مردہ خانہ
کہانی کی کہانی
’’کہانی ایک مردہ گھر میں کا م کرنےوالے ڈاکٹروں، چپراسی اور دیگر ملازمین کی داستان بیان کرتی ہے، جنہوں نے مردہ گھر میں برف سپلائی کرنے والے لوگوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کی ہوئی ہوتی ہے۔ مردہ گھر میں طے شدہ مقدار میں سے صرف ایک تہائی ہی برف آتی ہے، جس کی وجہ سے لاشیں سڑنے لگتی ہیں اور ان سے بدبو آنے لگتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر سروپ کے چپراسی چرنجی نے اپنی محتاط نظروں سے ڈاکٹر کے دفتر کے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے سرسے گاندھی ٹوپی اتارنےلگا۔ اس کے سر سے ایک دم سو سو کے کئی نوٹ فرش پر آگرے اور وہ گھبراکر انہیں تیز تیز سمیٹنے لگا۔
اسی اثنا میں ایک بوڑھا بے تحاشہ کمرے میں داخل ہوا، ’’ڈاکڈر جی۔۔۔ ڈاک۔۔۔‘‘
’’ارے! باہر جاؤ!‘‘ چرنجی گھبراکر فرش سےاٹھااور بوڑھے کو دروازے کے بارے دھکیلنےلگا۔ ’’ہر کوئی بے دھڑک اندر آدھمکتا ہے۔ کرکے بولتاہوں کسی کو بلااجازت اندر مت آنے دیاکریں۔‘‘ اس کی حیدرآبادی، کرکے، کی منطق سے ڈاکٹر سروپ اس قدر مرعوب تھا کہ لہجے میں تاثر پیدا کرنے کی خواہش سے اس کے منہ سے بھی، اس لیے،کی بجائے بے اختیار، کرکے، ہی نکل جاتا۔
چرنجی نے دروازہ بھیڑ کر اندر سے چٹخنی چڑھالی اور نوٹ گننےلگا۔ ’’ایک، دو، تین۔۔۔ چودہ۔‘‘ وہ پھرفرش پر جھک گیا۔ ’’ایک اور کہاں گیا؟‘‘
ڈاکٹر سروپ اس کے گنجے سر پر چپکے ہوئے ایک نوٹ کو دیکھ کر ہنسنے لگا، ’’ہمارے سر پر اگیں تو گندے بال اگتے ہیں مگر معلوم نہیں کیا سوچتے رہتےہو، جب بھی ٹوپی اٹھاتے ہو، تمہارے سر پر بڑے بڑے نوٹوں کا جھنڈ کا جھنڈ اگاہوتاہے۔‘‘ ڈاکٹر کو یاد آیا کہ آج اسے اپنے ڈینڈرف کی دوا لے کر گھر جانا ہے۔ اس کی بیوی نےکہا تھا، تمہارے گندے بالوں کی بو سے کھایا پیا منہ کی طرف پلٹ آتا ہے۔
چرنجی نے نوٹ کو اپنے گنجے سر سےاکھاڑنےکےانداز میں ہاتھ میں لیا اور ایک دفعہ پھر نوٹوں کو گن کر ڈاکٹر سروپ کےسامنے میز پر رکھ دیا، ’’پندرہ ہیں، صاحب۔‘‘
’’صرف پندرہ؟‘‘
ڈاکٹر کے ماتھے پر تیوری دیکھ کر چرنجی نے کہا، ’’دوہزار کا ہفتہ طے کرگیا تھا صاحب، مگر چکتائی پر حرام کی اولاد کہنے لگا، اس موسم میں برف نیچے زمین پر کہاں ملتی ہے؟ اسے آسمان سے کھود کر لانا پڑتاہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟ برف میں تھوڑا کم کمالے۔ اور بھی تو بیسیوں آئٹم ہیں۔‘‘
’’کرکےمیں نے بولاتھا صاحب، ٹھیکے کو دو حصوں میں بانٹ دیجیے اور گنگو سےبھی معاملہ کر لیجیے وہ بڑا ایماندار آدمی ہے۔‘‘
’’اس دیال کے بچے کو بھی تو تم ہی لائے تھے۔‘‘
’’لایا تو میں ہی تھامگر کیا بولنا۔ آج کل سبھی اپنے دھرم ایمان کو بیچے ہوئے ہیں۔ اب اگلے چار ہفتے پندرہ سو پر ہی چلنےدیجیے۔ وہ بولتاہے چارہفتوں کے بعد موسم کھل جائے گا، پھر وہ پورے دوہزار دینا شروع کردے گا۔‘‘
ڈاکٹر نے پانچ نوٹ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا، ’’ڈیڑھ سو تمہارا، اور ڈیڑھ سو کیئرٹیکر کا،باقی کے دو سو بڑے بابو کو دے دو۔‘‘
’’ٹھیک ہے صاحب،‘‘ چرنجی نے نوٹو کو پھر ٹوپی کے نیچے رکھ لیا اور جانے کےلیے دروازے کی طرف مڑا، مگر دو قدم چل کر رک گیا۔ ’’کیئرٹیکر صاحب نے کہا تھا صاحب،میرے چپراسی کے لیے بھی ایک سو لایا کرو۔‘‘
ڈاکٹر سروپ نے اسے قریب آنے کا اشارہ کرکے ایک سو کا ایک اور نوٹ اس کے ہاتھ میں تھمادیا۔ ’’کرکے دیال سے کم سے کم سولہ سو ہی وصول کرلیتے۔‘‘
چرنچی نے نوٹ کو ویسے ہی اپنی ٹوپی کے نیچے جمالیا۔ ’’آج کل آپ جیسے رحم دل افسر کہاں ملتے ہیں صاحب۔ آپ تو اپنی ساری پرجا کے کھیون ہارا ہیں۔‘‘
چرنچی کے جانے کے بعد ڈاکٹر آدھا اٹھ کر پتلون کی پچھلی جیب سے اس کے دیے ہوئے نوٹ نکالے اور یونہی ان پر اپنی نگاہ ٹکالی اور ریزرو بینک آف انڈیا کے گونر کی طرف سے ادائیگی کے وعدے کی تحریر پڑھنے لگا۔۔۔ سرکارجو وعدہ کرتی ہے اسے ہمیشہ پورا کرتی ہے لیکن لوگوں کایہ حال ہے کہ کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ پورے پانچ سو کم۔ ڈاکٹر کو دیال پر ابھی تک بہت غصہ آرہا تھا۔۔۔ خیر اسے معلوم ہوجائے گا کہ سرکاری معاملوں میں زبان سے پھرنا اتنا آسان نہیں۔۔۔ اس نےنوٹوں کی تہہ جماکر انہیں پھر جیب میں رکھ لیا اور سوچنے لگا کہ ڈائرکٹر چھ سو سے کم میں نہیں ٹلے گا۔ سارا کام ہم لوگ کرتے ہیں اور وہ بڈھا مفت میں سب سے بڑا حصہ اڑا لے جاتاہے۔ سالااکیلا آدمی ہے، اتنے پیسوں سے کرتا کیا ہے؟ آج شام کو گھر لوٹتے ہوئے میں اسکاچ کی بوتل لے جاؤں گا اور سوڈا بھی۔ اسکاچ میں پانی ملانے سےتو بہتر ہے کہ صرف پانی ہی پی لیا جائے۔
’’مگر پیاس تو پانی سے ہی بجھتی ہے،‘‘ اس کی بیوی روشنی اپنےشوہر کی شراب کی لت سے چڑی رہتی تھی۔
’’ہاں، مگر جن کی پیاس پہلے ہی مری پڑی ہو انہیں تو اسے زندہ کرنا ہوتاہے،‘‘ روشی سے جھگڑتے ہوئے اس کا دماغ روشن ہوجاتا۔
’’ارے او سرو، تمہارے بیوی ہے، پھول سی بچی ہے، ہم سے تمہاری پیاس زندہ کیوں نہیں ہوتی؟‘‘ پھر ناری کو یکلخت اپنی بے بسی پر غصہ آنے لگتا۔ ’’تم۔۔۔ تم مردوں کے ڈاکٹر ہو سرو، تم کیا جانو، کسی بے کل روح کی بچی کھچی سانسیں اکٹھی کرکے اسے اپنے پیروں پر کیسے کھڑاکیا جاسکتا ہے؟‘‘
جب ڈاکٹر سروپ کو پیشہ ورانہ نااہلی کے باعث ٹرانسفر پر سرکاری اسپتالوں کی زنجیر کے اس مردہ خانے کا انچارج بنایا گیا تھا تو وہ بہت تلملایا تھا کہ اتنے سالوں کے تجربے کے باوجود اسےموت کی سندیں لکھنے اور مردوں کی دیکھ بھال پر مامور کردیا گیا ہے۔
’’دل چھوٹا مت کرو ڈاکٹر،‘‘ اس کے ایک سینئر شریک کارنے اسے تسلی دینے کے لیے سمجھایا تھا۔ سرکاری ڈاکٹر یہاں ہوں، یا وہاں ایک ہی بات ہے۔ وہاں وہ مریض کو موت کی راہ پر ڈالتا ہے اور یہاں مریض اس راہ پر چلتے ہوئے اس کے پاس آپہنچتا ہے۔‘‘ اس نے ہنستےہوئے ڈاکٹر سروپ کی پیٹھ تھپکی تھی۔ ’’بڑے آرام دِہ ٹھکانے پر آلگے ہو۔ اب چین کی بانسری بجاؤ۔‘‘
ڈاکٹر سروپ نے واقعی چین کی بانسری بجاتے ہوئے ہی یہ سارے سال بِتادیے تھے۔ بہت ہونے پر بھی اس کے چارج میں بیس سے زیادہ مردے نہ ہوتے۔ ان میں سے بیشتر لاوارث ہوتے۔ ڈاکٹر اپنے دفتر سے باہر چوبیس گھنٹے کا نوٹس لگانے کے بعد لاوارث مردوں کو سرکاری تجربہ گاہوں میں کام میں لانے کے لیے بھیج دیتا۔ مردوں کی دیکھ بھال کرتے کرتے وہ زندوں کا علاج کرنابھول ہی گیا تھا۔ سرکاری رجسٹر میں ’نارمل‘ کا اندراج کرکے وہ دراصل اس امر کی تصدیق کرتا تھا کہ مریض قطعی طور پر مرچکاہے۔ ایک دفعہ چرنجی اپنی بیماری کے باعث چھٹی کی درخواست لے کر آیا تو ڈاکٹر سروپ نے اس سے کہا، ’’ادھر آؤ،تمہاری نبض دیکھوں۔‘‘ اور نبض پر انگلی رکھے چند لمحات وہ اسے نہایت متانت سےمحسوس کرتا رہااور پھر بولا۔ تمہیں کوئی تکلیف نہیں، جاؤ کام کرو۔‘‘
’’مگر صاحب۔۔۔‘‘
’’کہہ دیا ہے نا، جاؤ تمہاری نبض بالکل بند ہے۔‘‘
چرنجی کا یہ حال تھا کہ ہنستے ہنستے وہ اپنی بیماری بھول گیا تھا اور ڈاکٹر سروپ کوغصہ آرہا تھا کہ یہ بدتمیز اس طرح ہنس کیوں رہاہے۔
چرنجی کا آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔
’’ایک بات کہوں صاحب؟‘‘ ایک دن وہ ڈاکٹر سے کہنے لگا، ’’اگر کبھی اچانک میرا دم نکل جائے تو مجھے کہیں ڈاکٹری تجربوں کے لیے مت بھیجیے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’آپ تو جانتے ہیں صاحب، میڈیکل کالجوں کے لونڈے چنگوں بھلوں کو کس طرح لوٹاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے گوشت کی گٹھریوں میں ٹوٹی پھوٹی ہڈیاں سی ہوئی ہیں۔‘‘
’’اب بھی تو تم ایسے ہی دکھتے ہو۔‘‘
چرنجی نےسرکھجانےکے لیے اپنی ٹوپی اتاری تو اس کے گنجے سر سے دس کانوٹ نیچےآگرا۔
’’یہ نوٹ کہاں سے مارا ہے؟‘‘
’’آپ سے کیا پردہ، صاحب، گنگو ٹھیکیدار آیا ہوا تھا۔ انعام دے گیا ہے۔ آپ کوسلام بولنے کو کہہ گیا ہے۔‘‘
’’اس سے کہو، صرف سلام بول دینے سے کام نہیں بنتا۔‘‘
’’بڑا دل دار سیٹھ ہے صاحب۔ آپ اس کی طرف ایک بار نظر بھر کے دیکھیں گے تو وہ اپنے آپ کو بیچ کر بھی آپ کی خدمت کرتارہے گا۔‘‘
ڈاکٹر سروپ نے خود کو پھر یاد دلایا کہ آج اسکاچ اور سوڈا لے کر گھر جاؤں گا۔
’’آج پھر؟‘‘
پچھلے ہفتے تو اس کی بیوی نے چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھالیا تھا اور پھر بلڈپریشر سے بستر پر چت ہوگئی تھی اور کھلی آنکھوں سے بے ہوش پڑی تھی۔ اس نے انجانے میں اس کی آنکھیں بند کردی تھیں اور اس کے دل کی دھڑکن محسوس کرکے ایک دم خوف سے پیچھے ہٹ گیا تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتاہے۔
ڈاکٹر سروپ نے اچانک سراٹھایا اور دیکھا کہ کوئی شخص اس کے دفتر کےدروازے کے عین وسط میں اڑا اڑا سا کھڑا اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہاتھا۔ پہلے تو ڈاکٹر نے اسے باہر انتظار کرنے کو کہا اور پھرآنکھیں چھپک کر حیرت اور ہیبت سے اس کی طرف دیکھتارہ گیا۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتاہے؟‘‘
’’میں اپنے بھائی کولینےآیا ہوں،‘‘ وہ شخص دوچار قدم آفس کے اندر چلا آیا۔ ’’میں اسے دیکھ آیا ہوں شاید وہ وہی تھا۔‘‘
’’او۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔!‘‘ ڈاکٹر نے ڈھیلا ہوکر کھلی سانس لی۔ مجھے خیال گزرا تھا تمہارا بھائی خود آپ ہی مردہ خانے سے اٹھ کر چلاآیا ہے۔ پرسوں شام کو اسے یہاں بھیجا گیا تھا۔‘‘
’’ہم جڑواں بھائی ہیں،‘‘ اس شخص نےگریاں سی آواز میں ڈاکٹر کو بتایا۔
ڈاکٹر اپنے حواس قابو پانے کے لیے ہنسنے لگا، ’’میں تو ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ مانو ایک مردے نے دوسرے پر آنکھیں گاڑ رکھی ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نےاسے اپنے سامنےکرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا، ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ وہ ابھی تک اپنی واردات کے طلسم میں گرفتار تھا۔‘‘ مردے بھی ضرور کہیں نہ کہیں ہماری طرح بس جاتے ہوں گے۔ ٹھہرو، بولو نہیں۔۔۔ کیا پتہ،کیا پتہ، ہم بھی مردے ہوں۔ میں نے کہیں پڑھ رکھا ہے کہ ہر شخص دراصل اپنی موت سے پہلے ہی مرچکا ہوتا ہے۔ نامعلوم کب سے۔۔۔؟ ’’وہ گویا اپنے آپ سے باتیں کرنےلگا تھا۔‘‘ مجھے بڑی دھندلی سی یاد آرہی ہے،میں نے بھی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دی تھی اور پھر مجھے یہاں مردہ خانے میں بھیج دیا گیا تھا۔ پچھلے پندرہ سال سےمیں یہاں گل سڑ رہاہوں۔ اس نے اپنے آپ کو جھنجھوڑ کر بتایا، اس اجنبی کے سامنے کیا رونا رونےلگے ہو۔ نیو رمائینڈ! وہ سرجھٹک کے سیدھا ہوکر بیٹھ گیا، ’’میں تمہاری کیا مددکرسکتاہوں؟‘‘
’’میں اپنے بھائی کی لاش لینے آیا ہوں۔‘‘
اب تک ڈاکٹر سروپ اپنے معمول پرآچکا تھا۔
’’لاشیں یونہی ہر آتے جاتے کےحوالے نہیں کی جاتیں۔ پہلے ہمارے آفس کاایک فارم بھرو۔ نہیں، دو۔۔۔ سمجھے! کسی مجسٹریٹ کا تصدیق شدہ حلف نامہ لاؤ اور ایک اعلان نامہ، جس پر دوگواہوں کے دستخط ہوں اور ان دو میں سے ایک کو ہمارے دفتر کاکوئی آدمی بخوبی جانتا ہو۔۔۔ جاؤ اب!‘‘
نووارد پریشان ہوکر کھڑا ہوگیا، ’’کہاں جاؤں؟‘‘
’’کہیں بھی، میں کیا بتاؤں؟‘‘
’’فارم،اعلان نامہ۔۔۔‘‘
’’ساتھ کے دفتر میں بڑے بابو سے ملو۔ وہ تمہیں سمجھادے گا۔‘‘
وہ شخص جانےکے لئے اٹھنے لگا تو ڈاکٹر سروپ کو شاید اس پر ترس آگیا، ’’بیٹھ جاؤ۔ مردے کے مندرجات میرے رجسٹرمیں نوٹ کرواکے جاؤ۔‘‘ اس نے ایک رجسٹر کھول لیا، ’’نام؟‘‘
’’امریک سنگھ۔‘‘
’’امریک سنگھ کس کانام ہے تمہارا یا اس کا؟‘‘
’’میرا۔‘‘
’’ارے بھائی، اس کا نام بتاؤ جسے تم لینے آئے ہو؟‘‘
’’کشن سنگھ۔‘‘
’’عمر؟‘‘
’’میری عمر پینتیس برس ہے۔‘‘
’’مجھے تمہاری عمر سے کیا غرض؟ لاش کی عمر بتاؤ؟‘‘
’’ہم جڑواں بھائی ہیں۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟ لاش کی عمر بتاؤ۔ اور اس کاپتہ؟‘‘
امریک سنگھ چڑگیا، ’’میں کیا پتہ بتاؤں؟ وہ تو آپ کے پاس ہی گل سڑ رہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر بھی چڑگیا، ’’گل سڑ نہیں رہی،، ایئر کنڈیشنڈ ڈارمیٹری میں ہے اور وہاں برف میں رکھی ہے۔‘‘
’’میں وہیں سے آرہا ہوں۔ ایئرکنڈیشنر کام نہیں کر رہا اور جتنی بھی تھوڑی سی برف تھی، وہ پگھل چکی تھی۔‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتاہے؟‘‘ ڈاکٹر سروپ نےگھنٹی بجائی جسے سن کر چرنجی دوڑتاہوا آپہنچا۔
ڈاکٹرنےبوسونگھنے کے لیے ناک سے ایک لمبی سانس لی،’’کیا تمہیں بو آرہی ہے چرنجی؟‘‘
چرنجی نے بھی اسی کےمانند اپنی ناک کو پھڑپھڑایا۔
’’ہاں، بو تو آرہی ہے صاحب۔‘‘
’’تو میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو؟ جاؤ، بڑے بابو سے کہو ایئرکنڈیشن والے کو فوراً بلائے، نہیں تولاشیں اپنی بو کی تاب نہ لاکر ادھر سے ادھر آنکلیں گی۔ کیئرٹیکر سےبھی میرے پاس آنےکو کہو۔ جاؤ!‘‘
چرنجی اپنی ٹوپی اتارنے کے لیے سرکی طرف ہاتھ اٹھانے لگا تو ڈاکٹر سروپ نے چوکنا ہوکر اسے روک دیا، ’’نہیں، سرکو ڈھنپا رہنے دو۔‘‘ پھر وہ امریک سنگھ سے مخاطب ہوا، ’’تم بھی بڑے بابو سے مل کر فارم وارم بھر کے اپنی لاش اٹھوالو۔‘‘
’’میری لاش؟‘‘
’’تو کیا میری۔۔۔؟جاؤ، اٹھوالو۔‘‘
’’کسے اٹھواؤں؟ سبھی کے سبھی تو پھول پھول کر ایک جیسے دکھ رہے ہیں۔‘‘
’’مگر تم نے بتایا ہے، تم اسے دیکھ آئے ہو۔‘‘
’’ہاں، ایک پر مجھے گمان تو ہوا تھا، پر ہوسکتاہے وہ کوئی اور ہو۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟ سبھی تمہارے بھائی ہیں۔‘‘
’’مگر مجھے صرف اپنے بھائی کو لے جانا ہے۔‘‘
’’تمہارا بھائی اب رہ ہی کہاں گیا ہے؟‘‘
’’مگر۔۔۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب کی جان کیوں کھا رہے ہو، بھائی؟‘‘ چرنجی نےاپنے افسر کی مدد کے لیے مداخلت کی، ’’کرکے بولتاہوں صاحب، ہر ایرے غیرے کو اندر مت آنےدیا کریں۔‘‘ پھر وہ امریک سنگھ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسےسمجھانےلگا، ’’اپنے بھائی کوتو تم ہی نے پہچاننا ہے ہم نے تو نہیں۔‘‘
ڈاکٹر سروپ اپنے غصے پر قابو پانے کے لیے سگریٹ سلگانےلگا، ’’کیا زمانہ آگیا ہے بھائی اپنے بھائی کو بھی نہیں پہچان سکتا۔‘‘
کشن سنگھ منہ لٹکاکر چرنجی کے ساتھ باہر جانےلگاتو ڈاکٹر سروپ کو پھر اس پر ترس آنےلگا، ’’ٹھہرو، گھبراؤ نہیں، کوشش کروگے تو پہچان لوگے۔‘‘ سگریٹ کا ایک لمبا کش لے کر اسے خواہش ہونے لگی کہ بے چارے کی مزید مدد کی جائے۔ ’’اگر تمہیں کوئی ایسا گواہ نہ ملے جسے ہم جانتے ہوں تو ہمارے اس چپراسی کو ہی اپنا گواہ بنالو۔۔۔ اورسنو، تمہارے حلف نامہ پر بھی بڑا بابو کسی نوٹری سے دستخط کروالے گا۔‘‘
’’تھینک یو، ڈاکٹر صاحب۔‘‘
’’کوئی بات نہیں،‘‘ ڈاکٹر سروپ نے مسکراتے ہوئے سوچاکہ بڑا بابو اور چرنجی اس سےپچاس روپے تو اینٹھ ہی لیں گے، جن میں سے بیس اپنےلیے کھرے ہوجائیں گے۔ اس نےبدستور مسکراتے ہوئے اپنے سامنے رکھے کورے کاغذ پر آج کی ٹوٹل آمدنی کے ہندسے لکھے ہیں۔۔۔۴۰۰+۲۰۔۔۔۔
چرانجی اور امریک سنگھ اس کے کمرے سے باہر ہولیے اور اس نے لاشوں کی بو سونگھنے کے لیے پھر اپنی ناک کو اوپر اٹھاکر ایک بڑی لمبی سانس لی اور بڑبڑایا، ’’بو پہلے سے بڑھ گئی ہے۔‘‘ اس قسم کی بو محسوس کرکے وہ بڑا بے چین ہوجاتا۔ اول تو وہ مردوں کی ڈارمیٹری کارخ ہی نہ کرتا، یا پھر ادھرجانا بےحد ضروری ہوجاتا تو ہدایت بھیج کر بلڈنگ کے اس ونگ میں خوب دوائیاں چھڑکوالیتا اور اکثر وہاں کیئرٹیکر کے دفتر میں ہی کام نمٹاکر لوٹ آتا۔ پچھلے ہفتے اس کےڈائرکٹر نے اسے اطاع دی تھی کہ آئندہ سال سےہر لاش کے بستر پر ایک فریز رفٹ کرنےکی تجویز منظور ہوگئی ہے۔
’’وہ تو ٹھیک ہے سر،‘‘ اس نے جواب دیا تھا۔ ’’مگر اتنے سے پاور میں اب بھی ہماری مشینوں کے تار پھٹ جاتے ہیں۔ اس وقت کیا بنے گا؟‘‘
اس کے افسر نے اسے متنبہ کرنےکے لہجے میں کہاتھا، ’’تم ہمیشہ پیچھے کی طرف دیکھتے ہو ینگ مین، آگے کی طرف دیکھاکرو۔‘‘
سالاحرامی! آپ خود تو آگے کی طرف دیکھتا ہے نہ پیچھے کی طرف،بس جہاں بھی دیکھیں، ہم ہی دیکھیں۔۔۔ ڈاکٹر سروپ کوخیال آیا کہ آج ابھی تک مردوں کی کل تعدادچیک نہیں کی۔ اس نےسگریٹ بجھاکر متعلقہ رجسٹر اپنے آگے کھول اور کاغذ پر مردے گننےلگا۔۔۔ ’’ایک، دو،تین۔۔۔آٹھ۔۔۔ سولہ۔۔۔ اٹھارہ اور یہ انیس۔‘‘ پھر اس نے کیئرٹیکر کے بھرے ہوئے کالم پر نگاہ دوڑائی تاکہ ایکچیولز بھی د یکھ لے۔۔۔ اٹھارہ۔۔۔ ارے ایک کم کیسے ہوگا۔۔۔؟ اس نے گھنٹی بجائی اور دروازے کی طرف دیکھنےلگا اورکوئی نہ آیا تو پھر رجسٹر پر جھک گیا۔۔۔ ایک، دو۔۔۔ انیس! ایک مردہ کہاں غائب ہوگیا۔۔۔؟ کہیں واقعی وہ وہی تو نہ تھا۔ اسے کشن سنگھ کاخیال آیا اور وہ بدحواس سی ہنسی ہنس دیا۔ ایک بار پھر اس نے رجسٹر پر نگاہ جمالی۔۔۔ ایک، دو، تین۔۔۔
’’آپ نے گھنٹی بجائی ہے صاحب؟‘‘ چرنجی نے کمرے میں داخل ہوکر پوچھا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک اور آدمی داخل ہوا، ’’آپ نے یا دکیا ہے؟‘‘
ڈاکٹر سروپ نے نئے آدمی کو گھور کر دیکھا، ’’تم کون ہو؟‘‘
’’میں کیئرٹیکر صاحب کانیا چپراسی ہوں صاحب، راجو۔‘‘
’’ارے ہاں، تم ہی تو ہو۔ میں تمہیں پہچان ہی نہیں پایا۔‘‘ ڈاکٹر نے اس کے منہ کی طرف اشارہ کیا۔ ’’تم نے یہ پھنسیوں کا نقاب جو چڑھا رکھا ہے۔‘‘
’’علاج کروارہاہوں صاحب۔‘‘
’’سوج سوج کر کپّا بنے ہوئے ہو۔ کیا تمہیں اپنے آپ سے بو نہیں آتی۔‘‘
’’کیا کروں صاحب۔‘‘
’’برف۔ منہ پر برف رکھاکرو،‘‘ ڈاکٹر نے اچانک اپنے نتھنوں کو پھڑکتا ہوا محسوس کیا۔ ’’پھر وہی بو!‘‘ اس نے نتھنوں کے راستے سانس لی، ’’بڑھ گئی ہے۔‘‘
چرنجی اور راجو نے بھی ویسے ہی سانسیں لیں، ’’ہاں، بو تو آرہی ہے۔‘‘
’’کیئرٹیکرکہاں ہے؟‘‘ ڈاکٹر کو یاد آیا کہ کیئرٹیکر نے تو آج اپنےدانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانے کی اجازت لے رکھی ہے۔ ’’کیا تمہارا ایئرکنڈیشنر چل رہا ہے؟‘‘
’’میں اتنا بھاگیہ شالی کہاں ہوں صاحب؟‘‘ راجو احمقوں کی طرح کھی کھی کرنےلگا ہے۔ یہ نعمت تو مردوں کو ہی نصیب ہے۔‘‘
راجو کی بات ڈاکٹر کے دل کو جالگی۔ ہاں، اس دنیا کی عجیب ریت ہے۔ یہ نعمت صرف انہیں نصیب ہے جواس کی زندگی بخش ٹھنڈک میں بھی بے جان پڑے رہتے ہیں۔۔۔ ’’ابھی تک کھی کھی کیے جارہے ہو۔ میری بات کاسیدھاجواب دو۔‘‘
’’کرکے بولتاہوں افسر کے سامنے زیادہ عقل مت بگھارو،‘‘ چرنجی نے اپنی ٹوپی اتارنا چاہی لیکن ڈاکٹر کی نظر میں ڈانٹ محسوس کرکے اس نے اپنا ہاتھ روک لیا۔
ڈاکٹر سروپ کو یکبارگی یاد آیا کہ ایک مردے کا حساب نہیں جڑپارہا۔ اس نے چرنجی کو حکم دیا کہ وہ بڑے بابو کوبلائے، لیکن پھر اسے جھٹ ہی روک لیا۔ ’’بڑے بابو کے منہ سے اتنی گندی باس آتی ہے کہ طبیعت متلانے لگتی ہے۔‘‘ اس نے راجو سے مردوں کی تعداد کے بارے میں استفسار کیا اور راجو نےاسے فوراً جواب دیا، ’’پورے اٹھارہ ہیں صاحب۔‘‘
’’کیا تمہیں یقین ہے، اٹھارہ ہیں؟‘‘
’’میرا اور کام ہی کیا ہے صاحب؟ دروازے پر بیٹھا انہیں ہی باربار گنتا رہتاہوں۔‘‘
’’اب تو اس کی عادت ہوگئی ہے صاحب، جدھر بھی چند لوگ اکٹھے دکھ جائیں، انہیں گننا شروع کردیتاہے۔‘‘
’’دیکھو راجو،‘‘ ڈاکٹر سروپ نے اچانک کچھ فیصلہ کرکے اپنا منہ بڑاپکا کرلیا۔ ’’اب میں تم سے صاف صاف پوچھ رہاہوں۔ اگر تم لوگوں سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو بتادو،میں تمہیں بچالوں گا۔‘‘
’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا، صاحب۔‘‘
’’تمہاری سمجھ میں اتنا تو آرہا ہے کہ ایک مردہ کالے دھندے میں ہزار پندرہ سو پر اٹھتا ہے۔ اگر تم نے گول مال نہیں کیا تو ایک مردہ کہاں گیا؟ سرکار تو اس کی جگہ مجھے لٹاکر حساب پورا کرے گی۔ تمہارا کیا جائے گا؟‘‘
’’نہیں، صاحب،‘‘ ڈاکٹر کے چہیتے چرنجی نے مداخلت کی۔ ’’میں راجو کی طرف سے آگ میں ہاتھ ڈال کر کہہ سکتا ہوں، وہ ایسا آدمی نہیں۔‘‘
’’تو پھر مردہ کہاں گیا؟ جیسے بھی ہو مجھے اسی وقت اپنا مردہ چاہیے۔‘‘ ڈاکٹر نے ایک بار اور رجسٹر پر اپنی پریشان نگاہ دوڑائی اور ایک خانے میں اس کی آنکھیں لٹک گئیں اور وہ مسرت سےاچھل پڑا۔‘‘ مل گیا۔۔۔ یہ دیکھو، بڑے بابو نے یہاں ایک ہی مردے کی تفصیلات غلطی سے دوبار درج کردی ہیں۔ مردے اٹھارہ ہی ہیں۔۔۔ جاؤ، بڑے بابو کو بلاؤ۔‘‘ مگر اس کاجی متلانے لگا۔ ’’نہیں رہنے دو۔۔۔ کیا تمہیں بو محسوس نہیں ہو رہی ہے؟‘‘ اسے نامعلوم کیا سوجھی ہے کہ وہ اپنا ہی بدن سونگھنے لگا ہے۔
’’نہیں صاحب، اس وقت تو نہیں ہو رہی ہے۔‘‘
’’لاشوں کے پاس بیٹھ بیٹھ کر تمہاری ناک ٹھیک طرح کام نہیں کرتی۔ میں نے تم سے پوچھاتھا۔ مردہ خانے کا ایئرکنڈیشنر چل رہا ہے یا بند پڑا ہے۔‘‘
’’دس پندرہ منٹ بند رہا صاحب، پھر آپ ہی آپ چلنے لگا۔‘‘
’’یہاں سب ہی کچھ آپ ہی آپ چلے تو چلے۔ تم سب لوگ نااہل ہو۔ اگر میں تمہاری حفاظت نہ کروں تو تم سبھوں کو دو دن میں جوتے مار مار کے یہاں سے نکال دیا جائے۔‘‘
’’کرکے ہی تو ہم سب آپ کے نام کی مالاجپتے ہیں صاحب۔‘‘
’’مگر کچھ کام بھی کیا کرو۔ کیا وہ حرامی پلا پوری برف بھیج رہاہے؟‘‘
’’نہیں صاحب، پہلے سے آدھی بھی نہیں بھیج رہا۔‘‘
ڈاکٹر اپنی پتلون کی پچھلی جیب کی طرف ہاتھ لےگیا اور دانت پیس کر بولا، ’’اس سے طے تو یہ ہوا تھا کہ لکھت سےآدھی ضرور بھیجے گا۔ چلو، کم سے کم ایک تہائی ہی بھیج دے گا۔ مگر بے ایمان سارے وعدے بھول گیا ہے۔‘‘ وہ اپنا بلڈڈریشر بڑھتا ہوا محسوس کرکے سگریٹ سلگانےلگا۔ ’’گنگو ٹھیکیدار کو کہلوابھیجو چرنجی وہ مجھے فوراً ملے۔‘‘
چرنجی بغلیں بجانے لگا، ’’میں آپ ہی اس کے پاس چلاجاؤں گا صاحب۔‘‘
اسی اثنا میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجنےلگی۔
’’ہیلو ڈارلنگ،‘‘ ڈاکٹر کی بیوی کاٹیلیفون تھا۔ ’’کیا؟ فرج میں برف نہیں بن پارہی۔۔۔؟بُو۔۔۔؟۔۔۔کیوں۔۔۔؟ ہاں مشین ہی بگڑ گئی ہو تو بو تو آئے گی ہی۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.