وہ اپنے زمانے کے مانے ہوئے حکیم تھے ان کا دور دور تک شہرہ تھا اور ان کے مطب کے سامنے ہر وقت مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ انہوں نے نہ صرف دیسی طب کی بہت سی کتابیں پڑھی تھیں بلکہ ان کی نظر طبی میدان میں ہونے والے نئے عالمی تجربات اور تحقیق پر بھی خاصی تھی کیونکہ وہ شہر سے جدید طبی سائنس پڑھ کر لوٹے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اطبا کو علاج کے لئے زیادہ سے زیادہ ملکی وسائل اور مقامی جڑی بوٹیوں پر انحصار کرنا چاہئے کیونکہ وہ لوگوں کے مزاج کے زیادہ قریب ہوتی ہیں اور نسبتاً کم ناخوشگوار اثرات چھوڑتیں ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں بڑی قیمتی جڑی بوٹیاں ہیں جن کو تلاش کرنا اور ان پر تحقیق کرنا نہایت ضروری ہے۔ حکیم صاحب کا ایک اصول یہ تھا کہ وہ جب تک کسی دوا یا جڑی بوٹی کو خود آزما نہ لیتے تھے اس کے افعال و خواص کا خود مطالعہ اور تجربہ نہیں کر لیتے تھے مریضوں کو استعمال نہیں کراتے تھے چنانچہ ان کے اہل خانہ ان کی اس عادت سے اکثر پریشانی میں مبتلا رہتے کیونکہ وہ زہریلی اور تند و تیز مزاج کی جڑی بوٹیاں چکھ کر یا کھا کر خود بیمار پڑ جاتے تھے اور اس وقت تک دوسری کوئی دو استعمال کر کے اچھا ہونا بھی نہیں چاہتے تھے۔ جب تک متعلقہ جڑی بوٹی یا دوا کے تمام خواص، مزاج و افعال، کیفیات اور علامات اپنے بیٹوں کو قلمبند نہیں کرا لیتے تھے۔ ایک بار انہوں نے کسی درخت کے تلخ اور سخت قسم کے تخم کھا لئے تو ان کے بدن میں اینٹھن اور تشنج پیدا ہو گیا۔ اعضا شکنی ہونے لگی۔کمر اور ہاتھ پاؤں میں درد ہونے لگا۔ چہرہ نیلگوں پژ گیا آنکھیں ابل کر باہر آ گئیں۔ جبڑے کے عضلات میں بھی تشنج ہونے لگا اور سارے گھر اور گاؤں بھر میں خوف و دہشت طاری ہو گئی۔ دونوں بیٹوں نے علامات اور کیفیات قلمبند کرلی تھیں چنانچہ حکیم صاحب کی طرف سے پہلے سے دی گئی ہدایات کے مطابق انہیں قے کرائی گئی اور تریاق دوائیں استعمال کرانی گئیں جب جا کر ان کی حالت سنبھلی۔
بعد میں حکیم صاحب ان تلخ اور سمی تخموں کو مدبر کر کے نہایت اعتماد سے اپنے مریضوں کو استعمال کراتے رہی اور کامیابی سے امراض عصبانیہ و بلغمیہ اور ضعف اعصاب و اعضائے رئیسہ کا علاج کرتے رہے۔
حکیم صاحب نے سینکڑوں نباتی، حیوانی اور جمادی ادویہ مفردہ کی ماہئیت، مزاج، افعال اور خواص اپنے ذاتی تجربوں اور تحقیق سے معلوم کئی اور انہیں اپنی بیاض میں قلمبند کر لیا تاکہ اپنے بیٹوں اور آنے والی نسلوں کے کام آئیں اور عام لوگوں کو ان کے نسخوں سے شفاء کا ملہ نصیب ہوتی رہے۔حکیم صاحب اپنے دونوں بیٹوں کو سارا علم اور حکمت سکھانا چاہتے تھے مگر وہ پڑیاں بنانے اور لوگوں سے دام وصول کرنے میں لگے رہتے اور پڑھنے لکھنے اور سیکھنے کی طرف کم توجہ دیتے حکیم صاحب کا معمول تھا کہ ہفتہ عشرہ بعد قریبی پہاڑوں کی طرف نکل جاتے اور دشوار گزار جنگلوں میں جڑی بوٹیاں تلاش کرتے رہتے پھر گھر آ کر ان نئی دواؤں پر طرح طرح کے تجربات کرتے۔
ایک دفعہ حکیم صاحب پہاڑوں اور جنگلوں سے جڑی بوٹیاں تلاش کرنے کے بعد لوٹے تو ایک عجیب خبر لائے انہوں نے بتایا کہ ایک دشوار گزار راستے پر انہوں نے ایک ایسا قیمتی اور بابرکت پودا دیکھا ہے جو دنیا میں بہت کمیاب ہے اور جس کی انہیں برسوں سے تلاش تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس پودے کو بڑھنے اور درخت بننے میں ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن جب ایک بار تن اور درخت بن جائے اور اس پر پھل آنا شروع ہو جائے تو یہ نہایت قیمتی کارآمد اور برکت والا درخت ہوتا ہے۔ حکیم صاحب اگرچہ سائنس اور جدید علوم سے بہرہ ور تھے مگر روحانی قدروں پران کا پختہ یقین تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اس درخت کی موجودگی اور اس کا سایہ خوش قسمتی کی علامت ہے اس کا پھل نہایت شیریں اور لذیذ ہوتا ہے بھوک اور پیاس کا غلبہ نہیں ہوتا اعصاب کو قوت ملتی ہے اور حاملہ عورتیں اس پھل کو کھائیں تو ان کے بطن سے صحت مند اور خوبصورت بچے جنم لیتے ہیں ح حکیم صاحب نے یہ بھی کہا کہ اس کے سائے میں بیٹھنے سے جسم میں توانائی اور دل و دماغ میں فرحت و سکون پیدا ہوگا اور امراض عامہ و امراض خبیثہ کا دفعیہ ہوگا۔
حکیم صاحب سے اس بابرکت درخت کی تعریفیں سن کر تمام اہل خانہ بےتاب ہو گئے اور اسے دیکھنے اور جلد از جلد کھود کر گھر لے آنے کا اصرار کرنے لگے مگر حکیم صاحب نے بتایا کہ اس درخت کو کھودکر گھر لانے سے پہلے اس کے لئے مناسب موسم، مٹی اور جگہ کا انتخاب ضروری ہے چنانچہ انکی حویلی کے صحن کے عین وسط میں ان کی ہدایت کے مطابق ایک گڑھا کھودا گیا انہوں نے مٹی کا اچھی طرح سے معائنہ کیا ہاتھوں میں لے کر اس دیکھا اور سونگھا اور نہایت خوش ہو کر کہا۔
’’ہاں وہی مٹی ہے۔بالکل دیسی ہی۔ خوب پھلے پھولےگا۔‘‘
اہل خانہ یہ سن کر نہایت خوش ہوئے اور زیادہ بے تابی کا مظاہرہ کرنے لگے مگر حکیم صاحب نے انہیں موسم تبدیل ہونے تک انتظار کرنے کو کہا۔
بہار کے آغاز کے ساتھ ہی ایک دن حکیم صاحب نے روانگی کا اعلان کر دیا۔ ان کے بیٹے اور پوتے بھی ان کے ہمراہ تھے سب کے پاس کسیاں، کلہاڑیاں اور کدالیں تھیں اور ایک بہت بڑا ٹوکرا بھی جس میں گاچی سمیت درخت کو جو ابھی پودے کی صورت میں تھا کھود کر لانا تھا۔
وہ سب لوگ راستے کی صعوبتیں اٹھاتے، خار دار جھاڑیاں اور نوکیلے پتھروں سے زخمی ہوتے بھوک پیاس اور تھکن سے نڈھال ہوتے حکیم صاحب کی رہنمائی میں دشوار گزار جنگل عبور کرتے گئے اور آخر کار اس بابرکت پودے کو کھود کر گھر لے آئے۔
بیٹوں اور پوتوں کا کہنا تھا کہ وہ درخت واقعی بڑا بابرکت تھا کیونکہ اس کے پاس پہنچتے ہی راستے کی ساری تھکن خود بخود اتر گئی تھی۔ خار دار جھاڑیوں سے زخمی ہونے والے جسموں میں درد کی ٹیسیں رک گئی تھیں اور کسی انجانی قوت کے زیر اثر دلوں میں ولولہ اور خود اعتمادی کے جذبات موجزن ہو گئے تھے۔
جونہی وہ لوگ واپس آئے اہل خانہ خوش سے کھل اٹھے اس رات حویلی میں گھی کے چراغ جلائے گئے۔۔۔۔ اور گاؤں بھر کے بچوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ حکیم صاحب نے اسی وقت دوبارہ گڑھا کھودا بھر بھری مٹی میں اپنے ہاتھوں سے پودے کیگاچی لگائی اور اسے پانی دیا۔ پھر سرکنڈوں کی باڑھ چاروں طرف لگا دی تاکہ مویشیوں اور اندھیرے میں چلنے والوں سے تازہ تازہ لگا ہوا پودا محفوظ رہے۔ حکیم صاحب نے پودا لگا کر ہاتھ منہ دھوتے ہوئے کہا۔
’’اگرچہ زمین نہایت زرخیز اور آب و ہوا مناسب اور اچھی ہے لیکن جب تک پودا اپنی جڑیں اچھی طرح سے نہیں پکڑ لیتا اور نئی شاخیں نہیں نکال لیتا نہایت احتیاط اور خبرگیری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوں تواس درخت کے پتے، چھال،لکڑی اور پھول سب ہی کچھ نہایت کارآمد ہے اور ان سے بعض امراض میں عارضی اور وقت سکون حاصل ہو سکتا ہے مگر اس سے متوقع مستقل طبی اور روحانی فوائد اسی وقت حاصل کئے جا سکتے ہیں جب یہ پھیل کر تن اور درخت بن جائے اور اس پر پھل آنے لگے۔
حکیم صاحب جب تک زندہ رہے خود صبح سویرے اٹھ کرپانی دیتے، سہ پہر کو مطب سے نکل کر گوڈی کرتے۔کیاری میں کھاد ڈالتے، سرکنڈوں کی باڑھ ٹھیک کرتے اور ایک ایک پتے اور ٹہنی کا خیال اور حساب رکھتے مگر ابھی بمشکل پودے نے جڑیں پکڑی تھیں اور ایک آدھ نئی کونپل پھوٹی تھی کہ ایک روز کسی جڑی بوٹی کی اپنے اوپر آزمائش کرتے ہوئے حکیم صاحب کی حالت بگڑ گئی انہیں بروقت تریاقی دوا نہ دی جا سکی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
حکیم صاحب کی وفات کے بعد کچھ عرصہ تک دونوں بھائی مل جل کر رہتے رہے اور ایک ساتھ پودے کی دیکھ بھال اور مطب کرتے رہے مگر پھر ان میں مطب کی آمدنی کی تقسیم پر اکثر جھگڑا ہونے لگا۔جس کے نتیجے میں دونوں نے الگ الگ مطلب قائم کر لئے۔ وہ دونوں روپیہ کمانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے لیکن دونوں نیم حکیم تھے تاہم جلد ہی بڑے بھائی کو یاد آیا کہ عارضی سکون کے لئے بعض امراض میں اس درخت کی پتیاں استعمال کی جا سکتی ہیں چنانچہ اس نے پتوں سے اپنے مریضوں کا علاج شروع کر دیا۔ زمانہ بدل رہا تھا۔ سرعت اور تیز رفتاری کا آغاز تھا لوگ وقتی سکون سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے تھے۔ بڑے بھائی نے خوب دولت کمائی اور اس کا شہرہ دور دور تک ہو گیا۔
چھوٹے بھائی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے وہ دن رات پریشان رہتا لوگ کہتے تھے کہ اس کے ہاتھ میں شفا نہیں ہے۔ وہ کامیابی کے لئے دن رات ہاتھ پاؤں مارتا رہتا مگر اسے کامیابی حاصل نہ ہوتی۔ آخر ایک روز ٹنڈٹنڈ درخت کو دیکھ کر اسے اپنے بھائی کی کامیابی کا راز معلوم ہوا اور اس نے بھی چھال اتار کر بطور دو استعمال کی اور اسے بے حد حیرت ہوئی جب اسکا مریض بھی عارضی طور پر سہی مگر صحت یاب ہو گیا۔
پتے اور چھال ختم ہو گئے تو انہوں نے اس کی ٹہنیاں کاٹ کر اور پیس کر آزمائیں اور انہیں بھی امراض شکم میں سکون بخش اور منفعت بخش پایا۔ چنانچہ دونوں ایک دوسرے سے چوری اس کی ٹہنیاں اور لکڑی کاٹنے اور دواؤں میں شامل کرنے لگے۔
دوا کی پڑیوں میں ایک جیسی لکڑیاں چباتے اور برادہ پھانکتے پھانکتے مریضوں کو شک گزار تو ایک رات کچھ لوگ آئے اور باقی ماندہ پودے کو جڑوں سمیت اکھاڑ کرے گئے اور انہوں نے اسے سکھا کر اور پیس کر برابر تقسیم کر لیا۔۔۔لیکن اگلی بہار میں گھر والے یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ پر کئے ہوئے گڑھے کی جگہ پر ایک ویسا ہی درخت اگ آیا ہے شاید کوئی زندہ جڑ باقی رہ گئی تھی!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.