Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نوکری

رحمان مذنب

نوکری

رحمان مذنب

MORE BYرحمان مذنب

    گاڑی پلیٹ فارم پر آ کر رکی۔ اختر بو سیدہ قمیض اور پا جا مہ پہنے گاڑی سے نیچے اترا۔ اگر بھوت کوئی ڈراؤنی شے ہے تو اختر کا حلیہ ضرور اسی قسم کا تھا۔ بہ مشکل کسی نے اس کی خستہ حالی کا احساس کیا ہوگا۔ بڑی دیر کے بعد جب، بھیڑ کم ہوئی تو ایک بوڑھا قلی کچھ سمجھ کر اس کے پاس آیا۔

    ’’قلی چاہئے قلی؟‘‘

    اس نے نظر اٹھائی۔ بوڑھا قلی ڈھیلی پگڑی سنبھال رہا تھا۔

    ’’نہیں۔ میں خود قلی ہوں۔‘‘

    بوڑھا قلی ہنس کر چل دیا اور پھر اختر کو کسی قلی نے نہ پوچھا۔ اختر نے مختصر بستر اور صندوق اٹھایا اور پل کی طرف بڑھا۔

    مسافر خانے میں آکر اس نے بستر اور صندوق رکھا۔ وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ کہاں جائے۔ جنگ کا زمانہ اور پھر دلی جیسا شہر۔ اجنبی کے لئے پریشانی ہی پریشانی تھی۔ ارد گرد ہوٹل کے ایجنٹ گھوم رہے تھے۔ ان کی آوازیں اس کے کانوں میں آئیں۔

    ’’اچھا کام واجب دام، پورا آرام۔‘‘

    ’’کھانا نفیس اور سستا۔ رہنے سہنے کی ہر سہولت موجود ہے۔‘‘

    ’’تفریح کا پورا انتظام ہے۔‘‘

    اختر کا جی چاہا کہ ایسے ہوٹل میں ۲، ۴ دن گزارے لیکن اس کی جیب میں فالتو دام نہ تھے۔ پھر ابھی اسے نوکری کی تلاش تھی۔ اس نے دل کی اس تیز دھڑکن کو فراموش کر دیا جس نے اس کے دماغ میں سنسنی پیدا کی۔ اس نے ایجنٹ کو دیکھا اور پھر دوسری بیڑی نکال کر پینے لگ گیا۔ اسٹیشن کا مسافر خانہ ایسی جگہ نہیں کہ اس سے گھر یا ہوٹل کا کام لیا جائے۔ لیکن اختر کے لئے گھریا ہوٹل کہاں سے آئیں؟ اسے تو اس وقت تقریباً مفت کی جگہ درکار تھی۔

    اختر نے صندوق پر ٹک کر ادھر ادھر دیکھا، ایک لڑکا جس کی عمر ۱۳ سال کی ہوگی، قریب سے گزرا۔ وضع قطع سے آوارہ پن ٹپکتا تھا۔ اس نے لڑکے کو روکا۔

    ’’دوست! ذرا بات سننا!‘‘

    ’’کہئے! کیا بات ہے؟‘‘

    ’’یہاں ٹھہرنے کا کوئی سستا ٹھکانا ہے۔‘‘

    ’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘

    ’’لو بیڑی پیو!‘‘

    اختر نے برسبیل تو اضع بیڑی پیش کرنا چاہی لیکن لڑکے نے کینڈر کی ڈبیا آگے بڑھا دی۔

    ’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

    ’’میں؟ پہلے یہ بتاؤ۔ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’میرا نام حبیب ہے۔‘‘

    ’’ خوب۔ دوست یہ مت پوچھو کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ یہ دلی ہے۔ میرے ارمانوں کا دل۔ میں یہاں بڑے بڑے ارادے لے کر آیا ہوں۔‘‘

    ’’بڑی اچھی بات ہے۔‘‘

    ’’ذرا کوئی سستا ٹھکانا بتاؤ کہ وہاں جاکر دم لوں۔‘‘

    یہاں کئی ایک ٹھکانے ہیں۔ ایک تو یہ بالکل نزدیک ہے۔ پرانی سرائے ہے جو مدت سے بے آباد تھی اور یہاں اکا دکا مسافر ٹھہرتے تھے لیکن جنگ کی وجہ سے مکانوں کی قلت اور ہوٹلوں کی گرانی دیکھ کر اکثر لوگ یہیں آ جاتے ہیں۔ ۴۔ ۵ آنے روز میں چارپائی مل جاتی ہے۔‘‘

    ’’یہ تو نہایت مناسب ہے۔ ہوٹل کے ۲، ۴ روپے روز خرچ کون اٹھائے؟ بس۔ یہ سرائے ٹھیک ہے۔ مجھے چھوڑ آؤ۔‘‘

    اختر حبیب کے ہمراہ مسافر خانے سے باہر آ گیا۔ تھوڑی دور جاکر پرانی اور ٹوٹی پھوٹی دوکانوں کی قطار میں گلی آئی، جس کے دہانے پر سرخ روغنی بورڈ آویزاں تھا۔ اس پر انگریزی میں لکھا تھا، ’’آگے جانا منع ہے۔‘‘ یہ ہدایت فوجیوں کے لئے تھی۔ بورڈ کو سرسری طور سے دیکھا اور وہ رکے بغیر حبیب کے پیچھے ہو لیا۔ ۴، ۵ آدمی دورویہ چارپائیوں پر لیٹے اور بیٹھے تھے۔ یہ سب کے سب سرائے والے تھے۔ اس سرائے کے دو حصے تھے۔ ان دونوں حصوں کے الگ الگ مالک تھے۔

    اختر کو مسافر انہ حالت میں دیکھتے ہی انہوں نے اسے پھانسنے کی فکر کی۔

    ’’میاں! ادھر آؤ۔ چارپائی اور ٹھنڈا پانی ملے گا۔ دام بھی کم ہوں گے۔‘‘

    ’’میاں میرے یہاں غسل خانہ سے نہانے کا آرام ہوگا۔ ۵ آنے روز میں چارپائی ملے گی۔ اور زمین پر لیٹو تو صرف دو آنے کرایہ ہوگا۔‘‘

    ’’میاں! ادھر آؤ میرے ساتھ، ۳ آنے روز میں چارپائی دوں گا۔‘‘

    بوڑھے سرائے والے نے حقے کی نڑی الگ کی۔ وہ چارپائی سے اٹھا اور اختر کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے گیا۔ حبیب ساتھ ساتھ گیا۔ اندر کی جانب بہت کھلا میدان تھا، جس کے ایک طرف پیپل کا گھنا درخت تھا۔ چھاؤں میں ۵، ۶ گھوڑے اور اتنے ہی تانگے کھڑے تھے۔ لید، پیشاب اور بکھرے ہوئے گھاس سے تھان بڑے گندے اور بد بو دار ہو رہے تھے۔ سڑانڈ کے مارے دماغ پھٹا جاتا تھا۔ اختر نے جب یہ منظر دیکھا تو گھبرا کر رکا۔

    ’’میاں رکو نہیں۔ میں تمہاری چارپائی پیپل کی چھاؤں میں ڈال دوں گا۔ بڑا آرام ملے گا۔‘‘

    ’’نہیں نہیں، یہاں بڑی بد بو ہے۔ مجھے تو کہیں الگ ہی رکھنا۔ میں تمہارے آرام سے باز آیا۔‘‘

    ’’خیر میاں، جہاں من چاہے لیٹو! تمہاری خوشی۔ خدا کے فضل سے جگہ کی کمی نہیں۔ ’’ اختر نے مجبوراً صبر سے کام لیا۔

    بوڑھا، اختر کو دالان میں لے گیا۔ دالان کے مغربی سروں پر چھوٹی چھوٹی چھ کوٹھریاں تھیں، باقی خالی حصے میں ستون تھے۔ دیوار یں پتی ہوئی تھیں۔ فرش کچا تھا۔ اختر کا یہیں ٹھکانہ تھا۔

    دالان میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور اس کی نوجوان لڑکی کھردرے بان سے چارپائیوں کے ڈھانچے بن رہی تھیں۔

    ’’بیٹا! میاں کو چارپائی نکال دو۔‘‘

    مہ رونے نطر اٹھا کر دیکھا۔ بوسیدہ کپڑوں میں میاں اور ان کے بازو میں ان کا کم سن ساتھی کھڑا تھا۔ مہ رونے دونوں کی ذات کو چنداں اہمیت نہ دی۔ اس نے اٹھ کر چارپائی پکڑانے کی زحمت گوارا نہ کی۔ بلکہ دیوار کے برابر لگی ہوئی چارپائیوں کی طرف اشارہ کر دیا۔

    ’’ان چارپائیوں میں سے چھانٹ کر ایک لے لو۔‘‘

    بوڑھے سرائے والے نے مہ روکا یہ سلوک پسند نہ کیا، ’’ارے بیٹی! میاں تھک رہے ہیں۔ اٹھ کر چارپائی بچھا دے۔‘‘

    مہ رو کو یہ بات ناگوار گزری۔

    ’’اے واہ بابا! چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔‘‘

    مہ رو جبراً اٹھی۔ اس نے چارپائی نکالی اور پھر اختر نے بڑھ کر سنبھال لی۔ مہ رو نے مزاحمت نہ کی۔ اختر نے مہ رو کی بے اعتنائی دیکھی لیکن اسے عمر کا تقاضا سمجھ کر چنداں محسوس نہ کیا۔

    اختر نے چارپائی ایک طرف ڈال لی۔ اس نے بیڑی بنڈل نکالا۔ ایک بیڑی خود لی اور ایک حبیب کے حوالے کی۔

    ’’آپ تھکے تھکے معلوم ہوتے ہیں۔ آرام کریں تو اچھا ہے۔ میں جاتا ہوں۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’اسٹیشن پر۔‘‘

    ’’وہاں کیا کرتے ہو؟‘‘

    ’’روز ۱۰' ۱۵ روپے کی کمائی کرتا ہوں۔‘‘

    ’’روز؟‘‘

    ’’جی ہاں!‘‘

    ’’تعجب ہے۔‘‘

    ’’جب سے جنگ چھڑی ہے، کمائی میں برکت آ گئی ہے۔‘‘

    ’’اچھا یہ بات ہے۔‘‘

    ’’اب لوگوں کی جیبیں بھرنے لگی ہیں۔ میرا کام بھری جیبیں خالی کرنا ہے۔‘‘ حبیب نے یہ بات دھیرے سے کہی۔

    ’’حبیب! مجھے صاف صاف بتاؤ۔ تم کیا کرتے ہو؟‘‘

    ’’کیا کرتا ہوں۔ جیبیں کترتا ہوں۔ جنگ نے میرے دھندے کو بڑی ترقی دی ہے۔ ۵۰، ۵۰ بھی ایک دن میں پار کیے ہیں۔‘‘

    ’’اوہ تم بہت برا کرتے ہو حبیب! تم جاؤ۔ تمہارا میرا ساتھ نہیں ہو سکے گا۔‘‘

    ’’غم نہیں۔ میں تو آپ کو سرائے چھوڑنے آیا تھا۔ بس میرا فرض ادا ہو گیا۔‘‘

    حبیب چلا گیا۔

    بیڑی سلگ سلگ کر ختم ہو گئی۔ اختر کو غنودگی نے گھیر لیا۔ اس کی آنکھ لگ گئی۔

    اختر کی آنکھ ۱ بجے لگی اور ۴ بجے کھلی۔ گرمی کا زور گھٹا۔ اس کی نیند پوری ہوئی۔ وہ آنکھیں ملتے ملتے اٹھا۔

    دالان میں مہ رو جھاڑو دے رہی تھی۔ ہولے ہولے کسی گرامو فون ریکارڈ کا کوئی گیت گنگنا رہی تھی۔ اختر نے اسے دیکھا۔ اس کا دل پسند گیت سنا لیکن ذہنی پریشانی نے اسے ان لطیف چیزوں سے متاثر ہونے کی مہلت نہ دی۔ مہ رو کے جھاڑو دینے سے دالان گردسے بھر گیا۔ اختر اٹھا اور دالان سے باہر آگیا۔ بوڑھا سرائے والا حقہ اٹھائے آیا۔

    ’’میاں، سو لئے؟‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    ’’اپنا سامان برابر کی کوٹھری میں رکھ لو۔ سب مسافروں کا سامان اسی میں رہتا ہے۔ میں رات دن دیکھ بھال کرتا ہوں۔‘‘

    ’’ذرا سستا لوں۔ پھر سامان رکھ دوں گا۔‘‘

    ’’ہاں، ہاں کوئی جلدی نہیں، جب جی میں آئے رکھ دینا۔‘‘

    بوڑھا حقہ گڑ گڑاتا چلا گیا، اختر کو پیاس لگی۔ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

    ’’جانے پانی کہاں ہے؟‘‘

    مہ رو نے سنا اور وہ خوش اخلاق کا ثبوت دئے بغیر نہ رہ سکی۔

    ’’ وہ کیا ہے۔۔۔ کوٹھری کے آگے۔ ٹھنڈے پانی کا گھڑا ادھر ہے۔‘‘

    اختر نے مہ رو کے اشارے پر پانی کی جستجو کی۔ دالان سے ملواں سامان والی کوٹھری کے ایک طرف کبوتروں کے کابک کے پاس گھڑونچی پر پرانا گھڑا رکھا تھا، جس کی بیرونی سطح پر کائی جمی تھی۔ سر پوش ندارد۔ اختر نے ڈونگا بھر کر نکالا۔ اس میں ۳، ۲ بڑے بڑے چیونٹے تیر رہے تھے، جو یقینا ًاور پر سے گرے تھے۔ اسے زور کی پیاس لگ رہی تھی۔ اس نے پانی نتھار کر چیونٹے گرا دیے۔ وہ ایک ڈونگا پی گیا۔

    مہ رو جھاڑو دے کر فارغ ہوئی۔ اس نے کوڑا اٹھا کرگڑھے میں پھینک دیا جہاں پہلے آستینیں اور دامن جھٹکے تھے۔ اختر نے اپنی غلاظت پر توجہ دی، جو جھٹکنے سے دور نہ ہو سکی تھی۔ وہ غسل کیا چاہتا تھا لیکن کہاں کرے۔

    ’’جانے نہانے کی جگہ کہاں ہے؟‘‘

    ’’ساتھ والی سرائے میں غسل خانہ ہے۔‘‘

    اختر کا مطلب پورا ہو گیا۔ مہ رو کوٹھے پر چلی گئی۔ اختر بچھونا کھول کر صابن، تولیہ اور کپڑوں کا جوڑا لے کر غسل خانے پر پہنچا ہی تھا کہ سرائے والے نے ٹوکا۔

    ’’میاں! پہلے اکنی ڈھیلی کرو۔ پھر غسل خانے میں جانا۔‘‘

    اختر نے جیب ٹٹولی۔ تھوڑے سے ٹوٹے دام پڑے تھے۔ اختر نے اکنی سرائے والے کے حوالے کی اور غسل خانے میں چلا گیا۔ دو منزلے سے گانے کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔ آواز اتنی صاف تھی کہ فراریت اور بے تعلقی کے با وجود اختر کی سمجھ میں بخوبی آگئی۔

    اختر نے مہ رو کی آواز پہچانی۔ مہ رو کے سوا وہاں گانے والا اور کون تھا؟ سرائے بھر میں وہی ایک کوئل تھی، جس کے گیتوں سے بھی کبھی کبھی ہلکی سی گونج فضا میں پیدا ہو جاتی۔

    وہ دلی میں بے کار اور بے سہارا تھا۔ اسے اپنی بے کلی کا علاج مطلوب تھا۔ جو ان اور سجیلا تھا مگر اسے یہ جاننے کی فرصت کہاں تھی۔ دو منزلے سے گانے کی آواز بدستور آتی رہی لیکن اختر کو اپنی بے کاری کے علاوہ کچھ نہ سوجھا۔ اس نے بے خیالی میں غسل کیا اور نیا جوڑا پہن کر باہر آیا۔ سامنے دالان کے قریب مہ رو کھڑی مسکرا رہی تھی۔ مہ رو بھی اجلے کپڑے پہن اور بن سنور کر نیچے آئی تھی لیکن اختر کے دل پر بجلی نہ گرا سکی۔ اختر نے اسے نیم تو جہی سے دیکھا اور اپنی چارپائی پر چلا گیا۔ اتنے میں بوڑھا سرائے والا آ گیا۔

    ’’میاں! آج کے دام۔۔۔ دے دو اور۔۔۔ سامان کوٹھری میں رکھ دو۔‘‘

    اختر نے ۳ اکنیاں نکال کر بوڑھے کے حوالے کیں اور دو پھیروں میں سامان اٹھا کر کوٹھری میں رکھا۔ مہ رو پھٹے پر بیٹھ کر تکیے کا غلاف کا ڑھنے لگی۔ اختر کو بھوک نے ستایا۔

    سرائے کے اندر چھپروالا تنور تھا۔ تازہ تازہ روٹیاں پک رہی تھیں۔ اختر کے لئے یہ تنور بر موقعہ تھا۔ اختر یہاں آیا۔

    ’’میاں! آ جاؤ۔ ہر چیز تازہ ہے۔ بیٹھو۔ یہ ادھر والا بور یہ صاف ہے۔‘‘

    اختر نے جائزہ لیا۔ بوریے کے ۵ بڑے بڑے ٹکڑے بچھے تھے۔ ۳، ۲ تو بالکل کنڈم تھے۔ باقی میں ایک قدرے نیا تھا۔ تنور والے کا لونڈا احکام کی تعمیل کے لئے حاضر تھا۔

    ’’میاں! کیا کھاؤ گے؟ ساگ، قیمہ جو کہو، دوں۔‘‘

    اختر نے سوچنے کی زحمت گوار نہ کی۔

    ’’کچھ بھی دے دو۔ آنتیں قل ہواللہ پڑھ رہی ہیں۔‘‘

    تنور والے نے چھابے میں سالن اور روٹیاں رکھیں۔ لڑکا جس نے پانی کا چھلکتا ہوا ڈونگا پہلے سے آکر رکھ دیا تھا، لپک کر چھابہ اختر کے پاس لے گیا۔

    پیٹ کا تنور بھرنے کے بعد اختر نے ارادہ کیا کہ ذرا شہر میں گھومے۔ جب وہ سرائے سے باہر جانے لگا تو مہ رو اٹھلاتی ہوئی اس کے پاس آگے سے نکل گئی۔

    در اصل اختر کی آمد سے لے کر اب تک ہر طرح مہ رو نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا اورتوقع کی کہ اختر اس کی غیر معمولی اہمیت تسلیم کرے۔ لیکن پریشان کن حالات نے اختر کو مہلت نہ دی کہ وہ مہ رو کی شوخیوں اور اداؤں کا تہہ دل سے مطالعہ کرے۔

    اختر نے جب دلی کے پلیٹ فارم پر قدم رکھا تو اس کے پلے ۱۲، ۱۰ روپلی سے زیادہ کی رقم نہ تھی۔ اسے ملازمت کی تلاش تھی۔ کامل ایک ہفتہ اسی دھنا سری میں گزر گیا۔ اس نے جون کے مہینے کی کڑی دھوپ میں میلوں سفر کیا، سینکڑوں دفتروں کی خاک چھانی لیکن واقفیت اور سفارش کے بغیر نوکری کب ملتی ہے؟ اعلی درجے کی نوکریاں بڑے لوگوں کے لئے مخصوص تھیں اور باقی نوکریاں سفارشیوں کو مل جاتیں۔ اختر کے پلے کیا پڑتا، جو نہ تو بڑے لوگوں کی فہرست میں شامل تھا اور نہ سفارشی امیدواروں میں۔ اس نے اپنی قابلیت کا سر پیٹا۔

    کتنے ہی مسافر آئے اور چلے گئے لیکن اختر ابھی تک سرائے میں مقیم تھا۔ اس کی دنیا لید، پیشاب، کوڑا، گھاس، بو، باسی تو اسی کھانا اور دماغی پریشانی سے عبارت تھی۔ مہ رو نے ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے اس کے جہنم کو بہشت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ مہ رو اسے اپنی جانب کھنچنے میں بہ تدریج کامیاب ہونے لگی۔ خاموشی کی جگہ نیم گوئی اور متانت کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی۔ اختر کے گریز کا قلعہ شکستہ ہوتا گیا۔

    ڈیڑھ ہفتہ اور گزر گیا۔ اب اختر اور مہ رو کے تعلقات بڑھ گئے۔ مہ رو کبھی کبھی چوری چھپواں، اختر کا رومال اور اس کی بنیان دھو اور سکھا کر لا دیتی۔ لیکن اس سب کے با وجود اختر کو معلوم تھا کہ وہ بے کار ہے۔ محبت کا کھیل فارغ البالی میں زیب دیتا ہے۔

    نوکری لینے کا غم اسے دیوانہ کرتا گیا۔ ایک رات اس کی گھبراہٹ بے اندازہ ہو گئی۔ رات گئے چارپائی پر لیٹا کروٹیں بدلتا رہا۔ پل بھر کے لیے اسے نیند نہ آئی۔ صبح دیر تلک سوتا رہا۔ مہ رو نے دو منزلے سے یہ منظر دیکھا برے چپ رہی۔ اختر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ آج اس کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی۔

    مہ رو کو اختر کی اس غیر معمولی گھبراہٹ سے کوفت ہوئی لیکن اس گھبراہٹ کا سبب نہ جان سکی۔ اختر دیر تک بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کر گلی میں آ گیا۔ مہ رو اسے باہر جاتا دیکھتے ہی جھٹ دبے پاؤں نیچے اتر آئی۔ اس نے اختر کو شانے سے پکڑ کر روک لیا۔

    ’’تمہیں کیا تکلیف ہے اختر؟‘‘

    اختر اپنی بدحواسی نہ چھپا سکا۔

    ’’جی گھبرا رہا ہے۔‘‘

    ’’تم اس وقت کہاں چلے ہو؟‘‘

    ’’نہ جانے میری گھبراہٹ مجھے کہاں لے جا رہی۔ میں باؤلا ہو چلا ہوں۔‘‘

    ’’یہ گھبراہٹ کس لئے ہے؟ تم عجیب ہو۔ میں نہیں سمجھتی تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

    ’’نوکری، میں کئی مہینے سے اس کے لئے سر گرداں پھر رہا ہوں، لیکن بے سود، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا دھندا دولت اور سفارش سے چلتا ہے۔ مہ رو! میں غریب ہوں۔ یہی میرا قصور ہے، جس کی سزا بھگت رہا ہوں۔‘‘

    مہ رو نے اختر کے بازوؤں کو اپنی پکڑ میں لے لیا۔

    ’’ اوہ، بس اتنی سی بات ہے؟ گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اپنے یہاں تمہیں منشی رکھوا لوں گی۔ مسافروں کا نشان پتہ لکھتے رہنا۔ رہنے کے لئے عمدہ سی کوٹھری ہوگی۔ ۲۵ روپلی تنخواہ ملیں گے اور کچھ رقم میں تمہیں چوری چھپواں دیا کروں گی۔ کام چل جائے گا۔ پھر تم چاہے بے فکر ہو کر نوکری ڈھونڈنا۔‘‘

    ’’مہ رو! تمہاری مہربانی۔ تم نے ڈھارس بندھا دی۔ سچ پوچھو تو میں بے حوصلہ بے یارو مدد گار تھا۔ تم نے مجھے سہارا دیا۔‘‘

    ’’ میں تمہارے سارے کام ٹھیک ٹھاک کر دوں گی۔ جانے میرے دل میں کیا کیا ہے۔ میں۔۔۔ تمہیں سب بتا دوں گی۔‘‘

    ’’تم اب کہاں جاؤ گے؟‘‘

    ’’کہیں بھی نہیں۔ میں ابھی واپس آتا ہوں ’’

    ’’تمہاری مرضی!‘‘

    مہ رو لوٹ گئی۔ اختر اس کی پشت پر ہاتھ رکھے ہوئے اسے پھاٹک کے اندر چھوڑ آیا اور پھر باہر آ گیا۔ گلی کے سرے پر وہ روغنی بورڈ ہنوز موجود تھا۔ جس پر یہ ہدایت لکھی تھی، ’’آگے جانا منع ہے۔‘‘ اختر کے لئے یہ ہدایت بے معنی تھی۔ اس نے اسے پڑھنے سے زیادہ اور کسی لائق نہ سمجھا۔ گلی سے باہر آ کر ایک بار پھر اختر کے سر پر نوکری کا بھوت سوار ہوا۔

    اس نے حبیب کو خونچے والے کے پاس کھڑے ہوئے پوریاں کھاتے دیکھا۔

    ’’حبیب!‘‘

    آواز سن کر حبیب نے گردن موڑی۔ اسے اختر کو دیکھ کر تعجب ہوا۔

    ’’حبیب! اگر پڑھے لکھوں کی مٹی پلید ہو سکتی ہے تو پھر ان پڑھوں کا اللہ بیلی ہے۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’کچھ بھی نہیں۔ حبیب! مجھے افسوس ہے کہ میں نے اس دن تمہارا دل دکھایا لیکن آج میں نے جان لیا کہ تم بے خطا ہو۔ آج سے میں تمہیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھوں گا۔‘‘

    ’’ بڑے بھائی! کہئے۔ میں آپ کی کیا خدمت کروں؟‘‘

    ’’تم مجھے اپنا ہنر سکھا دو۔ میں تمہارا شاگرد بننے آیا ہوں۔‘‘

    ’’شاگرد؟ یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘

    ’’حبیب! مجھ میں خود کشی کی ہمت نہیں۔ میں جینا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’بڑے بھائی! میں آپ کو ۱۰۰، ۵۰ روپیہ دے سکتا ہوں لیکن اپنا ذلیل پیشہ آپ کونہیں سکھا سکتا۔‘‘

    ’’اوہ! تم بھی مجھے اپاہج سمجھنے لگے۔‘‘

    ’’نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا۔ اگر آپ کو کام ہی کرنا ہے تو اس اشتہار کو دیکھئے۔‘‘

    اختر نے حبیب کے اشارے پر سیمینٹ کی دیوار پر نگاہ دوڑائی۔ دیوار سے لگے ہوئے لکڑی کے بڑے تختے پر فوجی جوان کی تصویر تھی۔ وہ بڑی شان سے مسکرا رہا تھا۔ لکھا تھا،

    ’’اچھی تنخواہ

    اچھی خوراک

    اچھی پوشاک

    فوج میں بھرتی ہو جاؤ۔ آپ کی تکلیفیں جاتی رہیں گی۔‘‘

    اختر نے دماغ پر زور دیا اور حبیب سے بیڑی لے کر سلگائی۔

    ’’فوج میں بھرتی ہو جاؤں؟‘‘

    ’’ہوں!‘‘

    ’’شاید بھلائی کی راہ نکل آئے۔‘‘

    ’’ضرور نکلے گی۔ مجھے پورا یقین ہے۔‘‘

    اختر نے دوبارہ اشتہار کی طرف نظر دوڑائی۔ سب سے نیچے لکھا تھا،

    ’’تفصیلات بھرتی کے قریبی دفتر سے حاصل کریں۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں امید کی چمک پیدا ہوئی۔ دیوار پر لگا ہوا اشتہار ایک دم تاباں ہو گیا اور بے جان فوجی متحرک نظر آیا۔

    ’’اٹن شن۔ کوک مارچ، لفٹ۔ رائٹ۔ لفٹ۔‘‘

    اسے اسکول کے زمانے کی ڈرل یاد آ گئی۔ گمشدہ منزل مل گئی۔

    ’’حبیب! میں ضرور بھرتی ہو جاؤں گا، کل ہی لو۔‘‘

    ’’آپ کے دن اچھے ا ٓجائیں گے۔‘‘

    ’’خدا کرے ایسا ہو۔‘‘

    ’’آمین۔‘‘

    اختر سرائے میں آیا اور نئی ادھیڑ بن میں لگ گیا۔ کل سے وہ سرکاری نوکر ہو جائے گا اور سرائے کی غلیظ زندگی سے مخلصی پائے گا۔

    پھر شاید مہ رو سے بھی ملنا دشوار ہو جائے۔

    اگر مہ رو کو خبر مل جائے کی اختر کی نئی نوکری دونوں میں جدائی ڈال دے گی تو اسے کتنا غم ہوگا۔ اختر کو قلق ضرورتھا لیکن وہ مجبور ی کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ پوری رات اس نے مہ رو اور نوکری کی سوچ میں گزار دی۔

    صبح کے ۹ ہو لئے۔ اختر تیار ہو گیا۔ مہ رو بھی نیچے اتر آئی۔ مسافروں کی چارپائیوں میں سے ہو کر وہ اختر کی طرف آئی۔

    ’’شاید آج نوکری مل جائے! دعا کرنا۔‘‘

    ’’آمین۔‘‘

    دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ اختر چلا گیا۔ مہ رو کے بدن میں بجلی کی طوفانی لہر دوڑ گئی۔ اس نے اپنا کام سنبھالا۔ جلدی جلدی دالان میں جھاڑو دی۔ سب میں سے اچھی کوٹھری کھولی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ اختر باعزت لوگوں کی طرح کوٹھری میں رہے۔ اس نے مٹی کے فرش کی گوبر سے لپائی کی اور دیواریں چونے سے پوتیں۔ یہ سب کام اس نے بڑی سرعت سے نمٹایا۔ نئی سی چارپائی اندر بچھا دی۔ وہیں صندوق اور بستر لگا دئے، طاق میں تیل بھر دیا۔ رکھ دیا۔ اب صرف اختر کی واپسی کا انتظار تھا۔

    شام پڑ گئی۔ اندھیرا ہو گیا۔ اختر فوج میں بھرتی ہو گیا۔ اسے ایک مہینے کی تنخواہ پیشگی دی گئی۔ اس نے مٹھائی اور ضرورت کی بعض چیزیں خریدیں اور سرائے میں آیا۔ گلی کے سرے پر وہی بورڈ نظر آیا۔ جس پر لکھا تھا،

    ’’آگے جانا منع ہے۔‘‘

    پہلے تو یہ بورڈ غیر اہم اور فضول تھا۔ لیکن اب؟ ایسا معلوم ہوا کہ کوئی سنتری رائفل پکڑے کھڑا ہے، جس نے اسے کڑکتی آواز میں کہا، ’’ہالٹ!‘‘

    اختر بورڈ کی ہدایت سے بے پروا ہو کر سرائے کے اندر چلا گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے