منشی جی
خدا جنت نصیب کرے ’’منشی جی‘‘ بھی، ہمارے قصبہ میں عجیب چیز تھے۔ دوسری خصوصیات سے قطع نظر کرکے اگر صرف وضع پر ہی نظر کی جائے تو منشی جی اس زمانہ کے عجائبات میں داخل ہو سکتے ہیں۔ سر پر چوگوشہ ٹوپی جو چند یا کو بھی بمشکل چھپا سکتی تھی اور جس کے دونوں طرف کانوں تک بال نمایاں رہتے تھے۔ بدن میں پرانی طرز کا بندوں دار انگرکھا جس کی جیب میں کنگھے اور تسبیح کی موجودگی اتنی ہی ضرور ی تھی جتنی آج کل ریل میں سفر کرنے کے لیے ٹکٹ کی۔ پھر اس پر غرارے دار پاجامہ جو ٹخنوں سے چار انگل اونچا ہوتا تھا، دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
ہمارے اکثر احباب ان کو چڑی کا غلام کہتے تھے، مگر کوئی کچھ بھی کہے، میں تو یہی کہوں گا کہ ان کی دوچیزیں بہت زیادہ قابل تعریف تھیں۔ ایک تو وضع دوسری قناعت۔ وضع کے لحاظ سے تو اس قسم کا آدمی آپ کو عجائب خانوں میں بھی دستیاب نہیں ہو سکتا اور قناعت کی یہ کیفیت تھی کہ عمر کے ستر سال کپڑے کی معمولی دوکان اور خطوط نویسی کے خاموش پیشہ میں بسر کر دیے۔
منشی جی کی ہیئت کذائی کے متعلق ہمیں ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ جمعہ کا دن تھا۔ بہت سے بےتکلف دوست ہماری بیٹھک میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ منشی جی گلے میں قرآن پاک لٹکائے ہوئے مسجد سے تشریف لا رہے تھے۔ انھوں نے جو حقہ کی آواز سنی تو دوچار ’’دم‘‘ لگانے کی نیت سے وہ بھی ادھر ہی کو مڑ گئے۔ ان کے قریب آتے ہی کسی گستاخ نے زور سے کہا، منشی جی! ہم تو بنوا چکے۔ یعنی خط بنوا چکے! منشی جی نے بگڑ کر فرمایا، تمہارے باپ دادا تو ہم سے لکھاتے رہے ہیں تم ایسے ناخلف نکلے کہ بنوانے لگے۔
ڈاک خانہ کے قریب منشی جی نے ایک ٹوٹی پھوٹی دوکان کرائے پر لے رکھی تھی، جس پر کپڑے کے دس پانچ تھان، ایک پرانا لکڑی کا قلم دان رکھا رہتا تھا۔ قلم دان میں ایک دوات اور دو قلم ہر وقت موجود رہتے تھے۔ ایک قلم کا رنگ سرخ تھا، دوسرے کا نیلا۔ بس یہی دونوں قلم منشی جی کے ہاتھ پیر تھے۔ انہیں سے وہ اپنی گزر اوقات کرتے تھے۔ کپڑا تو کبھی اتفاق ہی سے فروخت ہوتا تھا۔ البتہ صبح سے شام تک دس پانچ خط لکھانے والے ضرور آ جاتے تھے۔
گرد و نواح میں ان کے خطوط کی کافی شہرت تھی۔ اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ منشی جی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے خط کلکتہ، بمبئی اور کراچی تک جاتے ہیں بلکہ زمانہ جنگ میں تو ان کے خطوط بفضلہ بصرہ اور بغداد تک گئے ہیں۔ خط لکھنے کی اجرت عام طور پر وہ ایک آنہ لیا کرتے تھے۔ اس میں اندرونِ ہند اور بیرون ہند کی خصوصیت نہ تھی۔ لیکن یہ اجرت نیلے قلم کی تھی۔ جب سرخ قلم سے خط لکھایا جاتا تھا تو اس کی اجرت کسی طرح دو آنہ سے کم نہ ہوتی تھی۔ بات یہ تھی کہ نیلا قلم معمولی حیثیت کا تھا اور اس سے جو خط لکھا جاتا تھا اس کا جواب آنا ضروری نہ تھا اور سرخ قلم میں یہ کرامت تھی کہ اس سے لکھے ہوئے کارڈ یا لفافہ کا جواب آنا لازمی تھا۔ چنانچہ جب کوئی ضرورت مند آپ کی دکان پر خط لکھانے آتا تو آپ اس سے دریافت کرتے، بھائی کون سے قلم سے لکھاؤگے تم اپنا خط؟ منشی جی! کسی قلم سے لکھ دو ہمیں تو جواب سے غرض ہے۔
نابھیا نا! صاف صاف بتا دو۔ کبھی بعد میں جھگڑا کرو۔ دیکھو یہ نیلا قلم ہے اس کی لکھائی ایک آنہ ہے اور اس کے جواب کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔ یہ لال قلم ہے اس کی لکھائی ہوگی دو آنہ۔ سنا بھیا۔ اس کا جواب لازمی آئےگا۔ آج کے دسویں دن میری دوکان سے چٹھی لے جائیو! (کیونکہ ایسے خطوط کا جواب منشی جی اپنی دوکان کی معرفت جوابی کارڈ لکھ کر منگایا کرتے تھے۔)
پھر لال قلم سے ہی لکھ دو منشی جی۔ دو آنہ کی تم جانو بساط ہی کیا ہے۔ ہمیں تو لونڈے کی خیریت معلوم ہونی چاہیے۔
اچھا رکھ دو، دو آنے۔ تم جانو یہ تو معاملہ کی بات ہے۔ میرا تو پیشہ ہی یہ ٹھیرا۔
صبح سے شام تک مسلسل بیٹھا رہنے کے بعد جس وقت مغرب کی نماز کے وقت منشی جی دوکان بند کرتے تھے تو ان کی جیب میں آٹھ دس آنے کے پیسے ضرور ہوتے تھے۔ گھر جاتے وقت جب ان سے کوئی پوچھتا، منشی جی آج کیا ملا؟ تو وہ جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسوں کو بجاتے ہوئے اطمینان بخش لہجہ میں جواب دیتے۔ کیا ملا پیارے! بہت سے بہت دس بارہ گنڈے (آنے) ہوں گے پلے میں ہمارے۔ اگر کسی دن خط لکھا نے والے کم آتے اور منشی جی کو فرصت ہوتی تو وہ دوکان کے سامنے ڈا ک خانہ سے بازار تک سڑک پر کمر پر ہاتھ باندھے متواتر ٹہلتے رہتے، اسی درمیان میں اگر کوئی پرانا اسامی مل جاتا تو آپ بہت توجہ سے پوچھتے۔ کہو بھائی چودھری، بیٹے کے پاس سے چٹھی کاجواب آ گیا؟
اجی کہیں بھی نہیں آیا منشی جی!
کتنے دن ہوئے چٹھی ڈالے ہوئے؟
اسی پیر کو ڈالی تھی۔
خاص پیر کے دن ڈالی تھی لیٹر بکس میں!
ہاں پیر کے دن!
بھلا کیا بجا ہوگا؟
کوئی دو گھڑی دن ہوگا۔
اچھا یوں کہو، تو اس دن توتم جانو رات بھر یہیں ڈاک خانہ میں پڑی رہی۔ اگلے دن چھپی اور اسی دن چل دی۔ ایک دو۔ تین۔ چار اور چوتھے دن پونچی لاہور۔ بھلا لال قلم سے لکھوائی تھی؟
پیسے تھوڑے تھے۔ تم نے نیلے قلم سے لکھی تھی۔
جبھی تو چودھری صاحب! میں بھی تو کہوں جواب کیوں نہیں آیا۔ لال قلم سے لکھواتے تو اب تک جواب آ جاتا۔ بات یہ ہے چودھری برامت مانیو جتن گڑ ڈالوگے اتنا ہی میٹھا ہوگا!
شادی کے خطوط کی اجرت منشی جی ہمیشہ زیادہ لیا کرتے تھے مگر لکھائی کا تعین نہ تھا۔ خط لکھانے والا اپنی حسب حیثیت جو چاہتا تھا دے دیا کرتا تھا۔ شادی کا خط بہت رنگین اور دلچسپ ہوتا تھا۔ منشی جی پہلے محنت سے رقعہ کا مسودہ بناتے پھر سرخ رنگ کے چمکدار کاغذ پر بہت خوشخط لکھتے، اونچے درجہ کے رقعات میں خط کی پیشانی پر فارسی کا یہ شعر ضرور درج ہوتا تھا۔
للہ الحمد ہرآں چیز کہ خاطر میخواست
آخر آمد زپس پردۂ تقدیر پدید
اس نوع کے خطوط کا املا نہایت صحیح، بہت واضح اور مضمون منشیانہ ہوتا تھا اور بین السطور کافی فاصلہ چھوڑا جاتا تھا۔ نیز آخر میں یہ عبارت ضرور ہوتی تھی۔
بخط خام احقر الانام۔۔۔ عفا اللہ عنہ
دستخطوں کی جگہ ایک خوبصورت چڑیا بنائی جاتی۔ گویا یہ چڑیا منشی جی کے نام کا طغری تھا۔ اس کے بنانے میں پورا نصف گھنٹہ صرف ہوتا تھا۔
غمی کے خطوں میں منشی جی اجرت تو معمولی لیتے تھے مگرد رد اور اثر پیدا کرنے کی غرض سے یہ مصرعہ ضرور لکھا جاتا تھا،
’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘
اور اس میں مرد عورت کی شرط نہ تھی۔ انتقال خوا مرد کا ہو خواہ عورت کا۔ مصرعہ تبدیل نہیں کیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ محلہ میں ایک بوڑھی عورت مرگئی، اس کا پوتا پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ منشی جی کے پاس خط لکھانے آیا۔ منشی جی نے حسب معمول آخر میں یہی مصرعہ تحریر فرمایا۔ لڑکے نے منہ بناکر کہا، منشی جی میں تو دادی اماں کے مرنے کا خط لکھوا رہا ہوں اور آپ نے لکھ دیا ’’عجب آزاد مرد تھا‘‘ یہ پہلا اتفاق تھا کہ منشی جی نے اپنے خط پر کسی کے منہ سے اعتراض سنا۔ انھوں نے منہ میں بھری ہوئی چھالیہ کو ادھر سے ادھر گھماتے ہوئے کہا، چودہویں صدی ہے۔ چار دن کا بچہ بھی ہمیں سبق پڑھانے لگا۔ کیوں نہ ہو بھائی تو انگریزی پڑھتا ہے۔ ابے بیوقوف تو اپنی دادی اماں کو کہتا ہے، ہم نے تو اس وقت بھی یہی لکھا تھا جب تیرے باوا کی دادی اماں مری تھیں۔
لڑکا تھا ذہین تھا۔ اس نے برجستہ کہا، منشی جی سبق نہیں پڑھاتا۔ سچی بات کہتا ہوں۔
چپ بے لونڈے تو کیا سچی بات کہےگا۔ تیرے باپ نے بھی کہی ہے کبھی سچی بات! لے اپنا خط۔ منشی جی نے کارڈ پھینکتے ہوئے فرمایا، آپ لکھ لے۔ چلا وہاں سے بڑا مولوی کا بچہ بن کے۔
لڑکے نے کارڈ منشی جی سے واپس لے لیا اور ماں کے پاس جاکر کہا، اماں میں خود ہی لکھے دیتا ہوں۔ منشی جی تو نہ معلوم کیا کیا لکھتے ہیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ عورتیں منشی جی سے بہت خوش اعتقاد تھیں۔ اس کی ماں نے ڈانٹ کر کہا، نہیں تم ابھی بچے ہو۔ تمہارے ہاتھ کا خط اتنی دور نہیں جا سکتا۔ الہ آباد کوئی گھر کے پچھواڑے تو ہے نہیں کہ تم لکھ دو اور پونچ جائے۔ منشی جی کی عمر گزر گئی قلم گھستے گھستے، وہی اچھا لکھیں گے۔ اب لڑکے کی سمجھ میں یہی آیا کہ واقعی پتہ تو کبھی لکھا نہیں، نہ معلوم کہاں لکھا جائےگا۔ چلو منشی جی سے ہی لکھوائیں۔
اس عرصہ میں منشی جی سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ کر چکے تھے کہ اس موقع پر ’’مرد‘‘ تھا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ دوبارہ جب کارڈ آیا تو انہوں نے ’’تھا‘‘ کو قلم زد کرکے ’’تھی‘‘ بنا دیا۔ اب مصرعہ یوں ہو گیا،
’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھی‘‘
’’خطوط نویسی‘‘ کے معاملہ میں عام لوگ منشی جی سے اتنا ہی ’’حسن ظن‘‘ رکھتے تھے جتنا عورتیں مراد آبادی تمباکو سے۔ عورتوں اور بہت سے مردوں کا خیال تھا کہ منشی جی کارڈ پر پتہ لکھنے سے قبل عربی رسم الخط میں ’’بعونہ تعالے کارڈ ہذا‘‘ کے جو الفاظ لکھتے ہیں وہ برکت کے معاملہ میں کسی طرح حکیم محمود خاں صاحب کی ’’ہوالشافی‘‘ سے کم نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھے ہوئے خطوط دور دور پہنچ جاتے ہیں اور پھر خاص بات یہ بھی ہے کہ اگر مکتوب الیہ وہاں نہ ملے تو وہیں چلے جاتے ہیں، جہاں مکتوب الیہ ہوتا ہے۔ یہ وہ معجزہ ہے جو منشی جی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو آج تک نصیب نہ ہوا۔
چنانچہ ان کے محلہ کی ایک عمر رسیدہ عورت بطور سند فرمایا کرتی ہیں کہ میں نے نصیب اللہ کے پاس بمبئی خط ڈالا۔ جس مہینہ میں خط ڈالا گیا، اسی مہینہ کے شروع میں وہ اللہ کا بندہ بمبئی سے کلکتہ پہنچا، مگر خدا کی قدرت دیکھو کارڈ بھی کلکتہ پہنچا۔ نصیب اللہ نے جواب لکھا تھا کہ بمبئی سے ہوکر خط یہاں آکر مجھے ملا۔ ایک بوڑھی جلا ہی تو قسم کھاکر کہا کرتی تھی کہ میں نے منشی جی سے لڑکی کے ابا کو چٹھی لکھوائی، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ آٹھ دن پیچھے گھر آ گئے۔ دسویں دن منشی جی کا لکھا ہوا خط بھی گھر لاکر ڈاکیہ نے انھیں دیا۔ منشی جی کو خط دکھایا گیا تو انہوں نے کہا، لال قلم کا لکھا ہوا ہے۔ اس قلم کا لکھا ہوا خط تو کبھی گم نہیں ہوا۔ اسی قسم کی روایات تھیں جنہوں نے محلہ اور قصبہ کی عورتوں کو منشی جی کا معتقد بنا دیا تھا اور وہ اپنے پردیسی اعزہ کو ہمیشہ انہیں سے خط لکھانا پسند کرتی تھیں۔
منشی جی خدا کے فضل سے صاحب اولاد بھی تھے۔ بڑا لڑکا تو انہیں کے الفاظ میں دلی اسٹیشن پر ٹکٹ کلکٹر ہے اور چھوٹا وطن ہی میں گڑ کی دوکان کرتا ہے۔ چھوٹے لڑکے سے آپ بہت مانوس تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آخر وقت میں منشی جی افیون کھانے لگے تھے۔ ان کا مقولہ تھا کہ بغیر گڑ کے افیون کھانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بغیر نکاح کے شادی کرے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ گڑ کی دوکان کی رعایت سے منشی جی نے افیون کانے کی عادت ڈالی تھی یا صاحب زادے نے بوڑھے باپ کے آرام کو مدنظر رکھتے ہوئے گڑ بیچنا شروع کیا تھا۔
افسوس ہے کہ ۱۱۲۰ھ میں منشی جی کی دوکان میں نقب لگا اور کپڑے کے ساتھ ان کا سرخ قلم بھی چوری ہو گیا۔ پولیس نے بہت تفتیش کی مگر چوری کا مال برآمد نہ ہوا۔ منشی جی آخر وقت تک یہی کہتے رہے کہ لال قلم کی چوری سے صاف ظاہر ہے کہ ڈاک خانہ والوں کی سازش سے نقب لگا ہے اور اسی وجہ سے یہ لال پگڑی والے دل سے تلاش نہیں کرتے۔ اس شان کا قلم پھر عمر بھر منشی جی کو دستیاب نہ ہو سکا۔ اس واقعہ کے چھ مہینے بعد ہی منشی جی کا انتقال ہو گیا۔ اس حادثہ کی اطلاع میں ان کے بڑے بیٹے کو جو کارڈ کھا لکھا گیا، وہ ڈاک خانہ کی غلطی سے اس کو نہیں ملا، اسی وجہ سے عموماً یہ خیال قائم کر لیا گیا ہے کہ خطوط نویسی کا فن منشی جی اپنے ساتھ قبر ہی میں لے گئے۔ بہرحال، بقول منشی جی کے،
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.