ملاجی
بازاری قسم کے مولوی، ملا جن کے پاس دیوبند یا مدرسہ امینیہ کی سند نہیں ہوتی، جہلا پر رعب جمانے کی غرض سے اپنی زلفیں بڑھاکر سال میں ایک مرتبہ اجمیر کا ’’حج‘‘ ضرور کرتے ہیں۔ اس سفر کے مقاصد کو مذہب، تصوف، روحانیت یا کم سے کم سیاست اور قومیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ خالص تجارتی معاملہ ہوتا ہے اورمحض تجارت کو فروغ دینے کی نیت سے یہ کام مذہبی فریضہ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ دربار خواجہ سے واپس آنے کے بعد ملاجی کے تعویذ اور عملیات جب بے انتہا قوی، زود اثر ہو جاتے ہیں۔ معشوق کے پیروں تلے کی خاک اٹھاکر ملاجی دم کرکے دے دیں تو عاشق ناکام خود کو اپنی تمام جائز و ناجائز خواہشات میں کامیاب سمجھے۔ جن، پری اور آسیب وغیرہ کے اثرات ان کے ایک ہی فلیتے میں زائل ہو جاتے ہیں۔ معمولی بخار اور اسی قسم کی دوسری بیماریوں کا تو ذکر ہی کیا، یہ تو چٹکی بجاتے ہی کافور ہو جاتی ہیں۔
بس اسی قسم کے ایک بہت ہی دلچسپ ملاجی، جو ان مقاصد عالیہ کے ماتحت اجمیر کے عرس میں بے ٹکٹ تشریف لے جا رہے تھے، حسن اتفاق سے آگرے کے اسٹیشن پر ہم سے متعارف ہوئے۔
ملاجی کی سیاہ اور چمک دار کاکلیں جن میں چنبیلی کا خوشبودار تیل لگا ہوا تھا، ان کے شانوں پر ’’مارضحاک‘‘ کی طرح لہرارہی تھیں۔ ایک بالشت طویل نورانی داڑھی ان کے پرمعارف سینہ پر سایہ کیے ہوئے تھی۔ آنکھوں میں بریلی کا مقوی سرمہ اس بیدردی سے لگایا گیا تھا کہ آنکھوں کے حلقے بھی کالے کوے کا پر بنے ہوئے تھے۔ ایسا خیال ہوتا تھاکہ بریلی کے کوئی بڑے سرمہ فروش حضرت کے مرید ہیں یا غلام رسول گجرات والے ملاجی کے رشتہ دار ہیں یا ہمدرد دواخانہ سے ’’نرگسی سرمہ‘‘ کی بہت سی شیشیاں انہیں مفت حاصل ہو گئی ہیں، ورنہ سرمہ تو بجائے خود اس قدر ارزاں نہیں ہے کہ ملاجی آنکھوں کے ساتھ منہ بھی کالا کر لیا کریں۔
ہم انٹر کلاس میں آرام سے لیٹے ہوئے تھے۔ برابر والی نشست پر ہمارا بکس رکھا ہوا تھا، جس کے اندر ہماری ساری کائنات تھی اور اوپر اردو کے بہت سے رسائل اور اخبارات! ہمیں یقین تھا کہ آگرے سے اجمیر تک یہ ڈیوڑھا درجہ ہمارے ہی قبضہ میں رہےگا، نہ راستہ سے ہم جیسا ’’ادیب شہیر‘‘ سوار ہوگا نہ ہماری خلوت سفر میں کوئی خلل واقع ہوگا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ آج کل ہر پیشہ کا اشتہاری آدمی جب سفر کرتا ہے، اسے مجبوراً اپنی نمود و نمائش کی غرض سے ڈیوڑھے یا دوسرے درجہ میں بیٹھنا پڑتا ہے کیونکہ تیسرا درجہ ادنی قسم کے ہندوستانیوں کی قسمت میں لکھا ہے۔ شہرت پسند اور آرام طلب حضرات اونچے درجوں ہی میں سفر کرتے ہیں۔
چنانچہ ملاجی نے کھٹ سے کھڑکی کھولی اور ’’یاخواجہ‘‘ کہہ کر ہمارے پندار پر ایک کاری ضرب لگاتے ہوئے سامنے کی نشست پر ہمارے بکس کے قریب جلوہ افروز ہو گئے۔ ہمیں اپنی عافیت سے زیادہ بکس کی خیریت مطلوب تھی۔ ہم نے دیگر احوال سے بے خبر ہوکر فوراً اس کو ملاجی کے پاس سے اٹھاکر اپنے سرہانے رکھ لیا اور اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔
کہاں جاؤگے؟
ملاجی نے اپنی مقناطیسی آنکھیں ہمارے چہرے پر جماکر موسولینی کے پر رعب لہجہ میں دریافت کیا۔
اجمیر جائیں گے۔
ہم نے دولِ متحدہ کی طاقتوں کو اپنی زبان میں جمع کرکے جارحانہ آواز میں جواب دیا۔
خیریت ہوئی کہ ہمارا اور ملاجی کا مکالمہ اٹلی و حبش کی گفتگوئے صلح کی طرح جلد ختم ہو گیا اور گاڑی دھوئیں کا اژدہامنہ سے نکالتی ہوئی روانہ ہو گئی۔ جب تک گاڑی اسٹیشن پر کھڑی رہی، ملاجی ذرا مضطرب تھے، ان کے ہونٹ تیزی کے ساتھ حرکت کر رہے تھے جیسے وہ آہستہ آہستہ کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہوں۔ ریل چلتے ہی ان کے ہونٹ رک گئے، منہ پر رونق آ گئی، سانس بھی اطمینان سے چلنے لگی۔ ملاجی نے گانا شروع کر دیا،
کب تک پھرے آوارہ خواجہ ترا سودائی
پوری غزل گاکر انہوں نے داد طلب نگاہوں سے ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے نہایت برجستگی سے سوال کیا۔ ٹکٹ بھی ہے آپ کے پاس؟
کیسا ٹکٹ جی؟ ہم خواجہ کے دربار میں جارہے ہیں، ہمیں ٹکٹ وکٹ کی کیا ضرورت ہے!
مگر خواجہ کے دربار میں چوروں کی حاجت نہیں!
کیا ہم چور ہیں؟
اس میں کیا شک ہے؟ آپ بے ٹکٹ سفر کر رہے ہیں۔ یہ فعل کسی طرح چوری سے کم نہیں۔
تم ظاہر پرست ہو۔ ان باتوں کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ فقیر ان قیود سے آزاد ہیں!
بجا ہے۔ ہم میں خدانخواستہ یہ اہلیت ہوتی تو سلطانہ ڈاکو کو بےتکلف ’’سلطان الفقراء‘‘ کا خطاب دے دیتے۔
دیکھو جی! میں تمہیں بتائے دیتا ہوں، اللہ والوں سے الجھنا اچھا نہیں ہوتا۔
یہ تو مجھے تسلیم ہے جناب! لیکن پہلے اپنے آپ کو اللہ والا تو ثابت کر دکھائیے!
آنکھوں والا تری قدرت کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
ملاجی نے عارفانہ لب و لہجہ میں یہ شعر پڑھا۔ اگرچہ ہم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا مگر وہ حالت وجد میں جھومنے لگے۔ ملاجی اللہ والے ہوں یا نہ ہوں، تھے بہت صاف دل انسان۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ہم سے بحث و تمحیص کے بعد خفا ہو جاتے اور منہ سے نہ بولتے، برخلاف اس کے ان کا طرز عمل دوستانہ ہو گیا۔ ہم سے بہت ہی بےتکلفی اور ہمدردی سے انہوں نے سلسلۂ گفتگو جاری رکھا۔ تین چار گھنٹے کی معیت میں وہ ہمارے اچھے خاصے دوست بن گئے۔ گفتگو کرتے تو اس انداز میں کہ معلوم ہوکہ عرصہ کے مراسم اور تعلقات ہیں۔ ہر بڑے اسٹیشن پر ہم سے چائے اور پانی وغیرہ کے متعلق دریافت کرتے تھے۔ دو تین مرتبہ چائے بھی انہوں نے پلائی۔ ہم بہت انکار کرتے رہے مگر ملاجی نے ایک نہ سنی اور جلدی سے پیالی بھروا کر ہمارے سامنے لا رکھی۔ ہم نے پیسے دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے بڑی سختی سے منع کیا۔
دیکھو ایسا ہرگز مت کرنا، ورنہ قسم خدا کی لڑ پڑوں گا۔
تقریباً چار بجے ایک اور مرد معقول ہمارے ڈبہ میں آ گئے۔ بیٹھنے سے قبل ہی انہوں نے ہمارا نام اور پتہ معہ سکونت و ولدیت دریافت کیا اور کچھ ایسے سوالات کیے کہ ہمیں ان پر انسپکٹر خفیہ پولیس ہونے کا شبہ ہونے لگا۔ ہم نے ان کے تمام استفسارات کے جوابات دیے۔ اپنا اور اپنے بزرگوں کا پتہ بتایا۔ اپنی قومیت کا اظہار بھی کیا، مگر یہ سب کارروائی بغیر ’’حلف مذہبی‘‘ ہوئی۔ انہوں نے ہم سے کوئی قسم نہیں لی۔ غالباً وہ ہم سے خاندانی تعارف پیدا کرنا چاہتے تھے۔ افسوس ہے ہمارے بتائے ہوئے ناموں میں کوئی بھی ایسا نہ نکلا جس کو پہلے سے وہ جانتے ہوں۔
حسن اتفاق سے احباب میں ایک صاحب سے وہ شناسا تھے، ان کا نام سنتے ہی بس اچھل ہی تو پڑے۔۔۔ اچھا وہ گورے گورے پستہ قامت، عینک لگاتے ہیں، منہ پر ایک مسہ بھی ہے، بھائی وہ تو میرے بڑے مہربان ہیں! یوں سمجھو بس ہم اور وہ ایک جان دوقالب ہیں۔ اب تو برسوں سے دیکھا بھی نہیں۔۔۔ ہاتھ بڑھاکر۔۔۔ پھر تو یوں کہیے آپ بھی ہمارے خاص دوست ہیں۔ کیونکہ دوست کا دوست، دوست ہی ہوتا ہے۔
حالانکہ انہوں نے جتنے علامات بیان کیے تھے، وہ سب غلط تھے۔ ہمارے وہ دوست جن کا ہم نے نام بتایا تھا بالکل آنبوسی رنگ کے تھے۔ قد اتنا طویل تھا کہ سب انہیں بیوقوف کہتے تھے۔ عینک ان کے والد نے کبھی نہیں لگائی۔ ان کی آنکھیں چیتے سے بھی زیادہ تیز تھیں۔ منہ پر مسّہ تو درکنار کوئی تل اور بال بھی نہ تھا۔ چار ابرو کا صفایا کراتے تھے اور کوئی چھوٹا موٹا سا مسّہ ہو تو معلوم نہ ہوتا تھا۔ ان کا رنگ ایسا پردہ پوش واقع ہوا تھا جس نے چہرے کے بہت سے نشیب و فراز کو چھپا لیا تھا، لیکن ہمیں کیا ضرورت تھی کہ خواہ مخواہ ان کی دل شکنی کرتے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ ان کے ساتھ بڑا سا پاندان اور ناشتہ دان بھی تھا۔
بہرحال وہ بزعم خود ہمارے مخلص بن گئے۔ البتہ ملاجی سے کوئی رشتہ نہ نکلا۔ وہ نیلی آنکھوں سے ہمارے نئے دوست کو گھو رہے تھے۔ انہیں اس ملاقات پر حسد ہو رہا تھا۔
شام کا وقت ہو چکا تھا۔ ہمیں اور ملاجی کو انتظار تھا، کوئی بڑا اسٹیشن آئے تو کھانا کھالیں مگر یہ لائن اتنی آباد ہے کہ آٹھ بجے تک کوئی ایسا اسٹیشن نہ آیا جہاں سے اچھا کھانا مل جاتا۔ اس دوران میں ہمارے ہم سفر نے ناشتہ دان کھولا۔۔۔ ملاجی کو قطعی توقع تھی کہ وہ ہماری تواضع ضرور کریں گے اور ہم خواہ کتنا ہی انکار کریں، کھانا کھائے بغیر نہ چھوڑیں گے اور جب ہم کھانا کھائیں گے تو ملاجی بھی محروم نہ رہیں گے۔ مگر وہ ظالم بہت ہی خشک نکلا، کھاتے وقت رسمی طور سے ہم سے کہا کھائیے۔۔۔ اچھا آپ نہیں کھائیں گے۔۔۔ ہمارے بالکل معمولی انکار پر انہوں نے کھانا شروع کر دیا۔ اب تک جن مراسم و تعلقات کا اظہار کیا تھا، ان کی ذرا بھی پروا نہ کی۔
ملاجی سے انہوں نے بالکل مخاطبت نہ کی تھی۔ اس بناپر ملاجی بہت بگڑے بیٹھے تھے۔۔۔ وہ ناشتہ دان سے پراٹھے اور کباب نکال نکال کر کھا رہے تھے اور ملاجی بہت بری طرح گھور رہے تھے۔ انہوں نے ہمارے قریب آکر کہا، دیکھنا کس بےڈھنگے پن سے کھارہا ہے، دہقانی کہیں کا۔ معلوم ہوتا ہے کہیں مہمان گیا تھا، وہاں سے ناشتہ لے آیا ہے۔ گھر سے لاتا تو اتنی عجلت اور بےصبری سے کیوں کھاتا گنوار!
چپ رہو ملاجی۔ ان باتوں سے کیا نتیجہ، کھانا اس کا ہو یا اور کسی کا۔ وہ تمہیں کھلانے سے رہا۔
ہاں، کم بخت ہے بڑا تنہا خور! دیکھو نا کیسی بری طرح کھارہا ہے تیرا شیر!
کھانے کے بعد انہوں نے ناشتہ دان بند کرکے رکھ دیا اور پانی کے انتظار میں کھڑکی کے پاس آکر کھڑے ہو گئے۔ اسٹیشن آتے ہی وہ لوٹا لے کر اترپڑے اور نل کی تلاش میں دور نکل گئے۔ ملاجی نے ان کے اترتے ہی خوش ہوکر کہا۔۔۔ د۔۔۔ ف۔۔۔ ع۔۔۔ اور پھر ایک مرتبہ جھانک کر اطمینان کیا پھر انگڑائی لی اور اس کے بعد ان کے ناشتہ دان پر ہاتھ مارا۔
ہم اب تک ملاجی کو خشک اور بےوقوف آدمی خیال کر رہے تھے۔ ان کی اس حرکت سے ملاجی کی فطری بیباکی اور ظرافت پر روشنی پڑی۔ ہمیں پہلے تو ہنسی آئی۔ جب ملاجی کو بالکل آمادہ پایا تو ہمیں اضطراب ہوا۔۔۔ کیا کرتے ہو ملاجی؟ ہم نے ذرا پریشان ہوکر دریافت کیا۔
کچھ نہیں، کھانا کھاتے ہیں۔ انھوں نے اطمینان اور دلجمعی سے کہا۔
کیا غضب کرتے ہو؟ وہ بیٹھے ہوئے وضو کر رہے ہیں۔ بس اب آنے والے ہیں۔
کرنے دو پاجی کو۔ پیٹ تو بھر چکا!
مجھے بھی شرمندہ کراؤگے کیا۔۔۔ اچھا مجھے یہاں سے پہلے جانے دو، پھر ناشتہ دان کھولنا۔
آپ کا یہاں سے جانا میرے لیے بہت مضر ہے۔ ملاجی نے یہ کہتے ہوئے کھڑکی بند کر دی اور سامنے خود کھڑے ہو گئے۔
مجھے اس سے انتقام لینا ہے۔ ملاجی نے کہا۔
کاہے کا انتقام ملاجی؟
خشکی کا، بداخلاقی کا۔ اس حیوانیت کا جو اس نے ہمارے مقابلہ میں روا رکھی!
ملاجی نے ناشتہ دان کھول لیا۔ ہمیں سخت وحشت تھی۔ جی چاہتا تھا یہاں سے نکل کر بھاگ جائیں یا ملاجی کا منہ نوچ لیں۔ بڑی خیریت ہوئی کہ وہ حضرت ڈبہ تک آنے بھی نہ پائے تھے کہ گاڑی چھوٹ گئی۔ اب ملاجی کی مسرت کا حال نہ پوچھو۔ ہاتھوں اچھل رہے تھے۔
آئیے اب تو کھا لیجیے۔
ہرگز نہیں۔ میں اس حماقت میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا!
نہ دیجیے۔ آپ کو اختیار ہے مگر بعد کو افسوس کرنا پڑےگا اپنی اس احتیاط پر!
کچھ بھی ہو، میں اس بے غیرتی کو کسی طرح گوارا نہیں کر سکتا۔ ملا جی نے ہماری عدم شرکت کو ذرا بھی محسوس نہ کیا اور اطمینان سے اپنا کام جاری رکھا۔ نہ معلوم وہ کب سے بھوکے تھے۔ پورا ناشتہ دان خالی کر دیا۔ گاڑی دوسرے اسٹیشن پر پہنچ کر کھڑی ہوئی تو ملاجی فارغ ہوکر منہ ہاتھ صاف کر چکے تھے۔
ہمارے دوست نہایت حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ڈبے میں داخل ہوئے اور آتے ہی ناشتہ دان کو دیکھا جو اپنی جگہ پر رکھا ہوا تھا۔ اب ہاتھ بڑھاکر انہوں نے اسے اٹھایا۔ ہم پر عجب کیفیت طاری تھی۔ کاٹو تو بدن میں خون کی بوند نہیں۔ مگر واقعہ یہ ہے انہوں نے کسی شبہ کی بنا پر نہیں بلکہ محض پانی پینے کے خیال سے ناشتہ دان اٹھایا تھا۔ غالباً ابھی انہوں نے پانی نہ پیاتھا۔ ٹھنڈا پانی لوٹے میں بھر کر ساتھ لے آئے تھے اور اب ناشتہ دان کے ڈھکن سے گلاس کا کام لینا چاہتے تھے۔
ناشتہ دان جو اٹھایا تو ہلکا معلوم ہوا۔ اس وقت البتہ انہیں کچھ شک ہوا جو بعد کو یقین میں تبدیل ہو گیا۔ ہم نے اپنا منہ کھڑکی کے باہر نکال لیا تھا مگر آنکھیں اس تماشا کو دیکھنے کی بہت مشتاق تھیں، اس لیے چپکے چپکے اندر کی طرف دیکھتے جاتے تھے۔ ملاجی نے جب دیکھا کہ معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو فوراً پوری والے کو آواز دی اور ایک آنہ کی پوریاں لے کر مزہ لے لے کر کھانے لگے۔ کبھی کبھی ایسی آوازیں نکالتے تھے کہ آدمی خواہ مخواہ ان کی طرف متوجہ ہوکر دیکھ لے کہ وہ کچھ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے جو دیکھا تو ناشتہ دان صاف تھا۔ غصہ میں زیرلب کچھ بڑبڑانے لگے۔ نہ معلوم کیا کیا کہہ رہے تھے۔ اتنا تو ہم نے اچھی طرح سن لیا۔۔۔ ہم نے کہا تو تکلف کیا اور اب چوری سے کھا گئے۔۔۔ شرارت ہے مردودوں کی!
ادھر ملاجی بیٹھے پوریاں کھارہے تھے۔ اگرچہ وہ دیکھ چکے تھے تاہم مزید صفائی کے لیے ملاجی نے ان سے پانی مانگا۔۔۔ پانی ہے کیا جناب لوٹے میں آپ کے؟
جی ہاں ہے! پئیں گے آپ؟
ملاجی فوراً اپنی جگہ سے اٹھے اور لوٹا لے کر منہ سے لگا لیا۔ پانی پینے میں غٹ غٹ کی متعدد آوازیں بھی پیدا کیں، گویا بہت زور کی پیاس لگی تھی۔
ملاجی کی ان حرکتوں سے انہیں قطعی یقین ہو گیا کہ ناشتہ دان کو ہم نے صاف کیا ہے اور ملاجی بالکل بےقصور ہیں۔ چنانچہ بڑی کشمکش کے بعد انہوں نے پوچھا، کیوں جناب آپ نے کھانا تناول نہیں فرمایا؟
ابھی نہیں، بھوک معلوم نہیں ہوتی۔
شاید صبح تک نہ معلوم ہو!
صبح تک کیوں نہ ہوگی؟ کوئی بڑا اسٹیشن آئے تو ابھی کھا لوں گا۔
بڑے چھوٹے کی کیا قید ہے۔ جب بھوک لگتی ہے تو ان باتوں کو نہیں دیکھتی، دیکھیے نا ان کو (ملاجی کی طرف اشارہ کرکے) ضرورت تھی تو پوریاں لے کر کھالیں غریب نے!
میں آپ کامطلب نہیں سمجھا؟
نہیں سمجھ تو لیا ہوگا۔
یعنی میں نے آپ کا کھانا کھا لیا؟
سبحان اللہ! چور کی داڑھی میں تنکا۔۔۔ خوب سمجھا واقعی آپ نے، میں خود ایسی بات کہنی نہ چاہتا تھا۔
معاملہ ذرا اہم تھا اور ہم اس غلط گمانی کے متعلق کافی صفائی پیش کرنا چاہتے تھے، اس لیے بہت ہی سنجیدگی سے بات چیت کر رہے تھے۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ملاجی سے زیادہ ان پر غصہ آ رہا تھا اور بار بار جی چاہتا تھا کہ اٹھ کر ان کی اچھی طرح تواضع کر دیں۔ لیکن اس قضیہ میں نزاکت پیدا ہو گئی تھی، اگر ہم خفا ہو جاتے تو الزام ثابت ہو جاتا، کیونکہ ایسے موقع پر بگڑ جانا کمزوری کی علامت ہے۔ چنانچہ انہیں بہت ہی اطمینان سے سمجھایا اور ملاجی کی بدنیتی متعدد دلائل سے واضح کی۔ ثبوت کے طور پر ہم نے یہ بھی کہا کہ ملاجی کی تلاشی لینی چاہیے۔ ان کے پاس ریل کا ٹکٹ نکل آئے تو سمجھ لیا جائے کہ یہ چور نہیں ہیں ورنہ اس سے ان کی جرائم پیشگی پر روشنی پڑ جائےگی۔
ملاجی بہت بگڑے او رچیں بجبیں ہوکر کہا، تم ایک آدمی کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہو۔ ٹکٹ نہ لینا اور بات ہے اور کسی غریب مسافر کا کھانا کھا لینا امر دیگر! یہ بہت ہی بےحمیتی کی بات ہے۔ اسی بحث و مباحثہ میں ملاجی کے میزبان کی منزل مقصود آ گئی اور وہ ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر اتر پڑے۔ چلتے وقت انہوں نے ہمارے قریب آکر کہا۔۔۔ مانتا ہوں استاد، تم نے خوب جل دیا مگر یاد رکھنا ہضم نہ ہوگا، اب اگر ہمیں غصہ نہ آتا تو ایک قسم کی بزدلی تھی۔ ہم نے تیوری چڑھاکر کہا۔۔۔ خاموش رہو جی بے تمیز کہیں کے، شریفوں پر ایسے التہامات لگانا اچھا نہیں ہوتا۔
کچھ بھی ہو یار اس وقت تم جیت ہی گئے، خیر اب پھر دیکھیں گے۔
اتنے میں گاڑی چھوٹ گئی، تاہم گاڑی کے اندر سے بیٹھے بیٹھے ہم نے انہیں بہت کچھ کہا۔ غالباً انہوں نے سن بھی لیا۔ ملاجی نے بھی ہاتھ باہر نکال کر انہیں آداب کیا اور ہم سے بولے کہیے۔۔۔ کیا ہوئی وہ آپ کی احتیاط، اب ہمارے ساتھ سفر کرنا ہے تو اس احتیاط سے جو بیوقوفی کے مترادف ہے، توبہ کیجیے ورنہ اگلے اسٹیشن پر دوسرے ڈبہ میں چلے جائیے۔ انٹر میں نہیں تو تھرڈ میں تو ضرر ہی جگہ مل جائےگی۔
اجمیر کے اسٹیشن پر باہر آتے ہی حلوہ! گرم حلوہ! مزیدار حلوہ کی کام و دہن کو مسرور کرنے والی آوازوں نے ہمارا استقبال کیا۔ ہم پر اس آواز کا اتنا اثر ہوا کہ معدہ غذا مانگنے لگا اور بھوک کا احساس شروع ہو گیا مگر ملاجی بے اختیار ہوکر کہنے لگے،
حلوہ کھائیں گے! یہیں گھاس پر بیٹھ جائیے۔
یہ کہاں کی تہذیب ہے ملاجی؟ کسی ہوٹل میں چل کر کھائیں گے۔ شہر میں بھی تو حلوہ مل جائےگا۔
اجی تہذیب وہذیب تو گئی چولہے بھاڑ میں۔ ہم کو بھوک لگی ہے۔ بھوک کو دیکھیں یا تہذیب کا خیال کریں۔
میں آپ کا ساتھ نہ دوں گا۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں، آپ سے میں نہیں کہتا۔
ملاجی نے نے حلوہ والے کو آواز دی اور آدھ سیر حلوہ خرید لیا۔ دیکھنے میں تو نہایت اچھا تھا۔ گھی بہہ رہا تھا۔ بھاپیں نکل رہی تھیں، لیکن ملاجی نے پہلا ہی لقمہ کھاکر منہ بنایا۔
کیوں ملاجی کیسا ہے؟
میاں بالکل پھیکا ہے، کم بخت دھوکا دے گیا، شکر کانام تک نہیں اس میں!
ملاجی کو بہت غصہ آیا۔ وہ بپھرے ہوئے حلوہ فروش کے پاس پہنچے، اس نے کہا۔۔۔ میاں دیوانے ہوئے ہو کیا؟ یہ تو پوری کے ساتھ کھانے کا حلوہ ہے۔ شکر اس میں بہت کم ڈالی جاتی ہے۔ تم نے حلوہ تو خرید لیا مگر پوری نہیں لی، جاؤ پوریوں سے کھاؤ۔۔۔ ہاں ایک اور چیز بھی اس سے عمدہ تیار ہوتی ہے جسے ’’گوجا‘‘ کہتے ہیں۔ بس اسے بیچ میں رکھ کر چاروں طرف آٹا لپیٹ کر گھی کی کڑاہی میں تل لو، پھر کھاؤ، دیکھو کیا سواد آتا ہے۔ مگر صاحب سارے کھیل پیسے کے ہیں، پیسہ نہیں تو کچھ بھی نہیں، کہو تو دوں دو چار آنے کے ’’گوجے‘‘ بھی بنے بنائے، گرماگرم! بولو جلدی۔ دیکھو پیسے کا منہ مت دیکھو۔ جان ہے تو جہان ہے۔ اس نے کچھ ایس چکنی چپڑی باتیں کیں کہ ملاجی اپنا سامنہ لے کر واپس آ گئے، فرمانے لگے عمر بھر میں پہلی مرتبہ یہاں بیوقوف بنے۔ خیر چلو آگے دیکھا جائےگا۔ ابھی کیا گیا ہے۔ اڑھائی آنے پر ہی گزری۔
شہر میں پہنچ کر ہم نے ملاجی سے کہا بھائی کسی ہوٹل میں چل کر کھانا کھا لو، ہمیں بھوک لگی ہے۔ تم تو اپنے جہنم کی آگ بجھا چکے۔ ملاجی بولے کسی آباد ہوٹل چلو، یہاں تو میدان خالی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کھانا اچھا نہ ملتا ہوگا۔ جس ہوٹل میں کافی مجمع ہو، بس سمجھ لینا یہاں بکری اچھی ہے، کھانا بھی یقیناً اچھا ہوگا۔ ہم ملاجی کا اصل مطلب تو سمجھے نہیں، تاہم تقریر کے ظاہری معنی قابل اعتراض نہ تھے۔ ہم نے اتفاق کر لیا۔ تھوڑی دور چل کر اسی قسم کا ایک ہوٹل مل گیا۔ ہم نے ملاجی کو مطلع کیا۔ وہ دیکھتے ہی فرمانے لگے۔۔۔ بیشک یہاں چلو!
ہر طرف آدمی ہی آدمی تھے۔ ہوٹل میں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ ایک مناسب جگہ بیٹھ کرملاجی نے حکم دیا۔۔۔ روٹی کباب اور بریانی کی دوپلیٹیں۔ شلغم کا اچار بھی تھوڑا سا۔ ہم ملاجی کے سامنے والی کرسی پر مؤدب بیٹھے تھے۔ ملاجی میز کے دوسرے رخ پر اکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔ ان کی کاکلیں کمر اور شانوں پر پریشان تھیں، کرتے کے بٹن کھلے ہوئے تھے، زبان پر یا خواجہ اجمیری کے نعرے تھے۔ ہم نے ادب سے ملاجی کو سگریٹ پیش کیا اور پھر خود ہی کھڑے ہوکر جلایا۔
ابھی نصف ہی سگریٹ پیا تھا کہ ایک دہ سالہ لڑکا آیا اور میز صاف کرکے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی کھانا آ گیا۔ ہم دونوں نے بڑے مزے سے سیر ہوکر کھانا کھایا۔ کھانے سے فارغ ہوکر ملاجی بولے بھائی، تم تو کچھ کھاؤ نہ پیو، ایک پان کی تمہیں عادت ہے۔ وہ چلتے چلتے بھی کھا سکتے ہو، البتہ حقہ اور سگریٹ ایسی چیز ہے جس کے پینے میں اس وقت تک لطف نہیں آتا جب تک آدمی میز کرسی پر اطمینان سے صاحب بہادر بن کر نہ بیٹھے، لہٰذا تم تو سر کو یہاں سے، جگہ خالی کرو، ہم جی بھر کر حقہ پئیں گے۔ اس مبارک ہوٹل میں حقہ موجود ہے۔ خمیرے کی خوشبو آ رہی ہے، دام میں ادا کرتا آؤں گا۔ بازار میں کسی جگہ میرا انتظار کرنا۔ ہم ملاجی کی ہدایت کے موافق اٹھ کر چلے آئے۔ تھوڑی دیر میں ملاجی بھی آ گئے۔ ہم نے دریافت کیا کتنے دام ادا کیے ملاجی، کھانے کے؟
فرمانے لگے تم بھی بڑے جلدباز ہو۔ گز دو گز تو چلے ہوتے۔ ابھی میں ہوٹل سے نکلا ہوں اور لگے پوچھنے دام ادا کیے، کتنے دام ادا کیے۔ ذراتو صبر کیا ہوتا مرد آدمی! یہ وقت دام دینے کا تھا یا نقصان پورا کرنے کا۔
کیسا نقصان ملاجی؟
میاں وہ حلوے والا، قسم خدا کی، وہ ڈھائی آنے تو گویا کمر ہی توڑ گئے تھے۔
لاحول ولاقوۃ کیسے کنجوس آدمی ہو، سفرم یں ان باتوں کا خیال نہیں کرتے۔
سفر میں نہیں کیا کرتے تو کیا گھر کیا کرتے ہیں۔ ہمارا قاعدہ ہے کہ سفر میں ہم اس قسم کے حادثوں کو زیاد محسوس کرتے ہیں، دیکھو ہم نے آخر کسر نکال ہی لی۔ اس وقت کھانا تم نے مفت کھایا، تم پہلے چلے آئے تھے۔ پھر ہم بھیڑ میں سے نکلتے ہوئے آ گئے، کسی نے دام مانگے نہ پیسے۔ بھائی یہاں لوگ بڑے مہمان نواز ہیں، نہایت متواضع ہیں۔ دیکھو بازار میں دوکان لیے بیٹھے ہیں۔ پھر بھی منہ سے کھانے کی قیمت نہیں مانگتے، جو دے دیتا ہے اسے لیتے ہیں مگر مانگتے نہیں۔ اتنی تو حمیت ہو آدمی میں۔ دیکھیے اسے کہتے ہیں انسانی اخلاق اور مسافر نوازی!
ہمیں ملاجی کی اس حرکت پر جو ظرافت کی حد سے گزر کر دنایت تک پہنچ گئی تھی، سخت غصہ آیا۔ ہم نے اسی وقت واپس ہوکر قیمت دینے کا قصد کیا مگر فوراً ہی ہمارے دل میں انتقام کی چنگاری سلگنا شروع ہو گئی اور ہم نے اپنے ذہن میں ایک انتقامی تجویز مرتب کرکے خاموشی اختیار کر لی۔
شام کو ملاجی پھر اسی ہوٹل میں پہنچے، ہم بھی ساتھ تھے۔ ہوٹل والوں کے اخلاق کا صبح بہت ہمت افزا تجربہ ہوا تھا۔ ملاجی نے بڑی بیدردی سے اس وقت کھانوں کی فرمائش کی۔ میز پر کھانا چنا گیا تو ساری میز بھر گئی، مشکل سے دو گلاس رکھے جاسکے۔ ملاجی نے پیرانہ انداز سے کھانا شروع کیا۔ آخر میں انہوں نے ہم سے کہا چلو تم باہر نکلو!
کیا اس وقت بھی مفت ہی کھائیےگا؟
خاموش رہو جی۔ چپکے چلے جاؤ باہر۔
میں نہیں جاؤں گا۔ میرے سامنے دام دو۔
یہ کیا عقل مندی ہے؟ آپ کو داموں سے کیا بحث؟ آپ جائیے۔
ملاجی میں کہہ چکا، نہیں جاؤں گا۔ تم سے قیمت دلاکے جاؤں گا۔
کیسی باتیں کرتے ہو جی گھر برباد کرنے کی، معلوم ہے کتنے دام ہوں گے، دو ڈھائی روپے سے کم نہ ہوں گے!
کتنے ہی ہوں، آخر کھاکیوں گئے اتنا؟
ملاجی بہت گھبرائے۔ واقعی اس وقت کے کھانے کی قیمت کسی طرح دو روپے سے کم نہ ہوگی۔ یہ رقم ادا کرتے ہوئے یقیناً انہیں تکلیف محسوس ہونی چاہیے تھی، ہماری باتیں سن کر ہوٹل کا ایک ملازم بھی آ گیا۔ وہ سمجھا محض تکلف کے خیال سے دونوں میں دام دینے کے متعلق اختلاف ہے۔ ایک چاہتا ہے میں دوں، دوسرا کہتا ہے میں دوں۔ اس نے آہستہ سے کہا، بات ہی کیا ہے۔ صاحب کوئی دے دیں۔ شام کو تو پھر بھی کھائیےگا۔
ہم نے کہا ایک وقت کے ہوں تو کوئی دے دے، صبح کے دام بھی تو دینا ہیں۔ آدمیوں کی کثرت میں تمہیں بھی کھانے کی قیمت مانگنے کا خیال نہ آیا اور ہمارے ملاجی بھی بغیر دام دیے چلے گئے۔ یہ اللہ والے آدمی ہیں، انہیں اس قسم کی باتیں یاد نہیں رہا کرتیں۔ ملاجی کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا، انہوں نے طیش میں آکر کہا، عجب آدمی ہیں جناب آپ بھی۔ میں صبح کے کھانے کی قیمت دے چکا ہوں۔
ملازم ادب سے بولا، نہیں حضور صبح حساب میں دس آنے کی غلطی تھی، ہم لوگوں کی تنخواہ منیجر صاحب نے کاٹنے کو کہا تھا۔ اچھا ہوا۔ اس وقت آپ نے یاد دلادیا۔ نہیں تو مفت میں ہمارے گلے پر چھری پھر جاتی۔۔۔ ملازم دوڑتا ہوا منیجر صاحب کے پاس گیا اور ان سے آہستہ سے کہا لیجیے صبح کا چور پکڑا گیا۔۔۔ وہ دیکھیے ہاتھ بھر کی داڑھی لگائے بیٹھا ہے۔
منیجر صاحب آئے اور صبح کے داموں کا مطالبہ کیا۔ ہم نے ملاجی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔۔۔ آپ دیں گے! ملاجی نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا، جہاں تک میرا خیال ہے، میں صبح دے چکا ہوں۔
ہرگز نہیں جناب! دس آنے صبح کے اور دو روپیہ تیس آنے اس وقت کے۔ جلدی نکالیے مہربانی کرکے۔
ملاجی سٹ پٹا گئے اور فوراً روپے نکال کر میز پر پھینک دیے۔ باہر آکر انہوں نے ہم پر برسنا شروع کیا۔ ہم نے کہا ملاجی راستہ کی شرارت کا بدلہ لینا تھا۔ اس وقت ہمیں آپ کی صورت سے مغالطہ ہو گیا تھا، ورنہ ہم اس طرح قابو میں آنے والے نہ تھے۔
تم نے بہت ذلیل کیا۔
ذلت کی اس میں کیا بات ہے ملاجی؟ آخر کھانا تو کھایا ہی تھا۔ شرافت اسی میں تھی کہ ایمان داری سے دام دے دیے جاتے۔ ظرافت کو ہم بھی پسند کرتے ہیں، مگر اس میں دغا اور فریب شامل ہو جائے تو لطف باقی نہیں رہتا۔
واپسی میں ہم نے کہا جےپور کا عجائب خانہ دیکھ کر جائیں گے۔ دو دن وہاں قیام ہوگا، اگر آپ بھی چلیں تو پھر آگرے تک ساتھ رہےگا۔۔۔ ورنہ زیادہ حد ادب! آپ ادھر جائیے۔ ہم ادھر جاتے ہیں۔ الفراق بینی و بینک۔
ملاجی بولے، غنیمت جان لومل بیٹھنے کو، پھر نہ معلوم کب ملاقات ہو۔ ہر سال تو آپ عرس میں آتے نہ ہوں گے۔ چلیے دو دن اور لطف سے بسر ہو جائیں گے۔
جےپور پہنچ کر ہم نے عجائب خانہ کی سیر کی۔ شام کو قیام گاہ پر واپس آئے تو ملاجی کی کاکلیں، دام فریب بن کر سادہ لوحوں کو پھانسنے لگیں۔ جو دیکھتا تھا سمجھتا تھا، بڑے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ چند صاحبان نے میلاد شریف کے لیے مدعو کیا۔ ملاجی نے بڑی خوشی سے یہ دعوت منظور کر لی، اس سے بہتر موقع انہیں تقسیم اشتہارات کا اور نہ ملتا۔ ہم نے ملاجی سے کہا آپ جائیےگا۔ ہم تو کئی دن کے جاگے ہوئے ہیں، سوئیں گے۔ ملاجی بہت ناراض ہوئے اور ہمیں اطمینان دلانے کی غرض سے کہا، زیادہ دیر نہ ہوگی۔ گیارہ بجے تک آ جائیں گے، سونے کابہت وقت ہوگا۔ ان لوگوں کا دل نہ توڑو۔ بیچاروں نے بڑی محبت سے کہا ہے۔
کھانے سے فارغ ہوکر جلسہ گاہ میں پہنچے۔ سب نے مل کر ملاجی سے کہا آپ تقریر فرمائیے۔۔۔ اب تک تو شکل و صورت نے ان کے وقار کو قائم رکھا تھا مگر تقریر سے سارا بھرم کھل جاتا۔ ملاجی بغلیں جھانکنے لگے۔ ان کے ہونٹ خشک ہو گئے۔ ہم نے ملاجی کی بیکسی پر رحم کھاکر کہا بھائیو اس موقعہ پر کتاب ہی دیکھ کر پڑھنا بہتر ہے۔ تقریر پھر کسی وقت کرائیےگا۔ تمام حاضرین نے ہماری رائے پر اتفاق کیا۔ پڑھنے کے لیے بھی ملاجی منتخب ہوئے اور ایک ضخیم میلاد نامہ سامنے رکھ کر وہ تخت پر جلوہ افروز ہو گئے۔ پہلے پہلے تو بہت خوش الحانی سے پڑھتے رہے، جب تھک گئے تو جلدی جلدی پڑھنے لگے، اکثر جگہ فارسی اور عربی کے مشکل الفاظ تھے۔ ملاج رک رک کر بڑی مشکل سے غلط سلط پڑھ رہے تھے۔ جب بالکل مجبور ہو جاتے تھے تو یہ کہہ کر۔۔۔ بھائیو میرا چشمہ کام نہیں دیتا۔ رات میں مجھے ویسے بھی کم نظر آتا ہے۔۔۔ کتاب ہماری طرف کو کرکے پوچھتے تھے، دیکھنا یہ کیا ہے؟
خوش اعتقاد سامعین فرط ادب سے خاموش بیٹھے سن رہے تھے۔ ہمیں بہت الجھن ہو رہی تھی۔ ہم دل ہی دل میں افسوس کر رہے تھے کہ انسان کی ظاہری وضع قطع سے مخلوق کتنی جلدی دھوکہ میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ اگر ہم سے کہا جاتا تو ہم یقیناً ملاجی سے بہتر اور صحیح پڑھ دیتے۔ مگر ہمارے سر کے بال اتنے لمبے نہ تھے۔ ہم نیچا کرتا بھی پہنے ہوئے نہ تھے۔ پھر ہمیں کس طرح یہ شرف حاصل ہوتا؟
ملاجی نے قسم کھالی تھی کہ پورا میلاد ختم کرکے چھوڑیں گے۔ بہت سے لوگ نیند سے جھوم رہے تھے۔ بہت سے توجہ کے ساتھ سن رہے تھے۔ ہم نے چند بار ملاجی سے کہا، بس ختم کرو۔۔۔ کہاں تک پڑھوگے؟ لیکن وہ اپنے دھن کے پکے تھے۔ کچھ سنتے ہی نہ تھے، خدا خدا کرکے ڈھائی بجے کے قریب ملاجی نے کتاب ختم کی اور۔۔۔ تمت بالخیر۔۔۔ درمطبع رزاقی کان پور طبع گردید۔۔۔ کا آخری مصرعہ نہایت خوش الحانی سے پڑھنے کے بعد انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کر دیے۔
حاضرین نے بہت تعریف کی۔ ایک صاحب نے فرمایا۔ پوری کتاب آج تک کسی مولوی نے نہیں پڑھی۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ آپ نے اس مشکل کام کو انجام دیا۔ ملاجی نے شاعرانہ انکسار سے کہا۔۔۔ جناب دنیا میں جتنے نیک کام انسان کرے، غنیمت ہے۔ ہماری ساری عمر دنیوی جھگڑوں میں بسر ہو جاتی ہے۔ اگر ایک رات نیک کام میں گزار دی تو کون سا کمال ہوا۔
چند صاحبان دل نے صبح کے لیے ملاجی کو چائے اور کھانے کے لیے مدعو کیا۔
جےپور سے ہم اور ملاجی ساتھ ہی ساتھ روانہ ہوئے۔ اگرچہ ان کے تازہ متعقدین نے بہت روکا مگر وہ صرف ہماری وجہ سے چل کھڑے ہوئے۔ اس کم مدت میں بھی انہیں کافی فتوحات ہوئیں اور چلتے وقت بھی دس روپیہ کا حقیر نذرانہ پیش کیا گیا، جسے ملا جی بےتکلف قبول فرما لیا۔ شام کو کھانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جے پور کا ناشتہ جو وہاں کے خوش اعتقاد حضرات نے ہمارے ناشتہ دان میں بھر دیا تھا، ہم صبح کھا چکے تھے۔ ملاجی بہت غور کرنے کے بعد ہمارا ناشتہ دان ہاتھ میں لے کر اترے۔ ہم نے پوچھا، کہاں چلے ملاجی؟
دیکھو چلتے وقت ٹوکا نہیں کرتے۔ کھانے کی فکر میں جا رہے ہیں۔ بھوک بہت لگی ہے۔
کھانا یہاں نہ ملےگا۔ آپ تو بیٹھے رہیے۔
بھوکا آدمی بیٹھ نہیں سکتا۔ ہم تو جاکر کہیں رزق تلاش کرتے ہیں۔
ایک گھنٹہ کے بعد جب کئی اسٹیشن نکل گئے اور ایک بڑے اسٹیشن پر ریل کھڑی ہوئی، ملاجی ناشتہ دان لیے واپس آئے اور کہنے لگے آئیے!
کہاں سے مل گیا کھانا ملاجی؟
کہیں سے مل گیا۔ اس فضول تقریر سے فائدہ! بھائی آم کھاؤ پیڑ مت گنو۔
کھانا بہت ہی لذیذ اور عمدہ تھا۔ ہم نے فوراً کہہ دیا، یہ کھانا ہرگز اسٹیشن پر دستیاب نہیں ہو سکتا۔ ملاجی سچ بتاؤ کہاں سے لائے؟
ملاجی نے قسم کھاکر کہا، اسٹیشن ہی پر ملا ہے ہمیں تو!
اسٹیشن پر ملنا اور بات ہے۔ پیسے دے کر خریدنا اور بات ہے۔ ملاجی یہ تو ذرا سی جگہ ہے۔ ہم نے تو بڑے بڑے اسٹیشنوں پر ایسا لذیذ کھانا نہیں کھایا۔
میں آپ کی اس تحقیق کا مطلب نہیں سمجھا؟ ملاجی نے ترش روئی سے فرمایا۔
مجھے اندیشہ ہے کہ آپ نے کوئی نیا گل نہ کھلایا ہو۔
میرے افعال کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ آپ تو صرف کھانے والے ہیں۔ کھانا ہے تو کھائیے ورنہ اٹھیے۔ ان فضول باتوں سے آخر کیا نتیجہ؟
گفتگو یہیں تک پہنچی تھی کہ ہم نے ناشتہ دان کو غور سے دیکھا۔ ہمارے ناشتہ دان پر ہمارا نام کندہ تھا جو ہمیں اس وقت نظر نہ آیا اگرچہ ناشتہ دان قطعی ہمارا تھا۔ لیکن نام نہ تھا۔ اسی بنا پر ہمیں شبہ ہوا۔
ملاجی یہ ناشتہ دان ہمارا نہیں ہے۔ اس پر ہمارا نام نہیں ہے۔
میں کب کہتا ہوں آپ کا ہے۔ نام نہیں ہے تو میرے حوالہ کر دیجیے اس کو! کیا واقعی آپ کے ناشتہ دان پر نام لکھا ہے؟
واللہ
بڑی غلطی ہوئی۔ بھائی واقعہ یہ ہے کہ ایک صاحب اسٹیشن پر اترے تھے۔ بہت معقول آدمی تھے، سامان بہت سا ان کے ساتھ تھا۔ دو تین ملازم بھی تھے۔ ان کا ناشتہ دان بالکل تمہارے ناشتہ دان کا جڑواں بھائی تھا۔ ہم نے محض حسن ظن اور اپنی قوت خیال سے سمجھ لیا کہ آدمی ہے بڑا۔ ناشتہ دان میں یقیناً کھانا ہوگا۔ گھر سے چلا ہے تو ضرور کچھ نہ کچھ لے کر چلا ہوگا بھلا مانس! اس وقت تم انصاف سے کام لو تو ہماری کرامت کا اندازہ کر سکتے ہو۔ تمہیں بےاختیار ہوکر چیخ اٹھنا چاہیے۔
آنا نکہ خاک رانبظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشہ چشمے بما کنند
ہم نے تمہارے خالی ناشتہ دان کو کھانوں سے بھر دیا۔ کتنا زبردست اعجاز ہے۔
نعوذباللہ۔ ملا جی تم بڑے خطرناک آدمی ہو۔ یہ تم نے کیا حرکت کی، میرا نام لکھا ہوا ہے ناشتہ دان پر توبہ توبہ بڑی مصیبت ہوئی تم بدل لائے ناشتہ دان ملاجی۔
گھبرانے کی کیا بات ہے؟ بدل ہی تو لائے۔
عقل مند آدمی! جس کے پاس وہ ناشتہ دان پہنچےگا، کیا کہےگا۔ میرا نام لے کر برا بھلا کہےگا یا نہیں؟ نہ معلوم کب تک مجھ پر نفریں کرےگا؟
خدا کرے نفریں عمر بھر کرتا رہے تم پر اور دعویٰ کبھی نہ کرے، ورنہ زیادہ خطرہ تو اسی کا ہے کہ پولیس میں رپورٹ نہ لکھا دے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ نفریں اس کو اپنے اوپر ہی کرنی چاہیے، یا اپنے ملازموں پر۔ انہوں نے کیوں ایسی چیز سے غفلت برتی۔ بھائی ناشتہ دان تو ہمیشہ شریف آدمی کے ہاتھ ہی میں رہنا چاہیے اور اگر ایک شریف اس فرض کو ادا نہ کرے تو دوسرے کو کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ہم نے کیا اور بھائی جان ہم نے تبادلہ کیا ہے۔ مفت تو لیا نہیں۔ اس میں کچھ عقل ہوگی تو خود سمجھ لےگا کہ بدل گیا اور یہ سمجھنے کے بعد قدرتاً اسے خاموش ہو جانا چاہیے اور کہیں اس حادثہ کا اس نے تذکرہ کیا تو لوگ الٹا اسی کو احمق بنائیں گے۔
ملاجی! تم نے ناشتہ دان بدلا کیونکر؟
یہ تو کوئی مشکل بات نہیں تھی۔ ہم نے احتیاط سے تمہارا ناشتہ دان ان کے بستر سے ملاکر رکھ دیا اور پھر اسی احتیاط سے ان کا ناشتہ دان اٹھاکر اپنے قبضہ جائز میں کر لیا اور اس معاملہ میں اتنی ایمانداری ہم نے برتی کہ پہلے اپنا ناشتہ دان رکھا، پھر ان کا اٹھایا۔
گھر پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد ہمیں اپنے پرانے دوست مسٹر اشرف سب جج کا محبت نامہ ملا، جس میں ایک عجیب حسن اتفاق کا تذکرہ کرتے ہوئے نہایت مسرت کا اظہار کیا تھا۔
مسٹر اشرف نے لکھا تھا، میں اجمیر سے دہلی جا رہا تھا۔ راستہ میں ایک اسٹیشن پر اترا وہاں میرا ناشتہ دان تمہارے ناشتہ دان سے بدل گیا۔ افسوس ہے مجھے تمہاری موجودگی کا علم نہ ہو سکا، ورنہ دہلی تک کے لیے تمہیں ضرور پکڑ لیتا اور یہ سفر جس میں اول سے آخر تک کافی کوفت ہوئی، ایک خاص تفریح کا موجب ہو جاتا۔ میں آج کل اجمیر میں تعینات ہوں۔ مجھے اگرچہ دہلی تک اچھا کھانا نہ مل سکا مگر اسی خیال سے بڑی خوشی ہوئی کہ یقیناً وہ کھانا تم نے کھایا ہوگا۔ وحشی اکبر آبادی تمہارے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے، ملال صرف یہ رہا کہ تم نے تنہا کھایا۔ کاش میں بھی تمہارے ساتھ کھاتا۔
ہم نے جواب میں پورا واقعہ ناشتہ دان بدلنے کا مسٹر اشرف کو لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ آپ مطمئن رہیں، میں نے تنہا نہیں کھایا، ملاجی میرے ساتھ کھا رہے تھے جو بڑی کوشش سے ایک قابل سب جج کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ من و سلویٰ اٹھا لائے تھے۔ بہرحال آپ سے زیادہ بھاوج صاحبہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اجمیر میں نہیں، تو سفر میں میزبانی کے فرائض ایسی خوش سلیقگی سے ادا کیے کہ بے اختیار دعا دینے کو جی چاہتا ہے۔ مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ اجمیر میں ہیں تو یہ نوبت ہی کیوں آتی۔ بھاوج صاحبہ کی نیک نیتی اور خلوص دوستی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ کھانا جو انہوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا، مجھے مل گیا کہ آپ کے بعد میں ہی اس ’’ہدیہ عفیف‘‘ اور تحفہ جمیل کا مستحق تھا۔۔۔ میرا ناشتہ دان اسی قسم کے کھانوں سے بھرواکر جلد بھیج دیجیے۔ میں تو آپ کا ناشتہ دان خالی واپس کروں گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.