نہ پاہے رکاب میں
ٹھیلے پر دھری پرانی کتابوں کو کھنگالتے ہوئے میری نگاہ بوسیدہ غیر مجلد کتاب پر پڑی۔ الٹ پلٹ کر دیکھا۔ کتاب کا عنوان اور مصنف کا نام غائب تھا۔ ورق الٹے تو اندازہ ہوا کہ کوئی کہانی ہے۔ مجھے اشتیاق ہوا۔ کاسموپولیٹن کے خصوصی شمارے ، ابوالفضل صدیقی کے افسانوں کا مجموعہ جوالا مکھ، نینسی فرائیڈے کی فینٹسی کلیکشن اور ونڈوز ۹۸ کے ساتھ اس بوسیدہ کتاب کی قیمت ادا کی اور گھر لے آیا۔
رات نینسی فرائیڈے کے چند خوابوں کا حِظ اٹھانے کے بعد میں نے اس کتاب کی ورق گردانی کی۔ جس میں کہانی کہیں کہیں بوسیدگی کی وجہ سے کچھ ایسے جھٹکے لیتی تھی، جیسے کسی گاڑی کے پلگ میں کچرا آجائے۔ میں آپ کو یہ کہانی سناتا ہوں۔ کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے ۔
وہ بہت دیر سے مختلف دعاؤں پر مشتمل کتابوں کو پڑھنے میں مصروف تھا۔ اسے ایک جامع دعا کی ضرورت تھی۔ جسے وہ مخصوص وقت میں مانگ سکے۔ مگر وہ اپنے اس مقصد میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ اس کے مسائل زیادہ تھے۔ گو کہ ہر مسئلے سے متعلق ان کتابوں میں دعا موجود تھی۔ مگر اسے ایک مشکل درپیش تھی ۔وہ صرف ایک ہی دعا مانگ سکتا تھا۔
یہ ایک پچپن سالہ شخص ہے۔ قد آور اور صحت مند۔ بالوں اور مونچھوں میں اب کہیں کہیں سفیدی جھلکنے لگی ہے۔ اس عمر میں بھی اپنی چمکیلی آنکھوں سے کسی کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سات بچوں کا باپ ہے۔ چار بیٹیاں اور تین بیٹے۔ مقامی کالج میں سپرٹینڈنٹ کے عہدے پر فائز ہے۔ دو بیٹیوں اورایک بیٹے کی شادی صاحب حیثیت گھرانوں میں ہوچکی ہے۔ خود کا شمار بھی صاحب حیثیت لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک بڑے وکیل کے پاس پارٹ ٹائم بھی کرتا ہے۔ دیوانی اور فوجداری کیس بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ پرائیویٹ طورپر وکالت پاس کرچکا ہے اور بعد از ملازمت اسی کو اپنا پیشہ بنانا چاہتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ وہ ایک کامیاب وکیل ثابت ہوگا۔ یوں بھی ذہانت کے معاملے میں چالاکی کی حد تک ذہین ہے۔ اپنی وکالت اور کالج کے اشتراک سے اس نے بعض لوگوں کے ایسے معاملات حل کروائے جو کسی اور کے بس کی بات نہ تھے۔ اس کے ذہین اور چالاک ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے بڑے بیٹے کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے بعض دستاویز اس قدر مہارت سے تیار کروائیں تھیں کہ کسی کو ان کے جعلی ہونے کا شبہ تک نہ ہوسکا، اوریوں بیٹا کامیابی سے ایک لمبی مدت تک باہر کام کرتا اور دولت بھیجتا رہا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ واپسی پر غیر ملکی بیوی اور دو سالہ بیٹی ساتھ لایا۔ جنہیں رفتہ رفتہ گھر والوں نے قبول کرلیا۔ مگر اپنے سگے بھائی سے ساری زندگی کی ناراضگی مول لینا پڑ گئی، جن کی بیٹی سے منگنی طے پاچکی تھی۔ منگنی ٹوٹنا اتنا شدید نہ تھا شدت تو اس وقت پیدا ہوئی جب بھائی کے سسرال میں بیاہی گئی بیٹی کے ہاں دوسری لڑکی کی ولادت پر داماد بیٹی اور دونوں بچیوں کو چھوڑ گیا۔ اب گذشتہ دو سال سے وہ گھر بیٹھی ہوئی تھی۔ داماد کسی طرح واپس لے جانے کے لیے تیار نہ تھا۔
یہاں تک پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس کردار کا نام کیا ہے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ قصہ گو اس شخص کا نام کیوں نہیں بتاتا۔ میرا خیال ہے کہ اس نے نام بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ چونکہ کردار کا کوئی نہ کوئی نام ہونا ضروری ہے تو ہم اسے کسی مخصوص نام سے پکار لیتے ہیں۔ تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے۔ جیسا کہ میں نے کہانی کے آغاز میں بتایا کہ وہ دعاؤں کا طالب تھا ،لہذا ہم اسے طالب کہہ کر پکارلیتے ہیں۔ یہ مناسب رہے گا۔
ابھی بیٹی داماد کا مسئلہ چل رہا تھا کہ کالج سے چند جعلی سرٹیفیکٹ جاری کیے جانے کے معاملے پر انکوائری شروع ہوگئی۔ تحقیقات کے دوران بعض لوگوں نے صاف لفظوں میں طالب کا نام لیا تھا۔ جس دن یہ واقعہ ہوا طالب نے مصلہ بچھا کر نماز شروع کردی۔ مگر نماز اور دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرررہی تھیں۔ تب اس نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کا کوئی مخصوص وقت ہو۔ جب حکومت کے نئے احکامات کی روشنی میں طالب کو اپنی ملازمت سے سبکدوشی کا ڈر پیدا ہوا تو وہ زیادہ شدت کے ساتھ دعاؤں میں مشغول ہوگیا۔
یہاں پہنچ کر میں چونکا۔ کتاب کو غور سے دیکھا۔ کتاب تو بوسیدہ ہی ہے، مگر یہ حکومت کے نئے احکامات تو ابھی حال ہی میں جاری ہوئے ہیں۔ کہانی کار نے یہ کیسے لکھا؟ میں نے کندھے اچکائے، سائنسی دور ہے۔ بعض لوگ مستقبل میں بھی تو جھانک لیتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے بہت پہلے نسیم حجازی کا ناول سفید جزیرہ پڑھا تھا جو ۱۹۵۷ء میں شائع ہوا تھا۔ مگر اس میں کہانی ستر اور اسی کی دہائی کی تھی۔ میں نے بوسیدہ کتاب کے جدید واقعات کو دوبارہ پڑھنا شروع کردیا۔
طالب کے مسائل بڑھتے ہی چلے جارہے تھے۔ گھر اور بینک میں رکھا ہوا روپیہ بھی اس کی مشکلات کم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہورہا تھا۔ تب ایک دن اس کی نگاہ اخبار میں شائع ہونے والی ایک باتصویر خبر پر پڑی۔ خبرمیں بیرون ملک مقیم مشہور پامسٹ کی چند دن کے لیے پاکستان آمد اور ان کی قیام گاہ کا پتاتھا۔ طالب نے اسی دن ہوٹل میں ان سے رابطہ کیا اور ملاقات کی، اپنا ہاتھ دکھایا، زائچہ بنوایا۔ ہر طرح اسٹڈی کرنے کے بعد پامسٹ نے بتایا کہ مشکلات دور ہوجائیں گی۔ آپ کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا موجود ہے جب آپ جو بھی دعا مانگیں گے قبول ہوجائے گی۔ شاید وہ گھڑی ان بہت سی گھڑیوں میں کہیں موجود ہو۔
طالب نے خود کو دعاؤں میں مشغول کرلیا۔ لیکن کوئی راہ نہیں بن پارہی تھی۔ بلکہ مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ تب اس نے پامسٹ کو بیرون ملک خط لکھا اور ان سے درخواست کی کہ آپ مجھے وہ وقت بتادیں جب میری دعائیں قبول ہوجائیں۔ خط کے جواب میں پامسٹ نے صرف اتنا کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ آپ دعائیں مانگتے رہیں ۔ قبول ہوجائیں گی۔
جس دن خط کا جواب موصول ہوا، ایک نئی مصیبت بھی گھر میں ساتھ ہی داخل ہوئی۔ سب سے چھوٹے بیٹے کو چند نوجوانوں نے بری طرح پیٹ ڈالا اور ایک بازو بھی توڑ دیا۔ نوجوانوں کو شکایت تھی کہ یہ لڑکا انٹرنیٹ کیفے میں بیٹھ کر مسلسل ان کی بہن کے ساتھ بے ہودہ چیٹنگ کرتا ہے۔ برہنہ تصویریں اسکین کرواتا ہے اوران کی بہن کو بھیجتا ہے۔
میں ایک بار پھر چونکا۔ انٹرنیٹ، چیٹنگ اور یہ بوسیدہ کتاب۔ چہ معنی وارد۔ سوچتے ہوے میری نگاہ سامنے دیوار پر پڑی جہاں نوجوان شاعر دوست عرفان ستار کا دیا ہوا تخلیقی کلینڈر لٹکا ہوا تھا۔ جس میں غالبؔ کے اشعار کی سائنسی توجیہہ بیان کی گئی تھی۔ کلینڈر کے اوپر غالبؔ کی تصویر کے ساتھ شعر تحریر تھا:
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
کہانی میں میری دلچسپی بڑھتی چلی جارہی تھی۔ میں انہماک سے کہانی پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔
اس نئی مصیبت نے طالب کو محلے میں شرمندگی سے دوچار کردیا تھا۔ تب اس نے پامسٹ کو ایک اور خط تحریر کیا۔ اور تفصیل بتاتے ہوئے زیادہ مودبانہ درخواست کی۔ مگر خط کا جواب ایک بار پھر معذرت کی صورت میں آیا۔
اس دوران طالب کے داماد کی طرف سے ایک حوصلہ افزا رد عمل سامنے آیا۔ ایک تقریب میں وہ اپنی بیوی سے اچھے طریقے سے ملا۔ دونوں بچیوں کو پیار کیا اور انہیں آئس کریم دلوائی۔ طالب کو لگا کہ اس کی دعائیں قبول ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔ مگر دوسرے روز اس کے پیروں سے زمین کھسک گئی، جب اس نے سنا کہ داماد نے بیٹی سے تقریب میں کہا ہے کہ وہ اپنی عزیز سہیلی سے اس کی دوسری شادی کروادے تو اس صورت میں وہ اسے بھی ساتھ رکھنے کے لیے تیار ہے۔
طالب نے پامسٹ کو ایک اور خط لکھا اور زیادہ شدت کے ساتھ درخواست کی مگر جواب ایک بار پھر مسلسل دعائیں مانگتے رہنے ہی کا آیا ۔
طالب کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ ان ڈھیر ساری مشکلات کا حل کیسے نکالا جائے۔ چھوٹے بھائی کی ناراضگی، بیٹے کی رسوائی، بیٹی کا دو سال سے زیادہ گھر بیٹھنا، دفتر میں انکوائری اور دوست احباب میں خفت جیسے معاملات نے اسے ذہنی مریض بنا ڈالا تھا۔ اس کی ذہانت بھی اسے کوئی راہ نہیں سمجھارہی تھی۔ وہ راتوں میں دیر تک جاگتا رہتا۔ پہلے راتوں میں جب کبھی اس کا پوتا رویا کرتا تو وہ مسکرا کر اپنی بیوی سے کہتا کہ گھر میں چھوٹے بچے کے رونے کی آواز کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ مگر اب اس کی نواسی راتوں میں رونے لگتی تو وہ چڑ جاتا اور پھر چھت پر جا کر ٹہلنے لگتا۔ دن میں انٹرنیٹ کیفے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کی گردن خود بخود جھک جاتی۔
اس کی بڑھتی ہوئی مشکلات کا حساب اس کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھی دواؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے لگایا جاسکتا تھا۔ اس نے پامسٹ کو ایک اور خط لکھا مگر وہی اسٹریوٹائپ جواب موصول ہوا۔
پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس کی سائیڈ ٹیبل پر ایک بھی دوا موجود نہیں تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ خود کو بہت بہتر محسوس کررہا تھا۔ ہوا یوں کہ اچانک ایک دن ان کے پڑوسی اس کے ہاں آئے اور امریکہ میں مقیم کمپیوٹر انجینئر بیٹے کے لیے چھوٹی بیٹی کا رشتہ مانگا۔ دیکھے بھالے لوگ تھے۔ بہترین رشتہ تھا۔ انکار کی کوئی صورت نہیں تھی۔ طالب نے فوراً ہاں کردی۔ لڑکا اگلے ماہ پاکستان آرہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹی بیٹی کی شادی اور پھر رخصتی ہوگئی۔ فی الحال بیٹی صرف ایک دیوار کے فاصلے پر تھی مگر کچھ عرصے کے بعد اسے اپنے شوہر کے ہمراہ امریکا روانہ ہوجانا تھا۔
ایک شام کو لان میں بیٹھے خوش گپیوں کے دوران جب داماد نے طالب کے چھوٹے بیٹے سے کہا کہ وہ کمپیوٹر کے چند سرٹیفیکٹس کورس کرلے تو پھر میں تمہارے لیے امریکہ کا کچھ چکر چلاتا ہوں تو طالب کویوں لگا جیسے اس کی ساری دعائیں قبول ہونے لگی ہیں۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنی سائیڈ ٹیبل پر رکھی تمام دوائیں ڈسٹ بن کی نذر کردیں۔ وہ خود کو بہتر محسوس کررہا تھا۔ وہ دکھوں کے منوں بھاری حصار سے نکل کر خوشیوں کی ہلکی فضا میں آگیا تھا۔ مگر خوشیوں کا یہ معمولی بوجھ سہارنے کے لیے جس دل کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس کے پاس نہیں تھا۔ دوسرے دن دفتر سے واپسی پر گاڑی چلاتے ہوئے اسے سینے میں شدید درد محسوس ہوا۔ اس نے بیچ سڑک پر گاڑی روک دی۔ ذرا سی دیر میں رواں دواں ٹریفک میں خلل واقع ہوگیا۔ ایک گاڑی والا غصے میں قریب آیا مگر دیکھتے ہی سہم گیا۔ طالب کا سر ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا۔ چند ہمدرد لوگوں نے اسے قریبی ہسپتال پہنچادیا۔ طالب کو دل کا دورہ پڑا تھا۔
سائیڈ ٹیبل ایک بار پھر دواؤں سے بھرنے لگی۔ تب اس نے پامسٹ کو ایک اور خط لکھا۔ اور اپنا پورا حال تحریر کرنے کے بعد اس سے درخواست کی کہ وہ لمحہ بتادیاجائے۔
چند دنوں بعد پامسٹ کا خط موصول ہوا۔ جس میں پامسٹ نے آخر مجبور ہو کر وہ وقت بتادیا جب طالب کی ہر دعا قبول ہوسکتی تھی۔ مگر اس میں یہ بھی تحریر تھا کہ وہ گھڑی چند ساعتوں پر مشتمل ہوگی لہذا کوئی ایک دعا مخصوص کرلی جائے جو تمام مشکلات کا احاطہ کرسکے۔
پامسٹ نے لکھا تھا کہ خط پر درج تاریخ سے ٹھیک گیارہ دن بعد نصف شب کے وقت چھت پر تنہائی میں آسمان کو غور سے دیکھنا۔ جب چاند آٹھ چمکتے تاروں کے درمیان آجائے تو شمال مغرب کی سمت میں لمحے بھر کو ایک تیز چمکتا ہوا تارا اپنی معمول کی تیز روشنی سے بھی زیادہ تیز چمکے گا۔ تب تم دعا مانگ لینا وہی تمہاری دعا کی قبولیت کا وقت ہوگا۔
درحقیقت ایسا کوئی وقت نہیں تھا جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ صرف اسی وقت دعا مانگی جائے تو قبول ہوگی۔ طالب کے بار بار اصرار پر پامسٹ نے اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ایک وقت گھڑ لیا اور اسے طالب کو بتادیا تاکہ آئندہ اس کی فرمائش سے بچا جاسکے۔ پامسٹ جانتا تھا کہ چاند ہمیشہ ہی بہت سے تاروں کے درمیان دکھائی دیتا ہے اور اگر دیکھنے والا کوئی مخصوص تعداد ذہن میں رکھ کر اردگرد پھیلے ہوئے تاروں کو شمار کرنا چاہے تو بہت آسانی سے اپنی مطلوبہ تعداد کو پورا کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیںآسمان پر چمکتے تارے کبھی کبھی اپنی مخصوص روشنی سے زیادہ روشنی کی جھلک بھی دکھا دیتے ہیں۔
طالب کو لگا جیسے اسے کوئی خزانہ ،کوئی جادوئی چھڑی ہاتھ لگ گئی ہو،جسے گھماتے ہی وہ ہرفرمائش پوری کروالے گا۔ وہ بہت خوش تھا، صرف ایک ہفتے کے بعد وہ تاریخ آنے والی تھی۔ جب وہ اپنی دعاؤں کو قبولیت سے سرفراز ہوتے دیکھے گا، مگر جب اسے یہ خیال آیا کہ اس وقت فوراً اور صرف کوئی ایک مخصوص دعا ہی مانگنا ہوگی، ورنہ وہ ساعت گزر جائے گی اور وہ ہاتھ ملتا رہ جائے گا، تب وہ کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا، اور اپنی زندگی کے مسائل اور ان کی درجہ بندی کرنے لگا ،تاکہ اندازہ کرسکے کہ سب سے زیادہ سنگین مسئلہ کون سا ہے۔
فہرست خاصی طویل تھی کبھی وہ درجہ بندی کرتے ہوئے کسی ایک مسئلے کو پہلا نمبر دیتا اور کبھی دوسرے کو زیادہ اہم سمجھنے لگتا۔
کبھی لگتا کہ ایک مکمل وکیل کی طرح پورے اختیار کے ساتھ بڑے وکیل صاحب کی جگہ مقدمہ لڑنا اس کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے تو کبھی خیال آتاکہ دو سال سے گھر بیٹھی ہوئی بیٹی کی سسرال واپسی سے بڑھ کر کوئی مسئلہ نہیں۔ کبھی دفتر میں انکوائری تو کبھی بچوں کی شادی۔ کبھی اپنی بیماری تو کبھی بیوی کی دن رات کی جسمانی تکالیف۔ کبھی چھوٹے بیٹے کی پیدا کردہ خجالت تو کبھی بڑے وکیل صاحب کی سیکریٹری کی طرف سے شادی پر زور۔ کبھی دن بہ دن بڑھتے ہوئے اخراجات تو کبھی دن بہ دن محدود ہوتی ہوئی آمدنی۔ حتیٰ کہ ایک بار تو اس نے نہایت معمولی مسئلے کو بھی فہرست میں سب سے اہم مسئلہ تصور کرتے ہوے پہلے نمبر پر جگہ دے دی تھی۔ وہ مسئلہ ۔۔۔
اس لفظ سے آگے کچھ پڑھنے میں نہیں آرہا تھا کیونکہ کسی نے گہرا سیاہ قلم چلا کر اس صفحے کی باقی تمام سطریں سنسر کردیں تھیں۔ قریب ہی سرخ قلم سے ایک بے ہودہ شعر اور جملہ ’مزا آگیا‘ لکھا ہوا تھا۔ اس کا مطلب سرخ قلم چلانے والے نے وہ سطریں پڑھی تھیں ،بعد ازاں سیاہ قلم چلانے والے نے وہ سطریں کاٹ دی تھیں۔ مگر وہ بے ہودہ شعر کیوں نہیں کاٹا یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔
میں نے کہانی آگے پڑھنے کے لیے صفحہ پلٹا۔ اگلے دو صفحوں کے درمیان میں ایک مرجھائے ہوئے گلاب کی پتیاں کچلے جانے کا احساس دلارہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ اس کہانی کو مجھ سے پہلے کیسے کیسے مختلف لوگوں نے پڑھا ہے۔ ایک بے ہودہ شعر لکھتا ہے۔ دوسرا سنسر کرتا ہے اور تیسرا کتاب میں گلاب رکھ کر اپنے جمالیاتی ذوق کا احساس دلاتا ہے۔ میں نے کاغذ کے دو ٹکڑوں کے بیچ قیمتی چاندی کے ورق کی طرح دبے ہوئے گلاب کو سیدھے ہاتھ کی انگلیوں میں پکڑ کر یہ جانتے ہوئے کہ سوکھے پھول خوشبو نہیں دیا کرتے، سونگھنے کی ناکام کوشش کی اور الٹے ہاتھ سے کتاب پکڑ کر کہانی کو مزید آگے پڑھنے لگا۔
دوسرے دن دفتر میں اسے سن گن ملی کہ انکوائری رپورٹ میں سارا مواد اس کے خلاف بھرا ہوا ہے اور اگر انکوائری کمیٹی نے سفارشات مرتب کرتے ہوئے نشاندہی کردی تو نئے آرڈیننس کے تحت اسے بغیر شوکاز ملازمت سے نکال دیا جائے گا ۔ طالب نے گھر لوٹتے ہوے فیصلہ کیا کہ یہی میرا سب سے اہم مسئلہ ہے، لہذا اسی کے حل کی دعا کروں گا۔
گھر پر اس کے لیے ایک نئی مصیبت سر اٹھائے کھڑی تھی۔ وکیل صاحب کی پرسنل سیکریٹری اس کے گھر والوں سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ وہ آج پہلی بار یہاں آئی تھی۔ طالب اسے دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ ڈرائنگ روم میں جب ذرا دیر کو تنہائی ملی تو اس نے سیکریٹری سے آنے کا سبب پوچھا۔ اس نے جواب دیا۔
’’ایک خوشخبری تھی جسے میں تمہارے ساتھ شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ اس سے پہلے کہ لوگ بولیں، تم مجھ سے شادی کرلو‘‘۔
یہ سن کر طالب کے اوسان خطا ہوگئے۔ انکار کی گنجائش نہیں تھی۔ اس نے جیسے تیسے سیکریٹری کو سمجھا بجھا کر بھیج دیا اور خود سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسے لگا زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور اسی کے حل کے لیے دعا مانگنا چاہیے۔
ابھی کہانی یہیں تک پڑھ پایا تھا کہ کمرے میں میری بیوی داخل ہوئی اور اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئی۔
’’کب تک لائٹ جلائے پڑھتے رہو گے۔ صبح بچوں کو اسکول بھی جانا ہے‘‘۔
میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔
’’ہمیں تو اسکول نہیں جانا ہے نا‘‘۔
اس نے خود کو چھڑاتے ہوے جواب دیا۔
’’شرم کرو بچے بڑے ہوگئے ہیں‘‘۔
میں ہنس دیا۔ اس نے بوسیدہ کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ کیا تم دیمک زدہ کتابیں لے آتے ہو۔ دیمک زدہ کتابیں گھر میں لانے سے دوسری چیزوں کو بھی دیمک لگ جاتی ہے۔ بس اب لائٹ بند کرو اور سوجاؤ‘‘۔
میں نے کہا۔
’’بس تھوڑی سی دیمک اور رہ گئی ہے اسے بھی چاٹ لوں‘‘۔
وہ میرے جملے پر چونکی اور بولی۔
’’واقعی! تم خود بھی کسی دیمک سے کم نہیں ہو۔ تیرہ چودہ سالوں میں تم نے مجھے دیمک کی طرح چاٹ کر اور سات بچے جنوا کر کھوکھلا کردیا‘‘۔
یہ کہتے ہوئے اندر کا کرب آنکھوں میں اتر آیا۔ وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔ پانچ بیٹیوں کی پیدائش کے بعد دو مرتبہ بیٹے کی امید پیدا ہوئی، مگر دونوں بار خرابی کی وجہ سے حمل گروانا پڑا۔ اور ہم بیٹے سے محروم ہوگئے۔ مگر اس میں میرا کیا قصور تھا۔ میں اس طرح کے جملے پہلے بھی کئی بار سن چکا تھا۔ لہذا سنی ان سنی کرتے ہوئے دوبارہ پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔
دوسرے دن دفتر اور کالج کی چھٹی تھی۔ اپنی پریشانی میں رات بھر جاگنے کی وجہ سے وہ صبح دیر تک سوتا رہا۔ دن کسی نئی یا پرانی مصیبت کے سر اٹھائے بغیر آرام سے گزر گیا۔ مخصوص دن آنے میں اب صرف دو دن رہ گئے تھے۔
اگلے دن طالب حسب معمول دفتر پہنچا۔ دفتر کے تمام افراد سے علیک سلیک کرتے ہوئے ان کی نظروں میں استفہامیہ سوالات محسوس ہوئے۔ وہ خاموشی سے اپنے کیبن میں چلا گیا۔ جشن آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں مختلف کمپنیوں کو خطوط لکھتے اور پرنسپل صاحب کے لیے معیشت کے رہنما اصولوں پر لیکچر تیار کرتے ہوئے کاغذات اس کی میز پر دھری ہوئی ٹوکریوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگے ۔ کچھ کاغذ لفافوں میں تہہ کر کے پروئے جانے اور آنے والے لفافوں کو بے دھار چھری سے چاک کیا جانے لگا تو اچانک اس کی رگ و پے میں خوف در آیا۔ اس کی ذہنی رو بہکنے لگی۔ خیالات منتشر اور کیبن میں رکھی چیزیں آپس میں مدغم ہونے لگیں۔ تب وہ سر کو کرسی کی پشت سے ٹکا کر ریسٹ کرنے کی پوزیشن میں آگیا اور سوچنے لگا۔ ایسا کیونکر ہورہا ہے؟
اس نے سوچا۔ میں تھک گیا ہوں یا شاید میرے اندر کوئی انجانا خود ر آیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ ہونے والا ہے؟ کچھ ایسا جس کی میں توقع بھی نہیں کررہا ہوں یا کچھ ایسا جو میں برداشت بھی نہ کرسکوں۔ مگر میں اتنا بے ہمت تو نہیں۔ ہاں۔۔۔ نہیں۔۔۔
یہ سوچ کر وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اپنے خیالات یکجا کرکے وہ پوری یکسوئی سے سوچنے لگا۔
کچھ ہی دیر میں وہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تھا اور بہتر بھی محسوس کررہا تھا۔ اس نے خود کو دفتر کے کاموں میں مصروف رکھنے کی ناکام کوشش کی، مگر خیالات ذرا ذرا سی دیر میں بھٹکنے لگتے۔ دوپہر کے وقت اس کی وہی کیفیت دوبارہ ہوگئی۔ وہ پریشان ہوگیا۔ جو کچھ وہ سوچ رہا تھا وہ ،اور جو کچھ وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا سب آپس میں گڈ مڈ ہونے لگے، جیسے کوئی تجریدی آرٹسٹ اپنا برش مختلف رنگوں میں ڈبو ڈبو کر سادہ کینوس پر پھیرنا شروع کردے۔ کسی رنگ سے دائرہ اورکسی دوسرے رنگ سے خط کھینچے۔ کہیں دائرہ کا قطر بدلتے رنگوں کے ساتھ پھیلتا چلاجائے اور کہیں سیدھے اور سچے خط رنگوں میں تبدیل ہوتی لکیروں میں مدغم ہوجائے ۔ یوں پرپیچ الجھنوں کا احساس پورے کینوس یعنی طالب کے دل و دماغ پر چھاتا چلا گیا۔
شام کو وہ اسی حالت میں کالج سے سیدھا وکیل صاحب کے دفتر پہنچ گیا۔ وہ وکیل صاحب کی سیکریٹری سے ملنا چاہتا تھا۔ دفتر والوں نے بتایا کہ سیکریٹری نے ایک ہفتے کی چھٹی اپلائی کرلی ہے۔ اسے یقین ہوگیا کہ معاملہ زیادہ سنگین ہے۔
ایک دیوانی مقدمے کی فائل کی اسٹڈی کرتے ہوے اس کے خیالات بار بار بہکنے لگے۔ یہ مقدمہ جائیداد کی تقسیم سے متعلق تھا، جس میں ایک آدمی نے بڑھاپے میں ایک ایسی عورت سے شادی کرلی تھی جو کہ اس کی عمر سے بیس سال چھوٹی تھی۔ پہلی بیوی کی جوان اولاد کی جانب سے طعنے سننے کو ملے تو اس نے دوسری بیوی کو طلاق دینا چاہی ۔ان ہی دنوں پتا چلا کہ وہ ماں بننے والی ہے، لہذا طلاق کا فیصلہ موخر کردیا۔ بچے کی ولادت تک بڑے بچوں کی جانب سے مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا۔ آخر کار مجبور ہو کر اس نے طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا لیکن دوسری بیوی کی طرف سے کچھ ایسے کاغذات سامنے آئے جن پر موصوف کے دستخط سے یہ لکھا ہوا تھا کہ اگر کبھی طلاق دی تو آدھی جائیداد کی مالک وہ یا اس کی اولاد ہوگی اور اولاد پر باپ کا کوئی حق نہیں ہوگا۔
موصوف چیخے چلائے کہ یہ کاغذات جعلی ہیں۔ مگر اب بات عدالت تک پہنچ گئی تھی۔ موصوف کی طرف سے اس مقدمے کی پیروی بڑے وکیل صاحب کررہے تھے۔
طالب کو مقدمے اور اپنے حالات میں مماثلت محسوس ہونے لگی۔ اس نے فائد بند کردی اور گھر چلا گیا۔ دوسرے دن اس نے دفتر فون کردیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے، آج نہیں آسکوں گا۔ دوسری طرف سے اس کے دوست نے بتایا کہ تمہارا کیس سیکریٹری کے پاس اپروول کے لیے گیا ہوا ہے۔ سیکریٹری فوجی ٹائپ آدمی ہے اور کرپشن کے تو سخت خلاف ہے۔
طالب نے پوری بات سنے بغیر فون رکھ دیا۔ اسے گھبراہٹ ہونے لگی ۔ وہ اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ گھر کے دیگر افراد اس پر گزرنے والی کیفیت سے واقف نہیں تھے ورنہ وہ سب وہاں موجود ہوتے ۔سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے اور یوں بھی کون اب کسی کے بارے میں سوچتا ہے۔
کہتے ہیں کہ نیند کانٹوں پر بھی آجاتی ہے۔ طالب کو بھی آخر نیند آ گئی اور وہ بے خبر ہو کر سورہا۔
یہاں صفحہ ختم ہوگیا تھا۔ کہانی اپنے اختتام کی طرف جیسے جیسے بڑھ رہی تھی میری دلچسپی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ میں نے آگے پڑھنے کے لیے اگلے صفحے پر نگاہ ڈالی مگر وہاں ایک صفحہ پھٹا ہوا تھا۔ مجھے بے چینی ہونے لگی۔ کہانی اپنے کلائمکس پر ہے اور یہاں صفحہ ہی غائب ہے ۔ آخر اس نے کون سی دعا مانگی ہوگی۔ مزید آگے دیکھا تو صرف دو سطریں تھیں اس کے بعد کہانی ختم ہوگئی تھی۔ یعنی قصہ گو اپنی بساط لپیٹ کر کھیل ختم ہونے کا اعلان کرچکا تھا۔ دو سطروں سے واضح نہیں ہوپارہا تھا کہ کہانی کا اختتام کیا ہواہوگا۔ بس مفروضہ قائم کیا جاسکتا تھا۔ سطریں کچھ اس طرح کی تھیں۔
’’عدالت جانے سے پہلے بستر پر پڑی لاش نے مقدمے کا فیصلہ خود ہی سنا دیا اور طالب کو راہ دکھادی‘‘۔
میں کہانی کے اختتام کو ذہن میں ابھارنے کی کوشش کرنے لگا۔ ذہن میں مفروضوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ میں نے آنکھیں موند لیں اور سوچنے لگا کہ اس ایک صفحہ پر کیا لکھا ہوا ہوگا۔ مرنے والے کو قتل کیا گیا یا اس نے خود کشی کی ،اور پھر طالب کو کیا راہ سجھائی دی۔ کیا وہ بھی۔۔۔
میرا ذہن اختتام کے بارے میں سوچتے سوچتے کہانی اور اس کے مصنف کی طرف جا نکلا۔ بھلا کہانی کار نے کیا بتانے کی کوشش کی ہے۔ مرکزی کردار دعا کیوں مانگنا چاہتا ہے۔ مسائل حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا۔ اسے یہ کیسے یقین ہوگیا کہ مخصوص وقت میں جو بھی دعا مانگے گا وہ قبول ہوگی۔ یہ مان بھی لیا جائے تو آخری نتیجے پر پہنچنے کے بعد اس نے کیا کیا۔ کیا اس نے دعا مانگی؟ اور اگر مانگی تو کون سی؟ اور پھر کیا وہ دعا قبول ہوئی جبکہ حقیقتاً ایسا کوئی مخصوص وقت نہیں تھا۔ اور اگر نہیں مانگی تو پھر کیا وہ فیصلہ کیا ،جو مقدمے کے کردار نے کیا تھا، اور پھر یہ بھی کہ آخر اس مقدمے کے کردار نے کیا فیصلہ کیا تھا۔
میں آنکھیں موندے مسلسل سوچ رہا تھا کہ بیوی کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
’’آپ کو کچھ ہوش بھی ہے گھر میں بیٹی داماد اور نواسا نواسی آئے ہیں‘‘۔
میں چونکا، اور پھر ہڑ بڑا کر آنکھیں کھول دیں۔ کمرا وہی تھا، جہاں میں کچھ دیر پہلے موجود تھا۔مگر کمرے میں بہت سا سامان بدلا ہوا تھا۔ کچھ نیا کچھ پرانا فرنیچر۔ کھڑکیوں کے نئیپردے جن پر رنگوں کی قوس قزح بکھری ہوئی تھی۔ کتابیں بڑھ گئی تھیں۔ اور بے ترتیب بھی، جیسے کوئی یونہی پڑھ کر ادھر ادھر ڈالتا رہے۔ میری بیوی عمر میں اب کچھ دیر پہلے سے زیادہ کی دکھائی دے رہی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے جو بوسیدہ کتاب میں پڑھ رہا تھا اور جسے میں نے آنکھیں موندنے سے پہلے میز پر رکھ دیا تھا ،وہاں نہیں تھی، بلکہ اس کی جگہ ایک نئی کتاب رکھی ہوئی تھی۔ وہی سائز وہی اوراق مگر نئی۔ میں نے کتاب اٹھالی اور الٹ پلٹ کر دیکھا وہی کہانی تھی مگر بالکل نئی حالت میں۔ مجھے تجسس ہوا کہ جو کہانی ابھی میں نے پڑھی ہے اس کا آخری سے پیشتر صفحہ غائب تھا، لہذا اس میں ضرور موجود ہوگا، مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ صفحہ نئی کتاب میں بھی پھٹا ہوا تھا۔ میری بیوی جو پاس ہی کھڑی ہوئی تھی، بولی۔
’’تمہارے لاڈلے نواسے نے ابھی ابھی اس کتاب کا یہ صفحہ پھاڑ کر کرچی کرچی کر ڈالا ۔ وہ دیکھو وہاں پڑا ہوا ہے‘‘۔
میں نے دوڑ کر اسے اٹھایا مگر وہ اب اس قابل نہیں تھا کہ اسے پڑھا جاسکے۔ کاغذ کے چھیتڑے بچے کی زبان سے گیلے ہو کر اور بھی خراب ہوچکے تھے۔ میں نے بدلی ہوئی فضا کا جائزہ لیتے ہوئے سامنے والی دیوار کو دیکھا جہاں پہلے عرفان ستار کا دیا ہوا کلینڈر لٹکا ہوا تھا۔ مگر اب وہاں کلینڈر بھی نہیں تھا۔
میں اس حیرت کدہ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ہوں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں مستقبل میں سفر کرتے ہوئے ماضی کی سیر کر آیا ہوں یا ماضی کو ٹٹولتے ہوئے مستقبل میں جست لگالی تھی۔
کیا آپ مجھے بتاسکتے ہیں؟
(۲۰۰۱ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.