Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مردار

نگار عظیم

مردار

نگار عظیم

MORE BYنگار عظیم

    وہ دروازہ کھول کر گرتا پڑتا اندر داخل ہوا اور ڈھیر ہو گیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح نشے میں تھا۔ لیکن اس مرتبہ اس کے چہرے سے وحشت برس رہی تھی۔ وہ رو رہا تھا۔ تڑپ رہا تھا۔ اس کا پورا وجود درد و کرب سے لرز رہا تھا۔ شاید کئی راتوں سے سویا بھی نہیں تھا۔ بال بے ترتیب اور بڑھے ہوئے تھے۔ کپڑے بوسیدہ چپل پرانی اور گھسی ہوئی۔ وہ دو زانو ہوکر بیٹھتا، بار بار سجدے میں گرتا، اپنے صبر کے لیے دعا کرتا۔ اللہ مجھے صبر دے دے یا میری جان لے لے پروردگار۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ بہتی ہوئی ناک وہ بار بار اپنے کرتے کے دامن میں جذب کر رہا تھا۔

    یہ خورشید تھا۔ میرے شوہر کا لنگوٹیا یار۔ پرمذاق، ہنسوڑ اور غیر سنجیدہ۔ میری شادی کے بعد ملاقات کرنے والا ان کا سب سے پہلا دوست تھا۔ وہ جتنا زیادہ بولتا بیوی اتنی ہی کم گو۔ پڑھا لکھا کم تھا لیکن ہنرمند تھا۔ بڑا ماہر کٹنگ ماسٹر تھا۔ دولت اور شہرت کی کوئی کمی نہ تھی۔ کناٹ پلیس میں اس کے کئی شو روم تھے۔ بڑی بڑی فلمی ہستیاں اس کے شو روم میں آتی تھیں۔ گلے میں فیتہ لٹکائے جب وہ قینچی چلاتا تو بڑا جادوئی نظر آتا۔ اس کے سانولے سوکھے پچکے گالوں والے چہرے پر گول گول چمکدار ذہین آنکھیں اس کے پورے وجود کا سرمایہ تھیں۔

    دولت، شہرت اور یہ پیشہ اسے وراثت میں ملے تھے۔ اس کا باپ بھی کٹنگ ماسٹر تھا۔ لیکن وہ لیڈیز اور یہ جینٹس۔ باپ چاہتا تھا بیٹا بھی لیڈیز کٹنگ سیکھے کیونکہ اس کا خیال تھا کہ عورت کا پیر کبھی بھوکا نہیں مرتا۔ لیکن خورشید نے باپ کی ایک نہ سنی۔ شاید اس لیے کہ وہ طبیعت سے بہت ہی شرمیلا واقع ہوا تھا اور..... لیڈیز کٹنگ.....؟؟ شاید اس کے بس کی بات نہیں تھی۔

    خورشید کو میں نے جب بھی دیکھا نشے میں ہی دیکھا۔ اس کی آنکھیں سرخ رہتی تھیں لیکن وہ بہکتا نہیں تھا۔ پھر بھی وہ میرے لیے ناپسندیدہ شخص بن گیا تھا۔ شاید اس لیے کہ میں اسے جتنا سمجھاتی وہ سب ہنسی میں اڑا دیتا۔ ’’اسے ٹوکنا چھوڑو دو۔ وہ نہیں مانےگا۔‘‘ یہ غصہ سے کہتے ’’وہ برسوں سے پیتا ہے۔ اسکول کے زمانہ سے۔ اسی لیے نہیں پڑھ پایا۔ تھک گئے سب اس سے۔ سارے دوستوں نے ساتھ چھوڑ دیا اس کا۔ کسی کی پرواہ نہیں کی اس نے۔ بس یہیں میرے پاس آ جاتا ہے۔ سو وہ بھی بند کردے گا۔ پتہ بھی نہیں چلےگا زندہ ہے یا مرکھپ گیا۔ لاکھوں کی دولت چھوڑی تھی اس کے باپ نے لیکن سب شراب میں پی گیا۔ اس نے بھی کمایا لیکن سب گنوا دیا۔ باپ بھی پی پی کر مر گیا۔ اس کا بھی یہی ہوگا۔‘‘ ان کی آواز رندھ جاتی اور میرے لب ساکت ہو جاتے۔

    آہستہ آہستہ وقت ہاتھ سے پھسلتا گیا۔ بدلتی ہوئی ریڈی میڈ تکنیک نے اس کے کام کو متاثر کیا اور کاروبار پر اس کی گرفت ڈھیلی ہوتی گئی۔ نتیجتاً باپ کی کہاوت درست ثابت ہونے لگی۔ زمانے کی اس دوڑ میں وہ بہت پیچھے رہ گیا۔ ایک ایک کرکے شوروم بکنے لگے۔ کچھ برسوں میں ہی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب وہ کسی دوسرے کے یہاں ماہانہ اجرت پر کام کرنے لگا۔ بیوی بہت جلد زندگی سے ہار گئی۔ دِق ہو گئی تھی اسے۔ بیوی کی موت کے دن بھی وہ ہوش میں نہ تھا۔ کچھ دنوں بہت ویرانی خاموشی اور اداسی چھائی رہی اس پر۔ لیکن پھر مسرت کے دن آئے بیٹا کمانے لگا اور اس کا سہارا بن گیا۔

    ایک روز خورشید گھر آیا۔ بالکل ٹھیک ٹھاک... پہلی مرتبہ بغیر نشے کی حالت میں دیکھا تو بہت اچھا لگا اور سچ مچ اس دن وہ مجھے بہت اچھا اور بھلا لگا بالکل معصوم۔ بتایا بیٹی کی شادی کردی ہے۔ بہت اچھا داماد ملا ہے۔ اگلی مرتبہ پھر خوشخبری لے کر آیا۔ بیٹا کاروبار کے سلسلہ میں سعودی عرب چلا گیا ہے۔ شادی بھی کرلی ہے۔ ایک بیٹے کا باپ بھی بن گیا ہے۔ لیکن یہ خبر مجھے اچھی نہیں لگی کہ بیٹے کو بھیجنے کی خاطر اس نے اپنا جدی مکان فروخت کر دیا ہے لیکن وہ مطمئن تھا۔ بیٹے کا روزگار چل پڑےگا تو سارے دلدر دور ہو جائیں گے۔

    کچھ مدت کے بعد پھر آیا اپنے اسی پرانے انداز میں۔ ایک بڑی سی فائل بغل میں دبائے۔

    ’’یہ لے ندیم اپنا سب کچھ تجھے دینے آیا ہوں۔ زندگی بھر کا سرمایہ۔ تو رکھ لے۔ بس صرف پانچ سو روپیہ دے دے۔‘‘ انہوں نے کھول کر دیکھا۔ واقعی زندگی بھر کی پونجی تھی۔ یہ اس کی ڈرافٹ بک تھی۔

    ’’میں کیا کروں گا اس کا‘‘؟؟

    ’’تو رکھ لے..... جب روپیہ واپس کروں گا تو لے جاؤں گا۔‘‘

    ’’اب دوستی میں یہاں تک نوبت آ گئی؟؟ شرم نہیں آتی تجھے؟‘‘

    ’’شرمندہ ہوں اسی لیے... ہمیشہ تجھ سے ادھار مانگتا ہوں اور کبھی چکتا نہیں کرتا۔ اس مرتبہ ضرور دے دوں گا۔‘‘

    ’’روپیہ بھی لے جا اور یہ فائل بھی۔ سنبھال کے رکھ اسے۔‘‘

    میں نے الگ لے جاکر انہیں سمجھایا ’’وہ ہوش میں نہیں ہیں۔ کسی اور کو دے دیں گے۔ آپ رکھ لیں پھر واپس کر دیجئےگا۔ اور یوں وہ فائل چھوڑ گیا اور روپیہ لے گیا۔

    ایک برس بھی نہیں بیتا تھا کہ پھر اچانک... ایسے... یوں... اس حال میں تو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم دونوں ہی گھبرا گئے۔

    وہ زار و قطار رو رہا تھا۔

    کیا ہوا کچھ بولےگا بھی..... انہوں نے جھنجھلاہٹ سے پوچھا۔

    ’’مار ڈالا میری نجو کو..... جلا دیا اس کو..... جلا دیا ندیم جلا دیا..... جہیز کے لالچیوں نے جلا دیا اسے۔‘‘

    انہوں نے اس کی کولی بھری تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔ تڑپ تڑپ کر مرگئی میری بچی۔ یہ بھی نہیں سوچا ظالموں نے کہ اس کے بچہ ہونے والا ہے۔ روپیہ مانگتے تھے سالے۔ تین لاکھ روپیہ۔ گاڑی کے لیے۔ میرے مکان کے روپیہ۔ مکان بیچا تھا نہ؟ بس تب سے اسی پر نیت تھی۔ کہاں سے دیتا۔ سب قرض میں چلا گیا تھا۔ عمران کے سعودی عرب جانے میں خرچ ہو گیا۔ کیا دیتا کچھ بھی نہیں تھا میرے پاس۔ ہائے میری نجو..... وہ روئے جا رہا تھا۔ میری نجو شادی ہی کہاں کرتی تھی۔ کہتی تھی ابا تمہیں روٹی پکا کر کون کھلائےگا۔ جب سے ماں مری تھی سارا گھر سنبھال رکھا تھا میری نجو نے۔ ہائے میری بچی تجھ پر کیا بیتی ہوگی؟؟ وہ روئے جا رہا تھا چلا چلا کر بین کر رہا تھا۔

    ’’لیکن یہ کب ہوا‘‘؟؟ انہوں نے پوچھا۔

    ’’دو مہینے ہو جائیں گے۔‘‘

    ’’اور تو اب آیا ہے‘‘ یہ غصہ سے بولے۔

    ’’مجھے ہوش ہی کہاں تھا۔‘‘

    ’’پولس رپورٹ کی۔‘‘

    ’’گیا تھا۔ لیکن کوئی میری سنتا ہی نہیں۔ پولس والا شرابی کہہ کر بھگا دیتا ہے۔‘‘ وہ پھر رونے لگا۔

    ’’ابے بیوقوف تو وہاں شراب پی کر جاتا ہی کیوں ہے؟ سالے بیوی چلی گئی بیٹی چلی گئی مگر تجھے ہوش نہیں آیا۔‘‘ میری مدد کر ندیم... یار تو میرا یار ہے... تجھے تیری دوستی کا واسطہ۔

    وہ ہاتھ جوڑنے لگا۔ پیر پکڑنے لگا۔ گڑگڑانے لگا۔ ’’جو تو کہے گا میں کروں گا۔ میری نجو کے قاتلوں کو سزا ضرور ملنا چاہیے۔‘‘

    ’’میں کیا کر سکتا ہوں مجھے بتا۔‘‘

    میرے پاس پیسے نہیں ہیں، وکیل کو دینے کے لیے۔ وکیل کہتا ہے سب پکڑے جائیں گے۔ سب کو جیل ہوگی۔ ارے میرے بغیر دفنا دیا تھا انہوں نے نجو کو۔ میں نے صورت بھی نہیں دیکھی اپنی بچی کی۔ وہ پھر رونے لگا۔

    ’’بھابی میری مدد کرو— نجو آپ ہی کی بیٹی تھی۔‘‘ اس نے التجائی نظروں سے مجھے دیکھا اور میرے سامنے ہاتھ جوڑکر زمین پر ماتھا ٹیک دیا۔

    میرا دل تو پسیج کر قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا۔ میں نے پُرامید نظروں سے اِن کی طرف دیکھا۔

    ’’بتا کتنی فیس دینا ہے وکیل کو؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’میں دے چکا ہوں۔ بس دو ہزار رہ گئے ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ لے جا۔ تو دو کے بجائے تین لے جا۔ لیکن..... اگر تونے شراب پی تو میں تیرا دم نکال دوں گا۔‘‘ انہوں نے گالی کے ساتھ ساتھ دھونس بھی دی اور ہر تاریخ پر مجھے اطلاع دےگا تو۔ سمجھا۔

    ’’تو میرے ساتھ چل— اپنے ہاتھ سے دے دینا وکیل کو۔‘‘

    ’’وکیل بتا۔ کون ہے تیرا۔‘‘

    ’’جگدیش۔ اٹھارہ نمبر کیبن میں بیٹھتا ہے۔ تیس ہزاری میں۔ تو فون نمبر نوٹ کر لے اس کا... لے یہ لے...‘‘ اس نے جیب سے ایک بوسیدہ سا کاغذ کا ٹکڑا نکال کر نمبر بتایا۔

    کافی دن گزر گئے... نہ کوئی فون... نہ کچھ خیر خبر... وکیل کو کئی مرتبہ نمبر ملانے کی کوشش کی لیکن کبھی بات نہیں ہوسکی۔ خورشید کے پاس تو اب فون بھی نہ تھا۔

    جب بھی ذکر کرتی یہ پھٹ پڑتے۔

    ’’مجھے پتہ ہے سالہ پیئے پڑا ہوگا کہیں نہ کہیں۔‘‘

    جب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو ایک دن پوچھتے پاچھتے ہم دونوں اس کے مکان پر پہنچ گئے تو دیکھا خستہ حال مکان میں وہ اسی بے ترتیبی سے جی رہا تھا۔ بوتل اب بھی اس کے سامنے تھی۔ فرش پر اکڑوں بیٹھا وہ شغل کر رہا تھا۔ گلے میں فیتہ لٹکا ہوا تھا۔ کئی کپڑے تہہ کئے اس کے قریب رکھے تھے۔ قینچی بھی تھی۔ شاید وہ ان کپڑوں کو کاٹنے کی تیاری میں تھا۔

    اچانک انہیں سامنے دیکھا تو اٹھا اور لپٹ گیا۔

    تو آ گیا۔ تجھے ہی یاد کررہا تھا میں۔ خوشخبری دینا تھی تجھے۔

    مقدمہ جیت گیا؟؟ سزا ہوگئی انہیں؟؟

    تو بیٹھ بتاتا ہوں... بیٹھ ادھر بیٹھ تو... اس نے کونے میں پڑے جھلنگے پلنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    ارے نمو کرسی لانا دیکھ کون آیا ہے۔ ندیم آیا ہے ندیم۔ تیرا باپ ہے یہ بھی۔ بلکہ باپ کا بھی باپ ہے۔ چودہ پندرہ برس کی ایک معصوم سی بچی دوڑ کر کرسی لے آئی۔ دوپٹہ سے صاف کی اور ان کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے یہ بیٹھ گئے اور میں اس جھلنگے پلنگ کے کونے پر ٹک گئی اور وہ فرش پر بچھی چٹائی پر واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا۔

    نجو کے کیس کا کیا ہوا؟ انہوں نے سیدھا سوال کیا۔

    کچھ کھالے۔ چائے پی لے ابھی بتاتا ہوں۔ ارے نمو چائے بنا۔ ذرا کڑک بنانا۔

    ان کو اندر ہی اندر تلملاتا دیکھ کر میں جلدی سے بول پڑی۔ یہ کیا خورشید بھائی۔ کس تکلف میں پڑ گئے۔ ہم مہمان تھوڑی ہیں۔

    ’’کیس کا کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے پھر سوال کیا۔

    ’’نجو تو مر گئی..... مر گئی وہ تو‘‘..... وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔

    ’’کیا بکتا ہے تو‘‘؟؟

    ’’وہ جل کر مر گئی یار ندیم۔‘‘ ..... ’’بس—‘‘

    ’’الو کے پٹھے۔ وہ جل کر مری نہیں جلا کر ماری گئی ہے۔‘‘

    کیس کا کیا ہوا یہ بتا؟؟ ان کا لہجہ سخت تھا۔

    ’’تو بیٹھ تو..... بتاتا ہوں..... پانی تو پی لے۔‘‘ اس نے ان کے ہاتھ کے گلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے بھئی تو بتا تو۔ میں سن رہا ہوں۔‘‘

    ’’وہ..... وہ..... بس کیا کہوں..... کم..... کمپرو..... ما‘‘ کمپرومائز ہو گیا۔

    انہوں نے گریبان پکڑ کر فرش سے کھڑا کر دیا اس کو۔

    کمپرومائز کیا تونے— نجو کے قاتلوں سے۔ بیٹی کے قاتلوں سے— سور کمینے— اتنا گر گیا تو—؟‘‘

    ’’تو سن تو—میں میں..... میں نے نہیں پولس والوں...‘‘

    ’’پولس والوں نے کرا دیا..... میں کیا کرتا۔‘‘

    ’’ہاں! پولس والوں نے کرادیا— اور تونے کرلیا۔ کتنے میں کیا تونے کمپرومائز—؟‘‘ یہ چیختے ہوئے بولے۔

    ’’پ...پ... پن... پندرہ ہزار میں۔‘‘

    انہوں نے دھکا دیتے ہوئے اس کا گریبان چھوڑ دیا۔ وہ لڑھک کر دور جاگرا۔ یہ پھر اس پر لپکے۔ پندرہ ہزار میں زندگی گزر جائےگی تیری۔ بتا...؟

    اس مرتبہ اس نے جھپٹ کر قینچی اٹھالی۔ ’’دیکھ اب تو آگے بڑھا نہ تو میں یہ قینچی اپنے پیٹ میں اتارلوں گا۔ ختم کرلوں گا خود کو۔‘‘

    ’’دھمکاتا ہے مجھے۔ سالے تجھے دوست کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ سودا کیا ہے تونے۔ بک گیا ہے تو۔ تو تو ان لوگوں سے بھی بدتر نکلا جنہوں نے نجو کو جلایا تھا۔ مردار ہے تو مردار بھڑوے۔ نیچ ہے تو۔ تھو۔ ‘‘

    ’’ہاں ہاں میں نیچ ہوں بک گیا ہوں مردار ہوں بھڑوا ہوں مار دے مجھے تو اپنے ہاتھ سے مار دے مجھے۔‘‘ ان کا ہاتھ پکڑ کر اس نے قینچی تھما دی۔ ’’لے لے مار دے مجھے‘‘ اپنا کمزور سینہ چوڑا کرتے ہوئے وہ آگے بڑھا۔ ’’لے مار— میں بھی یہی چاہتا ہوں— مار دے مجھے..... بہت بُرا آدمی ہوں میں‘‘ وہ پھر رونے لگا۔

    روتی ہوئی نمو دوڑ کر اپنے باپ سے چمٹ گئی۔

    اسے سینے سے لگا کر وہ پھپھک پھپھک کر رونے لگا۔

    ’’ابا بتا دو نہ؟‘‘ نمو سسکتی ہوئی باپ سے بولی۔

    ’’کیا بتا دوں؟ کیسے بتا دوں؟ یہ میری سنتا ہی نہیں۔‘‘

    یار نجو مرگئی یہی سچ ہے۔ اب جیتے جی اسے کیسے ماردوں۔ کون ہے اس کا؟ کس لائق ہوں میں بتا۔ میری زندگی کا کیا بھروسہ؟ تو تو سب کچھ جانتا ہے۔ اس کا نکاح طے کر دیا ہے۔ اس پیسے سے اس کے ہاتھ پیلے ہوجائیں تو اپنے کرموں کی سزا چین سے بھوگ لوں گا۔ اس نے اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کو پھر ان کے آگے جوڑ دیا اور روتے ہوئے بولا ’’ معاف کردے یار مجھے۔‘‘

    ان کے ہاتھ اور قدم ڈھیلے پڑ گئے۔ قینچی جھلنگے پلنگ پر پھینک کر پسینہ پونچھتے ہوئے یہ کمرے سے باہر نکل گئے۔ زینہ کی آخری سیڑھی تک مجھے اس کے سسکنے کی آواز آتی رہی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے