متھ
زندگی کیسے اجاڑ رنگ موسموں کے نرغے میں ہے۔نہ بہار جوبن دکھاتی ہے، نہ ساون کھل کر برستا ہے۔ حالات کی زبوں حالی ودگر گونی سے میرے خطے کی خلقت بےسمتی ہوئی جاتی ہے۔ ایک جنگل ہے، انسانوں کا جنگل، تباہ حال مجبور و لاچار انسانوں کا جنگل۔ سپاٹ چہروں، بے رنگ و نور آنکھوں والے لوگ، ظلم کی گردش نے ان کی بصیرت اور بصارت مجروح کر دی ہے۔ ایک دوسرے سے بیزار، خوفزدہ اپنے اپنے حالات کی پیدا کردہ تنہائیوں کے اسیر۔ حالات کی سنگین بے یقینی کے ہاتھوں پورا معاشرہ ایک چھیدوں بھری جھولی کے مانند ہے کہ سب کچھ مٹی میں ملتا جا رہا ہے اور اس تمام صورت حا لات کے ذمہ دار چند لوگ اپنے حالوں میں مست ٹھٹھے لگاتے اور دوسروں کو اذیت میں مبتلا دیکھ کر اطمینان قلبی محسوس کرتے ہیں۔
عصمت کچھ اردگرد کے ماحول اور بچوں کی دوری کی وجہ سے زبردست تنہائی زدہ تھی اور ایسی ہی با معنی اور بےمعنی سوچیں اسے ہراساں کیے رکھتیں۔ اسے ایسے محسوس ہوتا کہ اس کے اندر، باہر، آس پاس، ایک گہرا دبیز حبس ہے اور دم لینا دشوار ہے۔ احساسِ زیاں میں ایسی شدت ہے کہ جیسے مٹھی میں ریت تھی جو ذرہ ذرہ گرتی رہی اور آخر مٹھی کو خالی کر گئی۔ خالی مٹھی کے خیال سے عصمت کو وحشت ہوتی تھی، لیکن ذہن کی کچھ ایسی کیفیت تھی کہ:
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ لیکن پھر بھی خالی مٹھی کے تصور کے ردعمل میں اس کا ذہن مثبت سوچ میں ڈھلتا، تو وہ خود کلامی کرتی اور من کو سمجھاتی کہ یوں بھی تو ہوتا ہے، کہ سمندر کی منہ زور، مہیب اور دیو ہیکل لہر جب خشکی کی طرف بڑھتی ہے تو وہ بےشمار سیپیاں اور موتی کناروں پر بکھیر جاتی ہے۔ اب ہماری مٹھیوں میں ریت نہیں، موتی ہوں گے اور وہ لوگ جو سمندر کی ان دیو ہیکل لہروں سے بے خبر پیٹھ موڑے کھڑے ہوں گے، خود بخود ان لہروں کی نذر ہو جائیں گے۔ لیکن لُو اور حبس ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ مخلوق بے سمتی ہوئی اور لوگ باگ گواچے گواچے سے خالی نظروں سے ایک دوسرے کو تکتے تھے۔ یہی کیفیت عصمت کے دل و دماغ کی بھی تھی۔ آخر ایک روز عصمت نے اپنے حواس سمیٹے، دکھ کی نحوست کو اپنے وجود سے جھاڑا۔ ’’خود کو مصروف رکھنے کے لیے کچھ تو کرنا ہی ہوگا‘‘۔ اس نے ایمان داری سے سوچا۔
عصمت کی دونوں بیٹیاں اپنے اپنے گھروں کراچی اور امریکا میں مقیم تھیں۔ بیٹا کینیڈا میں آباد ہو چکا تھا۔ سو اتنے بھنڈار گھر میں اب فقط میاں، بیوی کا وجود تھا۔ ان میاں بیوی کے درمیان زندگی بھر کسی نہ کسی سطح پر ہم آہنگی موجود رہی تھی۔ دونوں کے درمیان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا پیمانہ لفظ ’’احترام‘‘ تھا۔ اس لفظ کے عملی استعمال سے دونوں کی زندگیوں میں ایک طمانیت اور ٹھہراو تھا، لیکن اب بچوں کی غیر موجودگی اور نظریاتی آشوب کی وجہ سے دونوں کو سناٹے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، لہٰذا دونوں خود کو ایک دوسرے کی تنہائیوں کا مجرم سمجھتے تھے۔ عصمت بچوں کی دوری کی وجہ سے تنہائی سے زیادہ مغلوب تھی۔ سو اس نے واقعتاً خود کو مصروف رکھنے کا سوچ لیا۔
موسم خوشگوار تھا۔ نومبر کا وسط تھا۔ لہٰذا اگلی صبح عصمت نے جلدی جلدی گھر کے معمول کے کام نبٹائے اورپبلک ہیلتھ کا کام کرنے والی ایک این جی او کے ڈائریکٹر سے ملاقات کی اور اپنے پاس موجود ڈھیروں وقت کا ذکر کیا۔ ڈائریکٹر نے اسے فی الوقت شہر کے دو تین ہسپتالوں میں متعدّد بیماریوں کے وارڈوں کو visit کرنے کو کہا۔ عصمت کو یہ کام دلچسپ لگا، لہٰذا اس نے اس کام کی ابتدا گلاب دیوی ہسپتال کے ٹی بی وارڈ سے کی۔ ایک عام سی کہانی کی بنت سے چند تاگے عصمت کو یوں دستیاب ہوئے۔
اگلی صبح گلاب دیوی کے ایم۔ ایس صاحب نے عصمت کے مختلف سوالات کے جوابات دیے جو مریضوں کے رہن سہن، علاج معالجے اور بیماری کی نوعیت سے متعلق تھے۔ اس کے بعد بڑے ڈاکٹر نے ایک جونیئر ڈاکٹر کو عصمت کے ہمراہ کیا تاکہ عصمت بذاتِ خود مختلف وارڈز کا دورہ کر سکے اور مریضوں سے براہ راست گفتگو کر سکے۔
ہسپتال میں حتی المقدور صفائی کا انتظام تھا۔ وارڈز مختلف تھے۔ مردوں کا وارڈ، بچوں کا وارڈ، عورتوں کا وارڈ۔ ہر وارڈ میں ٹیلی ویژن کا انتظام تھا۔ بچوں کے وارڈ میں کھیل کے لیے لڈو اور کیرم بورڈ تھے۔ صاحب حیثیت لوگوں نے اپنے ناموں کے ساتھ وارڈ تعمیر کروا رکھے تھے۔ مزید وارڈز زیر تعمیر تھے۔ عصمت بچوں کے وارڈ میں داخل ہوئی تو بچوں نے جلدی جلدی اپنے ناک اور منہ کو رومالوں سے ڈھانپ لیا۔ یہ رومال ہر بچے کے پاس پہلے سے موجود تھے اور شاید انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ جب کوئی اجنبی دیکھنے آئے تو کپڑا منہ پر رکھ لیں۔ اس منی سی دنیا کو یہ عمل کرتے دیکھ کر عصمت بےکل سی ہوئی۔ ’’یہ معصوم کیا جانیں کہ یہ کس موذی مرض کے شکنجے میں ہیں‘‘۔ عصمت نے اپنے دل سے بات کی۔ اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔
مردوں کے وارڈ میں جوان، بوڑھے سبھی زرد چہروں کے ساتھ موجود تھے۔ چہروں پر صحت یاب ہونے کی آرزو اور پھر اپنے گھروں کو لوٹ جانے کے انتظار کی کیفیت تھی۔ عصمت نے مردوں اور بچوں کے، وارڈز میں مریضوں سے دوستانہ انداز میں گفتگو کی اور یوں ہی چلتے چلتے وہ ایک کاریڈار میں سے گزری، جہاں بہت بد انتظامی اور ہنگامہ تھا۔ یہاں مریضوں کو ان کے تازہ ترین ایکسریز دیے جاتے تھے ۔ کھڑکی میں سے جب مریض کا نام پکارا جاتا تو اس کے لواحقین ہجوم کو چیرتے ہوئے کھڑکی کے پاس آتے اور چہروں پر امید و بیم کے تاثرات لیے ایکسریز تھام لیتے۔ عصمت نے بھی چند لوگوں کے ہاتھوں سے یہ ایکسریز لے کر دیکھنے کی کوشش کی۔ چند ایک تھوڑے دھندلے تھے، چند ایک زیادہ، کسی پر بڑا داغ تھا، کہیں پر چھوٹا۔ یہ بھی دل کو دکھانے والا منظر تھا۔ اس کے بعد جونیئر ڈاکٹر اسے عورتوں کے وارڈ کی جانب لے گیا اور خود معذرت کر کے اجازت چاہی۔
عورتوں کے وارڈ میں کوئی کروشیا بن رہی تھی، کوئی سویٹر، جب کہ کچھ جواں سال بچیاں کڑھائی میں مشغول تھیں۔ بظاہر یہ تمام خواتین بیمار نظر نہیں آتی تھیں، لیکن تھوڑا نزدیک جانے پہ ان کے چہروں پر کھنڈی زردی ان کے بیمار ہونے کی کھلی شہادت تھی۔ دل میں بہت کچھ سوچتے ہوئے ، چلتے چلتے عصمت ایک جگہ رک گئی۔ تقریباً بائیس چوبیس سال کی لڑکی بڑے سے موڑھے پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ اس کی لمبی چوٹی اس کی گود میں تھی اور وہ اپنے پراندے کے پُھمنوں اور پنکھوں کو ہاتھوں سے ٹٹول کر بغور دیکھ رہی تھی۔
میں ذرا بیٹھ جاؤں؟ عصمت نے قریب جاکر لڑکی کی محویت کو توڑتے ہوئے پوچھا۔ او ضرور۔ ضرور بیٹھیے ۔ لڑکی مسکراتے ہوئے اپنی جگہ سے تھوڑا سا کسمسائی اور قریب ہی سٹول پر رکھی کتاب اٹھا لی، تاکہ وہ خود یا عصمت سٹول پر بیٹھ سکیں۔ اس مسکراتی لڑکی کو عصمت نے جب بغور دیکھا، تو یوں لگا جیسے اس کی آنکھوں کے پیچھے پانی کا ذخیرہ تھا۔ مسکراتے میں یہ پانی چھلک چھلک پڑا۔ عصمت اور لڑکی کو ہمکلام ہوتے دیکھ کر ایک ادھیڑ عمر خاتون قریب آ گئیں اور اشتیاق سے عصمت کو دیکھنے لگیں۔ یہ خاتون اس جواں سال لڑکی کی ماں تھی۔
آپ کہاں سے آئی ہیں؟ بس اسی شہر سے، آپ سب سے ملنے اور باتیں کرنے، عصمت نے قدرے خوشدلی سے جواب دیا۔ لڑکی نے ماں اور عصمت کے مابین ہوتی گفتگو کو نظرانداز کرتے ہوئے ماں سے کہا ’’اماں! یہ پراندہ تو بالکل بھی اچھا نہیں بنا، نہ پھمن اچھے ہیں اور نہ ہی پنکھے، دیکھو نا پھمنوں پہ تلا کیسا ڈھیلا ہے۔‘‘ کوئی بات نہیں پرسوں آؤں گی تو دوسرا لے آؤں گی۔ ماں کے چہرے پر دلجوئی اور معذرت تھی جب کہ بیٹی کے چہرے پر لاڈ اور شکایت تھی۔ عصمت نے بغور لڑکی کو دیکھا۔ زردی کھنڈی ہلکی سانولی رنگت، گھنے لمبے بال جن میں نہ معلوم سی لہریں تھیں۔ ستواں ناک، جس میں راجستھانی ڈیزائن کا کوکا تھا۔ کوکے کے باہر والے دائرے میں چھوٹے چھوٹے فیروزے جڑے تھے اور پانی سے لبالب آنکھیں۔ عصمت چند لمحوں کے لیے افسردہ سی ہو کر خاموش ہو گئی۔ اے رب جلیل ۔ اے طاقت مطلق۔ اس کے دل سے ایک نحیف سی پکار نکلی۔
اماں! آپ اسے کیوں ساتھ نہیں لائیں؟ ‘‘نادرہ نے یکلخت ماں سے استفسار کیا۔’’ وہ کون ہے بھئی؟ ‘‘عصمت اپنی افسردگی پر قابو پا چکی تھی۔’’ بی بی اس کا بیٹا ہے، سور ہا تھا، اس کے پاس اس کی خالہ ہے۔ ‘‘کتابوں کا شوق ہے؟ عصمت نے قریب رکھی کتاب اُٹھائی اور اوراق الٹتے ہوئے نادرہ سے سوال کیا۔ عصمت کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ نادرہ سے کھل کر لمبی بات کرے۔’’ شوق تو ہمیشہ سے ہی ہے، لیکن یہاں پر وقت کاٹنے کا مسئلہ بھی ہے۔ اس جگہ پر موجود لوگ اور کیا کر سکتے ہیں۔ ‘‘نادرہ پہلی دفعہ ہنسی، اس کی ہنسی میں تلخی کا شائبہ تھا۔’’ کتاب پڑھنا تو بہت خوب صورت عادت ہے۔ میرے پاس بھی بہت کتابیں ہیں۔ آپ بتائیں! میں آپ کے لیے کون کون سی کتابیں لاؤں۔ عصمت نے ایک ہی سانس میں یہ سب کہ ڈالا۔ وہ خود کو مجرم سا محسوس کر رہی تھی۔
’’لیکن میں تو ایک ہفتہ تک گھر چلی جاؤں گی۔ ہسپتال والے دو ماہ سے زیادہ نہیں رکھتے۔ دوائیاں لکھ دیتے ہیں۔ وہ گھر بیٹھ کر کھاتی رہتی ہوں۔ مگر سنا ہے میری ٹی بی کا جراثیم دوائی کو resist کرتا ہے۔‘‘
عصمت کو یہ لڑکی اچھی لگی۔ اس نے نادرہ کی اماں سے ان کے گھر کا ایڈریس لیا اور ان کے ہاں آنے کا وعدہ کر کے وہاں سے چل دی۔ وہ اپنے دل کی اداسی کو نادرہ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ نادرہ کی ماں کو عصمت مہربان سی لگی۔
گھر آکر عصمت نے اپنے وزٹ کی رپورٹ لکھی یونہی، حال آں کہ اس کی ضرورت نہ تھی۔
یہ اپریل کا پہلا ہفتہ تھا۔ بہار کی کچھ نشانیاں، سہمے، مرجھائے پھولوں کی صورت میں موجود تھیں۔ ہوامیں گرمی کی ہلکی سی نرماہٹ آ گئی تھی۔ عصمت کو یہ کام کرنا اچھا لگا تھا، ان visits کا کچھ خاص مصرف نہ تھا۔ مگر یہ اسے مصروف رکھتے تھے۔ ایک روز وہ بیگ میں ہاتھ سے کچھ ٹٹول رہی تھی کہ کاغذ کی ایک چٹ اس کے ہاتھ میں آ گئی۔ وہ یہ چٹ پڑھ کر شرمندہ سی ہو گئی۔ یہ نادرہ کے گھر کا ایڈریس تھا، جسے بیگ میں رکھ کر عصمت بھول چکی تھی۔ ’’پرسوں مجھے قدرے فراغت ہے۔ میں ان لوگوں سے ملنے ضرور جاؤں گی، نامعلوم نادرہ کا کیا حال ہے۔ اللہ کرے وہ ٹھیک ہی ہو۔‘‘
جمعہ کو ڈرائیور کی چھٹی تھی، عصمت نے رکشا منگوایا اور چل پڑی۔گھر تلاش کرنے میں زیادہ دقت پیش نہ آئی۔ باہر کے دروازے کا ایک پٹ کھلا تھا۔ عصمت نے ڈیوڑھی میں قدم رکھا تو ایک سناٹے میں ڈوب گئی۔ اس کا دل بند سا ہونے لگا۔ بہرحال دروازہ ہلکا سا کھٹکھٹایا۔ اس کا عمل کچھ ایسا تھا، جیسے سارا ماحول خوف کے حصار میں ہو۔ ’’دروازہ کھلا ہے، اندر آ جائیں۔‘‘ اندر سے آواز آئی۔ عصمت دروازے کا ایک پٹ ہلکے سے دھکیل کر اندر داخل ہو گئی۔ نادرہ سامنے ہی برآمدے میں ایک بڑی سی چارپائی پر لیٹی تھی۔ عصمت اور نادرہ نے چند ثانیوں کے لیے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر دونوں ہلکا سا مسکرا دیں۔ عصمت نادرہ کی چارپائی کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔نادرہ کی اماں صحن میں رکھے چولھے پر کھانا بنا رہی تھیں اور بچہ نہایا دھویا، صاف ستھرے کپڑے پہنے اپنی سائیکل پر پورے صحن کے چکر کاٹنے میں حد درجہ مصروف تھا۔ نادرہ اور اس کی اماں عصمت کو اپنے گھر دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ عصمت نے سرسری نظر سے گھر کا جائزہ لیا۔ لمبا کھلا برآمدہ، برآمدے کے ساتھ ساتھ کمرے۔ بڑا کھلا صحن، رہن سہن میں رکھ رکھاو کا التزام اپنی موجودگی کا احساس دلاتا تھا۔
’’تمھارے میاں کیا کرتے ہیں؟‘‘ عصمت نے پوچھا۔ ’’میرے میاں‘‘!! نادرہ اس سوال پر کچھ پریشان سی ہوئی۔ اس نے اپنی چھل چھل کرتی آنکھوں سے عصمت کو بغور دیکھا۔ اس کے چہرے پر ویرانی تھی ’’میں آپ کو آپا کہ لوں؟‘‘ نادرہ نے یک لخت عصمت سے پوچھا۔ ’’کیوں نہیں، ضرور میں تمھاری آپا ہی تو ہوں۔‘‘ عصمت نے پیار سے جواب دیا۔ ’’تو عصمت آپا میری زندگی کی کہانی کو آپ واقعات کہ لیں، حادثات سمجھ لیں یا پھر محض چند عام سی باتیں، جو عموماً ہمارے معاشرے میں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘
’’مجھے بی اے کیے تقریباً دو ڈھائی ماہ ہی ہوئے تھے اور میں مزید پڑھنا چاہتی تھی۔ ہمارے گھر میں پیسوں کی ضرورت تھی۔‘‘ مزید پڑھ کر میں یہ پیسے عزت و وقار سے کمانا چاہتی تھی، لیکن نہ معلوم اماں کے ذہن میں کیا سمائی کہ انھوں نے میری شادی کرنا ہی بہتر جانا۔ بہرحال میری شادی بھی عام روایتی اور رواجی شادیوں کی طرح ہوئی، جسے آج کل ’’ارینجڈ میرج‘‘ کہا جاتا ہے۔ میرے سسرالی اماں کے رشتہ دار تھے اور مالی حیثیت میں ہم سے کہیں خوشحال تھے۔ اماں، میری دونوں بہنیں اور بھائی سب مطمئن اور خوش تھے۔ میں خود ناخوش تو نہیں تھی، لیکن بے چین سی رہتی تھی۔ مجھے محسوس ہوتا کہ ایک سایہ سا ہے، جو سرسراتا رہتا ہے۔ ہم دونوں کے بیچ کوئی تیسرا ضرور ہے، جو ہمہ وقت ہمارے اردگرد منڈلاتا رہتا ہے۔ تنہائیوں کے لمحوں میں اکثر چونک سی جاتی۔ ایک روز میں اپنے کمرے کی جھاڑ پونچھ کر رہی تھی۔ ہمارے کمرے کا دروازہ ساتھ والے کمرے میں بھی کھلتا تھا، اس کی گرد جھاڑتے جھاڑتے سوئی کے ناکے جیسی ایک درز میری آنکھوں کے سامنے بجلی کے مانند کوند گئی، میرے ذہن نے گویا چوراہے میں خود کو بے لباس دیکھا۔ تو عصمت آپا! مختصر یہ کہ میرے شوہر کے مراسم اپنی بھابھی کے ساتھ تھے،جو بےاولاد تھی۔ میرا وجود اس گھر میں صرف ایک ’’ڈمی‘‘ کی صورت میں موجود رہ سکتا تھا۔ اس انکشاف کے بعد میرے ذہنی اور جذباتی اجتناب اور وجود کے گریز اور انکار سے میرا میاں جھنجلاہٹ کا شکار ہوتا چلا گیا۔ میرا یہ رویہ کسی حسد کی بنیاد پر مبنی نہیں تھا۔ ویسے ہی عقلی اور منطقی طور پر مجھے ہم دونوں کا میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا اور ایک ڈھونگ بھری زندگی گزارنا قطعی بد دیانتی اور بےمعنی لگتا تھا۔ سو ایک رات میرے میاں کی جھنجلاہٹ نے یہ فیصلہ کرنے میں میری مدد کی کہ مجھے واپس اماں کے پاس جانا ہی ہوگا۔ سو میں اماں کے پاس آ گئی۔ اول اول لمحوں کی یاد یہ منا ہے۔ ‘‘نادرہ اپنی رو میں مزید بولی’’ دیکھیے عصمت آپا! قصور اس عورت کا بھی نہیں تھا، وہ تو تھی ہی محروم کہ اسے ایک نااہل شخص کا پابند کر دیا گیا تھا اور قصور میرا بھی نہیں تھا کہ جس سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ایک ’’ڈمی‘‘ کی حیثیت سے اس صورت حالات سے سمجھوتا کر لوں۔ ’’آپ میرے بارے میں جاننا چاہتی تھیں، تو یہ میں ہوں، بیمار اور طلاق یافتہ نادرہ ۔‘‘
عصمت پشیمان اور کھسیانی سی بیٹھی تھی، دفعتاً پوچھا ’’طبیعت کیسی رہتی ہے؟ کچھ خاص اچھی نہیں‘‘ نادرہ نے جواب دیا۔
دوائی تو لے رہی ہو نا؟ ’’جی وہ ظاہر ہے کھانی ہی پڑتی ہے۔‘‘
’’گھر کے باقی لوگ کہاں ہیں‘‘؟ عصمت نے پوچھا ’’ہم دو بہنیں ہیں۔ میری بہن جاب کرتی ہیں۔ ابا کے انتقال کو مدت ہوئی ہے۔ ایک بھائی ہم بہنوں سے بڑے ہیں۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کراچی میں رہتے ہیں۔ وقفوں سے آتے رہتے ہیں۔‘‘
’’آپ غالباً ماحول کی گھٹن سے گھبرا رہی ہیں‘‘، نادرہ ہلکے سے ہنسی۔ اس نے لحظہ بھر کو عصمت کی جانب دیکھا!! دوپہر میں ہمارے گھر میں اس قدر سناٹا ہوتا ہے کہ بس سناٹا ہی ہوتا ہے۔ ہم کہیں نہیں ہوتے۔ شام کے سایوں کے ساتھ ساتھ یہ اور بھی گہرا ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر میری اپنی اجنبی بنتی زندگی، اجاڑ گھر اور اس گھر کے اداس اور غمگین مکین۔ یہ کہنے میں نادرہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اس نے اپنا سر تکیے پر رکھ دیا۔ شاید وہ تھک گئی تھی۔
عصمت کو نادرہ کے توازن اور دانش نے ہکا بکا کر دیا تھا۔ وہ پشیمانی اور گھبراہٹ سے مغلوب تھی۔ اس کیفیت کو چھپانے کے لیے وہ برآمدے میں رکھے کین کے بک شیلف کے پاس گئی۔ سب کتابیں جانے مانے لکھنے والوں کی تھیں۔ کتابیں دیکھتے دیکھتے اس نے ایک اچٹتی لیکن بے اعتبار سی نگاہ نادرہ کے چہرے پر ڈالی، لیکن اس نے محسوس کیا کہ ان کتابوں کی چھاپ چہرے کی نرماہٹ اور بات کرتے میں لہجے کی شائستگی میں موجود ہے۔
نادرہ کی اماں واپس آ چکی تھیں جو نادرہ اور عصمت کو باتوں میں مشغول دیکھ کر منے کو لے کر بازار چلی گئی تھیں۔ عصمت نے دو کتابیں شیلف سے اٹھائیں، اپنے ساتھ لے جانے کے لیے نادرہ سے پوچھا اور پھر رخصت ہونے کی اجازت چاہی۔
واپس اس کے اپنے گھر میں بھی شام کی اداسی اتر رہی تھی، کچھ وہ ویسے ہی ذہنی طور پر رنجیدہ سی تھی۔ بہرحال دونوں میاں بیوی نے کھانا کھایا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ عصمت سونا چاہتی تھی، لیکن نیند دُور کھڑی اس کا مذاق اڑاتی رہی۔ نادرہ کے گھر سے لائی کتابیں وہ کسی خوشگوار موڈ میں پڑھنا چاہتی تھی، لیکن نیند کی حیلہ سازی کی وجہ سے وہ ان کی ورق گردانی کرنے لگی۔ ایک خوب صورت حاشیے والاباریک کاغذ اس کی گود میں گرا۔ عصمت نے اس کاغذ کو سرسری نظر سے دیکھا، لیکن یہ بغور پڑھنے کی چیز تھی۔
’’بات صرف اتنی ہے کہ محبت میرا مقدر نہیں اور سکون حیات ایک خواب گریزپا۔ کہاں تک سوچوں، کہاں تک پیچھا کروں۔‘‘ مجھے سمجھوتا کرنا ہی ہوگا کہ میرے حصے کا سکھ بس اسی قدر تھا۔ اس اجڑے کعبے میں کون جبیں سائی کرےگا کہ پذیرائی کے لیے میرے پاس ایک مسکراہٹ بھی نہیں۔ میری بیماری ہر لمحہ موت کی صورت میں ڈھلتی جا رہی ہے اور مجھے اپنوں سے دور گھسیٹ رہی ہے۔ زندگی کے دم گھونٹنے والے گتھم گتھا ماحول میں راستہ تلاش کرتے کرتے تھک چکی ہوں۔ میں، جس کے دل و دماغ احساس کی آنچ سے دہک جاتے ہیں۔ میرے کرم کیا ہیں۔ زندگی کا نامراد انجام اور ایک بن ماں باپ کے بچہ۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم سب جو خون اور جذبوں کے ناتوں میں جکڑے اور خوب صورت رشتوں میں ایک دوسرے سے بندھے ہیں، سب ایک ساتھ جدا ہوں۔ اے رب کریم! میرا کیا حشر ہونے والا ہے۔ پر اب باقی کیا بچا ہے، جو ہونا تھا ہو چکا۔ اے رب العالمین شکر ہے تیرا۔ جو کچھ ہوا اس کا شکر۔ ترے قہر کا شکر۔ تیرے مہر کا شکر۔ کاغذ کے آخر میں سنہ و سال لکھا تھا۔
عصمت کا سارا وجود دکھ سے سنسنا رہا تھا۔ اس نے کاغذ کو کتاب میں جوں کا توں رکھ دیا اور تکیے پر سر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
مئی کا آغاز ہی اپنے ساتھ بھرپور گرمی لایا۔ اگلے روز ’’مئے ڈے‘‘ تھا۔ مزدوروں کی جدوجہد کا دن۔ چھٹی کا دن۔ عصمت نے نادرہ کے گھر کا رخ کیا۔ ڈیوڑھی والے دروازے پر دستک دیے، وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر صحن میں داخل ہوگئی۔ صحن میں نل کے نیچے نادرہ کی اماں منے کو نہلا رہی تھیں۔ منا چھوٹی چھوٹی مٹھیوں میں پانی بھر بھر کر نانی پر گرا رہا تھا۔
نادرہ پر نظر پڑتے ہی عصمت کا دل بیٹھ سا گیا۔ وہ بےحد زرد اور کمزور ہو رہی تھی۔ ایک مہمان خاتون اس کے پلنگ کے پاس سٹول رکھے بیٹھی تھیں۔ عصمت نے نادرہ کے قریب پہنچ کر مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے بات کی۔ نادرہ بھی جواباً ضعیف سا مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ میں بے حد نقاہت تھی۔ عصمت نے پیار سے اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور بال درست کرتے ہوئے طبیعت کا پوچھا۔ سٹول پر بیٹھی خاتون کا نام اصغری تھا اور نادرہ اس خاتون سے پوچھ رہی تھی ’’اصغری بھابھی مَیں ٹھیک ہو جاؤں گی؟‘‘ اصغری بھابھی نادرہ سے نظریں چراتے ہوئے اسے تسلی دے رہی تھیں کہ ہاں بچے تم ٹھیک ہو جاؤگی، عصمت نے بھی اس کھلے جھوٹ میں ہاں ملائی۔
عصمت جتنی دیر وہاں بیٹھی، بھٹکے ہوئے اور خالی ذہن سے بیٹھی۔ وہ باتیں کر رہی تھی لیکن اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے، وہ فقط فضا کے خلا کو دور کرنے کی کوشش میں تھی۔ عصمت اور اصغری بھابھی کچھ چور سی بن گئی تھیں۔ وہ کچھ دیر بیٹھی اور پھر گھر جانے کے لیے اٹھی۔ وہ بےحد دل گرفتہ تھی۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں نادرہ کی اماں کو خدا حافظ کہا۔
مئی کے وسط میں عصمت کو Fact Finding کمیٹی کے ساتھ کراچی اور اندرون سندھ کا دورہ کرنے کا کام ملا تھا۔ واپس آئی تو کچھ تکان تھی اور کچھ وہ کام جو گھر میں اس کی عدم موجودگی کی وجہ سے رکے ہوئے تھے، انھیں نبٹایا۔ نادرہ کا خیال اس کے ذہن میں منفی و مثبت دونوں سوچوں کے ساتھ آتا رہا۔ ایک دن ڈرتے ڈرتے اس نے لکشمی چوک جانے کا ارادہ کر ہی لیا۔ یہی کوئی گیارہ بارہ کا عمل ہوگا۔ گرمی اپنی پوری تمکنت دکھا رہی تھی۔ کچھ گھبراہٹ اور خوف عصمت کے اپنے اندر تھا۔ ان تمام کیفیتوں نے مل کر اسے بہت کمزور بنا دیا تھا۔ بہرحال وہ شرمندہ شرمندہ سی گھر میں داخل ہوئی، صحن میں کھلنے والا ڈیوڑھی کا دروازہ اس قدر آہستگی سے کھولا کہ خود اس کو بھی دروازے کی آواز نہ آئی۔ صحن میں بچھی رہنے والی چارپائی اپنی جگہ پہ تھی مگر خالی تھی۔ چاروں طرف ایک جان لیوا سناٹا تھا۔ نادرہ کی اماں برآمدے میں پیڑھی پر بیٹھی، اپنا چہرہ گھٹنوں پر ٹکائے گہری سوچ میں تھیں، انھیں عصمت کے اندر آنے کی خبر تک نہ ہو سکی۔ عصمت چپکے سے ہلکے قدموں سے چلتے ہوئے ان کے پاس جا کے گُھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور ان کے ماتھے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر پیار کیا۔ وہ خود بھی رو رہی تھی۔
نادرہ کی اماں آپ ہی آپ بولیں ’’جوانی کی موت تو اس کے نصیبوں میں لکھی ہی تھی، لیکن میری وجہ سے وہ جلدی مر گئی۔‘‘ عصمت نے حیرانی سے ان کی جانب دیکھا اور کہا، ’’جی! کیا مطلب؟‘‘
’’بیٹی مطلب کیا ہونا ہے۔ بس میری مت ماری گئی؟‘‘ بیٹا اور بہو آنے والے تھے۔ بیٹا آتا ہے تو مہمانداری ذرا بڑھ جاتی ہے۔ یونہی میں نے چینی کا استعمال ذرا کفایت سے کرنا شروع کر دیا حتیٰ کہ نادرہ کے دودھ کے گلاس میں بھی میں نے چینی کم ڈالی لیکن وہ شاید بہت ہی کم تھی۔ نادرہ نے گھونٹ بھرا تو کہا، ’’اماں چینی تو ڈال دیں‘‘ میں نے کہا ’’ڈالی ہے، لیکن کم ڈالی ہے‘‘ اور پھر شاید میرے لہجے میں خوشی ہوگی جب میں نے بتایا کہ تیرا بھائی بھاوج آنے والے ہیں تو میں ذرا چینی کی بچت کر رہی ہوں۔ میرا یہ کہنا تھا کہ نادرہ نے چونک کے میری جانب دیکھا اور فقط اس قدر کہا ۔ اماں۔ مگر میں تو ہمیشہ کے لیے جا۔ اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ بیٹی میں بتا نہیں سکتی۔ اس سمے اس کی آنکھوں میں کیا کیا نہ تھا۔ میرے لیے شکوہ تھا، ملامت تھی، اپنی بےچارگی پر دکھ ہی دکھ تھا۔ اسی وقت میں نے جان لیا کہ میں نے تو اپنی دنیا ہی اجاڑ لی ہے۔ میں تو ساری کی ساری دوزخ میں دھنس گئی۔ نادرہ کی اماں چند لمحے رکیں، چہرہ صاف کیا اور دوبارہ بولیں ’’بس اس روز کے بعد نادرہ نے مجھ سے نظر ملا کر بات نہیں کی، اس نے تکلیف میں ہائے اماں کہنا بھی چھوڑ دیا۔ اس نے اپنے تمام دکھ مجھ سے چھپا لیے۔ میں نے ایسا کیوں کیا۔ یہ گناہ مجھ سے کیوں ہو گیا۔ وہ مدبر اور مہذب عورت بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی۔ نادرہ کا منا جاگ گیا تھا اور نانی کو روتا دیکھ کر وہ بھی رونے لگ گیا تھا۔‘‘
جب عصمت گھر واپس آئی تو وہ تھکن سے چور چور تھی، جیسے وہ سیکڑوں میلوں کا ایک لاحاصل سفر طے کر کے آئی ہو۔ اس نے ہاتھ منہ دھوئے بغیر سب بچوں کو فون کیا۔ فون پر عصمت کی آواز رونکھی ہو رہی تھی۔ اس لیے اس کی بیٹیاں بار بار پوچھتی رہیں ’’امی آپ ٹھیک ہیں نا۔ آپ کی طبیعت تو خراب نہیں۔ اور بیٹا Mother is the Ultimate کہہ کر اسے ہنسانے کی کوشش کرتا رہا لیکن عصمت بیٹے کے ساتھ سکون سے بات نہ کر سکی۔ اس نے فون بند کر دیا۔ کھنکار کر گلا صاف کیا، جلتی بھیگی آنکھوں پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے۔ اس سارے عمل سے وہ خود پر قابو پانے میں کچھ کامیاب ہوئی۔ اس نے ایک دوستانہ لہجے میں بیٹے کو E-mail کیا۔‘‘
میری جان!
تم کہ نئی نسل کے نمایندہ ہو، جو خونی رشتوں، جذبوں اور محبتوں کو Myth سمجھتے ہو۔ تمھارا تجربہ ہے کہ فقط دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جو ٹوٹنے پر بھی دوبارہ اسی استقامت سے استوار ہو سکتا ہے۔ آج میں بھی ایک مشاہدے سے گزری ہوں کہ مفادات کی منڈی میں ماں کا وجود بھی بٹا ہوا ہے۔ ماں کا رشتہ بھی Ultimate نہیں ہے۔ میرا یہ اصرار کہ دنیاوی زندگی میں ماں ہی حرف آخر ہے اور تمھاری یہ تکرار کہ Mother is not the Ultimate قطع نظر میرے اور تمھارے درمیان ایک مذاق کے، ایک دکھ دینے والی حقیقت بھی ہے۔ اپنا خیال رکھنا۔ تمھاری ماما عصمت۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.