Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نہ بجھنے وا لا سو رج

اسلم جمشید پوری

نہ بجھنے وا لا سو رج

اسلم جمشید پوری

MORE BYاسلم جمشید پوری

    دوپہر کا وقت تھا۔ آسمان صاف تھا۔ بارش بند ہو گئی تھی۔ دھوپ مسکرانے لگی تھی۔۔۔ ہر چیز دھل کر صاف ستھری اور نکھری نکھری ہو گئی تھی۔ بانو بیل، بھینس کو باہر کھور پر باندھ کر ان کے چارے کا انتظام کرنے لگی۔ اتنے میں باہر سے آواز آئی۔

    ’’چٹھی۔۔۔’’

    ‘’اری بانو۔۔۔ او بانو۔۔۔ دیکھ۔۔ چٹھی آ ئی ہے۔۔۔ لے لے۔ ضرور آفتاب کی ہوگی۔۔۔’’ بڑھیا رمضانو بولی۔

    اتنا سنتے ہی بانو جو کہ جانوروں کا گوبر اٹھا رہی تھی۔ بغیر ہاتھ دھوئے چلاتی ہوئی باہر کو بھاگی۔۔۔

    ‘’لاؤ بابو لاؤ۔۔۔ میری چٹھی۔۔۔’’

    اور ڈاکیہ سے چٹھی لے کر دوڑ تی ہوئی گھر میں آئی۔

    ’’ماں۔۔۔ ماں۔۔۔وہ منا کدھر ہے۔ ذرا اس سے چٹھی پڑھواتی۔۔۔’’

    ‘’ارے ہاں۔۔۔منا تو کھیت کی طرف گیا ہے۔ آتا ہی ہوگا بس ذرا سی دیر میں۔’’ رمضانو بولی۔

    مگر خوشی کے مارے بےچین با نو چٹھی لے کر کھیت کی جانب چل پڑی۔ راستے میں اسے دور سے منا آ تا ہوا دکھائی دیا۔ وہ خوشی کے مارے وہیں سے چلائی۔

    ‘’منا۔۔۔ دیکھ چٹھی آئی ہے۔’’

    قریب آتے ہوئے منے کو وہ خط دیتی ہوئی بولی۔

    ‘’دیکھ تو کس کی ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ مجھے تو تیرے بھیا کی لگتی ہے۔ ضرور ان کی ہی ہو گی، ہے نا۔’’

    وہ ایک ہی سانس میں کہے چلی گئی۔ منا چٹھی پڑھنے لگا۔

    ‘’ارے زور سے پڑھ۔۔۔ کیا لکھا ہے۔ میں بھی تو سنوں۔’’ وہ بولی۔

    ‘’بھا بی بھیا کا خط ہے۔ لکھا ہے کہ وہ اس مہینے کی۱۲/ تاریخ کو گھر آ رہے ہیں۔’’ منا ہنستا ہوا بو لا۔

    ‘’سچ۔۔۔ سچ۔۔۔ تو صحیح کہہ رہا ہے نا یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ اب کے پورے دو سال بعد آ رہے ہیں۔’’

    یہ کہتے ہوئے اس نے منا کے گال کو چوم لیا۔

    ‘’ارے آ ج تو ۴ تاریخ ہے۔ بس پانچ دن ہیں ان کے آ نے کے۔’’

    گاؤں شاہ پور میں، مٹی کے کچے سے مکان میں ایک چھوٹا سا خاندان رہتا تھا۔ بڑھیا رمضانو اور اس کے دو بیٹے آفتاب اور مہتاب۔ آفتاب کی شادی بانو سے ہوئی تھی۔ شادی کو کئی سال گزر گئے تھے مگر اب تک ان کی محبت کا گلشن ویران پڑا تھا۔ آفتاب بی ایس ایف میں نو کری کرتا تھا۔ ادھر دو برسوں سے دشمن ملک سے جنگ چل رہی تھی۔ اس لیے اسے گھر آنے کی فرصت نہیں ملی تھی۔ خط میں وہ کئی بار لکھ چکا تھا، بلکہ آنے کی تاریخ بھی دے چکا تھا۔ مگر فو جی اور ڈاکٹر کا ہر پل ادھار ہو تا ہے۔ اس کا سونا جاگنا سب دوسروں کے لیے وقف ہو تا ہے۔ اس کی نظر میں اس کا فرض ہی سب سے بڑا رشتہ ہو تا ہے۔

    اس بار کمانڈر نے اسے بڑی مشکل سے ایک ہفتے کی چٹھی دی تھی۔ اس نے چھوٹے بھائی مہتاب کو خط کے ذریعہ اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔ مہتاب نویں کلاس کا طالب علم تھا۔ بانو پڑھی لکھی نہیں تھی۔ سا نو لی سی مگر تیکھے ناک نقشہ والی، آنکھیں بڑی بڑی، ہونٹ پتلے پتلے، دونوں ہونٹوں کے درمیان چمکتے مو تی سے دانت، ہستی تو یوں گمان ہوتا، جیسے سرمئی بادلوں سے بجلی چمک رہی ہے۔ آفتاب کو وہ بہت پسند تھی۔ رمضانو سے تو کچھ ہو تا نہ تھا۔ بانو ہی گھر اور باہر کا کام سنبھالتی تھی۔ روٹی پکانا، برتن مانجھنا، کپڑے دھونا، جانوروں کا خیال کرنا، گو بر کے اپلے بنانا اور کھیت سے گھاس کاٹ کر لانا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہر کام میں ما ہر ہو۔ ادھر دو سال سے وہ اپنے شو ہر کی یاد میں سو کھ کر کانٹا ہو گئی تھی۔ اسے ہمیشہ اپنے آفتاب کی جان کا خدشہ لگا رہتا۔ کہیں آفتاب غروب نہ ہو جائے اور اندھیرا ہی اندھیرا پھیل جائے۔

    آج سارا گھر بہت خوش تھا۔ بانو تو پھولے نہیں سما رہی تھی۔ گھنٹوں آئینے کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے میں خود کو سنوارتی رہی۔ آج اس نے نئے نئے کپڑے پہنے تھے جو آفتاب نے اسے پچھلی بار دہلی سے لاکر دئیے تھے اور جنہیں آفتاب بہت پسند کرتا تھا۔ اس نے مانگ میں سیندور، کانوں میں بالی، ناک میں لونگ، ہاتھوں میں چوڑیاں، غرض وہ تمام معمولی زیورات جو اس کی شادی کے تھے۔ زیب تن کر لیے تھے۔ وہ بالکل نئی نویلی دلہن لگ رہی تھی جیسے آج اس کی برات آ رہی ہو۔ رمضانو بھی بڑی خوش تھی۔ آج اس کا بیٹا آنے والا تھا۔ اس نے رس کی کھیر پکائی تھی۔ آفتاب بڑے چاؤ سے رس کی کھیر کھایا کرتا تھا۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ اس کا کوئی بیٹا سرحد پر لڑ نے اور وطن کی آبرو کے لیے جان دینے وا لا سپاہی بنے۔ اسی لیے اس نے آفتاب کو فوج میں بھرتی کرا دیا تھا۔ دھوپ تیز ہو گئی تھی۔ شا ید بارہ بج رہے تھے۔ مگر ابھی تک آفتاب نہیں آیا تھا۔ گھر کے تمام لوگ پریشان تھے۔ بانو کبھی سڑک پر آتی اور کبھی اندر گھر میں چلی جاتی۔ ملن کی خوشی اس کے روم روم میں بسی تھی۔ اس کا پورا جسم آنکھوں اور کانوں میں سمٹ آیا تھا۔

    انتظار کے پھول مرجھا گئے اور شام کے وقت دروازے پر ڈاکیے کی آواز گو نجی۔۔۔

    ‘’چٹھی۔۔۔ ی۔۔۔ !‘‘

    مہتاب نے دوڑ کر خط لے لیا اور پڑھنے لگا۔

    پیارے مہتاب!

    خوش رہو

    مجھے افسوس ہے کہ میں اس تاریخ میں نہ آ سکوں گا۔ ادھر جنگ پھر بہت زوروں پر ہے۔ ہماری سرحد پر دشمن فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ زندگی نے سا تھ دیا تو اور خدا کی مرضی رہی تو پھر ملیں گے۔ ورنہ۔۔۔

    فقط

    تمہارا بھائی

    آفتاب

    خط سنتے ہی بانو کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ کھلا ہوا گلاب مرجھا گیا اور ملن کی خوشی کو ہجر کے ناگ نے ڈس لیا۔ اس کی ساس نے اسے سمجھایا

    ‘’بہو۔۔۔ مت رو کیوں روتی ہے۔۔۔ اللہ سے دعا کر کہ وہ مارے ملک کو فتح نصیب فر مائے۔ مجھے بھی تو دیکھ۔۔۔ بھری جوانی میں بیوہ ہو گئی۔ وہ بھی فوج میں مارے گئے۔ مگر وصیت میں لکھ گئے تھے کہ آفتاب کو فوج میں داخل کروانا اور میں نے آفتاب کو فوج میں داخل کروا دیا۔ اس دن سے آ ج تک دیکھ کتنی خوش ہوں۔ میرا تو وہ بیٹا ہے۔ میں نے دو سال سے اس کی صورت نہیں دیکھی ‘‘

    لاکھ ضبط کے با وجود بوڑھی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ بانو غمگین ہو گئی۔ اس کے دل میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ اس کا آفتاب بادلوں میں چھپ گیا تھا۔ بو جھل دل سے کام کاج میں لگ گئی۔

    رات اس نے خواب میں سورج گرہن دیکھا۔ روشن سورج آہستہ آہستہ دھندلکوں میں کھو رہا تھا۔ اس کی زندگی، اس کی روشنی ختم ہو تی جا رہی تھی اور وہ لمحہ بھی اس نے دیکھا جب پورا سورج اندھیروں میں اپنی روشنی سمیت تحلیل ہو گیا تھا۔ سورج کا وجود ختم ہو گیا تھا۔ چاروں طرف مکمل طور پر اندھیرے کی حکومت تھی۔

    صبح ہی سے اس کا دل گھبرا رہا تھا۔ ریڈیو سے خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ غیر ملکی فوجیں ناکام ہو گئی تھیں۔ ملک کے جوانوں نے بہت بہادری دکھائی تھی۔ کتنے ہی نو جوان شہید ہوئے تھے۔ فہرست میں آفتاب بھی شامل تھا۔

    سارے گاؤں میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی کہ رمضانو کا بڑا لڑکا آفتاب سرحد پر لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ رمضانو نے جب سنا تو بےساختہ اس کی زبان سے ‘’اللہ تیرا شکر ہے’’ نکلا۔ بانو کو معلوم ہوا تو اس کی سانس رکنے لگی، اسے ایسا محسوس ہونے لگا گویا کسی نے اس کبوتر کی گردن مروڑ نی شروع کر دی ہے جس میں اس کی جان تھی، وہ زاروقطار رو نے لگی۔ آنسوؤں کی قطاریں چہرے پر پھیلنے لگیں۔ یہ دیکھ کر رمضانو بولی:

    ‘’ارے پگلی۔۔۔ تو رو رہی ہے۔۔۔ آج تو ہنسنے کا دن ہے۔ ہمارا ملک جیت گیا۔ دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ تو کیوں روتی ہے۔ تیرا آفتاب چھپا نہیں ہے۔ یہ تو عارضی موت ہے۔ وہ شہید ہوکر اور بھی روشن ہو گیا ہے۔ وہ ہمیشہ چمکتا رہےگا۔ اس کا نام امر ہو گیا ہے۔ دعا کرو ملک کا ہر نو جوان محب وطن ہو، ملک پر جان دینے وا لا ہو، بیٹی جب وطن کی عزت و آبرو کا سوال ہو تا ہے تو رشتے ناطے نہیں دیکھے جاتے۔ آنسو نہیں بہائے جاتے بلکہ ہمت کے بازوؤں سے کام لیا جاتا ہے۔ آفتاب تو ہمیشہ ملک کے آسمان پر چمکتا رہےگا۔’’

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے