نصیبوں جلی
اس نے غصے میں کچن سے متصل کمرے کا دروازہ زور سے بند کیا اور ہر طرف پاگلوں کی طرح مٹی کا تیل تلاش کرنے لگی جو اکثر اسی کمرے کی ایک طاق میں رکھا رہتا تھا۔ لیکن آج تیل کی شیشی شاید کسی نے وہاں سے اٹھا لی تھی۔ غصہ جنون کی طرح اس کے سر پر سوار تھا۔ آج بھائی نے اسے کسی بات پر خوب ڈانٹا تھا بہن نے طعنے دیے تھے اور ماں نے بھی برا بھلا کہا تھا۔ یہ سب سننا اور سہتے رہنا اس کا پیدائشی حق تھا جسے وہ اپنے ساتھ بدصورتی کی شکل میں بچپن سے لے کر آئی تھی۔ کبھی تنہائی میں ایسی لاچار و بے بس زندگی کے بارے میں سوچ کر اکثر اس کی آنکھیں بھیگ جایا کرتی تھیں۔
آج کسی بھی صورت میں اسے مر ہی جانا تھا۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ آج اس کی زندگی آخری سانس ضرور لے گی اور وہ کل کا سورج کبھی نہیں دیکھے گی۔ مٹی کا تیل نہ سہی میں چھری سے اپنی رگ تو کاٹ ہی سکتی ہوں، اُف یہ کتنا تکلیف دہ ہے۔ وہ دیوانگی میں ادھر ادھر بھاگ رہی تھی۔ موت اس کے سر پر ناچ رہی تھی۔ زندگی اور موت میں بس معمولی سا وقفہ بچا تھا۔ سانس کی لو کافی تیز ہو چکی تھی۔ دل کی دھڑکنیں اسے صاف سنائی دے رہی تھیں۔ اس نے سر کے بالوں کو نوچتے ہوئے سوچا مٹی کے تیل سے مرنے میں کتنی آسانی ہوتی؟ جیتے جی بھی تکلیف ہی اٹھاتی رہی؟ کاش کے میں آرام سے مر پاتی؟
دروازہ بند تو ہے نا؟ کہیں میں کنڈی چڑھانا تو نہیں بھول گئی؟ آوارہ خیالات کے طاغوتی جھونکے اب اس کے آس پاس منڈلا رہے تھے اور ابلیسی کھیل نے اسے پوری طرح اپنی گرفت میں جکڑ لیا تھا۔ سکون سے جی نہیں سکی تو کم از کم آرام سے مر تو لوں؟ کہیں کوئی مجھے بچانے تو نہیں آجائے گا؟ اس نے ایک لمحے کا توقف کیا۔ نہیں، مجھے بچانے کوئی نہیں آئے گا؟ لیکن اگر کوئی بیچ میں آ گیا تو؟ پھر نا تو میں مر پاوں گی نہ ہی جی پاوں گی؟ جب میں زندہ سہی سلامت کسی کے دل میں اپنی جگہ نہ بنا سکی تو ادھ جلی ہو کر روز جیوں گی اور روز ہی مروں گی؟
وہ ماں کے روز روز کے طعنے کون سنے گا؟ وہ باپ کا چڑچڑاپن جو میری شادی کی ڈھلتی عمر کو ہے کون دیکھے گا؟ کہاں سے میری جیسی بد قسمت کے لیے اتنا سارا جہیز کا سامان آئے گا؟ اس نے ایک لمحہ تامل کیا اور سوچا اس کی واحد وجہ وہ مفلسی ہے جس نے اس کے گھر میں ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ آخر اس میں میرے باپ اور بھائی کی بھی کیا غلطی ہے؟ ماں اور بہن کا بھی قصور نہیں؟ یقیناً میری بدصورتی ہی ہر چیز کی ذمے دار ہے؟ اتنی سی دیر میں ماضی کے لاتعداد طلسماتی ہجوم نے اس کے ارد گرد ہالہ بنا لیا تھا اور وہ دیوار سے ٹیک لگائے زاروقطار روئے جا رہی تھی۔
رضیہ تو ہم سے بھی زیادہ سانولی اور بھونڈی لڑکی تھی؟ لیکن اس کا باپ امیر تھا؟ اسے یاد آیا وہ اپنی سہیلی کی شادی میں گئی تھی۔ جہیز سے پورا گھر اٹا پڑا تھا۔ اف! کہتے ہوئے اس کی سانسیں ایک لمحے کو رک سی گئیں۔ نہیں اب نہیں؟ وہ چھوٹی بہن کا مجھ سے روز روز کا لڑنا جھگڑنا اب نہیں دیکھا جاتا؟ میری وجہ سے اس کی شادی جو رکی ہوئی ہے؟ میں اس کے راستے کا روڑا کبھی نہیں بنوں گی؟ میں سماج کی ساری دیواروں کو آج مسمار کر دوں گی اور لازماً آگ و خون کی ہولی کھیلوں گی؟ وہ بھائی کا مجھے دیکھتے ہی غصے سے سرخ ہو جانا ماں باپ کا لال پیلا ہونا بہن کا تیور بدلنا مجھ سے اب یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔
اف اللہ! میرا لڑکی ہونا اور بد صورت ہونا اتنی پریشانی کا سبب بنے گا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ آخر میں نے اپنے آپ کو خود تو نہیں بنایا؟ میں خود تو پیدا نہیں ہو گئی؟ میرا خالق ہی میرا معمار ہے۔ وہی اپنی مخلوق کا نگراں ہے۔ وہ میرا محسن ہے۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ میں جنت میں سب سے حسین عورت بنوں گی۔ جسے سب پسند کریں گے۔ سبھی اسے نظریں بھر کر دیکھیں گے۔ سب اس سے پیار کریں گے۔ میں اللہ کے پاس پہنچ کر سب کی شکایت کروں گی جو مجھے ناپسند کرتے تھے جو مجھے طعنے دیتے تھے جو مجھے بات بات پر برا بھلا کہتے تھے۔ میں اپنے رب کو وقت سے پہلے مر جانے کا سبب بھی بتاوں گی شاید کہ وہ مجھے معاف کر دے؟
خیالات کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا جو بجلی کی تیز رفتاری کے ساتھ اس کے دل و دماغ میں عکس کی مانند ابھر رہا تھا اور پانی کے بلبلے کی طرح ٹوٹ رہا تھا۔ میں آج ساری حدیں پار کر دوں گی یہ سوچتے ہی اس کے ہاتھ چھری کی جانب بڑھے لیکن اگلے ہی لمحہ مٹی کے تیل سے بھری ایک بوتل اسے کونے میں پڑی دکھ گئی اور اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ اس نے چھری کو ایک طرف پھینکا چہرے پر بہتے آنسوؤں کو برہمی سے پوچھتے ہوئے سوچنے لگی لوگ جینے کی خاطر خوش ہوتے ہیں؟ ہائے میری کم نصیبی میں مرنے کی خاطر آج کتنا خوش ہوں؟ آخری مسکراہٹ اس کے سانولے چہرے پر پھیل گئی تھی۔ یہ سوچتے ہی اس کی خوشی دوبالا ہوگئی۔ اس نے جھٹ تیل کی شیشی اٹھا لی اور اپنے کپڑے پر انڈیلنا شروع کر دیا۔ شیطانی خیالات نے اب اسے پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔ ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے سوراخ سے سورج کی مدھم روشنی اندر آ رہی تھی۔ کمرے میں ہر سمت اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ وحشت اب اس کے سر پر ناچ رہی تھی۔ زندگی موت سے منھ چرا رہی تھی۔ دماغ نے سوچنا بند کر دیا تھا اور ذہن پوری طرح مفلوج ہو چکا تھا۔
وہ جلدی جلدی بار بار ماچس کی ڈبیا سے تیلی نکال کر جلانے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن ماچس آج جلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ صبر کا دامن ہاتھوں سے چھوٹتا جا رہا تھا کہ اچانک اسے ماں کا ایک قول یاد آیا جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے ہر کام تسلی سے کیا کر تبھی اس کے منھ سے نکلا۔ ماں تیرے منھ سے نکلی ہوئی وہ بات جو تو کبھی ہم نربھاگی کو انجانے میں بول جایا کرتی تھی آج میرے بہت کام آنے والی ہے یہ سوچتے ہوئے اس نے قدرے اطمینان سے تیلی کو ماچس کی ڈبیا سے رگڑ دیا۔
ایک تیز روشنی نمودار ہوئی بجلی کے کوندنے کی مانند۔ اس نے آنکھیں بند کر لی۔ اس کے ہاتھ لرز رہے تھے انگلیاں کانپ رہی تھیں جسم میں توانائی برائے نام باقی تھی۔ وہ جلنے سے پہلے ہی آدھی مر چکی تھی۔ اعصاب مضمحل ہو گئے تھے۔ دل بیٹھ چکا تھا اب دماغ پر موت کا غلبہ تھا لیکن جیتے جی مر جانے کے عزم و ارادے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ آہ اے دنیا! الوداع اے زندگی! کہتے ہوئے اس نے جلتی ہوئی ماچس کی تیلی پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی اور دفعتاً ہی اسے دوپٹے سے لگا دیا۔ اس کی سرخ آنکھوں سے اس کے بوسیدہ دامن پر آنسوؤں کے چند قطرے گرے اور آگ کی لو پھڑپھڑا کر تیز ہو گئی۔
وہ جلتی رہی تڑپتی رہی چیختی رہی چلاتی رہی روتی رہی بلکتی رہی آہ و زاری کرتی رہی۔ وہ ماں باپ بھائی بہن کو آواز لگاتی رہی پکارتی رہی دھاڑیں مارتی رہی لیکن کوئی نہیں آیا۔ اب ہر طرف دھوآں تھا آگ کی تیز لو تھی جلنے کی بو تھی ماتم کا سماں تھا اور اس کے وجود سے پاک ایک ویران گھر تھا۔ اس کا ادھ جلا ننگا جسم نڈھال ہو کر فرش پر گر پڑا۔ آج اس نے مر کر سب کی خواہش پوری کر دی تھی جو ہر دن کہتے تھے یہ نگوڑی کیا مرے گی، صرف ہمیں ڈراتی ہے، مرنا کوئی آسان کام ہے۔
گھر والے اوپر کی منزل پر آرام کر رہے تھے۔ ڈانٹ پھٹکار سن کر مرنے کی دھمکی دینا اس کا روز کا معمول ہے۔ طعنے سننا اب اس کی عادت سی بن گئی ہے۔ دھواں اوپر کو اٹھ کر پہلی منزل تک پہنچ چکا تھا۔ جلنے کی بو ہوا میں پھیل چکی تھی۔ دروازہ پیٹنے کی تیز آواز سن کر ماں روتی پیٹتی بھاگتی ہوئی بدحواشی کے عالم میں نیچے آئی۔ آگ کی لپٹیں دروازے سے باہر نکل رہی تھیں۔ کھڑکی کے چھید سے آنے والی سورج کی خفیف روشنی کو آج دھوئیں اور آگ نے مات دے دی تھی۔ دروازہ توڑا گیا کسی طرح آگ بجھائی گئی ماں نے بیٹی کا سر اپنے زانو پر رکھا بہن نے بانہوں کا سہارا دیا اور زاروقطار رونے لگی۔ آخر تو نے آج ایسا کر ہی دکھایا؟ ہم سوچتے تھے کہ تو بس ایسے ہی ہمیں ڈرایا کرتی ہے؟ آہ و زاری کی دل خراش آوازوں نے آج ساری حد بندیاں توڑ دی تھیں۔ چیخنے چلانے اور رونے کی آواز سن کر پڑوس کے لوگ بھی جمع ہو چکے تھے۔
زبان گنگ ہوتی جا رہی تھی۔ آنکھیں چھت کو لگ رہی تھیں۔ آتی جاتی چند سانسوں کی لڑیاں کبھی جڑ جاتی تو کبھی ٹوٹ جاتی تھیں۔ اس نے پاس کھڑے روتے بلکتے باپ اور بھائی کی جانب اور قریب بیٹھی ماں اور بہن کو دیکھتے ہوئے ہاتھوں کو اوپر اٹھایا مانو سب کو معافی دے کر الزام اپنے سر لے رہی ہو۔ آخری ہچکی کے ساتھ ٹوٹتے ہوئے الفاظ کو جوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اس کے منھ سے نکلا ماں میں مرنا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے تم سب کو بہت وقت دیا کہ کوئی مجھے آکر بچائے گا کوئی مجھے منا لے گا کوئی مجھے سمجھا دے گا۔ لیکن میرا وجود سب کے لیے اجیرن بن گیا تھا۔ تم سب کے لیے میری زندگی ایک بوجھ تھی اور میں نے آج یہ بوجھ تمہارے سر سے اتار دیا ہے۔ اب تو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے نا؟ مجھے افسوس ہے ماں کہ تو مجھے پیدا کر کے بھی میرا درد نا سمجھ سکی اور مجھے وہ پیار نہ دے سکی جو مجھے چاہیے تھا؟ لفظ بیٹھ رہے تھے گلا رندھ چکا تھا۔ آنکھیں کبھی بند ہوتیں کبھی کھل جاتی تھیں۔ اس نے ماں کے چہرے کو ٹٹولتے ہوئے کہا ماں میں تجھے اور سب کو معاف کرتی ہوں یہ کہتے ہی سانسوں کی نالیاں منجمد ہو گئیں۔ آنکھوں کے پپوٹے بیٹھ گئے اور دل کی دھڑکنیں خاموش ہو گئیں۔ اس کے کانپتے ہونٹھوں سے بمشکل چند الفاظ ادا ہوئے جسے کوئی نہ سمجھ سکا اور زندگی جس کی امانت تھی اس کے سپرد کردی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.