Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف کی بیوی

کوثر چاند پوری

مصنف کی بیوی

کوثر چاند پوری

MORE BYکوثر چاند پوری

    (۱)

    حسن، جس وقت الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری لے کر نکلا ہے، اس کی عمر ۲۴ سال سے زیادہ نہ تھی۔ اس کم عمری میں جو حیرت انگیز ترقی اس نے کی اس کا واحد سبب صرف حسن کی کوہ وقار طبیعت اور اس کا غیر متزلزل عزم و ارادہ تھا۔ وہ اس عمر میں نہ صرف ایم اے کر چکا تھا بلکہ چند مقبول عام کتابوں کا مصنف بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کا تعلیم یافتہ طبقہ ’’حسن‘‘ سے اچھی طرح روشناس ہو چکا تھا۔

    حسن خوبصورت تھا، خوش اخلاق تھا اور اس کے ساتھ ہی مغربی تہذیب و تمدن کا حقیقی پرستار۔

    مسئلہ ازدواج کے متعلق اس کی رائے نہایت آزاد تھی۔ خاندان کے اندر شادی کرنے کا رواج جو اسلامی حلقوں میں بکثرت رائج ہے، اس کو ’’حسن‘‘ ہمیشہ بری نظر سے دیکھتا تھا۔ اس معاملہ میں اس کا خیال تھا کہ ’’حیات مشترک‘‘ کا فیصلہ کرتے وقت ایک نوجوان کو قطعاً آزاد ہونا چاہیے تاکہ اپنی خواہشات کے عین مطابق وہ اپنی ’’رفیقہ حیات‘‘ کا انتخاب کر سکے۔

    حسن کے والدین زندہ تھے اور اس کے تمام علمی مشاغل کو اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔ مگر حسن کی آزادی اور مغربی معاشرت سے ان کو حد درجہ نفرت تھی۔ یہ نفرت اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب حسن نے اپنے والد اور والدہ دونوں کے خلاف منشاء خاندان کے باہر ایک میم صفت لڑکی سے عقد کر لیا۔ ان کی دلی تمنا تھی اور شاید بہت مناسب کہ اس کی چچازاد بہن ’’حمیدہ‘‘ جو طبعاً نیک اور سلیقہ شعار تھی، اس کے علاوہ یتیم اور یسیر ہونے کے باعث حسن کے والد ’’مولوی حسین احمد‘‘ کی سرپرستی میں پرورش پا رہی تھی وہ اس کے نکاح میں آئے اور اس طرح ان کے مرحوم بھائی کی آخری وصیت پوری ہو، مگر ’’حسن‘‘ کو ’’حمیدہ‘‘ سے باوجود اس کے ذاتی حسن و جمال کے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔

    اس نے حمیدہ کو کبھی اس نگاہ سے نہیں دیکھا کہ وہ اس کی بیوی ہونے کے قابل ہے یا نہیں۔ حسن کو حمیدہ سے جو تھوڑا بہت تعلق تھا وہ محض اس وجہ سے کہ حمیدہ اس کے مرحوم چچا کی لڑکی تھی اور غالباً اسی بنا پر اس نے کبھی حمیدہ کی دل آزاری گوارا نہیں کی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنے نظریہ ازدواج کو تبدیل نہ کر سکا۔ شاید مغربی تہذیب کا ابر جو اس کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا اس کا یہ اقتضا نہ تھا کہ وہ اس کے دل میں اس عظیم الشان ایثار کا خیال پیدا ہونے دیتا۔

    حمیدہ حسن کے ساتھ اس وقت تک، کہ حسن نے اپنی شادی خود نہ کرلی وہی توقعات وابستہ رکھنا مناسب سمجھتی تھی جو ایک مشرقی سنجیدہ و شریف عورت اپنے آئندہ ہونے والے شوہر سے رکھ سکتی ہے، مگر اس کی یہ محبت بالکل سادہ اور بے لوث تھی۔ وہ کسی رات کی تاریکی اور تنہائی میں یہ فیصلہ نہ کر سکی کہ میں حسن کو کیوں محبوب خیال کرتی ہوں، لیکن حسن، سخت دل حسن کو بھی کبھی یہ محسوس کرنے کا موقع نہ ملا کہ حمیدہ کو میری ذات سے کچھ امیدیں ہیں۔

    حسن جب اپنی نوعروس کو شادی کے بعد گھر لایا تو اس کی خدمت میں سب سے زیادہ حصہ حمیدہ نے لیا، اگرچہ اس کی بھاوج ایسی خادمہ چاہتی تھی جو اس کی افتاد مزاج کے موافق ہو اور بالکل جدید اصول کار سے اس کی خدمت کرسکے۔ لیکن اجنبی ہونے کی حیثیت سے اس نے ابھی اس خواہش کو پوشیدہ رکھا۔

    حسن کی بیوی نے ایف۔ اے۔ تک انگریزی تعلیم پائی تھی۔ اس لیے اس کا آزادی کی طرف مائل ہونا ایک قدرتی اور طبعی امر تھا، جو کسی طرح چھپ نہ سکتا تھا۔ چنانچہ شادی کے ایک ہفتہ بعد ہی سے اس نے حسن کی اجازت سے جلسوں اور کلب کی ٹی پارٹیوں میں آزادانہ حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس کا معمول ہوگیا کہ وہ روزانہ ۵ بجے زنانہ کلب پہنچ جاتی اور رات کے آٹھ نو بجے تک گھر واپس آتی۔ ان گھنٹوں کے علاوہ جو اوقات اس کے پاس بچتے وہ یا تو انگریزی ناولوں کے پڑھنے میں صرف ہوتے یا ضروری خط و کتابت میں۔ وہ چونکہ زنانہ کلب اٹاوہ کی ’’سکریٹری‘‘ تھی، اس لیے اس کو ڈاک کا کام بہت کرنا پڑتا تھا۔

    حمیدہ کی بھاوج نے اس سے بھی کئی مرتبہ اپنے ساتھ چل کر نسوانی جلسوں اور کلب کے صحت بخش کھیلوں میں حصہ ینے کو کہا۔ حمیدہ نے ہر مرتبہ اپنے سخت انکار سے بالآخر اس کی زبان بند کر دی۔

    گھر کے تمام چھوٹے بڑے سوائے ایک حسن کے ’’حبیبہ‘‘ یعنی مسز حسن کی اس انگریزیت سے سخت نالاں تھے۔ مگر ابھی اس معاملہ میں انھوں نے دخل دینا مناسب نہ سمجھا تھا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ حسن بیوی کے جذبات محبت سے اس درجہ مغلوب ہے کہ بیوی کی مخالفت میں کوئی لفظ بھی کسی کی زبان سے سننا پسند نہ کرےگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ ان سب باتوں کو خود اسی پرچھوڑ دیا جائے۔

    (۲)

    حسن فکر معاش سے بالکل آزاد تھا۔ اول تو اس کے والد خود متمول زمیندار تھے، دوسرے حسن کا ذاتی سرمایہ جو ایک لاکھ کے قریب تھا، بینک میں جمع تھا اور اس کے نانا نے محض حسن کی تعلیم و تربیت اور اس کی ضروریات حیات کے لیے مخصوص کرکے مرنے سے پہلے بینک میں داخل کر دیا تھا جس کی ماہانہ آمدنی اس کے مصارف کی اچھی طرح متکفل ہو سکتی تھی۔ اس لیے حسن کو ملازمت کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ وہ صرف اس کا ملازم تھا کہ جب تک گھر پر رہے بیوی کی نازبرداریاں کرتا رہے اورجب باہر جائے تو پولو، کرکٹ، ہاکی وغیرہ میں مشغول ہو جائے یا کوئی مضمون لکھ کر انگریزی اخبارات میں بھیج دے یا اپنی لائبریری میں بیٹھ کر کسی کتاب کے لیے مواد جمع کرے۔

    ۱۹۱۱ء میں اس کی تصنیف ’’فلسفہ موت و حیات‘‘ کے نام سے شائع ہوئی جو ہندوستان کے علاوہ لندن اور امریکہ میں بھی بےحد مقبول ہوئی اور جس کی اشاعت کے بعد ’’حسن‘‘ ’’رائل ایشیاٹک سوسائٹی‘‘ کے ممبروں میں شامل کر لیا گیا تھا۔ جب اس نے اپنی کتاب کی مقبولیت کا یہ عالم دیکھا تو اس کے دماغ میں امیدوں، حوصلوں کی ایک نئی دنیا آباد ہو گئی۔ اس نے سمجھ لیا کہ ’’تصنیف و تالیف‘‘ کو چھوڑ کر میرے لیے کوئی میدان اس قدر وسیع نہیں کہ میری حوصلہ افزا ترقیاں اس میں سما سکیں، اس لیے مجھے دنیا میں صرف ایک لایق اور مشغول ’’مصنف کی‘‘ حیثیت سے زندہ رہنا چاہیے۔ اس کے بعد اس نے ایک عظیم الشان تصنیف کی ابتدا کی جو اپنے عنوان اور مضمون کے اعتبار سے بالکل نئی اور نہایت معرکہ الآرا تھی مگر مصیبت یہ تھی کہ حسن کے پاس کتابوں کا کافی ذخیرہ نہ تھا اور وہ اس مقصد کے لیے مشرقی کتابوں کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی کتب خانوں سیر بھی کرنا چاہتا تھا۔

    ایک روز وہ اسی فکر میں اپنے کمرہ کے اندر تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی بیوی کلب گئی تھی۔ حسن کی نگاہیں میز پر پھیلے ہوئے کاغذات پر جمی ہوئی تھیں اور اس کے تخیلات دماغ کی تمام گہرائیوں میں دوڑ رہے تھے۔ ’’حمیدہ‘‘ نے کمرہ میں داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ حسن نے سر اٹھاکر بہت نرم لہجے میں کہا، ’’آؤ حمیدہ آؤ۔‘‘ حمیدہ نہایت ادب سے سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گئی۔ حسن نے پھر سر جھکا لیا اور تھوڑی دیر کے لیے ’’حمیدہ‘‘ کو بالکل بھول گیا۔ آخر حمیدہ نے خود ہی اس کے استغراق کو ختم کرنے کی نیت سے پوچھا، بھائی جان آج آپ کس فکر میں ہیں۔

    حسن۔ حمیدہ بہن! میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں، جس کا نام ہے ’’فلسفۂ تخلیق عالم‘‘ مگر جس پیمانہ پر میں اس کو لکھنا چاہتا ہوں اس کے مناسب حال کتابیں مہیا نہیں ہیں۔ پس یہی فکر ہے کہ کسی طرح کتابیں جمع کرکے جلد از جلد اس کتاب کو مکمل کر لوں۔

    حمیدہ۔ بھائی جان یہ تو کوئی بات نہیں۔ کتابوں کی خریداری میں لاکھ دو لاکھ تو صرف ہونے سے رہے۔ دو چار سو روپیہ میں بہت سی کتابیں خریدی جا سکتی ہیں۔

    حسن۔ نہیں بہن! تمہیں معلوم نہیں مجھے جن کتابوں کی ضرورت ہے وہ ہندوستان تو کیا یورپ اور امریکہ کے عام کتب خانوں میں بھی دستیاب نہیں ہو سکتیں۔

    حمیدہ۔ تو پھر کہاں ملیں گی؟

    حسن۔ غالباً لندن کی مشہور عالم لائبریری ’’برٹش میوزیم‘‘ میں۔

    حمیدہ۔ پھر آپ کو کس طرح ملیں گی؟

    حسن۔ یہی فکر تو ہے۔ میں چاہتا ہوں چھ سات مہینے کے لیے لندن جاکر اس کام کو پورا کروں۔ بعض احباب بھی جو آج کل وہاں مقیم ہیں بہت اصرار کے ساتھ بلا رہے ہیں۔ میری بھی عرصہ سے تمنا ہے کہ دنیا کے اس رفیع الشان دارالسلطنت کو دیکھوں جو علمی و عملی ترقیوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور جس نے فلسفہ و سائنس کی روشنی دنیا میں پھیلاکر تمام علمی سوسائٹیوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔

    حمیدہ۔ (پریشان ہوکر) یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اباجان کیونکر اجازت دیں گے۔ بھائی جان سنا ہے وہاں تو فرنگی ہی فرنگی آباد ہیں۔ آخر آپ کا جی کیسے لگےگا۔ آپ تو یہیں کتابیں منگا لیجیے۔

    حسن۔ اس میں تو شک نہیں کہ وہ انگریزوں کی آبادی ہے اور وہاں انگریز بہت ہیں لیکن ہندوستانی لوگ بھی بکثرت وہاں جاتے ہیں اور برسوں قیام کرتے ہیں۔ میرے بھی چند احباب آکسفورڈ میں تعلیم پا رہے ہیں، تم طبیعت کے گھبرانے کا خیال کرتی ہو مگر وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں جاکر پریشان بھی دلجمعی کی دولت حاصل کر لیتے ہیں۔ رہا اباجان کی اجازت کا سوال تو یہ کوئی مشکل کام نہیں اور پھر میرے کام ان کی اجازت کے بغیر رک بھی تو نہیں سکتے۔

    حمیدہ جواب میں کچھ کہنا چاہتی تھی کہ حسن کی بیوی آ گئی۔ حمیدہ نے حسن سے سلسلہ گفتگو منقطع کرکے ’’حبیبہ‘‘ کی طرف توجہ کی اور حسن نے اس سے جو کچھ کہا تھا، اس نے وہ سب ’’حبیبہ‘‘ سے کہہ دیا۔ اسے امید تھی کہ اس کی بھاوج اپنے شوہر کے ارادہ سفر کو معلوم کرکے نسوانی فطرت کے ماتحت متوحش ہو جائےگی مگر یہ محض اس کا خیال تھا۔ ’’حبیبہ‘‘ نے پریشان ہونے کے بجائے نہایت بےپروائی سے کہا، پھر اچھا تو ہے تمہیں تعجب کیوں ہے اور تم ملول کیوں ہو؟

    حمیدہ۔ صرف اس لیے کہ بھائی جان کی اس قدر طویل غیرحاضری اماں ابا کو کس طرح گوارا ہوگی۔

    حبیبہ۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ دوسروں کے لیے انسان اپنے ارادوں کو ملتوی کر دے۔

    حمیدہ۔ بھابی جان کیا والدین بھی دوسروں میں شامل ہیں؟

    حبیبہ۔ تم والدین ہی کو کہتی ہو، میں تو اپنے ضمیر اور وجود کے علاوہ سب کو غیر سمجھتی ہوں۔ بلکہ سچ پوچھو تو انسان کے لیے یہ دعویٰ کرنا بھی مشکل ہے کہ ضمیر اس کا ہے، بسااوقات ہمارے ضمیر کے مابین بھی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ ایسی حالت میں یا تو ہم ضمیر فروش بن جاتے ہیں یا اس پر اپنا اقتدار قایم رکھ کر دین و دنیا میں سرخروئی حاصل کرتے ہیں۔ اب تو شاید تمہاری سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ والدین بھی ’’غیروں‘‘ کی فہرست میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔

    حمیدہ۔ بھاوج کی اس دل خراش تقریر کو اپنے فطری تاثرات کی بنا پر زیادہ نہ بڑھا سکی اور آزردہ ہوکر بھاوج کے پاس سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ حسن جو اب تک خاموشی سے باتیں سن رہا تھا حمیدہ کے دفعتاً اٹھ جانے سے ذرا دلگیر ہوا اور اس نے حبیبہ سے کہا، ’’تم نے حمیدہ کو فضول رنجیدہ کیا۔‘‘

    حبیبہ۔ اصول کی بات تھی، اس میں کوئی ناراض ہو جائے تو وہ جانے، میں اس کی ذمہ دار نہیں ہوں۔ حبیبہ یہ کہہ کر کپڑے بدلنے چلی گئی اور حسن اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

    (۳)

    موسم سرما کا شباب ہے۔ سردی زورں پر ہے۔ فضائے کائنات کا ہر ذی حیات شدت برودت کامقابلہ کرتے کرتے تھک گیا ہے۔ غربا کے لیے تو یہ زمانہ پیام اذیت و کلفت کا حکم رکھتا ہے، مگر امراء جو اپنے لذائذ عیش و مسرت کی تکمیل کے لیے اس موسم کے منتظر رہتے ہیں، اپنے سامان امارت کی نمایش میں مصروف ہیں۔

    حسن کی والدہ نے گھر بھر کے واسطے سردی کے گرم کپڑے تیار کروائے ہیں مگر حسن کی بیوی نے سب سے جدا، اپنی طبیعت کے موافق غیر معمولی رقم صرف کرکے سیاہ رنگ کا ایک خوبصورت چسٹر تیار کرایا ہے، جس کو وہ نہایت شوق سے پہنتی ہے مگر گھر کے تمام چھوٹے بڑے جو بالکل اسلامی اور مشرقی زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں، جس وقت یہ چسٹر حبیبہ کے بدن پر دیکھتے ہیں تو شرم و غیرت سے ان کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔

    یہ دسمبر ۱۹۱۹ کی ان تاریخوں کا ذکر ہے جب حسن اپنی بیوی کے مشورے اور تائید سے لندن جانے کا ارادہ کر چکا تھا اور حسن اتفاق سے اسی مہینہ کی ابتدائی ایام میں اس کے ایک قریبی عزیز کی شادی کا زور شور سے انتظام ہو رہا تھا اور ۱۰ دسمبر شادی کے لیے مقرر بھی ہو گئی تھی۔ حسن کے والد تو پہلی ہی تاریخ کو شادی کے انتظامات میں شریک ہونے کی غرض سے آگرہ چلے گئے تھے اور حسن کی والدہ سے کہہ گئے تھے کہ میرے تار کا انتظار کرنا، جس وقت تار پہنچے فوراً سب کو لے کر آگرے آجانا۔ چنانچہ ۵ دسمبر کو انہوں نے حسن کے نام اس مضمون کا تار دیا کہ تم فوراً اپنی والدہ، بہن، بیوی کو لے کر آگرے پہنچو۔

    حسن نے تار کھول کر پہلے خود پڑھا، پھر اپنی والدہ کو سنایا اور کہا چلنے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

    بیٹا میری کیا رائے ہو سکتی ہے جب تمہارے والد بلاتے ہیں تو ضرور چلنا چاہیے۔ اگرچہ کپڑے پورے طور پر تیار نہیں ہوئے مگر اس کا خیال نہ کرنا چاہیے کیونکہ تاریخ قریب آ گئی ہے۔

    حسن۔ یہ صحیح ہے، لیکن میں اس مہینہ کی ۲۵ تاریخ کو لندن جانے کا ارادہ کر چکا ہوں۔ والد صاحب کو آج تار سے اطلاع دے دوں گا، اگر میں آپ کے ساتھ نہ چلوں تو کیا کوئی حرج ہے؟

    حسن کی والدہ یہ سن کر حیران ہو گئیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مگر وہ حسن کی عادت سے واقف تھیں۔ اس لیے انہوں نے ضروری باتیں دریافت کرکے صرف اتنا کہا کہ تم ہم سب کو آگرے پہنچا آؤ۔ کیونکہ ہمارا تنہا کسی غیر کے ساتھ جانا نامناسب ہے۔ وہاں اپنے والد سے رائے لے کر جو جی میں آئے وہ کرنا۔ تمہارے خلاف کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔

    حسن۔ ہاں، ۱۵ تک اگر مجھے واپس کر دیا جائے تو میں آگرے چل سکتا ہوں۔ ابھی اتنا وقت ہے۔ اگر وہاں لوگوں نے زیادہ قیام کے لیے زور دیا تو مجھے ناگوار ہوگا اور آپس میں بدمزگی ہوگی، اس کا خیال آپ ضرور رکھیےگا۔

    اس کے بعد حسن کی والد نے حبیبہ سے کہا کہ تم آج شام تک آگرہ چلنے کے لیے تیار ہو جاؤ مگر حبیبہ نے اس عذر کے ساتھ صاف انکار کر دیا، ’’چونکہ میرے کلب کی تیسری سال گرہ انھیں تاریخوں میں منائی جانے والی ہے اور خود میں نے ہی اس کام کے لیے یہ تاریخیں مقرر کی ہیں، اس لیے میرا آگرہ چلنا ناممکن ہے۔ آپ تشریف لے جائیے، میں تو ویسے ہی اس قسم کی تقریبوں میں شریک ہونے کی عادی نہیں ہوں۔‘‘

    حسن کی والدہ کو ’’حبیبہ‘‘ کا یہ انکار بہت ناگوار ہوا۔ لیکن اس موقع پر انھوں نے کسی سے کچھ نہ کہا اور خود ’’حمیدہ‘‘ اور حسن کے ہمراہ شام کی گاڑی سے آگرے روانہ ہو گئیں۔

    (۴)

    شادی سے فارغ ہوکر سب لوگ اٹاوہ واپس آ گئے۔ حسین احمد صاحب نے حسن کو لندن جانے کے متعلق کوئی رائے نہیں دی ہے مگر ان کے جذبات غضب کافی طور پر بھڑک گئے ہیں اور بیٹے، بہو کی مطلق العنانی نے ان کو رنج و غضب کی انتہائی منزل پر پہنچا دیا ہے۔

    آج حسن کو بلاکر حسین احمد نے اس سے نہایت سخت گفتگو کی اور حسن کے سامنے اپنے دل کے تمام وہ زخم کھول کر رکھ دیے جو حسن کی بیوی اور خود حسن کی خودسری سے اب تک پہنچ چکے تھے۔ زبان سے جو کچھ کہا جا سکتا تھا، انھوں نے اپنی عادت کے خلاف آج کہہ ہی دیا۔ وہ پہلے سمجھ چکے تھے کہ آج اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے اور ایسی نافرمان اولاد سے بھی ہاتھ دھو لیں گے۔

    حسن نے باپ کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ دل کے بخارات دل میں لیے وہ اندر چلا گیا۔ تھوری دیر توقف کرنے کے بعد حسین احمد نے حسن کے نام یہ پرچہ لکھ کر ’’حمیدہ‘‘ کے ہاتھ سے پہنچا دیا۔

    حسن تم کو اور تمہاری بیوی کو اب میں ایک منٹ کے لیے بھی اپنے گھر میں نہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اجازت دیتا ہوں کہ بینک کے سرمایہ کو تم اپنے قبضہ میں لاکر جہاں مزاج چاہے، صرف کرو۔ میں کوئی تعرض نہ کروں گا نہ مجھ کو اس کا حق ہے۔ حسین احمد۔

    حسن نے خط پڑھا اور تھوڑی دیر غور کرکے بیوی سے کہا، ایک گھنٹہ کے اندر اپنا تمام سامان میرے باہر والے مکان میں منتقل کرنے کا انتظام کر لو۔ حبیبہ نے چند ملازموں کے ذریعہ سامان بہت جلد باہر والے مکان میں رکھ دیا اور حسن کے کہنے پر خود بھی وہاں چلی گئی۔

    (۵)

    حسن حسب قرارداد ۲۵ دسمبر کو لندن روانہ ہو چکا ہے اور کل شام کو اس کے خیریت سے لندن پہنچ جانے کا تار بھی حبیبہ کو وصول ہو گیا ہے۔ حبیبہ اب خود مختار ہے۔ گھر کی تنہا مالک ہے۔ اس کو نہ خسر کی تیز نگاہوں کا خوف ہے نہ ساس کی مشفقانہ تنبیہات کا ڈر۔ تین عورتیں اندر کام کرنے کے لیے اس کی خدمت میں رہتی ہیں اور ایک ملازم باہر کی ضروریات کے واسطے۔

    آج ’’حبیبہ‘‘ کو اس کی محبوب اور عرصہ کی چھوٹی ہوئی سہلی ’’کنیزہ‘‘ کا تار کلکتہ سے آیا ہوا ملا ہے۔ اس نے حبیبہ کو اپنے اکلوتے بچے ’’سعید‘‘ کی ایک تقریب میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے اور آخر جنوری تک اس کو طلب کیا ہے۔

    اول تو ’’کنیزہ‘‘ کا تار پھر وہ بھی ’’سعید‘‘ کی خوشی کی اطلاع میں، حبیبہ کے لیے معمولی بات نہ تھی۔ وہ سراپا شوق بن گئی۔ اشتیاق بے حد کا اقتضا تو یہ تھا کہ ’’حبیبہ‘‘ کسی طرح پر لگاکر اڑ جائے لیکن چونکہ کلکتہ جانے کے لیے کچھ تیاری کی بھی ضرورت تھی، اس لیے اس نے سرگرمی سے سفر کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس نے کلب میں شریک ہونے والی واقف کار لڑکیوں سے کلکتہ کے موسمی اور ضروری حالات معلوم کرکے بہت جلد اپنا سامان سفر درست کر لیا۔

    آخر وہ دن بھی آ گیا جس کو حبیبہ نے اپنی روانگی کے لیے مقرر کیا تھا اور وہ اپنی ماماؤں اور ملازم کو مکان کی حفاظت و نگہبانی کی ہدایت کرکے اسٹیشن پہنچ گئی۔ اسٹیشن سے اس نے ’’حسن‘‘ کو تار دیا کہ میں ایک ضرورت سے کلکتہ جا رہی ہوں۔ وہاں سے مفصل خط لکھوں گی اور کلکتہ جانے والی میل میں بیٹھ کر مع اپنی ایک ملازمہ کے روانہ ہو گئی۔

    ’’حبیبہ‘‘ کو اثنائے سفر میں تکلیف تو ضرور ہوئی لیکن کنیزہ سے ملنے کی خوشی میں وہ اس تکلیف کو فراخ حوصلگی سے برداشت کرتی ہوئی دوسرے روز کلکتہ اسٹیشن پر جا اتری۔ وہ حیران ہوکر پلیٹ فارم کے سب حصوں کو غور سے دیکھنے لگی مگر دیر تک اس کو کوئی ایسی ہستی نظر نہ آئی جسے وہ اپنی خاموش اور مشتاق نگاہوں سے تلاش کر رہی تھی۔ حبیبہ اسی حالت میں ایک جگہ بت بنی کھڑی تھی کہ اس کو پیچھے سے آکر کسی نے ہلایا اور وہ ’’پیاری کنیزہ‘‘ کہہ کر اس سے لپٹ گئی۔ کنیزہ نے جلدی میں خاص خاص باتیں دریافت کیں اور آدمیوں سے سامان اٹھواکر ’’حبیبہ‘‘ کو اپنے ساتھ لے چلی۔ پلیٹ فارم کے باہر ’’کنیزہ‘‘ کے بھائی ’’رفیق‘‘ نے ایک عمدہ فٹن تیار کر رکھی تھی۔ کنیزہ نے پہلے اپنے بھائی کا حبیبہ سے تعارف کرایا، پھر سب بیٹھ کر گھر کی طرف چل دیے۔

    (۶)

    حسن کو لندن آئے ڈیڑھ مہینہ گزر چکا ہے اور وہ ’’آکسفورڈ‘‘ میں اپنے ایک متعلم دوست کے پاس قیام پذیر ہے۔ روزانہ صبح ۶ بجے ۶۹ میل کی مسافت طے کرکے ’’برٹش میوزم‘‘ میں پہنچ کر اپنی کتاب کے متعلق ضروری معلومات حاصل کرتا ہے اور شام کو پھر ’’آکسفورڈ‘‘ واپس آ جاتا ہے۔ آج اس کے سر میں درد تھا، اس لیے اس نے ’’میوزیم‘‘ جانا ملتوی کر دیا۔ وہ آنکھیں بند کیے پلنگ پر لیٹا تھا، ملازم نے آکر ایک تار اس کے ہاتھ میں دیا۔ یہ تار حبیبہ کا تھا جو اس نے اسٹیشن اٹاوہ سے حسن کے نام دیا تھا۔ حسن نے تار پڑھا اور حبیبہ کے اس طرح کلکتہ جانے پر اس کو حیرانی سی ہو گئی۔ لیکن پھر اس نے خیال کیا کہ ابھی اس باب میں کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے۔ کچھ دنوں میں خود حبیبہ ہی اپنے خط سے معاملہ صاف کر دےگی۔ اس خیال سے اسے قدرے تسکین ہوئی۔ لیکن دل میں الجھن ضرور پیدا ہو گئی جو کسی صورت سے رفع ہونے ہی میں نہ آتی تھی۔ یہ دن گزار کر وہ پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ اب اس کی کتاب میں بہت تھوری کمی باقی رہ گئی تھی اور اس کا ارادہ تھا کہ مارچ تک ہندوستان واپس ہو جائے۔

    حبیبہ کا تار آئے ہوئے کئی ہفتہ گزر چکے ہیں مگر خط، جس کا اس نے وعدہ کیا تھا، ابھی تک حسن کو نہیں ملا۔ حسن اب زیادہ پریشان ہو گیا۔ اس نے اس پریشانی میں ہمت کرکے اپنے والد سے بذریعہ تار دریافت کیا کہ ’’حبیبہ‘‘ کلکتہ سے واپس آئی یا نہیں؟ حسن کے والد نے تار کا جواب دیا کہ ’’حبیبہ‘‘ کے متعلق ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنے گھر نہیں۔ یہ جواب پاکر حسن کی عجیب حالت ہو گئی۔ کتاب کا مکمل کرنا اس کے لیے دشوار ہو گیا اور وہ اس کو درمیان ہی میں چھوڑ کر ہندوستان آنے پر آمادہ ہو گیا۔ ہر چند اس کے احباب نے اس سے کہا کہ ابھی تھوڑا توقف کرو ہم سب ساتھ ہی چلیں گے مگر اس نے ایک نہ مانی اور فروری کے آخری دنوں میں لندن سے وطن کی جانب روانہ ہو گیا۔

    (۷)

    حبیبہ کو کلکتہ آئے قریب قریب ایک مہینہ ہو گیا مگر اس کو یہاں کی پرلطف صحبتیں کچھ ایسی پسند آئی ہیں کہ وہ سب کچھ اپنے دل و دماغ سے محو کر چکی۔ نہ تو اس نے ’’حسن‘‘ کو اس طویل عرصہ میں کوئی خط لکھا نہ ایک منٹ کے لیے ’’حسن‘‘ کی یاد نے اس کے ذہن میں گنجایش حاصل کی۔ اس کو یہاں سب سے زیادہ چیز جو پسند آئی ہے وہ کنیزہ کے بھائی ’’رفیق‘‘ کی دلکش صورت اور اس کی ساحرانہ تقریر اور معجز نما انداز تکلم ہے۔ وہ اپنا سارا دن اسی ’’صحیفہ حسن‘‘ کے مطالعہ میں صرف کر دیتی ہے مگر اس کی نگاہیں ہنوز تشنہ دیدار رہتی ہیں۔ رفیق بھی حبیبہ کی طرف معمول سے زیادہ متوجہ ہے اور دونوں میں بےتکلفی بھی اچھی طرح ہو گئی ہے۔

    رفیق ایک نیچری خیال کا آدمی ہے۔ وہ جس قدر خوبصورت ہے اس سے زیادہ ذوق معصیت و جذبات بہیمیت کا پرستار ہے۔ وہ ہمیشہ سے ایسی مجالس میں بیٹھنے کا عادی ہے جہاں تہذیب و متانت کے مقابلہ میں بدتہذیبی و بےحیائی کا عنصر غالب ہو۔ اس نے کئی مرتبہ ’’حبیبہ‘‘ کو بھی اس قسم کی محفلوں میں شریک کیا۔ اول اول تو حبیبہ کو برا معلوم ہوا اور اس نے بارہا فیصلہ کیا کہ اب رفیق کے ہمراہ کسی جلسہ میں نہ جائےگی اور اگر وہ استدعا کرےگا تو سختی سے جواب دےگی لیکن جب ’’رفیق‘‘ اپنے مخصوص اور سامعہ نواز لہجہ میں اس سے التجا کرتا، ایسی التجا جو ’’حبیبہ‘‘ کی نظر میں تمام کمالات موسیقی سے معمور ہوتی تو حبیبہ جلد ہی اپنا فیصلہ مسترد کر دیتی اور ’’رفیق‘‘ کی ہلاکت آمیز التجا پر توجہ کرنا اس کے لیے ناگزیر ہو جاتا۔

    ’’رفیق‘‘ چونکہ موسیقی میں قابل رشک مہارت رکھتا تھا اور اس نے رفتہ رفتہ حبیبہ کو بھی اپنی موسیقی پر مائل کر لیا تھا۔ اس نے ایک بار نہیں متعدد بار ’’حبیبہ‘‘ کو ’’رفیق‘‘ کے نغمہ دلنواز کو سننے کے شوق میں ایسی حیاسوز پارٹیوں میں شرکت کی کہ اگر غلبہ محبت نے اس کے دل میں کچھ بھی احساس غیرت و حمیت باقی رکھا ہوتا تو وہ کبھی رفیق سے بات کرنا بھی گوارا نہ کرتی، لیکن عشق و الفت کے بھڑکتے ہوئے شعلوں نے اس نوع کے تمام حسیات کو تو دہ خاکستر بنا دیا تھا، اس لیے اب حبیبہ کو ان باتوں کا خیال ہی نہ ہوتا تھا۔

    ’’حبیبہ‘‘ کی حیات معاشقہ کا یہ غیرمعتدل دور برابر بڑھتا جا رہا تھا۔ اسے ’’رفیق‘‘ کے ساتھ تنہائی میں فلسفہ ’’عشق و حسن‘‘ پر گفتگو کرنے کے متعدد موقعے حاصل ہو چکے تھے۔ یہاں تک کہ ’’کنیزہ‘‘ بھی اس کی اس حرکت پر نفرت و آزردگی کا اظہار کر چکی تھی۔ لیکن حبیبہ تو اب وہ حبیبہ ہی نہیں تھی جو ان باتوں سے کچھ متاثر ہو سکتی۔

    جب ’’حبیبہ‘‘ کے نسوانی جذبات نے ردائے عصمت و عفت کو پارہ پارہ کرکے عریانی کی طرف بڑھنے کا اقدام کرنا چاہا تو ’’کنیزہ‘‘ نے وقت سے پہلے یا کم از کم وقت پر اسے محسوس کر لیا اور اس نے ’’حبیبہ‘‘ کو سمجھاکر اٹاوہ واپس ہونے پر مجبور کر دیا۔

    ’’حبیبہ‘‘ بھی میزبان کی اس ظاہری بداخلاقی سے اثرپذیر ہوئی اور اسی روز رات کی گاڑی سے واپسی کا ارادہ کر لیا۔ ’’کنیزہ‘‘ نے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر نہایت خوشی سے اس کے جانے کا انتظام کر دیا۔ چنانچہ رات کے آٹھ بجے کی گاڑی سے وہ اٹاوہ کی طرف روانہ ہو گئی۔

    کنیزہ حبیبہ کو رخصت کرکے جب گھر آئی اور اس نے رفیق کو وہاں نہ پایا تو بہت مضطرب ہوئی اور جس وقت واقعات نے اس کے اس گمان کو ’’کہ رفیق حبیبہ کے ہمراہ چلا گیا‘‘ یقین میں بدل دیا تو اس کی حیرت اور ملال کی کوئی انتہا نہ تھی۔

    (۸)

    حسن پندرہ روز سے اٹاوہ میں مقیم ہے۔ حبیبہ کے نام کلکتہ کئی تار دیے جا چکے ہیں، خطوط تو تقریباً روزانہ ہی لکھے جاتے ہیں مگر اب تک کسی تار یا خط کا جواب موصول نہیں ہوا۔ دن پر دن اور ہفتوں پر ہفتے گزرتے جا رہے ہیں لیکن حبیبہ کے متعلق کوئی خبر معلوم نہیں ہوئی۔ بالآخر مجبور ہوکر ایک وفادار خادم کو کلکتہ بھیجا گیا۔ مگر پتہ صحیح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی ناکام واپس آیا۔ اخبارات میں اشتہار دیے گئے مگر اس پر بھی کچھ پتہ نہ چلا۔ ایک مہینہ بعد انگریزی کے ایک اخبار میں ’’حسن‘‘ نے اس خبر کو انتہائی رنج و الم کے ساتھ پڑھا کہ،

    امرتسر ریلوے پولیس نے ایک نوجوان خوبصورت مرد اور ایک عورت کو گرفتار کیا ہے جو شراب کے نشہ میں بدمست تھے اور بعض خلاف قانون حرکات کے مرتکب۔ مرد کا نام رفیق، عورت کا حبیبہ ہے۔ مرد کلکتہ کا اور عورت اٹاوہ کی رہنے والی ہے۔ ان سب باتوں کا صحیح حال ان کے بکسوں اور خطوں کی تحریروں سے معلوم ہوا ہے۔ یہ دونوں تعلیم یافتہ ہیں اور شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعد کی خبر ہے کہ ان کا مقدمہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا اور عورت کو دوماہ اور مرد کو ایک ماہ کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا۔

    اس خبر کے پڑھتے ہی ’’حسن‘‘ پر ایک سکتہ طاری ہو گیا۔ اس کے دماغ میں تعطل و پراگندگی کے آثار نمایاں ہو گئے۔ اس کی رگوں میں شرافت و نجابت کا خون کھولنے لگا اور اس پر ایک مجنونانہ کیفیت مسلط ہو گئی۔ اس نے طمنچہ اٹھاکر اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہا مگر خیریت ہوئی کہ کمرہ بھر میں کہیں کارتوس نہ ملا۔ حسن کے والد کواس کی اطلاع ہوئی تو ان کے تمام عہد و پیمان سراب الفت کے سخت تھپیڑوں سے ٹوٹ کر رہ گئے اور فوراً حسن کے پاس پہنچ کر اسے سمجھانے لگے۔ حسن بے اختیار ہوکر باپ کے قدموں میں گرپڑا اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔ بار بار اس کی زبان سے نکلتا تھا کہ یہ سب آپ کی نافرمانی اور میری آزادی کا نتیجہ ہے۔

    (۹)

    اس واقعہ کو ڈیڑھ سال گزر گیا ہے۔ حسن’’حبیبہ‘‘ کو طلاق دے کر اس کا مہر ادا کر چکا ہے اور اب وہ ’’حمیدہ‘‘ ایسی غم خوار مونس رفیقہ حیات کے ساتھ عیش و آرام سے زندگی بسر کر رہا ہے۔ حمیدہ غیرمتوقع طور پر اپنی آرزو پوری ہونے کے باعث بے انتہا مسرور ہے اور اس کی عمر کا ہر لمحہ ’’حسن‘‘ کی خدمت و رضاجوئی کے اسباب کی تلاش میں گزرتا ہے۔

    حسن کے والدین بھی خوش ہیں۔ حسن اپنی سابقہ حرکات پر بےحد شرمندہ ہے اور جب وہ اپنی گزشتہ زندگی کا تصور کرکے موجودہ دور حیات پر نظر کرتا ہے تو اس کا نفس اس پر بےانتہا ملامت کرتا ہے۔ جن لوگوں کے ذہن میں حسن کا اب سے تین سال پہلے کا مجسمہ ایک آزاد و مغرب پرست جنٹلمین کی حیثیت سے محفوظ ہے، وہ اگر آج حسن کو دیکھیں تو شاید مشکل سے پہچان سکیں۔ اخبارات میں اس کے اکثر مضامین ’’مغربی کورانہ تقلید‘‘ کی مخالفت میں نکل چکے ہیں اور اس اعتبار سے اس وقت وہ اسلامی تعلیم و تہذیب کا ایک بہترین اور سرگرم مبلغ ہے۔ اکابر قوم ’’حسن‘‘ کے اس انقلاب خیال کو ملت کے لیے نیک فال تصور کرتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے