کہانی کی کہانی
’’یہ کہانی بچوں میں سیکس ایجوکیشن کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اگر بچوں کو سیکس کے بارے میں پتہ نہیں ہوگا تو وہ عمر کے ساتھ اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں نہیں جان سکیں گے۔ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ پورا کنبہ ایک کمرے کے گھر میں رہتا تھا اور اس کمرے میں رات کے اندھیرے میں جو کچھ بھی ہوتا تھا، اس کے بارے میں وہ سب جانتی تھی۔ لیکن اس کا مطلب اسے نہیں معلوم تھا۔ پھر ایک دن اس کے بھائی کا ایک دوست اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتا ہے تو اسے اپنے جسم میں چینٹیا سی رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ جن سے وہ چاہ کر بھی نجات حاصل نہیں کر پاتی۔‘‘
سارے بچے میدان میں کبڈی کھیل رہے ہیں۔ ان میں میرے تین بھائی بھی شامل ہیں۔ بارہ سے پندرہ سال کے بچوں کا گروپ ہے۔ ان کے جسم پر ہاف پینٹ ہیں یا انڈویئر یا چڈی۔۔۔ سب کے بدن پر بھوری مٹی ملی ہوئی ہے۔ ان کے بدن کندن کی طرح دمک رہے ہیں۔ وہ آپس میں یوں گتھم گتھا ہیں کہ خوف سا محسوس ہوتا ہے۔ نام نہاد ستر پوشی کے باوجود سب ننگے ہی دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ پتلی کمر، بھری بھری پیٹھ اور بازوؤں میں اچھلتی ہوئی زندہ مچھلیاں۔۔۔ کسی کسی کے چہرے پر سبزۂ آغاز ہے، زیادہ تر کے چہرے بالکل صاف ہیں۔ ایک آدھ کی ٹھڈّی پر بھورے، نرم مخملی بال بھی نکل آئے ہیں۔ ابھی کہیں پر استرا نہیں پھیرا گیا ہے۔ اصل جو چیز ان کے پاس ہے وہ ہے ان کی رانیں۔۔۔ سڈول، چکنی، تھرتھراتی، نوجوانی کی لہروں سے بھرپور۔۔۔ انہو ں نے اپنی تشفی کے لئے سترپوشی کا کچھ نہ کچھ انتظام کر رکھا ہے، لیکن جہاں جہاں یہ انتظام نہیں ہے، وہاں آنکھیں ٹھہر نہیں پاتیں۔۔۔ آنکھوں کے ٹھہر جانے کا مطلب ہے ان کا لگ بھگ ننگا دکھائی دینا۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوگا۔۔۔؟
میں دیوار کے پیچھے چھپ کر ان کا کھیل دیکھتی رہتی ہوں۔ میرے بھائی قریب جانے کی مجھے اجازت نہیں دیتے۔۔۔ کیوں؟
ننگا دکھائی دینا اس کی ایک وجہ ہے تو وہ گھر میں اس سے بھی بدتر حالت میں رہتے ہیں، نہ صرف میری بلکہ میری تین بہنوں کی آنکھوں کے سامنے بھی۔ دو بہنیں مجھ سے بڑی ہیں، دو بھائیوں سے بھی بڑی، وہ انہیں دیکھ کر کیا محسوس کرتی ہیں، میں نہیں جانتی، صحیح معنوں میں جانتی تو میں بھی نہیں ہوں۔ بس یہ ہے کہ ان کے جسم کے بے ہنگم حصوں پر جب بھی میری نگاہیں پڑتی ہیں تو پھر وہیں کی وہیں ٹھہری رہتی ہیں، وہاں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ بڑی باجی شاید یہ چیز محسوس کرچکی ہیں، کبھی کبھی وہ کچھ کہے سنے بغیر میرے گال پر ایک ہلکی سی چپت لگاکر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ ان کی یہ سرزنش میری برہنہ نگاہوں تک فوراً پہنچ جاتی ہے اور میں شرمندہ ہوکر جلدی سے اپنی نگاہیں ہٹالیتی ہوں، دل و دماغ کے اندر کوئی چیز البتہ کھولتی رہتی ہے۔
بڑی باجی کو میں نے ایک بار نہیں، دو بار نہیں، بلکہ بہت بار کسی نہ کسی بھائی کی سوتی حالت میں بے ستری کو چادر یا لنگی سے سترپوشی کرتے دیکھا ہے۔ باجی سمجھتی ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے انہیں کوئی نہیں دیکھتا، وہ جیسے اس مہم پر جٹی رہتی ہیں۔ جہاں انہوں نے کسی بھی کو بے ہنگم انداز میں دیکھا، تیزی سے آکر فوراً کپڑے ڈال دیں گی، پھر چور نگاہوں سے چاروں طرف دیکھتی بھی ہیں۔ شکر ہے ابھی تک انہوں نے مجھے نہیں دیکھا اور دیکھیں بھی کیسے۔۔۔؟ میں تو اس وقت یوں بن جاتی ہوں کہ یا تو میں بہت گہری نیند میں ہوں یا پھر میری آنکھیں یوں بند ہیں کہ میں کچھ دیکھ ہی نہیں رہی۔ اگر میں چادر سے منھ ڈھانپ لیتی ہوں تب تو میں بالکل ہی محفوظ ہوں۔ باجی کو کیا پتہ کہ کثرتِ استعمال سے میری چادر کتنی پتلی اور ہلکی ہوگئی ہے۔ اس میں کچھ ایسے چھید بھی ہیں جنہیں ایک خاص حکمت سے استعمال کیا جائے تو آدمی سب کچھ دیکھتا رہے، وہ سب کی نظرو ں سے چھپا رہے، لیکن اس کی نظروں سے کوئی چھپ نہ سکے۔
میری بوسیدہ چادر مجھے اس قدر محبوب ہے کہ میں اسے پھینکنے کی بات سوچ بھی نہیں سکتی، اماں سے جمپر،شلوار، دو پٹے اور چپل وغیرہ کے پھٹ جانے یا ٹوٹ جانے کی شکایت کرتی ہوں، چادر کی شکایت کبھی نہیں کرتی۔ یوں شکایت کرنے سے شلوار، جمپر آ تھوڑی جاتے ہیں، بس اماں کے کانوں سے سفر کرتی ہوئی شکایت ابا کے کانوں تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ یعنی صحیح جگہ پر، اس پر عمل کتنا ہوتا ہے، یہ ایک الگ بات ہے۔ ابّا کو بھی تو اپنے چھ چھ بچوں کے بارے میں سوچنا ہے، سبھی کے کپڑے لتّے۔ پھر اماں کے، پھر۔۔۔
ان کے کپڑے تو اس قدر بوسیدہ اور پرانے ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے کو شرمندگی ہوتی ہے، اسی عالم میں کام پر بھی جاتے ہیں۔ شادی بیاہ میں بھی، ہاٹ بازار بھی۔۔۔ وہ کیسے بے حس ہیں کہ بھائی بدن پر اچھے کپڑے نہیں تو پروگرام ملتوی کردو، لیکن نہیں۔۔۔ ہر جگہ جانا بھی ضروری اور ہر فرض کی تکمیل بھی مقدم۔۔۔ کام پر جانے کی حد تک تو واجب ہے کہ وہ نہ جائیں تو آخر کون جائے، لیکن ہر جگہ رسم نبھاکر انہیں کیا ملتا ہے؟ کوئی پوچھتا تو ہے نہیں، سو پچاس آدمی جہاں کھانے پر بیٹھ گئے تو یہ بھی بیٹھ گئے اور پھر اتنا بھی نہیں کہ پلاؤ کھایا ہے تو صابن یا مٹّی سے ہاتھ بھی دھولیں۔۔۔ آدھا گلاس پانی پی کر آدھے پانی سے ہاتھ دھولیں گے، نہ چکنائی جاتی ہے نہ بو۔۔۔ کالے بالوں سے بھرے ہاتھ میں جگہ جگہ گھی چمکتا دکھائی دیتا رہتا ہے، یہی حال مونچھوں اور ہونٹ کا رہتا ہے۔ اسی بھیگے ہاتھ سے اطمینان سے بیڑی سلگا لیں گے اور بڑی بے فکری سے پھونکتے ہوئے گھر آجائیں گے۔
اماں کہتی ہیں وہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہیں گندے، لاپرواہ اور اس سے بالکل بے فکر کہ دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ انہیں دلچسپی ہے تو ایک بات سے۔۔۔ اس دلچسپی نے تو ان کی زندگی کو جہنم بنا ڈالا، لیکن انہیں کچھ پتہ ہی نہیں۔
ہمارا گھر بھی بڑا ہوتا۔۔۔شیخ دادا کی طرح۔۔۔ بہت سے کمرے ہوتے، ہر ایک کے لئے سونے کا الگ کمرہ، کھانے کا الگ کمرہ، عورتوں اور مردوں کے ملنے کےے الگ کمرے، بہت بڑا باورچی خانہ اور پورے مکان میں اتنے غسل خانے کہ جب ان کی پوتی کی شادی ہوئی تھی تو بیت الخلاء کی ایک دم تکلیف نہیں ہوئی، جب ضرورت ہو، سامنے والے غسل خانے میں گھس جاؤ، کیا مجال جو کہیں گندگی نظر آجائے، ہلکی سی بو بھی نہیں آتی۔ کم از کم آدھا غسل خانہ بھی ایسا اپنے گھر میں ہوتا، لیکن میں کیا کرسکتی ہوں، سب کچھ تو ابا کرتے ہیں اور ان کو کچھ کرنے کا شوق ہی نہیں۔
شیخ دادا کے بیٹے، بیٹیاں، بہو، داماد، داماد کے داماد، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں وغیرہ ایک ساتھ آجاتے تب بھی انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اتنے کمرے ہیں، ان کے ہاں۔۔۔ اتنے تو بچے بھی نہیں ہیں سب کے۔ اور یہاں۔۔۔
یہاں تو سب کچھ بس ایک ہی کمرے میں ہوا ہے اور آگے بھی سب کچھ یہیں ہونا ہے۔ اماں ابا کو تو زیادہ سے زیادہ بس ایک بچہ پیدا کرنا چاہئے تھا۔ حالانکہ ایک بچہ کے لئے بھی ان کے پاس جگہ نہیں۔ لیکن انہوں نے تو کمال ہی کردکھایا۔ ایک بچے کی آنکھوں کے سامنے دوسرا بچہ۔۔۔ پھر تیسرا بچہ۔۔۔ یہاں تک کہ چھٹا۔۔۔ اگر وہ نرس سب کے سامنے ابا کو پھٹکار نہیں لگاتی اور صاف صاف منہ پر نہیں کہہ دیتی کہ تمہاری بیوی کی بچہ دانی کمزور ہے، آگے بچہ ہوا تو بیوی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھوگے تو شاید یہ سلسلہ ابھی چلتا ہی رہتا۔ ابا ہفتوں یوں منہ لٹکائے پھرے جیسے کوئی موت ہوگئی ہو اور اس وقت ان کے چہرے پر زندگی لوٹی جب نرس نے انہیں اماں کا آپریشن کرا دینے کا مشورہ دیا۔ پہلے جب اس نے انہیں اپنا ہی آپریشن کرانے کا کو کہا تھا تو وہ ایسا چپ ہوئے تھےجیسے اب کبھی بولیں گے ہی نہیں۔
ابا اس کی بات سن کر چپ کیوں ہوئے تھے۔۔۔؟
کیا سوچا تھا انہوں نے۔۔۔؟
آگے کا کون سا نقشہ تھا ان کے پاس۔۔۔؟
ان کے اس چپ پر سوچ کے آج بھی ہنسی آتی ہے۔ مان لو اما بچہ پیدا کرنے کے قابل ہی نہ رہتیں، یا وہ ابا کے لائق نہ رہتیں یا وہ انتقال ہی فرما جاتیں تب۔۔۔؟
تب ابا کیا کرتے۔۔۔؟
دوسری عورت لے آتے۔۔۔؟
اسی روکھی سوکھی روٹی اور پھٹے پرانے کپڑوں پر۔۔۔؟
اس پر سے یہ چھ چھ بچے۔۔۔ یعنی ہم سب۔۔۔یعنی دھرتی کے بوجھ۔۔۔ یہ کوئی اور نہیں ہم ہی اپنے بارے میں کہتے ہیں اور روز کہتے ہیں، اماں تو ہمیں کچھ اور ہی سمجھتی ہیں، وہ جب بھی دھرتی کے بوجھ والی بات سنتی ہیں، نہایت بے دردی سے ہمیں وو ہتھڑوں سے نوازتی ہیں۔
’’اللہ کی نعمت کو دھرتی کا بوجھ۔۔۔؟ ارے کفر ہے سراسر کفر، پتہ نہیں تم لوگوں کا کیا حشر ہوگا۔۔۔؟ ارے اس کے دل سے پوچھ، جس کے پاس سب کچھ ہے، نہیں ہے تو ایک اولاد۔۔۔ کلو چچا، دھولو ماموں، اکبر ماموں کو دیکھو۔۔۔؟
’’اور شمس الدین دادا، اختر چچا، منو ماموں کس بات پر شکریہ ادا کریں اماں؟‘‘ ہم تمسخر کے ساتھ پوچھتے۔ ان بزرگوں کو اوپر والے نے نہایت فراخ دلی کے ساتھ درجن درجن بھر چشم و چراغ عطا فرمائے ہیں۔ اماں فوراً کہتی ہیں۔
’’یہ تو اس کی مرضی ہے کہ اس نے ہمیں صرف چھ ہی دیئے۔۔۔‘‘
اب اماں کو کیا کہیں، کوئی سخت بات تو کہہ نہیں سکتے۔ ماں ہیں اور ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے۔ لیکن بات صاف یہ ہے کہ وہ ہیں بہت ذلیل۔۔۔ ابا ان سے سیدھے منھ بات نہ بھی کریں، اپنی آنکھوں سے انہیں روکھی سوکھی، بچا کھچا کھاتے ہوئے دیکھتے رہیں۔ پھٹی پرانی ساڑی رنگ برنگے پیوند لگا کر انہیں پہنتے ہوئے دیکھتے رہیں، بیمار ہوجائیں تو محض اللہ کی قدرت سے انہیں ٹھیک ہوجانے کے لئے چھوڑ دیں، پھر بھی، پھر بھی ابا کے اک ذرا سے اشارے پر وہ یوں دوڑی چلی جائیں گی جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔
ابا بھی ایک عجیب و غریب ہستی ہیں، گھر کے باہر بھیگی بلی، گھر کے اندر ببر شیر، اپنے بچوں کے ساتھ ان کا کبھی محبت کا رابطہ قائم ہی نہیں ہوا، ہماری ضروریات پر کبھی ان کی نگاہیں پڑتی ہی نہیں۔ پچاس ساٹھ بار اماں کہتی ہیں تو جھٹکے میں شاید کوئی چیز آگئی تو آگئی۔۔۔ باتیں بہت ہیں اور ان میں کسی نئی بات کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا، ہر چوبیس گھنٹہ انہیں باتو ں کو دہراتا رہتا ہے۔
اگلاچوبیس گھنٹہ بھی۔۔۔
اس سے اگلا چوبیس گھنٹہ بھی۔۔۔
اماں۔۔۔ اماں تو وہ ہیں جو، ابا کے حکم کے ننانوے حصے پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان بھی دے سکتی ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیں سویرے سوجانے کی تلقین کرتی ہیں۔ ابا سویرے کبھی گھر نہیں آتے، زیادہ تر اس وقت آتے ہیں، جب ہم سب سوچکے ہوتے ہیں یا سوئے جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ سونے یا سونے کی ایکٹنگ کرنا ہمارا، ایک بہت بڑا حربہ ہے۔ ابا کے گھر آنے کے بعد ان کی ساری حرکتیں اور سارے معمولات ہماری نگاہوں اور ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ اماں ابا کو اس بات کی ذرا بھنک مل جائے تو پتہ نہیں وہ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کریں۔۔۔؟
ابا کو اس کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ وہ ہمارے سونے کی تصدیق ہی کرلیں، انہیں تو بس۔۔۔ ہاں، اماں ضرور باربار تصدیق کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ہم بھی ہر بار ان کی تشفی کردیتے ہیں، حالانکہ ہم صحیح معنوں میں اسی وقت سوتے ہیں جب تھکن سے چور اماں اور ابا کے خراٹے کمرے میں گونجنے لگیں۔ ہمیں تو انہیں خراٹوں میں نیند آتی ہے۔
ایک بار با جی نے ہمیں جاگتا دیکھ لیا تو انہوں نے گویا نیند کی بے خیالی میں بڑے زور کا ہاتھ میرے منھ پر دے مارا تھا، میں تلملا کر رہ گئی، بوکھلا کر ان کی طرف دیکھا تو شاید وہ بھی ایکٹنگ کرتی ہوئی بڑے مزے سے سورہی تھیں، چہرے پر سکون اور ہونٹوں پر نیند کی مسکان لئے ہوئے۔۔۔
کمرہ ایک ہی ہے اور اس کے فرش پر ہم سب بھائی بہنوں کے بستر ہوتے ہیں، کنارے ایک چوکی ابا کی ہے۔ اماں لیٹتی تو ہیں ہمارے ساتھ لیکن ابا کے اشارے پر کسی وقت اوپر چلی جاتی ہیں اور۔۔۔
توبہ توبہ۔۔۔ گناہ، قصور اللہ معاف کرے۔۔۔
لالٹین بجھی رہتی ہے اور کمرے میں گویا مکمل تاریکی چھائی رہتی ہے، لیکن ایسے مواقع پر ایک ایسی آنکھ ضرور کھل جاتی ہے، جس سے سب کچھ دکھائی دینے لگتا ہے۔
کمرے میں چوکی نہ بچھی ہوتی اور ابا بھی ہم سب کی طرح فرش ہی پرسوتے تو شاید ہمیں اتنی آسانی نصیب بھی نہ ہوتی۔
باجی سے مار کھانے کے بعد صبح مجھے یہ فکر ستاتی رہی کہ کہیں سچ مچ انہوں نے مجھے دیکھتے ہوئے نہ دیکھ لیا ہو۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ وہ نیند میں ہاتھ پاؤں نہیں چلاتیں۔ دن بھر چور نگاہوں سے میں کچھ پڑھنے کی کوشش کرتی رہی لیکن وہ بھی یوں مگن رہیں جیسے انہیں ہماری یا کسی اور کی کوئی خبر ہی نہ ہو۔ میرے دل میں بھی کبھی کبھی اطمینان کی لہریں موج مارنے لگیں کہ شاید میری چوری پکڑی نہیں گئی۔
باجی سب کام سے فارغ ہوکر اپنے رنگے دو پٹّے کو دھوپ دکھانے چھت پر گئیں تو بالکل بےارادہ اور اچانک میں بھی ان کے ساتھ اوپر چلی گئی اور ایک دو پٹہ ان کے ہاتھوں سے لے کر اس کا پانی جھٹکنے لگی تبھی باجی نے دھیرے سے پوچھا۔
’’بہت دنوں سے دیکھ رہی ہو۔۔۔؟‘‘
ایک دم بچھو نے، جیسے مجھے ڈنک مار دیا۔ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے، زبان سوکھ گئی، دوپٹہ میرے ہاتھوں میں لرزنے لگا، اس سے پہلے کہ وہ زمین پر گرجائے، باجی نے اسے لے لیا اور آہستہ سے بولیں۔
’’گندی بات ہے بنّو۔۔۔ یوں بڑوں کو نہیں دیکھا کرتے، نگاہ پڑجائے تو آنکھیں بند کرلے یا دوسری طرف کروٹ بدل لے۔۔۔‘‘
باجی کی ہمدردانہ گفتگو سے حواس کچھ ٹھکانے آئے۔ میں نے اپنے دوپٹّے سے پیشانی چہرہ اور گردن کے پسینے صاف کئے اور ممنون نگاہوں سے باجی کی طرف دیکھا۔ میری رازدار بن کر اچانک وہ میرے بہت قریب آگئیں۔ میں نے آہستہ سے دریافت کیا۔
’’آپ نے کبھی دیکھا ہے باجی۔۔۔؟‘‘
باجی نے اپنے دونوں گالوں پر ہلکے ہلکے تھپڑ رسید کئے اور دونوں ہاتھوں کو گویا خدا کے حضور میں جوڑتی ہوئی بولیں۔
’’توبہ استغفار۔۔۔ میں تو ہمیشہ اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہوں یا کروٹ بدل لیتی ہوں، خدا گناہ سے ہمیں دور رکھے۔۔۔‘‘
باجی کا چہرہ کسی نامعلوم وجہ سے تمتما اٹھا ہے، اوپری ہونٹ پر ننھے ننھے پسینے لرز اٹھے ہیں۔ درمیان کا پردہ اچانک اٹھ جانے کے بعد وہ جیسے ہماری صف میں آگئی ہیں، یوں وہ مجھ سے کافی بڑی ہیں۔ میں دریافت کرتی ہوں۔
’’یہ سب گناہ کا کام ہے باجی۔۔۔؟‘‘
اس سوال پر باجی ایک دم سے گھبراجاتی ہیں اور کچھ سوچ کر کہتی ہیں، ’’ابھی تم ان باتوں کو نہیں سمجھوگی بنّو۔۔۔ ابھی تم بہت بچی ہو نا، بڑی ہوجاؤگی تو خود بہ خود یہ باتیں تمہاری سمجھ میں آجائیں گی۔۔۔‘‘
باجی کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔؟
وہ کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔۔۔؟
ان کا خیال ہے کہ دس گیارہ سال کی ہو کر بھی شاید میں بالکل بے عقل ہوں اور جو چیز میں اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہوں، وہ چیز میرے اندر نہیں اترتی۔ چپ چاپ میرے سامنے سے گزر جاتی ہے۔
کمال ہے باجی کا۔۔۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں وہ تین سال کی عقل رکھ سکتی ہیں، میں دس گیارہ سال کی عمر میں پندرہ سال کی عقل نہیں رکھ سکتی۔۔۔
ان کا کہنا صحیح ہے تو پھر میری عمر کے لوگوں کو میٹھی چیز، میٹھی نہیں لگنی چاہئے، تلخ چیز تلخ نہیں، ٹھنڈا ٹھنڈا نہیں، گرم گرم نہیں۔۔۔ میرے جسم اور سینے پر جو ایک عجیب سی سرسراہٹ ہوتی رہتی ہے۔۔۔ وہ کیا چیز ہے۔۔۔؟
باجی سمجھتی ہیں کہ شاید میں نے پہلی بار یہ سب دیکھا ہے۔ ارے یہی دیکھتے دیکھتے تو میں پندرہ سال کی۔۔۔ نہیں نہیں، پندرہ سال کی تو خود باجی ہیں، میں تو شاید دس مکمل کر کے گیارہویں میں چل رہی ہوں، لیکن میں نے کیا نہیں دیکھا ہے اتنی عمر میں۔۔۔ میری آنکھیں تو تاریکی میں دیکھنے کی عادی ہوچکی ہیں۔
میں نے کس کو بے ستر نہیں دیکھا۔۔۔؟
باجی نہیں جانتیں کہ ہمارے سبھی بھائی کیسی مدہوشی کی نیند سوتے ہیں؟ انہیں اپنی کوئی سدھ بدھ نہیں رہتی۔ باجی دیکھتی ہیں تو اپنے بڑے پن کا فائدہ اٹھاتی ہوئی ان پر کپڑے ڈال دیتی ہیں۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔؟
میں تو بہت چھوٹی ہوں، میں تو ان پر کپڑے ڈالنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتی۔ میں تو ان کے نزدیک بھی نہیں جاتی۔ اس عالم میں انہیں دیکھنا مجھے کچھ اچھا تھوڑی لگتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں ایک دم سے گھبراجاتی ہوں، سارے بدن میں تھرتھری سی ہونے لگتی ہے اور پسینے نکلنے لگتے ہیں، غنیمت ہے کہ میری اس کیفیت کو کسی نے محسوس نہیں کیا۔ البتہ دوسری بار۔۔۔ تیسری بار۔۔۔ بہت بار دیکھنے پر مجھے ایک میٹھا میٹھا سا درد ضرور محسوس ہونے لگا ہے، اس کا مجھے اعتراف ہے۔ میری نگاہیں اب ادھر سے ہٹتی ہی نہیں، جی میں آتا ہے بس دیکھتی ہی رہوں، حالانکہ ایسا کرنا کتنا مشکل ہے۔ چھوٹا سا تو گھر ہے، آدمیوں سے ٹھسم ٹھس بھرا ہوا، سب کی نگاہیں بار بار ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں، آخر یہ نگاہیں جائیں بھی تو کہاں؟ گھوم پھر کر تو انہیں آپس میں ہی ٹکرانا ہے۔ ایسی صورت میں اس چیز کو دیکھنا جس کے لئے دماغ بار بار کہے کہ غلط ہے اور دل دیکھنے پر مجبور کرے۔۔۔ کوئی آسان ہے کیا۔۔۔؟
بھائیوں کو اتنی تمیز ہی نہیں کہ جب اتنے چھوٹے گھر ہی میں مرنا جینا ہے تو ذرا قاعدے سے رہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ایسے ہی کپڑے پہن کر سوئیں جن سے ان کا سب کچھ نظر آتا رہے۔
اور صرف بھائی ہی کیوں، ابا کون سے ستھرے ہیں۔۔۔؟
میری سہیلی گڑیا کتنی بار بتاچکی ہے کہ عورت مرد کا ایک دوسرے سے ملنا بلکہ سٹنا بہت ضروری ہے، اس کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، وہ تو یہ بھی کہتی ہے کہ وہ اور اس کے بھائی بہن آپس میں میاں بیوی کا کھیل کھیلتے ہیں، اس کے ماںباپ سویرے ہی کام پر چلے جاتے ہیں، رات میں لوٹتے ہیں۔ وہاں بھی گھر ایک ہی کمرے میں سمٹا ہوا ہے اور ان لوگوں کو بغیر کسی خوف و خطر کے یہ کھیل کھیلنے کا پورا موقع ملتا ہے۔ ہمارے ابا بھی صبح کام پر چلے جاتے ہیں، پر اماں تو رہتی ہی ہیں۔ اس لئے ہم تو یہ کھیل کھیل ہی نہیں سکتے۔ یوں بھی ہم بھائی بہنوں میں اتنی قربت نہیں کہ ہم آپس میں کوئی کھیل بھی کھیلیں۔ بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ، بہنیں اپنی سہلیوں کے ساتھ۔۔۔
میرے بھائی کا ایک دوست ہمیشہ اس کی غیر موجودگی میں اسے ڈھونڈنے آتا ہے، وہ مجھے بہت گھور گھور کر دیکھتا ہے۔ ایک بار آیا تو گھر میں کوئی نہیں تھا۔ اس نے زبردستی مجھے لپٹا لیا اور میرے کولہے، پیٹھ اور سینے پر اس قدر ہاتھ پھیرے کہ میرے پورے جسم میں چنگاریاں سی بھر گئیں اورمجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ان چنگاریوں کی تپش مجھے جلاکر مار دے گی۔۔۔ میں کسی طرح اپنے آپ کو چھڑا کر نکل بھاگی۔
میرے جسم میں آخر وہ کیا ڈھونڈ رہا تھا؟
ملا تو کچھ ہے نہیں۔ میرے پورے جسم میں چنگاریاں بھر دیں جوبعد میں سرسراتی چیونٹیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ میں فوراً نہانے بیٹھ گئی۔ پتہ نہیں اس نے کیا کیا تھا کہ بہات دیر تک نہانے کے بعدبھی چیونٹیاں میرے جسم پر رینگتی رہیں۔ مجھ پر ایک وحشت سی طاری ہوگئی، اس دن میں نے کچھ کھایا بھی نہیں، اسی طرح سوگئی، اماں اور باجی نے بہت کہا کہ دونوالے کھالو، رات میں نہیں کھانے سے چڑیا بھر گوشت گھٹ جاتا ہے۔ لیکن میں کیا کرتی، چڑیا بھر گوشت گھٹے یا مرغی بھر۔۔۔ رات بھر چیونٹیاں سرسراتی رہیں۔ نہ اس کروٹ چین، نہ اس کروٹ چین۔ اس رات اماں ابا کو بھی نیند آگئی ورنہ شاید چیونٹیوں کے بھاگنے کی کوئی صورت نکل آتی۔
ساری رات کروٹ بدلتے گزر گئی۔ صبح باجی نے میری آنکھیں سرخ دیکھیں تو گھبرا کر میرا ماتھا ٹٹولنے لگیں۔
’’ہائے اللہ۔۔۔ اس کو تو تیز بخار ہے۔۔۔ اماں۔۔۔‘‘
اماں دوڑی آئیں۔ ابا اطمینان سے بیڑی پھونکتے رہے، اماں اور باجی پوری تفتیش کے ساتھ میرے پاس سے لوٹیں تب انہوں نے بہت لاپروائی سے پوچھا۔
’’کیا ہوا ہے؟‘‘
کئی روز تک ذہن میں وحشت کے کیڑے کلبلاتے رہے۔ ایک دن بلکہ ایک لمحہ کے لئے کچھ ہوجانے پر تو میری یہ حالت ہوگئی، اماں بیچاری تو روز ہی۔۔۔
ان کا کیا حال ہوتا ہوگا؟
ان کے جسم میں تو ہزاروں، لاکھوں چیونٹیاں سرسراتی ہوں گی، بلکہ انہوں نے تو ان کے جسم میں اپنا مستقل گھر ہی بنا لیا ہوگا، اتنی چیونٹیاں انہیں روز کاٹتی ہوں گی، ان کا خون پیتی ہوں گی۔۔۔ انہیں نیند کیسے آتی ہے۔۔۔؟
کس قدر تکلیف میں ہیں میری اماں بیچاری۔۔۔؟
میں انہیں ہمدردی بھری نظروں سے تکتی رہی۔ کس جگرے کی بنی ہیں میری اماں۔۔۔ دن بھر کو لہو کے بیل کی طرح جتی رہتی ہیں، کیا مجال جو ایک لمحہ کے لئے بھی آرام کرلیں۔ جھاڑو، بہارو، برتن، مانجھن، کھانا پینا۔۔۔
پھر محلے ٹولے کے درجنوں کپڑے لے کر مشین پر بیٹھنا۔۔۔
رات میں ابا کے اشارے پر ان کی چوکی پر چلی جانا۔۔۔
پھر رات بھر چیونٹیوں سے اپنے بدن کو کٹوانا۔۔۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اماں کی کس طرح مدد کروں۔۔۔؟
دو تین روز میں بخار تو اتر گیا، چیونٹیوں کی سرسراہٹ بھی ختم ہوئی لیکن اس کی کسک باقی رہی۔ ذہن میں سرسراہٹ چپک سی گئی۔ کبھی کبھی اچانک محسوس ہوتا کہ چیونٹیاں سرسرا رہی ہیں، اس احساس سے ایک عجیب نشے کی کیفیت طاری رہنے لگی۔
نشہ۔۔۔
شاید۔۔۔ نشہ اسی کو کہتے ہیں۔
ابا کوبیڑی پیتے دیکھ کر اس کے دھوئیں سے ہی مجھے نفرت سی محسوس ہوتی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک پتلی سی کھمچی میں آگ لگا کر سڑسڑ کھینچ رہے ہیں۔ منھ ناک سے دھواں نکل رہا ہے۔۔۔ یہی نشہ ہے۔۔۔؟ جس چیز میں میٹھا میٹھا درد ہو، جس کے لئے ایک تڑپ سی محسوس ہو، جس کو پانے کے لئے بار بار دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہو۔۔۔
ابا کو بیڑی کے لئے یہی سب کچھ لگتا ہوگا نا۔۔۔؟
اس دن بڑے بھیا نے کسی بات پر ناراض ہوکر میری کمر پر ایک دھول جمادیا تو اس وقت اچانک چوٹ سے میں بوکھلا گئی تھی، لیکن آگے جاکر اس چوٹ نے میٹھے میٹھے درد کی شکل اختیار کرلی اور لگ بھگ ویسا ہی محسوس ہونے لگا جیسے چیونٹیاں۔۔۔ جیسے بھائی کا دوست۔۔۔
بھائی کے دوست کے لپٹنے اور کمر پر بھائی کے مکے کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بھائی کے دوست کا ایک عجیب سا انتظار مجھے رہنے لگا اور یہ خواہش سر اٹھانے لگی کہ بھیا پھر میری کمر پر ایک زور دار مکا لگاتے۔۔۔
زیادہ تر گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہے۔ سورج کے کالے ہوجانے اور رات کے کالے سمندر میں ڈوب جانے کے بعد عورتوں کے جھنڈ، جھاڑیوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ گاؤں کے راستے اور جھاڑیاں۔۔۔ رات کی تاریکی میں دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتے ہیں، البتہ دن کی روشنی میں خالص جھاڑیاں ہی کام آتی ہیں۔ میرے گھر میں یہ کمال ابا کا نہیں، ان کے ابا اور ان کے دادا کا ہے کہ انہوں یہ مختصر گھر بنوایا تو انہو ں نے بہت آگے دیکھتے ہوئے ہمیں سورج کے ڈوب جانے کے انتظار کی زحمت سے بچا لیا۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جھنڈ میں شامل عورتیں کیا محسوس کرتی ہیں اور وہ چیز ان کے اندر کتنی مقدارمیں بچ جاتی ہے، جسے چھپانے کی خواہش عورتوں میں فطری طور پر ہوتی ہے، ہم انہیں جاتے دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکراتے ہیں اور بس۔ ویسے دن کے اجالے میں کوئی عورت جھاڑیوں کے علاوہ اور کہیں بیٹھی نظر نہیں آتی۔
لیکن مرد۔۔۔
انہیں شاید رات میں یہ ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ ان کی ضرورت کا دیو ہمیشہ صبح کے اجالے میں منھ اٹھائے نظر آتا ہے۔ وہ بھلے اپنے جانتے، آڑمیں بیٹھیں، دیکھنے والے کہاں تک اپنی نگاہوں کو باندھ سکتے ہیں۔ ہزار عورتوں میں ایک بھی ایسی حالت میں کسی کی نگاہوں میں آجائے تو وہ ایک لمحہ کے سو ویں حصہ میں بھی بیٹھی نظر آجائے، یہ ممکن ہی نہیں۔ مرد حضرات کو بہت شرم آئے گی تواپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں گے، شتر مرغ کی طرح جوریت میں اپنا منھ چھپا کر سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو چھپالیا۔ چھوٹی ضرورت میں تو انہیں آنکھ کی شرم بھی نہیں آتی۔ چلتے چلتے جہاں چاہا، پینٹ کا زپ کھولا اور شروع ہوگئے۔ بس اتنی ہی جگہ کافی ہے ان کے لئے جہاں تک ان کی دھار جاسکے۔ کون آرہا ہے، کون جارہا ہے، کس کی نگاہ کہاں پڑ رہی ہے، کون بے موقع آپھنسا ہے، کون کیا محسوس کر رہا ہے، انہیں پرواہ نہیں۔
ہماری گلی پر تو ان کی خاص عنایت ہے۔ دونوں طرف نالیا بہتی ہیں اس لئے ان کےوارے نیارے ہیں، چاہے ادھر کھڑے ہوجاؤ، چاہے ادھر۔ دیواروں پر کھڑکیوں کا ایک جال سا ہے۔ بے شمار وزن جھانک رہے ہیں، لڑکیاں بچیاں، عورتیں گلی میں آجارہی ہیں، انہیں کوئی مطلب نہیں، وہ بڑے اطمینان سے فارغ ہوتے رہیں گے۔
پہلے پہل نگاہ پڑجاتی تھی تو کتنی گھن آتی تھی جیسے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو۔ احساسِ گناہ اندر اندر مٹھیوں میں کستا جاتا، اپنے آپ ہی شرمندگی محسوس ہوتی۔۔۔ غصہ بھی آتا۔ کہیں یہ ان کی احساس برتری تو نہیں۔۔۔؟
کئی روز تک طبیعت مالش کرتی رہتی، باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا، لیکن اماں کے حکم سے نکلنا ہی پڑتا۔ سودا سلف لانے کے علاوہ پانی کا مسئلہ ایسا سنگین ہے کہ ہر حال میں گلی کے نکّڑ پر ہی حل ہوتا ہے، ہوش مندی، ہوشیاری سے کام نہ لیا جائے تو اکثر حل ہونے کے بجائے بگڑنے ہی کا ڈر رہتا ہے۔ بھائیوں کو گھر کے کاموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کی باہری مصروفیات اس قدر شدید ہیں کہ انہیں گھر کے کاموں کے لئے ٹوکنا بھی گناہ ہے۔ اس قسم کے تمام کام ہم بہنوں ہی کو انجام دینا پڑتا ہے۔ وہ بھی چھوٹی بہنوں کو۔۔۔ ظاہر ہے کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کے تو نکلا نہیں جاسکتا۔
ہوتے ہوتے یہاں بھی وہی کیفیت۔۔۔
سرسراہٹ والی۔۔۔
سارے جسم پر چیونٹیاں سی۔۔۔ پکڑنے کی کوشش کرو تو ایک چیونٹی بھی ہاتھ نہ آئے۔ بار بار گلی میں جانے کی خواہش سر اٹھاتی رہتی ہے۔ اب اماں کوبھی سودا سلف کی ضرورت کم ہونے لگی ہے، وہ ایک ساتھ ہی سب چیزیں منگوالیتی ہیں۔ پانی کا خرچہ بھی وہ نہیں رہا جو تھا، لیکن جو پانی سر کے اوپر بہتا تھا، وہ اب سر کے نیچے بہنے لگا ہے۔
ویسے ان لوگوں کو لگاتار اس عالم میں دیکھنا ممکن نہیں کیونکہ اب وہاں پر نگاہوں کی پتنگ مسلسل اڑتی رہتی ہیں، اکثر یہ پتنگ آپس میں ایک دوسرے کو کاٹنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ سب سے کارگر حربہ اچٹتی ہوئی نگاہ ہے کہ سب کچھ دیکھ لیا اور دیکھنے والو ں نے سمجھا کہ کچھ نہیں دیکھا۔ اس کے لئے بڑی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، ہر کس و ناکس کے بس کی یہ بات نہیں اورنئے لوگوں کے لئے تو بالکل ہی نہیں۔ مجھے بھی نہیں آتی تھی لیکن اب۔۔۔
پر باجی۔۔۔
باجی تو ہم کو ایک دم بے وقوف ہی سمجھتی ہیں جب کہ خود ان کی حرکات و سکنات ایسی ہیں کہ۔۔۔
وہ سارے وہ کام کرتی ہیں جن کے ہم سزاوار ٹھہرتے ہیں۔ راتوں کو جاگ جاگ کر وہ اماں ابا کا کھیل دیکھتی ہیں۔ بھائیوں کی برہنگی ان کی نگاہوں میں فوراً آجاتی ہے اور کوئی بے چینی سی انہیں ان پر کپڑے ڈالنے پر مجبور کردیتی ہے۔ گلی میں چلتے پھرتے میں نے خود کئی بار ان کی نگاہوں میں وہ چمک دیکھی ہے۔۔۔ اب یہ اور بات ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ ہوشیار اور تیز ہیں، تبھی تو وہ اپنی بظاہر بے معنی اور اچٹتی نگاہوں کو میرے پیچھے سرپٹ دوڑا دیتی ہیں کہ کہیں نگاہوں کے اس کاروبار میں، میں ان کی شریک تو نہیں بن رہی۔۔۔؟
یہ بات میں پہلے سے جانتی ہوں کہ ان کی دوسری نگاہ مجھ پر اور صرف مجھ پر پڑے گی، اس لئے ان کا تیر ادھر آنے سے پہلے میں اپنا دفاع کرلیتی ہوں۔ انہیں اطمینان ہوجاتا ہے اور وہ۔۔۔
کبھی کبھی ہماری نگاہیں ٹکراتی بھی ہیں نہ صرف باجی کی نظروں سے بلکہ دوسری بہت سی نظروں سے، پر فکر مجھے صرف باجی ہی کی نگاہوں کی ہے۔ ایسا لگتا ہے باجی نے نگاہوں نگاہوں میں مجھے سرزنش بھی کی ہے۔۔۔ لیکن یہ خوب رہی کہ وہ دیکھیں تو گناہ نہیں، میں دیکھوں تو بہت بڑا گناہ۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ اب میں بھی بہنوں اور بھائیوں کی ٹوہ میں رہنے لگی ہوں اور ان کی نگاہوں کا تعاقب کرتی رہتی ہوں۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو پہلا پتھر مار سکے۔ سب اپنی چور نگاہوں میں گناہ چھپا کر رکھتے ہیں۔
بھیا اور ان کے دوست باہر گلی میں کھڑے ہوکر سرگوشیوں میں جو باتیں کرتے ہیں اور راہ چلتی لڑکیوں کو اشارے کرتے ہیں، وہ مجھ سے پوشیدہ نہیں۔ بھائی کی غیرموجودگی میں ان کے کچھ دوست تو مجھے بھی اشارے کرنے سے باز نہیں آتے۔ پہلے میں انجان تھی، ان چیزوں کو نہیں سمجھتی تھی، رفتہ رفتہ جان گئی ہوں کہ اشاروں کی الگ ایک زبان ہے جو آتے آتے آتی ہے۔ ایک دم سے نہیں آجاتی۔ میں سمجھتی تھی کہ یہ زبان باجی، بھیا وغیرہ کے لئے مخصوص ہے لیکن جب مجھے بھی اس سے واقف کرایا گیا تو میں بھی بڑوں کے زمرے میں آگئی۔۔۔ یعنی میں بھی کچھ ہوں۔
مسجد کے مدرسے میں مولوی صاحب سے اردو پڑھنے میں، میں نے کتنی با رمار کھائی ہے، اسے کچھ میں ہی جانتی ہوں، مولوی صاحب ہمیشہ مجھے کوڑھ مغز اور جاہل ہی سمجھتے رہے۔ اس دن چھنّو خالہ کے ہاں میلاد شریف میں کسی نے شوشہ چھوڑ دیا کہ میلاد شریف ناکتخدا لڑکی سے پڑھوانا چاہئے۔ اتفاق سے پوری محفل میں ناکتخدا لڑکی صرف میں ہی ٹھہری، پھر میں نے میلاد شریف کی پہلی کتاب ختم بھی کرلی تھی۔ سب میری جان کو آگئے اورمجھے لرزتے، کانپتے ہاتھوں سے میلاد اکبر کو کھولنا ہی پڑا۔ اٹک اٹک کر پڑھنے میں مجھے کیا تکلیف ہوئی ہے، وہ تو کہئے کہ پوری محفل ہی ایسے لوگوں کی تھی اس لئے میری جہالت کسی کی گرفت میں نہیں آسکی اور خدا کا شکر ہے کہ محفل خشوع و خضوع کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔
اس دن سچے دل سے میں نے اعتراف کیا کہ مولوی صاحب جو کچھ کہتے ہیں، غلط نہیں کہتے، پر میں بھی کیا کروں، جتنا دماغ لے کر میں پیدا ہوئی ہوں اور جتنی سمجھ کے ساتھ میں چل رہی ہوں، وہی میری دنیا ہے نا۔۔۔
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ اشاروں کی زبان سمجھنے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ اس کے ذریعہ کہی گئی کوئی بات، اس کے ذریعہ دیا گیا کوئی پیغام مجھ تک فوراً پہنچ جاتے ہیں۔ اب یہ ان کا صوابدید ہے کہ وہ میرے چہرے مہرے، جسم کے دوسرے اعضا اور آنکھوں سے کیا پڑھ پاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میں ان کی زبان میں جواب تو دے نہیں سکتی۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بنیادی طور پر بس دو ہی زبانیں ہیں، سفید کاغذ پر لکھی جانے والی، رنگین کاغذ پر پڑھی جانے والی۔۔۔ وہ زبانیں جو آنکھوں سے لکھی جاتی ہیں، جو اشاروں میں بات کرتی ہیں، جو چہرے سے پڑھی جاتی ہیں، جو حرکات و سکنات سے اپنا مفہوم ادا کرتی ہیں، وہ زبانیں جو جسم ہی سے لکھی اور جسم ہی سے پڑھی جاتی ہیں۔۔۔ ان زبانوں پر کس ملک اور کس خطے کی مہر لگائی جائے۔۔۔؟
اماں کہتی ہیں، میں ابھی بچہ ہوں۔
باجی کہتی ہیں، تم ابھی بہت چھوٹی ہو اور بدھو بھی۔۔۔
سبھی رشتہ دار عورتیں اور دوسری بہنیں مجھے یہ سمجھ کر نظر انداز کرتی ہیں کہ میں تو کچھ جانتی ہی نہیں۔۔۔ میں ابھی بہت چھوٹی ہوں۔
شاید وہ میرے جسم کو دیکھ کر ایسا سوچتی ہیں، وہ یہ نہیں جانتیں کہ اس جسم کے اندر جو بدن ہے، وہ بچہ نہیں رہا۔ گھر کے لوگ اس بدن کو نہیں پہچانتے لیکن بھیا کے دوست، گلی محلے میں رہنے والے اور راہی مسافر اسے خوب دیکھتے اور پہچانتے ہیں، تبھی تو وہ مجھ سے اس مخصوص زبان میں مخاطب ہوتے ہیں جس سے صرف میں واقف ہوں یا وہ۔۔۔
جو چیونٹیاں میرے بدن پر سرسراتی تھیں، انہوں نے اب مستقل طو رپر میرے اندر ٹھکانہ بنالیا ہے۔ مجھے ہر دم ایک بے چینی سی محسوس ہونے لگی ہے۔ برتن میں کوئی چیز بہت زیادہ بھر جاتی ہے تو ابلنے لگتی ہے۔۔۔ میں وہ برتن تو نہیں۔۔۔؟
میری اس حالت سے سب لوگ بے خبر ہیں یا پنے اپنے خول میں بندہیں، جو زمانہ مجھ پر گزر رہا ہے وہ باجی اور دوسری بہنوں پر بھی گزرا ہوگا، پھر انہوں نے کیا کیا۔۔۔؟
باجی کے پاس وہ جسم بھی ہے جو میرے پاس نہیں اور میرے جسم کے اندر جو بدن ہے، وہ ان کے پاس ضرور ہوگا لیکن باجی سے اس مسئلے پر کچھ کہنا میرے بس کی بات نہیں ہے، کیونکہ جو باجی میری نگاہوں کو ہر دم باندھنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں، وہ میری کیا سنیں گی۔۔۔؟
میں چاہتی ہوں کہ جو چیز میرے اندر لبالب بھر گئی ہے، اس کا کسی طور اظہار تو ہو، لیکن کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ یہ احساس مجھے ایک عجیب ڈھنگ سے جکڑتا جارہا ہے۔ پہلے میں اس سے اپنے آپ کو آزاد کرانے کی کوشش بھی کرتی تھی، اب اسی میں ایک راحت سی محسوس کرنے لگی ہوں بلکہ کبھی کبھی تو یہ میرے لئے جائے اماں بھی بن جاتی ہے۔ یہ جکڑن مجھے اتنی زور سے بھینچ لے، کس لے کہ میری ہڈیاں بھی چٹخ اٹھیں۔۔۔ میرا حال جو ہو سو ہو، میں اپنے آپ میں سمٹی تو رہوں گی۔۔۔
میں بکھرتی جارہی ہوں، اپنے آپ پر میرا کوئی اختیار باقی نہیں رہا۔ کوئی انجانا ہاتھ بہت بے رحمی سے مجھے دور دور تک بکھیر جاتا ہے اور میں اپنے آپ کو چن کر ایک جگہ جمع بھی نہیں کرسکتی۔ یہ صورتِ حال میرے لئے خاصی پریشان کن ہے۔
اگر کوئی مجھے مٹھی بھر کے اٹھالے تو نہ صرف میں خوش خوش اس میں سمٹ جاؤں بلکہ شاید میری الجھن اور تکلیف بھی دور ہوجائے۔ میرے کم سن جسم میں جو جوان بند ہوگیا ہے، اس نے مجھے اندر اندر دو حصوں میں منقسم کردیا ہے اور دونوں حصے الگ الگ سمتوں میں بھاگے جارہے ہیں، یہ سلسلہ رکنے والا دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ شاید یہ چلتا ہی رہے گا جب تک کہ واقعی کوئی باجی کی دھیمی مگر تیکھی نصیحتیں۔۔۔
ابا کی بے حسی۔۔۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان باتوں کو سوچنے کی میرے پاس بالکل فرصت نہیں، چیونٹیوں کی مسلسل سرسراہٹ نے مجھے ایک بالکل الگ ہی شئے میں تبدیل کردیا ہے اور میں نجات چاہتی ہوں۔۔۔ صرف نجات۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.