Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناموجود

MORE BYمریم تسلیم کیانی

    ان بکس چیٹنگ

    می : ہم کب ملیں گے ،کب میں تم کو چھو سکوں گی۔

    جانو : بہت جلد میری جان بہت ہی جلد۔۔۔ میں تم سے زیادہ بے قرار ہوں۔

    می : بے قرار ہوتے تو اپنا ٹرانسفر میرے شہر میں کروا لیتے۔۔۔ تم سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہو، پہلے اتنا پیار اور توجہ دیتے ہو اور جب عورت پگھل جاتی ہے تب توجہ دینا بند کر دیتے ہو۔

    جانو : میں اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، تم صبر کر لو بس کچھ دن، میں اپنی محبت کا ثبوت خود لاوں گا۔

    می : اچھا سوری ناراض نہ ہونا۔ میں کبھی کبھی ایسے ہی بنا سوچے سمجھے بول دیتی ہوں۔

    جانو : تم سے ناراض ہوا تو مر نہ جاؤں گا۔ میری جان۔ آئی لو یو سو مچ۔

    می : او مائی جانو۔ آئی لو یو ٹو۔

    جادوگر نے مجمع کی طرف دیکھا۔۔۔ ابدال پر نظر پڑتے ہی اس نے اشارہ کیا اور کہا۔۔۔ کیا آپ میرا ساتھ دیں گے؟ میرا اگلا ایکٹ دنیا کی تاریخ کا سب سے منفرد ایکٹ ہے، پلیز اسٹیج پر تشریف لے آئیے۔

    ابدال کافی دیر سے گم صم سا بیٹھا تھا، جادوگر کے بلانے پر وہ اسٹیج پر چلا آیا۔

    آپ یہاں کیسے تشریف لائے؟

    پتا نہیں۔

    کیا کرتے ہیں؟ کیا کماتے ہیں۔

    میں حلال کماتا تھا، جس کی وجہ سے زندگی حرام ہو گئی تھی۔

    کیا آپ میرے ساتھ مکمل تعاون کریں گے؟ میں یہاں آپ کووہ چند لمحات دکھانا چاہتا ہوں جن کو آپ نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔

    کیا مطلب!!

    میں آپ کو ایسی نیند سلا دوں گا جس میں آپ وہ واقعہ دیکھیں گے جس میں آپ موجود نہیں تھے۔جادوگر بےحد بردبار اور سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔ کیا آپ راضی ہیں کیونکہ آپ کی مرضی کے بغیر میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔

    ابدال اپنے ذہن کو پرسکون کرنے کی غرض سے اس شو میں آیا تھا۔ آج اس کو بزنس میں ایک بھاری نقصان ہوا تھا اور آج ہی اس کی شادی کی سالگرہ بھی تھی، اس نے اپنی حسین بیوی کو ڈائمنڈ کے بندے دینے اور فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر کروانے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ اگر یہ دونوں کام وہ آج کر لے گا تو وہ جانتا تھا کہ اس کے بعد اس کے بینک اکاؤنٹ میں صرف ایک ماہ کا بجٹ رہ جائےگا پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ اس سے آگے سوچنے کے لیے اس کا دماغ یکجا نہیں ہو پا رہا تھا۔۔۔

    وہ جادوگر کی بات ماننے کے لیے بےدلی سے راضی ہو گیا۔

    کیا کرنا ہوگا مجھے؟

    جادو گر اسے سمجھانے لگا۔ آپ کو میری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نیند میں جانا ہوگا۔ اس کے بعد آپ نیند میں کسی ایسے واقعے کو دیکھ سکیں گے جو آپ کی زندگی میں کبھی الجھن کا باعث بنا ہو اور جو آپ نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔

    ابدال نے اپنی تمام توجہ جادوگر کی باتوں پر مرکوز کر دی۔

    آپ کے پیروں کے پاس کیلیں لگی ہیں، جب آپ اپنے پاؤں زمین پر مارنے لگیں گے تو اس کی چبھن سے آپ ہوش میں آ جایئں گے۔۔۔

    اسے ایک آرام دہ کرسی پر لٹا دیا گیا۔ پیروں سے ذرا نیچے نوکیلی کیلیں لگی تھیں۔ اس نے جادوگر کی باتوں پر عمل کرنے کی ٹھان لی تھی۔

    جادوگر، اسے پرسکون رہنے اور اپنے ہر اعضا کو ڈھیلا چھوڑنے کی تاکید کرتا رہا۔ ابدال کو آہستہ آہستہ اپنا جسم ہوا میں جھولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

    اب آپ صرف میری آواز سن رہے ہیں۔ اپنا دماغ بالکل خالی کر دیں۔ خالی کر دیں۔ اب آپ کا دماغ بالکل خالی ہو چکا ہے۔۔۔ بالکل خالی ہو چکا ہے۔۔۔ اب آپ کو اندھیرا دکھائی دےگا اور پھر آپ اپنے آپ کو ایک ایسے منظر میں دیکھیں گے جہاں آپ نہیں تھے اور جو آپ کے پیچھے ہوتا رہا وہ دکھائی اور سنائی دےگا۔ جب آپ کا دم گھٹنے لگے آپ اپنے پیر زمین پر مارنے لگیں گے۔۔ـ

    جادوگر کی آواز معدوم ہو گئی۔ یا اس نے جان بوجھ کر اپنی آواز بند کر دی۔ ابدال کو اپنا سر سن سا ہوتا محسوس ہونے لگا۔۔۔ اور پھر تمام تر احساسات ہوا میں معلق ہو گئے۔ وہ جھولنے لگا۔۔۔

    تنویمی نیند۔۔۔

    اندھیرا بہت گہرا تھا۔۔۔ سناٹا ہی سناٹا۔۔۔ وہ اڑ رہا تھا جیسے اس کا وجود غیر مرئی بن گیا تھا۔۔۔ اچانک اسے ایک منظر دکھائی دیا۔ اس کو حیرت ہوئی۔ یہ منظر اس کے بچپن کا تھا۔ اس کے ماں باپ کا جھگڑا ہو رہا تھا۔۔۔ مگر وہ خود اس منظر میں نہیں تھا۔۔۔

    بار بار اس کا نام لیا جا رہا تھا۔

    ابدال بڑا ہو رہا ہے۔۔۔ تم کچھ تو خیال کیا کرو نا۔ آخر کب تک جوا کھیلو گےـ یہ اس کی ماں تھی، اسے چہرے صاف دکھائی نہیں دے رہے تھے مگر آواز بہت صاف تھی۔۔۔

    تم سیدھی طرح کہو کہ اب تمھیں اپنا عاشق یاد آتا ہے۔ اس کا پاپ میرے متھے مارا ہوا ہے اور میں اس کے ڈر سے عیاشی بھی نہ کروں، شرا ب بھی نہ پیئوں۔

    وہ میرا سچا عاشق تھا۔ مجھ سے کتنی بڑی غلطی ہوئی جو اتنے اچھے انسان کو چھوڑ دیا تمھارے بہکاوے میں۔ مگر اب بہت ہوا۔ میں اپنے بیٹے کی زندگی برباد نہیں کروں گی۔۔۔

    کیا کرے گی تو؟ مجھے چھوڑے گی۔۔۔ تو مجھے نہیں چھوڑ سکتی کتیا۔۔۔ اب تو بھیک مانگے گی مجھ سے الگ ہو کے یا کوٹھے پر جائےگی۔ تیرے پاس ہے کیا۔۔ـ

    ابدال کو ماں کی سسکیاں سنائی دینے لگیں۔۔۔

    تم نے مجھے طوائف سے بھی بدتر بنا دیا ہے جب جوا ہارتے ہو تو مجھے ان بد معاشوں کے آگے ڈال دیتے ہو۔ ماں سسکیاں لے لے کے رو رہی تھی۔

    یہ سسکیاں وہ بچپن میں اکثر سوتے ہوئے سنتا رہا تھا۔۔۔ تو یہ راز تھا ان سسکیوں کا۔۔۔

    اسے لگا کہ اس کا دم گھٹ رہا ہے۔۔۔ اندھیرا اور گہرا ہو رہا ہے اور ساری دنیا گھوم رہی ہے۔ اس کا فوکس کسی بھی ایک جگہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس کا دل بند ہونے لگا اور سانس رکنے لگی۔ اسے بے حد خوف محسوس ہونے لگا۔۔۔

    دم گھٹنے لگے تو اپنے پاؤں زور زور سے زمین پر مارنا۔۔۔ جادوگر کی بات اچانک اسے یاد آ گئی۔

    اس نے اپنے پاؤں زور زور سے زمین پر مارے تو کیلوں کی نوکیں چبھنے لگیں۔

    وہ ہوش میں آ گیا!!

    گھر کے راستے میں آج بے تحاشہ ٹریفک جام تھا۔ بزنس کا نقصان سنتے ہی اس نے دفتر میں بیٹھ کر اپنا دماغ مزید نہ کھپانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔ جادوگر کے شو کی مفت ٹکٹس اس کے کسی دوست نے اسے دی تھی مگر جادوگر نے اسے تنویمی نیند میں لے جا کے اس کے پرانے زخم ادھیڑ دیئے تھے۔ بہت سارے سوالات اور الجھنیں اس کے دماغ میں گھوم رہی تھی۔ اسے اپنے سگے باپ کا علم نہ تھا۔ اس کی ماں منوں مٹی تلے دفن تھی اور جسے ساری عمر باپ سمجھتا رہا تھا وہ شخص دوسری شادی رچا کے اپنی دنیا الگ بسا چکا تھا۔ اس نے بھی دنیا میں زندہ رہنے کی خاطر بہت سے ہنر سیکھ لیے تھے۔ وہ دوسروں کو دھوکا دے کے، حرام کاریاں کر کے بڑی جدوجہد کے بعد معاشرے میں رہنے کے قابل بنا تھا۔ اس کی ساری توجہ اور توانائی پیسہ کمانے میں صرف رہتی تھی۔ پیسہ تھا تو اسے حسین بیوی ملی تھی۔ جو اس کی کل کائنات تھی۔ مگر وہ کبھی لفظوں سے اس کا اظہار نہیں کر پاتا تھا۔ تحفے تحائف، آسائشوں سے پر گھر اور دنیا کی ہر سہولت فراہم کر کے مطمئن تھا۔ بیوی کو خوش کرنے کے لیے وہ آج بھی وعدے کے مطابق اس کے لیے ڈائمنڈ کے بندے خرید چکا تھا۔

    ٹریفک کھل گیا اور وہ بیوی کو سر پرائز دینے کے لیے جلدی گھر آ گیا۔

    ثنا شاور لے رہی تھی۔ اس کا لیپ ٹاپ بیڈ پر تھا۔ وہ اسے بند کرنا بھول گئی تھی۔ ابدال چونکہ آج بےحد اداس تھا۔ اپنا دل بہلانے کی خاطر وہ لیپ ٹاپ لے کر دوسرے روم میں آرام دہ صوفے پر آ گیا۔

    لیپ ٹاپ کی اسکرین پربھی ایک جادوئی تماشہ چل رہا تھا۔

    ان بکس چیٹنگ۔۔۔

    می: کاش شام نہ ہوا کرے۔۔۔ ہم سارا دن ہوں ہی ملتے رہیں۔۔۔ جب تم جانے لگتے ہو تو میری سانسیں رک جاتی ہیں۔ کسی دن مر جاؤں گی۔

    جانو : تم خود کو سنبھالو۔ جان۔ ایسی بات بھی نہ سوچا کرو۔

    می : تم کتنے اچھے ہو مجھے کتنا سمجھتے ہو اور پیار کرتے ہو۔ کاش میں تم کو اپنی جان بھی دے سکتی۔۔۔

    جانو : تم تو میرا سکون ہو۔۔۔ میرا مان ہو۔ میرا حوصلہ ہو پوری دنیا میں تم میری سچی ساتھی ہو جس سے میں دل کی گہرایئوں سے محبت کرتا ہوں۔ جس نے مجھے اپنی محبت سے انمول بنا کر ایک مان دیا ہے کہ میں مطمئن روح سے جی رہا ہوں۔۔۔ جو میرے لیے تڑپتی ہے اور جس کے لیے میں سلگتا ہوں۔

    می : افف۔۔۔ تم کتنی اچھی باتیں کرتے ہو۔۔۔ یہ باتیں مجھے کسی دوسری ہی دنیا میں پہنچا دیتی ہیں۔ ایک میرا شوہر ہے۔ اسے جسمانی ورزش کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں ۔خیر اس کا ذکر کیوں کروں اتنے پیارے لمحے میں۔۔۔ جانو تمھارا پیارا لمس اپنے جسم سے اتارنے کو بالکل من نہیں کر رہا مگر شاور لینا ہی پڑےگا۔ آج بےحد مزا آیا۔۔۔ تم میں ایک عجیب جادو ہے۔ آئی لو یو۔ آئی۔ لو۔ یو۔

    جانو : آئی۔ لو۔ یو۔ ٹو۔۔۔ میری جان

    ثنا، شاور لے کے کمرے میں آئی تو اسے یاد آیا کہ آج لیپ ٹاپ سے میسج ڈیلیٹ کر کے اسے آف کرنا بھول گئی ہے۔۔۔

    وہ حیران رہ گئی۔ دوسرے کمرے میں لیپ ٹاپ فرش پر اوندھا گرا ہوا تھا۔۔۔

    صوفے پر اس کا شوہر اپنی آنکھیں بھینچے عجیب انداز میں لیٹا تھا۔۔۔ اور اپنے پاؤں زور زور سے زمین پر مار رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے