھا کہ ہماری سرکار بہت جلد بوڑھوں کو کچھ خاص سہولت فراہم کرنے والی ہے۔ کہیں یہ بوڑھے اخبار ہی میں تو جمع نہیں ہونے لگے ہیں؟ تب تو ٹھیک نہیں ہے۔ اخبار میں تو گرمی ہوتی ہے۔ آپ کو اب بھی سردی لگ رہی ہے؟ نہیں نا؟‘‘

    وہ ایک جگہ ٹھہر گیا تھا، جہاں سے راستے ہم دونوں کو الگ کر رہے تھے۔

    دوسرے دن ہم وہیں ملے تھے جہاں سے گذشتہ روز الگ ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ بولا تھا۔

    ’’آپ کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے جیسے آپ میرے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘

    اس نے سڑک پر دور تک نظر دوڑائی تھی۔ ’’یہ دنیا بہت تیز رفتار ہو گئی ہے اور پھر انتظار میں کافی گھٹن بھی ہوتی ہے۔ انتظار نہ کریں۔ کل آپ سے الگ ہونے کے بعد میں گھر نہیں گیا تھا۔ ٹالابرج کے کلورٹ پر کافی دیر بیٹھا رہا تھا۔ اسے وہ جگہ بہت پسند ہے۔‘‘ اس نے اپنے کتے کی جانب اشارہ کیا تھا۔ ’’میں گھر دیر سے جاتا ہوں، سبھی لوگ سو جاتے ہیں جب۔ صرف پہلی تاریخ کو ان کے جگے رہنے سے پہلے پہنچنا ضروری ہوتا ہے، جیسا کہ آج۔‘‘

    ’’شاید آپ اسے لے کر ہمیشہ ادھر آتے ہیں؟‘‘ میں نے اس کے کتے میں دلچسپی لی تھی۔

    ’’عموماً۔‘‘

    ’’جبھی تو یہ تمام راستوں سے آشنا ہے۔‘‘

    ’’اس میں کئی بری عادتیں بھی ہیں۔ آپ بے جا تعریف نہ کریں اس کی۔ شام کو یہ اکثر چلانے لگتا ہے۔میرے پوتے کی پڑھائی ڈسٹرب ہوتی ہے۔پانچ سال کا ہے لیکن عمر سے زیادہ ذہین لگتا ہے۔ اس کے چلاّنے سے میرے بہو بیٹے ٹی وی پر کوئی خاص پروگرام آ رہا ہوتا ہے تو نہیں دیکھ پاتے۔‘‘

    ’’ اس نے آپ کے پوتے کو زخمی بھی کر دیا تھا نا؟‘‘

    ’’ہاں، لیکن اس دن قصور میرے پوتے کا ہی تھا۔ وہ خواہ مخواہ اس کی سواری کرنا چاہ رہا تھا۔ اپنی ماں کا رنگ روپ لیا ہے۔میری بہو کافی بڑے گھرانے سے آئی ہے۔ خوب صورت بھی ہے۔ میرا بیٹا بھی ماسٹر ڈگری حاصل کیے ہوئے ہے مگر ان دنوں وہ بےروزگار تھا جب اس کی شادی ہوئی تھی۔ بہو کے گھر والوں نے لڑکا پسند کر لیا اور فوراً شادی پر مصر ہو گئے۔ میری نوکری تھی، اس لیے میں نے بھی نا نہیں کی۔ میرا بیٹا بھی اسی لڑکی سے شادی کرنے کے لیے بضد تھا۔ اس کا کچھ افیئر وفیر کا چکر تھا شاید۔‘‘ وہ کچھ دیر رک کر سستانے لگا تھا اور میری آنکھوں میں جھانکا تھا۔ ’’تھک جاتا ہوں۔مسلسل کب تک چل سکتا ہے کوئی۔ کیا آپ اس سڑک کی سیما بتا سکیں گے؟‘‘

    ’’ارے ہاں، مجھے افسوس ہے کہ کل آپ کو سردی لگ گئی تھی۔ کل آپ نے کچھ خاص پہنا بھی تو نہیں تھا۔ اچھا کیا جو آپ نے یہ شال ڈال لیا ہے اپنے اوپر۔ آپ پر اچھا بھی لگ رہا ہے۔ شخصیت میں ایک طرح کا وقار پیدا ہو گیا ہے۔‘‘ وہ پھر چلنے لگا تھا مگر اس بار پہلے کی بہ نسبت دھیرے دھیرے چل رہا تھا اور اس کا کتا ہمیشہ اس سے آگے آگے رہ رہا تھا۔

    ’’دراصل، بہو مجھے بھی پسند تھی اور پھر ہمارے گھر کو دو ایسے ہاتھوں کی ضرورت بھی تھی جو اس کے بکھراؤ کو سمیٹ سکیں۔ میری بیوی کے مرنے کے بعد گھر میں ویرانی چھا گئی تھی لگ بھگ۔ آپ شاید نہیں سمجھ پائیں۔ بڑھاپے میں بیوی سے لگاؤ کچھ زیادہ ہی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں تنہائی کا یکبارگی احساس بڑا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ انسان کے اندر کا نجی مکان کھنڈر ہو جاتا ہے۔‘‘

    میں دیکھ رہا تھا اس میں سے جوانی اُگ رہی تھی۔ وہ پیچھے کی طرف تیزی سے لوٹ رہا تھا۔ اچانک میرے ہم عمر وہ میرے ساتھ چلنے لگا۔

    ’’میں اپنی بیوی سے کبھی الگ نہیں رہا۔ بڑھاپے میں بھی نہیں۔ بچپن میں جب کوئی بچہ کسی دن اسکول جانا چاہتا تو وہ اور کسی کی نہیں صرف اپنی ماں کی خوشامد کرتا ہے۔ ’’ممی! میں آج اسکول نہیں جاؤں گا، پلیز...۔‘‘

    ’’...سنو آج سنڈے ہے، کیا آج ناشتہ کچھ دیر سے نہیں بن سکتا؟‘‘ جب کبھی اسے اپنے پاس، بالکل پاس رکھنے کی خواہش ہوتی، میں اس سے کہتا۔ اب آپ سمجھ سکیں گے کہ جس کے صرف پاس رہنے کی کشش زندگی میں مضبوطی دیتی ہو، اچانک اس کے نہیں رہنے سے کتنا ٹوٹ جاتا ہوگا انسان... ہے نا... وہ سمٹ کر دائرے سے نقطے میں تبدیل ہو جاتا ہے لیکن انسان خود غرض بھی تو ہے۔ زندگی میں جس سے اتنا انس ہوتا ہے، جس کے بغیر جینے کا تصور بھی بے معنی لگتا ہے... داستانوں کے سوا ایسا کہاں نظر آتا ہے کہ ایک کے مرنے کے بعد دوسرا بھی مر گیا ہو؟ یہ سب ڈھونگ نہیں کیا؟ اتنے کڑاکے کی سردی میں وہ کس حال میں ہوگی، اس سوچ سے بچنا چاہتا ہوں میں اور یہ... یہ گرم کوٹ پہنتا ہوں۔ انسان جیتا ہے تو اس خلا کو پر کرنے کی کسی نہ کسی طرح کوشش بھی کرتا ہے اور اسی کوشش میں بہو ہمارے گھر آ گئی لیکن ایک چادر کئی لوگوں کو ڈھکنے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی۔ کبھی کوئی ادھر سے ایک کونا کھینچ لیتا تو ادھر کھل جاتا۔ کبھی کوئی ادھر تانتا تو ادھر کھل جاتا لیکن میری بہو جتنی خوبصورت ہے، اتنی ہی سمجھ دار بھی ہے۔ اس نے اپنے جوان پتی کے لیے اپنے بوڑھے سسر کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ تجویز مجھے پسند آئی، اور میں نے وہ چادر اپنے بیٹے کو دے دی۔ حتی کے وقت سے پہلے نوکری سے سبکدوش ہونے اور اس جگہ اپنے بیٹے کو مقرر کرانے میں مجھے کافی بھاگ دوڑ کرنا پڑی، ایسے میں میرا پی ایف بھی کافی کٹ گیا۔ افسروں کو خوش کرنا پڑا۔ ماتحتوں کو بخشش دینا پڑی اور مجھے اپنی پنشن کانصف حصہ بیچنا پڑا۔ لیکن اتنا اطمینان ہوا کہ میرے بہو بیٹے میری دی ہوئی چادر میں آرام سے رہنے لگے۔ پھر میرا پوتا پیدا ہوا تو میری بہو نے ایک بار پھر اپنی سمجھداری کا ثبوت دیا اور اس نے پھر ایک تجویز رکھی، مجھے اس کی یہ تجویز بھی پسند آئی اور میں نے اپنی پنشن کا ایک اور حصہ بیچ کر اپنے پوتے کے نام سے بینک میں ایف ڈی کرا دیا۔ اب میرے بیٹے کو میرے پوتے کے مستقبل کے بارے میں بھی زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ اس کی عمر کے ساتھ وہ پیسہ بڑھتا ہی جائےگا اور جب وہ جوان ہو جائےگا تو اس پیسے سے کسی چادر کا بندوبست کر لےگا۔‘‘ وہ چند لمحوں کے لیے چپ ہوا تھا۔ میری طرف دیکھا تھا پھر چلنے لگا تھا۔

    ’’آپ کو معلوم ہے کہ ہماری سرکار نے یہاں کے بوڑھوں کے لیے کئی کئی منصوبے تیار کیے ہیں۔ جیسے انہیں ضعیف العمری پنشن دینا، مفت علاج سینٹر قائم کرنا اور لاوارث بوڑھوں کے لیے لوجنگ کا انتظام کرنا وغیرہ...‘‘

    اس نے رک کر ایک دکان سے اپنے کتے کے لیے بسکٹ خریدا تھا اور سیدھی سڑک کی طرف جانے کی بجائے پارک کی طرف مڑ گیا تھا۔ گھاس پر بیٹھ کر وہ کتے کو بسکٹ کھلانے لگا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ مجھے بھول گیا تھا شاید۔ وہ اپنے کتے کو بسکٹ کھلا نے میں منہک رہا۔ اچانک اس نے اپنی سکڑی ہوئی گردن اٹھا کر کہا۔

    ’’آپ کو تعجب نہیں ہوتا... اب بوڑھے کہیں نظر نہیں آتے؟‘‘ اس کے اچانک اس سوال سے میں جھلا سا گیا۔ میرے کچھ بولنے سے قبل پھر اسنے کہا۔’’تصور کیجئے کہ دنیا میں ایک بھی بوڑھا نہیں ہو، تب کیسا لگےگا؟ یا پھر یہ سوچئے کہ ایک بھی جوان نہیں ہو تب...؟‘‘ میں آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔

    وہ ہنسا تھا۔ ’’آپ کو میرے دماغ کی صحت مشکوک لگ رہی ہے نا؟ چھوڑیے جانے دیجئے۔ صرف یہ سوچئے کہ دنیا میں اگر صرف کتے ہی کتے ہوں تو کیسا لگےگا؟ ہاں اس میں عمر کی کوئی قید نہیں۔ پلا... جوان... بوڑھا... ہر عمر کے کتے...‘‘ مجھے لگا کہ میری آنکھیں اپنی جگہ سے باہر آ جائیں گی۔

    ’’آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ اچھا ہے، آپ کو سوچنا چاہیے۔ جوان سوچ بہت کچھ کر سکتی ہے۔‘‘

    وہ اپنے کتے کو بسکٹ کھلا چکا تو وہ خوش ہو کر گھاس پر کھیلنے لگا تھا۔ اسی درمیان ایک نئی بات ہوئی تھی۔ پارک کی دوسری طرف کیاریوں کے بیچ سے ایک پیارا سا بچہ وارد ہوا تھا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔ وہ اسے پکڑنے کے لیے ہوا میں ہاتھ مار رہا تھا ۔ اس کے کئی بار ایسا کرنے پرکتا اس کے ہاتھ نہیں لگ سکا البتہ بوڑھے نے کتے کی بیلٹ جلدی سے کھینچ کر اسے اپنے قریب کر لیا اور اسے اپنی بانہوں میں چھپانے کی کوشش کرنے لگا۔ اچانک اس کی آنکھیں ایک دم سے خوف زدہ ہو اٹھی تھیں اور وہ چوکنا ہو کر اپنی چکنی آنکھوں سے آس پاس دیکھنے لگا تھا۔ بچے نے ایک بار پھر کتے کو ہمکنے کی ضد بھری کوشش کی تو وہ اسے اپنے سے دور ہٹانے لگا۔ ’’نہیں، ہٹو... چلے جاؤ یہاں سے... یہاں نہیں آؤ... ہا... دھر...دھر...۔‘‘ اسے کھانسی کا دورہ پڑا تھا اور اس کی آنکھیں بھیگ کر لت پت ہو گئی تھیں۔ وہ زمین کے سہارے بیٹھ کر گہری گہری سانس لینے لگا۔ اس کی سہمی ہوئی نظریں اب بھی اس جانب اٹھ رہی تھیں جدھر سے بچہ وارد ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بچے کے ماں باپ آکر اسے لے گئے تو وہ رفتہ رفتہ پرسکوں ہوا لیکن اب بھی وہ کتے کو اپنی بانہوں سے نیچے نہیں اتار رہا تھا۔ وہ اسے گود میں اٹھائے ہوئے پارک سے باہر آ گیا۔ اس کے سر پر اپنی ہتھیلی پھیرتے ہوئے وہ اسے چمکار رہا تھا۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں میری آنکھوں میں الجھا دیں۔

    ’’جانتے ہیں یہ اسے زخمی کر دیتا تو کیا ہو جاتا...؟‘‘

    میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھیں اس کی آنکھوں سے اس طرح الجھ گئی ہیں کہ نکالنے کے ساتھ ہی دیدے بھی نکل کر باہر آ جائیں گے۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ زچ ہوکر بولا۔ ’’آپ کچھ نہیں جانتے۔ یہی توتعجب ہے کہ آج کا نوجوان کچھ بھی نہیں جانتا۔ جب کہ اسے جاننا چاہیے کسی بوڑھے سے زیادہ۔‘‘ اب وہ سڑک کی سیدھ میں چلنے لگا تھا۔ ’’میں یہ بھی سمجھ رہا ہوں کہ آپ مجھے پاگل یا کچھ اسی طرح کا سمجھ رہے ہیں۔ میری بہو بتا رہی تھی کہ کتے کسی کو زخمی کر دیں تو وہ انہیں کی طرح بھونکنے لگتا ہے اور کتوں کی بہت ساری خصلتیں اس میں پیدا ہو جاتی ہیں۔‘‘

    ’’کیا آپ کے پوتے کے ساتھ ایسا ہوا تھا؟‘‘ مجھے حیرت ہوئی کہ بولتے ہوئے مجھے زیادہ تکلیف نہیں ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ میں آسانی سے بول سکتا ہوں۔

    ’’نہیں، اسے صرف بخار ہوا تھا۔‘‘

    ’’آپ نے اسے کہا ں سے حاصل کیا تھا؟‘‘

    ’’میرے پڑوس میں ہی ایک کتیا نے کئی بچے جنے تھے۔ مجھے اس کا رنگ زیادہ پسند آیا۔ اس کے رنگ کی توآپ نے بھی تعریف کی ہے اور جانتے ہیں ان میں سب سے بڑی خوبی کیا ہے؟‘‘ اس بار پھر وہ اپنی آنکھیں مجھ میں اتار رہا تھا لیکن میں ہوشیاری سے اسکا وار بچا گیا۔ عجیب سی راحت محسوس ہوئی۔ وہ ہنسا تھا۔ ’’ان میں یہ تشخیص کرنے کی قوت نہیں ہوتی کہ ان کی اولاد کہاں پل بڑھ رہی ہے اور کس حال میں ہے؟‘‘

    ’’لائیے، اسے تھوڑی دیر میں اپنے ساتھ لے چلتا ہوں۔‘‘ میں نے یونہی پیش کش کی۔

    ’’نہیں، تب آپ اس کے ساتھ نہیں چل سکتے یا یہ آپ کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ آپ نے کبھی کسی جوان آدمی کو کتے کے ساتھ یا کسی کتے کو جوان آدمی کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا ہے؟ امیر گھروں میں آپ نے دیکھا ہوگا بڑے بڑے بالوں والے چھوٹے چھوٹے کتے ہوتے ہیں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کی بیلٹ بھی کسی بوڑھے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے، پہلے فیشن تھا مگر اب تو جیسے بوڑھے ہاتھوں اور کتے کی بیلٹ کا ایک تعلق سا بن گیا ہے جیسے دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہوں۔ آپ ا س طرح غیر یقینی سے مجھے کیوں گھور رہے ہیں۔ آئیے آپ کو ایک منظر دکھاتا ہوں۔‘‘ وہ اسی سڑک سے ہوتے ہوئے پارک کی دوسری طرف پہنچ گیا۔ یہاں مختلف لوگ مختلف قسم کے کتے لیے اپنے ساتھ ٹہل رہے تھے اور اتفاق کی بات کہ وہ سب بوڑھے تھے۔ یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں مسکرائی تھیں۔ وہ سیمنٹ کی بنی ایک بینچ پر بیٹھ گیا تھا اور اپنے کتے کے بالوں میں کچھ ڈھونڈنے لگا تھا۔ ٹھہر ٹھہر کر اس کی آنکھیں ہنسنے لگتی تھیں۔ میں نے کہا۔

    ’’آپ ہنستے ہیں تو عجیب لگتے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں، مجھے معلوم ہے۔‘‘ وہ بغیر نظریں اٹھائے دھیرے سے بولا تھا۔

    ’’دراصل آج مہینے کی پہلی تاریخ ہے نا، آج کے دن میں اپنی ہنسی چھپا نہیں پاتا۔ دراصل آج میری اپنے بیٹے سے ملاقات ہوتی ہے۔ ویسے بھی آدمی کو مہینے میں ایک بار تو ہنس ہی لینا چاہیے۔‘‘

    میں اسے کس نظر سے دیکھ رہا تھا مجھے پتا نہیں تھا۔

    ’’آپ کا بیٹا کسی دوسری جگہ رہتا ہے کیا؟‘‘

    ’’نہیں، پاس ہی رہتا ہے... مگر پاس رہنا اور ملنا دونوں متضاد باتیں ہیں نا؟ میں سمجھتا ہو ں آپ سمجھ نہیں پا رہے ہیں یا پھر میں آپ کو سمجھا نہیں پا رہا ہوں۔ دراصل اس میں قصور آپ کا یا میرا نہیں ہے۔ Generation Gap نے انسان کو یہی ابہام تو دیے ہیں۔ آدمی چاہ کر نہیں سمجھ پاتا یا پھر کوشش کرتے ہوئے سمجھا نہیں پاتا۔‘‘ اس کی ہنسی کچھ اور گاڑھی ہو گئی تھی۔ ’’آپ ایک بار پھر مشکوک ہو رہے ہیں شاید۔‘‘ پھر اس نے میرا دھیان دو بوڑھوں کی جانب مبذول کرایا تھا جو کسی بات پر آپس میں جھگڑ رہے تھے۔

    ’’دیکھیے، ان میں ایک بوڑھا پاگل ہے۔ اسے کوئی کتا نہیں مل سکا ہے۔وہ کسی کے کتے پر بھی اپنا حق جما لینا چاہتا ہے۔ ایک دفعہ میرے کتے کو بھی اپنا کہہ کر جھگڑ پڑا تھا اور آپ ہیں کہ اتنی دیر سے مجھے ہی پاگل سمجھ رہے ہیں۔‘‘

    پارک میں چہل پہل بڑھ گئی تھی۔ اکثریت بوڑھوں کی تھی اور ان کے ساتھ کے کتوں کی مگر یہ سب کچھ بڑا عجیب لگ رہا تھا۔ کوئی بوڑھا کسی دوسرے سے مخاطب نہیں ہوتا تھا۔ جیسے سب اپنے اپنے کھنڈر کی اینٹیں چننے میں مصروف تھے۔ ٹہلنے کے دوران اگر کبھی ایک دوسرے کے سامنے آبھی جاتے تو ان کی آنکھوں میں کسی طرح کا کوئی شائبہ نہیں لہراتا تھا۔ عموماً ا ن کی آنکھیں ریت کے ٹیلے جیسی خشک اور چہرے فصل کٹے کھیت کی طرح سپاٹ ہو تے تھے۔ ہاں ان کے کتے جب ایک دوسرے سے تعلق کی کوئی پرانی شناخت ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تو وہ پل بھر کے لیے زچ ہو اٹھتے۔ پھر اپنے کتے کو سنبھالتے ہوئے اپنی راہ کی دوری ناپنے لگتے اور ان کے چہرے پر جلد سفر مکمل کر لینے کی بیزاری پھیل جاتی۔

    وہ اب بھی سیمنٹ کی بنی بینچ پر بیٹھا اپنے کتے کے بالوں میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ خالی بوتل کی طرح اس کی نگاہیں کبھی کبھی اٹھتیں اور پھر جھک جاتیں۔ وہ اپنے کوٹ کی آستین سے کتے کا لعاب صاف کرکے اٹھا اور پارک سے باہر جانے والے راستے پر چلنے لگا۔

    ’’تنہائی میں انسان خود کو ڈھونڈ لیتا ہے۔ یہ سب اسی عمل میں لگے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اپنے آپ کو پالیں۔‘‘

    وہ اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا مگر اس راستے سے نہیں، جو ایک جگہ ہم دونوں کو الگ کرتا تھا۔ میں اس کے ساتھ چلتا رہا۔ جیسے اس کے ہاتھ کی بیلٹ کتے کی گردن میں نہیں بلکہ میری گردن میں بندھی ہو۔

    ’’یہ لوگ اپنی تلاش میں یوں ہی صدیوں تک جیتے رہتے ہیں اور اپنے اندر کے سناٹے سے جوجھنے کے اس عمل میں اگر کوئی کبھی کسی پل کے لیے خودسے ملتا ہے تو وہ صدیوں پر احسان کرتا ہے جیسے۔ آپ نے دیکھا نہیں، ان میں سے بیشتر کے چہروں کے خطوط مشابہت رکھتے ہیں۔ دراصل ان کی اپنی گردن پر کوئی نہ کوئی چہرہ رہے اس کے لیے وہ ایک مقام پر پہنچ کر اپنے چہرے کے نقش ایک ہی قالب میں ڈھال لیتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے گھر کے پاس پہنچ کر رکا اور میری طرف دیکھا تھا اس نے۔

    پھر میں اس کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا۔

    دو کمروں کی بغل کا ایک سیلن بھرا حصہ جسے کمرے کی شکل دے دی گئی تھی۔ درمیان میں چکٹ ہو رہے بستر پر شاید وہ اپنے کتے کے ساتھ سو تا تھا۔ اس کے کہنے پر میں بستر پر بیٹھ گیا لیکن میرے نتھنوں میں بستر سے نکلنے والی سڑے انڈے جیسی بساندھ پھیلنے لگی تھی۔ میں اپنے جسم کے سینے والے حصے میں ناک چھپا کر اپنے کپڑوں سے خوشبو اخذ کرنے لگا۔ اسی درمیان کمرے میں اس کا بیٹا داخل ہوا تھا۔ اس نے بوڑھے سے الگ، میری ہی طرح صاف ستھرے کپڑے پہن رکھے تھے جس میں سے اچھی خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ اس نے مجھ پر نگاہیں جما دیں جیسے مجھ میں اپنی شناخت تلاش کر رہا ہو۔ پھر وہ بوڑھے سے مخاطب ہوا۔

    ’’بابوجی، آج پہلی تاریخ ہے نا... آپ کی پنشن مل گئی ہو تو...؟‘‘

    ’’ہاں ہاں۔‘‘ بوڑھے نے اس کی بات پوری ہونے سے قبل ہی اپنے کوٹ کی جیب سے کچھ نئے نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیے تھے۔ میں نے دیکھا تھا اس کے بیٹے کے چہرے پر اطمینان کا سایہ لہراتے ہوئے۔ اس نے بھی میرے چہرے پر کسی لکیر کی شناخت کر لی تھی شاید۔ میں گڑبڑا گیا اور بوڑھے کے کتے میں خود کو مصروف کرنے لگا۔ دروازے کی اوٹ میں آہٹ ہو ئی تھی۔ غالباً اس کی بہو تھی۔ سامنے نہیں آنا چاہ رہی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ خوبصورت تھی اور سمجھدار بھی۔ اس کے پوتے کی توتلی آواز سنائی دی تھی اور روکتے روکتے اس کی بہو کی مبہم آواز بھی تیر گئی تھی کمرے میں۔

    ’’بیٹے ، دادا کو دمّہ ہے...، خلاب خلاب بیمالی... اچھے بیٹے ایسے دادا کے پاس نہیں جاتے۔‘‘

    بیٹے نے بڑی ہمدردی سے باپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔ ’’بابوجی، آپ اپنا خیال کیوں نہیں رکھتے... آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کر لینا چاہیے۔ بس سامنے والے چوراہے کے قریب ہی تو سرکاری ڈاکٹر ہے جو شام کو بیٹھا کرتا ہے۔‘‘ شاید وہ تیز چلنے کا عادی تھا۔ اس کے چلے جانے کے بعد بوڑھے نے اپنے کتے کو بستر پر بیٹھا دیا اور میری آنکھوں میں اپنی آنکھیں اتارنے لگا۔ مجھے کراہیت محسوس ہوئی اور میں وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں اس کی آنکھیں میری آنکھوں کی طرف حملہ آور ہوتی رہیں۔ میں جلد سے جلد گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ موڑ مڑتے ہی نگاہ گھر کی طرف اٹھ گئی تھی۔ پتا جی دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ برسوں سے ان کے جسم سے لپٹا ان کا اوؤر کوٹ ان کی پہچان تھا، لیکن... میں نے قریب پہنچ کر دیکھا، ایک خارش زدہ کتا کچھ سونگھتے ہوئے ان کے آگے پیچھے ہو رہا تھا اور اس کی کافی چھوٹی بیلٹ پتاجی نے اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ رکھی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے