Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مکتی

MORE BYجی اے کلکرنی

    سامنے گہرے سبز رنگ کا پہاڑ گویا کسی کے انتظار میں کھڑا تھا۔ پہاڑ سے اوپر کو جاتا راستہ یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے کوئی سفید سانپ لہراتا چلا جا رہا ہو۔ زخموں سے سلگتے ہوئے اپنے جسم کو اس نے ایک چٹان سے ٹکایا اور دل برداشتہ ساوہیں بیٹھ گیا۔ اتنا عرصہ ہوگیا مگر وہ ابھی تک اپنے ریزہ ریزہ جھڑتے منحوس بدن کو ڈھونے کا عادی نہیں ہوا تھا۔ وہجہاں بیٹھا تھا اس کے پیچھے تھوڑی اونچائی سے کل کل کرتی پانی کی دھار گر رہی تھی اور جہاں پانی جمع ہو رہا تھا اس کے مقابل ایک چبوترہ نما جگہ کے پاس ایک بیراگی بیٹھا تھا۔ اس کی تپتی آنکھیں جوں ہی بیراگی کی طرف اٹھیں بیراگی نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا وہ اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا اوپر آیا اور اس کے سامنے مگر قدرے فاصلے پر جھجکتا ہوا سا بیٹھ گیا۔

    ’’تم کون ہو؟ اس طرح بے وقت جنگل میں کہاں جارہے ہو؟‘‘ بیراگی نے دریافت کیا۔

    ’’میں کیا بتاؤں، میں کون ہوں؟ کیونکہ اب بتانے جیسا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، یہ ایک جسم بچا ہے وہ بھی رفتہ رفتہ سڑ رہا ہے‘‘ اس کے لہجے میں زبردست تلخی تھی۔ ’’کاش یہ سب یکبار گی ختم ہو جاتا۔ میں جانتا ہوں اس جنگل میں خونخوار درندے بستے ہیں۔ میں دانستہ اس طرف جا رہا ہوں۔ مجھے ان کا کوئی خوف نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کسی کو مجھ پر ترس آ جائے اور وہ مجھے اپنا لقمہ بنالے۔ مگر تم اس گھنے جنگل میں اکیلے کیا کر رہے ہو؟‘‘

    ’’یہ جنگل خطرناک ضرور ہے مگر صرف بائیں طرف کا حصہ ایسا ہے جہاں وحشی جانور وں کا راج ہے۔ یہ جگہ بڑی حد تک ان سے محفوظ ہے۔ یہاں کبھی کبھی ایک ہرن پانی پینے آتا ہے۔ سامنے سے موروں کا جھنڈ گذرتا ہے۔ کبھی کوئی انگشت بھر پرندہ آتا ہے اور چونچ میں پانی لیے اڑ جاتا ہے۔ یہ نظارے میرے لئے عبادت کا درجہ رکھتے ہیں۔ تپسیا اور سادھنا کے لئے مجھے ایسی ہی جگہ کی تلاش تھی۔‘‘ بیراگی نے اپنے خالی چبوترے کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پہلے تو اسے لگاکہ شاید بیراگی اس کا مذاق اڑا رہا ہے مگر بیراگی کا چہرہ گمبھیر اور پرسکون تھا۔

    ’’سادھنا؟ مگر مجھے تو اس جگہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ نہ کوئی مورتی، نہ دیوی نہ دیوتا۔‘‘

    بیراگی نے گردن کو خفیف سی جنبش دی اور بولا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ اس جگہ کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے اس بات پر بہت غور کیا کہ میں پوجا کے لئے کس قسم کی مورتی کا انتخاب کروں؟ نکیلی، تکونی، ہشت پہلو، مدورالمبی، مگر ان میں سے ایک بھی شکل پسند نہیں آئی۔ پھر سوچا، مورتی کس چیز سے بنی ہونی چاہئے۔ لکڑی، پتھر، دھات کی، پھر دو ہاتھ، چار ہاتھ، یا ہزاروں ہاتھ چڑھاوا کیا دوں؟ پھول، پتے یا کوئی زندہ قربانی؟ عبادت کا وقت کیا ہو؟ رات کو یا دن کو یا کسی بھی وقت، سادھنا کیسی ہو؟ خاموشی سے یا موسیقی سے؟ ان میں سے کوئی بھی صورت یا وسیلہ مجھے دوسروں سے الگ یادوسروں سے بہتر نہیں لگا۔ اس لئے چبوترے کو میں نے خالی چھوڑ دیا جب سارے راستے ایک جیسے معلوم ہونے لگیں تو ان میں سے کسی ایک راستے کو اختیار کرنا، کسی ناسمجھ جانور کی طرح زندگی گزارنے جیسا ہے۔

    میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس طرح نہیں جیوں گا جس طرح لوگ جیتے ہیں۔ اگر میں کسی بات کو قبول کرتا ہوں تو مجھے اسے قبول کرنے کا منطقی جواز چاہئے۔ اگر جواز نہیں ملتا تو میں کسی بھی مخصوص راستے کو قبول کئے بنازندگی گزار سکتا ہوں یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں کسی مٹھی بھر ریاست کا راجا بن جاتا اتنی ہی معمولی ریاست کے کسی راجا کی بیٹی سے شادی بھی کر لیتا۔ لیکن مجھے شروع ہی سے ایسی کسی چیز کی تمنا نہیں تھی کسی ناٹک میں خود کوئی کردار بننا مجھے پسند نہیں تھا۔ سوتر دھار بھی نہیں۔ البتہ تماش بین کی حیثیت سے میں بہت مطمئن تھا۔ اس لئے میں سب کچھ چھوڑ کر یہاں چلا آیا ہوں۔

    حکومت ہوتی تو عزیز و اقارب کے دل میں لالچ پیدا ہوتا اور وہ اسے حاصل کرنے کے لئے مجھ سے جنگ پر آمادہ ہوجاتے پھر خون خرابہ ہوتا یعنی یا تو حکومت ہاتھ سے جاتی یا پھر جسم سے کٹے خون میں لت پت کسی عضو کی مانند ایک بے بضاعت سلطنت کی حکمرانی میرے حصے میں آتی بیوی ہوتی تو اس کا امکان بھی تھاکہ کسی خوبصورت مرد کو دیکھ کر اس کے دل میں اسے پانے کی خواہش بیدار ہوتی۔ بعید نہیں کہ وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتی۔ اولاد احسان فراموش اور بےوقوف بھی نکل سکتی تھی میں نے یہاں آنے کے بعد، زندگی کو اور بھی قریب سے دیکھا اور اسے اسی طر ح قبول کیا۔ میں نے دیکھا کہ جانور منھ لگا کر پانی پی سکتے ہیں، میں نے برتن پھینک دئے۔ میں نے سر چھپانے کے لئے ان چٹانوں میں ایک بڑا سا درہ تلاش کیا۔ کچھ جانور بغیر روشنی کے بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ میں ایک سال تک آنکھوں پر پٹی باندھے رہا۔ سفر کا کوئی مقصد نہیں تھا اس لئے اس مقام سے کہیں آگے نہیں گیا۔ اس طرح میں زندگی کی ایک گرہ کھولتا ہوا زندگی سے نجات حاصل کر رہا ہوں‘‘

    اچانک وہ ہنس پڑا بیراگی بولا، ’’تم کیوں ہنسے، کیا میں تمہیں پاگل معلوم ہو رہا ہوں؟‘‘

    ’’نہیں یہ بات نہیں۔۔۔‘‘

    وہ بولا، ’’مگر مجھے لگتا ہے تم قدرے خود قریبی کا شکار ہو۔ مانا کہ تم نے سال بھر آنکھوں پر پٹی باندھی، مگر تمہیں یہ اطمینان بھی تو تھا کہ تم وہ پٹی کسی بھی وقت کھول سکتے ہو۔ اس لئے وہ عارضی اندھا پن تمہارے لئے قابل برداشت تھا لیکن حقیقی اندھا پن تم اتنی آسانی کے ساتھ قبول کر سکتے تھے کیا؟ تم اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں پھوڑ سکتے ہو؟ ہمیشہ کے لئے، اپنی بینائی سے محروم ہو سکتے ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘ بیراگی بولا، ’’یہ بات اس وقت بھی میرے دھیان میں آئی تھی۔ دراصل میں اپنے آپ کو آزمانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اگر حقیقت میں میری بینائی جاتی رہی تو میں اس وحشت ناک صورت حال کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حوصلے کے ساتھ جھیل سکوں۔ میں دانستہ اپنی آنکھیں نہیں پھوڑ سکتا۔ کیونکہ ایسا کرنے کے لئے مجھے اپنے آپ کو ختم کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ملا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ مجھے زندہ رہنے کا بھی کوئی مناسب جواز نہیں ملا۔

    اس کے باوجود میں زندہ ہوں کیوں کہ زندہ رہنے کا سب تلاش کرنے کے لئے زندہ رہنا یہ میری مشکل بھی ہے اور مجبوری بھی، لیکن ایک برس قبل میں نے قسم کھائی تھی کہ اگر اس سال مجھے زندہ رہنے کا کوئی معقول جواز نہیں ملا تو میں کوئی آخری فیصلہ کر لوں گا اور خوش قسمتی سے آج ہی مجھے زندہ نہ رہنے کا جواز مل گیا ہے اور یہ جواز تم نے مجھے مہیا کیا ہے۔ تم اپنی نجات کی خاطر مائل بہ سفر ہو، پتا نہیں تمہیں نجات ملےگی یا نہیں مگر جاتے جاتے تم نے میری نجات کا سامان کر دیا ہے۔‘‘

    ’’میں۔۔۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ مجھ میں تمہیں ایسی کیا بات دکھائی دی کہ تم نے۔۔۔ ‘‘

    ’’اس سے قبل میں نے کبھی اس قدر متعفن، کراہت آمیز جسم نہیں دیکھا تھا۔ میں سوچتا ہوں اس صحت مند جسم کو چاٹنے کے لئے کئی خوفناک بیماریاں موقع تاک میں ہیں، ان کے منھ کا تر نوالہ بننے کے بجائے اپنے جسم کو میں خود کیوں نہ ختم کر دوں تاکہ بیماریاں ہاتھ ملتی رہ جائیں۔ یہ بات تمہیں دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں آئی اس لئے میں تمہارا احسان مند ہوں۔ لیکن یہ تو بتاؤ ہ بیماری تمہیں کیوں کر لاحق ہوئی؟ تم کون ہو؟ اور اس عبرت ناک حالت کو پہنچنے کے بعد بھی تم زندگی کا بوجھ ڈھوتے پھر رہے ہو، آخر کس لئے؟‘‘

    ’’میں کون ہوں اور کیا ہوں؟ اب یہ سوال میرے لئے بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔‘‘ اس نے اداس لہجے میں جواب دیا، ’’پھر بھی جی چاہتا ہے کہ تمہیں اپنے بارے میں سب کچھ بتا دوں۔ میرا جسم پورا پورا گل کر جھڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود میں چاروں کھونٹ گھومتا ہوا صرف ایک ہی مقصد کے لئے زندہ ہوں۔ اگر یہ آزار مجھے اچانک آ دبوچتا تو میں کب کا اپنے آپ کو ختم کر چکا ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دراصل یہ میری ہی کرنی کا پھل ہے اس لئے پوری طرح اس سزا کو بھوگ کر ہی میں اس سے نجات پانا چاہتا ہوں۔ میں ایک بھیل کا بیٹا ہوں، بلکہ تھا۔ بچپن سے میری صرف ایک ہی خواہش تھی۔ میں تیر اندازی میں کمال حاصل کرنا چاہتا تھا، لیکن میں جہاں جاتا مجھے دھتکار دیا جاتا کیونکہ میں ایک کم ذات شودر تھا۔ میرے گھرانے میں نہ کسی کے سر پر تاج تھا نہ کسی نے ہیرے جواہرات سے مزین تلوار اٹھائی تھی۔ لیکن اس سے میرے حوصلے پست نہیں ہوئے۔

    ایک آچاریہ کو دل ہی دل میں گرومان کر میں نے جنگل میں ہی، تیر اندازی کی مشق جاری رکھی۔ ایک عرصہ بعد میں نے اتنی مہارت پیدا کر لی کہ اندھیرے میں ایک الو کی معمولی سی پھڑپھڑاہٹ پر ہی اسے نشانہ بنا سکتا تھا۔ قطرہ قطرہ خون جلاکر جو کامیابی میں نے حاصل کی یہ افتاد اسی کی دین ہے۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ میں دوپہر کی دھوپ میں ایک جھیل کے کنارے سستا رہا تھا۔ وہاں کئی مرغابیاں تیر کی طرح ایک کے پیچھے ایک آتیں۔ پانی کی سطح کو ذرا چھوتیں اور کسی مچھلی کو چونچ میں دبا کر اسی طرح ایک کے پیچھے ایک قطار سے اڑ جاتیں۔ جھیل کے پاس وادی میں کچھ شکاری آئے ہوئے تھے۔

    انہوں نے ایک کے بعد ایک مرغابیوں پر کئی تیر آزمائے مگر ان کا ایک بھی تیر نشانے پر نہیں لگا۔ تیر آڑے ترچھے گزر جاتے اور پانی میں گر جاتے، مرغابیاں اسی شان سے آتیں، مچھلیاں چونچ میں دباتیں اور آگے نکل جاتیں۔ مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے ترکش سے گن کر دس تیر نکالے اور پرندوں کا ایک جھنڈ پانی کی سطح کو چھو کر اوپر اٹھ رہا تھا وہ دوں تیر، یکے بعد دیگرے اس طرح چلائے کہ مرغابیوں کو معمولی سا نقصان پہنچائے بغیر ان کی چونچوں کی مچھلیوں کو چھید کر نیچے گرا دیا۔ یہ دیکھ کر جھاڑیوں کے پیچھے پیچھے ہوئے شکاری باہر نکل آئے۔ ایک آچاریہ اپنے چیلوں کے ساتھ جنگل کی سیر کو آئے تھے۔ چونکہ ایک بھی پرندہ زخمی نہیں ہوا تھا اس لئے ایک چیلے نے منھ بناتے ہوئے کہا ’’لگتا ہے اس کا بھی تیر نشانے پر نہیں لگا۔‘‘

    ’’پرندوں کا شکار کرنا میرا مقصد نہیں تھا، بلکہ میں تو صرف مچھلیوں کو نشانہ بنانا چاہتا تھا‘‘ میں نے انکساری سے جواب دیا۔ پھر آچاریہ کو مخاطب کرتے ہوئے نہایت ادب سے کہا ’’میرے تیر دوسروں کی طرح ضائع نہیں ہو سکتے آپ خود دیکھ لیجئے۔‘‘ آچاریہ نے سرخ پر لگے ہوئے میرے سارے تیر وں کو اٹھاکر دیکھا ہر تیر صفائی کے ساتھ مچھلی کے آر پار گذرگی تھا۔ یہ دیکھ کر آچاریہ بولے۔ ’’میرے چیلوں میں سے کسی ایک کو بھی توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ مرغابی کا شکار کرتا اور تونے ان کی چونچوں میں کلبلاتی مچھلیوں کو بےخطا نشانہ بنایا تو واقعی تحسین کے قابل ہے۔ کون ہے تیرا گرو؟‘‘

    اس پر میں نے کہا، ’’میں تو ایک شودر بھیل کا لڑکا ہوں، مجھے اپنا چیلا کون بنائےگا، لیکن آچاریہ میں نے آپ ہی کو گرومان کر یہ سادھنا کی ہے۔ آپ نے مجھے سراہا مجھے میری سادھنا کا پھل مل گیا۔‘‘

    آچاریہ کا چہرہ فق ہوگیا۔ انہوں نے اپنے چیلوں سے کچھ فاصلے پر کھڑے رتھ کی طرف جانے کو کہا اور مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے آئے۔

    ’’میرے دسوں تیر ٹھیک نشانے پر لگے تھے، کیا اس کے باوجود میری ودیا ناکام کہلائےگی۔‘‘ میں نے انتہائی انکسار وادب سے کہا۔ ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا وہ کرخت آواز میں گرجے۔ ’’تو نے میری بدولت ودیا حاصل کی ہے تو میرا قرض دار ہے اس لئے گرو دکشنا دینا تیرا کرتویہ ہے۔‘‘

    ’’آپ جو کہیں گے دینے کو تیار ہوں گروور!‘‘

    ’’ٹھیک ہے! مجھے تیرے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا چاہئے۔‘‘

    میں نے ایک پل ضائع کئے بغیر اپنی کمر سے اوزار نکالا اور دائیں ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ کر ان کے قدموں میں ڈال دیا۔ انہوں نے اسے اٹھاکر دور جھاڑیوں میں پھینک دیا اور پیچھے مڑکر دیکھے بغیر اپنے چیلوں کی جانب بڑھ گئے۔ جاتے جاتے بولے، ’’خبردار! تجھے اپنی ماتا پتا کی سوگند ہے جب تک میں زندہ ہوں اس واقعہ کا کسی سے ذکر مت کرنا۔‘‘

    وہ گھنی جھاڑیوں سے گزر رہے تھے۔ دور جھاڑیوں میں سرسراہٹ سی ہوئی، ایک سانپ کی کنڈلی چمکی اور اس کا ہتھیلی جیسا چوڑا پھن ان کے پیروں کی طرف لہرایا۔ اس وقت مجھے ہوش نہیں رہا۔ میں نے سرعت سے تیر نکالا اور اس سے پہلے کہ سانپ کا لہراتا پھن آچاریہ کے پیر تک پہنچتا میں نے اسے تیر سے چھید دیا۔ آچاریہ پل بھر کو پتھر کی طرح منجمد ہو گئے وہ میری طرف مڑے اور بولے، ’’تونے میرے ساتھ کپٹ کیا۔ کپٹ کیا ہے تونے۔۔۔‘‘

    وہ طیش میں رتھ کی طرف بڑھے، مگر رتھ میں سوار ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اوپر اٹھاکر چیختے ہوئے بولے ’’تو نے میرے ساتھ کپٹ کیا ہے۔ میں تجھے شراپ دیتا ہوں۔ تجھے جذام کی بیماری ہوگی اور تو سڑ سڑکر مرے گا۔‘‘

    ’’یہ سب اتفاق کی بات تھی اس میں میرا ذرا بھی قصور نہیں تھا نہ میں نے کوئی چالاکی کی تھی۔ انہوں نے میرے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا مانگا اور میں نے فوراً دے دیا لیکن میں تیر بائیں ہاتھ سے چلاتا ہوں۔ یہ بات نہ انہوں نے مجھ سے پوچھی اور نہ میں نے بتائی۔ عرصہ ہوا ایسا ہی ایک واقعہ ہو چکا تھا، مجھے اس کا علم تھا، اپنے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا گنواکر ایک ہونہار تیر انداز ضائع ہو گیا تھا۔ جب کائنات میں ایک بار کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو رد عمل کے طور پر کہیں احتجاج کا ایک چھوٹا سا انکور پھوٹتا ہے تاکہ دوبارہ کسی کے ساتھ ویسا واقعہ پیش آئے تو مزاحمت کر سکے۔ جس بات کو آچاریہ نے ’کپٹ‘ کہا تھا دراصل وہ اس فطری مزاحمت کا مظاہرہ تھا۔

    پرانے واقعے کے معلوم ہونے کے بعد بھی میں اپنا تحفظ نہ کرتا تو مجھ جیسا احمق بھلا کون ہوتا۔ ان کی خود غرضی اور ناانصافی جائز اور میں اپنے بچاؤ کی کوشش کروں تو کپٹی کہلاؤں یہ کیسا انصاف ہے؟ کہاں کا دھرم ہے؟ ان کا شراپ سنتے ہی میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا، میں اپنے آپے سے باہر ہو گیا۔ میں نے اپنی کمان اٹھائی اور ان کی طرف پھینکی۔ کمان بھاری تھی جاکر ان کے سر سے ٹکرائی اور آچاریہ دھڑام سے زمین پر گرپڑے۔

    میں وہاں سے پاگلوں کی طرح ایک طرف کو بھاگ کھڑا ہوا۔ میں لوٹ کر ماں کے پاس بھی نہیں گیا نہ میں نے دوبارہ اپنے گھر میں قدم رکھا۔ اس دن سے میں جگہ جگہ اپنے اس پارہ پارہ جسم کے ٹکڑے گراتا بھٹک رہا ہوں۔ آج بھی اکثر مجھے لگتا ہے شاید میرا گرو ہتیا کا پاپ دھل جائےگا۔ کبھی نہ کبھی شراپ ختم ہوگا۔ میرا جسم دوبارہ اپنی اصلی حالت میں آ جائےگا۔ مجھے جو جسم ملا تھا وہ صاف اور بےداغ تھا اس لئے آج بھی مجھے اس سے موہ ہے۔ اس سڑے ہوئے جسم کو آگ، پانی یا مٹی کے حوالے کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔ ‘‘

    بیراگی حیرت زدہ سا اس کی داستان سن رہا تھا۔ اس کے چپ ہو جانے کے بعد بھی بیراگی تھوڑی دیر خاموش ہی رہا پھر کھنکار کر بولا، ’’یعنی تم ویرانگ بھیل کے بیٹے شیوانگ ہو؟‘‘

    بیراگی کے اس جملے پر وہچونک پڑا اور اس کا زخم خوردہ جسم تھر تھر کانپنے لگا وہ بولا، ’’تمہیں میرا نام کیسے معلوم؟ یہ تو میرا ماضی کا نام تھا۔ جب یہ جسم صحت مند تھا۔ اب تک تو میں خود اپنا نام بھول چکا ہوں۔‘‘

    بیراگی پرسکون انداز میں ہنسا اور بولا، ’’تم نے مجھے پہچانا نہیں، خیر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، مجھ میں شروع سے ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ کوئی مجھے یاد رکھتا نہ میں نے ایسا کوئی کارنامہ انجام دیا تھا کہ وہ یادگار بنتا۔ البتہ مجھے اس بات پر حیرت ضرور ہے کہ میں نے تمہیں پہلی نظر میں کیوں نہیں پہچانا۔ تم خاصے بدل گئے ہو۔ تمہارے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا ہی نہیں دو اور انگلیاں بھی جھڑ چکی ہیں مرغابی کی چونچ کی مچھلی کو نشانہ بنانے والی انگلیوں میں اب اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ وہ مچھلی کو بھی ٹھیک سے پکڑ سکیں۔ میں اتنی دیر سے غور کر رہا تھاکہ آخر آچاریہ نے تمہیں شراپ کیوں دیا تھا۔

    میں نے کسی انمول شئے کی طرح اس سوال کو ذہن کے نہاں خانے میں چھپا رکھا تھا۔ میں نے کئی اٹکلیں لگائیں لیکن دل کو کوئی بھی قائل نہ کر سکی۔ آج تم نے اس سربستہ راز سے پردہ اٹھا دیا۔ آج وہ سوال مرگیا۔ ماضی کا ایک حصہ زندگی سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔ اس دن میں آچاریہ کے چیلوں کے ساتھ ہی تھا۔ نہیں میں ان کا چیلا نہیں تھا۔ کسی کا چیلا بننے کی میری عمر نکل چکی تھی۔ اب جو کچھ سیکھنا تھا براہ راست زندگی کے سرد وگرم سے سیکھنا تھا۔ میں اس پر گاچھا پودے کی مانند تھا جو دوسرے پیڑوں کے آذوقے پر زندہ رہتا ہے۔ مجھے کوئی اپنے ساتھ بلاتا نہیں تھا۔ البتہ میں کسی کے ساتھ ہو جاتا تھا تو کوئی منع بھی نہیں کرتا تھا۔

    دیکھو! شیوانگ میں صرف ایک معمولی داسی پتر تھا، تم ایک شودر تھے۔ اس لئے آچاریہ نے تمہیں اپنا چیلا نہیں بنایا مگر کم از کم تمہاری برادری میں تو تمہاری قدر ہوتی ہوگی۔ مگر معمولی سے معمولی شودر بھی مجھے حقارت بھری نظر سے دیکھتا تھا، مجھے کبھی کسی دربار میں کوئی عہدہ پانے کی توقع نہیں تھی۔ اگر میں کسی سوئمبر میں چلا جاتا تو لوگ مجھے میری ماں کے نام سے طعنے دیتے۔ میں داسی پتر تھانا۔ جنگ کے میدان میں مجھے کبھی آسانی کے ساتھ کوئی رتھ یا سارتھی نہیں مل سکتا تھا۔ دانشوروں کی محفل میں میری کوئی رسائی نہیں تھی اور کسی کھتری سپاہی کی تلوار میرے ہاتھ میں زیب نہیں دیتی، اس لئے علم حاصل کرکے یا شمشیر زنی سیکھ کر میں کیا کرتا۔

    سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس سب سے خاص طور پر تیر اندازی سے تو سخت نفرت تھی، معاف کرنا خوامخواہ کسی چیز کو نشانہ بنانا اس میں مجھے کوئی غیر معمولی بات دکھائی نہیں دیتی۔ کسی باشعور آدمی کا زندگی بھر تیر چلاتے رہنا بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی گیند کو ڈنڈے سے پیٹتے رہنا۔ تیر چلانے سے آخر حاصل کیا؟ تیر اندازی سے نہ کوئی ناقابل فراموش گیت تخلیق پاتا ہے نہ جہاں تیر گرتا ہے وہاں پھل پھول سے لدا ہوا کوئی درخت اگتا ہے۔ نہ کسی ایسے سوال کا جواب ملتا ہے جو عرصے سے تمہارے ذہن و دل میں خلش بن کر کھٹک رہا ہو۔

    میں سمجھتا ہوں انسان کی قدر نہ میدان جنگ میں تلوار چلانے سے ہے نہ محفل میں بے معنی الفاظ کا انبار لگانے سے۔ مجھے ایسی تمام باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یوں سمجھ لو میں ہر اعتبار سے ایک معمولی، حقیر اور فضول سا آدمی تھا۔ کبھی کسی معاملے میں میری رائے طلب نہیں کی گئی اور اگر میں نے کسی کو رائے دی بھی ہو تو مجھے یاد نہیں آتا کہ اس پر عمل بھی کی گئی اور اگر میں نے کسی کو رائے دی بھی ہوتو مجھے یاد نہیں آتا کہ اس پر عمل بھیکیا گیا ہو۔ شب و روز کی بھٹی سے گذرتے ہوئے میں نے زندگی کا جو تجربہ حاصل کیا تھا جانتے ہو اس کی کیا قیمت تھی؟

    تم نے دیکھا ہوگا کسی عظیم الشان مندر میں بڑے دیوتا کے ساتھ آس پاس کے کونے کھدروں میں ان گنت چھوٹے موٹے دیوتاؤں کی مورتیاں بھی رکھی جاتی ہیں۔ جب زائرین آتے ہیں اور بڑے دیوتا پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور طواف کرتے ہیں اسی وقت بھولے سے اگر ان چھوٹی مورتیوں پر نظر پڑ جائے تو جھک کر ایک آدھ پر نام انہیں بھی جڑ دیتے ہیں۔ بس یہی ان کی حیثیت، یہی ان کا حاصل۔ اگر آچاریہ اور ان کے شاگردوں کی شان میں کوئی رزمیہ کہا جاتا تو پتہ نہیں میرے حصے دوچار شعر بھی آتے یا نہیں اگر آتے بھی تو ممکن ہے پڑھنے والے انہیں نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاتے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس دن ایک معمولی فضول اور غیر اہم آدمی کی حیثیت سے میں ان لوگوں کے ساتھ تھا۔ اس کے بعد واقعات کا غالباً تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔‘‘

    ’’نہیں، میں نے بعد میں بستی میں قدم نہیں رکھا۔‘‘

    ’’تو سنو! تمہارے دھنش سے زخمی ہوکر بےہوش ہو جانے کے بعد میں نے ہی آچاریہ کو اٹھاکر رتھ میں لٹایا۔ ہم لوگ شہر کی طرف لوٹ آئے۔ اس کے بعد آچاریہ دو دن تک زندہ تھے۔ طیش میں آکر دیے ہوئے اپنے شراپ کا بےحد ملا ل تھا۔ ان کی آنکھوں سے متواتر پچھتاوے کے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ بہت بے چین تھے۔ آخر انہوں نے مجھ سے کہا۔‘‘ اس بھیل پتر کو سندیش دو کہ اگر میری بیٹی اپنے باپ کپے قتل کو بھلاکر اسے معاف کرنے پر آمادہ ہو جائے تو وہ شراپ سے نجات پاسکتا ہے۔‘‘

    یہ سنتے ہی شیوانگ یک لخت کھڑا ہو گیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولے بیراگی نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولا، ’’ٹھہرو! ابھی بات پوری نہیں ہوئی۔ ہوا یہ کہ اس دوران کسی نے جاکر تمہاری ماں کو آچاریہ کے شراپ کی خبر دے دی وہ فوراً آندھی طوفان کی طرح آچاریہ کے پاس آئی۔ اس کے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے اور وہ بہت غضبناک لگ رہی تھی اس سے پہلے کہ ہم اسے صحیح صورت حال سے آگاہ کرتے اس نے جھک کر اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیاں زمین پر رگڑ یں اور مٹھیوں میں مٹی بھر کر ہوا میں اچھالتی ہوئی بولی،

    ’’تم نے میرے بیٹے کو شراپ دیا ہے مگر تم بھول گئے کہ تمہاری بھی ایک بیٹی ہے۔ اب میرا شراپ سنو! تمہاری موت کے بعد اگر وہ دن کے اجالے میں باہر نکلی تو اس کے بدن کے جس حصے پر سورج کی روشنی پڑےگی وہ حصہ ہمیشہ کے لئے جھلس جائےگا اور اس جگہ زندہ سرطان چپک جائیں گے۔‘‘

    میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی جب میں نے اسے یہ بتایا کہ آچاریہ کو اس شراپ کا بے حد افسوس ہے اور انہوں نے اس شراپ کا رد بھی بتایا ہے۔ یہ سن کر البتہ اس کا غصہ سرد پڑ گیا۔ وہ آچاریہ کی بیٹی کے پاس گئی جو سحر زدہ سی ایک طرف چپ چاپ کھڑی تھی وہ بولی، ’’مجھے معاف کرنابیٹی میں بھول گئی تھی کہ تو بھی ایک ستم زدہ عورت ہے تو بھی دوسری تمام عورتوں کی طرح مردوں کے اہنکار اور ان کی خود غرضی کا شکار، دامن سے بندھی ان کے ساتھ ساتھ گھسٹنے پر مجبور ہے۔ مجھے افسوس ہے، ایک عورت کے سبب ہی ایک عورت کو یہ سزا جھیلنی پڑی، لیکن تو ایک شرط پر اس بد دعا سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔‘‘

    ’’پھر تمہاری ماں نے دھیرے دھیرے اس سے کچھ کہا اور تیزی سے مڑ کر جنگل میں چلی گئی۔ وہاں اس نے اپنی جھونپڑی میں آگ لگا دی جب آگ بھڑک اٹھی اور جانور اور پرندے ادھر ادھر بھاگنے لگے تب وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اس دہکتے الاؤ میں داخل ہو گئی۔ آگ کی لپٹیں سرخ ریشمی لبا س کی مانند اس کے جسم سے لپٹ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھڑکتے شعلوں میں روپوش ہوگئی۔‘‘

    شیوانگ کسی چٹان کی مانند بےحس بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں آنسو تک بہانا بھول گئیں، وہ خود سے زیر لب بڑبڑایا،

    ’’میری ماں ایک شعلہ تھی بالآخر وہ شعلوں میں ہی گم ہو گئی۔ وہ اگر ہوتی تو معمول کی طرح میری اس عبرت ناک حالت میں بھی میرے چہرے پر پیار سے ہاتھ پھیرتی، اسی خاطر تو میں اس سے دور چلا گیا تھا۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ میدان جنگ میں جب میرے نام کی جے جے کار ہورہی ہو وہ پیار اور فخر سے میرے چہرے پر ہاتھ پھیرے۔ ایسی صورت میں اپنے سڑے گلے جسم پر اس کے ممتا بھرے ہاتھوں کا لمس برداشت کرنا میرے لئے کس قدر اذیت ناک ہوتا۔ اس نے مجھے جنم دیا مگر اس کے آخری لمحوں میں پتہ نہیں میں کہاں بھٹک رہا تھا۔‘‘

    پھر اچانک جیسے اسے کوئی بھولی بسری بات یاد آ گئی ہو وہ چونک کر بولا، ’’مگر اب وہ گرو کنیا کہاں ہے؟‘‘

    ’’بتاتا ہوں۔ بعد میں ایک جنگ میں سب کچھ ختم ہو گیا۔ شہر ویران ہو گئے، حکومتیں تباہ ہو گئیں، خاندان مٹ گئے، ایسے پرآشوب وقت میں میں نے اس لڑکی کو صحیح سلامت باہر نکالا اور یہاں لے کر آ گیا۔‘‘

    ’’یعنی وہ اس جگہ موجود ہے۔‘‘ اس نے بے یقینی سے پوچھا۔

    ’’تب تو اس کی مکتی یقینی ہے اگرچہ کسی کو معاف کرنے کا اختیار بھی اب میرے بس میں نہیں رہا، میں چور چور ہو گیا ہوں خیر میں تو اسے معاف کر دوں گا۔ پتہ نہیں وہ مجھے معاف کرےگی یا نہیں؟‘‘

    بیراگی دیر تک خاموشی سے اسے گھورتا رہا پھر بولا، ’’وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر رہتی ہے۔ اس کی خواہش کے مطابق وہ وہاں تنہا رہنا چاہتی ہے۔ اس نے مجھ سے بھی وعدہ لیا ہے کہ میں کبھی بھی اس کی تنہائی میں مخل نہیں ہوں گا۔ تم اس راستے سے اوپر جا سکتے ہو، اگر خونخوار درندوں کا لقمہ بننے سے بچ گئے تو اوپر پہنچ جاؤگے۔‘‘

    بیراگی رکا اور اس نے ایک گہری سانس لی۔ شیوانگ اتنا بے تا ب تھا کہ اس کے ہاتھ دوبارہ کانپنے لگے وہ پہاڑی راستے کی طرف مڑا۔ جاتے جاتے بولا، ’’واپسی پر تم سے ضرور ملاقات ہوگی۔ ‘‘

    ’’نہیں اب یہ ممکن نہیں۔۔۔‘‘ بیراگی کے لہجے میں چٹان کی سی پختگی تھی۔ ‘‘خود کشی کے لئے اب مجھے ٹھوس جواز مل گیاہے اس کے بعد زندہ رہنا بزدلی ہے۔ تم مجھ سے دوبارہ نہیں مل سکوگے۔‘‘

    لمحے بھر کی کشمکش کے بعد وہ اوپر چڑھنے لگا۔ جاتے جاتے ایک موڑ پر اس نے مڑکربیراگی کی طرف دیکھا۔ بیراگی پہاڑی کے سرے پر سیدھا کھڑا تھا وہ الف ننگا تھا۔ بیراگی نے اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ وہ بےتحاشا ہنس رہا تھا۔ ہنسی کی شدت سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ اس نے اپنے آنسو بائیں ہاتھ سے پونچھے۔ پھر وہ پہاڑی کے بالکل سرے پر گیا اور وہاں سے گھاٹی میں چھلانگ لگا دی۔

    وہ اوپر چڑھتا رہا مگر بیراگی کی وہ مجنونانہ ہنسی دیر تک اس کے کانوں میں گونجتی رہی۔ تھوڑی ہی دیر میں رات کے اندھیرے نے پہاڑی کو اپنے گھیرے میں لے لیا، مگر اب چاند نکل آیا تھا۔ دودھیا چاندنی میں اوپر سے نیچے کی جانب اترتی پگڈنڈی کسی پانی کے دھارے کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ وقفے وقفے سے درندوں کی غراہٹیں سنائی دے جاتی تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا گھنے درختوں کے سایوں کے درمیان یہاں وہاں دبک کر بیٹھی ہوئی چاندنی خوف سے کپکپا رہی ہے۔ جب وہ اوپر پہنچا تو چاروں طرف بھرپور چاندنی چھٹکی ہوئی تھی اور جنگلی پھولوں کی خوشبو سے فضا یوں مہکی ہوئی تھی جیسے یہ خوشبو چاندنی کے بطن سے پھوٹ رہی ہو۔

    اوپر پہنچ کر وہ ٹھٹکا۔ سامنے قدرے فاصلے پر ایک چھوٹا سا مندر تھا جس میں ایک شمع جل رہی تھی۔ وہاں سے اندر کی مورتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ مگر اندر سے پانی کے دھیرے دھیرے ٹپکنے کی آوازیوں آ رہی تھی جیسے اندھیرا پگھل کر قطرہ قطرہ گر رہا ہو۔ مندر کے سامنے ایک چوڑ ادلان تھا جس میں سنگ مرمر کا فرش کیا ہوا تھا۔ دور سے وہ آنگن چاندنی سے بنے کسی بڑے سے کرن پھول کی مانند معلوم ہو رہا تھا۔ ایک گوشے میں چھوٹی سی کٹیا تھی اور ارد گرد پھیلے درختوں کی ہلتی ڈلتی شاخ کے سبب زمین پر پڑنے والے چاندنی کے دائرے یوں معلوم ہوتے جیسے بےشمار آنکھیں پلکیں جھپکا رہی ہیں۔

    وہ ایک درخت کے نیچے جاکر کھڑا ہو گیا۔ مرمریں صحن کے گرد جنگلی پھولوں کی قطاریں ایسی لگ رہی تھیں گویا لہروں پر دودھیا کف کی لکیر سی کھنچ گئی ہوں۔ آسمان کسی گہرے نیلے رنگ کے بڑے سے پیالے کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ جسے اوندھا کرکے مندر کی پشت پر نظر آنے والی پہاڑی کے اوپر ٹکا دیا گیا ہو۔ اسے پہلے بار یقین نہیں آیا اس نے دوبارہ غور سے سنا، آواز یقینی طور پر گھنگھروؤں کی ہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہاں سے آ رہی ہے۔ جھاڑیوں کے سایے دھیرے دھیرے ڈول رہے تھے۔

    اچانک ایک نسوانی پیکر سر سے پاؤں تک سیاہ کپڑوں میں ملبوس کٹیا سے یوں برآمد ہوا جیسے ان سایوں میں سے کوئی سایہ باہر نکل آیا ہو۔ پرچھائیں صحن کے بیچوں بیچ آکر رک گئی، اس نے اپنے بدن سے سیاہ لباس الگ کیا۔ وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑ ے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے لگا جیسے سنگ مرمر کے فرش سے اچانک ایک چراغ کی لوسی پھوٹی ہو۔ وہ دوڑتی ہوئی پھولوں کی طرف بڑھی۔ اس نے مٹھی بھر پھول توڑ کر اپنے بالوں میں کھونس لئے اور پھولوں کے ایک بڑے سے گچھے میں اپنا چہرہ کھبو دیا۔ اس کی ہلچل سے گھنگھروؤں کی مدھم آواز چاندنی کے فرش پر بوندوں کی مانند ٹپک رہی تھی۔ وہ دوبارہ صحن میں آئی اس نے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کئے اور گھنگھروؤں کی لے کے ساتھ پورے صحن میں رقص کرنے لگی۔

    چاندنی کے تاروں سے بنا ہوا اس کا لباس اس کے متناسب بدن پر موجوں کی مانند لہرا رہا تھا اور یہاں سے وہاں تک پھیلی چاندنی جو پہلے ہی پھولوں کی خوشبو سے مدہوش تھی اور بھی مست ہو گئی۔ اس نے سوچا ایسے صاف پاکیزہ مقام کو اپنے وجود سے آلودہ کرنے کا اسے کوئی حق نہیں۔ اسے اپنا آپ اس خوبصورت تصویر پر برص کے بدنما داغ کی مانند لگنے لگا۔ اس کا اضطراب بڑھ گیا اور وہ دو قدم پیچھے ہٹ کر مزید اندھیرے کی اوٹ میں ہوگیا۔ تبھی ایک خشک شاخ اس کے پیر کے نیچے آکر چٹخی اور اچانک صحن کے منظر میں جیسے شگاف پڑ گیا۔ رقص کرتی دوشیزہ کے ہاتھ گر گئے قدم رک گئے۔ گھنگھروؤں کی آواز تھم گئی اور سناٹا گہرا ہو گیا۔ اسے لگا درختوں کی پرچھائیاں اور صحن کی چاندنی چونک چونک کر اس کی جانب دیکھ رہی ہے۔ دوشیزہ دھیرے سے اس کی جانب مڑی مگر دوسرے ہی لمحے اس نے دونوں ہتھیلیوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور بولی، ’’کون ہو تم؟ رات کے وقت ا س ویرانے میں کیا کر رہے ہو؟‘‘

    وہ قدرے اور پیچھے ہٹا اور بولا، ’’میں بھٹکتا بھٹکتا یہاں پہنچا ہوں مگر یہاں آنے کے بعد صرف تم سے ملنے کی خاطر ہی میں اس پہاڑی پر آیا ہوں میں ویرانگ کا بیٹا شیوانگ ہوں۔‘‘

    دوشیزہ کے منھ سے حیرت اور مسرت کی ملی جلی ہلکی سی آواز نکلی اور وہ ایک دم آگے بڑھی۔ تبھی شیوانگ نے اسے روکتے ہوئے کہا، ’’ٹھہرو! آگے مت بڑھنا میرے قریب سے گذرتے ہوئے جانور بھی منہ پھرا کر نکل جاتے ہیں تم اسے آگے آؤگی تو تم بھی نفرت سے منہ پھیر لوگی۔‘‘

    ’’میں جانتی ہوں یہ میرے پتا کے شراپ کا نتیجہ ہے، میری رگوں میں بھی میرے پتا کا خون ہے۔ اس لئے میں بھی تو ایک طرح سے تمہاری اپرادھی ہوں۔ میں اسی آس پر زندہ ہوں کہ تم کبھی نہ کبھی آؤگے اور مجھے اپنی ماں کے شراپ سے مکت کروگے میں زندگی بھر ایک سائل کی طرح ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی۔ میری مراد پوری ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ تم میرے پتا کی زیادتی کو بھول کر مجھے معاف کردوگے نا؟‘‘

    ’’میں کسی کو معاف کرنے کی حالت میں کہاں ہوں؟ اگر سینے میں کسی کے خلاف غصے کی آگ بھڑک رہی ہو تو اسے معاف کرنے کا جواز بھی ہے مگر میں اب اس قابل ہی کہاں ہوں کہ کسی کے خلاف ناراض ہو سکوں۔ ویسے میں خود بھی تو ایک مجرم ہوں۔ میں خود کسی کی معافی کا محتاج ہوں۔ البتہ تم میں اور مجھ میں ایک فرق ہے۔ تم میں اب بھی زندگی کی تڑپ موجود ہے۔ تمہارے دل میں اب بھی خوبصورت پھولوں کی طلب باقی ہے مگر وقت کی آگ نے مجھے اس قدر جھلسا دیا ہے کہ اگر مجھے مکتی نہیں بھی ملی تببھی میرے باطن میں کوئی اضطراب کی لہر نہیں اٹھے گی۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں۔ میری حقیقت کیاہے؟ میں پہلے جو تھا وہ سچ ہے یا اس وقت جو میں ہوں یہ سچ ہے؟ میں تذبذب میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ بس جھڑ جھڑکے مرنے سے پہلے اپنے ماضی کو ایک بار دیکھ لینا چاہتا ہوں اب دان دینے والی تم ہو۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ تم نے اپنے باپ کے قتل کر فراموش کر دیا ہوگا۔‘‘

    ’’نہیں نہیں اب وہ سب ختم ہو گیا ہے۔‘‘

    دوشیزہ نے فوراً کہا، ’’بس اب ایک ہی آس باقی ہے۔ ایک عرصہ ہو گیا۔ میں نے دن کااجالا نہیں دیکھا میں ان پھولوں کو سورج کی روشنی میں چمکتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ پانی میں اپنی پرچھائیں دیکھنا چاہتی ہوں۔ نیلے آکاش میں سفید بگلوں کی ڈار دیکھنا چاہتی ہوں۔ میری پوری زندگی اندھیرے میں غرق ہو گئی ہے۔ اب تم ہی میرے نجات دہندہ ہو۔ اپنے دل کو کشادہ کرو اور میرے باپ کو معاف کرکے مجھے سورج سے روبرو ہونے کی توفیق عطا کرو۔‘‘

    ’’تمہیں چھونے کے لئے مجھے تمہارے پاس آنا ہوگا۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ اگر میں اس حالت میں تمہارے قریب آیا تو تم نفرت سے چیخ پڑوگی کہ مجھے ایسے مکتی نہیں چاہئے یہ میرے لئے ناقابل برداشت صدمہ ہوگا کم از کم مجھے یہ صدمہ تو مت دو۔‘‘

    ’’نہیں پرائشچت کی آخری سیڑھی سمجھ کر مجھے اس صورت حال کو قبول کرنا ہی پڑےگا۔ مجھ پر میرے باپ کا قرض ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا، ‘‘ ویسے بھی سچ پوچھو تو سب سے زیادہ ظلم تمہارے ساتھ ہی ہو ا ہے بولو میں اب تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ میری ماں نے تمہارے لئے کون سا ٹونکا بتایا تھا؟‘‘

    دوشیزہ آہستہ آہستہ سے اس جگہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور گردن جھکا کر بولی، ’’تمہیں سامنے مندر میں جانا ہوگا۔ مجھے وہاں جانے کی ممانعت ہے۔ وہاں سیڑھی پر ایک برتن رکھا ہے۔ جب سے میں یہاں آئی ہو تب سے وہ برتن وہیں رکھا ہے۔ تم ایک نہ ایک دن آؤگے اسی آس پر میں ایک ایک پہرکی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہوں۔ اب وہ برتن میلا سیاہ پڑ گیا ہوگا مگر آج وہ بھی مکت ہو جائےگا۔ تم مندر میں جاؤ اور اس تیرتھ کنڈ سے پانی لے کر آؤ۔‘‘

    اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ الفاظ اس کے لئے ادا کئے جا رہے ہیں۔ زمانہ بیت گیا اسے اس قدر اپنائیت اور نرمی سے کسی نے مخاطب نہیں کیا تھا۔

    ’’جاؤگے نا؟‘‘

    دوشیزہ کی آواز دوبارہ اس کے کانوں سے ٹکرائی اور وہ جیسے ہوش میں آ گیا جب وہ درختوں کے سایے سے نکل کر کھلی چاندنی میں آیا تو ایک لمحے کو چونک گیا۔ پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور سامنے مندر میں داخل ہو گیا۔ مندر خالی تھا۔ کسی بھی قسم کی کوئی مورتی نہیں تھی اور دیوار میں بنے گئومکھ سے پانی کی ایک باریک دھار ایک برتن میں گر رہی تھی۔ یہاں تیرتھ کنڈ تھا۔ اس نے برتن بھر لیا اور مندر کے باہر آکر سیڑھیوں سے اترنے لگا۔ تبھی دوشیزہ کی آواز آئی، ’’رک جاؤ وہیں رک جاؤ!‘‘

    اس کے دل میں ایک قسم کے شبہے نے سر ابھارا اور اس نے خشک لہجے میں کہا ’’میں نے تمہیں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ جانور بھی اس سے زیادہ میری قربت برداشت نہیں کر سکتے۔ پھر تم تو پھولوں کی مست خوشبو کی عادی ٹھہریں، تم کیوں کر میرے مکروہ وجود کو برداشت کروگی!‘‘

    ’’ایسی بات نہیں۔‘‘ اس نے ندامت سے کہا، ’’تمہارا روگ دوسروں کے لئے یقیناً ناقابل برداشت ہے لیکن تم سے نفرت کرنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ میں نے جو تمہیں روکا ہے۔ اس کا سبب کچھ اور ہے۔ میری بات غور سے سنو، جب تم میرے قریب آؤگے تو اپنی آنکھیں بند کر لینا۔ پھر میں جیسا کہوں گی ویسا ہی کرنا۔ تمہیں قسم ہے آنکھیں ہرگز مت کھولنا۔‘‘

    ’’تمہارا اندیشہ فضول ہے۔ مجھے اپنے وجود سے زیادہ قابل نفرت چیز دنیا میں کوئی اور دکھائی نہیں دیتی۔ پھر بھی اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں آنکھیں بند کر لوں گا۔‘‘

    دو قدم آگے بڑھنے کے بعد اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں مگر دوشیزہ نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہیں ہٹائے۔ وہ بولی، ’’اب اس پانی میں اپنے سیدھے ہاتھ کی انگلیاں ڈبو لو پھر میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر اپنے چہرے کے قریب لاؤں گی۔ اس وقت تم میری آنکھوں کو مس کرنا۔ میری پوری طرح اندھی ہوں۔‘‘

    اس پر بجلی سی گری، ’’تم اندھی ہو۔‘‘

    اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر اس کی آواز اس کے گلے میں پھنس کر رہ گئی۔

    ’’میں اندھی ہوں مگر اب میرا اندھا پن ختم ہونے کو ہے۔ خود اپنی ہی ایک لغزش کے سبب مجھ پر یہ افتاد پڑی تھی۔ ہوا یہ کہ شراپ کے بعد میں اپنے جسم کو سر سے پاؤں تک سیاہ لباس میں چھپا کر رکھتی تھی۔ جنگ کی تباہی کے بعد ایک مہربان شخص نے میری جان بچائی۔ میں نے اسے اپنا بھائی بنا لیا تھا۔ وہ میرا راہبر بھی تھا۔ ہم مناسب ٹھکانے کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہے تھے تبھی ایک دن راستہ چلتے ہوئے اس نے حیرت اور مسرت کے ملے جلے لہجے میں کہا، ’’کتنا خوبصورت پرندہ ہے۔ ایسا لگتا ہے سارے پرندوں نے اس کے پروں سے رنگ مستعار لئے ہیں۔ اتنے میں اس پرندے کی چہکار گونجی۔ وہ گونج اس قدر دل آویز تھی کہ کیا بتاؤں۔

    اگر ہیرے موتی کی زبان ہوتی تو وہ ایسی ہی دلکش آواز میں باتیں کرتے۔ میں نے اتنی پیاری آواز والا پرندہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں بے قابو ہوگئی۔ میں بھول گئی کہ میں کون ہوں۔ میں بھول گئی کہ کسی کی بددعا میرا تعاقب کر رہی ہے۔ میں نے اپنے چہرے پر پڑا ہوا سیاہ نقاب ذرا سا ہٹایا اور باہر جھانکا۔ مجھے وہ انوکھا پرندہ تو دکھائی نہیں دیا مگر اسی لمحہ ایک جھما کے کے ساتھ میری آنکھوں کی جوت بجھ گئی۔ یہی نہیں بلکہ مردہ آنکھوں کی جگہ زندہ کیکڑے۔‘‘

    بولتے بولتے اس کا بدن تھرانے لگا اور الفاظ نے زبان تھام لی، ’’کتنے برسوں سے اس نحوست کو چہرے پر لئے زندہ ہوں۔ تم اگر خواب میں بھی اس خوفناک منظر کو دیکھوگے تو زندگی بھر اسے بھول نہیں سکوگے لیکن اب وہ منحوس خواب ختم ہونے کو ہے۔ تم اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس تیرتھ کنڈ میں ڈبو کر اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے میری آنکھوں کو مس کرو۔ میری بینائی لوٹ آئےگی۔ پھر بچا ہوا پانی میرے سر پر انڈیل دینا۔ سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے سے ہی آنکھوں کو مس کرنا۔ تمہاری ماں نے یہی تاکید کی تھی۔ اس دن کے بعد سے میں نے یہ راز اپنے راہبر کے سوا کسی کو نہیں بتایا۔ اب صرف تمہیں بتارہی ہوں کیوں کہ اصل میں یہ راز تمہارے لئے ہی تھا۔‘‘

    تیرتھ کنڈ اس کے کا نپتے ہاتھوں سے چھوٹ کر سنگ مرمر کے فر ش پر گرپڑا اور برتن کا سارا پانی بہہ گیا۔ دوشیزہ نے ایک دم سے چونک کر پوچھا، ’’کیا ہوا؟ تم خاموش کیوں ہو؟‘‘

    اس نے دردناک لہجے میں جواب دیا، ’’کچھ نہیں ہوا۔ جو ہونا تھا بہت پہلے ہو چکا۔ تم کیا، میں کیا، میری ماں کیا، تمہارا باپ کیا، ہم سب قدرت کے ہاتھوں میں کھلونوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہم دونوں کم و بیش ایک ہی امید سے بندھے ہوئے تھے۔ امید جو میرے اور تمہارے اندر بہت گہرائی میں چراغ کی مانند روشن تھی۔ بالآخر بجھ گئی۔ ایک لازوال کرن البتہ ہمارا مقدر ٹھہری شاید اس مبہم امید کی جان لیوازک سے نجات پانا ہی تمہاری میری مکتی تھی۔ تم نے مجھے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اپنی آنکھوں کو مس کرنے کے لئے کہا تھا تاکہ تمہاری بینائی لوٹ آئے اور پھر اس کھوئی ہوئی بینائی کو پانے کے بعد تم مجھے اپنی نرم نگاہوں سے شراپ مکت کرتیں۔ گروکنیا! شاید تم نہیں جانتیں کہ میرے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا نہیں ہے۔ میں نے تمہار ے پتا کو گرو دکشنا کے روپ میں اپنے سیدھے ہاتھ ہی کا انگوٹھا تو دیا تھا۔‘‘

    چہرے پر سے ہاتھ ہٹائے بغیر دوشیزہ نے آہستگی سے اپنی گردن اٹھائی۔ اس کے حلق سے ایک زخم خوردہ سسکاری سی نکلی۔ وہ بے تحاشا دوڑتی ہوئی صحن کے بیچ میں گئی۔ اس نے اپنے بالوں سے نوچ نوچ کر پھولوں کو نکال پھینکا۔ سیاہ لباس دوبارہ جسم پر ڈالا اور تھکے تھکے قدموں کے ساتھ اپنی کٹیا کی طرف یوں بڑھی جیسے اپنے وجود کی پرچھائیں کو خود گھسیٹ کر لے جا رہی ہو۔ پھر وہ پرچھائیوں میں پرچھائیں کی طرح تحلیل ہو گئی۔ گھنگھروؤں کی ہچکیاں دھیرے دھیرے دور ہوتی گئیں اور بالآخر سناٹے میں ڈوب گئیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے