نصیب اپنا اپنا
ہماری قسمت میں عیش و عشرت کہاں؟ بس گھٹ گھٹ کر جینا لکھا ہے۔ جب سے شادی ہوئی ہے ہماری قسمت پھوٹی ہے۔ وہی کھانا پکانا، جھاڑو دینا، برتن اور کپڑے دھونا۔ آدھی زندگی تو باورچی خانے میں گذر جاتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ بچے بھی پیدا کریں اور ان کی پرورش بھی کریں۔ اس کے علاوہ دوست و احباب اور رشتہ داروں کی مہمان نوازی اور آؤ بھگت۔ جب بھی دیکھو گھر مہمانوں سے بھرا رہتا ہے گھر نہیں گویا مہمان خانہ ہے۔ ہماری حالت کولھو کے بیل سے بھی بدتر ہے۔ صبح سے دیر رات تک صرف کام ہی کام۔ نہ سکون ہے اور نہ چین۔ آرام کرنے کے لئے دوگھڑی فرصت نہیں ملتی۔ پڑوسی عورتوں کو دیکھو کتنی شاندار زندگی گذا ر رہی ہیں۔ دن بھر آرام کرتی ہیں، اپنے شوہروں کی آمد تک خوب بن سنورتی ہیں اور پھران کے ساتھ گھومنے کے لئے چلی جاتی ہیں اور شاپنگ واپنگ کرکے کسی ہوٹل میں کھا کر واپس لوٹتی ہیں۔ یہ سب اپنا اپنا نصیب ہے۔ ہم قسمت کے ماروں کا یہ حال ہے کہ دن بھر پکاؤ، کھاؤ اور یہیں پڑے رہو۔ عرشیہ بیگم دیر تک حسب معمول بڑ بڑاتی رہیں۔
شام کے وقت چرند پرند بھی خاموش ہو جاتے ہیں بیگم! خدا کے لئے اب بس بھی کرو۔ روز روز کی اس طعنہ کشی سے میرے کان پک چکے ہیں۔ احمد صاحب نے اپنی بیوی کو چپ کراتے ہوئے کہا۔
آپ کے کان بھلا کیوں پکنے لگے۔ آپ کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ ہاں میرا منہ بند کرانے کے لئے یہی الفاظ ہیں۔ اس کے سوا آپ مجھے کہہ بھی کیا سکتے ہیں اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ پچھلے بیس سالوں سے یہی سنتی آرہی ہوں۔ عرشیہ بیگم نے پھر وار کیا۔
اتنا بھی نہ کہوں تو تمہاری زبان قینچی کی مانند چلتی ہی رہے گی اور میں اس معاملہ میں تم سے جھگڑا تو نہیں کر سکتا۔
یہاں جھگڑنے کے لئے کون بیٹھا ہے اور آپ سے جھگڑنے سے کون سا فائدہ ہونے والا ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا آپ کا ضمیر مر چکا ہے۔
میں دن بھر کا تھکا ماندہ جب بھی گھر لوٹتا ہوں۔ تم ہمیشہ یہی رٹ لگانا شروع کر دیتی ہو۔ شاید تمہیں مجھے ستانے اور پریشان کرنے میں مزہ آتا ہے۔
ہاں! دنیا میں آپ ہی واحد مرد ہیں جو کام کرتے ہیں اور سارے دفتر کی ذمہ داری آپ ہی کے سر پرہے اسی لئے آپ تھک جاتے ہیں باقی سب لوگ دفتروں میں جھک مار کر گھر لوٹتے ہیں۔ اسی لئے وہ اتنے خوش رہتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں میں سارا دن گھر میں آرام سے بیٹھتی ہوں۔ صبح کی نماز کے بعد سے آپ کے آنے تک مسلسل کام ہی کام ہوتا ہے۔
تم اس طرح کے روز روز طعنے نہ دیا کرو۔ میں تمہارے ان طعنوں سے اکتا چکا ہوں۔ اللہ کے واسطے کم سے کم ایک پیالی گرم چائے دے دو میں تمہارا شکر گذار رہوں گا۔
عرشیہ بیگم نے یوں ہی ٹر ٹراتے ہوئے اپنی بیٹی سیماکو ایک پیالی چائے بنانے کے لئے آواز دی جو اپنے کمرہ میں بیٹھی تھی۔
سیما نے وہیں سے جواب دیا۔ ممی! کل میرا امتحان ہے اور مجھے پڑھائی کرنی ہے اس لئے آپ ہی ابو کے لئے چائے بنا کر دے دو۔
عرشیہ بیگم کا پارہ پھر سے چڑھ گیا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ یہاں میری سننے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ بچے بھی اپنے باپ پر گئے ہیں۔ کسی کام کے نہیں ہیں۔ میں ہی سب کی نوکر ہوں۔ یہ کہتے ہوئے وہ کچن میں چلی گئیں اور تھوڑی دیر میں چائے لاکر دے دی۔
چائے بےذائقہ تھی احمد صاحب نے چائے پیتے ہو ئے محسوس کیا مگر اپنی بیوی کی چرب زبانی کے خوف سے کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکے۔ انہیں اس بات کا علم تھا کہ ایسے موقعوں پر کچھ کہنے سے جھگڑے ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس لئے چپی سادھ کر انہوں نے چائے پی لی۔
احمد صاحب ریونیو ڈپارٹمنٹ میں ایک افسر تھے جہاں اچھی خاصی آمدنی کے امکانات تھے مگر وہ ایک خدا ترس اور ایمان دار شخص تھے۔ تنخواہ کے علاوہ ایک روپیہ کی رشوت لینا بھی انہیں پسند نہیں تھاان کی نیک نامی، پرہیز گاری اور دیانت داری کے چرچے دفتر ہی میں نہیں بلکہ پورے ڈپارٹمنٹ اور شہر بھر میں تھے۔ اپنی تنخواہ میں ہی وہ اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ انہیں اوپر کی کمائی کا شوق کبھی نہیں رہا۔ حالانکہ کئی ایسے مواقع آئے جب انہیں روپیوں کی سخت ضرورت تھی اگر وہ چاہتے تو ڈھیر سارے روپیے کما سکتے تھے اور ضرورتیں ہی نہیں بلکہ خواہشات بھی پوری کرتے ہوئے شاندار زندگی گذار سکتے تھے مگر انہیں خوف خدا تھا۔ تنگ دستی کے عالم میں بھی انہوں نے کو ئی غلط قدم نہیں اٹھایا۔ حالانکہ وہ جس دفتر میں کام کرتے تھے وہاں کا باوا آدم ہی نرالا تھا اور اس حمام میں سب ننگے تھے۔ دیوان سے لے کر جوان تک سب کے سب غیرقانونی اور غلط کاموں میں ملوث تھے میز کے نیچے اور اوپر کی کمائی کے نوٹوں سے جیب ہی نہیں بلکہ الماریاں بھی بھرتے تھے۔
عرشیہ بیگم تھوڑا پڑھی لکھی خاتون تھیں زمانے کے نشیب و فراز سے واقف بھی تھیں۔ اپنے خاوند کے ساتھ اسی دفتر میں کام کرنے والوں کی حرکات وسکنات کا علم بخوبی رکھتی تھیں کیونکہ دو تین افرادکے مکانات انہیں کے پڑوس میں تھے اور ان سب کے تعلقات ایک دوسرے سے اچھے تھے ان کا اکثر ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا تھا۔ عرشیہ بیگم جب بھی کسی کے یہاں جاکر آتی تھیں اس وقت ضرور کوئی فتنہ کھڑا ہو جاتا مگر اس کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کرکے احمد صاحب انہیں چپ کروا دیا کرتے تھے۔ اسی کشمکش میں ان کی زندگی رواں دواں تھی اور وہ اس کے عادی بن چکے تھے۔
عرشیہ بیگم کے طعنوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب پڑوس میں شرما نے ایک نہایت شاندار وسیع اور کشادہ بنگلہ تعمیر کروا دیا۔ وہ ا حمد صاحب کے دفتر میں کام کرتا تھا اور وہ ان کا اسسٹنٹ تھا۔ جسے ملازمت ملے تقریباً دس سال ہوئے تھے اور شادی شدہ زندگی کے سات آٹھ سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ ان دس سالوں میں اس نے اتنا کمایا جو ایک بڑا اور ایماندارافسر وظیفہ یابی کے موقع پر بھی اتنی دولت جمع نہیں سکتا تھا۔ شرما کے گھر کی افتتاحی تقریب میں عرشیہ بیگم کو اپنے شوہر کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔ جیسے ہی وہ اس شاندار عمارت میں قدم رکھیں ان کے حواس باختہ ہو گئے۔ کیونکہ ان کے قدموں تلے لاکھوں روپیوں کی لاگت کی مخملی قالین بچھی ہوئی تھی۔ جس پرقدم رکھتے ہوئے انہیں عجیب لگ رہا تھا۔ جیسے ہی وہ قالین پر سے گذرتے ہوئے وسیع ہال میں گردن اٹھاکر ایک بڑے جھومر کو دیکھیں تو ان کی حیرانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ وہاں کھڑے لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ اس جھومر کی قیمت پانچ لاکھ روپئے ہے۔ اس کے بعد سلیقے اور نہایت قرینے سے جوڑی گئی ہر ایک چیز دیکھنے لگیں۔ ڈرائینگ روم میں شاندار اور قیمتی صوفے، شیشوں کا بہترین شوکیس اور اس میں انواع و اقسام کی بیش قیمت امپورٹیڈ اشیاء، ایئرکولورس، دیوار پرآویزاں ایک بڑایل سی ڈی ٹیلی ویژن، ہوم تھیٹر، کمپیوٹر اور فیکس مشین وغیرہ۔ وہ ان تمام چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے اندر کچن کی تلاش میں نکلیں لیکن وہاں تک پہنچتے ہوئے ایک ایک چیز کو دیکھ کر تاب نہ لاسکیں۔ کئی کمروں سے گذرتے ہوئے جوں توں کرکے وہ کچن میں داخل ہوئیں تو ان کے ہوش اڑنے لگے۔ کیونکہ وہ جدید اور نئے طرز کا اٹالین کچن تھا۔ بہترین ڈائننگ ٹیبل، جدید واشنگ مشین، فریج کے علاوہ بہت سی نایاب اور قیمتی اشیا سے شرما نے اپنے گھر کو مزین کیا تھا۔ وہ جیسے ہی شرما کی بیوی سے ملیں تو دنگ رہ گئیں کیونکہ اس کے بدن پر آدھا کلو سے زیادہ سونے کے زیورات لدے ہوئے تھے۔ وہ ان تمام چیزوں کو دیکھ کر وہاں ٹھیک سے کھانا کھا نہ سکیں، بار بار ان کی نظریں اپنے شوہر پر اٹھتی تھیں۔ چونکہ احمد صاحب زمانہ شناس تھے بیوی کی دلی کیفیت کا انہیں بخوبی اندازہ ہو رہا تھا اس کے باوجود وہ انہیں دوسروں سے متعارف کرواتے رہے اور حتی المقدور انہیں خوش رکھنے کی سعی کرتے رہے۔ جوں توں کرکے کھانے سے فارغ ہوکر وہ باہر نکلے تو عرشیہ صاحبہ کی نظر بنگلہ کے سامنے خوشنما لان اور شاندار چمچماتی کارپر پڑی۔ احمد صاحب نے بتایا کہ وہ شرما کی کار ہے جو حال ہی میں اس نے خریدی ہے۔ یہ سن کر عرشیہ بیگم کا پارہ مزید چڑھ گیا۔ اس کے بعد وہ دونوں اپنے گھر آ گئے۔ راستے میں احمد صاحب اپنی بیوی کو دیکھ کر کچھ کہنا چاہتے تھے مگر وہ اس وقت بالکل خاموش ہو گئی تھیں اس لئے وہ ہمت نہ کر سکے۔
گھر پہنچنے کے بعد عرشیہ بیگم نے کچھ نہیں کہا اور انہوں نے دو چار دنوں تک چپی سادھ لی ان کی خاموشی احمد صاحب کو بری طرح کھٹکنے لگی۔ ان کے دماغ میں کئی سوالات اٹھنے لگے۔ حالانکہ انہوں نے کئی مرتبہ شرما کا ذکر بھی کیا اور دفتری امور پر بات بھی کی۔ مگر عرشیہ بیگم نے منہ نہیں کھولا۔ اس کے برعکس انہوں نے خوش دلی سے پیش آنا شروع کر دیا۔ احمد صاحب جب دفتر کے لئے نکلتے تو ان کی ایک ایک چیز لا کر دینے لگ جاتیں، وقت پر گھر نہیں پہنچتے تو دفتر پہ فون کیا کرتیں اور واپسی پر ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے لگ جاتی تھیں۔ ان میں یہ غیرمعمولی تبدیلی دیکھ کر احمد صاحب کو خدشہ لاحق ہونے لگا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے اور ممکن ہے کہ ایک طویل خاموشی اور سناٹے کے بعد ضرور کوئی آندھی اور طوفان آنے کا امکان ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ احمد صاحب نے راحت کی سانس لی۔ ادھر عرشیہ بیگم اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر توجہ دینے لگ گئیں۔ انہیں دو لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ دونوں لڑکے خوش خصال اور ذہین تھے۔ جو ڈاکٹری اور انجنئیرنگ میں زیر تعلیم تھے اور لڑکی بھی گرایجویشن میں پڑھ رہی تھی۔ پڑھائی کا خرچ زیادہ تھا لیکن زندگی کسی طرح سے گذر رہی تھی۔ احمد صاحب ان کی بیوی کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے ایک واشنگ مشین لے آئے اور چند دن بعد عرشیہ بیگم نے گھر خرچ کے لئے دئے گئے روپیوں میں سے تھوڑی جمع شدہ رقم دے کر اپنے شوہر کے ساتھ ایک فریج بھی خریدا۔ دراصل وہ کرایہ کا مکان تھا جس میں چند پرانی کرسیاں اور بچوں کے پڑھنے کے لئے ایک میز کے سوا ہال میں کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر وہ گھر تعلیم و تربیت اور نیک نامی کے معاملہ میں افضل تھا۔
احمد صاحب کے دفتر کے بیشتر افراد نے شاندار مکانات تعمیر کروایا اور بہتوں نے کئی کئی سائٹس خریدے۔ کئی مرتبہ احمد صاحب کے دل میں بھی خیال آتا کہ وہ بھی صاحب مکان بن جائیں مگر تنخواہ میں زندگی گزارنا بھی مشکل تھا اور اتنی رقم جمع کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ انہوں نے اس ضمن میں کوشش کی مگر ہر بار وہ ناکام ہی رہے۔ کیونکہ گھروں اور زمینات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں اور بچوں کی تعلیم کے لئے انہوں نے بینکوں سے قرضہ بھی لیا تھا۔ ادھر چند دنوں سے عرشیہ بیگم نے گھر نہ سہی کم سے کم ایک سائٹ ہی کیوں نہ ہو لینے پر اصرار کرنے لگیں اور اس معاملہ میں پھر سے طعنہ کشی شروع ہو گئی۔ احمد صاحب کو اب اپنی حیثیت کابری طرح احساس ہونے لگا۔ وہ کسی طرح اپنے آپ کو تسلی دے لیا کرتے اور ہمیشہ خاموش ہو جاتے تھے۔
ایک دن احمد صاحب دفتر پہنچے تو سارا عملہ یکجا تھا دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے دفتر کا ساتھی حکیم باپ بننے کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کر رہا ہے اور سب اسے مبارکبادی دے رہے ہیں۔ حکیم نے احمد صاحب کو بھی مٹھائی دی۔ انہوں نے اسے دعائیں دیں۔ حکیم کی شادی ہوئے دو سال ہوئے تھے۔ اس نے بھی بہت کم عمر میں بہت سی دولت کمائی تھی۔ وہ ایک اوسط خاندان سے تعلق رکھنے والا تھا جس کی تین بہنیں تھیں اور دو بھائی ابھی زیر تعلیم تھے۔ اس نے بڑی مشکل سے تعلیم حاصل کی تھی جب ملازمت ملی تو چند ہی دنوں میں اس کی شادی ہو گئی اور شادی کے ایک سال بعد اس نے ایک اچھا مکان خرید لیا اور اپنی بیوی کے ساتھ آکر نئے گھر میں رہنے لگا۔ حکیم نے زندگی میں غریبی دیکھی تھی اب اس نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ اس کی اولاد پر غریبی کا سایہ ہرگز نہ پڑنے دےگا۔ جب سے اسے پتہ چلا کہ وہ باپ بننے والا ہے تواسے اوپر کی کمائی کی آس مزید بڑھ گئی۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چند دن بعد اس نے آکر نہایت مایوس کن لہجے میں یہ بات سنائی کہ اس کی بیوی کا حمل ضائع ہو گیا ہے۔ احمد صاحب نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کی عظمت عالی ہے وہ یقیناً تمہیں اولاد سے نوازےگا۔ اس کے بعد اسی طرح دو مرتبہ اس کی بیوی حاملہ ہوئی اور ہر بار اس کا حمل ضائع ہوتا گیا۔ جب اس بات کا علم عرشیہ بیگم کو ہوا تو وہ حکیم کے گھر پہنچ کر اس کی بیوی کو تسلی دیتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھا ئیں۔ اب حکیم کے پاس بے شمار دولت تھی مگر وہ اولاد جیسی نعمت اور دولت سے محروم تھا۔ اس نے اولاد کی خاطر بڑے اور نامور ڈاکٹروں سے اپنی بیوی کا علاج کروا رہا تھا۔ جس پر لاکھوں روپئے پانی کی طرح بہا دئیے۔ اس کے علاوہ درگاہوں کے چکر بھی کاٹنا شروع کر دیا مگر نتیجہ بےسود ثابت ہوا۔ کیونکہ تمام ڈاکٹروں نے صاف کہہ دیا تھا کہ اس کی بیوی کبھی ماں نہیں بن سکےگی۔
ادھر شرما اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ نئے بنگلے میں خوش حال زندگی گذار رہا تھا۔ جب سے نئے بنگلے میں قدم رکھا اس کی کمائی میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ اضافہ کیا ہوس بڑھ گئی تھی جس کی بدولت تنخواہ کے علاوہ ہر دن ہزاروں کی رقم بغیر پسینہ بہائے مل جایا کرتی تھی۔ اس طرح اس کے یہاں دولت کی ریل پیل ہونے لگی۔ جس سے پارٹیوں میں اضافہ ہو گیا۔ دیر رات تک دوست و احباب کے ساتھ پارٹیوں میں رہنا اس کا معمول بن گیا۔ بیوی کے لئے عیش و عشرت کے تمام سامان گھر پر ہی مہیا تھے وہ ان سے دل بہلاتی ہوئی خوش رہنے لگی۔ وہ اگر کسی د ن جلد گھر آ جاتا تو بیوی اور بچوں کے ساتھ کسی ہوٹل میں چلاجاتا اور وہیں کھا پی کر خوشی خوشی گھر لوٹ آتا تھا۔ مارکیٹ میں جو بھی نئی چیز آتی اس پر شرما کی نہ صرف نظر پڑتی بلکہ اس کے تمام ساتھیوں میں سب سے پہلے اس کے گھر میں آ جاتی تھی۔ یہاں تک کہ نئے ماڈل کی کار جو بھی مارکیٹ میں آتی، شرما اسے ضرور خریدتا تھا۔ بیوی کو بھی نئی نئی چیزوں کے علاوہ سونے چاندی کے زیورات خریدنے کا جنون تھا وہ ہمیشہ نئے طرز کے زیورات سے لدی پھرنے کی قائل تھی۔ کپڑوں کی حد سے زیادہ شوقین تھی۔
ادھر احمد صاحب اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کی وجہ سے نہایت پریشان تھے انہیں کئی بار خیال ہوا کہ کیوں نہ دوسروں کی طرح میں بھی۔ مگر ہر مرتبہ اللہ اور اس کے رسول کا ڈرپیدا ہو جاتا تھا۔ ادھر عرشیہ بیگم چند دنوں سے گذر معاش کی تنگی کی وجہ سے خفا خفا سی رہنے لگیں اور کئی مرتبہ تو بات ایمانداری کی دہائی دیتے ہوئے طعنہ کشی اور لعن طعن تک پہنچی۔ مگر احمد صاحب کی دیانت داری میں رتی بھر لغزش نہیں آنے پائی۔
ایک دن علی الصبح ناشتہ کے بعد احمد صاحب حسب معمول دفتر کے لئے نکل رہے تھے۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی، اٹھا کر دیکھا تو وہ حکیم کا فون تھا۔ اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں سلام کرتے ہوئے فوراً کہا۔ بہت بری خبر ہے صاحب۔ احمد صاحب نے پوچھا۔ کیا بات ہے ؟صاحب ابھی ابھی پتہ چلا ہے کہ شرما کے گھر میں سی۔ بی۔ آئی۔ والوں نے چھاپہ مار دیا ہے۔ سنا ہے کہ شرما بہت گھبرایا ہوا ہے میں وہاں جا رہا ہوں ا گر ہو سکے تو آپ بھی۔ یہ کہتے ہوئے اس نے فون رکھ دیا۔ احمد صاحب نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے اپنے بیٹے کو ٹی۔ وی آن کرنے کے لئے کہا۔ ٹی۔ وی۔ کے ایک نیوز چینل پر راست ٹیلی کاسٹ ہو رہا تھا شرما کا گھر، لاکھوں کی نقدرقم، زیورات کے علاوہ بیش قیمتی اشیاء دکھائی جا رہی تھیں۔ افسران فہرست تیار کر رہے تھے۔ شرماکیمرہ و سے منہ چھپائے بنیان اور ایک دھوتی میں ملبوس ایک کرسی پر بیٹھا گہری سوچ اور فکرمیں مبتلا تھا اور اس کی بیوی ایک کونے میں فرش پر بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔ احمد صاحب نے اپنی بیوی کو آواز دی۔ وہ اس وقت رسوئی میں تھیں ساری کے پلو سے ماتھا پونچھتے ہوئے باہر آئیں۔ احمد صاحب نے نہایت افسردہ اور نرم لہجے میں اپنی بیوی سے صرف یہ کہا۔ وہ دیکھو شرما کا بنگلہ۔۔۔ ٹی۔ وی۔ پردکھایا جا رہا ہے۔
عرشیہ بیگم نے کہا۔ اللہ اللہ! شرما کا بنگلہ۔۔۔ ٹی۔ وی پر کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ احمد صاحب نیپوچھا۔ یہ نہیں پوچھو گی کہ آج اسے ٹی۔ وی۔ پر کیوں دکھایا جا رہا ہے۔ کیوں کیا بات ہے۔۔۔ اتنی صبح صبح۔۔۔ ایسے گھر تو شام کے وقت کسی خصوصی پروگرام میں یا کسی سیریل میں دکھائے جاتے ہیں اور آج تو کوئی خاص دن بھی نہیں ہے۔۔۔ اور ہاں۔۔۔ وہ سب لوگ کون ہیں اور وہاں کیا ہو رہا ہے؟
احمد صاحب محوِ حیرت سے اپنی بیوی کا منہ تکتے ہوئے ان کی معصومیت اور کم علمی پر افسوس کرتے ہوئے کہنے لگے۔ اجی بیگم! وہاں کوئی تماشہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ وہ سی۔ بی۔ آئی محکمہ کے لوگ ہیں جنہوں نے شرما کا گھر ضبط کر لیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.