مردہ گھر
کہانی کی کہانی
مذہب کے نام پر ہونے والے قتل و غارت کو بنیاد بنا کر لکھی گئی یہ کہانی ایک لاش کے ذریعے انسانی فطرت کو بیان کرتی ہے۔ مردہ گھر میں ابھی ابھی کچھ لاشیں آئی ہیں۔ انہیں لاشوں میں وہ لاش بھی ہے۔ وہ لاش مردہ گھر کے پس منظر کو دیکھتی ہے اور آپ بیتی سنانے لگتی ہے۔ اس آپ بیتی میں وہ ان حادثات کا بھی ذکر کرتی ہے، جن میں دنیا کے ہزاروں لاکھوں لوگ قتل ہوئے اور ان کی لاشوں کو سڑنے کے لیے لاوارث چھوڑ دیا گیا۔
مردہ گھر میں میری لاش پڑی ہے۔
مال گاڑی سے اتاری گئی بند بوریوں سی پھولی، لیبل لگی تین چار لاشیں اور بھی مردہ گھر میں پڑی ہیں۔
جب میری لاش مردہ گھر میں لائی گئی تو سورج دھیرے دھیرے دور مٹیالی پہاڑیوں کی اوٹ میں پھسل رہا تھا اور پہاڑی پر ٹکے بادلوں میں آگ کے گولے کی لال کرنیں شعلہ سی بھڑک رہی تھیں۔ افق سے لوٹی ہوئی لالی بند کھڑ کی کے شیشوں میں جلتے لوہے سی پگھلنے لگی۔ دھند اور مٹی کے غبار میں اندھیرے کے زرے تیر رہے تھے اور میں پہچان نہ سکا کہ مجھے مردہ گھر میں کون لایا ہے۔ سایے دھیرے دھیرے روشنی کو نگلنے لگے اور پھر روشنی اور سایے کا فرق مٹ گیا۔ کمرے میں اندھیرا کالے ناگ کی طرح رینگ رہا تھا۔ سرخی سیاہ ہو چکی تھی۔ آگ کا گولا اندھیرے کے غار میں ڈوب چکا تھا۔ اندھیرا سرکتے سرکتے بہت قریب آ کر میرے سر ہانے کھڑا ہو گیا۔ لاشوں کے سفید کفن بھی سیاہ پڑ گئے۔ مردہ گھر، برگد کا بوڑھا پیڑ، بجلی کا کھمبا، ہسپتال کی وسیع عمارت، سامنے نرسوں کے کوارٹر، سڑک، گھاس، پھول، کانٹے دار تاریں، سائیکل اسٹینڈ، مریضوں کے کمرے، حدبندی کی دیوار۔۔۔ سب پر موت کی کالی چھایا پھر گئی۔ مریض وارڈوں میں داخل ہو چکے تھے۔ ان کے ملنے والے گھر لوٹ گئے۔ ایمبولینس وین اور مردہ گھر کی گاڑی یتیموں سی کھڑی تھیں۔ کبھی کبھی کوئی کراہ لیتا تھا۔ لوٹتا ہوا پرندہ پر پھڑ پھڑا لیتا تھا۔ ہارن بجانا منع تھا لین دور سے اس سناٹے میں سنائی دے جاتا تھا۔
قریب کسی کے قدموں کی آواز سنائی پڑی۔ شاید کوئی لاش اور لائی جا رہی تھی۔ لیکن آواز آگے بڑھ گئی اور کتا آواز کے پیچھے دیر تک بھونکتا رہا۔ درختوں کے پتے گر رہے تھے۔ سوکھے، کھڑ کھڑاتے پتے اور تیز ہوا ٹہنیوں میں گولی کی آواز کی طرح گونج رہی تھی۔
اور پھر آوازیں دھیرے دھیرے سناٹے میں کھو گئیں۔ ایسے میں کوئی پتا بھی گرتا تو میں سہم جاتا۔
مردہ گھر کے دروازے کی دراز سے روشنی کی ایک لکیر نہ جانے کہاں سے آ جاتی اور جب وہ بھی غائب ہو جاتی تو اندھیرا اور بھی گہرا ہو جاتا۔ میں مر چکا ہوں۔ پھر بھی نہ جانے کب سے ایک بے نام سا خوف میری روح میں گڑا جا رہا ہے۔ برگد کے پیڑ پر الٹی لٹکی چمگادڑوں کو دیکھ کر ایک بار لاشیں بھی کانپ جاتی ہیں۔ کوئی چمگادڑ جب مردہ گھر کی ایک دیوار سے دوسری دیوار کی طرف اڑتی، ٹکراتی ہے تو کمرے میں اندھیرے کی بھٹکن اور بھی تیز اور گہری ہو جاتی ہے۔
میری موت کیسے ہو گئی؟ ابھی کچھ لمحے پہلے میں زندہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ میں اب بھی زندہ ہوں کیوں کہ میری لاش اب بھی سردی میں ٹھٹھر رہی ہے اور مجھے اب بھی کچھ کچھ یاد آتا ہے، کچھ کچھ، مدھم مدھم سا، موہوم سا کچھ۔
مجھے کوئی روگ نہیں ہوا، پیٹ پیٹھ پر کسی نے چھرا نہیں گھونپا، دل دماغ میں کوئی گولی نہیں لگی؛ نہ حرکت قلب بند ہوئی نہ دماغ کی کوئی نالی پھٹی، نہ جسم جلا نہ دل سے درد اٹھا، تو پھر میں اچانک مر کیسے گیا؟
ساتھ والی لاش نے شاید کروٹ بدلی۔ اب اس کے مرنے کا ایک سبب ہے، ایک سلسلہ ہے۔ شاید انسان کی مشیت کا راز اسی میں مضمر ہے۔ پہلے ہلکے ہلکے کھانسی ہوئی، پھر متواتر کھانسی آنے لگی، بخار بھی ہونے لگا۔ جسم دبلا نحیف، چہرہ پیلا زرد اور دل اداس ہو گیا۔ پھر کھانسی کے ساتھ خون بھی آنے لگا اور جب خون آنے لگا تو وہ گھبرا گیا کہ اب وہ کسی دن کسی بھی لمحے مر سکتا ہے۔ اسے اندر ہی اندر کوئی کھا رہا ہے، کوئی گھن لگ گیا ہے۔ ویسے اسے کوئی بھی روگ ہو سکتا تھا۔ روگ کے انتخاب میں وہ آزاد نہیں تھا۔ ساتھ والے بستر پر پڑے پڑے اس نے ایک دن بتایا تھا کہ وہ برسوں سے اس روگ کو پال رہا ہے، بڑے پیار سے، بڑی رفاقت سے، ایسے ہی جیسے وہ کسی نظم کی تخلیق کر رہا ہے، بےاختیار، نامعلوم، بےارادہ اور تب اسے معلوم ہوا کہ وہ شعر کے ساتھ ساتھ دق کے جراثیم بھی پال رہا ہے، جب لکھتے لکھتے اسے زوروں کی کھانسی ہوئی، پھپھڑوں میں درد ہوا اور خون کا ایک کالا دھبہ کورے کاغذ پر جا پڑا۔ ایک شعر کی تخلیق۔
اندھیرے کے خلا میں بھٹکتی ہوئی، آسیب زدہ نجس سایے سی زندگی۔
’’شعر اور دق کے جراثیم شاید ایک ساتھ ہی جنم لیتے ہیں، ایک ساتھ ہی پلتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا تھا۔
میں نے اس کی طرف دیکھا۔ کتنا روما نٹک تصور تھا اس کا! جیسے تپ دق ہی شعر کا سر چشمہ ہے۔
ساتھ والے وارڈ میں کوئی یکبارگی کراہ کے ٹوٹ گیا۔
اس نے مجھے دیومالا کا ایک قصہ سنایا،
’’فیلو اسٹیٹس بڑا طاقت ور تھا لیکن اس کے پاؤں میں ایک ایسا زخم تھا جس سے بڑی نفرت انگیز بدبو آتی تھی۔ اس کے ساتھی اس کے رستے ہوئے زخم اور بدبو کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اس کے پاس ایک کمان تھی جو دشمنوں کو فنا کر سکتی تھی اور جس کا نشانہ اچوک تھا۔ مگر اس کے زخم کا کوئی مداوا نہیں تھا۔ بدبو دار رستے ہوئے زخم کے باعث اس کے ساتھی اسے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے، لیکن اپنے دشمنوں پر فتح پانے کے لیے انہیں اس کی ضرورت پڑی کیوں کہ صرف اس کے پاس ہی ناقابل تسخیر حربہ تھا۔‘‘ ’’لیکن اگر کسی کا زخم زیادہ گندا ہے تو کیا وہ اسی باعث بڑا فنکار ہے یا جس کی صلاحیت زیادہ ہے اس کا زخم بھی بڑا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
وہ تھوڑی دیر خاموش رہا اور پھر بولا،
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ سوال زخم کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کون زخم خوردہ ہے۔ ایک عام کند ذہن یا ایک مہا کوی۔۔۔‘‘
اس نے کروٹ بدلی۔ وہ زور زور سے کھانسنے لگا اور خون کی ایک دھارا اس کے پھیپھڑوں سے پھوٹ پڑی۔ اس نے نیم بند آنکھوں سے کمرے میں پڑے سب مریضوں کو دیکھا اور پھر سو گیا۔ نرس دیر سے آئی تھی اور وہ جاچکا تھا۔
آج اس نے اپنی پریم کہانی سنائی تھی۔
چاندنی میں لپٹے ہوئے چیڑ کے درختوں سے ہوا گزرتے ہوئے رو رہی تھی۔
بےحسی مجھ پر طاری ہونے لگی۔ بس اتنا یاد ہے کہ سفید کپڑوں والی کوئی عورت ٹرالی میں دروازے کے سامنے سے گزر گئی۔
وہ نہ تو شاعر ہے اور نہ ہی اختلاج قلب کی مریض۔ پھر اس نے خودکشی کیوں کی؟ (لوگ کہتے ہیں کہ اس پر کسی بھوت کا سایہ ہے۔) جب بھی وہ کمرہ اور کھڑکیاں بند کرتی ہے اور پردے گراتی ہے تو اسے کوئی خوف جکڑ لیتا ہے۔ چاروں طرف خاموشی ہوتی ہے۔ مکمل سناٹا، لیکن وہ اس دیوار سے اس دیوار کی طرف بھاگتی ہے۔
’’تم کہاں ہو؟ سامنے کیوں نہیں آتے؟ لو میں دروازے کھول دیتی ہوں، کھڑکیاں کھول دیتی ہوں، پردے ہٹا دیتی ہوں۔ ایشور کے لیے باہر نکل جاؤ۔۔۔‘‘ وہ چلاتی اور پھر دروازے اور کھڑکیاں کھول دیتی ہے، پردے ہٹا دیتی اور ایک لمبی سانس لیتی اور صوفے پر مفلوج سی گر پڑتی۔ اف اور پھر جب وہ دروازے اور کھڑکیاں بند کرتی اور پردے گرا دیتی، کمرے میں مکمل اندھیرا اور خاموشی ہو جاتے تو یہی ڈراما شروع ہو جاتا۔ وہ چلاتی، ’’میں پاگل ہو جاؤں گی۔‘‘
کیا وہ پاگل نہیں تھی؟ جسے بند، اندھیرے کمرے میں کسی بھٹکتے ہوئے، آشیاں سے بچھڑے پرندے کے پر پھڑ پھڑانے کی آوازیں آتی ہیں۔ جہاں جہاں وہ جاتی ہے یہ پرندہ اس کے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔ وہ اس سے بھاگتی ہے، اس دیوار سے اس دیوار تک۔ ایک ریستوراں سے دوسری تفریح گاہ تک، پہاڑی مقاموں پر، سمندر کے کنارے، سنسان ویران جگہوں اور بھرے پرے بازاروں میں، لوگوں کے ہجوم میں، اکیلے۔۔۔ یہ پرندہ اس کے شانے پر بیٹھا رہتا ہے۔ نہ اڑتا ہے نہ مرتا ہے۔
جب کیزیولٹی روم میں اسے لے جا رہے تھے تو میں نے اسے دیکھا تھا، تازہ کھلے پیلے پھول کی طرح خوبصورت، کھوئی کھوئی سی، آنکھیں حیرت بھری، بکھرے ہوئے بال، جنوں خیز، خاموش، سنجیدہ۔۔۔ اور جب اس نے ڈھیر ساری نیند کی گولیاں کھا لیں تو اس کی روح کو کچھ سکون ملا۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائےگی۔ شاید اس کی نیند غائب ہو چکی تھی۔ ایک اٹوٹ نیند، عالم جذب کے لیے، جس میں محض خواب ہے، حقیقت نہیں۔ شاید یہ موت انہیں خوابوں کے باعث تھی۔ مردہ گھر میں اس کی روح پریت سی گھوم رہی تھی، ایک بھٹکے ہوئے آشیاں سے بچھڑے پرندے کی طرح۔۔۔ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک۔
’’آج شام کو ملنا، سات بجے، ٹھیک سات بجے، پارک میں۔‘‘
’’او۔ کے۔‘‘ نرس نے ڈاکٹر کو جواب دیا اور مسکرا دی اور پھر مریض کو انجکشن لگانے میں لگ گئی۔
’’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ ایک چھلاوے سے اتنا کیوں ڈرتے ہیں؟ اپنی زندگی ایک واہمے کے لیے کس طرح برباد کر دیتے ہیں!‘‘ نرس کہہ رہی تھی۔
’’پو و رسول۔ کسی سے عشق وشق ہو گیا ہوگا۔‘‘ وہ بولی۔
میں نے کروٹ بدلی۔ کیا عشق کے بغیر انسان کی نجات نہیں؟
’’سوال عشق یا خودکشی کا نہیں، سوال اس واہمے کا ہے جس کے لیے لوگ زندگی لٹا دیتے ہیں۔‘‘ شاعر نے کہا تھا۔
’’کیا حقیقت ہے اور کیا واہمہ؟ کیا صداقت ہے اور کیا شاعری؟ ان سوالوں کا جواب میں کیسے دے سکتا ہوں شاعر۔ نہ میں نے کبھی شعر کی تخلیق کی ہے نہ ہی کسی سے پیار۔ میں تو ایک عام آدمی ہوں۔‘‘
نہ جانے اس نیم شعوری حالت میں مجھے بچپن کی باتیں کیوں یاد آ رہی تھیں!
میں چھت پر پتنگ اڑا رہا تھا۔ پتنگ اوپر ہی اوپر اڑتا جا رہا تھا، آکاش کے وسیع کھلے پن میں، جیسے وہ کسی ڈور سے نہیں بندھا محض ہوا کے دوش پر اوپر ہی اوپر اڑ رہا ہے۔ ایک دوسرا پتنگ اس کی طرف بڑھنے لگا۔ دھیرے دھیرے سے وہ ایک دوسرے کے قریب آتے گئے۔ قریب آتے آتے ایک دوسرے سے الجھ گئے۔ ڈور ختم ہو رہی تھی۔ ڈر تھا کہ میرا پتنگ کٹ نہ جائے۔ میں نے ایک جھٹکا دیا، دوسرے کا پتنگ کٹ گیا۔ میں خوشی سے اچھل پڑا۔ کٹا پتنگ بہت دیر تک ہوا میں تیر تار ہا اور ہم بہت دور تک اس کے پیچھے بھاگتے رہے۔ پتنگ بیری کے ایک درخت پر کانٹوں میں الجھ گیا۔ جھٹ میں درخت پر چڑھ گیا۔ کانٹوں میں الجھتے میں نے پتنگ جھپٹ لیا۔ میرا جسم زخمی ہو چکا تھا، میرے کپڑے پھٹ گئے تھے لیکن جیت کے نشے میں میں نے سب کچھ برداشت کر لیا۔ جب میں نیچے اترا تو ایک بھدا سا بڑا لڑکا کھڑا تھا۔ وہ مجھے گوے ر رہا تھا۔ ’’یہ پتنگ میرا ہے!‘‘ اس نے کہا۔
میں نے ڈرے ہوئے لہجے میں اس سے کہا، ’’یہ میں نے جیتا ہے۔‘‘
’’دیتا ہے یادوں ایک۔۔۔‘‘ اور اس نے مجھے ایک گندی گالی دی تھی۔ میں نے دریوزہ گر نظر سے اس کی طرف دیکھا لیکن اس کے اٹھتے ہوئے ہاتھ دیکھ کر میں کانپ گیا۔ میں نے پتنگ اسے دے دیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ایک چوہا ہوں جو بلی کے ڈر سے اپنے بل میں گھس گیا ہے۔
اور پھر میں نے پتنگ اڑانا چھوڑ دیا۔ ہر کھیل، گیند بلا، ہاکی، فٹ بال۔۔۔ سب کچھ چھوڑ دیا۔ ہر جگہ تو بڑا لڑکا تھا۔ میں اکیلا دور نکل جاتا۔ ریل کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا اور پلیا پر جا بیٹھتا۔ رنگ برنگی تتلیاں پکڑنے کی کوشش کرتا۔ میں گھنٹوں اسی طرح بھوکا پیاسا دنیا سے بے خبر کالی، پیلی، نیلی، قوس قزح تتلیوں کے پیچھے بھاگتا رہتا یا بارش کے دنوں میں کاغذ کی ناؤ چلاتا رہتا جب تک کہ ان میں پانی نہ بھر جاتا اور وہ ڈوب نہ جاتیں۔ شاید بے کار گھومتے ہوئے ان لمحات میں میں نے محسوس کیا کہ میں شاعر ہوں۔
میں نے وہ شہر چھوڑ دیا۔ کیوں؟ روزگار کی تلاش میں یا کسی دوسرے کے خوف سے؟ لیکن یہ فیصلہ میں نے اس دن کیا تھا جب وہ بڑا لڑکا اپنی کار میں اپنی نئی بیاہی بیوی کو لیے فراٹے سے میرے پاس سے گزر گیا۔ کار کی دھول کے غبار میں میں لپٹ گیا۔ اس کی بیوی سے مجھ عشق نہیں تھا لیکن وہ بچپن میں میرے ساتھ پانی میں ناؤ ضرور چلایا کرتی تھی۔
’’کوی تم شاعری خوب کرتے ہو، کیا اس لڑکی کو آزاد نہیں کرا سکتے؟‘‘ میرے دل نے شاعر سے پوچھا۔
’’کس لڑکی کو؟‘‘
لیکن وہ تو مرچکا تھا۔ اس کی سب بحث ختم ہو چکی تھی۔ شاعر کا فرض کیا ہے؟ اس کا وشواس کیا ہے؟ میرے دل میں شک کے کالے بادل منڈلانے لگے۔
میرا وشواس کیوں ڈول گیا؟ میرا غصہ، میری تشدد کی خواہش اس وقت غائب ہو گئی جب آدھی رات کو جیل میں دو ہاتھ کسی دوسرے کے سرہانے کے نیچے سے ڈبل روٹی چرا رہے تھے۔
کمرے میں کار کے پہیوں کے گھسٹ کر زور سے رکنے کی آواز آئی۔ ایک دم بریک لگی اور ایک چیخ فضا میں گونج اٹھی۔ کار کی روشنی کا آئینہ اندھیرے میں گھوم گیا اور سفید کپڑوں میں لپٹی لاشیں جگمگا اٹھیں۔ کار ایک دم اسٹارٹ ہوئی اور فراٹے بھرتی ہوئی نکل گئی۔ کمرے کے اندھیرے میں بڑی دیر تک چیخ گونجتی رہی۔ چاروں طرف سے چیخیں گونجنے لگیں۔ دور رات کے اندھیرے میں کوئی سسک سسک کر دم توڑ رہا تھا۔ پہلے اس سے زنا بالجبر کیا گیا اور پھر اسے ننگا کر کے سردیوں کی ٹھٹھرتی رات کو بجلی کے کھمبے کے ساتھ لٹکا دیا گیا اور اس کے سینے میں گولی داغ دی۔ اس کے سر پر بجلی کا بلب جل رہا تھا۔ اس کے برہنہ جسم کا ہر زخم روشن تھا۔
ایسی ہی ایک چیخ میں نے پھر سنی۔ رات کے اندھیرے میں گاڑی دھیرے دھیرے رینگ رہی ہے۔ ایک دم نعروں کا شور بلند ہوا اور گاڑی رک گئی۔ نیزے، بھالے، بلم، تلوار لیے لوگ گاڑی میں گھس آئے۔ جسم کٹنے لگے۔ عورتیں، مرد، بچے کو چاند کی گیند کی طرح ہوا میں اچھالا اور پھر نیچے بھالا رکھ دیا۔ رات کے سناٹے میں ایک چیخ گونجی اور پھر ایک قہقہہ بلند ہوا۔
صدیاں بیت چکی ہیں لیکن وہ تنہا ابھی تک سولی پر کیوں لٹکا ہوا ہے؟
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی ہے۔ باہر قدموں کی چاپ سنائی پڑ رہی تھی۔ بر آمدے کے پتھروں پر جیک بوٹوں کی کھٹاکھٹ کھٹاکھٹ۔ شور اور دھواں اور پھر ایک کال کوٹھڑی سے ایک نوجوان کو کھینچ کر نکالا گیا۔ رات کے خاموش اندھیرے میں چوروں کی طرح اسے شہر سے باہر لے جایا گیا اور ندی کے کنارے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پانی میں بہا دیا گیا۔ جیک بوٹوں کی آواز پتھروں پر بڑی دیر تک لوٹتی رہی۔
دن۔۔۔ دنا۔۔۔ دن۔۔۔ گولیاں چل رہی تھیں۔ عورتیں، مرد، بچے، سب نہتے۔ بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ چار دیواری کے گھیرے میں شام کی تاریکی میں انہیں گولی سے اڑایا جا رہا ہے۔ سینوں پر گولیوں کے داغ لیے اندھیرے میں لوگ گھوم رہے ہیں اور اندھیرے کے سمندر میں اپنے چہرے دیکھتے ہیں۔
اور پھر لوگ اور لوگ اور لوگ۔ ہزاروں لوگوں کی بھیڑ شاہراہ پر آگے بڑھ رہی تھی۔ سمندر کے طوفان کی طرح پھیلتی جا رہی ہے، جے جے کار کے نعرے لگاتی، پرچم لہراتی اور ایک آدمی بھیڑ کے سامنے سے چلا آ رہا ہے، ایک پھٹا ہوا پھریرا لیے۔ الجھے ہوئے قدموں تلے دھرتی پھسل رہی تھی۔ بار بار بھیڑ کے ریلے سے وہ پیچھے دھکیل دیا جاتا تھا۔ پھر بھیڑ کے بھنور میں وہ پھنس گیا۔ لوگوں نے شور مچایا، راستے سے ہٹ جاؤ نہیں تو کچلے جاؤگے۔ لیکن وہ پریت زدہ روح کی طرح آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ لوگوں کے پاؤں تلے روندا جا رہا تھا۔ وہ بار بار اٹھا کھڑا ہوتا اور پھر کچل دیا جاتا۔ اس کا چہرہ غصے اور حقارت سے لال ہو رہا تھا۔
اچانک بھیڑ میں کہیں سے ایک ہاتھ اٹھا، ایک خنجر بجلی کی طرح چمکا، ایک چیخ کی آواز آئی۔ پرندے ڈر کے مارے درختوں سے اڑ گئے اور پھر یہ آواز بھیڑ کے فاتح شور میں کھو گئی۔
یہ تیسری لاش کیا اس کی ہے؟ جو کالے، پیلے، نیلے چہروں میں سے ابھر کر آئی ہے۔ ایک لاش روندی ہوئی، کچلی ہوئی۔ لہو کا فوارہ اور دیر تک گونجتی ہوئی چیخ۔ اس نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا۔
جب خنجر بجلی سا چمکتا ہے، گولی، دن سے چلتی ہے، کوئی قتل ہوتا ہے یا خودکشی کرتا ہے تو سناٹا کیوں چھا جاتا ہے؟ کیا زخم کی کوئی زبان نہیں ہوتی؟ زخم کے ہونٹ تو ہوتے ہیں، آواز کیوں نہیں؟
’’پیس ازرٹن آن دی ڈور اسٹیپ ان لاوا۔‘‘ میں نے ڈائری میں لکھا تھا۔
وہ ہاتھ کہاں ہیں؟ بےرحم، قاتل ہاتھ۔۔۔ لیکن اب وہاں کوئی نہیں تھا۔ لوگوں کا ہجوم آگے بڑھ چکا تھا۔ دشمن ان جانا تھا، بے نام تھا، اندھیرے میں کھو چکا تھا اور وہ اپنے دشمن (وہ اسے اپنا دوست سمجھتا تھا جس نے اسے زندگی میں ہر لمحہ دہشت زدہ رہنے کی اذیت سے نجات دلائی تھی) کا شکریہ بھی ادا نہیں کر سکا۔
میں نے ان ہاتھوں کو دیکھا ضرور تھا جنہوں نے اس کو قتل کیا تھا لیکن میں انہیں پہچان نہیں سکتا۔ کل تک ان ہاتھوں کو میں پہچان سکتا تھا۔ یہ وہی ہاتھ تھے، اس بڑے لڑکے کے، جو ایک معصوم لڑکے کو پیٹ رہے تھے۔ یہ وہی ہاتھ تھے جو بندوقیں تانے گولیاں چلا رہے تھے۔ یہ وہی ہاتھ تھے جو لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ندی میں بہا رہے تھے۔ یہ وہی ہاتھ تھے جو اس لڑکی کے کمرے میں بھٹکتے ہوئے پرندے کا گلا گھونٹ دینا چاہتے تھے۔ یہ وہی ہاتھ تھے جو اندھیرے میں ایک ساتھی کی ڈبل روٹی چرا رہے تھے۔
لیکن آج میں ان ہاتھوں کو نہیں پہچان سکتا۔ شاید اس لیے کہ میں مر رہا ہوں۔ (کیا میں واقعی مر چکا ہوں؟ ) صبح کی پہلی کرن کمرے میں چوری چھپے داخل ہوئی۔ یادیں دھندلی پڑتی جا رہی تھیں۔ اگر ان لاشوں کے بارے میں میں کچھ نہ جانتا تو بات کتنی سادہ ہوتی، محبت کی تثلیث۔۔۔ ایک عورت، دو مرد، قتل، خود کشی اور تپ دق۔ لیکن یہ تثلیث نہیں تھی کیوں کہ میں بھی تو مردہ گھر میں موجود تھا۔ چوتھا آدمی۔ قدموں کی ہر آہٹ سے میں چونک جاتا۔ شاید کوئی میری لاش لینے آیا ہے۔
شام تک لوگ آتے رہے اور باری باری سب لاشیں لے گئے۔ اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ کلاک نے تین بجائے۔ سناٹا ایک لخطے کے لیے ٹوٹا اور پھر خاموشی۔ اس سنسان، ٹھٹھرتی ہوئی سرد رات میں کون آئےگا؟ اور وہ بھی ایک مردے کے لیے۔ شاید کوئی لاش لینے آیا ہے۔ میں دروازہ کھولنے کے لیے اٹھتا ہوں اور گر پڑتا ہوں۔ کمرے میں کسی کے رینگنے کی آواز آئی۔ گھپ اندھیرا تھا۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ آنے والے کی شاید آنکھ چمک رہی تھی۔ کیا سانپ کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں؟ اس کی لال زبان شعلے کی طرح اندھیرے میں لپک رہی تھی لیکن مجھے ذرا محسوس نہ ہوا۔ سانپ میرے قریب آ گیا اور پھن اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔ صرف سانپ ہی زندہ تھا اور میں اکیلا پڑا تھا۔ میں چھت کو دیکھ رہا تھا جس کی نہ تو کڑیاں تھیں کہ گن سکتا نہ کھلا آسمان کہ تاروں کی چھاؤں ہی ہوتی۔
باہر دو آدمی باتیں کر رہے تھے،
’’اس لاش کا کیا بنےگا؟ کوئی نہیں آیا۔‘‘
دوسرا بولا، ’’لاوارث ہے شاید۔‘‘
میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ دروازے پر زنگ لگا تالا لگا تھا۔ وقت کے سیاہ سمندر میں سفید بادبان پھیلا کے میری لاش کا جہاز صدیوں سے چل رہا ہے۔ اس کی نہ کوئی منزل ہے نہ ساحل۔
مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ دوستو! اس اندھیرے میں میں کب سے بھٹک رہا ہوں۔ جہاں جہاں میں جاتا ہوں وہ میرے سامنے ایک دم آ کھڑے ہوتے ہیں، بازار میں، گلی میں، موڑ پر، سیڑھیوں پر؛ ہر اس جگہ جہاں اندھیرا گہرا ہوتا ہے۔ بجلی کے کھمبے پر برہنہ عورت کی لاش کر اس کی طرح اٹھائے وہ میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے، بتاؤ اس کا قاتل کون ہے؟ اور اچانک دوسری طرف سے کالے گھوڑے پر سوار شیطانی ہنسی ہنستا ہوا وہ آ جاتا ہے، بھالے کی نوک پر بچے کی لاش اچھالتا ہوا۔ وہ دونوں صدیوں سے میرے پیچھے گھوم رہے ہیں۔ میں کدھر جاؤں؟ اس گھنے اندھیرے میں مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اے خدا مجھے روشنی دو۔ لیکن خدا کہاں ہے؟ اس کی لاش بھی تو مردہ گھر میں پڑی ہے۔
او نمو یروشلم ہیرو شمو۔
- کتاب : Urdu Afsane Ki Riwayat (Pg. 1061)
- Author : Mirza Hamid Baig
- مطبع : Aalmi Media PVT, LTD., Delhi (2014)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.