آنکھوں میں آسمان!
پیروں میں سفر!
ہاتھوں میں پتھّر!
وہ پرندہ کب کہاں مل جائے جس کی تلاش نے مجھے گلی کوچوں کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا۔ میں کتنے مزے سے اپنے گھر میں سکھ کی سانس لے رہا تھا کہ اچانک میری منڈیر پر وہ ایک پرندہ نظر آ گیا۔ پہلے تو میں نے نظر انداز کر دیا، لیکن آہستہ آہستہ وہ میرے حواس پر چھاتا چلا گیا اور پھر اس نے اس پر اپنا قبضہ جما لیا۔ میں نے بار بار اسے جھٹکنا چاہا لیکن اس کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ چھٹکارا نہ پا سکا۔
منڈیر پر بیٹھا پرندہ!
اس نے عجب و غریب دھنگ سے مجھے متاثر کیا۔
پہلے تو دن بھر بیٹھا رہتا اور شام ہوتے ہی غائب ہو جاتا۔ پھر دن بھر غائب رہتا اور شام ہوتے ہی منڈیر پر آ بیٹھتا۔ کبھی کبھی ڈراؤنی آواز بھی پیدا کرتا۔ کئی دفعہ میری بیوی اور بچے اس سے خوف کھا چکے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ عادی ہوتے گئے۔ میں تو پہلے ہی عادی ہو چکا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں۔!
اس کی آنکھیں مجھے بار بار گھورتی رہتیں۔ میں گھر میں موجود نہ ہوتا تو میری بیوی یا بچے کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتا رہتا۔ میری بیوی نے کہا تھا۔
’’سنئے، اب مجھ سے اس گھر میں نہیں رہا جائےگا۔ وہ پرندہ مجھے گھورتا رہتا ہے۔ کل پپّوؔ کہہ رہا تھا کہ وہ رات کو خواب میں بھی آتا ہے اور روشیؔ تو رات میں چونک کر اٹھ بیٹھتی ہے اور چلانے لگتی ہے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہم اس گھر کو چھوڑ کر جائیں گے کہاں——؟‘‘
’’کہیں بھی چلے جائیں گے۔ جنگل میں ڈیرا ڈال لیں گے، پہاڑوں پر بسیرا کر لیں گے۔ لیکن اس گھر میں نہیں رہیں گے۔ مجھے تو لگتا ہے وہ آسیب ہے!‘‘
آسیب کا نام سن کر میں بھی گھبرا جاتا ہوں۔ لیکن پھر ہمت کرکے منڈیر کی طرف دیکھتا ہوں جہاں بیٹھا پرندہ ابھی بھی مجھے گھور رہا تھا————‘‘
ہش۔۔۔ہش۔۔۔ہش۔۔۔‘‘
میں اسے اُڑانا چاہتا ہوں لیکن وہ نہیں اڑا۔ اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں لرزہ طاری کر دیتی ہیں اور میں اپنے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔
میں تذبذب میں ہوں کہ اس کا ذکر کسی سے کروں یا نہ کروں۔ سب میرا ہی مذاق اڑائیں گے کہ ایک پرندے سے میں ڈر گیا یا ایک پرندہ پر قابو نہیں پا سکا، جب کہ آج آدمی آسمان پر کمندیں پھینک رہا ہے اور فضا میں لڑنے کی تیاری ہو رہی ہے———— میں اخبار اٹھا لیتا ہوں————!
دو سوپر طاقتوں نے فضا سے اپنے خیمے اُکھاڑ لینے کامعاہدہ کر لیا ہے۔ اب جنگ کے خطرات کم ہو جائیں گے اور امن کا پرچم لہرانے لگے گا۔
لیکن ہیرو شیما ؟
میں اپنے کو ٹٹول کر دیکھتا ہوں۔ میں بالکل عافیت سے ہوں۔ لیکن وہ پرندہ؟————
ہاں ایک پرندہ نے میرا جینا مشکل کر دیا ہے لیکن میں کر بھی کیا سکتا ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ سوچتا ہوں اس کا تذکرہ دوستوں سے کروں لیکن پشیمانی کا احساس اس طرح حاوی تھا کہ خاموش رہ جاتا ہوں————کل تو اس نے حد ہی کر دی تھی———— میرے جانے کے بعد منڈیر سے اتر کر آنگن میں آ گیا تھا۔ اور صحن میں سو رہے میرے بچے کی طرف بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ میری بیوی کمرے سے نکلی تو وہ اڑ کر منڈیر پر جا بیٹھا اور جب میری بیوی اِدھر اُدھر کام میں مصروف ہو جاتی وہ اتر کر آنگن میں آ جاتا اور میرے سوئے ہوئے بچے کو عجیب نظروں سے گھورنے لگتا ———‘
میری بیوی نے رات میں رو رو کر سارا قصہ بیان کیا۔ میں بھی رو پڑتا لیکن غصے نے رونے نہیں دیا کہ ایک پرندہ کی یہ جرأت کہ وہ میرے معصوم بچے کی طرف دیکھے۔ میں اس کی آنکھیں پھوڑ دوں گا۔ اسے جان سے مار ڈالوں گا، جہاں کہیں بھی اس پر نظر پڑ گئی اس کا خاتمہ کر دوں گا اور اسی لئے آج صبح سے ہی نکل پڑا ہوں کہ آج اس قصے کا کلائمکس آ جانا ہی چاہئے۔
میں دن بھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرا مگر وہ نہ ملا۔ شاید اسے میرے ارادے کی خبر ہو گئی تھی اور وہ مارے دہشت کے بھاگ گیا————چلو اچھا ہی ہوا، ورنہ ناحق اس کو خون کرنا پڑتا۔ میں خون کرنے سے بہت ڈرتا ہوں ۔ خواہ وہ انسان کا ہو یا حیوان کا۔ خون خون ہے۔ سب کا رنگ لال ہوتا ہے۔۔۔، میں اپنی ہتھیلی کو دیکھتا ہوں۔ خون۔۔۔ یہ خون آیا کہاں سے؟ پتھر کو دور پھینک دیتا ہوں اور رومال نکال کر خون صاف کرتا ہوں مگر رہ رہ کر خون کا دھبہ نظر آ جاتا ہے۔۔۔ لال لال خون۔۔۔
تاملوں کا خون!
پنجابیوں کا خون!
امن دستے کا خون!
اقلیت کا خون!
سب کا رنگ تو ایک ہی تھا۔۔۔ ایک ہی ہے۔۔۔ اور ایک ہی رہےگا۔۔۔ لیکن ہم لڑتے رہیں گے اس لئے کہ ہماری فطرت میں بندروں کی فطرت شامل ہے اور ہمارے آباو اجداد بھی تو بندر ٹھہرائے گئے ہیں!
ڈارون!
تم نے بندر کو انسان کا نام دے کر ایک جرم کیا ہے کہ ہمارا نام بندر ہی ہوتا! تو یہ تضاد تو دیکھنے کو نہ ملتا ——— یہ ترقی ہمارے کسی کام کی نہیں، ہماری بلندی ہی ہماری پستی کی علامت ہے اور اب میری آنکھیں کوئی دوسرا ہیروشیما دیکھنا نہیں چاہتیں!
لیکن دیکھ رہی ہیں!
کسی نہ کسی شکل میں!
اور دیکھتے دیکھتے ایک دن یہ آنکھیں بھی پتھر کی ہو جائیں گی۔ پھر ایٹم بم سے اسے ریزہ ریزہ کر دیا جائےگا————لیکن وہ پرندہ————
اف! میں نے پھر اس پرندہ کو یاد کر لیا۔ اس نے تو اب میری منڈیر کو خدا حافظ کہہ دیا ہے۔ تبھی تو سارا شہر چھان مارنے پر بھی نظر نہیں آیا‘ اچھا ہی ہوا بھاگ گیا ورنہ اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا————،
پھر میں ان سارے خیالات کو جھٹک دیتا ہوں —— کافی بار میں بیٹھ کر ایک کپ کافی پیتا ہوں‘ بک اسٹال پر کھڑا ہو کر Debonair کا سرسری مطالعہ کرتا ہوں ——آج کل اچھی تصویریں بھی نہیں چھاپ رہا ہے——،
بہر کیف! ایک کاپی خرید کر گھر کی طرف چل پڑتا ہوں، دروازہ بیوی کھولتی ہے۔ میں اندر داخل ہوتا ہوں۔ خودبخود میری نگاہ منڈیر کی طرف اٹھ جاتی ہے، وہ پرندہ پھر وہاں بیٹھا مجھے گھور رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.