کہانی کی کہانی
یہ نادر سکوں کے ایک ایسے بکس کی کہانی ہے جسے ایک چاچا نے اپنے بھتیجے کو تحفے میں دیا تھا۔ چاچا ادھیڑ عمر کے ہو چکے تھے اور انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔ ان کا کمرا پرانی کتابوں کاپیوں، بند گھڑیوں، کمپاس، قطب نما، قدیم نقشوں اور دوسرے الم غلم سامانوں سے اٹا پڑا تھا۔ گھر کے افراد ان کے کمرے میں جانے سے کتراتے تھے۔ بھتیجا کبھی اس راز تک پہنچ نہ سکا کہ اس کے چاچا نے اسے یہ بکس کیوں دیا تھا؟ وہ اس کی سالگرہ کا دن تھا نہ کوئی تہوار، نہ ہی اس نے اسکول یا کھیل کے میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس کے چاچا نے اس بکس کی کنجی اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا تھا اس سے زیادہ میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ شاید یہ ان کے پاگل پن کی ابتدا تھی۔
میں ایک لمبے عرصے سے اس کی تلاش میں تھا۔ میں اپنا زیادہ وقت ایک گھاٹ سے دوسرے گھاٹ تک پیدل طئے کرنے میں بتاتا۔ میرے کچھ دوست لانچ پر سوار جس کی چمنی سے دھواں نکل نکل کر ہو میں منتثر ہوتا رہتا ہمیشہ دوسرے کنارے کی طرف جا رہے ہوتے۔ میں انھیں دور سے ہاتھ ہلا کر الوداع کہتا اور وہ بینچ پر بیٹھے یا لوہے کے ریلنگ کے سامنے کھڑے میری طرف مایوسی سے تاکتے رہتے۔ انھیں اس بات کی فکر تھی کہ میں کبھی دوسرے کنارے پہنچ نہ پاؤنگا۔ ان کی سوچ کچھ غلط بھی نہ تھی۔ ابھی حال میں ہی میں نے ایک بےتکا کارنامہ انجام دیا تھا۔ میں نے ایک مرتے ہوئے بوڑھے کو، جس کا اس سیارے پر کہیں ٹھکانہ نہ تھا، اسپتال پہنچا کر اس کے باقی کے دنوں میں چند بیکار اضافے کیے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی، میں خود کو سمجھاتا، کہ بوڑھے نے شکریہ ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
میں تھک کر بس اسٹاپ کے سائبان کے نیچے لوہے کی کرسی پر بیٹھ گیا جس کے پائے کنکریٹ کی زمین میں پیوست تھے اور اپنی ناک کی سیدھ پر تاکنے لگا۔ سامنے کی روشن پٹریوں پر جیسے ایک ہی ٹرام بار بارگذر رہی تھی۔ کبھی کبھی مجھے اس سے دلچسپی بھی ہو جاتی۔ مگر وہ ہر بار گھنٹی بجا کر جا چکی ہوتی اور میں اس کی پشت سے لٹکتی رسی کے سوا کچھ نہ دیکھ پاتا۔
’’اسے جب میں نے سوچا ہے، تو ایک دن اسے میرے رو برو آنا ہی ہے اور جب وہ نمودار ہوگا میں اسے مایوس نہیں کرونگا۔ میں اسے اپنے نادر سکّوں کا بکس تحفے کے طور پر دے دونگا۔‘‘
یہ نادر سکوں کا بکس، اگر آپ کو اس سے دلچسپی ہو، تو بتادوں اسے میرے چھوٹے چاچا نے مجھے تحفے میں دیا تھا۔ وہ ادھیڑ عمر کے ہو چکے تھے مگر انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔ ان کا کمرا پرانی کتابوں کاپیوں، بند گھڑیوں، کمپاس، قطب نما، قدیم نقشوں جو اپنی موڑنے والی جگہوں سے ٹوٹنے لگے تھے اور دوسرے الم غلم سامانوں سے اٹا پڑا تھا۔ گھر کے افراد ان کے کمرے میں جانے سے ڈرتے تھے۔ مجھے آج تک اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ یہ بکس انھوں نے مجھے کیوں دیا؟ وہ میری سالگرہ کا دن تھا نہ کوئی تہوار کا موقع، نہ ہی میں نے اسکول یا کھیل کے میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔ صرف کنجی میرے ہاتھ میں تھماتے وقت انھوں نے آنکھ ماری تھی۔
’’یاد رکھنا، اس سے زیادہ میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
یہ ان کے پاگل پن کی شروعات تھی۔
اب ان کو پاگل ہوئے دو سال بیت گئے تھے۔ اسی درمیان میں نے وہ بکس کبھی کھولنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے ابھرے ہوئے ڈھکن پر لاکھ کا گہرا وارنش چڑھایا گیا تھا جس میں لانبی چونچ والے متنوع پرندوں کی رنگین تصویریں تھیں، بکس کی بیرونی دیواروں پر خوشنما پتّوں والی بیلیں ابھاری گئی تھیں۔ صرف پیندا کسی بھی طرح کے رنگ و روغن سے عاری تھا۔ بکس کو ہلانے پر اندرسے سکوں کے کھنکنے کی آواز سنائی دیتی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بکس کے رنگ و روغن پر گذرتے وقت کا ذرا سا بھی نشان نہ پڑا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی شامل کر دوں کہ میں دو سال کے اندر اندر اسے الماری کے اندرونی حصے میں کپڑوں کی تہہ میں رکھ کر پوری طرح بھول گیا تھا۔ پھر جب ہم لوگ ایک ڈیزل ٹرین میں بیٹھ کر اس پہاڑی شہر کی طرف روانہ ہوئے جہاں کے پاگل خانے میں وہ رکھے گئے تھے، تو مجھے اس کا خیال آیا اور میں نے نادر سکوں کا بکس اپنے سوٹ کیس کے اندر ڈال لیا۔
پاگل خانے کے لان میں جہاں ملاقاتیوں کو پاگلوں سے ملنے کی اجازت تھی، ان کی غیر فطری طور پر بڑھی ہوئی شیو اور گندے لباس کے باوجودان کے لانبے قد اور تیزعقابی آنکھوں کے سبب مجھے چچا کو پہچاننے میں دشواری نہ ہوئی اور جب کہ لوہے کے بند پھاٹک کے پیچھے کھڑے دوسرے پاگل شور مچا رہے تھے یا رو رہے تھے یا ہنس رہے تھے (اگر یہ ان کی اداکاری نہ تھی) وہ ملاقاتیوں کے شیڈ کے اونچے برامدے پر ہمارے برابر بیٹھ گئے اور میرے ابا سے باتیں کرنے لگے۔ بات کرتے کرتے انھوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے دعادی اور دیر تک نادر سکوں کے بکس کی طرف تاکتے اور مسکراتے رہے۔
ابا سے بات ختم کرنے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے۔
’’اور سب کی طرح تم بھی تو مجھے پاگل نہیں سمجھتے ہونا؟‘‘ انھوں نے میرا داہنا کان اینٹھتے ہوئے کہا جسے ابا نے سن لیا۔وہ زیرِ لب مسکرائے مگر خاموش رہے۔
’’نہیں‘‘ میں نے کہا۔ پاگل خانے کے دو ملازم حفظِ ما تقدم کے طور پر ہمارے سر پر تیعنات تھے۔
’’لگتا ہے تم بھی پاگل ہو گئے ہو۔‘‘ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’اگر میں پاگل نہیں تو کیا میں یہاں بھاڑ جھونکنے کے لئے رکھا گیا ہوں؟ اور یہ بکس، اسے تم نے کبھی کھولنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘
’’یہ آپ کو کیسے پتہ؟‘‘
’’کیونکہ میں نے تمہیں غلط کنجی دی تھی۔ اب بتاؤ میں پاگل ہوں؟‘‘
ابا نے مجھے اٹھنے کا اشارا کیا، مگر اس سے پہلے ہی چاچا میرا داہنا ہاتھ سختی سے تھام چکے تھے۔
’’تم پڑھائی میں دھیان نہیں لگاتے اور غلط سلط چیزیں سوچتے رہتے ہو۔‘‘
’’چاچو، میرا ہاتھ دکھ رہا ہے۔‘‘
’تم صرف میرے بارے میں سوچتے رہتے ہو۔‘‘
مجھے لگا میری کلائی کی ہڈی ٹوٹ جائگی اور میں چینخ پڑا۔
انھیں دونوں ملازم نے بہت مشکل سے مجھ سے الگ کیا۔ اس کھینچا تانی میں نادر سکوں کا بکس زمین پر جا گرا اور اس کی آواز سے اچانک چچا کی آنکھیں جیسے خواب سے جاگ گئیں۔
’’تم نے یہ آواز سنی‘‘ دونوں ملاز م کے شکنجوں میں پھنسے وہ میری طرف بے بسی سے تاک رہے تھے۔ ’’ایک دن تمہیں اس کے لئے افسوس ہوگا۔‘‘
’’چلو بھی۔‘‘ ابا نے میرے کان میں سرگوشی کی۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ ٹھیک ہوں میں۔‘‘ چچا نے دونوں ملازموں سے خود کو الگ کیا، اپنی قمیض کا کالر ٹھیک کیا اور میرے پاس آئے۔ انھوں نے میرے دونوں گال چوم کر انھیں تھپتھپایا۔ وہ جب سر جھکائے ہوئے ملازموں کے درمیان چلتے ہوئے لوہے کے پھاٹک کی طرف واپس جا رہے تھے جہاں پاگلوں کا شور اوربھی بڑھ گیا تھا تو میری آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔
’’ان کا پاگلپن کب ٹھیک ہوگا؟‘‘ باہر آ کر میں نے ابا سے سسکتے ہوئے پوچھا۔ نادر سکوں کے بکس پر اب بھی میری انگلیاں لرز رہی تھیں۔ زمین پر گرنے کے سبب اس کے ایک کونے کا وارنش درک گیا تھا۔
’’وہ کبھی پاگل نہیں ہوئے۔‘‘
’’پھر آپ لوگوں نے انھیں یہاں کیوں ڈالا؟‘‘
’’شاید اس لئے کہ اس پاگل دنیا کے اندر یہ تمہارے چاچا کے لئے سب سے محفوظ جگہ ہے۔‘‘
میں نے ابا کی طرف دیکھا اور جانے کیوں مجھے ایسا لگا جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے کے چچا کلین شیوڈ ہو کر صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس میرے ساتھ باہر نکل آئے تھے۔
ایک ٹرام میرے سامنے آکر رکی ہے اور میں نے اس سے ایک بھاری بھرکم لڑکی کو ہانپتے کانپتے باہر آ تے دیکھا ہے۔ لڑکی کو میری نظریں نہیں بھاتیں۔ میری مسیں بھیگنے لگی ہیں۔ مجھے اپنی آنکھوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ میں سر جھکا لیتا ہوں۔ اس کے بعد بھی دیر تک ٹرام کھڑی رہتی ہے، پھر ایک دھچکے کے ساتھ کنڈکٹر کی گھنٹی کا انتظار کئے بغیر چل پڑتی ہے۔ میں اٹھ کر پٹریاں پار کرکے نیچے اپنے محلے کی طرف چل پڑتا ہوں جس کے مٹیالے آسمان پراڑتے چیل اور کووں کے بیچ ایک دمدار پتنگ اپنا راستہ بھول چکی ہے۔
گذشتہ دس سال کے اندر اندر ہمارا پرانا پشتینی مکان چاروں طرف سے غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں سے گھر گیا تھا جن میں عجیب طرح کے نا قابل بیان لوگ آ گئے تھے۔ ایک چلم بردار فقیربھی تھا، جس نے ہماری دہلیز پر اپنا دائمی ٹھکانہ بنایا تھا اور جس کے وجود سے ہر وقت بھنگ کی بو آتی رہتی اور جو اب خود کو اس گھر کا ہی ایک فرد متصور کرنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بیڑی سلگاتے سلگاتے جھائیوں بھرا چہرا میری طرف اٹھایا۔
’’ببوا کا کالج پھر کھل گوا۔‘‘
میں اس کے جملے پر چونک پڑا۔ کالج! ابھی تو میں نے دسویں کا امتحان ہی پاس کیا ہے۔ شاید میرے قد کے سبب وہ مجھے کالج کا اسٹودنٹ سمجھتا ہے۔ گھر کے اندر چھوٹے چاچا کے بند کمرے کے سامنے سے گذرتے گذرتے میں ٹھٹھک گیا۔ آج اس کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اندر روشنی ہو رہی تھی۔ مجھے اندر سے کسی آدمی کے ہونے کی آہٹ سنائی دی اور میرا دل دھک سے رہ گیا۔
’’حاتم ہے۔‘‘ ماں نے پان چباتے چباتے کہا۔’’ تمہارے چاچوکے علی گڑھ کے زمانے کا ساتھی۔ اس سے ملنے آ یا ہے۔ کالج کے دنوں میں کئی بار آ چکا ہے۔ اس وقت تم بہت چھوٹے تھے۔ شاید ہی تمہیں یاد ہو۔‘‘
جانے کیوں مجھے اس کمرے میں جانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ میرا ایک ذاتی کمرا تھا جس کے قد آدم دریچے پر کبوتر اپنی چونچ اور پنجوں سے یلغار کیا کرتے۔ اس کے بند شیشوں پر آپ کسی بھی وقت ان کے پروں کو مچلتے دیکھ سکتے ہیں۔ کتابیں کونے کی میز پر پھینک کر میں بستر پر جوتوں سمیت پیٹھ کے بل لیٹ گیا اور دسوں انگلیاں گردن کے پیچھے الجھاکر چھت کی طرف تاکنے لگا جس کی کڑیوں سے لپٹے جھول اور مکڑی کے جالے برسوں سے صاف نہیں کئے گئے تھے۔ پڑوس کے کسی گھر سے کیل ٹھونکنے کی آواز آ رہی تھی۔ میری کھڑکی سے دو ہات کے فاصلے پر ایک نئی عمارت کی نچلی منزل کی ایک کھڑکی کھلتی تھی جس سے ہر دوسرے تیسرے دن اور کبھی کبھی تو دن کے وقت بھی، ایک مرد اور عورت کے زور زور سے سانسیں لینے، کراہنے، چوڑیوں کے ٹوٹنے اور آپس میں سرگوشیاں کرنے کی آوازیں سنائی دیتیں۔
’’شٹ اپ!‘‘ میں کھڑکی پر بیٹھے کبوتروں کو (کبھی کبھی فرضی کبوتروں کو) اڑاتا۔ ملاعبت کی آواز بند ہو جاتی۔ پھر کم سے کم سرگوشیوں اور آہوں میں یہ کام اپنے انجام تک پہنچتا اور کمرے کے غسل خانے میں پانی کا شور جاگ اٹھتا۔
’ماں۔۔۔‘‘ایک دن میں نے کہا تھا۔’’ ۔۔۔مجھے چاچو کا کمرا چاہئے۔ یہ کمرا مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’وہ کمرا تمہارے لئے ٹھیک نہیں۔‘‘ ماں کہتی، پھر اپنی بات میں ایک جھوٹ کا اضافہ کرتی۔ ’’اور پھر تمہارے چاچوکسی بھی دن ٹھیک ہو جائینگے۔ پھر تمہیں یہ کمرا چھوڑنا ہوگا۔‘‘
’’چھوڑ دونگا۔‘‘ میں کہتا۔ ’’میں نے کب چاچو کے کمرے میں ساری عمر گذارنی ہے۔ ‘‘
’’نہیں، وہ کمرا تمہارے لئے ٹھیک نہیں، اس میں ارمان کی بہت ساری قیمتی کتابیں اور کاپیاں رکھی ہیں، تمہارے ابّا اجازت نہیں دینگے۔‘‘ ماں تحکمانہ لہجے میں اپنا آخری فیصلہ سناتی اور میں سوچتا، ایک دن میں نادر سکوں کے بکس کے ساتھ اس گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلا جاؤنگا۔
میں اس طرح کیوں اس بکس کے بارے میں سوچا کرتا ہوں، میں بتا نہیں سکتا۔ لیکن جب بھی میں کسی گھاٹ پر اکیلا ہوتا تو دریا کے مٹیالے پانی کی طرف تاکتے تاکتے میں اس انجانے ملک میں پہنچ جاتا جہاں میں یہ بکس کھولنے والا تھا اور ان نادر سکوں کے سبب وہ ملک ایک جادوئی ملک میں بدل جاتا جہاں چڑیاں مشینی تھیں اور انسان کے جسموں پر پانی نہیں ٹھہرتے اور سندر راجکماریاں اپنے آر پار نظر آنے والے لباسوں میں اپنے کاسنی نپل کے ساتھ دریا کے کنارے کی قد آدم گھاس کے جنگل میں بھاگ رہی ہوتیں۔ چاچو جو اس ملک کے بادشاہ تھے، جو اپنی ایک انگلی کے ایک اشارے پر سلطنتوں کو تباہ کر سکتے تھے اور آسمان سے پانی برسا نے پر قادر تھے، میرے لئے ان کے دربار میں ایک خاص جگہ مخصوص تھی جہاں ستونوں پر آگ اگلنے والے سانپ لہرایا کرتے۔
حاتم میرے چاچا کی عمر کے ہی ایک دوسرے آدمی تھے جن کے سر کے سامنے کے سارے بال اڑ چکے تھے۔ انھوں نے لنن کی پتلون پر ایک ڈینم کا جیکٹ چڑھا رکھا تھا جس کے بٹن ان کی بھاری بھرکم توند کو سنبھال نہیں پا رہے تھے۔اپنے چھوٹے چھوٹے ہات پاؤں کے سبب وہ بالکل ہی مضحکہ خیز نظر آ رہے تھے۔
’’یہ بال میں نے کتابوں کی نذر کر دئے ہیں۔‘‘ انھوں نے کھانے کی میز پر مجھے بتایا۔ ’’اور اگرآج تمہارے چاچا پاگل خانے میں ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ہم میں سے سب سے کم پاگل کو ہم پاگل خانہ بھیجتے ہیں۔‘‘
وہ وہی بات کہہ رہا تھا جو میرا باپ کہا کرتا۔ مگر وہ میرے چاچوکے دوست تھے تو اتنے دنوں تک انھوں نے ان کی خبر کیوں نہیں لی؟
’’میں نے ایک دوسرے ملک میں روپا مچھلیوں سے بھری ایک آرکائیو میں پناہ لے رکھی تھی جہاں سورج تک کو جھانکنے کی اجازت نہ تھی۔‘‘ انھوں نے گوشت کے ایک کم گلے ٹکڑے کو چبائے بغیر حلق سے نیچے ڈھکیلنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ان کی آنکھوں سے پانی نکل آیا اور انھیں پانی کے گھونٹ کا سہارا لینا پڑا۔ ’’میرے بارے میں کہنے کے لئے اور بھی بہت ساری باتیں ہیں۔‘‘ انھوں نے دونوں گال پر بہہ آئے آنسو کو رومال سے خشک کرتے ہوئے کہا۔ ’’مثال کے طور پر میں شرط لگانے کے لئے تیار ہوں کہ میں بہت دنوں تک زندہ رہنے والا ہوں اور ایک اندھے کی موت مرونگا۔‘‘
مجھے ان کی اس عجیب و غریب گفتگو پر حیرت نہ ہوئی بلکہ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ وہ میرے چاچو کے قریبی دوست تھے۔ بعد میں جب ہم چاچا کے کمرے میں اکیلے ہوئے تو انھوں نے بستر پر لیٹے لیٹے میری طرف دیکھا (انھوں نے توند کو آرام دینے کے لئے اپنے جیکٹ کے سارے بٹن کھول دئے تھے)۔
’’تم سوچ رہے ہوگے میں کہاں سے ٹپک پڑا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اور یہ بھی سوچ رہے ہوگے کہ اس نادر سکوں کے بکس کے بارے میں میں جانتا بھی ہوں یا نہیں۔‘‘
میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔
’’یہ بکس کالج کے دنوں میں بھی ارمان کی سب سے قیمتی چیزوں میں شامل تھا۔‘‘ انھوں نے مسکرا کر کہا۔ ’’اس کے سبب ہم لوگ اس کا مذاق بھی اڑایا کرتے مگر ہم میں سے کسی کو بکس کھولنے یا اس کے اندر جھانکنے کی اجازت نہ تھی۔‘‘
’’میں ایسے کسی بکس کے بارے میں نہیں جانتا۔‘‘ میں نے جھوٹ کہا۔
’’بیکار ہے۔ تمہارے چاچو نے مجھے خط میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ مجھے احمق سمجھتا تھا اس لئے مجھ سے کچھ بھی چھپاتا نہ تھا۔ گھبراؤ مت، میں وہ بکس لینے نہیں آیا ہوں۔ گرچہ اسے حاصل کر کے مجھے کم خوشی نہ ہوگی۔ تم خوش قسمت ہو اور تمہارے چاچا نے ضرور تمہارے اندر کچھ دیکھا ہوگا کہ انھوں نے بکس تمہارے حوالے کیا۔ تم نے اسے کھول کر دیکھا تو ہوگا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’حیرت ہے۔ شاید تمہارے اندر اس طرح کی چیزوں کے لئے کوئی تجسس نہیں ہے۔ وہ بکس لاؤ۔ اسے کھول کر دیکھتے ہیں۔‘‘
’’اس کی کنجی میرے پاس نہیں ہے۔ چاچو نے غلط کنجی مجھے دی تھی۔‘‘ اس بار میں سچ کہہ رہا تھا کیونکہ پاگل خانے سے واپسی کے بعد میں نے اسے کھولنے کی کوشش کی تھی۔
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ حاتم نے مسکرا کر کہا۔ ’’لیکن تم نے کبھی صحیح کنجی ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟‘‘
’’مجھے کچھ ہی دن قبل اس کا پتہ چلا۔‘‘
تو انھوں نے اپنا چرمی سوٹ کیس کھولا، اس سے ایک چھوٹی سی ہینڈ بیگ برامد کی اور اس کے سائڈ چین سے پیتل کی ایک مجوف کنجی نکال کر میری طرف بڑھا دیا۔ ’’یہ رہی صحیح کنجی۔ تمہارے چاچانے خط کے ساتھ لفافے میں ا سے ڈال کر بھیجا تھا۔ خوش قسمتی سے اسے راستے میں کسی نے نہیں کھولا اور یہ لفافہ کنجی کے ساتھ سفر کرتا ہوا سات سمندر پاراس بغیر دھوپ والے ملک تک پہنچ گیا۔‘‘
’’جب یہ بکس آپ کے پاس نہ تھا تو انھوں نے یہ کنجی آپ کو کیوں بھیجی؟‘‘ میں نے کنجی کو تھام کر کہا۔ کنجی تھامتے ہوئے جانے کیوں مجھے لگ رہا تھا میں اسے پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔
’’یہ تو وہی بتا سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے لاپرواہی سے کہا۔ ’’اب تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ شاید اس نے ایسا اس لئے کیا تھا تاکہ صحیح وقت پر صحیح کنجی تمہیں مل جائے۔‘‘
کنجی تھام کر میں ان کی طرف گو مگو کی کیفیت میں تاک رہا تھا جب انھوں نے کہا۔ ’’میں جانتا ہوں یہ تمہارا نجی معاملہ ہے اسی لئے میں اسے میرے سامنے کھولنے پر اصرار نہیں کرونگا،بلکہ بہتر ہوگا اگر تم میرے جانے کے بعد بکس کو کھول کر دیکھو۔‘‘
دوسرے دن میری آنکھ کھلنے سے پہلے ہی فجر کی نماز پڑھ کر وہ جا چکے تھے۔ میں نے نادر سکوں کا بکس نکال کر کھڑکی پر رکھا جس پر فالحال کوئی کبوتر نہ تھا۔ پڑوس کی کھڑکی بھی خاموش تھی۔ میں نے کنجی کو بکس کے کلیدی سوراخ میں ڈال کر اسے کھولنے کی کوشش کی۔ بکس نے کھلنے سے انکار کر دیا۔
میرا شبہ صحیح نکلا۔ یہ پہلی کنجی کی کاپی ہی تھی۔
مجھے اس گنجے، مکڑی کی توند والے اس کالر کی احمقانہ مسکراہٹ دکھائی دے رہی تھی جو اس وقت ٹرین کی کھڑکی کے سامنے بیٹھا اپنی مشن پوری کرنے کی تشفی کے ساتھ بردوان کے لہلہاتے کھیتوں کی طرف تاک رہا ہوگا۔
یا پھر کون جانے، چاچو نہیں چاہتے تھے کہ یہ بکس کبھی کھلے۔
اور تب مجھے میرا آدمی نظر آ گیا۔ وہ ایک لانچ میں کھڑا مسافروں کو جادو دکھا رہا تھا۔ پہلے تو اس نے منہ کھول کر ایک چوڑے پھل والا لانبا تیز چاقو اس کے مٹھ تک اپنے حلق کے راستے پیٹ کے اندر ڈال لیا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر لانچ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چلتا پھرا، پھر اس نے انسانوں کے سرکی جسامت کے آہنی حلقے اپنی سیاہ تھیلی سے جس پرانسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں کی تصویریں بنی تھیں برآمد کیے اور بڑے ہی حیرت انگیز طریقے سے انھیں ایک دوسرے کے اندر نتھی کر نے لگا جب کہ حلقوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کرنے کا کوئی راستہ نہ تھا، جس کی تصدیق کئی تماشبین ہاتھ سے چھوکر کر چکے تھے۔ تماشہ دکھا کر جب وہ میرے پاس آیا تو میں دیر تک اسے دیکھتا رہ گیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بوسیدہ گولف کیپ سر پر سیدھی کر کے مسکرانے کی کوشش کی اور جب کہ لانچ دوسری طرف کے گھاٹ پر پہنچنے ہی والا تھا اور نصف سے زیادہ مسافر بینچو ں سے اٹھ چکے تھے وہ ایک خالی بینچ پر بیٹھ کر کھینی بنانے لگا اور پانی پر تھوکنے لگا۔
جیٹی سے لگتے ہی لانچ دیکھتے دیکھتے مسافروں سے خالی ہو گیا تھا۔ صرف ہم دونوں الگ الگ بینچوں پر بیٹھے ایک دوسرے کی طرف تاک رہے تھے۔ بینچ ایک بار پھر مسافروں سے بھرنے لگے تھے جب وہ مسکرایا اور اٹھ کرمیرے پاس چلا آیا۔ ہم ایک ساتھ لانچ سے باہر آئے تھے۔
’’کوئی خاص بات؟‘‘ اس نے اپنے نیچے کے ہونٹ کر باہر کھینچ کراس پر کھینی رکھتے ہوئے کہا۔
’’میرے پاس ایک بکس ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بہت خوب۔‘‘
’’اس پر ایک تالا پڑا ہے جو نہیں کھلتا۔‘‘
’’تو اسے کسی تالا کھولنے والے کو دکھاؤ۔‘‘
’’میں چاہتا ہوں کہ میرا بکس تالا کے بغیر کھل جائے اور تم یہ کام کر سکتے ہو۔‘‘
’’تمہیں لگتا ہے میں سچ مچ کا جادو گر ہوں اور جادو نام کی ایک چیز بھی ہے دنیا میں۔‘‘ وہ ہنسا اور اس کے کھینی خوردہ سیاہ دانت نمایاں ہو گئے۔ ’’یہ دنیا بھی عجیب ہے۔ ہم دوسروں کے بارے میں کیا کچھ سوچ لیتے ہیں۔ کوئی پردے کے پیچھے جھانکنے کی محنت ہی نہیں کرتا۔ پھر بھی کوشش کی جا سکتی ہے۔ تم وہ بکس یہاں لے کیوں نہیں آتے؟ تم مجھے آسانی سے ڈھونڈ سکتے ہو۔ میں تمہیں کسی نہ کسی جیٹی پر یا لانچ کے اندر تماشہ دکھاتا نظر آؤنگا۔‘‘
’’کل کالج کے بعدٹھیک تین بجے میں بکس کے ساتھ چاند پال گھاٹ پر تمہارا انتظار کرونگا۔‘‘
دوسرے دن چاند پال گھاٹ کی سنسان جیٹی کی سیڑھی پربیٹھ کر، جہاں تیز ہوا چل رہی تھی (وہ مقررہ وقت سے تقریبا آدھے گھنٹے بعد نمودار ہوا تھا) اس نے بکس پر انگلیاں پھیریں، اسے الٹ پلٹ کر،ہلا ڈلا کر دیکھا، اپنے کان سے لگا کراندر سننے کی کوشش کی، دیر تک اس کے کلید کے سوراخ کے اندر جھانکتا رہا اور آخر کار تھک کر اس کے قبضوں کو ڈھونڈنے لگا جو اسے نظر نہیں آئے۔ وہ نظر آتے بھی کیسے ۔وہ تو بکس کے اندر کی طرف بنے ہوئے تھے۔ تھک کر اس نے میری طرف دیکھا۔
’’یہ ایک غیرمعمولی بکس ہے۔‘‘ اس نے دونوں کنجیوں کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھتے ہوئے کہا۔’’ تم اسے کسی تالا والے سے ہی کھلوا سکتے ہو، یا پھر اس بکس کو توڑ کیوں نہیں ڈالتے؟ تمہیں اس سے خوبصورت بکس بازار میں مل جائیں گے۔‘‘
’’تو وہ لوہے کے حلقوں والا تماشہ ایک فریب تھا۔ مجھے پہلے ہی جان لینا چاہئے تھا۔ تم میرے آدمی نہیں ہو۔‘‘ میں نے اس سے بکس واپس لیتے ہوئے کہا۔
’’وہ آنکھوں کا فریب تو تھا، لیکن تم اتنی جلد فیصلہ نہ کرو۔ ہو سکتا ہے میں واقعی تمہارا آدمی نکلوں۔‘‘
’’نہیں تم میرے آدمی نہیں ہو سکتے۔‘‘ میں نے اس کی طرف پیٹھ گھماتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں دو وقت کی روٹی سے فرصت نہیں۔ جب کہ میں جسے ڈھونڈ رہا ہوں اس کے پاس وقت ہی وقت ہے۔‘‘
جیٹی سے باہر آ کر دریا کے کنارے چلتے چلتے میں نے دیکھا، ایک لانچ جس کے باہر شاک سے بچنے کے لئے استعمال شدہ ٹائر لگے ہوئے تھے مسافروں کو لے کر بہت ہی خطرناک حد تک ایک طرف جھکا ہوا جیٹی سے واپس لوٹ رہا تھا جس کے اندر وہ مسافروں کی بھیڑ میں کھڑا ایک زندہ سانپ نگلنے کا تماشہ پیش کر رہا تھا۔ اس کے بعد بھی ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر ایک دن وہ اور دکھائی نہ دیا۔ شاید لوگ روز روز ایک ہی تماشہ دیکھتے دیکھتے اوب گئے تھے یا شاید ایک ہی طرح کے لوگوں کو دیکھتے دیکھتے وہ بور ہو گیا تھا۔
ہمیں خبر ملی ہے کہ چاچو پر پاگل پن کا شدید دورا پڑنے لگا ہے اور انھیں بجلی کے کافی ہولناک جھٹکے دیے جا رہے ہیں۔ ایک بار میں بھی بڑے چچا کے ساتھ انھیں دیکھنے گیا۔ انھیں ایک کمرے میں، جس کی دیواروں پر گدے چسپاں تھے، زنجیر سے جکڑ کر رکھا گیا تھا۔ انھوں نے ایک دوسرے پاگل کا داہنا کان نصف چبا ڈالا تھا۔ انھیں ہماری موجودگی پر حیرت ہوئی۔ وہ جب دروازے کی سلاخوں کے پاس آئے تو مسکرارہے تھے۔
’’تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ بڑے چچا نے ڈبڈبائی آنکھوں سے کہا۔
’’بالکل چنگا، سر۔‘‘ وہ ہنسے۔ ہم نے دیکھا، ان کے سامنے کے دو دانت غائب تھے اورکنپٹی پر کسی گہری چوٹ کے سبب ان کی داہنی آنکھ بائیں آنکھ کے مقابلے میں کچھ چھوٹی ہو گئی تھی۔’’اور تم؟‘‘ انھوں نے اپنے ہتھکڑی سے جکڑے ہوئے ہاتھوں کو اٹھا کر میری طرف اشارا کیا۔ ’’حاتم کہہ رہا تھا تم واقعی ایک الگ قسم کے لڑکے ہو۔‘‘
’’وہ یہاں آئے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا اور دروازے کی موٹی سلاخوں کے اندر ہاتھ بڑھا کر چاچو کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی، مگر پاگل خانے کے ملازم نے مجھے روک لیا۔
’’ہاں، اور اس نے اپنے گنجے سر پر طبلا بجانے کی اجازت بھی دی تھی۔‘‘ وہ دوبارا ہنسے۔ ’’اس سے بڑا گدھا میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا۔ خیر، اب وہ اپنی بوسیدہ کتابوں کی دنیا میں جا چکا ہے ۔ اس نے تمہیں بتایا تو ہوگا۔ لیکن میں تمہیں یقن دلاتا ہوں کہ مرنے کے بعد اس کے نتھنوں سے بڑی بھاری تعداد میں روپا مچھلیاں برامد ہونگی اور وہ ساری کی ساری بہت ہی جید اور دانشور مچھلیاں ہونگی۔‘‘
میں وہاں سے بہت پریشان ہو کر واپس لوٹا تھا۔ میں نے ان کے دئے ہوئے بکس کو ہر زاؤیے سے الٹ پلٹ کر، ہلا ڈلا کر دیکھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس بکس کے اندر ایسا کوئی راز چھپاتھا جو چاچو کو اس کے پاگل پن کی دنیا سے واپس لے آئگا۔ لیکن مجھے اس کا بھی ڈر تھا کہ تالا کے کھلتے ہی وہ راز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو نہ جائے۔ کیا یہی وہ تذبذب تھا جس نے مجھے ہمیشہ بکس کو کھولنے سے
باز رکھا؟
اس کے بعد شاید چاچو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ ایک دن پاگل خانے سے بھاگ نکلے اور اس سے ملحق ایک رہائشی بنگلہ کی دیوار پر لگائے گئے بجلی کے حفاظتی تاروں میں ان کی ادھ جلی لاش الجھی ہوئی ملی۔ لاش بری طرح مسخ ہو چکی تھی۔ انھیں پاگل خانے کے قبرستان میں ہی دفنا دیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں مجھے تک شامل ہونے کی اجازت نہ ملی جس سے مجھے پتہ چلا کہ لاش کچھ ضرورت سے زیادہ مسخ ہو چکی تھی۔
چاچو کے انتقال کے بعد میں وہ بکس الماری کے بہت اندر رکھ کر بھول گیا۔ میں نے شہر کو نئے سرے سے دریا فت کرنے کی کوشش کی، نئے نئے راستے اپنائے جہاں لوگوں کے چہرے بالکل اجنبی اور حیرت انگیز تھے، ایسی گلیاں دیکھیں جہاں ہر دوسری گلی میں ایک نیا چاند چمک اٹھتا، ایسی شاہراہوں سے گذراجن پر میلوں چل کر بھی لوگ خود کو پہلی جگہ پر ہی پاتے۔ میں نے ایک غمگین مگر کم سخن آدمی کا دور تک پیچھا کیا اور آخر کار اسے اپنی کہانی سنانے پر مجبور کر دیا اور یہ کہانی بھی کتنی دردناک تھی جیسے شہر کا چمکیلا آسمان اچانک منحوس کووں سے ڈھک جائے، جیسے ایک پر سکون رات فسادیوں کے شور سے جاگ اٹھے، جیسے درختوں سے پتے دائمی طور پر جھڑ نے لگیں، جیسے دور خلا میں چمکتے ستاروں سے راکھ کا گرنا شروع ہو جائے، جیسے راستوں پر چلنے والے راہگیر فریب ثابت ہوں اور فنا اور بقا کے سارے مفاہیم بدل کر رہ جائیں۔
لیکن ان سب چیزوں سے آخرکار میں تھک گیا۔ اب میرے پیروں میں اتنی سکت نہ تھی کہ دو قدم بھی چل پاتا۔ میں کسی کھمبے سے ٹیک لگا کر اپنی آنکھوں کو خشک رکھنے کی کوشش کرتا تو آسمان سے بارش کی بوندیں لگاتار گرتی چلی جاتیں جب کہ اس وقت بادلوں کا نام و نشان نہ ہوتا اور میں اس پراسرار بارش میں شرابور چھتری بردار لوگوں کے بیچ ایک نابود ہستی کی طرح چلتا چلا جاتا اور ایسی ہی ایک پراسرار بارش کے دن، بکس کو بغل میں دبائے، میں ایک سرکاری بس کے پائدان سے ایک بڑی سڑک پر اتر آ یا جس پر آزادی کا شاندار جشن منایا جاتا تھا اور دریا کی طرف چل پڑا۔
بارش اور کہاسے کے سبب دریا نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نہ نظر آنے والے دریا کے کنارے تارکول کی سڑک پر چلتا رہا اور چلتے چلتے ایک گھاٹ پر پہنچ گیا جس کے وسیع و عریض زینے پر دریا کا پانی بہت اوپرتک آ گیا تھا اور دھویں کی طرح مچل رہا تھا۔ میں اس کی آخری سیڑھی پر کھڑا دریا کے دوسرے کنارے تاک رہا تھا جو کہاسے میں غرق دریا کا حصہ ہی نظر آ رہا تھا۔ جانے کتنا وقت گذر گیا جب مجھے اپنی بغل میں دبے ہوئے بکس کا خیال آیا اور میں اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام کر سیڑھی پر بیٹھ گیا۔ بکس کے نیچے مچلتے پانی کی طرف تاکتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے لہریں انسانی انگلیوں کی شکلیں لے کر بکس کو گرفت میں لینا چاہ رہی ہوں۔میں نے بکس کو پانی کے حوالے کر دیا۔نادر سکوں کا بکس پہلے تو پوری طرح اندر ڈوب گیا اور ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ شاید اب وہ دکھائی نہ دے جب اچانک غوطہ کھا کر باہر نکل آیا۔ وہ ایک موج کی زد میں آکر سیڑھی سے ٹکرایا اور پلٹ کر جیٹی سے لوٹتے کسی مسافروں سے بھرے لانچ کی طرح ایک طرف جھکا ہوا گھاٹ سے دور جانے لگا۔
بارش اور کہاسے میں پانی پر وہ کسی تابوت کی مانند نظر آ رہا تھا۔
میں نے چاچو اور حاتم کی دی ہوئی دونوں کنجیاں پانی میں پھینک دیں۔
اس رات میں نے خواب میں دیکھا بکس بہتے بہتے جادوئی ملک میں پہنچ گیا تھا جہاں کی چڑیاں مشینی تھیں اور انسانی جسموں پر پانی نہیں ٹھہرتے اور سندر راجکماریاں اپنے آر پار نظر آنے والے لباسوں میں اپنے کاسنی نپل کے ساتھ دریا کنارے اگی ہوئی قد آدم گھاس کے جنگل میں بھاگ رہی تھیں اور چاچو جو اس ملک کے بادشاہ تھے، جو اپنی انگلی کے اشارے پر سلطنتوں کو تباہ کر سکتے تھے اور آسمان سے پانی برسانے پر قادر تھے، ان کے دربار میں میرے لئے ایک خاص جگہ مخصوص تھی جہاں ستونوں پر آگ اگلنے والے سانپ لہرارہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.