Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نہ وہ سورج نکلتا ہے

شاہد جمیل احمد

نہ وہ سورج نکلتا ہے

شاہد جمیل احمد

MORE BYشاہد جمیل احمد

    زمین کی تقسیم کا اعلان کیا ہوا کہ لوگوں کے ضمیر اور دل ہی تبدیل ہوگئے۔ صدیوں سے قائم باہم انسانی رشتے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے سالہا سال اکٹھے رہنے والوں کے بیچ کوئی جذباتی رشتہ سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ آناً فاناً ان کی سوچوں کے مختلف سمتوں میں بہہ نکلے دھاروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ تو جنم جنم سے دراصل لخت لخت ہی تھے۔ معاشرت دانوں کو ان کی سماجیات کے بیان میں سخت غلطی لگی تھی، یہی وجہ تھی کہ سماجی اقدار کے احوال میں تبدل پر نئے سرے سے غور و خوض ہونے لگا۔ یہ بھی دراصل انسانی تاریخ کا ایک المیہ ہی تھا اور انسانی تاریخ ایسے المیوں سے اٹی پڑتی تھی۔ بھلا ہو اس خوف اور ڈر کا چاہے وہ جنگلی جانوروں کے حملوں سے متصل تھا یا خود انسانی تیغ وتفنگ سے منسلک کہ جس نے انہیں بلاد الرافدین میں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بیٹھ کر آگ تاپنے پر مجبور کیا۔ یہاں بھی سکون کب کیا انہوں نے۔ آرام تو شاید ان کی سرشت میں ہی نہیں تھا۔ لگے چھپ چھپ کر دوسری ٹولیوں کے لوگوں کو مچانوں سے تیروں کے ذریعے مارنے، فقط ان کے لنگوٹ اتارنے، تیر کمان جمع کرنے اور ڈھور ڈنگر لوٹنے کی خاطر ۔ ایسی ہی کسی لوٹ مار کے بیچ کسی لاچار ، کمزور انسان نے ڈرامائی انداز میں اپنے اندر کے خوف کو کسی ماورائی قوت کے وجود سے تعبیر کیا۔ کیا خبر یہ سب کچھ ارادی تھا یا غیر ارادی۔ مگر اس سوچ نے آئندہ کی انسانی زندگی پر گہرے فکر ی اثرات مرتب کئے اور مسلسل کرتی چلی جا رہی ہے۔

    ہمارے تمہارے دیس کی تفریق کے اعلان نے بکو اور شانو پر بھی خواہ مخواہ بپتا ڈال دی تھی۔ حالانکہ نہ تو دنیا میں کہیں ان کی کوئی زمین تھی، نہ قوم، نہ دھرم اور نہ ہی کوئی نام۔ ان کے اصلی اور نقلی نام بس یہی تھے، بکو اور شانو ۔ان کو خود پتہ نہیں تھا کہ ان کے ناموں کا مطلب کیا ہے۔ ایک بار جب ساتھ والے گاؤں سے بھینس چوری ہوئی اور کھرا ان کی کھولی کے پاس سے گزرا تو تھانیدار نے انہیں سخر دوپہر میں دو گھنٹے دھوپ میں ننگا کھڑا رکھنے کے بعد پوچھا تمہارا نام کیا ہے ۔ انہوں نے بولنا چاہا مگر ان کی زبان خوف کے چاقو سے دو حصوں میں چر کر جسم کے اندر و اندر ان کے دونوں ہاتھوں میں داخل ہو گئی اور وہ اپنے کانپتے ہاتھوں کو جوڑ کر ماتھوں تک لے جانے میں مشکل سے کامیاب ہوئے۔ دیسی شراب کے نشے میں دھت سرکار نے ماں بہن ایک کرتے ہوئے بیچاروں کے جسموں پر بید کی لاٹھیوں کی بارش کر دی۔ جب سرکار کی سانس پھول گئی تو پھر گرجدار آواز میں حکم صادر ہوا! نام بتاؤ۔ ان کی زبان جو اب تک ان کے ہاتھوں سے واپس منہ میں آ گئی تھی تھوک کے زور پر ذرا سی رواں ہوئی اور بڑے نے کہا بکو، اسے دیکھ کر چھوٹے کے منہ سے چھوٹا سا نکلا شانو۔ اوئے! اپنے اصلی نام بتاؤ! ہم نے علاقے کے مال چوروں کے ریکارڈ میں درج کرنا ہے! سرکار کو پھر غصہ آ گیا۔ سردار جی! آپ کے بچے جیئیں یہی نام ہیں ہمارے۔ اچھا اچھا! تمہاری قوم کیا ہے۔ قوم تو جناب کچھ نہیں، ہم دیندار ہیں۔ سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ کتے، بلے کھانے ہو۔ سرکار ہم یہ چیزیں نہیں کھاتے، نہ مردار کھاتے ہیں۔ اچھا اچھا! بڑے آئے حلال کھانے والے۔ یہ بکو تمہارا دھرم کیا ہے، سردار جی سرکار نے پگڑی کی تہیں جماتے اور پلو پیچ میں پھنساتے ہوئے پھرپوچھا۔ سرکار دھرم کا تو کچھ پتہ نہیں! انہوں نے ملتجی نظروں سے گاؤں کے تماشا دیکھنے والے مجمع کی طرف دیکھا کہ شاید کوئی ان کی مشکل حل کر دے مگر بھیڑ سے بھی کوئی گواہی نہ آئی۔ وہ ابھی رحم کی اپیلیں ہی کر رہے تھے کہ حوالدار نے انہیں تھانے میں بند کرنے کیلئے بھیڑ بکریوں کی طرح بید کے ڈنڈے سے ہانکنا شروع کر دیا۔ دو دن تک بھوکے پیاسے حوالات میں بند پڑے رہے اور انسانوں کے برعکس شاید بھینس کو ہی ترس آ گیا جو وہ آس پاس کے کسی بیلے سے رسہ تڑوا کر واپس اپنے گاؤں بھاگ آئی۔

    اب جوہلہ پڑا تو گھن کے ساتھ مکھی پسنے کے مصداق باپ بیٹے کو بھی مصیبت نے آن گھیرا۔ پہلے تو مشرقی پنجاب کے ان کے چھوٹے سے گاؤں سے کسی شخص نے ان کے دھرم کی گواہی نہ دی تھی مگر اب اچانک سب کو ان کے دھرم کا پتہ چل گیا تھا۔ ان کو بھی اپنے دھرم بندوں کے ساتھ گاؤں جلد سے جلد چھوڑنے کا صافی حکم مل گیا تھا۔ اس حکم نامے کے بعد شانو نے اپنی بارہ سال کی بہن کامی کو کندھے پر اٹھایا، اپنی موک والی بکری کی رسی کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کیا اور اپنے باپ بکو کے ساتھ اور لوگوں کے ہجوم میں نئے ملک کی طرف چل پڑا۔ رستے میں کئی حملے ہوئے، کافی لوگ مارے بھی گئے مگر ابھی تک وہ ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے جو زندہ تھے۔ اس پڑاؤ میں تو وہ بہت زیادہ فکر مند تھے کہ گذشتہ روز سکھوں اور ہندووں کے مشترکہ جھتے کے حملے میں جانی نقصان کے ساتھ عورتوں اور بچیوں کی سر عام عصمت دری نے ان کے دل دہلا دیئے تھے۔ بکو نے متعدد بار شانو سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہ کچھ کھاتا تھا نہ بولتا۔ رات کے بارہ بجے ہونگے جب شانو کی چپ ٹوٹی اور اس نے اپنے باپ سے کہا۔ کنوئیں میں پھینک دے کامی کو۔۔۔ مجھ سے اس کی بےعزتی نہ دیکھی جائےگی۔ باپ ایک دم سٹپٹا گیا۔ اسے یوں لگا جیسے شانو نے اس کے کلیجے کو اس کی پیٹ کے اندر ہاتھ ڈال کر مسلنا شروع کر دیا ہو۔ کہنے لگا ایسا نہ سوچ پتر! کامی کس قدر پیار کرتی ہے ہم دونوں سے۔ تیری ماں کے مرنے کے بعد رل کھل کر پلی ہے بیچاری۔ اب تو اس نے ہم لوگوں کیلئے روٹیاں بھی پکانا شروع کر دی ہیں۔ مانگی تانگی لسّی سے مکھن کے پھوئے اتار کر لگاتی ہے تیری روٹی پر۔ اگر ایسا نہیں کر سکتا تو یہ لے کلہاڑی اور گلا کاٹ دے میرا۔ شانو کا یہ کہنا تھا کہ اس کا باپ چپ ہو گیا اور پرالی کے ڈھیر پر گرا کر گھٹ گھٹ کر رونے لگا۔ ادھر شانو نے سوئی پڑی کامی کو کندھے سے لگایا اور رات کے اندھیرے میں گاؤں سے باہر کنوئیں کی طرف چل پڑا۔

    اگلی رات جب وہ دو ہی رہ گئے تھے تو انہوں نے پیدل نئے ملک کی طرف سفر شروع کیا۔ قیامت کی رات تھی وہ، سردی سے ان کے دانت بجتے تھے مگر وہ نہ آگ جلا سکتے تھے اور نہ رستہ اور پگڈنڈی اختیار کر سکتے تھے انہیں تو شور کے بغیر چھپتے چھپاتے آگے بڑھنا تھا ۔ وہ بھاگتے رہے، کھیتوں کھلیانوں کے بیچ، آبادیوں سے دور کہیں کہیں رستے میں کماد کا کوئی کھیت پڑتا تو وہ کھڑاک کئے بغیر بھوک اور پیاس کے جہنم کو ایک ساتھ بجھانے کی کوشش کرتے۔ وہ گیدڑوں کی آوازیں سن کر قدم قدم پر بدک جاتے۔ وہ گرتے پڑتے، پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ تمام رات بھاگتے رہے۔ یہ کوئی چھمب کا علاقہ تھا۔ دور دور تک نہ کوئی وٹ اور نہ کوئی بنا۔ انہوں نے دائیں بائیں کئی کئی ایکڑ تک بھاگ کر ہموار راہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام۔ پتہ نہیں یہ چھمب کتنی دور تک پھیلا ہوا تھا۔ آخر انہوں نے اسے سیدھا عبور کرنا شروع کیا۔ کہیں کہیں تو پانی اتنا گہرا ہو جاتا کہ وہ کمر تک یا چھاتی تک ڈوب جاتے۔ ہر طرف لمبی لمبی ڈب نظر آ رہی تھی۔ ان کے پاؤں کی آہٹ سے کوئی جل مرغ یا مرغابی پھڑپھڑاتی تو ایک دم ان کی جان نکل جاتی۔ ڈب کا سمندر پار کرنے کے بعد وہ ایک نہر کے کنارے پر جا نکلے، ان کی خوش قسمتی تھی کہ نہر میں پانی کم تھا۔ نہر عبور کرنے کے بعد پھر گندم کے کھیتوں کا سلسلہ، کہیں کہیں سرسوں کے کھیت، گنے کے کھیت اور پھر گندم کے کھیتوں کا لامتناہی سلسلہ۔ وہ بھاگتے رہے، گرتے پڑتے، تھک جاتے تو چلنے لگتے اور سانس بحال ہوتی تو پھر بھاگ پڑتے۔ پتہ نہیں وہ کتنے گھنٹے بھاگتے رہے۔ جب سرگی کا تارا طلوع ہوا تو وہ گنے کے ایک کھیت کے پاس نیم مردہ لیٹے تھے، اب ان میں اور بھاگنے کی سکت نہ تھی۔ وہ کماد کے کھیت میں چھپے بیٹھے تھے کہ ان کے کانوں میں قریب ہی کسی گاؤں سے اذان کی بنا سپیکر کی آواز پڑی۔ پہلے تو انہوں نے کھیت سے باہر آ کر اس آواز کو پہچاننے کی کوشش کی اور جب ان کو یقین ہو گیا تو انہوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور صبح کے انتظار میں پھر کماد میں چھپ گئے۔

    نئے دیس کی صبح کا منظر بھی پرانے دیس کی صبح جیسا ہی تھا۔ فرق یہ تھا کہ یہاں ان کی کامی کو فی الوقت بے عزت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ مگر ان کی کامی تھی کہاں! کامی کا خیال آتے ہی وہ دونوں دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، انہوں نے جی بھر کر کامی کے بین کئے اور مٹھیاں بھر بھر کر اپنے سروں میں خاک ڈالی۔ انہوں نے یہاں آنے سے پہلے تبدیلی کے کئی خواب دیکھے جواب چکنا چور ہو گئے تھے۔ وہ سوچتے تھے شاید انہیں بھی کاشت کاری کے لئے کوئی زمین کا ٹکڑا مل جائےگا یا سر چھپانے کو گھر مل جائےگا مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ان کی تو خیر کوئی زمین ہی نہیں تھی مگر جن کی جدّی پشتی کوئی زمین تھی بھی سالہاسال سے ان کو بھی وہ زمین نہ ملی تھی۔ انہیں کے گاؤں میں کرم الہی اپنی خاندانی زمین کی الاٹمنٹ کیلئے روز تحصیلوں، کچہریوں کے چکر لگا لگا کر پاگل ہو چلا تھا۔ ایک دن کرم الہی کو پٹواری نے دلاسہ دیتے ہوئے بتایا کہ کل تیرے گاؤں کا دورہ ہے، اچھی روٹی پکالینا، یہ مرغی ورغی نہیں چلےگی، میں مرغی کھا کھا کر تنگ آ گیا ہوں۔ بیچارے کرم الہی کے پاس بکری تھی نہ بھیڑ۔ کہیں بھی قریب گوشت ملنے کا امکان نہ تھا۔ شہر جانے کی نہ سواری تھی اور نہ پیسے۔ سارا دن سوچ سوچ کر وہ بکو کے پاس چلا گیا۔ کہنے لگا، کل پٹواری ہمارے گاؤں آ رہا ہے، مرغی وہ کھاتا نہیں، گوشت کا بندوبست میں نہیں کر سکتا۔ تم میری مدد کر سکتے ہو، تم لوگ تو کتی، بلی۔۔۔ وہ حقارت بھری نظروں سے بکو کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگا اور ہاں! اگر مردار ہو تو بھی چلےگا، یہ لو دو آنے، دیکھو میری عزت کا سوال ہے۔ بکو نے پیسے لیتے ہوئے شانو کی طرف دیکھا، شانو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

    آخر کار ان لوگوں کے باپ دادا کے جو کرتے تھے، وہ بھی وہی کرنے لگے۔ بکو کسی جاٹ کی حویلی میں چلمیں بھرنے پر معمور ہوا اور شانو کسی زمیندار کے ہاں آتھڑی رہ گیا۔ وہ دونوں باپ بیٹا رات کے وقت اپنے ڈھارے میں دنیا جہان کی باتیں کرتے۔ وقت یونہی گذرتا رہا، ایک دن شانو نے اپنے ابا کو بتایا کہ اب ملک میں اچھا بادشاہ آیا ہے۔ غریبوں کا حامی ہے اور ان کی بات کرتا ہے۔ بکو یہ سن کر چونک گیا اور بولا، ہو سکتا ہے غریبوں کے دن بھی پھر جائیں۔ بیٹا تو شام کو کام سے فارغ ہو کر تعلیم بالغاں کے لئے جایا کر۔ تعلیم سنا ہے اچھی ہوتی ہے اورہاں ریڈیو پر خبریں بھی سنا کر۔ ریڈیو تو لے لے یار! اگر لے نہیں سکتا تو کہیں سے چرا ہی لا۔ پھر کئی سال تک وہ دوسرے گاؤں سے چرائے ہوئے ریڈیوں پر خبریں سنتے رہے۔ لیڈر کے جانے کی خبر، غیر عوامی حکومت کے آنے کی خبر یں، فلمی گانے اور بی بی سی کے تبصرے۔ غریب، غربت، عوام، امن، محبت، برابری کے لفظوں پر ان کے کان کھڑے ہو جاتے۔ آج بھی جب بی بی سی ریڈیو نے لینن ایوارڈ تقریب کی تقریر سے یہ اقتباس سنایا تو ان کے کان کھڑے ہو گئے۔ امن گندم کے کھیت ہیں، دلہن کا آنچل ہے،بچوں کے ہاتھ ہیں، شاعر کا قلم ہے اور فنکار کا موئے قلم، آزادی، ان سب چیزوں کی ضمانت ہے اور غلامی موت!

    یہ ٹکڑا سن کر بکو گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ شاید وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ انہیں ملکوں ہی کی نہیں بلکہ انسانوں کی آزادی کی بھی ضرورت تھی۔ اپنی یہ ضرورت مزید کئی سال پوری نہ ہونے کے بعد ایک رات اس نے ریڈیو پر یہ شعر سنا۔

    وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے

    نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں

    اگلی صبح پتہ نہیں کیا ہوا لیکن وہ اٹھا نہیں۔ کسی نے کہا دل کا دورہ پڑا، کسی نے کہا سانس الٹ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے