آج اسکول میں صرف ایک ہی ٹیچر وقت پر پہنچے تھے۔ ان کے علاوہ سبھی غیر حاضر تھے۔ یہ حسن اتفاق ہی تھا کہ بچوں کی حاضری آج تقریباً 90 فیصد تھی۔ کچھ بچے برآمدے میں دھینگا مشتی کر رہے تھے۔ کچھ کلاس روم میں اچھل کود مچا رہے تھے۔ کوئی کسی کے پیچھے بھاگ رہا تھا تو کوئی کاغذ کے ٹکڑوں سے ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہا تھا جیسے ایک دوسرے پر راکیٹ داغے جا رہے ہوں، گویا ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ بچوں کو سنبھالنا ایک ٹیچر کے لیے بہت دشوار ہو رہا تھا۔ جب ٹیچر پہلی جماعت میں جاتے تو دوسری جماعت کے بچے آسمان سر پر اٹھا لیتے اور جب وہ دوسری جماعت میں پہنچتے تو تیسری جماعت میں قیامت کا سماں ہوتا۔ بیچارے ٹیچر بھی کیا کرتے؟ وہ ایک کلاس سے دوسرے کلاس کا چکر لگاتے رہے۔ انہوں نے بھی تہیہ کر لیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو وہ انہیں سلیقہ سکھا کر ہی دم لیں گے۔ ایک بار تو انہوں نے کچھ بچوں کی پٹائی کرنے کی بھی ٹھان لی مگر فوراً ہی خیال آیا کہ بچوں کو سزا دینا غیر قانونی ہے۔ وقت جیسے جیسے گزر رہا تھا، بچے بےقابو ہوتے جا رہے تھے۔ انہیں قابو میں کرنے کے لیے ٹیچر بھی نئی ترکیب تلاش کرنے لگے۔
ٹیچر کو ایک بہت ہی دلچسپ تدبیر سوجھی۔ انہوں نے دو بچوں کا انتخاب کیا اور انہیں اپنے پاس بلایا۔ دونوں سر جھکائے معصومیت کے ساتھ ان کے پاس آئے۔ ٹیچر بہت حیران تھے۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی بچے ہیں جو تھوڑی دیر پہلے پورا اسکول سر پر اٹھائے ہوئے تھے۔ اب جب سزا کی باری آئی تو دونوں شرافت کی مورت نظر آ رہے تھے۔ اگر کوئی انہیں اس انداز میں دیکھ لیتا تو ان کی شرافت کی قسم کھانے سے گریز نا کرتا۔ انہیں دیکھ کر ٹیچر کا دل بھی تھوڑا پسیج گیا۔ انہوں نے دونوں کو اپنا نام سو سو بار لکھنے کو کہا۔ ٹیچر کا فرمان سنتے ہی ایک بچے کی بانچھیں کھل گئیں۔ وہ خوشی سے اچھلتا کودتا اپنی سیٹ پر جا بیٹھا لیکن دوسرا بچہ زار و قطار رونے لگا اور التجا کرنے لگا، ’’سر! مجھے معاف کر دیجیئے۔‘‘ ٹیچر نے جب اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ زور زور سے سسکیاں لینے لگا۔ بڑی جتن کے بعد ٹیچر بچے کو چپ کرانے میں کامیاب ہوئے۔ بچے نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا،’’سر آپنے ہم دونوں کو سو سو بار اپنا نام لکھنے کے لیے کہا۔ اس کا نام ہے انور! اس لئے اسے صرف ایک لفظ لکھنا پڑے گا۔ لیکن مجھے اپنا نام لکھنے کے لیے کئی الفاظ لکھنے ہوں گے۔‘‘ بچے کی معصومیت سے ٹیچر کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ’’کیا نام ہے آپ کا؟‘‘ بچے کی ہچکیاں تیز ہو گئیں۔ وہ بولا، ’’سر! میرا نام ہے سید محمد آغا غیاث الدین اجمل اجملی۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.