نصیبوں والیاں
کہانی کی کہانی
یہ ددی بائی طوائف کی داستان ہے، جس کی نگرانی میں بہت سی لڑکیاں رہتی ہیں جو اپنی کمائی ددی بائی کے پاس جمع کرتی رہتی ہیں۔ ایک دن آفت ناگہانی ددی بائی کی موت ہو جاتی ہے اور اسکی تجوری کی چابی اس علاقے کے داروغہ کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ تجوری جب کھولی جاتی ہے تو اس میں چند روپوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں برآمد ہوتا ہے۔
صحت کے سلسلے میں بہت سوں کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔۔۔ کچھ کے نہیں بھی ہوتے۔ ممند ریاض کا یہ تھا کہ سویرے جلدی اٹھنے والا بندہ تھا۔ روز وہ میونسپل پارک میں شبنم سے بھیگی گھاس پہ ننگے پاؤں ٹہل ضرور لگاتا تھا۔ کہتا تھا اس سے آنکھوں کی ’’روشنیائی‘‘ بہتر ہوتی ہے۔ خبر نہیں اس بہتر روشنی کو وہ گاہکوں کو پہچاننے، ان پہ کڑی نظر رکھنے کے لیے استعمال کرتا تھا یا اس کا مقصد اتنا سادہ اور روزمرہ جیسا نہیں، کوئی باقاعدہ گہرا وجودی مقصد تھا ممند ریاض کا۔
جو بھی ہو۔
ممند ریاض شبنم پہ ٹہل لگا کے اپنے ٹھکانے پہ پہنچنے کے لیے ددّی بائی کے چوبارے کی سایہ سایہ نکل رہا تھا کہ اس نے رونے کی آوازیں سنیں۔
رات میں کسی وقت سوتے میں مَگھیانے والی ددی بائی گزر گئی تھی۔
ممند ریاض نے بات سنی، سمجھی، پھر بعد میں موقعے موقعے سے کہنے کو ذہن میں ایک اچھا سا فقرہ بنا کے اسے اپنے اندر فائل کر لیا۔ وہ برادری والوں میں بیٹھے گا تو ددّی کو اچھے لفظوں سے یاد کرتے ہوے یہ ضرور کہےگا کہ دیکھو جی، اَرام سے گجر گئی ددّی جی۔ ناں نزعے کا آلم ہوا نہ جان کندنی ہوئی، اَرام سے سونتے سونتے گجر گئی۔ ہاہہ۔۔۔! نیک روحوں نے ایسے ہی چلے جانا ہوتا ہے۔ مالک سبھوں کی شرم رکھے۔۔۔ آال لے۔۔۔! اوول لے۔۔۔! یہ آخری آواز ممّند ریاض کی ڈکاروں کی تھی۔
پیٹ خالی ہو یا بھرا، وہ اونچی آواز میں بولتا ہو یا کچھ سوچ رہا ہو، ممّند ریاض ہر لمبے فقرے، ہر لمبی سوچ کے آخر میں آال لے! اوول لے! کر کے نقلی ڈکاریں ضرور لیتا تھا۔
خیر۔ وہ رونے کی آوازیں سن کے ٹھٹھکا۔ ددی بائی کا فلیٹ لڑکیوں کا گھر تھا۔ کوئی مرد ذات بڑا بوڑھا تھا نہیں۔ پڑوس کی نیلم بائی اور اس کے گماشتے، اسی ڈکاروں والے ممّند ریاض، نے فوراً آ کے چارج سنبھال لیا۔ دروغوں، پہلوانوں کو خبر کر دی گئی۔ کسی نے جا کے تھانے میں بھی بتا دیا۔ ضابطے کی پابندی نہیں تھی، ایسے ہی پڑوس پچھواڑے کی مروّت ہو گی کہ بھئی ہو سکتا ہے پیٹی اتار کے کروشیے کی ٹوپی سر پہ مَڑھ کے فاتحہ کے دو لفظ پڑھنے ہیڈ کانسٹبل میاں گل بھی پہنچ جائے۔ ددّی بائی کی اس کی برسوں کی آشنائی تھی۔
ان فلیٹوں چوباروں کا مالک حاجی قاسم نورو تھوڑی دور پہ اپنی دکان میں بیٹھا پرانے کپڑوں کی گانٹھوں کا حساب کر رہا تھا۔۔۔ جو وہ ہر وقت کرتا رہتا تھا۔
اس نے ایک دور دراز طمانیت کے احساس سے یہ خبر سنی اور اپنی چندیا کھجائی۔ ’’اب جب کہ ددی بائی مر گئی ہے تو یہ فلیٹ اس کے چنگل سے سمجھو آجاد ہے۔ تو اب اس کا بھی کچھ کریں گے انشا الله۔‘‘
مگر وہ دین دار اور عملی آدمی بھی تھا۔ اس فلیٹ میں ایک میّت پڑی تھی اور فلیٹ خالی کرانے سے پہلے میّت کو اس کے سفر پر روانہ کرانا ضروری تھا۔ اس نے خبر دینے والے سے کہا، ’’دیکھو بھائی جان! ادھر جو کوئی بھی ہووے اس کو میرا بولو کہ کاسم نورو سیٹھ میت گاڑی کا اَنے گسل والی کا سبی اِنتی جام کر دیں گا۔ ابی پھون کرتاؤں۔ تم لوگ کسی کو اُدھر میوے شا بھِجا کے بس گورکند کو بول دیو۔ کیا؟‘‘
گوجرے والی خدمتی میت گاڑی کے اٹنگے پیچامے اور گِجگِجائی ہوئی گھنی ڈاڑھی والے جوان والنٹیئر کو بتا دیا گیا کہ کس بلڈنگ سے کنجری کی میّت اٹھانے کی ہے۔ اسی نے غسال بڑھیا کو رکشے میں بٹھا کے مکرانی پاڑے سے بلڈنگ تک لانا تھا۔ قاسم نورو نے رکشا کے پیسے دیے تھے اور بھی پیسے دیتے ہوے والنٹئیر سے کہا تھا، ’’اَبا ثواب کا کام ہوئیں گا۔ یہ روکھڑا سمبال، گسل والی کو کپڑا کاپھور دے دلا کے برابر سیٹ کر دے۔ فلیٹ دکھا دے۔ کیا؟ پیچھے چھوٹا میت گاڑی لے کے پونچ جانا۔ چھوڑ آنا ددی بچاری کو۔‘‘
حاجی قاسم نورو نے چھوٹی میت گاڑی کا اس لیے کہا تھا کہ اسے معلوم تھا گنتی کے چھ آٹھ دروغے، پہلوان، کسبیوں کے بھائی بند ساتھ جائیں گے۔ باقی تو بلڈنگ میں عورتیں ہی عورتیں ہیں۔ انھیں قبرستان تو نہیں جانا ہوگا۔ چھوٹی گاڑی صحیح رہےگی۔ ’’اس کا پھیئر بھی کمتی لگیں گا۔ کیا؟‘‘
جب گاڑی بلڈنگ سے چلی تو کالے ڈوپٹے اوڑھے، گھر کے ملگجے کپڑوں میں ملبوس کوٹھے والیاں اور پچھواڑے کی کم حیثیت پاڑے والیاں رو رو کے بَین کرنے لگیں کہ ہائے ری ددی بائی تو کیوں چلی گئی اور کچھ دیر کو دن کے سوختے میں بھی بڑی سڑک اور ساتھ کی گلیاں اور گلیارے آدمیوں اور آوازوں سے ایسے بھر گئے جیسے چراغ جلے پہ بھر جاتے ہوں گے۔
میت گاڑی بھی ٹھنساٹھنس بھر گئی تھی۔ کچھ لوگ کھڑے تھے اور دو چار لٹک بھی رہے تھے۔ اندر سیٹ پہ خیالی ڈکاریں لینے والے ممّند ریاض کے برابر بیٹھی ایک عورت یا لڑکی۔۔۔ بے بی نگی نا۔۔۔ روئے جاتی تھی۔ دوسری عورتوں کے برخلاف اس کا ڈوپٹہ زعفرانی رنگ کا تھا۔ تو کیا ہوا؟ آدمی کو واقعی دکھ ہو تو زعفرانی رنگ بھی ماتمی بن جاتا ہے۔ پر وہ جس کا نام بے بی نگی نا تھا، خبر نہیں کیوں رو رہی تھی؟ حالاں کہ کسی کی ایسی کوئی رشتے ناتے دار بھی نہیں تھی۔
میت گاڑی کے گھنی ڈاڑھی والے والنٹیئر نے گاڑی میں بیٹھی اس اکیلی بائی جی کو دیکھا تو دل میں کہا، ’’لاحول ولا۔۔۔ ان لوگ کو یہ کھبر نئیں کہ عورت کا کبرستان میں جانا مکروہ۔۔۔ یا کیا ہے۔ لاحول ولا۔۔۔ کوئی دین دھرم تو اِن کنجروں کا۔۔۔ خیر جی ہم کون۔۔۔ بھئی ہمیں کیا۔‘‘
ایک مردہ اور ایک زندہ بائی جی کو لیے، بہت سے دلالوں، سازندوں، تماش بینوں اور ایک پولیس والے کے ساتھ، اس نے میوے شا کی سڑک پکڑ لی۔
ددی بائی مگھیانے والی کے بغیر فلیٹ ایسا ہو گیا جیسے کسی دیہاتی فلیگ اسٹیشن پر مسافروں کا چھپرا۔ لڑکیاں تین روز تک چھلکوں، ردّی کاغذوں، ٹوٹے ہوے کوزوں کی طرح رُلتی، ٹھوکروں میں لڑھکتی چیزیں بنی رہیں۔ بہت لوگ آئے، بیٹھے، ددی بائی کو یاد کیا اور افسوس کی شکل بنائے چلے گئے۔
آنے والوں میں دندناتی ہوئی آنے والی ایک ہوا تھی۔ وہ اپنے ساتھ بے چینی اور خوف اور دھول مٹی لائی۔ اس دھول مٹی اور خوف نے چیزوں کو ڈھک لیا۔ لڑکیوں کو معلوم تھا کہ دھول مٹی سے ڈھک دیا جانا دفن ہونا ہے۔
وہ کسی کے ساتھ دفن ہونا نہیں چاہتی تھیں۔
ددی کے گزر جانے کے چوتھے دن کام والا لڑکا فلیٹ میں آیا تو اس کا منھ سوجا ہوا تھا۔ لڑکیوں میں ایک۔۔۔ جمیلہ۔۔۔ غسل خانے سے ہاتھ منھ دھو کر نکل رہی تھی۔ اس نے لڑکے کو دیکھا، حیران ہو کے بولی، ’’ابے او! تیرے منھ کو کیا ہو گیا؟‘‘
لڑکے کا جی چاہا جمیلہ کی بات کا کوئی جواب نہ دے۔ مگر وہ رکی کھڑی تھی، اس نے منھ بنا کے اوں ہوں جیسا کچھ کہہ دیا۔
وہ بولی، ’’کیا قوں قوں کرتا ہے مرغی کے؟ ابے بتاتا نہیں کیا ہوا؟‘‘
لڑکا جھنجھلا کے بولا، ’’شید کی مَخی نے کاٹ لیا نا۔‘‘
جمیلہ نے دانت نکال دیے۔ ’’اوئے سالے مِٹھڑے دلدار! شہد کی مکھی بھی کاٹتی ہے تیرے کو؟‘‘
ایک اور لڑکی نے اس نا وقت مسخرے پن پہ منھ بنایا۔ تیسری، جو باہر جانے کی تیاری کر رہی تھی، مسکرانے لگی۔ کوئی ایک، جو پردے کے پیچھے سب سن رہی تھی، کھی کھی کر کے ہنس دی۔
فلیٹ چل پڑا۔
جس کا جی چاہا کام کاج میں لڑکے کا ہاتھ بٹانے لگی۔
لڑکے نے ددی بائی کے طریق پر گھر چلانا شروع کر دیا۔ مگر گھر چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور پیسا سب ددی بائی کے ہاتھ میں رہتا تھا۔ لڑکیوں کی رقمیں، گہنے پاتے بھی سب وہی سنبھال کے رکھتی تھی۔۔۔ تجوری میں۔
اور تجوری کا ایسا تھا کہ برادری کے کہے پہ کفن دفن سے پہلے ہی اس کی چابی مینا دروغے کے پاس امانت رکھا دی گئی تھی۔ مینا سمیت سب کا کہنا تھا کہ تار دے دیا ہے، ددی کے بھائی بشیر کو آ لینے دو۔ تب ہی سب مل کے کوئی فیصلہ کریں گے اور تجوری کھولیں گے۔
مگر اب یہ مسئلہ بھی تھا کہ جب تک تجوری نہیں کھلتی روز کے خرچ کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ تین دن تک تو کھانے کا انتظام آپی آپ ہوتا رہا۔ کبھی نیلم بائی نے، ناجو نے اور سِیبے پہلوان نے، کبھی مینا دروغے نے یا کشمیری ہوٹل والے سیٹھ نے فلیٹ پر کھانا پہنچوا دیا۔ ٹھیک بھی تھا۔ موت میّت کے گھر میں چولھا کیسے جلتا؟
گلابو زنانہ، جو کبھی مہینے پندرہ دن میں تالی پھٹکارتا آ جایا کرتا تھا، ایک دن تو وہ بھی مسافرخانے والے ہوٹل سے آلو پڑی بریانی کی چھوٹی دیگ اٹھوا لایا۔ دو وقت وہ بریانی چل گئی۔ پر اب غمی کے کھانے آنا بند ہو گئے تھے۔ فلیٹ کو واپس اپنے روٹِین پہ آنا تھا۔
ایک لڑکی بالو کے پاس سو سوا سو روپے پڑے تھے۔ پڑے کیا تھے، چھپا رکھے تھے اس نے۔ جب دوپہر کے کھانے کی بات چلی تو اس نے سو کا نوٹ ادھار کے نام سے لڑکے کو پکڑا دیا۔ وہ قیمہ، سبزی، تیل، پیاز سب لے آیا۔
پیسے دیتے ہوے لڑکی بالو نے سوچا تھا کہ رانی، روزی، چمپا اور نگی نا کو بھی پیسے ڈھیلے کرنا چاہیے تھے اور یہ جمیلہ اب تک بچی کیوں بنی ہوئی ہے؟ اس کے پاس خود اپنے پیسے بھی تو ہوں گے۔
دن بھر میں کچھ نہیں کچھ نہیں تو بیس روپے کی تو صرف روٹیاں آئیں گی۔
پھر اس نے رانی کے بارے میں سوچا جو کسی کو بتائے بغیر سویرے ہی نکل گئی تھی۔ بالو نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نیچے سلیٹی رنگ کی اوپل رکارڈ میں بیٹھ رہی تھی رانی۔ ساتھ میں وہ تھا ڈکاروں والا بےغیرت ممند ریاض، چکن کا گلابی کرتا پہنے۔ شرم تو آتی نہیں ان بےپیروں کو۔ ددی جی کو گزرے ابھی چوتھا دن ہے کہ انھوں نے بڑھیا کے کوٹھے پر ہاتھ ڈال دیا۔ تھک ہے! ایک دو دن تو رک جاتے بےصبرے۔ پھر جیسی سب کی صلاح ہوتی۔ مگر ان بےغیرتوں کو کس بات کی شرم مروت۔
ایک بالو ہی کیا سب جھنجھلانے لگے تھے۔ چمپا نے ناشتے کے بعد تیار ہونا شروع کر دیا تھا۔ اس نے سب کے ساتھ مسکہ بن کھایا تھا، چاے پی تھی۔ کسی کو شک بھی نہیں تھا کہ اب یہ باہر جائےگی۔ کپڑے بدل کے اس نے جمیلہ سے آرینج کے کسی شیڈ کی لپ اسٹک مانگی، کیوں کہ یہ جوڑا اس کا آرینج کے شیڈ میں تھا۔ روزی بولی، ’’یہ تُو ددّی جی کو وزٹ کرنے میوے شا جا رہی ہوگی جو آرینج لپ اسٹک مانگتی ہے کتیا؟‘‘ اس پر گالیاں بکتی چمپا پنجے کھول کے جھپٹ پڑی۔ بالو نے کولی ڈال کے بڑی مشکل سے اسے الگ کیا۔ اونچی آواز میں گالیاں نکالتی چمپا فلیٹ کی سیڑھیاں اتر گئی۔
لڑکے نے سوچا، ’’لو جی۔ فلیٹ اب صئی سے چل پڑا۔‘‘
باورچی خانے کی پیڑھی پر بیٹھ کے سبزی کاٹتے ہوے لڑکی بالو اس کڑوے پن کا حساب کرنے لگی جو ددی کی موت کے چوتھے دن دھیرے دھیرے فلیٹ میں ریلیز ہو رہا تھا۔
دن ڈوبنے سے پہلے ایک بڑے بھاری ٹرانسپورٹر کا بیٹا ٹمّی، جو ہر دوسرے تیسرے دن آیا کرتا تھا، ددّی جی کی موت کے احترام میں وِسکی لگائے بغیر خاموشی سے فلیٹ میں آیا اور سر جھکا کے بیٹھ گیا۔ وہ ددی جی کی یاد کو ایک طرح کا خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ٹی شرٹ جینز کی بجائے آج کڑھے ہوے گلے کا کرتا اور چوڑی دار پاجامہ پہن کے آیا تھا۔ کرتا سچی بوسکی کا اور پاجامہ پانچ پھلی مارکہ لٹّھے کا تھا۔ بھاری ٹرانسپورٹر کے بیٹے ٹمی نے آج اپنی چابی والے سونے کی زنجیر بھی نہیں گھمائی تھی، جیسی کہ اُس کی عادت تھی، بلکہ وہ مصنوعی، احمقانہ اُداسی میں پہلے دس پانچ منٹ خاموش بیٹھا، پھر اپنے چھوٹے چھوٹے جاہلانہ فقروں میں دھیرے دھیرے سمجھانے لگا کہ زندگی کا یہی ہے۔ پھر اُس نے اِس بات پر زور دیا کہ لڑکی روزی کو اور سب کو اپنا دل بہلانے کی ضرورت ہے۔ آخر میں وہ روزی کو اس پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ کھلی ہوا میں ذرا نکلے، ایسی بند گھٹی ہوئی جگہ میں مستقل بیٹھی رہی تو خدا نہ کرے بیمار پڑ جائے گی۔ روزی نے بالوں میں جھپاجھپ کنگھا پھرایا، پھر وہ گرے کلر کی ریشمی شال لپیٹ کے ہوا میں آہستہ سے بولی، ’’جمیلہ! میں ابھی آتی ہوں، پریشان نہ ہونا‘‘ اور بھاری ٹرانسپورٹر کے بیٹے ٹمّی کے ساتھ فلیٹ کی سیڑھیاں اتر گئی۔
بالو نے اندر ہی اندر دانت پیستے ہوے ٹمی کو کھلی مردانہ گالیوں سے یاد کیا مگر پھر اس نے سوچا کہ وہ سب سے اس طرح کیوں بھڑے جا رہی ہے۔ اس نے کون سا ددی کی یاد کا اور غمی ماتمی کا یا فلیٹ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ تایا بشیر آ جائے، ددی نے اُس کا جتنا جو تجوری میں سنبھال کے رکھا ہے، لےگی اور نکل جائےگی۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ، ملک خدا تنگ تو نہیں ہے۔
بالو اٹھی، لڑکے سے کہہ کے باہر چلی گئی کہ وہ ناجو کی بیٹھک سے ابھی ہو کے آتی ہے۔ لڑکے نے بالو کو جواب میں سر ہلا کے ’’ہاں‘‘ کہا اور لاؤنج میں بچھی چوکی کے پاس آ کھڑا ہوا۔ چوکی پر بے بی نگی نا جیسے سناٹے میں بیٹھی تھی۔ آنسوؤں نے بہہ بہہ کے اس کے گالوں پہ لکیریں سی بنا دی تھیں۔
ددی جی کے گزرنے کے بعد وہ اب نگی نا بے بی کو روتے ہوے دیکھ رہا تھا۔ لڑکا خاموشی سے چوکی پر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنا کالا اور محنت کے کام سے کٹا پھٹا بدصورت ہاتھ نگی نا بے بی کے شانے پہ رکھ دیا۔
’’رونا نئیں چیے!‘‘ اس نے کہا اور خود بھی رونا شروع کر دیا۔
اگلے دن ابھی سب سو ہی رہے تھے کہ دو ٹیکسیوں میں بشیر دروغا کا سامان، وہ خود، اس کی شاگردیں اور نوکر پہنچ گئے۔
لڑکیوں نے بشیر دروغے کو تایا کہنا سیکھا تھا۔ کیا کرتیں۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے، خوب گھٹ کے ٹنڈ کرائے ہوے سوا چھ فٹ کے اس چمکتے ہوے کالے آدمی کو، جو کسی کا چچا تایا کچھ بھی نہیں لگتا تھا، لڑکیاں اس وقت بھی تایا کہتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔
دروغا اونچی آواز میں بات کرنے کا عادی تھا، ٹیکسی والوں سے جھگڑتے اسے مَخما دُولا کے تنور تک سنا جا سکتا تھا۔ جب تک ایک ایک صندوق اور ڈبا، ایک ایک شاگرد اوپر نہ پہنچا دی گئی دروغا اپنا ریشمی تہبند کولھوں تک سمیٹے، نوکروں کو اور ساتھ آئی لڑکیوں کو اونچی آواز میں ہدایتیں اور دھمکیاں دیتا رہا کہ اوئے گرانا نئیں، توڑنا نئیں! میں مار کے سٹ دیاں گا۔
دروغے کے شور شرابے کے دوران سڑک کے بائیں رُخ کی پرانی بلڈنگ کے پہلے مالے پہ ایک کھڑکی کھلی، کھڑکی سے مہندی لگا ایک سر برآمد ہوا۔ سر والے نے آواز لگائی، ’’ہاں دروغا! آ گیا بئی؟‘‘ بشیر دروغے نے اپنا شور شرابا روک کے مہندی سر والے کو دیکھا، ٹھٹھا مار کے جواب دیا، ’’ہاں بئی مینا دروغا۔۔۔! آ گئے۔‘‘ یہ کہتے ہوے اس کے لہجے میں بڑی مسرت تھی۔
مینا نے جواب میں کہا، ’’بسم الله او بسم الله!‘‘ اور سر اندر کر لیا۔
بشیر نے رخ بدل کے اسی پہلے والے زور شور سے نوکروں اور شاگردوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔
بعد میں فلیٹ میں ایک ہی قدم جو رکھا تو بشیر پر جیسے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس کا قد چھ فٹ کا رہ گیا اور آواز کو جیسے سیندور لگ گیا۔ فلیٹ کے دروازے پر اسے جمیلہ کھڑی مل گئی تو اس نے اس کے سر پہ اپنا بھاری سیاہ پنجا رکھا اور کم زور آواز میں بین کرنا شروع کر دیا کہ ’’آپاں جی کیوں چلی گئی۔ اب اس مصوم کا کیا ہوگا؟‘‘
بالو دروازے کی اوٹ میں آ کھڑی ہوئی تھی۔ اس نے رانی کی طرف دیکھ کے آہستہ سے فقرہ لگایا، ’’ہو گا کیا! تایا بھینسا آ گیا ہے، پھر نتھ اتروائی کرائےگا دھوم سے۔‘‘
دروغے سے رانی ملا کے رکھنا چاہتی تھی۔ اس نے بالو کو گھور کے دیکھا اور ڈوپٹہ سر پہ لے کر غم میں ڈوبے ہوے دروغے کو آداب کیا، ہاتھ تھام کے اسے چوکی تک پہنچایا۔
دروغے نے شفقت ظاہر کرتے ہوے بالو کے سر پر بھی ہاتھ رکھا، بولا، ’’جیتی رہ بچّی جیتی رہ۔ او تم سب نکی نکی چڑیوں نے کیسے جھیلا ہوگا یہ غم کا پہاڑ۔۔۔؟ ہائے؟‘‘
سب چوکی کے سامنے آ گئی تھیں۔ لڑکی روزی کو آتے دیر ہو گئی۔ تائے نے دیکھا کہ ایک رہ گئی تھی وہ اب آ رہی ہے۔ اس نے کندھے پر پڑا تولیہ منھ پہ ڈال لیا۔ تولیے میں سے بولا، ’’روزیے! او پتر! اوئے کیا کریں؟ کدر جائیں؟ کیا کریں نی؟‘‘
بالو نے رانی کے کان میں کہا، ’’موج بہاراں!‘‘ اور بالکنی کی طرف نکل گئی۔
بشیرے نے اب کام والے لڑکے کو دیکھا، ’’توں کون ہے بئی؟‘‘
رانی نے بتایا کہ یہ کام والا لڑکا رفیق ہے۔ ددّی جی اس سے بڑا لاڈ کرتی تھیں۔
بھینسے نے لڑکے کو چمکارا، اپنے پاس بُلایا۔ وہ نئی جگہ پہنچ کر اپنے ہم نوا بنانے کی اہمیت سمجھتا تھا۔ کہنے لگا، ’’جو آپاں جی کا لاڈلا وہ اپنا لاڈلا۔ کیا نام بتایا تھا پتّر؟‘‘
’’رفیق۔‘‘
’’اچھا تو رفیک پتر! بزار سے سودا سلف توں لاتا ہے؟‘‘
’’ہاں صاب۔‘‘
’’ہووں۔‘‘ دروغے نے پرخیال انداز میں اپنے کرتے کے نیچے پہنے شلوکے کی جیبیں ٹٹولنی شروع کیں۔ سو کا ایک نوٹ نکالا، لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوے بولا، ’’لے پتر! یہ سنبھال۔ یہ نوٹ ہے سوں کا۔ گھر میں اس وکت بندے ہیں چھ تے چھ باراں اور ایک توں۔ بئی جا، تیراں بن لے کے آ۔ فٹافٹ۔۔۔ کاغذ کی تھیلی میں ملتے ہیں وہ موٹے والے بن اور بئی ایک۔۔۔ ناں ڈیڑھ سیر لے کے آ دئیں۔۔۔ جا ہاں، لے آ۔۔۔ پھر جھپٹ کے ناشتہ کر لیاں گے۔‘‘
لڑکا ’’اچھا صاب!‘‘ کہہ کے برتن لانے کچن کی طرف جاتا تھا کہ دروغا نے پوچھا، ’’او کیوں بئی کاکے! کنی ایک دکاناں ہون گی ادھر ددھ دئیں کی؟‘‘
لڑکا بولا، ’’پتا نہیں تین چار دیخی ہیں میں نے۔‘‘
اس جواب سے دروغے کی تشفی نہیں ہوئی تو وہ بڑبڑانے لگا کہ بھئی شہر کے دودھ دہی پہ اعتبار کوئی نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ بھاویں شہر کوئی بھی ہو۔ پھر بولا کہ چل پتر، میں دیکھوں کیسا دودھ دہی دیتے ہیں کیا کرتے ہیں ادھر کے دکان دار!
لڑکا دہی کے لیے برتن اور بنوں کے لیے تھیلی لے کے چلا تو دروغا بھی جوتیاں پہن کے ساتھ ہو لیا۔
باہر آیا تو وہ بڑی سڑک پر لڑکے کے پیچھے کچھ دور چلا۔ لڑکے نے اسے اشارے سے دودھ دہی کی دکانیں دکھا دیں۔ دروغے نے پسندیدگی میں سر ہلایا۔ پھر اچانک یاد آ گیا کہ اسے نہانے کا صابن لینا ہے۔ وہ بولا، ’’لے بئی پتر دکانیں تو ٹھیک ہی ہیں۔ تو دئیں لے، بن لے۔ میں ادھر سے صابن پکڑ لوں۔۔۔ چنگا؟‘‘
لڑکا دہی لینے چلا اور دروغا تیزی سے قدم بڑھا کے سڑک پار کر گیا۔ پہلے اس نے ادھر ادھر، پھر ددی کی بالکنی پر نظر ڈالی۔ بالکنی خالی تھی۔ اس طرف لڑکا بھی کہیں نہیں تھا۔ دروغا تیزی سے اس پرانی بلڈنگ میں داخل ہو گیا جس کے پہلے مالے کی کھڑکی سے مینے نے اپنا لال سر نکال کے اسے بسم الله کہی تھی۔ بشیر دروغا مینا کی بیٹھک پر زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ رکا ہوگا۔ پرانی بلڈنگ سے نکلتے ہوے اس نے پھر دائیں بائیں دیکھا اور سڑک پر آ گیا۔ سڑک پار کرتے ہوے اس نے دودھ دہی کی دکانوں کی طرف تاکا۔ لڑکا اب بھی سامنے نہیں تھا۔ دروغا فلیٹ کی طرف چلنے لگا تو اسے لڑکا دکھائی دیا۔ وہ انتظار کرنے لگا۔ یہ صحیح ہے! دروغا بشیر نے اطمینان میں سر ہلایا۔ وہ دونوں ساتھ نکلے تھے، ساتھ لوٹ رہے ہیں۔
ناشتے سے پہلے دروغے نے تولیہ اٹھا غسل خانے کی راہ لی۔ اسے یاد تھا کہ اس نے لڑکے سے صابن خریدنے کی بات کہی تھی تو اب اس نے اسے اور سب کو سنا کے کہا کہ بھئی یہ بازار بھی خوب ہے۔ ادھر کام کی چیز بھاویں ناں نہ ہو، فیشن کی چیزاں بہت نظر آتی ہیں۔ ’’او پتّر بالو! جے کوئی لال صابن، کوئی سنلیٹ پڑا ہووے تو دے دئیں۔ شاباش!‘‘
نہانے کے بعد بشیر دروغا کالے بدن پر لمبا تولیہ لپیٹے غسل خانے سے نکلا اور اپنے کسی نوکر جیوے کو زور زور سے پکارتا ددّی کے کمرے میں گھس گیا۔ اندر پہنچ کے بھی وہ برابر آوازیں دیتا رہا، ’’او لا اوئے جیوے! میرے کپڑے لکال دے۔‘‘
جیوا تیز تیز چلتا ہوا آیا۔ کچھ دیر دروغے کے اندر پڑے ٹرنکوں، سوٹ کیسوں میں کھڑبڑ کرتا رہا، کمرے سے باہر آ گیا، کہ بشیر دروغا کی آواز سنائی دی، ’’بُوہا بند کر کے جائیں اوئے۔۔۔ میں کپڑے پانا آں!‘‘ جیوا دروازہ بند کر گیا۔
ددّی کی لڑکیاں اور تایا بشیر کی شاگردیں پلاسٹک بچھا کے پلیٹوں میں چمچے بھر بھر کے دہی ڈالنے اور کاغذ کی تھیلیاں پھاڑ پھاڑ کے فروٹ بن نکالنے لگیں۔
دروغا کسی بھی طرف سے موسیقی کا رسیا نہیں لگتا تھا مگر اس وقت وہ ددی کے کمرے میں رکھا بڑا ریڈیو خوب زور شور سے بجا رہا تھا۔
دیر ہو گئی، بشیر دروغا کپڑے بدل کے نہیں آیا تو لڑکے نے ددّی والے کمرے کا دروازہ بجایا۔ ’’استاد چاء بناؤں؟ کہ بعد میں چائے پیوگے؟‘‘
اندر سے دروغے کی جھنجھلائی ہوئی سی آواز آئی، ’’نئیں اوئے چا شا کوئی نئیں۔ بس دَئیں لکال لے۔۔۔ میں آیا۔‘‘
اور کوئی پانچ سات منٹ بعد کتھئی رنگ کے کڑھے ہوے کرتے اور بوسکی کلر کے تہبند میں عطر میں بھبھکتا ہوا بشیر تایا کمرہ کھول کے، ’’آؤ بئی آ جاؤ بسم الله‘‘ کہتا ہوا نکلا اور پلاسٹک کے دسترخوان پر اس نے اپنی جگہ سنبھالی۔
ناشتے پہ لڑکیاں بالکل خاموش رہیں۔ ہاں دروغا فروٹ بنوں کی تعریف کرتا اور میل محبت اور آپس کے بھائی چارے کے فضائل بیان کرتا رہا اور چَپ چَپ کر کے منھ چلاتا رہا۔ دہی کے بارے میں اس کی رائے محفوظ تھی۔ دکانیں تو بڑی شو شا والی تھیں پر کہنے لگا کہ ایسی دکانوں پر دہی کیسی ہونی چاہیے، یہ سمجھنے میں کچھ ٹائم تو لگےگا ہی۔
ناشتے کے بعد دروغا خلال کرتا، ڈکار لیتا بالکنی تک ہی پہنچا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ چھوٹا موٹا ایک جلوس فلیٹ میں داخل ہونے کو زینے پر کھڑا تھا۔ مینا دروغا، ناجو بائی، نیلم لدھیانے والی اور دوسری بائیاں، ممّند ریاض اور اس جیسی دو تین شکلیں، کشمیری ہوٹل والا اور فینسی حمام اینڈ ہیئر کٹنگ سیلون کا مالک نواز دین اندر آ گئے۔
اتنے بہت سے لوگ، یہ سارے پڑوسی اور برادری کے سربرآوردہ افراد، ددّی کی موت پر اس کے غم زدہ بھائی بشیر کو پرسا دینے آئے تھے۔
دروغے نے لڑکیوں کو اشارہ کیا۔ مجرے کا کمرہ۔۔۔ روزی روزگار کی جگہ۔۔۔ ایسے سوگوار اجتماع کے لیے مناسب تو نہ تھی، مگر کیا ہو سکتا تھا۔ مُجرے والا ہال کھول دیا گیا۔ وہاں لڑکیوں نے ہال کے آئینوں پر میلی ملگجی چادریں، کمبل ٹانگ دیے تھے اور بروکیڈ کے غلاف کھینچ کے ننگے سوگوار تکیے بے ترتیبی سے اِدھر اُدھر ڈال دیے تھے۔ دروغا نے پسندیدگی میں سر ہلایا۔ اجلی چاندنی پر سب آنے والے بیٹھ گئے۔ انھوں نے دونوں دروغوں، بشیر اور مہندی سر والے مینا کو اصرار کر کے صدر میں بڑے گاؤ تکیے کے ساتھ بٹھایا تھا۔ حالاں کہ بشیرا اور مینے دونوں انکسار سے کام لیتے ہوے ہاتھ جوڑتے اور اصرار کرنے والوں کے پیروں کی طرف ہاتھ بڑھا کر اپنی عاجزی ظاہر کرتے تھے۔ پھر بھی وہ اس ایک ہی تکیے سے ٹیک لگا کے ایک دوسرے سے بھِڑ کے بیٹھ گئے اور آپس میں اس آخری ملاقات کو یاد کرنے لگے جب ’’آپاں، الله بخشے زندی تھی۔‘‘
مینا دروغا بولا، ’’یار بشیر بھائی! آپ دبل گئے، اب ڈیڑھ برس پیچھے دیکھتا ہوں آپ کو تو بہت ہی کچھ فرَق لگتا ہے۔‘‘
بشیر بولا کہ ’’ٹیم سبھی کو خراب کرتا ہے دروغا۔ میں جو ابھی فٹ پئیری پہ کھڑا سامان سمیٹتا تھا اور آپ نے اپنی کھڑکی سے جھانک کے سلام دعا کی تھی تو سچی بات ہے فوری میں تو می نا بھائی! مَیں آپ کو پچھان نئیں پایا۔‘‘
مینا کہنے لگا، ’’کیسے بھلا؟‘‘
بشیر مینے کی طرف گھوما، یعنی اپنی گینڈا گردن کے ساتھ جتنا بھی گھوم سکتا تھا اور بولا، ’’بئی یہ لال سر تو کبھی نئیں دیکھا تھا آپ کا۔‘‘
مینا مروت میں ہاہا کر کے تھوڑا ہنسا۔ ’’کیا کریں بھائی بشیر! ہم تو اب بوڑھی گھوڑیوں میں گنے جانے لگے۔۔۔ تو بس، لگام کو تو پھر لال رنگنا ہی رنگنا تھا۔ ہاہاہا!‘‘
حمام والا نواز دین اپنی دکان پہ گاہک چھوڑ کے آیا تھا، اس نے دروغوں کی وقت گزاری بات چیت بیچ سے اچک لی۔ بولا، ’’بڑا افسوس ہوا جی ددی بائی کے فوت ہونے کا سن کے۔ الله مغفرت کرے۔ میں اس روز دکان پہ نہیں آیا تھا ورنہ جاتا مٹی دینے۔‘‘
نواز دین نے پہل کی تو سب آنے والوں نے فرداً فرداً بشیر دروغے کو ددی کا پرسا دیا۔ سڑک کی عورتوں نے جو سر ڈھکتے ہوے اپنے ڈوپٹوں کو کانوں کے پیچھے اتنا اڑس کے آئی تھیں کہ پیشانیوں کا بھی کچھ حصہ ڈھک گیا تھا، ہلکی آواز میں تھوڑا رو کر دکھایا، پھر چپ ہو گئیں۔ پرسا دیتے ہوے پڑوسی اور سب برادری والے بڑے فکرمند اور نیک دکھائی دینے لگے اور پرسا لیتے ہوے دروغا بشیر ایسا مظلوم اور ستایا ہوا بن گیا جیسے موت اسی کو ستانے کے لیے ایجاد کی گئی ہے۔ اس کا قد اَور بھی تین انچ گھٹ گیا اور آواز میں پھر سیندور بیٹھ گیا۔
پرسے کا سلسلہ ختم ہوا تو مینا دروغے نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور ددّی والی لڑکیوں کے عمومی جتھے کی طرف دیکھ کر کہا، ’’بھئی برادری کے لوگوں اور پڑوسیوں پنچوں نے میرے پہ ذمہ واری ڈالی تھی تجوری کی چابی کی، تو میں نے یہ بول دیا تھا کہ اصل تو دروغا بشیر نے ہی سب دیکھنا بھالنا ہے۔۔۔ تو جی میں نے ادھر تار دلوایا دیا تھا بشیر بھائی کو اور وختی طور پر۔۔۔ سمجھو جب ہی تک اصل وارث نہیں آوے۔۔۔ یہ چابی اپنے پاس رکھ چھوڑی تھی۔ اگر نہیں رکھتا تو دس طرحے کے جھگڑے ٹنٹے ہوتے۔ ادھر ددی جی کے پاس امانتیں بھی رکھی ہیں۔۔۔ اور بھی سب کچھ ہے۔ اس لیے بھیا! چابی سمبال کے میں جو ادھر سے گیا تھا تو فلیٹ کی طرف اب آیا ہوں۔ میں نے اپنے کو بولا تھا کہ مینے باشا، بہتری تیری اسی میں ہے کہ ابھی جب تک ددی کا اصل وارث نہیں آ جاوے تو فلیٹ کی سیڑھی مت چڑھنا، کس لیے کہ تیرے پاس تجوری کی چابی ہے۔ کدھر سے کوئی الزام بہتان نہیں بن جاوے۔۔۔ تو اب سب برادری والوں، پڑوسیوں کی ساکشی میں۔۔۔ بھیا! یہ لو۔۔۔ میں نے ذمہ واری اپنی پوری کر دی۔۔۔ لو بھئی سمبالو ددی جی کی چابی۔‘‘
مینا نے بشیرے کی طرف چابی بڑھائی۔ اس نے چابی کو ہاتھ نہ لگایا۔ وہ آنکھیں پَٹپَٹانے لگا، مانو اب رونے ہی والا ہے۔ مینا دروغے نے شانے پہ اس کے ہاتھ رکھ دیا۔ بولا، ’’یہ سَمَج لے بشیر چودھری کہ دنیا کا دستور یہی ہے۔ اب یہ پگ تیرے سر پہ آئی ہے۔‘‘
فلیٹ والیوں کے ہجوم میں کھڑی جمیلہ نے سب کی طرف دیکھا، جھک کے روزی کے کان میں کہا، ’’ددّی جی پگ تو نہیں باندھتی تھی!‘‘
روزی نے اسے سرگوشی میں جھڑکا، ’’بکواس نہیں کر۔‘‘
اس وقت تک بشیر دروغا سب کے بےحد اصرار پر ددی جی کی چابی سنبھال چکا تھا۔ تقریر کی باری اب اس کی تھی۔ مگر وہ دیکھ رہا تھا کہ حمام کا پروپرائٹر نواز دین بے چین ہے، جانا چاہتا ہے۔ اس نے سوچا نواز دین کو فارغ کر دوں۔ بولا، ’’بھائی نواز دین! آپ نے بڑی شفکت، بڑی بھائی بندی وخائی جو آپ آ گئے۔‘‘
’’بھائی بندی‘‘ کے لفظ پر نواز دین کا منھ بن گیا۔ وہ خدا سے چاہتا تھا کہ کسی اور بازار میں ٹھیک سی جگہ مل جائے تو وہ اس کنجر پاڑے سے دکان سمیٹ کے بس چلا جائے۔ مگر خیر، کیوں کہ بھائی کہتے ہوے دروغے کی نیت نیک تھی اس لیے اس نے خود کو تسلی دی اور نیم قد اٹھ کے ہاتھ بڑھا دیے۔ ’’اب اجازت دو دروغا! دکان پر گاہک چھوڑ کے آیا ہوں۔‘‘
کشمیری ہوٹل والے نے بھی ہاتھ بڑھا دیے۔ ’’میں بھی چلوں گا دروغے جی!‘‘
’’بسم الله۔۔۔ خیر ہووے۔‘‘ کشمیری ہوٹل والا اور نواز دین چلے گئے تو لڑکے نے ان کے پیچھے فلیٹ کا دروازہ بند کر دیا۔ اب صرف برادری کے عورت مرد رہ گئے تھے، سو بشیر نے آواز کو حلق میں ہی گھونٹ کے اس میں آنسوؤں کی ملاوٹ کی اور روتے ہوے سروں میں کہا کہ ربّ جانتا ہے آپاں جی کی چابیاں سنبھالنے کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ’’میں تو سمجھتا تھا کہ میری چابیاں۔۔۔ مطلب میری خبر سنیں گی آپاں جی کہ لئو بئی بشیر گجر گیا۔۔۔ خیر، تار بھیجا تھا بھائی مینا دروغے نے، میں چل پڑا۔ برادری کا حکم تھا، کیسے نئیں آتا۔ رب جانتا ہے مجھے نئیں پتا ادھر کرایہ بجلی پانی گیس۔۔۔ اس میں مجھے پورا بھی پڑےگا یا ان مَصُوموں کے ساتھ، جنھانوں ریل چڑھا کے لایا ہوں، بھک مرنا پئےگا۔ تو جو برادری کا حکم۔ پر ایک بات ابھی صاف کر دوں میں۔ سارے ای بھائی بند بیٹھے ہیں۔۔۔ بشیر بھوکوں مر جائےگا پر جو کچھ آپاں جی نے ادھر میل جول، گھر گرھستی، پیسا کوڑی بنایا ہے اس میں ایک ٹیڈی پیسے کا حق نئیں مانگے گا بشیر۔ یہ پکی بات ہے۔‘‘
جمیلہ نے کسی کو مخاطب کیے بغیر آہستہ سے خود سے کہا، ’’کیا بات ہے! یہ دروغا نہیں درویش ہے، او ہو ہو ہو۔‘‘
دروغے کی تقریر جاری تھی۔ وہ کہہ رہا تھا،
’’تھوڑا بہت جمع پونجی جو بھی ہے وہ ساتھ لے آیا ہوں۔ کس لیے کہ واپس نئیں جانا۔ اب تو اسی ٹھکانے پہ بچیوں کے لیے کام تلاش کرنا ہے اور بچیاں ددی جی کی یہ نئیں نہ سمجھیں کہ ہم ان کی روزی روٹی میں رب نہ کرے کوئی کھنڈت ڈالیں گے۔ ناں ناں بئی ناں۔ بشیر دروغے نے اپنی شَگِردوں کو سکھلایا ہے کہ پتّر دوجے لوک کے روٹی رزک پہ نجر نئیں ڈالنی۔ سب کو اپنی پشانی کا لکھا کمانے کھانے دو۔ جو جس کا اسی کو مبارک۔۔۔ جنا کچھ کام، جو کلا بشیر نے اپنی بچیوں کو سکھلائی ہے ان کے لیے وہ ہی بس ہے۔۔۔ مالک کے کرم سے۔‘‘
بشیر دروغے کی تقریر کا جو اثر برادری پہ پڑا ہو وہ برادری جانے، ددّی کی اکثر ’’بچیوں‘‘ نے اطمینان کا سانس لیا کہ دیکھنے میں تایا بشیر بھلے ہی ایسا درشنی نہ ہو پر ورتاوے میں ٹھیک ٹھاک لگتا ہے۔ ایسی کھری باتیں وہی کرتا ہے جس کے دل میں کھوٹ نہ ہو، اندر جس کے کوئی گھات لگائے نہ بیٹھا ہو۔ ددّی جی نے ان کا جو کچھ جمع جڑا سنبھال رکھا تھا یہ بھلامانس نیک نیتی سے دے چھوڑےگا۔۔۔ مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ کچھ لڑکیوں نے تو اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ تائے بشیر کی شاگردوں کو یہاں پاؤں جمانے میں مدد دیں گی۔ یہ بھلا آدمی اپنا ٹھیا ٹھکانا چھوڑ کے ادھر آیا ہے، صرف ہماری خاطر۔ ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں کہ اس کی شاگردوں کی تھوڑی بہت مدد بھی نہ کریں۔
اپنی تقریر ادھوری چھوڑ کے بشیر دروغا اب آپاں جی کی اور اپنی محبتوں کا کوئی قصہ سنا رہا تھا کہ آپاں جی اینج خیال رکھتی تھیں، اینج کرتی تھیں، کہ اس نے دیکھا لڑکیاں پہلو بدلنے لگی ہیں اور مہمانوں میں سے کوئی کوئی جماہیاں لیتا ہے۔ تو اس نے قصے لپیٹ لیے اور بولا، ’’میں اپنے حواسوں میں نئیں آں۔۔۔ ابھی ایک عرض برادری سے کرنا ہے کہ بئی دس منٹی کو ہور رک جاوو۔ میں تجوری کھول کے جس کسی کا جو وی ہے برادری کے سامنے حوالے کر دینا چاہنا۔‘‘ اس نے لڑکیوں سے پوچھا، ’’ہَیں نی بچّیو! یہ چابی تجوری کی ہے۔۔۔؟ ہاں بھلا؟‘‘
دو تین زنانی آوازوں نے جواب دیا، ’’ہاں جی۔۔۔ تجوری کی ہے۔‘‘
’’تو فیر آئیے۔۔۔ یہ کام بھی نمڑ جاوے۔۔۔ بی بی ناجو! نیلم بائی۔۔۔! توں ممند ریاض! مینا دروغے۔۔۔! آؤ جی۔۔۔ چلو۔۔۔ آ بیٹی بالو، نگی نا، چمپا بیٹے۔۔۔ لکل آؤ ادھر۔‘‘
بشیر دروغا اٹھا تو مینے دروغا نے بھی تکیہ چھوڑ دیا۔ مجرے والے ہال سے پوری برادری پنچایت کرتی ددی بائی کے کمرے میں آ گئی۔
بشیر دروغا، عطر میں بسا، نہایا دھویا، کالا پہاڑ سا، تجوری کے قریب پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ برادری کے اہم لوگ کمرے میں آ گئے ہیں تو اونچی آواز میں بسم الله کہہ کے اس نے چابی لگائی اور بڑی عقیدت سے، جیسے اپنی بخشش نجات کا کوئی فریضہ انجام دے رہا ہو، چابی گھمائی۔ پھر زور لگا کے تجوری کا ہینڈل گرایا اور لوہے کا بھاری پٹ کھول دیا۔
جیسی سب تجوریاں ہوتی ہیں اندر سے یہ تجوری بھی ویسی ہی تھی، غیر اہم سی۔ کیوں کہ اصل میں تو تجوری کا ڈراما اس کے باہر ہوتا ہے۔ اندر تو کاغذات یا اجلے میلے نوٹوں کی گڈیاں، کپڑے میں لپیٹے گئے زیورات، ان کے نئے پرانے ڈبے یا ایک آدھ کوئی فضول چیز پڑی ہوتی ہے جس کی مارکیٹ ویلیو صفر ہو۔۔۔ مثلاً کسی پیارے کے سر سے اتاری ہوئی بالوں کی لٹ، صندل کی ڈبیا میں رکھی کسی بہت عزیز، بہت پیاری جگہ کی مٹی۔۔۔
اس تجوری میں بھی ایسا ہی کچھ رکھا تھا۔ یہ ناٹک نو ٹنکی میں استعمال ہونے والا گتے اور پنی اور گوٹے کے ٹکڑوں سے بنا ملکہ کا تاج تھا، جو عام بازار میں ایک آنے کا بھی نہ بِکتا۔
بشیر دروغے نے تاج شاہی کو تجوری سے نکال ددی کے بستر پہ رکھ دیا۔ تاج کے نیچے پوسٹر تھے، لال پیلے نیلے رنگوں میں چھپے ہوے۔ کسی پرانی گراموفون کمپنی کا نشان تھا جس پر کالے دھبوں والا سفید ڈَب کھڑبا کتا بھونپو میں منھ دیے بیٹھا بڑے سکون سے کچھ سن رہا تھا۔
تجوری کے اندر کے خانے سے ایک تھیلی نکلی جس میں سکے بجتے تھے۔ کمرے کے لوگوں میں سنسنی دوڑ گئی، ہو نہ ہو اشرفیوں کی تھیلی ہے۔ تھیلی کو بستر پر الٹا گیا تو کھلا کہ جگہ جگہ کے تانبے اور چاندی کے سکے تھے، چاندی کے کم، تانبے کے زیادہ۔
تھیلی کے ساتھ کاغذوں میں لپٹے کچھ نوٹ ملے۔ تائے نے کاغذ الگ کیا تو دس دس کے نوٹوں کی ایک گڈی تھی، ایک سو سو کے نوٹوں کی۔ بہت ہوے تو پندرہ نوٹ ہوں گے یا بیس۔ موٹے کپڑے کی ایک اور تھیلی بھی ملی جس میں چاندی کی پرانی جھانجریں، دیہاتی قسم کے بازو بند، پازیب اور بچھوے بھرے تھے۔۔۔ چاندی کے۔
اس کے سوا ددی کی تجوری میں کچھ نہیں تھا۔
بشیر دروغے نے تجوری کے سب خانے، پھاٹک، ڈھکن، پٹ سب بھاٹم بھاٹ کھول دیے تھے۔ پھر اپنا اطمینان کرنے اور کمرے کے عورتوں مردوں کی تسلی کے لیے اس نے اپنا کالا ہاتھ تجوری میں ہر طرف پھرایا۔ اندر جھانکتے ہوے اس نے اپنی موٹی سیاہ گردن اتنی جھکا دی کہ گردن کے پیچھے گوشت کے دو چھوٹے ٹائر سے بن گئے۔
تجوری میں نظریں اور ہاتھ پھرانے سے فارغ ہو کے بشیر دروغے نے نوشیرواں عادل کے سے انصاف اور کلبی کی سی بےنیازی سے دنیا کا سامنا کیا۔ سب کو اپنا تاریک چہرہ دکھاتے ہوے بولا، ’’لئو بئی یہ پیسے، زیور ہے سب۔ جس جس کا جنا ہے بتا دو تے چک لئو۔۔۔ ہاں۔۔۔ اٹھا لو۔‘‘
دروغے کی بھدی آواز کمرے میں موجود ہر مرد، ہر عورت نے سن لی، مگر اس آواز میں جو کچھ کہا گیا تھا لڑکیوں میں سے کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ نگی نا کے سوا وہ سبھی ذرا سا آگے جھک آئی تھیں تاکہ جو کچھ سننے، سمجھنے، دیکھنے سے رہ گیا ہے، وہ سن، سمجھ، دیکھ لیں۔ مگر دروغے بشیر نے پوری بات کہہ دی تھی۔ آگے سناٹا تھا۔
آخر دانہ چگتی چڑیا کی طرح آگے کو جھکی ہوئی بالو نے ضرورت سے زیادہ بلند آواز میں دروغے کو مخاطب کیا، حالاں کہ وہ اس کے قریب ہی کھڑی تھی۔ کہنے لگی، ’’تایا بشیر! آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔؟ بات سمج نئیں آئی۔‘‘
شاید بالو بھی دروغے کی لاڈلی جیسی ہوگی، اس نے بڑی شفقت سے کہا، ’’نِکی! میں یہ بولتا ہوں کہ بئی جس کا جنا وی ہووے، چک لئو۔ ایک دوجے کو پتا تو ہے نا کہ کنا کس کا ہے۔ تو فیر لے لو۔ سمبالو اپنی اپنی چیزاں۔‘‘
روزی ہجوم میں رستہ بناتی ہوئی دروغے بشیر تک پہنچ گئی تھی۔ اس کی آواز انتہائی تشویش میں دھیمی ہو گئی۔ ’’کون سی چیزیں؟ دروغا! ادھر کیا ہے؟ ادھر تو کوئی رقم، کوئی زیور نہیں دروغے جی! سمجھ نہیں آئی۔‘‘
دروغے کو روزی کی بات سے بڑا اچنبھا ہوا۔ یہ روزی کاکی کو کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟ کیا کہہ رئی ہے یہ میری بچی؟ اس نے بلند آواز میں کہا، ’’پتّر یہ رقم ہے، خبرے ڈیڑھ کہ دو ہزار سے زیادہ۔ پھر یہ بازو بند، پازیب، بچھوے، جھانجر۔۔۔ یہ سب ہے نا میری جان!‘‘
روزی کو صبر کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ چیخ کے بولی، ’’او یہ ہمارا نہیں ہے۔ اکیلے میرے ہی چار سیٹ ہیں۔۔۔ سونے کے۔۔۔ بھاری بھاری اور دس باراں ہزار سے زیادہ کی رقم ہے میری۔ سب لکھی ہے میرے پاس۔۔۔ کیا بات کرتے ہو دروغا۔۔۔! سنا۔۔۔؟ یہ نہیں ہے ہمارا۔‘‘
بشیر دروغے نے رسان سے ہاتھ اٹھاکر سب کو جیسے تسلی دی۔ مگر وہ بولا تو اس کے لہجے میں قیامت خیز سردی تھی۔ ’’ارام سے ارام سے، ارام سے بیٹا! توں کہتی ہے تیرا نئیں ہے، تو جس کا بھی ہے لے لو بئی اور توں شور نئیں کر۔ کھپ نئیں پا۔ دوسروں کو بھی سمجنے دے۔ اپنی بات ضرور سمجا۔۔۔ مگر ارام سے۔‘‘
روزی کے برابر رانی آ کھڑی ہوئی۔ دروغے کے چہرے کے آگے ہاتھ نچا کے اس نے چیختی آواز میں کہا، ’’او اَرام گیا تیل لینے، یہ ہوا کیا ہے؟ ہمارا سامان کدھر ہے اوئے۔۔۔؟ پیسے کہاں ہیں؟‘‘
’’پے سے۔۔۔؟ سمان؟‘‘ دروغا چیخا۔ ’’اوئے پے سے کا۔۔۔ سمان کا میرے سے کیوں پوچھتی ہے؟‘‘
خبر نہیں پانچ کہ چھ زنانی آوازوں نے قیامت کے تیہے میں سوال کیا، ’’تجھ سے نہیں تو کس سے پوچھیں؟‘‘
بھینسے نے بارہ دھونکنیوں کی پھنکار میں کہا، ’’ددی سے پوچھ، ددی سے!‘‘
سب سناٹے میں رہ گئے۔ ممّند ریاض نے سوچا، ’’افسوس! بھین کے پیٹھ پِیشے ایہو جی بکواس؟‘‘
چیختی ہوئی غوغائیاں ایسے چپ ہو گئی تھیں جیسے انھوں نے شاخ پر سرکتا ہوا سانپ دیکھ لیا ہو۔
ممند ریاض نے چھوٹی سی نقلی ڈکار لی۔ ’’آللے۔۔۔! لئوجی، تجوری خالی پئی ہے۔۔۔ تے ددّی وی ایدر کوئی نئیں۔ اوللے۔۔۔! پر ددّی نے وی، الله یانتا ہے، ایہوئی ٹھے ٹر کرنا سی!‘‘ پھر اس نے کچھ کڑوے پن، کچھ ہم دردی میں سوچا، ’’ساری یِندَگی اِناں گشتیوں، نصیباں والیوں نے اپنی وہ کرا کرا کے پے ہا کٹھا کیتا سی۔ تے ہن، لئوجی، تجوری خالی پئی ہے۔ بھاگاں والی، بل کل خالی۔۔۔ آال لے۔۔۔ اوول لے!‘‘
پے درپے جعلی ڈکاریں سن کے، اس ہاہاکار میں بھی، سب اسے گھور کے دیکھنے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.